TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
موطا امام مالک
کتاب بیع کے بیان میں
قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان
عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ مَتَاعًا فَأَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَهُ مِنْهُ وَلَمْ يَقْبِضْ الَّذِي بَاعَهُ مِنْ ثَمَنِهِ شَيْئًا فَوَجَدَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ وَإِنْ مَاتَ الَّذِي ابْتَاعَهُ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ فِيهِ أُسْوَةُ الْغُرَمَائِ-
ابی بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع کو ثمن وصول نہیں ہوئی لیکن بائع نے اپنی چیز بجنسہ مشتری کے پاس پائی تو بائع اس چیز کا زیادہ حقدار ہوگا اگر مشتری مر گیا تو اس چیز میں بائع اور قرضخواہوں کے برابر ہوگا۔
-
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ أَفْلَسَ فَأَدْرَکَ الرَّجُلُ مَالَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ بَاعَ مِنْ رَجُلٍ مَتَاعًا فَأَفْلَسَ الْمُبْتَاعُ فَإِنَّ الْبَائِعَ إِذَا وَجَدَ شَيْئًا مِنْ مَتَاعِهِ بِعَيْنِهِ أَخَذَهُ وَإِنْ كَانَ الْمُشْتَرِي قَدْ بَاعَ بَعْضَهُ وَفَرَّقَهُ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِهِ مِنْ الْغُرَمَاءِ لَا يَمْنَعُهُ مَا فَرَّقَ الْمُبْتَاعُ مِنْهُ أَنْ يَأْخُذَ مَا وَجَدَ بِعَيْنِهِ فَإِنْ اقْتَضَى مِنْ ثَمَنِ الْمُبْتَاعِ شَيْئًا فَأَحَبَّ أَنْ يَرُدَّهُ وَيَقْبِضَ مَا وَجَدَ مِنْ مَتَاعِهِ وَيَكُونَ فِيمَا لَمْ يَجِدْ أُسْوَةَ الْغُرَمَاءِ فَذَلِكَ لَهُ قَالَ مَالِك وَمَنْ اشْتَرَى سِلْعَةً مِنْ السِّلَعِ غَزْلًا أَوْ مَتَاعًا أَوْ بُقْعَةً مِنْ الْأَرْضِ ثُمَّ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ الْمُشْتَرَى عَمَلًا بَنَى الْبُقْعَةَ دَارًا أَوْ نَسَجَ الْغَزْلَ ثَوْبًا ثُمَّ أَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَ ذَلِكَ فَقَالَ رَبُّ الْبُقْعَةِ أَنَا آخُذُ الْبُقْعَةَ وَمَا فِيهَا مِنْ الْبُنْيَانِ إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لَهُ وَلَكِنْ تُقَوَّمُ الْبُقْعَةُ وَمَا فِيهَا مِمَّا أَصْلَحَ الْمُشْتَرِي ثُمَّ يُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُ الْبُقْعَةِ وَكَمْ ثَمَنُ الْبُنْيَانِ مِنْ تِلْكَ الْقِيمَةِ ثُمَّ يَكُونَانِ شَرِيكَيْنِ فِي ذَلِكَ لِصَاحِبِ الْبُقْعَةِ بِقَدْرِ حِصَّتِهِ وَيَكُونُ لِلْغُرَمَاءِ بِقَدْرِ حِصَّةِ الْبُنْيَانِ قَالَ مَالِك وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنْ تَكُونَ قِيمَةُ ذَلِكَ كُلِّهِ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَخَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَتَكُونُ قِيمَةُ الْبُقْعَةِ خَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَقِيمَةُ الْبُنْيَانِ أَلْفَ دِرْهَمٍ فَيَكُونُ لِصَاحِبِ الْبُقْعَةِ الثُّلُثُ وَيَكُونُ لِلْغُرَمَاءِ الثُّلُثَانِ قَالَ مَالِك وَكَذَلِكَ الْغَزْلُ وَغَيْرُهُ مِمَّا أَشْبَهَهُ إِذَا دَخَلَهُ هَذَا وَلَحِقَ الْمُشْتَرِيَ دَيْنٌ لَا وَفَاءَ لَهُ عِنْدَهُ وَهَذَا الْعَمَلُ فِيهِ قَالَ مَالِك فَأَمَّا مَا بِيعَ مِنْ السِّلَعِ الَّتِي لَمْ يُحْدِثْ فِيهَا الْمُبْتَاعُ شَيْئًا إِلَّا أَنَّ تِلْكَ السِّلْعَةَ نَفَقَتْ وَارْتَفَعَ ثَمَنُهَا فَصَاحِبُهَا يَرْغَبُ فِيهَا وَالْغُرَمَاءُ يُرِيدُونَ إِمْسَاكَهَا فَإِنَّ الْغُرَمَاءَ يُخَيَّرُونَ بَيْنَ أَنْ يُعْطُوا رَبَّ السِّلْعَةِ الثَّمَنَ الَّذِي بَاعَهَا بِهِ وَلَا يُنَقِّصُوهُ شَيْئًا وَبَيْنَ أَنْ يُسَلِّمُوا إِلَيْهِ سِلْعَتَهُ وَإِنْ كَانَتْ السِّلْعَةُ قَدْ نَقَصَ ثَمَنُهَا فَالَّذِي بَاعَهَا بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ أَنْ يَأْخُذَ سِلْعَتَهُ وَلَا تِبَاعَةَ لَهُ فِي شَيْءٍ مِنْ مَالِ غَرِيمِهِ فَذَلِكَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَكُونَ غَرِيمًا مِنْ الْغُرَمَاءِ يُحَاصُّ بِحَقِّهِ وَلَا يَأْخُذُ سِلْعَتَهُ فَذَلِكَ لَهُ و قَالَ مَالِك فِيمَنْ اشْتَرَى جَارِيَةً أَوْ دَابَّةً فَوَلَدَتْ عِنْدَهُ ثُمَّ أَفْلَسَ الْمُشْتَرِي فَإِنَّ الْجَارِيَةَ أَوْ الدَّابَّةَ وَوَلَدَهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَرْغَبَ الْغُرَمَاءُ فِي ذَلِكَ فَيُعْطُونَهُ حَقَّهُ كَامِلًا وَيُمْسِكُونَ ذَلِكَ-
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ کہا مالک نے جس شخص نے کوئی اسباب بیچا پھر مشتری مفلس ہوگیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی تو بائع اس کو لے لے گا اگر مشتری نے اس میں سے کچھ بیچ ڈالا ہے تو جس قدر باقی ہے اس کا بائع زیادہ حقدار ہے بہ نسبت اور قرضخواہوں کے ۔ اگر بائع تھوڑی سی ثمن پاچکا ہے پھر بائع یہ چاہے کہ اس ثمن کو پھیر کر جس قدر اسباب اپنا باقی ہے اس کو لے لے اور جو کچھ باقی رہ جائے اس میں اور قرضخواہوں کے برابر ہے تو ہو سکتا ہے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے سوت یا زمین خریدی پھر سوت کا کپڑا بن لیا اور زمین پر مکان بنایا بعد اسکے مشتری مفلس ہوگیا اب زمین کا بائع یہ کہے کہ میں زمین اور مکان سب لیے لیتا ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ زمین کی اور عملے کی قیمت لگائیں کے پھر دیکھیں گے اس قیمت کا حصہ زمین پر کتنا آتا ہے اور عملے پر کتنا آتا ہے اب بائع اور مشتری دونوں اس میں شریک رہیں گے زمین کا مالک اپنے حصہ کے موافق اور باقی قرضخواہ عملے کے موافق ۔ کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے جیسے زمین اور عملے کی قیمت پندرہ سو ہوئی اس میں سے زمین کی قیمت پانچ سو ہے اور عملے کی ہزار ہے تو زمین والے کا ایک ثلث ہوگا اور باقی قرضخواہوں کے دو ثلث ہوں گے ۔ کہا مالک نے یہی حکم سوت میں ہے جب کہ مشتری نے اس کو بن لیا بعد اس کے قرضدار ہو کر مفلس ہوگیا۔ کہا مالک نے اگر مشتری نے اس چیز میں تصرف نہیں کیا مگر اس چیز کی قیمت بڑھ گئی اب بائع یہ چاہتا ہے کہ اپنی شئے پھیر لے اور قرضخواہ چاہتے ہیں کہ وہ شئے بائع کو نہ دیں گو قرضخواہ ہوں کو اختیار ہے خواہ بائع کی ثمن پوری پوری حوالے کردیں ۔ اگر اس چیز کی قیمت گھٹ گئی تو بائع کو اختیار ہے خواہ اپنی چیز لے لے پھر اس کو مشتری کے مال سے کچھ غرض نہ ہوگی خواہ اپنی چیز نہ لے اور قرضخواہوں کے ساتھ شریک ہوجائے۔ کہا مالک رحمة اللہ علیہ نے اگر کسی شخص نے لونڈی خریدی یا جانور خریدا پھر اس لونڈی یا جانور کا مشتری کے پاس آن کر بچہ پیدا ہوا بعد اس کے مشتری مفلس ہوگیا تو وہ بچہ بائع ہوگا البتہ اگر قرضخواہ بائع کی پوری ثمن ادا کردیں تو بچہ کو اور اس کی ماں کو دونوں کو رکھ سکتے ہیں ۔
-