TRUE HADITH

مسلمانوں کی ضرورت کے لیے خمس ثابت ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ بنو ہوازن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے اسباب و سامان کی واپسی کی استدعا کی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت بنو ہوازن میں ہوئی تھی اور آپ نے دوسرے مسلمانوں کے برابر ان کے بھی حصے لگائے اور آپ وعدہ فرمایا کرتے تھے کہ فئے انفال کے پانچویں حصہ میں سے ان کو بھی دینگے اور آپ نے انصار کو دیا اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر کے چھوارے عنایت فرمائے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ وَزَعَمَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ وَمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ جَائَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَ آخِرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ هَؤُلَائِ قَدْ جَائُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُطَيِّبَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ يَکُونَ عَلَی حَظِّهِ حَتَّی نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيئُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِي ذَلِکَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّی يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ-
سعید بن عفیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ مروان بن حکم و مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بنو ہوازن مسلمان ہو کر آئے اور انہوں نے آپ سے استدعا کی کہ آپ نے ان کے قیدی اور ان کا مال و اسباب ان کو واپس کردیں تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے وہی بات پسند ہے جو بالکل سچی ہے تم ایک چیز اختیار کرلو مال یا قیدی اور میں نے صرف تمہاری وجہ سے تقسیم میں تاخیر کی ہے اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طائف سے واپسی کے بعد کچھ اوپر دس راتوں تک ان کے آخری جواب کا انتظار کیا جب ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ایک ہی چیز انہیں واپس دیں گے تو انہوں نے کہا ہم اپنے قیدی مانگتے ہیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے مجمع میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جس کا وہ سزاوار ہے اور اس کے بعد فرمایا اے مسلمانو! تمہارے یہ بھائی شرک سے توبہ کرکے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دوں لہذا جو شخص پاکیزگی کو دوست رکھتا ہے اس کو یہ کام کر ڈالنا چاہیے اور جو شخص اپنے حصہ پر قائم رہنا چاہتا ہے تو وہ بھی اپنے حصہ کا قیدی ان کو دے دے اور ایسے شخص کو ہم اس کے حصہ کے بدلے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ہم کو جو نیا مال عنایت کرے گا اس کا حصہ ادا کریں گے یہ سن کر سب لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم ان لوگوں کو ان کے قیدی اپنا اپنا حصہ لئے بغیر ہی دیناپسند کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اس کی اجازت دی اور کس نے اجازت نہیں دی لہذا مناسب یہ ہے کہ تم سب واپس چلے جاؤ اور تمہارے سردار تمہارے امور کی نیابت کریں تو سب لوگوں نے لوٹ کر اپنے سرداروں سے بات کی اور پھر سرداروں کے مندوب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع کیا کہ سب لوگ بخوشی دے رہے ہیں اور ہوازن کے قیدیوں کی بابت یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے۔
Narrated Marwan bin Al-Hakim and Miswar bin Makhrama: When the Hawazin delegation came to Allah's Apostle after they had embraced Islam and requested him to return their properties and war prisoners to them, Allah's Apostle said, "To me the best talk is the truest, so you may choose either of two things; the war prisoners or the wealth, for I have delayed their distribution." Allah's Apostle had waited for them for over ten days when he returned from Ta'if. So, when those people came to know that Allah's Apostle was not going to return to them except one of the two things the said, "We choose our war Prisoners 'Allah's Apostle stood up amongst the Muslims, and after glorifying Allah as He deserved, he said, "Now then, these brothers of yours have come to us with repentance, and I see it logical that I should return their captives to them, so whoever of you likes to do that as a favor then he can do it, and whoever amongst you likes to stick to his share, let him give up his prisoners and we will compensate him from the very first Fai' (i.e. war booty received without fight) which Allah will give us." On that, all the people said. 'O Allah's Apostles We have agreed willingly to do so (return the captives)" Then Allah's Apostle said to them "I do not know who amongst you has agreed to this and who has not. You should return and let your leaders inform me of your agreement." The people returned and their leaders spoke to them, and then came to Allah's Apostle and said, "All the people have agreed willingly to do so and have given the permission to return the war prisoners (without Compensation)" (Az-Zuhri, the sub-narrator states) This is what has been related to us about the captives of Hawazin.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ وَحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ عَاصِمٍ الْکُلَيْبِيُّ وَأَنَا لِحَدِيثِ الْقَاسِمِ أَحْفَظُ عَنْ زَهْدَمٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَی فَأُتِيَ ذَکَرَ دَجَاجَةً وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ کَأَنَّهُ مِنْ الْمَوَالِي فَدَعَاهُ لِلطَّعَامِ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْکُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ لَا آکُلُ فَقَالَ هَلُمَّ فَلْأُحَدِّثْکُمْ عَنْ ذَاکَ إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ فَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُکُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُکُمْ وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ فَسَأَلَ عَنَّا فَقَالَ أَيْنَ النَّفَرُ الْأَشْعَرِيُّونَ فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَی فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قُلْنَا مَا صَنَعْنَا لَا يُبَارَکُ لَنَا فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ فَقُلْنَا إِنَّا سَأَلْنَاکَ أَنْ تَحْمِلَنَا فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا أَفَنَسِيتَ قَالَ لَسْتُ أَنَا حَمَلْتُکُمْ وَلَکِنَّ اللَّهَ حَمَلَکُمْ وَإِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَی يَمِينٍ فَأَرَی غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا-
عبداللہ حماد ایوب ابوقلابہ قاسم زہدم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری کے پاس ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ان کے پاس مرغ مسلم کی ایک قاب آئی اور ان کے پاس سرخ و سفید رنگ والا ایک آدمی بنو تیم کا بیٹھا ہوا تھا اور وہ غلام معلوم ہوتا تھا اس کو بھی کھانے پر بلایا۔ تو اس نے کہا میں نے اس جانور کو نجاست کھاتے دیکھا ہے اس لئے میں اسے مکروہ جانتا ہوں اور میں نے قسم کھائی ہے کہ یہ نہیں کھاؤں گا۔ تو ابوموسیٰ اشعری نے کہا کہ آؤ میں تم کو اس کی بابت سناؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چند اشعریوں کے ساتھ میں نے حاضری دی اور سواری طلب کی تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا اور میرے پاس کوئی سواری ہے ہی نہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مال غنیمت کے کچھ اونٹ آئے تو آپ نے فرمایا وہ اشعری کہاں ہیں پھر آپ نے ہم کو پانچ اونٹ سفید کوہان والے دلوائے تو ہم نے چلتے وقت اپنے دل میں کہا کہ ہم نے کیا حرکت کی اس میں ہم کو کوئی برکت نصیب نہیں ہوگی تو ہم نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ کر کہا ہمارے مطالبہ پر آپ نے قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں تم کو سواریاں نہیں دوں گا۔ سواریاں نہ دینے کی اپنی قسم کو کیا آپ بھول گئے! جس پر سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو ہم نے سواریاں نہیں دیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو سواریاں مہیا کی ہیں اور اللہ کی قسم! ان شاء اللہ جب میں کسی بات پر قسم کھاؤں گا اور اس کے خلاف کو بہتر پاؤں گا تو جو بات بہتر ہوگی اس کو برسر عمل لاؤں گا اور قسم توڑ ڈالا کروں گا۔
Narrated Zahdam: Once we were in the house of Abu Musa who presented a meal containing cooked chicken. A man from the tribe of Bani Taim Allah with red complexion as if he were from the Byzantine war prisoners, was present. Abu Musa invited him to share the meal but he (apologised) saying. "I saw chickens eating dirty things and so I have had a strong aversion to eating them, and have taken an oath that I will not eat chickens." Abu Musa said, "Come along, I will tell you about this matter (i.e. how to cancel one's oat ). I went to the Prophet in the company of a group of Al-Ashariyin, asked him to provide us with means of conveyance. He said, 'By Allah, I will not provide you with any means of conveyance and I have nothing to make you ride on.' Then some camels as booty were brought to Allah's Apostle and he asked for us saying. 'Where are the group of Al-Ash'ariyun?' Then he ordered that we should be given five camels with white humps. When we set out we said, 'What have we done? We will never be blessed (with what we have been given).' So, we returned to the Prophet and said, 'We asked you to provide us with means of conveyance, but you took an oath that you would not provide us with any means of conveyance. Did you forget (your oath when you gave us the camels)? He replied. 'I have not provided you with means of conveyance, but Allah has provided you with it, and by Allah, Allah willing, if ever I take an oath to do something, and later on I find that it is more beneficial to do something different, I will do the thing which is better, and give expiation for my oath."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً فِيهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قِبَلَ نَجْدٍ فَغَنِمُوا إِبِلًا کَثِيرَةً فَکَانَتْ سِهَامُهُمْ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا أَوْ أَحَدَ عَشَرَ بَعِيرًا وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا-
عبداللہ مالک نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کی طرف ایک ٹولی روانہ کی جس میں عبداللہ بھی تھے اور ان لوگوں کو مال غنیمت میں سے فی کس گیارہ گیارہ بارہ بارہ اونٹ حصہ میں آئے اور ایک ایک اونٹ ان کو حصہ سے زیادہ اور مرحمت فرمایا گیا۔
Narrated Nafi from Ibn Umar: Allah's Apostle sent a Sariya towards Najd, and Abdullah bin 'Umar was in the Sariya. They gained a great number of camels as war booty. The share of each one of them was twelve or eleven camels, and they were given an extra camel each.
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنْ السَّرَايَا لِأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةً سِوَی قِسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ-
یحیی لیث عقیل ابن شہاب سالم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سریہ روانہ کرتے تھے تو اس میں بعض خاص آدمیوں کو عام لشکر کے حصوں سے زیادہ حصہ مرحمت فرمایا کرتے ہیں۔
Narrated Ibn 'Umar: Allah's Apostle used to give extra share to some of the members of the Sariya he used to send, in addition to the shares they shared with the army in general.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمْ أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ إِمَّا قَالَ فِي بِضْعٍ وَإِمَّا قَالَ فِي ثَلَاثَةٍ وَخَمْسِينَ أَوْ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي فَرَکِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَی النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ وَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ فَقَالَ جَعْفَرٌ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا هَاهُنَا وَأَمَرَنَا بِالْإِقَامَةِ فَأَقِيمُوا مَعَنَا فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّی قَدِمْنَا جَمِيعًا فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ قَالَ فَأَعْطَانَا مِنْهَا وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلَّا أَصْحَابَ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ-
محمد ابواسامہ برید ابوبردہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی ہم کو اس وقت اطلاع ملی کہ ہم لوگ یمن میں تھے تو ہمارے دو بھائی جن میں ابوبردہ چھوٹا تھا اور میرے بڑے بھائی ابورہم قوم کے کچھ آدمیوں کے ساتھ ہی باون ترپن آپ کی طرف بحیثیت مہاجر روانہ ہونے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہو گئے لیکن ہماری کشتی نے ہم کو حبشہ میں نجاشی کی طرف پہنچا دیا جہاں ہم جعفر بن ابوطالب اور ان کے ساتھیوں سے ملے تو جعفر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو یہاں بھیجا ہے اور یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم بھی ہمارے ساتھ رک جاؤ تو ہم ان کی روانگی تک ان کے ساتھ ٹھہر گئے پھر ہم سب نے وہاں سے کوچ کیا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ خیبر فتح کر چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو بھی حصہ رسدی تقسیم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی ایسے شخص کو جو فتح خیبر میں شریک نہیں تھا سوائے ان لوگوں کے جو خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور ہماری کشتی والے جو حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تھے مقررہ حصہ کے سوا کوئی چیز نہیں دی۔
Narrated Abu Musa: We got the news of the migration of the Prophet while we were in Yemen, so we set out migrating to him. We were, I and my two brothers, I being the youngest, and one of my brothers was Abu Burda and the other was Abu Ruhm. We were over fifty (or fifty-three or fifty two) men from our people. We got on board a ship which took us to An-Najashi in Ethiopia, and there we found Ja'far bin Abu Talib and his companions with An-Najaishi. Ja'far said (to us), "Allah's Apostle has sent us here and ordered us to stay here, so you too, stay with us." We stayed with him till we all left (Ethiopia) and met the Prophet at the time when he had conquered Khaibar. He gave us a share from its booty (or gave us from its booty). He gave only to those who had taken part in the Ghazwa with him. but he did not give any share to any person who had not participated in Khaibar's conquest except the people of our ship, besides Ja'far and his companions, whom he gave a share as he did them (i.e. the people of the ship).
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قَدْ جَائَنِي مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُکَ هَکَذَا وَهَکَذَا وَهَکَذَا فَلَمْ يَجِئْ حَتَّی قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَائَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَمَرَ أَبُو بَکْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَی مَنْ کَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنَا فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي کَذَا وَکَذَا فَحَثَا لِي ثَلَاثًا وَجَعَلَ سُفْيَانُ يَحْثُو بِکَفَّيْهِ جَمِيعًا ثُمَّ قَالَ لَنَا هَکَذَا قَالَ لَنَا ابْنُ الْمُنْکَدِرِ وَقَالَ مَرَّةً فَأَتَيْتُ أَبَا بَکْرٍ فَسَأَلْتُ فَلَمْ يُعْطِنِي ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقُلْتُ سَأَلْتُکَ فَلَمْ تُعْطِنِي ثُمَّ سَأَلْتُکَ فَلَمْ تُعْطِنِي ثُمَّ سَأَلْتُکَ فَلَمْ تُعْطِنِي فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي قَالَ قُلْتَ تَبْخَلُ عَنِّي مَا مَنَعْتُکَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَکَ قَالَ سُفْيَانُ وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَابِرٍ فَحَثَا لِي حَثْيَةً وَقَالَ عُدَّهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ قَالَ فَخُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ وَقَالَ يَعْنِي ابْنَ الْمُنْکَدِرِ وَأَيُّ دَائٍ أَدْوَأُ مِنْ الْبُخْلِ-
علی سفیان محمد حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ جابر) سے فرمایا کہ اگر بحرین کا مال آجائے تو میں تم کو اتنا اتنا دوں گا مگر بحرین کا مال آنے سے پہلے ہی آپ نے رحلت فرمائی اور بحرین کا مال غنیمت آنے کے بعد خلیفہ وقت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعلان کرایا کہ جس کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا سرور عالم نے اس سے کوئی وعدہ فرمایا ہو تو وہ ہمارے پاس آئے چناچنہ میں (جابر) نے ان کے پاس جا کر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ایسا ایسا فرمایا تھا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے تین لپ بھر کردیئے اور سفیان نے اس حدیث کو بیان کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ملا کر بتایا کہ ابن منکدر نے ہم سب کو یہ معنی بتائے ہیں اور مرہ کا بیان یہ ہے کہ میں (جابر) نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر مانگا تو انہوں نے نہیں دیا اور اسی طرح میں نے تین مرتبہ مانگا اور تینوں مرتبہ انہوں نے نہیں دیا بالآخر میں (جابر) نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میں نے آپ سے تین مرتبہ مانگا اور تینوں مرتبہ آپ نے نہیں دیا اب آپ دے دیجئے یا انکار کردیجئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ تم کہتے ہو کہ میں نے انکار کردیا حالانکہ میں نے ایک مرتبہ بھی منع نہیں کیا اور میرا رادہ تم کو دینے کا ہے سفیان کہتے ہیں کہ ہم سے عمرو نے محمد سے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی بیان کیا کہ مجھ (جابر) کو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لپ بھر کردیا اور کہا کہ اس کو گنو میں نے جو شمار کیا تو وہ پانچ سو تھے پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اتنے ہی دو مرتبہ اور لے لو اور ابن منکدر کا قول ہے کہ کون سا مرض بخل سے زیادہ خطرناک ہے۔
Narrated Jabir: Allah's Apostle said (to me), "If the property of Bahrain had come to us, I would have given you so much and so much." But the Bahrain property did not come till the Prophet had died. When the Bahrain property came. Abu Bakr ordered somebody to announce, "Any person who has money claim on Allah's Apostle or whom Allah's Apostle had promised something, should come to us." So, I went to him and said, "Allah's Apostle had promised to give me so much an so much." Abu Bakr scooped up money with both hands thrice for me." (The sub-narrator Sufyan illustrated this action by scooping up with both hands and said, "Ibn Munkadir, another sub-narrator, used to illustrate it in this way.") Narrated Jabir: Once I went to Abu Bakr and asked for the money but he did not give me, and I went to him again, but he did not give me, so I went to him for the third time and said, "I asked you, but you did not give me; then I asked you (for the second time) and you did not give me; then I asked you (for the third time) but you did not give me. You should either give me or allow yourself to be considered a miser regarding my case." Abu Bakr said, "You tell me that I am a miser with regard to you. But really, whenever I rejected your request, I had the inclination to give you." (In another narration Jabir added:) So, Abu Bakr scooped up money with both hands for me and asked me to count it. I found out that It was five hundred. Abu Bakr told me to take twice that amount.
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ غَنِيمَةً بِالْجِعْرَانَةِ إِذْ قَالَ لَهُ رَجُلٌ اعْدِلْ فَقَالَ لَهُ لَقَدْ شَقِيتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ-
مسلم قرہ بن خالد عمرو بن دینار حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس وقت جب کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام جعرانہ میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک آدمی نے کہا ذرا انصاف کرتے رہئے تو آپ نے فرمایا اے بد بخت! میرے سوائے انصاف کرنے والا اور کوئی نہیں ہے۔
Narrated Jabir bin Abdullah: While Allah's Apostle was distributing the booty at Al-Ja'rana, somebody said to him "Be just (in your distribution)." The Prophet replied, "Verily I would be miserable if I did not act justly."