TRUE HADITH

جنگ حدیبیہ کا قصہ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اللہ تبارک وتعالی مسلمانوں سے راضی ہو گیا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ۔

حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ قَالَ حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ کَيْسَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فَأَصَابَنَا مَطَرٌ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّی لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ أَتَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَقَالَ قَالَ اللَّهُ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَکَافِرٌ بِي فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَبِرِزْقِ اللَّهِ وَبِفَضْلِ اللَّهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ بِي کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَجْمِ کَذَا فَهُوَ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ کَافِرٌ بِي-
خالد بن مخلد، سیلمان بن بلال، صالح بن کیسان، عبیداللہ بن عبداللہ، حضرت زید بن خالد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ ایک رات بارش ہونے لگی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا کر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے رب نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ بہت لوگ ایسے ہیں کہ جب ان کی صبح ہوتی ہے تو میرے اوپر ایمان رکھتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو منکر ہو جاتے ہیں۔ یعنی جو یہ کہتا ہے کہ یہ بارش خدا کے فضل سے ہم پر ہوئی ہے وہ تو ایمان دار ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ نہیں یہ کسی ستارے کے اثر سے ہوئی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان رکھتا ہے خدا تعالیٰ پر نہیں۔
Narrated Zaid bin Khalid: We went out with Allah's Apostle in the year of Al-Hudaibiya. One night it rained and Allah's Apostle led us in the Fajr prayer and (after finishing it), turned to us and said, " Do you know what your Lord has said?" We replied, "Allah and His Apostle know it better." He said, "Allah said:-- "(Some of) My slaves got up believing in Me, And (some of them) disbelieving in Me. The one who said: We have been given Rain through Allah's Mercy and Allah's Blessing and Allah's Bounty, Then he is a believer in Me, and is a Disbeliever in the star. And whoever said: We have been given rain because of such-and-such star, Then he is a believer in the star, and is a disbeliever in Me."
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ قَالَ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ عُمَرٍ کُلَّهُنَّ فِي ذِي الْقَعْدَةِ إِلَّا الَّتِي کَانَتْ مَعَ حَجَّتِهِ عُمْرَةً مِنْ الْحُدَيْبِيَةِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةً مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةً مِنْ الْجِعْرَانَةِ حَيْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةً مَعَ حَجَّتِهِ-
ہدبہ بن خالد، ہمام بن یحیی، قتادہ سے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل چار عمرے ادا کئے سب ماہ ذیقعدہ میں مگر ایک وہ جو حج کے ساتھ ماہ ذی الحجہ میں کیا تھا۔چنانچہ حدیبیہ کا ذی قعدہ میں ہوا پھر دوسرے سال کا بھی ذی قعدہ میں اس کے بعد جعرانہ کا عمرہ جہاں حنین کے مال غنیمت کو تقسیم کیا گیا وہ ذی قعدہ میں ہوا اور چوتھا عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحجہ کے ماہ میں حج کے ساتھ ادا کیا۔
Narrated Anas: Allah's Apostle performed four 'Umras, all in the month of Dhul-Qa'da, except the one which he performed with his Hajj (i.e. in Dhul-Hijja). He performed one 'Umra from Al-Hudaibiya in Dhul-Qa'da, another 'Umra in the following year in Dhul Qa'da a third from Al-Jirana where he distributed the war booty of Hunain, in Dhul Qa'da, and the fourth 'Umra he performed was with his Hajj.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ يَحْيَی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ انْطَلَقْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ أُحْرِمْ-
سعید بن ربیع، علی بن مبارک، یحیی بن کثیر، عبداللہ بن قتادہ اپنے والد ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں احرام باندھا ہوا تھا مگر میں نے نہیں باندھا تھا۔
Narrated Abu Qatada: We set out with the Prophet in the year of Al-Hudaibiya, and all his companions assumed the state of Ihram but I did not.
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَعُدُّونَ أَنْتُمْ الْفَتْحَ فَتْحَ مَکَّةَ وَقَدْ کَانَ فَتْحُ مَکَّةَ فَتْحًا وَنَحْنُ نَعُدُّ الْفَتْحَ بَيْعَةَ الرِّضْوَانِ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ فَنَزَحْنَاهَا فَلَمْ نَتْرُکْ فِيهَا قَطْرَةً فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهَا فَجَلَسَ عَلَی شَفِيرِهَا ثُمَّ دَعَا بِإِنَائٍ مِنْ مَائٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ مَضْمَضَ وَدَعَا ثُمَّ صَبَّهُ فِيهَا فَتَرَکْنَاهَا غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ إِنَّهَا أَصْدَرَتْنَا مَا شِئْنَا نَحْنُ وَرِکَابَنَا-
عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، ابواسحاق، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اے لوگو! تم (انا فتحنا) سے مکہ کی فتح مراد لیتے ہو بے شک مکہ کی فتح بھی ایک فتح ہی ہے مگر ہم تو بیعت رضوان کو جو حدیبیہ میں ہوئی فتح جانتے ہیں چنانچہ ہم سب سو آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے حدیبیہ ایک کنواں تھا ہم نے اس سے پانی بھرنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک ایک قطرہ نکال لیا کیوں کہ بہت لوگ پیاسے ہو رہے تھے یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا کلی کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی پھر بچا ہوا پانی کنویں میں ڈال دیا اور انتظار کرنے لگے پھر تو اس کنویں نے ہم کو اور ہمارے جانوروں کو خوب جی بھر کر پانی پلایا۔
Narrated Al-Bara: Do you (people) consider the conquest of Mecca, the Victory (referred to in the Qur'an 48:1). Was the conquest of Mecca a victory? We really consider that the actual Victory was the Ar-Ridwan Pledge of allegiance which we gave on the day of Al-Hudaibiya (to the Prophet) . On the day of Al-Hudaibiya we were fourteen hundred men along with the Prophet Al-Hudaibiya was a well, the water of which we used up leaving not a single drop of water in it. When the Prophet was informed of that, he came and sat on its edge. Then he asked for a utensil of water, performed ablution from it, rinsed (his mouth), invoked (Allah), and poured the remaining water into the well. We stayed there for a while and then the well brought forth what we required of water for ourselves and our riding animals.
حَدَّثَنِي فَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَعْيَنَ أَبُو عَلِيٍّ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ قَالَ أَنْبَأَنَا الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُمْ کَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ أَوْ أَکْثَرَ فَنَزَلُوا عَلَی بِئْرٍ فَنَزَحُوهَا فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَی الْبِئْرَ وَقَعَدَ عَلَی شَفِيرِهَا ثُمَّ قَالَ ائْتُونِي بِدَلْوٍ مِنْ مَائِهَا فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ فَدَعَا ثُمَّ قَالَ دَعُوهَا سَاعَةً فَأَرْوَوْا أَنْفُسَهُمْ وَرِکَابَهُمْ حَتَّی ارْتَحَلُوا-
فضل بن یعقوب، حسن بن محمد بن اعین، ابوعلی حرانی، زہیر بن معاویہ، ابواسحاق سبیعی نے کہا کہ ہم کو حضرت براء بن عازب نے بتایا کہ ہم سب لوگ حدیبیہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چودہ سو (1400) سے کچھ زیادہ ہم ایک کنویں پر آکر ٹھہرے تمام پانی نکال لیا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پانی باقی نہیں رہا کیا کرنا چاہئے؟ آپ فوراً تشریف لائے کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا اس کے پانی کا ایک ڈول لے آؤ جو حاضر کیا گیا آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور خدا سے دعا فرمائی۔ ذرا ٹھہرے کہ تمام لوگوں نے خود بھی اور اپنے جانوروں کو بھی جی بھر کر پانی پلایا۔
Narrated Al-Bara bin Azib: That they were in the company of Allah's Apostle on the day of Al-Hudaibiya and their number was 1400 or more. They camped at a well and drew its water till it was dried. When they informed Allah's Apostle of that, he came and sat over its edge and said, "Bring me a bucket of its water." When it was brought, he spat and invoked (Allah) and said, "Leave it for a while." Then they quenched their thirst and watered their riding animals (from that well) till they departed.
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ سَالِمٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ يَدَيْهِ رَکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا ثُمَّ أَقْبَلَ النَّاسُ نَحْوَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ عِنْدَنَا مَائٌ نَتَوَضَّأُ بِهِ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا فِي رَکْوَتِکَ قَالَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِي الرَّکْوَةِ فَجَعَلَ الْمَائُ يَفُورُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُونِ قَالَ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا فَقُلْتُ لِجَابِرٍ کَمْ کُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ قَالَ لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً-
یوسف بن عیسیٰ، محمد بن فضیل، حصین بن عبدالرحمن، سالم، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کے دن لوگ پانی کی سخت تنگی محسوس کر رہے تھے صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن تھا جس میں پانی موجود تھا آپ نے اس سے وضو کیا اور لوگوں سے پوچھا کیا حال ہے؟ سب نے کہا یا رسول اللہ! بس یہی اتنا پانی ہے جس سے آپ وضو کر رہے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے یہ سنتے ہی اپنا دست مبارک پانی میں رکھ دیا اور آپ کی انگلیوں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹنے لگا یہاں تک کہ ہم سب نے وضو کیا اور خوب پیا سالم نے دریافت کیا اس دن آپ سب کتنے آدمی تھے انہوں نے فرمایا ہم ایک لاکھ کی تعداد میں بھی ہوتے تب بھی وہ پانی ہمارے لئے کافی ہوتا مگر اس دن ہم کل پندرہ سو آدمی تھے۔
Narrated Salim: Jabir said "On the day of Al-Hudaibiya, the people felt thirsty and Allah's Apostle had a utensil containing water. He performer ablution from it and then the people came towards him. Allah's Apostle said, 'What is wrong with you?' The people said, 'O Allah's Apostle! We haven't got any water to perform ablution with or to drink, except what you have in your utensil.' So the Prophet put his hand in the utensil and the water started spouting out between his fingers like springs. So we drank and performed ablution." I said to Jabir, "What was your number on that day?" He replied, "Even if we had been one hundred thousand, that water would have been sufficient for us. Anyhow, we were 1500.'
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ بَلَغَنِي أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ کَانَ يَقُولُ کَانُوا أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً فَقَالَ لِي سَعِيدٌ حَدَّثَنِي جَابِرٌ کَانُوا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً الَّذِينَ بَايَعُوا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ تَابَعَهُ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا قُرَّةُ عَنْ قَتَادَةَ وتابعه محمدابن بشارحدثنا ابوداؤد حدثنا شعبة-
صلت بن محمد، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ شرکاء حدیبیہ کا شمار چودہ سو (1400) کرتے ہیں سعید نے جواب دیا کہ مجھے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ صلح حدیبیہ کے دن بیعت کرنے والے پندرہ سو حضرات تھے ابوداؤد کہتے ہیں کہ ہم سے قرہ بن خالد نے کہا انہوں نے قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور محمد بن بشار نے بھی ابوداؤد کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے۔
Narrated Qatada: I said to Sa'id bin Al-Musaiyab, "I have been informed that Jabir bin 'Abdullah said that the number (of Al-Hudaibiya Muslim warriors) was 1400." Sa'id said to me, "Jabir narrated to me that they were 1500 who gave the Pledge of allegiance to the Prophet on the day of Al-Hudaibiya.'
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ وَکُنَّا أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ وَلَوْ کُنْتُ أُبْصِرُ الْيَوْمَ لَأَرَيْتُکُمْ مَکَانَ الشَّجَرَةِ تَابَعَهُ الْأَعْمَشُ سَمِعَ سَالِمًا سَمِعَ جَابِرًا أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کَانَ أَصْحَابُ الشَّجَرَةِ أَلْفًا وَثَلَاثَ مِائَةٍ وَکَانَتْ أَسْلَمُ ثُمْنَ الْمُهَاجِرِينَ-
علی بن عبداللہ مدینی، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا : آج تم تمام زمین والوں سے افضل ہو۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس دن چودہ سو آدمی تھے۔ اگر آج میں بینا ہوتا تو تم کو درخت کی جگہ بتاتا اس حدیث کو سفیان کے ساتھی اعمش بھی بیان کرتے ہیں انہوں نے سالم بن ابی جعد سے سنا اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ چودہ سو آدمی تھے۔ عبداللہ بن معاذ نے شعبہ بن حجاج سے انہوں نے عمرو بن مرہ سے اور ان سے عبداللہ بن ابی اوفی نے بیان کیا کہ بیعت رضوان میں لوگوں کی تعداد 13 سو تھی اور قبیلہ اسلم کے لوگ مہاجرین کے آٹھویں حصہ کے برابر تھے عبداللہ بن معاذ کے ساتھ اس حدیث کو معاذ بن بشار نے بھی روایت کیا ہے ان سے ابوداؤد طیالسی نے اور ان سے شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔
Narrated Jabir bin 'Abdullah: On the day of Al-Hudaibiya, Allah's Apostle said to us' "You are the best people on the earth!" We were 1400 then. If I could see now, I would have shown you the place of the Tree (beneath which the Pledge of allegiance was given by us)," Salim said, "Our number was 1400." 'Abdullah bin Abi Aufa said, "The people (who gave the Pledge of allegiance) under the Tree numbered 1300 and the number of Bani Aslam was 1/8 of the Emigrants."
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا عِيسَی عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ أَنَّهُ سَمِعَ مِرْدَاسًا الْأَسْلَمِيَّ يَقُولُ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ يُقْبَضُ الصَّالِحُونَ الْأَوَّلُ فَالْأَوَّلُ وَتَبْقَی حُفَالَةٌ کَحُفَالَةِ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ لَا يَعْبَأُ اللَّهُ بِهِمْ شَيْئًا-
ابراہیم بن موسی، عیسیٰ بن خالد، اسماعیل، قیس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے مرد اس اسلمی سے جو اصحاب شجرہ میں داخل ہیں سنا ہے کہ قیامت کے قریب نیک لوگ ایک ایک کرکے اٹھائے جائیں گے اور ان کے بعد وہ لوگ رہ جائیں گے جو بے کار ہیں جیسے خراب کھجور یا جو کی بھوسی اور اللہ کو ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
Narrated Mirdas Al-Aslami: Who was among those (who had given the Pledge of allegiance) under the Tree: Pious people will die in succession, and there will remain the dregs of society who will be like the useless residues of dates and barley and Allah will pay no attention to them.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا کَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ مِنْهَا لَا أُحْصِي کَمْ سَمِعْتُهُ مِنْ سُفْيَانَ حَتَّی سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَا أَحْفَظُ مِنْ الزُّهْرِيِّ الْإِشْعَارَ وَالتَّقْلِيدَ فَلَا أَدْرِي يَعْنِي مَوْضِعَ الْإِشْعَارِ وَالتَّقْلِيدِ أَوْ الْحَدِيثَ کُلَّهُ-
علی بن عبداللہ مدینی، سفیان بن عیینہ زہری، عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زبیر سے، اور وہ مروان اور مسور سے کہ انہوں نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال تقریبا سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ روانہ ہو کر ذوالحلیفہ پہنچے۔ اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کو ہار پہنایا کوہان سے خون بہایا اور وہیں سے عمرے کا احرام باندھا، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے اس حدیث کو کتنی مرتبہ سفیان سے سنا ہے آخر وہ کہنے لگے کہ زہری سے ہار ڈالنا اور کوہان چیرنا یاد نہیں رہا اب مجھے معلوم نہیں کہ ان کا مطلب کیا تھا یعنی اشعار اور تقلید کا مقام یاد نہیں رہا یا تمام حدیث یاد نہیں رہی
Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama: The Prophet went out in the company of 1300 to 1500 of his companions in the year of Al-Hudaibiya, and when they reached Dhul-Hulaifa, he garlanded and marked his Hadi and assumed the state of Ihram.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ خَلَفٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ وَرْقَائَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَآهُ وَقَمْلُهُ يَسْقُطُ عَلَی وَجْهِهِ فَقَالَ أَيُؤْذِيکَ هَوَامُّکَ قَالَ نَعَمْ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحْلِقَ وَهُوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ لَمْ يُبَيِّنْ لَهُمْ أَنَّهُمْ يَحِلُّونَ بِهَا وَهُمْ عَلَی طَمَعٍ أَنْ يَدْخُلُوا مَکَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْفِدْيَةَ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُطْعِمَ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاکِينَ أَوْ يُهْدِيَ شَاةً أَوْ يَصُومَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ-
حسن بن خلف، اسحاق بن یوسف، ابوبشر، ورقاء، عمر بن ابی نجیح، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ ان کے سر سے جوئیں گر رہی ہیں ان کے چہرے پر، تو آپ نے فرمایا تم کو ان کیڑوں سے تکلیف ہے اس نے کہا جی ہاں! فرمایا پھر بالوں کو منڈا ڈالو اس وقت آپ حدیبیہ میں تھے اور ان کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مکہ سے روکے جائیں گے اور یہیں احرام کھول ڈالنا ہوگا بلکہ امید تھی کہ مکہ میں داخل ہوں گے اور عمرہ پورا کریں گے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فدیہ کی آیت نازل فرمائی ( سورت بقرہ میں) اس وقت آنحضرت نے کعب کو حکم دیا کہ چھ مسکینوں کو سیر کھانا دے دو یا ایک بکری قربانی کرو یا تین روزے رکھو۔
Narrated Kab bin Ujra: That Allah's Apostle saw him with the lice falling (from his head) on his face. Allah's Apostle said, "Are your lice troubling you? Ka'b said, "Yes." Allah's Apostle thus ordered him to shave his head while he was at Al-Hudaibiya. Up to then there was no indication that all of them would finish their state of Ihram and they hoped that they would enter Mecca. Then the order of Al-Fidya was revealed, so Allah's Apostle ordered Kab to feed six poor persons with one Faraq of food or slaughter a sheep or fast for three days.
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِکٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَی السُّوقِ فَلَحِقَتْ عُمَرَ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ فَقَالَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلَکَ زَوْجِي وَتَرَکَ صِبْيَةً صِغَارًا وَاللَّهِ مَا يُنْضِجُونَ کُرَاعًا وَلَا لَهُمْ زَرْعٌ وَلَا ضَرْعٌ وَخَشِيتُ أَنْ تَأْکُلَهُمْ الضَّبُعُ وَأَنَا بِنْتُ خُفَافِ بْنِ إِيْمَائَ الْغِفَارِيِّ وَقَدْ شَهِدَ أَبِي الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ مَعَهَا عُمَرُ وَلَمْ يَمْضِ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِنَسَبٍ قَرِيبٍ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی بَعِيرٍ ظَهِيرٍ کَانَ مَرْبُوطًا فِي الدَّارِ فَحَمَلَ عَلَيْهِ غِرَارَتَيْنِ مَلَأَهُمَا طَعَامًا وَحَمَلَ بَيْنَهُمَا نَفَقَةً وَثِيَابًا ثُمَّ نَاوَلَهَا بِخِطَامِهِ ثُمَّ قَالَ اقْتَادِيهِ فَلَنْ يَفْنَی حَتَّی يَأْتِيَکُمْ اللَّهُ بِخَيْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَکْثَرْتَ لَهَا قَالَ عُمَرُ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَی أَبَا هَذِهِ وَأَخَاهَا قَدْ حَاصَرَا حِصْنًا زَمَانًا فَافْتَتَحَاهُ ثُمَّ أَصْبَحْنَا نَسْتَفِيئُ سُهْمَانَهُمَا فِيهِ-
اسماعیل بن عبداللہ، امام مالک، زید بن اسلم، اپنے والد اسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بازار گیا وہاں ایک جوان عورت ان کو ملی اور کہنے لگی اے امیرالمومنین میرا شوہر مرچکا ہے اور چھوٹے بچوں کو چھوڑ گیا ہے اللہ کی قسم! اتنا بھی نہیں ہے کہ میں بچوں کے لئے کھانا پکا سکوں نہ کوئی کھیتی اور دودھ والا جانور ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں قحط کی وجہ سے وہ مر نہ جائیں اور میں خفاف بن ایما غفاری کی لڑکی ہوں اور میرے والد حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر فرمایا مرحبا! تمہارا خاندان تو میرے خاندان سے ملتا ہوا ہے اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اونٹ پر اناج دو بوریاں اور ان کے درمیان کپڑے اور روپے رکھ کر اونٹ کی رسی عورت کے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا یہ لے جاؤ مجھے امید ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس سے بہتر تم کو عطا کردے گا ایک شخص نے اس کیفیت کو دیکھ کر کہا آپ نے اسے بہت زیادہ دے دیا آپ نے فرمایا اے تیری ماں تجھے روئے خدا گواہ ہے کہ میں نے اس عورت کے باپ اور اس کے بھائی کو دیکھا ہے کہ انہوں نے کافروں کے ایک قلعہ کو اس وقت تک گھیرے رکھا جب تک وہ فتح نہ ہوا پھر صبح مال غنیمت سے ان دونوں کا حصہ وصول کیا گیا۔
Narrated Aslam: Once I went with 'Umar bin Al-Khattab to the market. A young woman followed 'Umar and said, "O chief of the believers! My husband has died, leaving little children. By Allah, they have not even a sheep's trotter to cook; they have no farms or animals. I am afraid that they may die because of hunger, and I am the daughter of Khufaf bin Ima Al-Ghafari, and my father witnessed the Pledge of allegiance) of Al-Hudaibiya with the Prophet.' Umar stopped and did not proceed, and said, "I welcome my near relative." Then he went towards a strong camel which was tied in the house, and carried on to it, two sacks he had loaded with food grains and put between them money and clothes and gave her its rope to hold and said, "Lead it, and this provision will not finish till Allah gives you a good supply." A man said, "O chief of the believers! You have given her too much." "Umar said disapprovingly. "May your mother be bereaved of you! By Allah, I have seen her father and brother besieging a fort for a long time and conquering it, and then we were discussing what their shares they would have from that war booty."
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ أَبُو عَمْرٍو الْفَزَارِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ الشَّجَرَةَ ثُمَّ أَتَيْتُهَا بَعْدُ فَلَمْ أَعْرِفْهَا قال محمود ثم انسيتها بعد-
محمد بن رافع، شبابہ بن سوار، ابوعمر فزاری، شعبہ، قتادہ، سعید بن مسیب سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے اس درخت کو دیکھا تھا جس کے نیچے بیعت لی گئی تھی مگر میں نے جب اسے دوبارہ دیکھا تو پہچان نہ سکا شیخ بخاری محمود بن غیلان کہتے ہیں کہ ابن مسیب نے کہا کہ میں اس کو بھول گیا۔
Narrated Said bin Al-Musaiyab: That his father said, "I saw the Tree (of the Ar-Ridwan Pledge of allegiance and when I returned to it later, I was not able to recognize it. (The sub--narrator MahmiJd said, Al-Musaiyab said, 'Then; forgot it (i.e., the Tree).)"
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ انْطَلَقْتُ حَاجًّا فَمَرَرْتُ بِقَوْمٍ يُصَلُّونَ قُلْتُ مَا هَذَا الْمَسْجِدُ قَالُوا هَذِهِ الشَّجَرَةُ حَيْثُ بَايَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْعَةَ الرِّضْوَانِ فَأَتَيْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ سَعِيدٌ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ کَانَ فِيمَنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ نَسِينَاهَا فَلَمْ نَقْدِرْ عَلَيْهَا فَقَالَ سَعِيدٌ إِنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَعْلَمُوهَا وَعَلِمْتُمُوهَا أَنْتُمْ فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ-
محمود، عبیداللہ اسرائیل بن یونس طارق بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں حج کی غرض سے مکہ سے جا رہا تھا راستہ میں دیکھا کہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں میں نے پوچھا یہاں کون سی مسجد ہے؟ جواب دیا یہ وہ درخت ہے جس کے نیچے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لی تھی یہ سن کر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور اس سے یہ بات بیان کی انہوں نے کہا کہ میرے والد مسیب بن حزن ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی وہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں دوسرے سال آیا تو اس جگہ درخت کو بھول گیا سعید کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس درخت کو پہچان نہ سکے تم نے کیسے پہچان لیا؟ کیا تم ان سے زیادہ علم والے ہو۔
Narrated Tariq bin 'Abdur-Rahman: When I set out for Hajj, I passed by some people offering a prayer, I asked, "What is this mosque?" They said, "This is the Tree where Allah's Apostle took the Ar-Ridwan Pledge of allegiance. Then I went to Sa'id bin Musaiyab and informed him about it. Said said, "My father said that he was amongst those who had given the Pledge of allegiance to Allah's Apostle beneath the Tree. He (i.e. my father) said, "When we set out the following year, we forgot the Tree and were unable to recognize it. "Then Said said (perhaps ironically) "The companions of the Prophet could not recognize it; nevertheless, you do recognize it; therefore you have a better knowledge."
حَدَّثَنَا مُوسَی حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا طَارِقٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ کَانَ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَرَجَعْنَا إِلَيْهَا الْعَامَ الْمُقْبِلَ فَعَمِيَتْ عَلَيْنَا-
موسی بن اسماعیل، ابوعوانہ، طارق، سعید بن مسیب سے اور وہ اپنے والد سے اور وہ ان حضرات میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی، کہتے ہیں کہ ہم جب دوسرے برس وہاں گئے تو پہچان نہ سکے کہ کون سا درخت تھا۔
Narrated Said bin Al-Musaiyab: That his father was amongst those who had given the Pledge of allegiance (to the Prophet ) beneath the Tree, and the next year when they went towards the Tree, they were not able to recognize it.
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ طَارِقٍ قَالَ ذُکِرَتْ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ الشَّجَرَةُ فَضَحِکَ فَقَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي وَکَانَ شَهِدَهَا-
قبیصہ بن عقبہ، سفیان ثوری، طارق سے روایت کرتے ہیں کہ سعید بن مسیب سے جب اس درخت کا ذکر آیا تو آپ نے ہنستے ہوئے کہا میرے والد نے مجھ سے جو کچھ بیان کیا وہ اوپر گزر چکا ہے میرے والد اس بیعت میں شریک تھے۔
Narrated Tariq: (The tree where the Ridwan Pledge of allegiance was taken by the Prophet) was mentioned before Said bin Al-Musaiyab. On that he smiled and said, "My father informed me (about it) and he had witnessed it (i.e. the Pledge) ."
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَی وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَةٍ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِي أَوْفَی-
آدم بن ابی ایاس، شعبہ، عمرو بن مرہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی سے سنا جو کہ بیعت رضوان میں شامل تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی قوم آپ کے پاس صدقہ لے کر آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اے اللہ! ان پر اپنا رحم فرما چنانچہ میرے والد بھی صدقہ لے کر حاضر ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا اے اللہ! تو عبداللہ بن ابی اوفی کی اولاد پر اپنا رحم فرما۔
Narrated Abdullah bin Abi Aufa: (Who was one of those who had given the Pledge of allegiance to the Prophet beneath the Tree) When the people brought Sadaqa (i.e. Rakat) to the Prophet he used to say, "O Allah! Bless them with your Mercy." Once my father came with his Sadaqa to him whereupon he (i.e. the Prophet) said. "O Allah! Bless the family of Abu Aufa."
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ أَخِيهِ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمُ الْحَرَّةِ وَالنَّاسُ يُبَايِعُونَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَقَالَ ابْنُ زَيْدٍ عَلَی مَا يُبَايِعُ ابْنُ حَنْظَلَةَ النَّاسَ قِيلَ لَهُ عَلَی الْمَوْتِ قَالَ لَا أُبَايِعُ عَلَی ذَلِکَ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ شَهِدَ مَعَهُ الْحُدَيْبِيَةَ-
اسماعیل بن ابی اویس، عبدالحمید، ان کے بھائی، سلیمان، عمرو بن یحیی مازنی، عباد بن تمیم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جنگ حرہ کے دن لوگ عبداللہ بن حنظلہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ابن زید نے پوچھا کہ ابن حنظلہ لوگوں سے کس چیز کی بیعت لے رہے ہیں؟ کسی نے کہا کہ یہ موت پر بعیت لے رہے ہیں ابن زید نے کہا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس معاملہ میں کسی سے بیعت نہ کروں گا کیونکہ ابن زید حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حدیبیہ کی بیعت میں حاضر تھے۔
Narrated 'Abbas bin Tamim: When it was the day (of the battle) of Al-Harra the people were giving Pledge of allegiance to Abdullah bin Hanzala. Ibn Zaid said, "For what are the people giving Pledge of allegiance to Abdullah bin Hanzala?" It was said to him, "For death." Ibn Zaid said, "I will never give the Pledge of allegiance for that to anybody else after Allah's Apostle ." Ibn Zaid was one of those who had witnessed the day of Al-Hudaibiya with the Prophet.
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَعْلَی الْمُحَارِبِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ قَالَ کُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ ثُمَّ نَنْصَرِفُ وَلَيْسَ لِلْحِيطَانِ ظِلٌّ نَسْتَظِلُّ فِيهِ-
یحیی بن یعلے محاربی، اپنے والد سے اور وہ ایاس بن سلمہ بن اکوع سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے جو اصحاب شجرہ میں سے تھے کہا کہ ہم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز جمعہ پڑھ کر واپس آتے تھے تو دیواروں کا سایہ نہ ہوتا تھا کہ ہم اس میں بیٹھتے۔
Narrated Iyas bin Salama bin Al-Akwa: My father who was amongst those who had given the Pledge of allegiance to the Prophet beneath the Tree, said to me, "We used to offer the Jumua prayer with the Prophet and then depart at a time when the walls had no shade for us to take shelter in."
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ عَلَی أَيِّ شَيْئٍ بَايَعْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ قَالَ عَلَی الْمَوْتِ-
قتیبہ بن سعید، حاتم، یزید بن ابی عبید سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع سے کہا کہ تم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کس اقرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تھی وہ کہنے لگے ہم نے موت پر بیعت کی تھی۔
Narrated Yazid bin Abi Ubaid: I said to Salama bin Al-Akwa, "For what did you give the Pledge of allegiance to Allah's Apostle on the day of Al-Hudaibiya?" He replied, "For death (in the Cause of Islam.)."
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِشْکَابٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَقِيتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقُلْتُ طُوبَی لَکَ صَحِبْتَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَايَعْتَهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّکَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثْنَا بَعْدَهُ-
احمد بن اشکاب، محمد بن فضیل، علاء بن مسیب، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم قابل مبارک باد ہو کہ تم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا اور تم نے درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی سعادت حاصل کی انہوں نے انکسار سے فرمایا کہ اے بھتیجے! تم کو معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا کیا برائیاں کیں۔
Narrated Al-Musaiyab: I met Al-Bara bin 'Azib and said (to him). "May you live prosperously! You enjoyed the company of the Prophet and gave him the Pledge of allegiance (of Al-Hudaibiya) under the Tree." On that, Al-Bara' said, "O my nephew! You do not know what we have done after him (i.e. his death)."
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ هُوَ ابْنُ سَلَّامٍ عَنْ يَحْيَی عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّ ثَابِتَ بْنَ الضَّحَّاکِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ-
اسحاق ، یحیی بن صالح، معاویہ بن سلام، یحیی بن ابی کثیر، ابوقلابہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کو ثابت بن ضحاک نے بتایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔
Narrated Abu Qilaba: that Thabit bin Ad-Dahhak had informed him that he was one of those who had given the Pledge of allegiance (of Al-Hudaibiya) beneath the Tree.
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِينًا قَالَ الْحُدَيْبِيَةُ قَالَ أَصْحَابُهُ هَنِيئًا مَرِيئًا فَمَا لَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ قَالَ شُعْبَةُ فَقَدِمْتُ الْکُوفَةَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا کُلِّهِ عَنْ قَتَادَةَ ثُمَّ رَجَعْتُ فَذَکَرْتُ لَهُ فَقَالَ أَمَّا إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَعَنْ أَنَسٍ وَأَمَّا هَنِيئًا مَرِيئًا فَعَنْ عِکْرِمَةَ-
احمد بن اسحاق، عثمان بن عمر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ (انا فتحنا لک فتحا مبینا) سے مراد صلح حدیبیہ ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے عرض کیا آپ کے واسطے تو یہ امر باعث تبرک و مسرت ہے مگر ہمارے لئے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ) 48۔ الفتح : 5) یعنی مومن مرد اور مومن عورتیں جنت میں داخل کئے جائیں گے کہتے ہیں کہ میں نے کوفہ آکر قتادہ سے اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ (انا فتحنا) کی تفسیر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی ہے اور ھنیئا مریئا عکرمہ سے منقول ہے۔
Narrated Anas bin Malik: regarding Allah's Statement: "Verily! We have granted you (O, Muhammad) Manifest victory." (48.1) It refers to the Al-Hudaibiya Pledge. And the companions of the Prophet said (to the Prophet), "Congratulations and happiness for you; but what reward shall we get?" So Allah revealed:-- "That He may admit the believing men and women to gardens beneath which rivers flow." (48.5)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ مَجْزَأَةَ بْنِ زَاهِرٍ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ وَکَانَ مِمَّنْ شَهِدَ الشَّجَرَةَ قَالَ إِنِّي لَأُوقِدُ تَحْتَ الْقِدْرِ بِلُحُومِ الْحُمُرِ إِذْ نَادَی مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَاکُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ-
عبداللہ بن محمد، ابوعامر عقدی، اسرائیل بن یونس، مجزاۃ بن زہر اسلمی اپنے والد سے جو شریک حدیبیہ تھے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں گدھے کے گوشت کو پکا رہا تھا (جنگ خیبر میں) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک منادی نے ندا دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم کو منع کرتے ہیں گدھے کا گوشت کھانے سے
Narrated Zahir Al-Aslami: (who was one of those who had witnessed (the Pledge of allegiance beneath) the Tree) While I was making fire beneath the cooking pots containing donkey's meat, the announcer of Allah's Apostle announced, "Allah's Apostle forbids you to eat donkey's meat." The same narration was told by Majzaa from a man called Uhban bin Aus who was one of those who had witnessed (the Pledge of allegiance beneath) the Tree., and who had some trouble in his knee so that while doing prostrations, he used to put a pillow underneath his knee.
وَعَنْ مَجْزَأَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ اسْمُهُ أُهْبَانُ بْنُ أَوْسٍ وَکَانَ اشْتَکَی رُکْبَتَهُ وَکَانَ إِذَا سَجَدَ جَعَلَ تَحْتَ رُکْبَتِهِ وِسَادَةً-
اور یہی مجزاۃ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں جس کا نام اہبان بن اوس تھا اور وہ بھی درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے تھا اس کے گھٹنے میں داد کی بیماری تھی وہ جب سجدہ کرتا تھا تو اس گھٹنے کے نیچے تکیے رکھ لیا کرتا تھا تاکہ اس میں تکلیف نہ ہو۔
-
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ النُّعْمَانِ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أُتُوا بِسَوِيقٍ فَلَاکُوهُ تَابَعَهُ مُعَاذٌ عَنْ شُعْبَةَ-
محمد بن بشار، ابن عدی، شعبہ، یحیی بن سعید، بشیر بن یسار، حضرت سوید بن نعمان سے جو اصحاب شجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے تھے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم ستو پی کر گزر کیا کرتے تھے ابن عدی شعبہ سے روایت کرتے ہیں معاذ نے بھی ساتھ دیا ہے۔
Narrated Suwaid bin An-Numan: who was one of those who witnessed (the Pledge of allegiance beneath) the Tree: Allah's Apostle and his companions were given Sawiq and they chewed it.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا شَاذَانُ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ سَأَلْتُ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ هَلْ يُنْقَضُ الْوِتْرُ قَالَ إِذَا أَوْتَرْتَ مِنْ أَوَّلِهِ فَلَا تُوتِرْ مِنْ آخِرِهِ-
محمد بن حاتم بن بزیع، شاذان، شعبہ، ابی جمرہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عائد بن عمرو سے جو کہ اصحاب شجرہ میں شامل تھے دریافت کیا کہ کیا وتر کو ہم دوبارہ پڑھا کریں تو انہوں نے کہا اگر اول شب میں پڑھ لیے تو پھر آخر شب میں نہیں پڑھنا چاہئے۔
Narrated Abu Jamra: I asked Aidh bin Amr, who was one of the companions of the Prophet one of those (who gave the allegiance to the Prophet the Tree: "Can the Witr prayer be repeated (in one night)?" He said, "If you have offered it in the first part of the night, you should not repeat it in the last part 'of the night." (See Fateh-al-Bari page 458 Vol 8th).
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلًا فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَيْئٍ فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ يَا عُمَرُ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ کُلُّ ذَلِکَ لَا يُجِيبُکَ قَالَ عُمَرُ فَحَرَّکْتُ بَعِيرِي ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ الْمُسْلِمِينَ وَخَشِيتُ أَنْ يَنْزِلَ فِيَّ قُرْآنٌ فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي قَالَ فَقُلْتُ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَکُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ وَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِينًا-
عبداللہ بن یوسف، امام مالک، زید بن اسلم سے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بعض سفروں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو چلا کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ہمراہ ہوا کرتے تھے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب نہیں دیا، پھر پوچھی پھر جواب نہیں دیا، پھر پوچھی اور پھر جواب نہیں دیا آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دل میں کہنے لگے اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تیری ماں تجھ کو روئے تو نے تین دفعہ بات پوچھی اور تجھے آنحضرت نے جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اونٹ کو ایڑ لگائی اور مسلمانوں سے آگے نکل گیا اس خوف سے کہ کہیں میرے متعلق کوئی آیت نہ اترے تھوڑی دیر کے بعد کوئی مجھے پکار رہا تھا میں اور خوف زدہ ہوا کہ شاید میرے حق میں قرآن اترا ہے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا آپ نے ارشاد فرمایا کہ رات کو میرے اوپر ایک سورت اتری ہے اور وہ مجھے ان تمام چیزوں سے محبوب ہے جن پر سورج نے طلوع کیا ہے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِينًا) تلاوت فرمائی۔
Narrated Zaid bin Aslam: My father said, "Allah's Apostle was proceeding at night on one of his journeys and 'Umar bin Al-Khattab was going along with him. 'Umar bin Al-Khattab asked him (about something) but Allah's Apostle did not answer him. 'Umar asked him again, but he did not answer him. He asked him again (for the third time) but he did not answer him. On that Umar bin Al-Khattab addressed himself saying, "May your mother be bereaved of you, O 'Umar, for you have asked Allah's Apostle thrice, yet he has not answered you." 'Umar said, "Then I made my camel run fast and took it in front of the other Muslims, and I was afraid that something might be revealed in my connection. I had hardly waited for a moment when I heard somebody calling me. I said, 'I was afraid that something might have been revealed about me.' Then I came to Allah's Apostle and greeted him. He (i.e. the Prophet) said, 'Tonight there has been revealed to me, a Sura which is dearer to me than (all the world) on which the sun rises,' and then he recited: 'Verily! We have granted you (O Muhammad) A manifest victory." (48.1)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ حِينَ حَدَّثَ هَذَا الْحَدِيثَ حَفِظْتُ بَعْضَهُ وَثَبَّتَنِي مَعْمَرٌ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَی صَاحِبِهِ قَالَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا أَتَی ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ وَبَعَثَ عَيْنًا لَهُ مِنْ خُزَاعَةَ وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی کَانَ بِغَدِيرِ الْأَشْطَاطِ أَتَاهُ عَيْنُهُ قَالَ إِنَّ قُرَيْشًا جَمَعُوا لَکَ جُمُوعًا وَقَدْ جَمَعُوا لَکَ الْأَحَابِيشَ وَهُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنْ الْبَيْتِ وَمَانِعُوکَ فَقَالَ أَشِيرُوا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيَّ أَتَرَوْنَ أَنْ أَمِيلَ إِلَی عِيَالِهِمْ وَذَرَارِيِّ هَؤُلَائِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَصُدُّونَا عَنْ الْبَيْتِ فَإِنْ يَأْتُونَا کَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَطَعَ عَيْنًا مِنْ الْمُشْرِکِينَ وَإِلَّا تَرَکْنَاهُمْ مَحْرُوبِينَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا الْبَيْتِ لَا تُرِيدُ قَتْلَ أَحَدٍ وَلَا حَرْبَ أَحَدٍ فَتَوَجَّهْ لَهُ فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ قَالَ امْضُوا عَلَی اسْمِ اللَّهِ-
عبداللہ بن محمد، سفیان بن عیینہ، زہری سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے زہری سے سنا جب کہ وہ اوپر والی حدیث بیان کر رہے تھے چنانچہ کچھ میں نے یاد رکھی اور کچھ معمر نے مجھے یاد دلا دی وہ عروہ بن زبیر سے اور وہ مسور اور مروان سے روایت کرتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے زیادہ بیان کرتا ہے انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس سو سے کئی سو زائد اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ ذی الحلیفہ میں پہنچے تو قربانی کے جانور کے گلے میں ہار پہنایا اور اس کا کوہان چیرا اور پھر اسی جگہ سے عمرہ کا احرام باندھا اور پھر بنی خزاعہ کے ایک جاسوس کو آپ نے آگے روانہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی برابر چلتے رہے یہاں تک کہ جب مقام غدیر الاشطاط میں پہنچے تو جاسوس نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ قریش نے بہت سے قبائل اور جماعتوں کو آپ سے لڑنے کے لئے اکٹھا کیا ہے وہ آپ کو بیت اللہ تک نہیں جانے دیں گے آپ نے مسلمانوں سے فرمایا لوگو! مجھے اس معاملہ میں بتاؤ کہ کیا کرنا چاہئے کیا میں کافروں کے اہل و عیال پر جھک پڑوں اور ان کو تباہ کردوں جو ہم کو کعبہ سے روکنے کی تدبیریں کر رہے ہیں اور اگر وہ مقابلہ کے لئے آئے تو اللہ تعالیٰ مدد گار ہے اسی نے ہمارے جاسوس کو ان کے ہاتھ سے بچایا ہے اگر وہ نہ آئے تو ہم ان کو سوئے ہوئے یا مفرور کی طرح چھوڑیں گے اس موقعہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تو صرف اللہ کے گھر کا ارادہ کرکے حاضر ہوئے ہیں کسی سے لڑنا اور مارنا یا اسے لوٹنا ہماری غرض نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلیں اگر کوئی ہم کو روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اٹھو خدا کا نام لے کر چلو۔
Narrated Al-Miswar bin Makhrama and Marwan bin Al-Hakam: (one of them said more than his friend): The Prophet set out in the company of more than one-thousand of his companions in the year of Al-Hudaibiya, and when he reached Dhul-Hulaifa, he garlanded his Hadi (i.e. sacrificing animal), assumed the state of Ihram for 'Umra from that place and sent a spy of his from Khuzi'a (tribe). The Prophet proceeded on till he reached (a village called) Ghadir-al-Ashtat. There his spy came and said, "The Quraish (infidels) have collected a great number of people against you, and they have collected against you the Ethiopians, and they will fight with you, and will stop you from entering the Ka'ba and prevent you." The Prophet said, "O people! Give me your opinion. Do you recommend that I should destroy the families and offspring of those who want to stop us from the Ka'ba? If they should come to us (for peace) then Allah will destroy a spy from the pagans, or otherwise we will leave them in a miserable state." On that Abu Bakr said, "O Allah Apostle! You have come with the intention of visiting this House (i.e. Ka'ba) and you do not want to kill or fight anybody. So proceed to it, and whoever should stop us from it, we will fight him." On that the Prophet said, "Proceed on, in the Name of Allah !"
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَمِّهِ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ يُخْبِرَانِ خَبَرًا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُمْرَةِ الْحُدَيْبِيَةِ فَکَانَ فِيمَا أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْهُمَا أَنَّهُ لَمَّا کَاتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَی قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ وَکَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ قَالَ لَا يَأْتِيکَ مِنَّا أَحَدٌ وَإِنْ کَانَ عَلَی دِينِکَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ وَأَبَی سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَی ذَلِکَ فَکَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِکَ وَامَّعَضُوا فَتَکَلَّمُوا فِيهِ فَلَمَّا أَبَی سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَی ذَلِکَ کَاتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا جَنْدَلِ بْنَ سُهَيْلٍ يَوْمَئِذٍ إِلَی أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو وَلَمْ يَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنْ الرِّجَالِ إِلَّا رَدَّهُ فِي تِلْکَ الْمُدَّةِ وَإِنْ کَانَ مُسْلِمًا وَجَائَتْ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَکَانَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عَاتِقٌ فَجَائَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ حَتَّی أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِي الْمُؤْمِنَاتِ مَا أَنْزَلَ-
اسحاق بن راہویہ، یعقوب بن ابراہیم، ابن اخی ابن شہاب، محمد بن مسلم بن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے مروان اور مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قصہ عمرہ حدیبیہ کو بیان کرتے تھے راوی نے کہا کہ عروہ نے جب یہ قصہ مجھ سے بیان کیا تو اس میں یہ بات بھی بیان کی کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے دن سہیل بن عمرو سے معاہدہ ایک معینہ مدت کے لئے تحریر کیا تو سہیل کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر ہمارا کوئی آدمی اگرچہ وہ مسلمان ہی ہوگیا ہو تمہارے پاس آئے گا تو اسے واپس کرنا ہوگا اور تم اس درمیان میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے سہیل بن عمرو اس شرط پر اڑا ہوا تھا اور مسلمان نامنظور کر رہے تھے لیکن سہیل بن عمرو نے اس شرط کو داخل معاہدہ کرلیا تھا اس کے بعد ابوجندل بن سہیل بن عمرو کو اس کے باپ کے حوالہ کردیا گیا (یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مکہ سے بھاگ کر آئے تھے اور اس درمیان میں جو کوئی بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوتا تھا آپ اس کو واپس کردیا کرتے تھے خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو چنانچہ کچھ عورتیں بھی ہجرت کرکے آنے لگیں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بھی آئیں اور وہ بالغ تھیں اس کے رشتہ داروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واپسی کی درخواست کی اس وقت سورت ممتحنہ کی وہ آیت اتری جو عورتوں کے حق میں ہے (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ) 66۔ الممتحنہ : 12) یعنی اے ہمارے نبی! جو عورتیں آپ کے پاس آئیں آخرتک۔
Narrated Urwa bin Az-Zubair: That he heard Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama relating one of the events that happened to Allah's Apostle in the 'Umra of Al-Hudaibiya. They said, "When Allah's Apostle concluded the truce with Suhail bin 'Amr on the day of Al-Hudaibiya, one of the conditions which Suhail bin 'Amr stipulated, was his saying (to the Prophet), "If anyone from us (i.e. infidels) ever comes to you, though he has embraced your religion, you should return him to us, and should not interfere between us and him." Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on this condition. The believers disliked this condition and got disgusted with it and argued about it. But when Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on that condition, Allah's Apostle concluded it. Accordingly, Allah's Apostle then returned Abu Jandal bin Suhail to his father, Suhail bin 'Amr, and returned every man coming to him from them during that period even if he was a Muslim. The believing women Emigrants came (to Medina) and Um Kulthum, the daughter of 'Uqba bin Abi Mu'ait was one of those who came to Allah's Apostle and she was an adult at that time. Her relatives came, asking Allah's Apostle to return her to them, and in this connection, Allah revealed the Verses dealing with the believing (women). Aisha said, "Allah's Apostle used to test all the believing women who migrated to him, with the following Verse:-- "O Prophet! When the believing Women come to you, to give the pledge of allegiance to you." (60.12) 'Urwa's uncle said, "We were informed when Allah ordered His Apostle to return to the pagans what they had given to their wives who lately migrated (to Medina) and we were informed that Abu Basir..." relating the whole narration.
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَکَ وَعَنْ عَمِّهِ قَالَ بَلَغَنَا حِينَ أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرُدَّ إِلَی الْمُشْرِکِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَی مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرٍ فَذَکَرَهُ بِطُولِهِ-
ابن شہاب عروہ زہری کے بھتیجے اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مشرکوں نے اپنی ان بیویوں پر جو ہجرت کرکے چلی آئی ہیں جو کچھ خرچ کیا ہے ان کو واپس کردیا جائے چنانچہ ابوبصیر کا قصہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا خَرَجَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ فَقَالَ إِنْ صُدِدْتُ عَنْ الْبَيْتِ صَنَعْنَا کَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ-
قتیبہ، امام مالک، نافع سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر فتنہ کے زمانہ میں عمرہ کے لئے نکلے اور کہنے لگے اگر مجھے بیت اللہ سے روکا گیا تو میں وہی کروں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں حدیبیہ میں کیا تھا۔ غرض انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرے کا احرام باندھا تھا (یہ زمانہ حجاج اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جنگ کا تھا) ۔
Narrated Nafi: Abdullah bin Umar set out for Umra during the period of afflictions, and he said, "If I should be stopped from visiting the Kaba, I will do what we did when we were with Allah's Apostle." He assumed Ihram for 'Umra in the year of Al-Hudaibiya.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَهَلَّ وَقَالَ إِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَفَعَلْتُ کَمَا فَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَالَتْ کُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَتَلَا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ-
مسدد، یحیی ، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرہ کرنے کی نیت سے احرام باندھا اور پھر کہنے لگے کہ اگر مجھے بیت اللہ سے روکا گیا تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا جب کہ قریش کے کافروں نے آپ کو روکا تھا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) 33۔ الأحزاب : 21) ۔
Narrated Nafi: Ibn 'Umar assumed Ihram and said, "If something should intervene between me and the Ka'ba, then I will do what the Prophet did when the Quraish infidels intervened between him and (the Ka'ba). Then Ibn 'Umar recited: "You have indeed in Allah's Apostle A good example to follow." (33.21)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَاهُ أَنَّهُمَا کَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ح و حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ بَعْضَ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَهُ لَوْ أَقَمْتَ الْعَامَ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا تَصِلَ إِلَی الْبَيْتِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَالَ کُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ فَنَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَايَاهُ وَحَلَقَ وَقَصَّرَ أَصْحَابُهُ وَقَالَ أُشْهِدُکُمْ أَنِّي أَوْجَبْتُ عُمْرَةً فَإِنْ خُلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ طُفْتُ وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ صَنَعْتُ کَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ مَا أُرَی شَأْنَهُمَا إِلَّا وَاحِدًا أُشْهِدُکُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَتِي فَطَافَ طَوَافًا وَاحِدًا وَسَعْيًا وَاحِدًا حَتَّی حَلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا-
عبداللہ بن محمد بن اسماء، جویریہ، حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں کہ ان کو عبیداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے بتایا کہ ہم دونوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کی (دوسری سند) امام بخاری، موسیٰ بن اسماعیل، جویریہ، حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹوں نے ان سے کہا کہ اس سال آپ عمرہ کو نہ جائیے کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ تک نہ پہنچ سکیں انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عمرے کی نیت سے نکلے تھے مگر قریش کے کافروں نے بیت اللہ تک نہ جانے دیا آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ میں قربانی کے جانور ذبح کردیئے سر منڈوایا اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی بال اتروادیئے پھر ابن عمر نے فرمایا کہ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کرلیا ہے اب اگر مجھے لوگوں نے بیت اللہ تک جانے دیا تو میں طواف کروں گا اور عمرہ بجا لاؤں گا اور اگر مزاحمت کی گئی تو پھر وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا یہ کہ کر چل دیئے کچھ دور جا کر کہا کہ میں نے عمرہ کے ساتھ اپنے ذمہ حج بھی واجب کرلیا ہے اس کے بعد آپ نے حج و عمرہ کا ایک ہی طواف کیا اور ایک ہی سعی کی اور دسویں تاریخ کو احرام اتار دیا۔
Narrated Nafi: One of 'Abdullah's sons said to 'Abdullah (bin Umar) "I wish you would stay this year (and not perform Hajj) as I am afraid that you will not be able to reach the Kaba." On that he (i.e. 'Abdullah bin Umar) said, "We went out with the Prophet (for 'Umra), and when the Quraish infidel intervened between us and the Ka'ba, the Prophet slaughtered his Hadi and shaved (his head), and his companions cut short their hair." Then 'Abdullah bin Umar said, "I make you witness that I have intended to perform 'Umra and if I am allowed to reach the Kaba, I will perform the Tawaf, and if something (i.e. obstacles) intervene between me and the Kaba, then I will do what Allah's Apostle did." Then after going for a while, he said, "I consider the ceremonies (of both 'Umra and Hajj as one and the same, so I would like you to witness that I have intended to perform Hajj along with my 'Umra." So he performed only one Tawaf and one Sai (between Safa and Marwa) and finished the Ihram of both Umra and Hajj).
حَدَّثَنِي شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ سَمِعَ النَّضْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا صَخْرٌ عَنْ نَافِعٍ قَالَ إِنَّ النَّاسَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَسْلَمَ قَبْلَ عُمَرَ وَلَيْسَ کَذَلِکَ وَلَکِنْ عُمَرُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْسَلَ عَبْدَ اللَّهِ إِلَی فَرَسٍ لَهُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ يَأْتِي بِهِ لِيُقَاتِلَ عَلَيْهِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَايِعُ عِنْدَ الشَّجَرَةِ وَعُمَرُ لَا يَدْرِي بِذَلِکَ فَبَايَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَی الْفَرَسِ فَجَائَ بِهِ إِلَی عُمَرَ وَعُمَرُ يَسْتَلْئِمُ لِلْقِتَالِ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَايِعُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَانْطَلَقَ فَذَهَبَ مَعَهُ حَتَّی بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ الَّتِي يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَسْلَمَ قَبْلَ عُمَرَ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّاسَ کَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ تَفَرَّقُوا فِي ظِلَالِ الشَّجَرِ فَإِذَا النَّاسُ مُحْدِقُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ انْظُرْ مَا شَأْنُ النَّاسِ قَدْ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَهُمْ يُبَايِعُونَ فَبَايَعَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی عُمَرَ فَخَرَجَ فَبَايَعَ-
شجاع بن ولید، نضر بن محمد، صخر بن جویریہ، حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے اسلام لائے یہ درست نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ حدیبیہ کے روز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو ایک انصاری کے پاس اس لئے بھیجا کہ وہ ان سے ان کا گھوڑا لے کر آئیں تاکہ اس پر بیٹھ کر کافروں سے جہاد کیا جائے اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے درخت کے تلے بیعت لے رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی خبر نہیں تھی عبداللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرکے گھوڑا لینے گئے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گھوڑا لئے ہوئے آئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہتھیار لگا رہے تھے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بات بیان کی تو وہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لئے ہوئے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا کر بیعت کی یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ عبداللہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام لائے ہیں۔ (دوسری سند) ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، عمر بن محمد عمری، حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ الگ الگ درختوں کے سایہ میں ٹھہرے ہوئے تھے اچانک نظر آیا کہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اپنے بیٹے) عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا ذرا جا کر دیکھو کہ یہ لوگ کیوں جمع ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس لئے گھیرے ہوئے ہیں وہ گئے اور دیکھا کہ لوگ آپ سے بیعت کر رہے چنانچہ عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی بیعت کرلی پھر واپس آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی گئے اور بیعت کر لی۔
Narrated Nafi: The people used to say that Ibn 'Umar had embraced Islam before 'Umar. This is not true. What happened is that 'Umar sent 'Abdullah to bring his horse from an Ansari man so as to fight on it. At that time the people were giving the Pledge of allegiance to Allah's Apostle near the Tree, and 'Umar was not aware of that. So Abdullah (bin Umar) gave the Pledge of Allegiance (to the Prophet) and went to take the horse and brought it to 'Umar. While 'Umar was putting on the armor to get ready for fighting, 'Abdullah informed him that the people were giving the Pledge of allegiance to Allah's Apostle beneath the Tree. So 'Umar set out and 'Abdullah accompanied him till he gave the Pledge of allegiance to Allah's Apostle, and it was this event that made people say that Ibn 'Umar had embraced Islam before 'Umar. "Abdullah bin 'Umar added, "The people were along with the Prophet on the day of Al-Hudaibiya spreading in the shade of the trees. Suddenly the people surrounded the Prophet and started looking at him." 'Umar said, "O 'Abdullah! Go and see why the people are encircling Allah's Apostle and looking at him." 'Abdullah bin Umar then saw the people giving the Pledge o allegiance to the Prophet. So he also gave the Pledge of allegiance and returned to 'Umar who went out in his turn and gave the Pledge of allegiance to the Prophet.'
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا يَعْلَی حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اعْتَمَرَ فَطَافَ فَطُفْنَا مَعَهُ وَصَلَّی وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَسَعَی بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَکُنَّا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ لَا يُصِيبُهُ أَحَدٌ بِشَيْئٍ-
ابن نمیر، یعلی، اسماعیل سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی کو کہتے ہوئے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے جب کہ آپ نے عمرہ ادا کیا چنانچہ آپ نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، پھر آپ نے نماز پڑھی تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے صفا، مروہ کے درمیان سعی فرمائی تو ہم نے بھی سعی کی اور ہم آپ کی اہل مکہ سے حفاظت کر رہے تھے کہ کوئی آپ کو تکلیف نہ دے سکے۔
Narrated 'Abdullah bin Abi Aufa: We were in the company of the Prophet when he performed the 'Umra. He performed the Tawaf and we did the same; he offered the prayer and we also offered the prayer with him. Then he performed the Sai between Safa and Marwa and we were guarding him against the people of Mecca so that nobody should harm him.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَصِينٍ قَالَ قَالَ أَبُو وَائِلٍ لَمَّا قَدِمَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ مِنْ صِفِّينَ أَتَيْنَاهُ نَسْتَخْبِرُهُ فَقَالَ اتَّهِمُوا الرَّأْيَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَهُ لَرَدَدْتُ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ وَمَا وَضَعْنَا أَسْيَافَنَا عَلَی عَوَاتِقِنَا لِأَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَی أَمْرٍ نَعْرِفُهُ قَبْلَ هَذَا الْأَمْرِ مَا نَسُدُّ مِنْهَا خُصْمًا إِلَّا انْفَجَرَ عَلَيْنَا خُصْمٌ مَا نَدْرِي کَيْفَ نَأْتِي لَهُ-
حسن بن اسحاق، محمد بن سابق، مالک بن مغول، ابوحصین، ابووائل، شفیق بن سلمہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جب سہل بن حنیف جنگ صفین سے واپس آئے تو ہم ان کی واپسی کا سبب معلوم کرنے گئے تو انہوں نے کہا کہ بھائی اپنی رائے پر ناز مت کرو ایک وہ بھی دن تھا کہ میں اتنا مستعد تھا کہ ابوجندل کی واپسی پر کبھی راضی نہ ہوتا اور اگر قدرت رکھتا تو حکم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ مانتا اور چھی طرح لڑتا یہ بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوب جانتے ہیں کہ ہم نے جب کبھی کسی مہم پر تلوار اٹھائی تو وہ کام آسان ہوگیا غرض اس جنگ سے پہلے جب بھی تلوار اٹھائی تو ہم اسے اپنے لئے اچھا ہی جانتے تھے (مگر اس جنگ صفین) کا عجیب حال ہے کہ ہم ایک کام کو سنبھالتے ہیں تو دوسرا بگڑ جاتا ہے ہم حیران ہیں کہ اس کے انسداد کی کیا تدبیر کریں۔
Narrated Abu Wail: When Sahl bin Hunaif returned from (the battle of) Siffin, we went to ask him (as to why he had come back). He replied, "(You should not consider me a coward) but blame your opinions. I saw myself on the day of Abu Jandal (inclined to fight), and if I had the power of refusing the order of Allah's Apostle then, I would have refused it (and fought the infidels bravely). Allah and His Apostle know (what is convenient) better. Whenever we put our swords on our shoulders for any matter that terrified us, our swords led us to an easy agreeable solution before the present situation (of disagreement and dispute between the Muslims). When we mend the breach in one side, it opened in another, and we do not know what to do about it."
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَی عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَی وَجْهِي فَقَالَ أَيُؤْذِيکَ هَوَامُّ رَأْسِکَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاحْلِقْ وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاکِينَ أَوْ انْسُکْ نَسِيکَةً قَالَ أَيُّوبُ لَا أَدْرِي بِأَيِّ هَذَا بَدَأَ-
سلیمان بن حرب، حماد بن زید، ایوب، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، کعب بن عجرہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ زمانہ حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس حالت میں دیکھا کہ میرے سر سے جوئیں گر رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جوئیں تم کو تکلیف دیتی ہونگی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! آپ نے فرمایا تم اپنا سر منڈوا دو اور تین روزے رکھو یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دو یا ایک بکری ذبح کردو۔ ایوب (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اس میں سے پہلی بات آپ نے کیا ارشاد فرمائی۔
Narrated Kab bin Ujra: The Prophet came to me at the time of Al-Hudaibiya Pledge while lice were falling on my face. He said, "Are the lice of your head troubling you?" I said, "Yes." He said, "Shave your head and fast for three days, or feed six poor persons, or slaughter a sheep as sacrifice." (The sub-narrator, Aiyub said, "I do not know with which of these three options he started.")
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِکُونَ قَالَ وَکَانَتْ لِي وَفْرَةٌ فَجَعَلَتْ الْهَوَامُّ تَسَّاقَطُ عَلَی وَجْهِي فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيُؤْذِيکَ هَوَامُّ رَأْسِکَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًی مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُکٍ-
محمد بن ہشام، ابوعبداللہ، ہشیم، ابوبشر، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، کعب بن عجرہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں حدیبیہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ احرام باندھے ہوئے موجود تھا کہ مشرکوں نے ہم کو روک دیا اس وقت میرے سر پر پٹھے بال تھے اور ان میں سے جوئیں چہرہ پر گر رہی تھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا کیا تم کو یہ جوئیں تکلیف دیتی ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! کعب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِه اَذًى مِّنْ رَّاْسِه فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ) 2۔ البقرۃ : 196) یعنی جو تم میں بیمار ہوں یا ان کے سر میں تکلیف ہو تو وہ اس کے بدلہ میں روزے رکھ لے یا صدقہ دے دے یا قربانی کردے۔
Narrated Ka'b bin Ujra: We were in the company of Allah's Apostle at Al-Hudaibiya in the state of Ihram and the pagans did not allow us to proceed (to the Ka'ba). I had thick hair and lice started falling on my face. The Prophet passed by me and said, "Are the lice of your head troubling you?" I replied, Yes." (The sub-narrator added, "Then the following Divine Verse was revealed:-- "And if anyone of you is ill or has an ailment in his scalp, (necessitating shaving) must pay a ransom (Fida) of either fasting or feeding the poor, Or offering a sacrifice." (2.196)