TRUE HADITH

ذمی کافروں سے جزیہ لینے اور قول و قرار کرنے کا بیان اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ ان سے جنگ کرو جو اللہ تعالیٰ پر اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حرام کر دیا ہے اس کو حرام نہیں گردانتے اور دین حق کی پیروی نہیں کرتے اور یہ لوگ اہل کتاب ہیں ( ان سے تم اس وقت تک جنگ کرو) جب تک کہ یہ جزیہ نہ دے دیں اور یہ لوگ بڑے ہی ذلیل ونگوں سار ہوں صاغرونبمعنے نگوں سار و ذلیل اور یہی حکم یہودیوں عیسائیوں مجوسیوں اور عجمیوں سے جزیہ لینے کے متعلق قرار دیا گیا ہے اور ابن عیینہ نے بتوسط ابن ابونجیح و مجاہد کہا ہے کہ شامیوں سے بحساب فی کس چار دینار اور یمنیوں سے فی کس ایک دینار جزیہ لینے کا دستور کیسا ہے؟ تو کہا یہ اصول آسانی سرمایہ کے مد نظر ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ عَمْرًا قَالَ کُنْتُ جَالِسًا مَعَ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَعَمْرِو بْنِ أَوْسٍ فَحَدَّثَهُمَا بَجَالَةُ سَنَةَ سَبْعِينَ عَامَ حَجَّ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ بِأَهْلِ الْبَصْرَةِ عِنْدَ دَرَجِ زَمْزَمَ قَالَ کُنْتُ کَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ فَأَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ فَرِّقُوا بَيْنَ کُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَلَمْ يَکُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنْ الْمَجُوسِ حَتَّی شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ-
علی سفیان عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں کہ میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان سے بجالہ نے چاہ زمزم کی سیڑھیوں کے پاس اھ میں جس سال مصعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بصرہ کے ساتھ حج کیا تھا یہ کہا کہ احنف کے بھتیجے جزر بن معاویہ کے پاس میں منشی کی حیثیت سے مامور تھا کہ ہمارے پاس حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا نامہ مبارک ان کی وفات سے ایک سال پہلے آیا (جس میں لکھا تھا) کہ مجوسیوں کے ہر ذی رحم محرم کے درمیان جدائی کردو اس وقت فاروق اعظم نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا اور اس امر کی عبدالرحمن بن عوف نے شہادت دی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام ہجر کے مجوسیوں (پارسیوں) سے جزیہ وصول کیا ہے۔
Narrated 'Umar bin Dinar: I was sitting with Jabir bin Zaid and 'Amr bin Aus, and Bjalla was narrating to them in 70 A.H. the year when Musab bin Az-Zubair was the leader of the pilgrims of Basra. We were sitting at the steps of Zam-zam well and Bajala said, "I was the clerk of Juz bin Muawiya, Al-Ahnaf's paternal uncle. A letter came from 'Umar bin Al-Khattab one year before his death; and it was read:-- "Cancel every marriage contracted among the Magians between relatives of close kinship (marriages that are regarded illegal in Islam: a relative of this sort being called Dhu-Mahram.)" 'Umar did not take the Jizya from the Magian infidels till 'Abdur-Rahman bin 'Auf testified that Allah's Apostle had taken the Jizya from the Magians of Hajar.
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ الْأَنْصَارِيَّ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَکَانَ شَهِدَ بَدْرًا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَی الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَائَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ فَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَتْ صَلَاةَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا صَلَّی بِهِمْ الْفَجْرَ انْصَرَفَ فَتَعَرَّضُوا لَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ وَقَالَ أَظُنُّکُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدْ جَائَ بِشَيْئٍ قَالُوا أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّکُمْ فَوَاللَّهِ لَا الْفَقْرَ أَخْشَی عَلَيْکُمْ وَلَکِنْ أَخَشَی عَلَيْکُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْکُمْ الدُّنْيَا کَمَا بُسِطَتْ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوهَا کَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِکَکُمْ کَمَا أَهْلَکَتْهُمْ-
ابو الیمان شعیب زہری عروہ حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے عمرو بن عوف انصاری نے جو بنو عامر بن لوی کے حلیف اور بدری تھے بیان کیا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا اور آپ نے بحرین کے باشندوں سے صلح کرکے ان پر علاء بن حضرمی کو حاکم اعلیٰ مقرر فرما دیا تھا انصار نے جب سن لیا کہ ابوعبیدہ بحرین سے مال لے کر لوٹ آئے ہیں تو انہوں نے ایک دن نماز فجر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر جب آپ نماز فجر پڑھ کے واپس ہونے لگے تو انصاری آپ کے آگے جمع ہو گئے یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں ان لوگوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس کے بعد آپ نے فرمایا مسرور ہو جاؤ اور اس امر کی امید رکھو جو تم کو فرحان و شاداں کردے گی اللہ کی قسم! مجھے تمہاری ناداری کا اندیشہ نہیں البتہ اس امر کا ڈر لگا ہوا ہے کہ تمہارے لئے دنیا ایسی ہی وسیع کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ و فراخ کردی گئی تھی اور اس وقت تم جھگڑے کروگے جیسے کہ پچھلی قوموں نے جھگڑے مچائے تھے اور یہ فراخی و کشادگی تم کو ہلاکت میں ڈال دے گی جس طرح گزشتہ لوگوں کو اس نے ہلاک کردیا ہے۔
Narrated 'Amr bin 'Auf Al-Ansari: (who was an ally of Bam 'Amr bin Lu'ai and one of those who had taken part in (the Ghazwa of) Badr): Allah's Apostle sent Abu 'Ubaida bin Al-Jarreh to Bahrain to collect the Jizya. Allah's Apostle had established peace with the people of Bahrain and appointed Al-'Ala' bin Al-Hadrami as their governor. When Abu 'Ubaida came from Bahrain with the money, the Ansar heard of Abu 'Ubaida's arrival which coincided with the time of the morning prayer with the Prophet. When Allah's Apostle led them in the morning prayer and finished, the Ansar approached him, and he looked at them and smiled on seeing them and said, "I feel that you have heard that Abu. 'Ubaida has brought something?" They said, "Yes, O Allah's Apostle' He said, "Rejoice and hope for what will please you! By Allah, I am not afraid of your poverty but I am afraid that you will lead a life of luxury as past nations did, whereupon you will compete with each other for it, as they competed for it, and it will destroy you as it destroyed them."
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ قَالَ بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَائِ الْأَمْصَارِ يُقَاتِلُونَ الْمُشْرِکِينَ فَأَسْلَمَ الْهُرْمُزَانُ فَقَالَ إِنِّي مُسْتَشِيرُکَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ قَالَ نَعَمْ مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنْ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلَانِ فَإِنْ کُسِرَ أَحَدُ الْجَنَاحَيْنِ نَهَضَتْ الرِّجْلَانِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ فَإِنْ کُسِرَ الْجَنَاحُ الْآخَرُ نَهَضَتْ الرِّجْلَانِ وَالرَّأْسُ وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتْ الرِّجْلَانِ وَالْجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ فَالرَّأْسُ کِسْرَی وَالْجَنَاحُ قَيْصَرُ وَالْجَنَاحُ الْآخَرُ فَارِسُ فَمُرْ الْمُسْلِمِينَ فَلْيَنْفِرُوا إِلَی کِسْرَی وَقَالَ بَکْرٌ وَزِيَادٌ جَمِيعًا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ قَالَ فَنَدَبَنَا عُمَرُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ حَتَّی إِذَا کُنَّا بِأَرْضِ الْعَدُوِّ وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ کِسْرَی فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا فَقَامَ تَرْجُمَانٌ فَقَالَ لِيُکَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْکُمْ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ سَلْ عَمَّا شِئْتَ قَالَ مَا أَنْتُمْ قَالَ نَحْنُ أُنَاسٌ مِنْ الْعَرَبِ کُنَّا فِي شَقَائٍ شَدِيدٍ وَبَلَائٍ شَدِيدٍ نَمَصُّ الْجِلْدَ وَالنَّوَی مِنْ الْجُوعِ وَنَلْبَسُ الْوَبَرَ وَالشَّعَرَ وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالْحَجَرَ فَبَيْنَا نَحْنُ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرَضِينَ تَعَالَی ذِکْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُقَاتِلَکُمْ حَتَّی تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ أَوْ تُؤَدُّوا الْجِزْيَةَ وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَی الْجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَکَ رِقَابَکُمْ فَقَالَ النُّعْمَانُ رُبَّمَا أَشْهَدَکَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنَدِّمْکَ وَلَمْ يُخْزِکَ وَلَکِنِّي شَهِدْتُ الْقِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ انْتَظَرَ حَتَّی تَهُبَّ الْأَرْوَاحُ وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ-
فضل بن یعقوب عبداللہ بن جعفر معتمر بن سلیمان سعید بن عبیداللہ ثقفی بکر بن عبداللہ المزنی و زیاد بن جبیر جبیر بن حیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑے بڑے شہروں میں مشرکوں سے لڑنے کے لئے مسلمانوں کو روانہ کیا اور ہرمزان کے اسلام لانے کے بعد آپ نے اس سے کہا کہ ان لڑائیوں کی بابت میں تم سے مشورہ طلب کرنا چاہتا ہوں تو ہرمزان نے جواب دیا جی ہاں اس لڑائی کی مثال اور ان لوگوں کی مثال جو اس میدان میں مسلمانوں کے دشمن ہیں بالکل ایک پرندہ کی طرح ہے کہ جس کا ایک سر دو بازو اور دو پیر ہوں اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ دونوں پیروں ایک بازو اور ایک سر پر کھڑا رہے گا اور اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور ایک سر پر کھڑا رہے گا اور اگر اس کا سر چکنا چور کردیا جائے تو اس کے دونوں پیر اور دونوں بازو اور سر سب بے کار ہو جائیں گے بحالت موجودہ کسریٰ سر ہے فارس ایک بازو اور قیصر دوسرا بازو ہے۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ آپ مسلمانوں کو کسری کی طرف جانے کا حکم صادر فرمائیں بکر و زیاد دونوں نے جبیر بن حیہ کے ذریعہ بیان کیا ہے کہ پھر فاروق اعظم نے ہم کو طلب فرما کر نعمان بن مقرن کو ہمارا امیر فوج مقرر کیا اور ہم کو روانہ کردیا جب ہم لوگ دشمن کی مملکت میں وارد ہوئے تو کسری کا فوجی گورنر چالیس ہزار کا لشکر جرار لے کر ہمارے مد مقابل ہوا اس کے ترجمان نے کہا کہ مسلمانوں میں سے کوئی آدمی مجھ سے گفتگو کرے تو حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا پوچھ جو تیرا جی چاہتا ہے اس ترجمان نے کہا کہ تم کون ہو؟ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا ہم عرب کے باشندے ہیں ہم لوگ سخت بد بختی اور سخت مصیبت میں گرفتار تھے بھوک کی وجہ سے ہم لوگ چمڑہ اور چھوہارے کی گٹھلیاں چوسا کرتے تھے چمڑے اور بال کی پوشاک پہنتے تھے درختوں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے اس وقت جب کہ ہماری یہ درگت تھی تو آسمانوں اور زمینوں کے مالک نے جس کا بیان بہت اونچا ہے جس کی عظمت کی بلندی کا کنارہ نہیں ہے اس نے ہماری قوم میں سے ایک نبی ہمارے لئے مبعوث فرمایا جن کے ماں باپ کو بھی ہم جانتے ہیں چنانچہ ہم کو ہمارے نبی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم تم سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں جب تک کہ تم ایک خدا کی پرستش شروع نہ کردو یا جزیہ دینا قبول کرلو نیز سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی جانب سے ہم کو یہ اطلاع بھی دی ہے کہ تم مسلمانوں میں سے جو کوئی مارا جائے تو وہ سیدھا آرام دہ جنت میں داخل ہوجائے گا جس کی کوئی مثال آج تک بھی نہیں دیکھی گئی اور ہم میں سے جو کوئی زندہ رہے گا تو وہ تمہاری گردنوں کا مالک ہوگا (مغیرہ کا ارادہ ہوا کہ فورا ہی لڑائی شروع کردی جائے) لیکن نعمان بن ثابت امیر فوج نے کہا کہ اے مغیرہ! تم بار ہا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک جنگ رہے ہو جہاں تم نے کوئی ندامت ورسوائی نہیں اٹھائی ہے اور میں اکثر مرتبہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لڑائیوں میں گیا ہوں اور قاعدہ جنگ سے واقف ہوں جب سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن کے شروع حصہ میں جنگ نہیں کرتے تھے تو نماز پڑھنے کے بعد مناسب ہواؤں کے چلنے کا انتظار فرمایا کرتے تھے۔
Narrated Jubair bin Haiya: 'Umar sent the Muslims to the great countries to fight the pagans. When Al-Hurmuzan embraced Islam, 'Umar said to him. "I would like to consult you regarding these countries which I intend to invade." Al-Hurmuzan said, "Yes, the example of these countries and their inhabitants who are the enemies. of the Muslims, is like a bird with a head, two wings and two legs; If one of its wings got broken, it would get up over its two legs, with one wing and the head; and if the other wing got broken, it would get up with two legs and a head, but if its head got destroyed, then the two legs, two wings and the head would become useless. The head stands for Khosrau, and one wing stands for Caesar and the other wing stands for Faris. So, order the Muslims to go towards Khosrau." So, 'Umar sent us (to Khosrau) appointing An-Numan bin Muqrin as our commander. When we reached the land of the enemy, the representative of Khosrau came out with forty-thousand warriors, and an interpreter got up saying, "Let one of you talk to me!" Al-Mughira replied, "Ask whatever you wish." The other asked, "Who are you?" Al-Mughira replied, "We are some people from the Arabs; we led a hard, miserable, disastrous life: we used to suck the hides and the date stones from hunger; we used to wear clothes made up of fur of camels and hair of goats, and to worship trees and stones. While we were in this state, the Lord of the Heavens and the Earths, Elevated is His Remembrance and Majestic is His Highness, sent to us from among ourselves a Prophet whose father and mother are known to us. Our Prophet, the Messenger of our Lord, has ordered us to fight you till you worship Allah Alone or give Jizya (i.e. tribute); and our Prophet has informed us that our Lord says:-- "Whoever amongst us is killed (i.e. martyred), shall go to Paradise to lead such a luxurious life as he has never seen, and whoever amongst us remain alive, shall become your master." (Al-Mughira, then blamed An-Numan for delaying the attack and) An-Nu' man said to Al-Mughira, "If you had participated in a similar battle, in the company of Allah's Apostle he would not have blamed you for waiting, nor would he have disgraced you. But I accompanied Allah's Apostle in many battles and it was his custom that if he did not fight early by daytime, he would wait till the wind had started blowing and the time for the prayer was due (i.e. after midday)."