قضاکی مختلف احادیث کا بیان اور قضا کے مکروة ہونے کا بیان

عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ أَبَا الدَّرْدَائِ کَتَبَ إِلَی سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ أَنْ هَلُمَّ إِلَی الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ فَکَتَبَ إِلَيْهِ سَلْمَانُ إِنَّ الْأَرْضَ لَا تُقَدِّسُ أَحَدًا وَإِنَّمَا يُقَدِّسُ الْإِنْسَانَ عَمَلُهُ وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّکَ جُعِلْتَ طَبِيبًا تُدَاوِي فَإِنْ کُنْتَ تُبْرِئُ فَنَعِمَّا لَکَ وَإِنْ کُنْتَ مُتَطَبِّبًا فَاحْذَرْ أَنْ تَقْتُلَ إِنْسَانًا فَتَدْخُلَ النَّارَ فَکَانَ أَبُو الدَّرْدَائِ إِذَا قَضَی بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ أَدْبَرَا عَنْهُ نَظَرَ إِلَيْهِمَا وَقَالَ ارْجِعَا إِلَيَّ أَعِيدَا عَلَيَّ قِصَّتَکُمَا مُتَطَبِّبٌ وَاللَّهِ-
یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ابوالدرداء نے سلمان فارسی کو لکھا کہ چلے آؤ مقدس زمین میں سلمان نے جواب لکھا کہ زمین کسی کو مقدس نہیں کرتی بلکہ آدمی کو اس کے عمل مقدس کرتے ہیں اور میں نے سنا ہے تم طبیب بنے ہو لوگوں کی دوا کرتے ہو اگر تم لوگوں کو دوا سے اچھا کرتے ہو تو بہتر ہے اور اگر تم طب نہیں جانتے تو اور خواہ مخواہ طبیب بن گئے تو بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی آدمی کو مار ڈالو تو جہنم میں جاؤ پھر ابوالدردا جب فیصلہ کیا کرتے دو شخصوں میں اور وہ جانے لگتے تو دوبارہ ان کو بلاتے اور کہتے پھر بیان کرو اپنا قصہ میں تو و اللہ طب نہیں جانتا یوں ہی علاج کرتا ہوں ۔
Malik related to me from Yahya ibn Said that Abu'd-Darda wrote to Salman al-Farsi, "Come immediately to the holy land." Salman wrote back to him, "Land does not make anyone holy. Man's deeds make him holy. I have heard that you were put up as a doctor to treat and cure people. If you are innocent, then may you have delight! If you are a quack, then beware lest you kill a man and enter the Fire!" When Abu'd-Darda judged between two men, and they turned from him to go, he would look at them and say, "Come back to me, and tell me your story again. A quack! By Allah!"
قَالَ مَالِک يَقُولُ مَنْ اسْتَعَانَ عَبْدًا بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ فِي شَيْئٍ لَهُ بَالٌ وَلِمِثْلِهِ إِجَارَةٌ فَهُوَ ضَامِنٌ لِمَا أَصَابَ الْعَبْدَ إِنْ أُصِيبَ الْعَبْدُ بِشَيْئٍ وَإِنْ سَلِمَ الْعَبْدُ فَطَلَبَ سَيِّدُهُ إِجَارَتَهُ لِمَا عَمِلَ فَذَلِکَ لِسَيِّدِهِ وَهُوَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا قَالَ مَالِک يَقُولُ فِي الْعَبْدِ يَکُونُ بَعْضُهُ حُرًّا وَبَعْضُهُ مُسْتَرَقًّا إِنَّهُ يُوقَفُ مَالُهُ بِيَدِهِ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُحْدِثَ فِيهِ شَيْئًا وَلَکِنَّهُ يَأْکُلُ فِيهِ وَيَکْتَسِي بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا هَلَکَ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَقِيَ لَهُ فِيهِ الرِّقُّ قَالَ مَالِک يَقُولُ الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ الْوَالِدَ يُحَاسِبُ وَلَدَهُ بِمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ مِنْ يَوْمِ يَکُونُ لِلْوَلَدِ مَالٌ نَاضًّا کَانَ أَوْ عَرْضًا إِنْ أَرَادَ الْوَالِدُ ذَلِکَ-
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے دوسرے کے غلام سے بغیر اس کی اجازت کے کسی بڑے کام میں مدد لی جس کے واسطے نوکر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یا مزدوربلانے کی اور غلام میں کوئی عیب ہو گیا اس کام کرنے کی وجہ سے تو اس پر ضمان لازم آئے گی اور جو غلام صحیح وسالم رہا اور اس کے مولیٰ (مالک) نے مزدوری طلب کی تو مزدوری دینی پڑے گی۔ کہا مالک نے اگر غلام کا ایک حصہ آزاد ہو اور کچھ فقیق (مملوک) تو مال اس کا اس کے پاس رہے گا اگر اس میں کوئی نیا کام نہیں کرسکتا بلکہ بقدرضرورت کھاتاپیتا ہے تو جب مرجائے گا تو وہ مال اس کو ملے گا جس کی ملک باقی تھی۔ کہا مالک نے جس روز سے لڑکا مالدار ہوجائے تو والد نے جو اس پر خرچ کیا ہو اس روز سے حساب کر کے اس سے کٹوتی لے سکتا ہے اگر چاہے، خواہ مال لڑکے کا نقد کی قسم سے ہو یا جنس کی قسم سے۔
Yahya said that he heard Malik say, "If someone makes use of a slave, without permission of its master, in anything important to him, whose like has a fee, he is liable for what befalls the slave if anything befalls him. If the slave is safe and his master asks for his wage for what he has done, that is the master's right. This is what is done in our community."
عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ دَلَافٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُهَيْنَةَ کَانَ يَسْبِقُ الْحَاجَّ فَيَشْتَرِي الرَّوَاحِلَ فَيُغْلِي بِهَا ثُمَّ يُسْرِعُ السَّيْرَ فَيَسْبِقُ الْحَاجَّ فَأَفْلَسَ فَرُفِعَ أَمْرُهُ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّ الْأُسَيْفِعَ أُسَيْفِعَ جُهَيْنَةَ رَضِيَ مِنْ دِينِهِ وَأَمَانَتِهِ بِأَنْ يُقَالَ سَبَقَ الْحَاجَّ أَلَا وَإِنَّهُ قَدْ دَانَ مُعْرِضًا فَأَصْبَحَ قَدْ رِينَ بِهِ فَمَنْ کَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا بِالْغَدَاةِ نَقْسِمُ مَالَهُ بَيْنَهُمْ وَإِيَّاکُمْ وَالدَّيْنَ فَإِنَّ أَوَّلَهُ هَمٌّ وَآخِرَهُ حَرْبٌ-
عمر بن عبدالرحمن بن دلاف مزنی سے روایت ہے کہ ایک شخص قبیلہ جہینہ کا سب حاجیوں سے آگے جا کر اچھے اچھے مہنگے اونٹ خریدا کرتا تھا اور جلدی چلا کرتا تھا سب حاجیوں سے پہلے پہنچتا تھا ایک بار وہ مفلس ہو گیا اور اس کا مقدمہ حضرت عمر کے پاس آیا آپ نے کہا بعد حمد وصلوۃ کے لوگوں کو معلوم ہو کہ اسیفع نے جو جہنیہ کے قبیلے کا ہے دین اور امانت میں بھی بات پسند کی کہ لوگ اس کو کہا کریں کہ وہ سب حاجیوں سے پہلے پہنچا آگاہ رہو کہ اس نے قرض خریدا ادا کرنے کا خیال نہ رکھا تو وہ مفلس ہو گیا اور قرض نے اس کے مال کو لپیٹ لیا تو جس شخص کا اس پر قرض آتا ہے وہ ہمارے پاس صبح کو آئے ہم اس کا مال قرضخواہوں کو تقسیم کریں گے تم لوگوں کو چاہیے کہ قرض لینے سے پرہیز کرو قرض میں لیتے ہی رنج ہوتا ہے اور آخر میں لڑائی ہوتی ہے
Malik related to me from Umar ibn Abd ar-Rahman ibn Dalaf al-Muzani from his father that a man from the Juhayna tribe used to buy camels before people set out for hajj and sell them at a higher price. Then he travelled quickly and used to arrive in Makka before the others who set out for hajj. He went bankrupt and his situation was put before Umar ibn al-Khattab, who said, "O People! al-Usayfi, al-Usayfi of the Juhayna, was satisfied with his deen and his trust because it was said of him that he arrived before the others on hajj. He used to incur debts which he was not careful to repay, so all of his property has been eaten up by it. Whoever has a debt against him, let him come to us tomorrow and we will divide his property between his creditors. Beware of debts! Their beginning is a worry and their end is destitution. "