حد قذف کا اور نفی نسب کا اور اشارے کنائے میں دوسرے کو گالی دینے کا بیان

عَنْ أَبِي الزِّنَادِ أَنَّهُ قَالَ جَلَدَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَبْدًا فِي فِرْيَةٍ ثَمَانِينَ قَالَ أَبُو الزِّنَادِ فَسَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَدْرَکْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَالْخُلَفَائَ هَلُمَّ جَرًّا فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا جَلَدَ عَبْدًا فِي فِرْيَةٍ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ-
ابو زناد سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک غلام کو حد قذف کے اسی کوڑے لگائے تو میں نے عبداللہ بن عامر سے پوچھا انہوں نے کہا میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان اور خلفاء کو ان کے بعد دیکھا کہ کسی نے غلام کو حد قذف میں چالیس کوڑے سے زیادہ نہیں لگائے ۔
Malik related to me from Abu'z-Zinad that he said, ''Umar ibn Abd al-Aziz flogged a slave with eighty lashes for slander." Abu'z-Zinad said, "I asked Abdullah ibn Amir ibn Rabia about that. He said, 'I saw Umar ibn al-Khattab, Uthman ibn Affan, the Khalifs, and so on, and I did not see any of them flog a slave more than forty lashes for slander.' "
عَنْ زُرَيْقِ بْنِ حَکِيمٍ الْأَيْلِيِّ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ مِصْبَاحٌ اسْتَعَانَ ابْنًا لَهُ فَکَأَنَّهُ اسْتَبْطَأَهُ فَلَمَّا جَائَهُ قَالَ لَهُ يَا زَانٍ قَالَ زُرَيْقٌ فَاسْتَعْدَانِي عَلَيْهِ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَجْلِدَهُ قَالَ ابْنُهُ وَاللَّهِ لَئِنْ جَلَدْتَهُ لَأَبُوئَنَّ عَلَی نَفْسِي بِالزِّنَا فَلَمَّا قَالَ ذَلِکَ أَشْکَلَ عَلَيَّ أَمْرُهُ فَکَتَبْتُ فِيهِ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ الْوَالِي يَوْمَئِذٍ أَذْکُرُ لَهُ ذَلِکَ فَکَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ أَنْ أَجِزْ عَفْوَهُ قَالَ زُرَيْقٌ وَکَتَبْتُ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَيْضًا أَرَأَيْتَ رَجُلًا افْتُرِيَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَی أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَکَا أَوْ أَحَدُهُمَا قَالَ فَکَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ إِنْ عَفَا فَأَجِزْ عَفْوَهُ فِي نَفْسِهِ وَإِنْ افْتُرِيَ عَلَی أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَکَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَخُذْ لَهُ بِکِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ سِتْرًا قَالَ مَالِک يَقُولُ وَذَلِکَ أَنْ يَکُونَ الرَّجُلُ الْمُفْتَرَی عَلَيْهِ يَخَافُ إِنْ کُشِفَ ذَلِکَ مِنْهُ أَنْ تَقُومَ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَإِذَا کَانَ عَلَی مَا وَصَفْتُ فَعَفَا جَازَ عَفْوُهُ-
زریق بن حکیم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جس کا نام مصباح تھا اپنے بیٹے کو کسی کام کے واسطے بلایا اس نے دیر کی جب آیا تو مصباح نے کہا کہ اے زانی، کہا زریق نے اس لڑکے نے میرے پاس فریاد کی میں نے جب اس کے باپ کو حد مارنی چاہی تو وہ لڑکا بولا اگر تم میرے باپ کو کوڑوں سے مارو گے تو میں زنا کا اقرار کر لوں گا میں یہ سن کر حیران ہوا اور اس مقدمے کا فیصلہ کرنا مجھ پر دشوار ہوا تو میں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا وہ اس زمانے میں حاکم تھے مدینہ کے (سلمان بن عبدالملک کی طرف سے) عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا کہ لڑکے کے عفو کو جائز رکھ(یعنی بیٹے نے اگر باپ کو حد معاف کردی ہے تو عفو صحیح ہے) زریق نے کہا میں نے عمربن عبدالعزیز کو یہ بھی لکھا تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے پر تہمت زنا کی لگائے یا اس کے ماں باپ کو اور ماں باپ اس کے مر گئے ہوں یا دونوں میں سے ایک مر گیا ہو تو پھر کیا کرے، عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ جس شخص کو تہمت زنا کی لگائے اگر وہ معاف کر دے تو عفو درست ہے لیکن اگر اس کے والدین کو تہمت زنا کی لگائے تو اس کا عفو کر دینا درست نہیں جب کہ والدین مر گئے ہوں یا ان دو میں سے ایک مر گیا ہو بلکہ حد لگا اس کو موافق کتاب اللہ کے مگر جب بیٹا اپنے والدین کا حال چھپانے کے واسطے عفو کر دے تو عفو درست ہے ۔ کہا مالک نے یعنی اس کو خوف ہو اگر میں تہمت لگانے والے کو معاف نہ کروں گا تو والدین کا زنا گواہوں سے ثابت ہوجائے گا اس وجہ سے عفو کردے تو عفو درست ہے۔
Malik related to me from Zurayq ibn Hakim al-Ayli that a man called Misbah asked his son for help and he thought him unnecessarily slow. When the son came, his father said to him, "O fornicator." Zurayq said, "So the son asked me to help him against the father. When I wanted to flog him, his son said, 'By Allah, if you flog him, I will acknowledge that I have committed fornication.' When he said that, the situation was confused for me, so I wrote about it to Umar ibn Abd al-Aziz who was the governor at that time, and I mentioned it to him. Umar wrote me to permit his pardon." Zurayq said, "I wrote to Umar ibn Abd al-Aziz also, 'What do you think about a man who is slandered or his parents are slandered and both or only one of them are dead?' He said, Umar wrote to me, 'If he forgives, his pardon is permitted for himself. If his parents are slandered and one or both of them are dead, take the judgement of the Book of Allah for it unless he wants to veil it.' "
عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ فِي رَجُلٍ قَذَفَ قَوْمًا جَمَاعَةً أَنَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِ إِلَّا حَدٌّ وَاحِدٌ قَالَ مَالِک وَإِنْ تَفَرَّقُوا فَلَيْسَ عَلَيْهِ إِلَّا حَدٌّ وَاحِدٌ-
عروہ بن زبیر نے کہا کہ جو شخص بہت سے آدمیوں پر ایک ہی قول میں زنا کی تہمت لگائے تو اس پر ایک ہی حد پڑے گی۔
Malik related to me from Hisham ibn Urwa that his father said that there was only one hadd against a man who slandered a group of people. Malik said, "If they are on separate occasions there is still only one hadd against him."
عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ رَجُلَيْنِ اسْتَبَّا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ وَاللَّهِ مَا أَبِي بِزَانٍ وَلَا أُمِّي بِزَانِيَةٍ فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ قَائِلٌ مَدَحَ أَبَاهُ وَأُمَّهُ وَقَالَ آخَرُونَ قَدْ کَانَ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ مَدْحٌ غَيْرُ هَذَا نَرَی أَنْ تَجْلِدَهُ الْحَدَّ فَجَلَدَهُ عُمَرُ الْحَدَّ ثَمَانِينَ قَالَ مَالِک لَا حَدَّ عِنْدَنَا إِلَّا فِي نَفْيٍ أَوْ قَذْفٍ أَوْ تَعْرِيضٍ يُرَی أَنَّ قَائِلَهُ إِنَّمَا أَرَادَ بِذَلِکَ نَفْيًا أَوْ قَذْفًا فَعَلَی مَنْ قَالَ ذَلِکَ الْحَدُّ قَالَ مَالِک الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ إِذَا نَفَی رَجُلٌ رَجُلًا مِنْ أَبِيهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ الْحَدَّ وَإِنْ کَانَتْ أُمُّ الَّذِي نُفِيَ مَمْلُوکَةً فَإِنَّ عَلَيْهِ الْحَدَّ-
عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ دو مردوں نے گالی گلوچ کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک نے دوسرے سے کہا قسم خدا کی میرا باپ تو بدکار نہ تھا نہ میری ماں بدکار تھی حضرت عمرنے اس بات میں مشورہ کیا ایک شخص بولا اس میں کیا برائی ہے اس نے اپنے باپ اور ماں کی خوبیاں بیان کیں اور لوگوں نے کہا کیا اس کے باپ اور ماں کی صرف یہی خوبی تھی ہمارے نزدیک اس کو حد قذف مارنی چاہیے کہا مالک نے ہمارے نزدیک حد نہیں ہے مگر قذف میں یا نفی میں (نفی کہتے ہیں نسب دور کرنے کو مثلا یہ کہنا تو اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہے) یا تعریض میں (یعنی اشارے کنائے میں کسی کو گالی دینا جیسے ابھی بیان ہوا) ان سب صورتوں میں حد پوری پوری لازم آئے گی لیکن یہ ضروری ہے کہ تعریض سے نفی یا قذف مقصود ہونا معلوم ہو جائے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جب کوئی کسی کو اسی کے باپ سے نفی کرے تو حد واجب ہوگی اگرچہ اس کی ماں لونڈی ہی کیوں نہ ہو۔
Malik related to me from Abu'r-Rijal Muhammad ibn Abd ar-Rahman ibn Haritha ibn an-Numan al-Ansari, then from the Banu'n-Najar from his mother Amra bint Abd ar-Rahman that two men cursed each other in the time of Umar ibn al-Khattab. One of them said to the other, " By Allah, my father is not an adulterer and my mother is not an adulteress." Umar ibn al-Khattab asked advice about that. One person said, "He has praised his father and mother." Another said, "His father and mother have praise other than this. We think that he is to be flogged with the hadd." So Umar flogged him with the hadd of eighty lashes.