TRUE HADITH

تفسیر سورت حجرات اور مجاہد نے کہا کہ لا تقدموا سے مراد یہ ہے کہ فتویٰ یا جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سبقت نہ کیا کرو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہ کہلوا دے امتحن خالص کر دیا ہے تنابزوا اسلام لانے کے بعد کافر نہ کہو یلتکم کم کر دے گا التبنا ہم نے کم کر دیا۔ (آیت) آپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو الخ تشعرون بمعنی تعلمون (تم جانتے ہو) اور شاعری اسی سے ماخوذ ہے۔

حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ بْنِ جَمِيلٍ اللَّخْمِيُّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ کَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِکَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا رَفَعَا أَصْوَاتَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ عَلَيْهِ رَکْبُ بَنِي تَمِيمٍ فَأَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِرَجُلٍ آخَرَ قَالَ نَافِعٌ لَا أَحْفَظُ اسْمَهُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لِعُمَرَ مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِي قَالَ مَا أَرَدْتُ خِلَافَکَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فِي ذَلِکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ الْآيَةَ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَمَا کَانَ عُمَرُ يُسْمِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ حَتَّی يَسْتَفْهِمَهُ وَلَمْ يَذْکُرْ ذَلِکَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ-
یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی، نافع بن عمر، ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ قریب تھا کہ دو سب سے بہتر آدمی ہلاک ہو جائیں یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں نے اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند کیں جس وقت آپ کے پاس بنی تمیم کے سوار آئے تو ان میں سے ایک نے بنی مجاشع کے بھائی اقرع بن حابس کی طرف اشارہ کیا اور دورے نے ایک دوسرے آدمی کی طرف اشارہ کیا نافع نے کہا مجھ کو نام یاد نہیں حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہا کہ تم نے صرف میری مخالفت کا قصد کیا تھا انہوں نے کہا کہ میرا ارادہ تمہاری مخالفت کا نہ تھا چنانچہ اس گفتگو میں ان کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو الخ ابن زبیر نے کہا اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر آہستہ بات کرتے کہ جب تک آپ دوبارہ نہ پوچھتے سن نہ سکتے اور یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بیان نہیں کی ہے۔
Narrated Ibn Abi Mulaika: The two righteous persons were about to be ruined. They were Abu Bakr and 'Umar who raised their voices in the presence of the Prophet when a mission from Bani Tamim came to him. One of the two recommended Al-Aqra' bin Habeas, the brother of Bani Mujashi (to be their governor) while the other recommended somebody else. (Nafi', the sub-narrator said, I do not remember his name). Abu Bakr said to Umar, "You wanted nothing but to oppose me!" 'Umar said, "I did not intend to oppose you." Their voices grew loud in that argument, so Allah revealed: 'O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet.' (49.2) Ibn Az-Zubair said, "Since the revelation of this Verse, 'Umar used to speak in such a low tone that the Prophet had to ask him to repeat his statements." But Ibn Az-Zubair did not mention the same about his (maternal) grandfather (i.e. Abu Bakr).
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ أَنْبَأَنِي مُوسَی بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْلَمُ لَکَ عِلْمَهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَکِّسًا رَأْسَهُ فَقَالَ لَهُ مَا شَأْنُکَ فَقَالَ شَرٌّ کَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَأَتَی الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ مُوسَی فَرَجَعَ إِلَيْهِ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّکَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَلَکِنَّکَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ-
علی بن عبد اللہ، ازہر بن سعد، ابن عون، موسیٰ بن انس، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو نہ پایا (آپ کے دریافت کرنے پر) ایک شخص نے کہا میں اس کی خبر لے کر آتا ہوں چنانچہ وہ شخص ان کے پاس آیا تو ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے گھر میں سرنگوں بیٹھے ہوئے ہیں پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ کہا بہت برا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرتا تھا اس کے تمام اعمال اکارت ہو گئے اور دوزخی ہے وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا اور بیان کیا کہ انہوں نے ایسا ایسا کہا ہے موسیٰ کا بیان ہے کہ وہ دوسری بار یہ خوشخبری لے کر گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے جا کر کہہ دے کہ تو دوزخی نہیں بلکہ جنت والوں میں سے ہے۔ (آیت) بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet missed Thabit bin Qais for a period (So he inquired about him). A man said. "O Allah's Apostle! I will bring you his news." So he went to Thabit and found him sitting in his house and bowing his head. The man said to Thabit, " 'What is the matter with you?" Thabit replied that it was an evil affair, for he used to raise his voice above the voice of the Prophet and so all his good deeds had been annulled, and he considered himself as one of the people of the Fire. Then the man returned to the Prophet and told him that Thabit had said, so-and-so. (Musa bin Anas) said: The man returned to Thabit with great glad tidings. The Prophet said to the man. "Go back to him and say to him: "You are not from the people of the Hell Fire, but from the people of Paradise."
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ قَدِمَ رَکْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدٍ وَقَالَ عُمَرُ بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ مَا أَرَدْتَ إِلَی أَوْ إِلَّا خِلَافِي فَقَالَ عُمَرُ مَا أَرَدْتُ خِلَافَکَ فَتَمَارَيَا حَتَّی ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَ فِي ذَلِکَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ حَتَّی انْقَضَتْ الْآيَةُ-
حسن بن محمد، حجاج، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، عبداللہ بن زمرد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ بنی تمیم نے چند سوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (امیر کی درخواست کرتے ہوئے) آئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ قعقاع بن معبد کو امیر مقرر فرما دیجئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بلکہ اقرع بن حابس کو امیر مقرر فرما دیجئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تم نے صرف میری مخالفت کا قصد کیا تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرا ارادہ مخالفت کا نہ تھا چنانچہ دونوں جھگڑنے لگے یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُ قَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه الخ۔) 49۔ الحجرات : 1) (آیت) اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان لوگوں کے پاس باہر تشریف لے آتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا۔
Narrated Abdullah bin Az-Zubair: A group of Bani Tamim came to the Prophet (and requested him to appoint a governor for them). Abu Bakr said, "Appoint Al-Qaqa bin Mabad." Umar said, "Appoint Al-Aqra' bin Habeas." On that Abu Bakr said (to 'Umar). "You did not want but to oppose me!" 'Umar replied "I did not intend to oppose you!" So both of them argued till their voices grew loud. So the following Verse was revealed: 'O you who believe! Be not for ward......' (49.1)