TRUE HADITH

تفسیر سورت علق! قتیبہ نے بواسطہ حماد یحییٰ بن عتیق حسن کا قول نقل کیا کہ مصحف میں سورت فاتحہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو اور دو سورتوں کے درمیان خط کے طور پر (یعنی امتیاز کے لئے) ہو اور ماجد نے کہا کہ نادیہ سے مراد اس کا قبیلہ ہے زبانیہ بمعنے ملائکہ فرشتے ہیں اور کہا کہ رجعی بمعنے لوٹنا ہے لنسفعن کے معنی یہ ہیں کہ ہم ضرورت پکڑیں گے لنسفعن نون خفیفہ کے ساتھ ہے سفعت بیدہ بول کر مراد لیتے ہیں کہ میں نے پکڑا۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ کَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَائُ فَکَانَ يَلْحَقُ بِغَارِ حِرَائٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ قَالَ وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ بِمِثْلِهَا حَتَّی فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ الْآيَاتِ إِلَی قَوْلِهِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ قَالَ لِخَدِيجَةَ أَيْ خَدِيجَةُ مَا لِي لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قَالَتْ خَدِيجَةُ کَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا فَوَاللَّهِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ قَالَ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَی فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَی مُوسَی لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا ذَکَرَ حَرْفًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا أُوذِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ حَيًّا أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّی حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ قَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائٍ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَفَرِقْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُوهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ وَالرِّجْزَ فَاهْجُرْ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَهِيَ الْأَوْثَانُ الَّتِي کَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَعْبُدُونَ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ-
یحیی ، لیث، عقیل، ابن شہاب، (دوسری سند) سعید بن مروان، محمد بن عبد العزیز بن ابی رزمہ، ابوصالح، سلمویہ، عبد اللہ، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے رو یائے صادقہ کے ذریعہ ابتدا کی گئی چنانچہ جو خواب بھی آپ دیکھتے صبح کے نمودار ہونے کی طرح وہ ظہور میں آتا پھر خلوت گزینی کی رغبت آپ کے دل میں ڈال دی گئیچنانچہ آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور تحنث کیا کرتے تھے اور تحنث سے مراد یہ ہے کہ متعدد راتوں تک عبادت کرتے تھے پھر اپنی بیوی کے پاس جاتے اور اس کے لئے توشہ لے لیتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاتے اور اسی طرح توشہ لے کر تشریف لے جاتے یہاں تک کہ آپ کے پاس دفعۃ حق آ گیا اس وقت آپ غار حرا میں تھے کہ آپ کے پاس فرشتے نے آکر کہا کہ پڑھ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ نے فرمایا کہ مجھے بھینچا یہاں تک کہ مجھ کو تکلیف محسوس ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو اس نے مجھے دوسری بار پکڑا اور بیھنچا جس سے مجھے تکلیف پہنچی پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں پھر اس نے تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا جس سے مجھے تکلیف پہنچی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو علقہ سے پیدا کیا پڑھ اور تیرا رب بزرگ ہے وہ جس نے قلم کے ذریعہ سے سکھایا علم الانسان مالم یعلم تک پڑھایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اس حالت میں واپس ہوئے کہ آپ کانپ رہے تھے یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ زملونی! زملونی مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ چنانچہ لوگوں نے آپ کو کمبل اڑھایا جب آپ سے خوف کا اثر جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے خدیجہ! کیا ہوگیا ہے کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے اور پوری حالت بیان فرمائی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ ہرگز نہیں آپ خوش ہوں خدا کی قسم! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا آپ تو خدا کی قسم! صلہ رحم کرتے ہیں سچ بات کرتے ہیں دردمندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں مفلسوں کے لئے کسب کرتے ہیں اور مہمان کی ضیافت کرتے ہیں اور حق کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتوں پر مدد کرتے ہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو لے کر چلیں یہاں تک کہ ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں جو خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے وہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھتے تھے اور انجیل بھی عربی میں اللہ نے جس قدر چاہا لکھتے تھے اور وہ بہت بڈھے ہو گئے تھے آنکھ کی بینائی جاتی رہی تھی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنیئے! ورقہ نے پوچھا اے بھتیجے! کیا بات ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا اس کی خبر دی ورقہ نے کہا یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل کیا گیا تھا کاش میں اس وقت جوان ہوتا کاش میں زندہ ہوتا پھر کچھ اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے ورقہ نے کہا ہاں! جو شخص بھی کوئی ایسی چیز لے کر آیا جو تم لائے ہو اس کو تکلیف دی گئی اگر میں تمہارے اس زمانہ میں زندہ ہوتا تو میں تمہاری مستحکم مدد کرتا پھر کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ورقہ کی وفات ہوگئی اور وحی کا سلسلہ رک گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت غم ہوا محمد بن شہاب نے بواسطہ ابوسلمہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے رکنے کا ذکر فرما رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ میں ایک بار چلا جا رہا تھا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے نگاہ اٹھائی تو اسی فرشتہ کو دیکھا جو میرے پاس حراء میں آیا تھا وہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا میں اس سے ڈرا اور گھر واپس ہو کر میں نے کہا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ تو لوگوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ وَالرِّجْزَ فَاهْجُر) 74۔ المدثر : 1۔2۔3) نازل فرمائی یعنی اے کمبل اوڑھنے والے! کھڑے ہو جائیے! لوگوں کو ڈرایئے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے الخ اور ابوسلمہ نے کہا کہ رجز سے مراد وہ بت ہیں جن کی جاہلیت کے لوگ پرستش کرتے تھے پھر اس کے بعد وحی برابر اترنے لگی۔ (آیت) اللہ تعالیٰ نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔
Narrated Aisha: (the wife of the Prophet) The commencement (of the Divine Inspiration) to Allah's Apostle was in the form of true dreams in his sleep, for he never had a dream but it turned out to be true and clear as the bright daylight. Then he began to like seclusions, so he used to go in seclusion in the cave of Hira where he used to worship Allah continuously for many nights before going back to his family to take the necessary provision (of food) for the stay. He come back to (his wife) Khadija again to take his provision (of food) likewise, till one day he received the Guidance while he was in the cave of Hira. An Angel came to him and asked him to read. Allah's Apostle replied, "I do not know how to read." The Prophet added, "Then the Angel held me (forcibly) and pressed me so hard that I felt distressed. Then he released me and again asked me to read, and I replied, 'I do not know how to read.' Thereupon he held me again and pressed me for the second time till I felt distressed. He then released me and asked me to read, but again I replied. 'I do not know how to read.' Thereupon he held me for the third time and pressed me till I got distressed, and then he released me and said, 'Read, in the Name of your Lord Who has created (all that exists), has created man out of a clot, Read! And your Lord is the Most Generous. Who has taught (the writing) by the pen, has taught man that which he knew not." (96.1-5). Then Allah's Apostle returned with that experience; and the muscles between his neck and shoulders were trembling till he came upon Khadija (his wife) and said, "Cover me!" They covered him, and when the state of fear was over, he said to Khadija, "O Khadija! What is wrong with me? I was afraid that something bad might happen to me." Then he told her the story. Khadija said, "Nay! But receive the good tidings! By Allah, Allah will never disgrace you, for by Allah, you keep good relations with your Kith and kin, speak the truth, help the poor and the destitute, entertain your guests generously and assist those who are stricken with calamities." Khadija then took him to Waraqa bin Naufil, the son of Khadija's paternal uncle. Waraqa had been converted to Christianity in the Pre-lslamic Period and used to write Arabic and write of the Gospel in Arabic as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said (to Waraqa), "O my cousin! Listen to what your nephew is going to say." Waraqa said, "O my nephew! What have you seen?" The Prophet then described whatever he had seen. Waraqa said, "This is the same Angel (Gabriel) who was sent to Moses. I wish I were young." He added some other statement. Allah's Apostle asked, "Will these people drive me out?" Waraqa said, "Yes, for nobody brought the like of what you have brought, but was treated with hostility. If I were to remain alive till your day (when you start preaching). then I would support you strongly." But a short while later Waraqa died and the Divine Inspiration was paused (stopped) for a while so that Allah's Apostle was very much grieved. Narrated Jabir bin 'Abdullah: While Allah's Apostle was talking about the period of pause in revelation. he said in his narration. "Once while I was walking, all of a sudden I heard a voice from the sky. I looked up and saw to my surprise, the same Angel as had visited me in the cave of Hira.' He was sitting on a chair between the sky and the earth. I got afraid of him and came back home and said, Wrap me! Wrap me!" So they covered him and then Allah revealed: 'O you, wrapped up! Arise and warn and your Lord magnify, and your garments purify and dessert the idols.' (74.1-5) Abu Salama said, "(Rijz) are the idols which the people of the Pre-lslamic period used to worship." After this the revelation started coming frequently and regularly.
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ-
ابن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رو یائے صالحہ سے ابتداء ہوئی پھر آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا پڑھو! اور تمہارا بڑا کریم ہے۔ (آیت) پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔
Narrated Aisha: The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Apostle was in the form of true dreams. The Angel came to him and said, "Read, in the Name of your Lord Who has created (all that exists), has created man a clot. Read! And your Lord is Most Generous" ..(96.1,2,3)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ ح وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ قَالَ مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ جَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ-
عبداللہ بن محمد، عبدالرزاق، معمر، زہری، لیث، عقیل، محمد، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رو یائے صالحہ کے ذریعہ سے ابتداء ہوئی۔ آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا اسی نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا پڑھ اور تیرا رب کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔
Narrated 'Aisha: The commencement of (the Divine Inspirations to) Allah's Apostle was in the form of true dreams. The Angel came to him and said, "Read! In the Name of your Lord Who has created all exists), has created man from a clot. Read! And your Lord is Most Generous, Who has taught (the writing) by the pen (the first person to write was Prophet Idris. (96.1-4)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ سَمِعْتُ عُرْوَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَذَکَرَ الْحَدِيثَ-
عبداللہ بن یوسف، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لوٹ کر گئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو پھر پوری حدیث بیان کی۔ (آیت) ہرگز نہیں ایسا نہ ہوگا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ہم پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ایسی پیشانی جو جھوٹی ہے۔
Narrated Aisha: The Prophet returned to Khadija and said, "Wrap me! Wrap me!" (Then the sub-narrator narrated the rest of the narration.)
حَدَّثَنَا يَحْيَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ الْکَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ عِکْرِمَةَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو جَهْلٍ لَئِنْ رَأَيْتُ مُحَمَّدًا يُصَلِّي عِنْدَ الْکَعْبَةِ لَأَطَأَنَّ عَلَی عُنُقِهِ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَوْ فَعَلَهُ لَأَخَذَتْهُ الْمَلَائِکَةُ تَابَعَهُ عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ الْکَرِيمِ-
یحیی ، عبدالرزاق، معمر، عبدالکریم، جزری، عکرمہ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لوں تو اس کی گردن کچل دوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا اگر وہ ایسا کرے تو اس کو فرشتے پکڑ لیں عمرو بن خالد نے بواسطہ عبیداللہ عبدالکریم اس کی متابعت میں روایت کی۔
Narrated Ibn Abbas: Abu Jahl said, "If I see Muhammad praying at the Ka'ba, I will tread on his neck." When the Prophet heard of that, he said, "If he does so, the Angels will snatch him away."