قرض کے مختلف مسائل کا بیان

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلَی مَلِيئٍ فَلْيَتْبَعْ-
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالدار شخص کا دیر کرنا قرض ادا کرنے میں ظلم ہے اور جب تم میں سے کوئی حوالہ کیا جائے مالدار شخص پر تو چاہے کہ حوالہ قبول کرلے ۔
-
عَنْ مُوسَی بْنِ مَيْسَرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَسْأَلُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ إِنِّي رَجُلٌ أَبِيعُ بِالدَّيْنِ فَقَالَ سَعِيدٌ لَا تَبِعْ إِلَّا مَا آوَيْتَ إِلَی رَحْلِکَ قَالَ مَالِك فِي الَّذِي يَشْتَرِي السِّلْعَةَ مِنْ الرَّجُلِ عَلَى أَنْ يُوَفِّيَهُ تِلْكَ السِّلْعَةَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِمَّا لِسُوقٍ يَرْجُو نَفَاقَهَا فِيهِ وَإِمَّا لِحَاجَةٍ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ الَّذِي اشْتَرَطَ عَلَيْهِ ثُمَّ يُخْلِفُهُ الْبَائِعُ عَنْ ذَلِكَ الْأَجَلِ فَيُرِيدُ الْمُشْتَرِي رَدَّ تِلْكَ السِّلْعَةِ عَلَى الْبَائِعِ إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لِلْمُشْتَرِي وَإِنَّ الْبَيْعَ لَازِمٌ لَهُ وَإِنَّ الْبَائِعَ لَوْ جَاءَ بِتِلْكَ السِّلْعَةِ قَبْلَ مَحِلِّ الْأَجَلِ لَمْ يُكْرَهْ الْمُشْتَرِي عَلَى أَخْذِهَا قَالَ مَالِك فِي الَّذِي يَشْتَرِي الطَّعَامَ فَيَكْتَالُهُ ثُمَّ يَأْتِيهِ مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنْهُ فَيُخْبِرُ الَّذِي يَأْتِيهِ أَنَّهُ قَدْ اكْتَالَهُ لِنَفْسِهِ وَاسْتَوْفَاهُ فَيُرِيدُ الْمُبْتَاعُ أَنْ يُصَدِّقَهُ وَيَأْخُذَهُ بِكَيْلِهِ إِنَّ مَا بِيعَ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ بِنَقْدٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَمَا بِيعَ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ إِلَى أَجَلٍ فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ حَتَّى يَكْتَالَهُ الْمُشْتَرِي الْآخَرُ لِنَفْسِهِ وَإِنَّمَا كُرِهَ الَّذِي إِلَى أَجَلٍ لِأَنَّهُ ذَرِيعَةٌ إِلَى الرِّبَا وَتَخَوُّفٌ أَنْ يُدَارَ ذَلِكَ عَلَى هَذَا الْوَجْهِ بِغَيْرِ كَيْلٍ وَلَا وَزْنٍ فَإِنْ كَانَ إِلَى أَجَلٍ فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَلَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا قَالَ مَالِك لَا يَنْبَغِي أَنْ يُشْتَرَى دَيْنٌ عَلَى رَجُلٍ غَائِبٍ وَلَا حَاضِرٍ إِلَّا بِإِقْرَارٍ مِنْ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ وَلَا عَلَى مَيِّتٍ وَإِنْ عَلِمَ الَّذِي تَرَكَ الْمَيِّتُ وَذَلِكَ أَنَّ اشْتِرَاءَ ذَلِكَ غَرَرٌ لَا يُدْرَى أَيَتِمُّ أَمْ لَا يَتِمُّ قَالَ وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا اشْتَرَى دَيْنًا عَلَى غَائِبٍ أَوْ مَيِّتٍ أَنَّهُ لَا يُدْرَى مَا يَلْحَقُ الْمَيِّتَ مِنْ الدَّيْنِ الَّذِي لَمْ يُعْلَمْ بِهِ فَإِنْ لَحِقَ الْمَيِّتَ دَيْنٌ ذَهَبَ الثَّمَنُ الَّذِي أَعْطَى الْمُبْتَاعُ بَاطِلًا قَالَ مَالِك وَفِي ذَلِكَ أَيْضًا عَيْبٌ آخَرُ أَنَّهُ اشْتَرَى شَيْئًا لَيْسَ بِمَضْمُونٍ لَهُ وَإِنْ لَمْ يَتِمَّ ذَهَبَ ثَمَنُهُ بَاطِلًا فَهَذَا غَرَرٌ لَا يَصْلُحُ قَالَ مَالِك وَإِنَّمَا فُرِقَ بَيْنَ أَنْ لَا يَبِيعَ الرَّجُلُ إِلَّا مَا عِنْدَهُ وَأَنْ يُسَلِّفَ الرَّجُلُ فِي شَيْءٍ لَيْسَ عِنْدَهُ أَصْلُهُ أَنَّ صَاحِبَ الْعِينَةِ إِنَّمَا يَحْمِلُ ذَهَبَهُ الَّتِي يُرِيدُ أَنْ يَبْتَاعَ بِهَا فَيَقُولُ هَذِهِ عَشَرَةُ دَنَانِيرَ فَمَا تُرِيدُ أَنْ أَشْتَرِيَ لَكَ بِهَا فَكَأَنَّهُ يَبِيعُ عَشَرَةَ دَنَانِيرَ نَقْدًا بِخَمْسَةَ عَشَرَ دِينَارًا إِلَى أَجَلٍ فَلِهَذَا كُرِهَ هَذَا وَإِنَّمَا تِلْكَ الدُّخْلَةُ وَالدُّلْسَةُ-
موسی بن میسرہ نے سنا ایک شخص پوچھ رہا تھا سعید بن مسیب سے میں قرض کے بدل میں بیچا کرتا ہوں سعید نے کہا تو نہ بیچ مگر اس چیز کو جو تیرے پاس ہو ۔ کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز خرید کرے اس شرط پر کہ بائع وہ شئے مشتری کو اتنی مدت میں سپرد کردے اس میں مشتری نے کوئی مصلحت رکھی ہو مثلا اس وقت بازار میں اس مال کی نکاسی کی امید ہو یا اور کچھ غرض ہو پھر بائع اس وعدے میں خلاف کر اور مشتری چاہے کہ وہ شئے بائع کو پھیر دے تو مشتری کو یہ حق نہیں پہنچتا اور بیع لازم رہے گی اگر بائع اس شئے کو قبل میعاد کے لیے آیا تو مشتری پر جبر نہ کیا جائے گا اس کے لینے پر۔ کہا مالک نے جو شخص اناج خرید کر اس کو تول لے پھر ایک خریدار آئے جو مشتری سے اس اناج کو خرید کرنا چاہے مشتری اس سے کہے کہ میں اناج تول چکا ہوں اور وہ شخص مشتری کو سچا سمجھ کر اس غلے کو نقد مول لے لے تو کچھ قباحت نہیں مگر وعدے پر لینا مکروہ ہے جب تک وہ خریدار دوبارہ اس کو تول نہ لے۔ کہا مالک نے دین کا خریدنا درست نہیں خواہ غائب پر ہو یا حاضر پر مگر جب شخص حاضر اس کا اقرار کرے اسی طرح جو دین میت پر ہو اس کا بھی خریدنا درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکا ہے معلوم نہیں وہ قرض ملتا ہے یا نہیں اس واسطے اگر میت یا غائب پر اور بھی دین نکلا تو اس کے پیسے مفت گئے دوسرے یہ کہ وہ قرض اس کی ضمان میں داخل نہیں ہو اگر نہ پنٹا تو اس کے پیسے مفت گئے۔ کہا مالک نے بیع سلف(قرض) میں اور بیع عینہ میں یہ فرق ہے کہ بیع عینہ والا دس دینار نقد دے کر پندرہ دینار وعدے پر لیتا ہے تو یہ صریح دھوکا ہے اور بالکل فریب ہے۔
-