TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
پاکی کا بیان
پاخانہ کے آداب کا بیان
--
آداب ان چیزوں کو کہتے ہیں کہ جس کا ذکر کرنا اچھا اور بہتر ہو وہ چیزیں خواہ عمل سے تعلق رکھتی ہوں خواہ قول سے چنانچہ اس بات میں ان احادیث کو ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق استنجاء کے آداب سے ہے یعنی ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء کے سلسلے میں ممنوع و مکر وہ ہیں اور ان چیزوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو استنجاء میں مطلوب و مستحب ہیں۔
-
عَنْ اَبِیْ اَےُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَتَےْتُمُ الْغَآئِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوْھَا وَلٰٰکِنْ شَرِّقُوْا اَوْ غَرِّبُوْا (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) قَالَ الشَّےْخُ الْاِمَامُ مُحْیْ السُّنَّۃِ رَحِمَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الْحَدِےْثُ فِی الصَّحْرَآءِ وَاَمَّا فِی الْبُنْےَانِ فَلَا بَاْسَ لِمَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَ ارْتَقَےْتُ فَوْقَ بَےْتِ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَالِبَعْضِ حَاجَتِیْ فَرَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقْضِیْ حَاجَتَہُ مُسْتَدْبِرَا لْقِبْلَۃِ مُسْتَقْبِلَ الشَّامِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوایوب انصاری (اسم گرامی خالد ابن زید ہے اور کنیت ابوایوب ہے ٥٠ھ یا ٥١ھ میں ان کا انتقال ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم بیت الخلاء جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرو بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت رکھو (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) حضرت امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ یہ جنگل کا حکم ہے ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " میں اپنی ضرورت سے حفصہ کے مکان پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بیت الخلاء میں) قضاء حاجت کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : حدیث میں جہت اور سمت کا جو تعین فرمایا گیا ہے وہ اہل مدینہ کے اعتبار سے یا ان لوگوں کے لیے جو اسی سمت رہتے ہیں اس لیے کہ مدینہ میں قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے اس لیے ان کو تو مشرق اور مغرب ہی کی طرف منہ اور پشت کرنی ہوگی، ہمارے ملک والوں کے لیے یا ان ممالک کے لیے جو اس سمت میں واقع ہیں ان کو مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت نہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے اعتبار سے قبلہ مغرب کی طرف پڑتا ہے۔ بہر حال۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، ہمارے امام صاحب تو فرماتے ہیں کہ پیشاب، پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف نہ منہ کرنا چاہئے خواہ جنگل ہو یا آبادی و گھر ہو، اگر کرے گا تو مرتکب حرام ہوگا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا جنگل میں تو حرام ہے آبادی و گھر میں حرام نہیں ہے۔ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل پہلی حدیث ہے جو ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اس حدیث میں قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم مطلقاً ہے اس میں جنگل و آبادی و گھر کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا جو حکم جنگل کا ہوگا وہی حکم آبادی کا بھی ہوگا یہ حدیث نہ صرف یہ کہ حضرت ابوایوب ہی سے منقول ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد اس کی روایت کرتی ہے۔ پھر امام صاحب کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم قبلہ کی تعظیم و احترام کے پیش نظر دیا ہے لہٰذا جس طرح جنگل میں تعظیم قبلہ ملحوظ رہے گا اسی طرح آبادی و گھر میں بھی احترام قبلہ کا لحاظ ضروری ہوگا جیسا کہ قبلہ کی طرف تھوکنا اور پاؤں پھیلانا ہر جگہ منع ہے۔ امام محی السنۃ نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو حدیث روایت کی ہے وہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پشت کرنا گھر میں جائز ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اول تو یہ ہو سکتا ہے کہ عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر میں بیت الخلاء کے اندر قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے اس حکم کے نفاذ سے پہلے دیکھا ہوگا، لہٰذا یہ حکم پہلے کے لیے ناسخ ہے، پھر دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے نہیں بیٹھے ہوں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس انداز سے گھوم کر بیٹھے ہوں گے کہ حقیقت میں قبلہ کی طرف پشت نہ ہوگی اور ظاہر ہے کہ موقع کے نزاکت کے پیش نظر عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں کھڑے ہو کر بغور تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں ہوگا، بلکہ جب یہ چھت پر چڑھے تو ان کی نظر اچانک ادھر بیت الخلاء کی طرف اٹھ گئی ہوگی اس لیے اس میں سرسری طور پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے اس حدیث کے بارے میں جب یہ احتمال بھی نکل سکتا ہے تو پھر حضرت شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے مسلک کی دلیل کے لیے اس کا سہارا لینا کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
-
وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَ نَھَانَا ےَعْنِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ نَّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ لِغَآئِطٍ اَوْ بَوْلٍ اَوْ نَسْتَنْجِیَ بِالْےَمِےْنِ اَوْ اَنْ نَّسْتَنْجِیَ بِاَقَلَّ مِنْ ثَلٰثَۃِ اَحْجَارٍ اَوْ اَنْ نَّسْتَنْجِیَ بِرَجےِعْ ٍاَوْ بِعَظْمٍ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت سلمان (اسم گرامی سلمان فارسی اور کنیت ابوعبداللہ ہے۔ ان کی وفات ٣٥ھ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری زمانہ میں ہوئی ہے بعض لوگوں نے کہا کہ٣٦ھ کے اوائل میں ہوئی ہے۔) فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع کیا ہے اس سے کہ ہم پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں اور اس سے کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم تین ڈھیلوں سے کم استنجاء کریں اور اس سے کہ ہم گوبر یا ہڈی سے استنجاء کریں۔ " (صحیح مسلم) تشریح : ہمارے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا مکرہ تنزیہی ہے گویا پہلی نہی تو تحریمی ہے او دوسری تنزیہی ہے۔ اتنی بات جان لینی چاہئے کہ استنجاء کرنے کے وقت پیشاب گاہ کو دایاں ہاتھ نہ لگانا چاہئے بلکہ طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ڈھیلا بائیں ہاتھ میں لے کر اس پر پیشاب گاہ کو رکھ لے مگر دائیں ہاتھ سے پکڑ کر نہ رکھے کیونکہ یہ بھی مکروہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین ڈھیلوں سے استنجاء کرنا واجب ہے مگر ہمارے امام صاحب فرماتے ہیں کہ استنجاء کے لیے تین ڈھیلے لینا شرط نہیں ہے اگر تین سے کم ہی میں پاکی حاصل ہو جائے تو یہ بھی کافی ہے ان کی دلیل صحیح البخاری کی یہ حدیث ہے کہ " عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ کیلئے تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ تین ڈھیلے لاؤ مجھے ڈھیلے تو دو ہی ملے اس لیے میں اس کے ساتھ گوبر کا ایک ٹکڑا بھی لایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ڈھیلے تو لے لیے اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا۔"
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْخَلَآءَ ےَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ میں داخل ہوتے (یعنی داخل ہونے کا ارادہ کرتے) تو یہ دعا پڑھتے اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ناپاک جنوں اور جنیوں (یعنی نرما و مادہ دونوں سے)۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح : آداب پاخانہ میں سے یہ ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لیے بیت الخلاء میں جائے تو اندر داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لینی چاہئے، اگر پاخانہ کے لیے جنگل میں جائے تو عین ارادہ کے وقت یعنی دامن وغیرہ سمیٹ کر بیٹھنے لگے اس وقت یہ دعا پڑھ لے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِقَبْرَ ےْنِ فَقَالَ اِنَّھُمَا لَےُعَذَّبَانِ وَمَا ےُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِےْرٍ اَمَّااَحَدُھُمَا فَکَانَ لَا ےَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وََفِی رِوَاےَۃٍ لِمُسْلِمٍ لَا ےَسْتَنْزِہُ مِنَ الْبَوْلِ وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَکَانَ ےَمْشِیْ بِالنَّمِےْمَۃِ ثُمَّ اَخَذَ جَرِےْدَۃً رَّطْبَۃً فَشَقَّھَا بِنِصْفَےْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِیْ کُلِّ قَبْرٍ وَّاحِدَۃٍ قَالُوْا ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ لِمَ صَنَعْتَ ھٰذَا؟فَقَالَ لَعَلَّہُ اَنْ ےُّخَفَّفَ عَنْھُمَا مَالَمْ ےَےْبَسَا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کی پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انھیں دیکھ کر ) فرمایا کہ " ان دونوں قبر والوں پر عذاب نازل ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی چیز پر نہیں نازل ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہو) ان میں ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا " مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ" پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " کھجور کی " ایک ترشاخ لی اور اس کو بیچ سے آدھیوں آدھ چیرا انہیں ایک ایک کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔" صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ( یہ دیکھ کر) پوچھا " یا رسول اللہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا کیوں کیا ہے " ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " شاید (اس عمل سے) ان کے عذاب میں (اس وقت تک کے لیے) کچھ تخفیف ہو جائے جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح : " مسلم" کے الفاظ کی مناسبت سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلا آدمی جس پر اس کی قبر میں عذاب نازل ہو رہا تھا وہ تھا جو پیشاب سے پچتا نہیں تھا یعنی پیشاب کرتے وقت اس بات کی احتیاط نہیں کرتا تھا کہ چھینیٹں اس کے اوپر نہیں پڑتیں ایک دوسری روایت میں لا یستبراء کے الفاظ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ" وہ آدمی پیشاب سے پاکی طلب نہیں کرتا تھا " نیز ایک روایت میں لا یستنتر کے الفاظ مذکور ہیں استنا کے معنی آتے ہیں عضو تناسل کو زور سے جھاڑنا یا کھنچنا تاکہ پیشاب کے جو قطرے اندر رہ گئے ہوں وہ نکل جائیں اس طرح معنی یہ ہوں گے وہ آدمی پیشاب گاہ کو اچھی طرح جھاڑ کر پیشاب کے قطروں کو نکالتا نہ تھا۔ بہر حال ان تمام الفاظ کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے، مطلب سب کا یہی ہے کہ وہ پیشاب سے پاکی اور صفائی حاصل نہیں کرتا تھا اور چونکہ پیشاب سے پاکی حاصل نہ کرنا گناہ کبیرہ اور نماز کے بطلان کا سبب ہے اس لیے اسے اللہ کی جانب سے عذاب میں گرفتار کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک خاص بات ضروری ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ غلط اور گمراہ کن خیال پیدا ہو گیا ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ڈھیلے سے پیشاب خشک کرتے تھے اس لیے ہر آدمی کو چاہئے کہ پیشاب کے بعد ڈھیلے کا استعمال نہ کرے، یہ انتہائی گمراہی اور کم عقلی کی بات ہے، اگر کسی آدمی کا مزاج ہی اتنا قوی اور مضبوط ہو، نیز اسے اس بات کا یقین ہو کہ پیشاب سے فارغ ہو جانے کے بعد قطرے نہیں آئیں گے تو البتہ اس کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ صرف پانی سے استنجاء کرلے ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لیے ضروری نہیں ہوگا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال کرنا اس کے لیے ضروری نہیں ہوگا اور جس کے قطرہ دیر تک آتا ہو جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ ڈھیلے کا استعمال نہ کرے صرف پانی سے پاک کرے گا تو اس کے پائجامہ اور کپڑا وغیرہ گندا اور ناپاک ہوگا، جہاں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا سوال ہے تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج مبارک مضبوط اور قوٰی انتہائی طاقتور تھے اس لیے آپ ڈھیلے کا استعمال نہیں فرماتے تھے صرف پانی ہی سے استنجاء پاک کر لیتے تھے۔ پھر دوسرے یہ کہ وہ فعل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود ثابت نہ ہو مگر اس کا کرنا کسی نہ کسی وجہ سے مطلوب اور ضروری ہو تو اسے یہ کہہ کر نا قابل اعتناء قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ فعل چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اس لیے ہم بھی اسے نہیں کرتے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فصد نہیں کرائی ہے اب اگر کسی دوسرے کو فصد کی حاجت ہو اور وہ یہ کہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فصد نہیں کرائی ہے اس لیے میں فصد نہیں کراتا تو ظاہر ہے کہ یہ بات اسی کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ بہر حال مقصد یہ ہے کہ نظر شارع کی غرض پر ہونی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ شارع کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ " طہارت" ہے جس کی ہمیں تاکید کی گئی ہے اس لیے ہمیں تو طہارت حاصل کرنی چاہئے خواہ وہ کسی طرح حاصل ہو پانی سے حاصل ہو یا ڈھیلے سے اس قسم کے بیہودہ احتمالات نکال کر اور غلط حیلہ و بہانہ کر کے اپنے کپڑوں کو گندہ کرنا اور نجاست میں اپنے آپ کو ملوث کرنا اور پھر اسی طرح نماز پڑھنا انتہائی غلط اور گمراہی کی بات ہے، پیشاب سے بچنے اور اس سے احتیاط کرنے کی کتنی اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہو سکتا ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عذاب قبر اکثر پیشاب کی بناء پر ہوتا ہے (اس لیے) پیشاب سے پاکی حاصل کرو۔" یا اسی طرح فرمایا " پیشاب سے پرہیز کرو اس لیے کہ وہ اس چیز کا اول ہے جس کی وجہ سے بندہ قبر میں حساب (کی سختی) میں گرفتار ہوگا (طبرانی) پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ صحابی کا فعل حجت ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ " میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو بھی لازم پکڑو۔" چنانچہ حضرت عمر کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مصنف ابن ابی شیبہ میں منقول ہے کہ : ابوبکر عن یسار، بن نمیر کان عمر اذا بال مسح زکرہ بحائط او حجرلم یمسہ مائ۔ " حضرت عمر فاروق جب پیشاب کرتے تھے تو اپنا عضو تناسل دیوار پر یا پتھر پر پھیر تے تھے اور اس پر پانی لگاتے بھی نہیں تھے۔" نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ پر کہ پیشاب کے بعد ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے اہل سنت کا اتفاق و اجماع ہے، و اللہ علم " تمیمۃ" کے معنی ہیں سخن چینی، یعنی کوئی آدمی ایسے دو آدمیوں کی بات جن میں آپس میں دشمنی ہو ایک دوسرے تک فساد پھیلانے کے لیے پہنچائے یا کوئی آدمی دو آدمیوں میں دشمنی پیدا کرائے اس طرح کہ ایک کی بات دوسرے کے پاس قسم اور گالی وغیرہ اس انداز سے نقل کرے جس سے اشتغال پیدا ہو۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " نمیمہ" کہ معنی یہ ہیں کہ کسی کی گفتگو کسی دوسرے آدمی سے ضرر پہنچانے کے لیے نقل کی جائے بہر حال آج کل عرف عام ہے جسے " چغل خوری" فرماتے ہیں وہی معنی " نمیمہ" کے ہیں " چغل خوری" چونکہ انسانی اور اخلاقی نقطہ نظر سے انتہائی بدترین اور کمینی خصلت ہے اور اس لیے اسلام بھی چغل خور کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور چغل خوری کو ایک بدتر برائی قرار دیتا ہے چنانچہ صحیحین میں منقول ہے کہ " جنت میں چغل خور داخل نہیں ہوگا۔" حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کعب احبار سے جو ایک بڑے یہودی عالم تھے اور بعد میں اسلام لائے، پوچھا کہ تم نے توریت میں سے سب سے بڑا گناہ کون سا پڑھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ " چغل خوری" ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کہ اس کا گناہ قتل کے گناہ سے بھی زیادہ ہیبت ناک ہے ! انہوں نے کہا " قتل بھی چغل خوری ہی سے ہوتے ہیں اور دوسری برائیاں بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔" حدیث کے آخر میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ترشاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ان دونوں قبروں پر گاڑ دیا اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی اس وقت کے لیے ان کے عذاب میں شاید کچھ تخفیف ہو جائے" تو عذاب کے تخفیف کا سبب علماء یہ لکھتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہیں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت اسے برداشت نہ کر سکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الوہیت میں ان کے لیے رحم و کرم کی درخواست کی، ادھر غفور الرحیم نے بھی اپنے حبیب کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا اور فیصلہ صادر فرمایا دیا کہ جب تک ان پر گاڑی ہوئی شاخیں خشک نہ ہوں اس وقت تک ان دونوں پر عذاب میں کمی کر دی جائے۔ چنانچہ اس کی وضاحت بھی ایک دوسری روایت میں موجود ہے جسے مسلم نے نقل کیا ہے اس کے آخری الفاظ یہی ہیں کہ" اللہ تعالیٰ نے میری شفاعت قبول فرما لی ہے کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی یہ عذاب میں گرفتار نہیں رہیں گے۔" بہرحال بظاہر تو اس کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے جس کی تصدیق بھی مسلم کی اس روایت سے ہو جاتی ہے، ویسے علماء نے اس کے علاوہ بھی بہت سے اسباب لکھے ہیں جو دیگر کتابوں اور شروح میں وضاحت کے ساتھ منقول ہیں چنانچہ کرمانی کا قول ہے کہ " تخفیف عذاب کا سبب وہ تر شاخ تھی کہ اس کے اندر رفع عذاب کی خاصیت تھی مگر یہ خاصیت اس کی بنفسہ نہیں تھی بلکہ یہ خاصیت اسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برکت کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء اور صلحاء اور اللہ کے نیک بندوں کو چاہئے کہ وہ قبور پر جایا کریں تاکہ ان کی وجہ سے اہل قبور کے عذاب میں تخفیف ہو کیونکہ صالحین کا قبروں پر جانا مردوں کے عذاب میں تخفیف کا باعث ہوتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِتَّقُوْا للَّاعِنَےْنِ قَالُوْا وَمَا اللَّاعِنَانِ ےَا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ الَّذِیْ َےتَخَلّٰی فِیْ طَرِےْقِ النَّاسِ اَوْ فِیْ ظِلِّھِمْ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم ان دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں " صحابہ نے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا " یا رسول اللہ !" وہ چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک تو یہ ہے کہ کوئی آدمی لوگوں کے راستہ میں پاخانہ کرے، دوسرے یہ کہ کوئی آدمی لوگوں کے سایہ کے نیچے پاخانہ کرے۔" (صحیح مسلم) تشریح : علماء کرام نے اس ارشاد کی یہ وضاحت کی ہے کہ راستہ سے مراد شاہراہ ہے یعنی ایسا راستہ اور ایسی سڑک وغیرہ جس پر لوگ اکثر چلتے پھرتے ہوں یہاں وہ راستہ مراد نہیں ہے جو ویران پڑا رہتا ہو یا کبھی کبھی اس پر کوئی اکا دکا آدمی چلتا پھرتا ہو۔ " سایہ" مراد وہ سایہ دار درخت ہے یا سائبان ہے جس کے نیچے لوگ اٹھتے بیٹھے ہوں، یا وہ لوگوں کے سونے کی جگہ ہو بہر حال ان دونوں جگہوں پر پاخانہ کر کے گندگی اور غلاظت پھیلانے سے منع کیا جا رہا ہے، اس لیے کہ اس سے اللہ کی مخلوق کی ایذاء رسانی کا سامان ہوتا ہے اور لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک مومن و مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کسی دوسرے آدمی کی تکلیف و پریشانی کا سبب بنے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا شَرِبَ اَحَدُکُمْ فَلَا َےَتَنَفَّسْ فِیْ الْاِنَاءِ وَاِذَا اَتَی الْخَلَاءَ فَلَا ےَمَسَّ ذَکَرَہُ بِےَمِےْنِہٖ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حارث بن ربعی ہے انصاری اور خزرجی ہیں آپ اپنی کنیت ابوقتادہ سے مشہور ہیں۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی پانی پیئے تو (پانی پینے کے) برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانہ میں جائے تو داہنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : اس حدیث میں دو ادب بتائے جا رہے ہیں پہلی چیز تو یہ بتائی جا رہی ہے کہ جب کوئی آدمی پانی پئے تو اسے چاہئے کہ وہ پانی پینے کے دوران اسی برتن میں سانس نہ لے جس میں وہ پانی پی رہا ہے جب اسے سانس لینا ہو تو برتن کو منہ سے جدا کر دے تاکہ منہ یا ناک سے کوئی چیز نکل کر پانی میں نہ گر پڑے۔ دوسرے چیز یہ بتائی جا رہی ہے کہ جو کوئی آدمی پاخانہ جاے تو اسے چاہئے کہ وہ داہنے ہاتھ سے نہ تو اپنے عضو مخصوص کو چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے اسنتجاب کرے، اس لیے کہ داہنے ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جاتا ہے اور یہ چیز صفائی اور پاکیزگی کے خلاف ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا وغیرہ کھایا جائے اسی ہاتھ سے ایسے اعضاء کو چھوا جائے جس سے گندگی اور غلاظت لگتی ہو۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَوَضَّاَ فَلْےَسْتَنْثِرْوَ مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْےُوْتِرْ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی وضو کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ناک کو بھی جھاڑ دے اور جو آدمی (پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے) استنجاء کرے اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے لے (یعنی تین، یا پانچ، یا سات۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم َےَدْخُلُ الْخَلَاءَ فَاَحْمِلُ اَنَا وَغُلَامٌ اِدَاوَۃً مِّنْ مَّاءٍ وَعَنَزَۃً ےَسْتَنْجِیْ بِالْمَائِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ کے لیے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا (یعنی حضرت بلال یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پانی کی چھاگل اور ایک برچھی لیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ڈھلیوں سے صفائی کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب آپ پاخانہ کے لیے تشریف لے جاتے تو ایک خادم پانی کا برتن اٹھاتے اور دوسرے خادم ایک برچھی ساتھ لے کر چلتے، برچھی اس لیے ساتھ لے جاتے کہ اس سے زمین کو کھود کر نرم کر دیا جائے تاکہ پیشاب اس میں کریں جس کی وجہ سے چھینیٹں نہ پڑیں یا زمین پر بہہ کر پاؤں وغیرہ میں لگنے کا خدشہ نہ رہے۔ دوسری غرض یہ ہوتی تھی کہ بوقت ضرورت اس سے ڈھیلے اکھاڑے اور توڑے جا سکیں یا پھر یہ کہ وقت پر کوئی دوسری ضرورت پیش آئے جس میں اس کی ضرورت پڑے تو اس میں کام آسکے۔
-
عَنْ اَنَسِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ نَزَعَ خَاتِمَہ، رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ النَّسَائِیُّ وَالتِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ غَرِیْبٌ وَقَالَ اَبُوْدَاؤدَ ھٰذَا حَدِیْثٌ مُنْکَرٌ وَ فِی رِوَایَتِہٖ وَضَعَ بَدَلَ نَزَعَ۔-
" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء تشریف لے جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیا کرتے تھے" (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ) اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے نیز ان کی روایت لفظ نزع کے بجائے لفظ وضع ہے۔" تشریح : بیت الخلاء میں داخل ہونے کے وقت آپ انگوٹھی اس لیے اتار دیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں" محمد رسول اللہ " کھدا ہوا تھا، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ استنجاء کرنے والے پر واجب ہے کہ جب وہ بیت الخلاء جائے تو اپنے ہمراہ کوئی ایسی چیز نہ لے جائے جس پر اللہ اور اس کے رسول کا نام نقش ہو نیز قرآن بھی نہ لے جائے۔" (طیبی) بلکہ ابہری رحمہ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر صرف دوسرے رسولوں ہی کا نام لکھا ہوا ہو تو اسے بھی اپنے ہمراہ بیت الخلاء میں نہ لے جائے ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی استنجاء کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے بدن سے ایسی چیزوں کو اتار دے یا الگ کر دے جن پر کوئی قابل تعظیم چیز لکھی ہو، خواہ اللہ تعالیٰ کا نام ہو یا نبی اور فرشتے کا نام لکھا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں سنن ابوداؤد نے کلام کیا ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے اس سلسلہ میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل بحث کی ہے، نیز یہ حدیث جامع صغیر میں بھی حاکم وغیرہ سے منقول ہے۔
-
وَعَنْ جَابِرِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَرَادَ الْبَرَازَ اِنْطَلَقَ حَتّٰی لَا یَرَاہُ اَحَدٌ۔(رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت جابر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " سرکار دو عالم" صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ کے لیے (جنگل میں) جانے کا ارادہ کرتے تو (اتنی دور) تشریف لے جاتے کہ آپ کو کوئی نہ دیکھتا " ۔" (ابوداؤد)
-
وَعَنْ اَبِی مُوْسٰی قَالَ کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ یَوْمِ فَاَرَادَ اَنْ یَّبُوْلُ فَاَتَی دَمِثًا فِی اَصْلِ جِدَارِ فَبَالَ ثُمَّ قَالَ اِذَا اَرَادَا اَحَدُ کُمْ اَنْ یَّبُوْلَ فَلْیَرْ تَدْلَبَوْلِہ،۔(رواہ ابودؤد)-
" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کرنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کی جڑ میں (یعنی اس کے قریب) نرم زمین پر پہنچے اور پیشاب کیا ، پھر پیشاب سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی " پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ پیشاب کے لیے نرم زمین تلاش کرے تاکہ چھینٹیں نہ پڑیں۔(ابوداؤد) تشریح : خطابی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دیوار کے پاس بیٹھ کر پیشاب کیا وہ دیوار کسی کی ملکیت میں نہیں ہوگی اس لیے کہ دیوار کی جڑ میں پیشاب کرنا دیوار کے نقصان کا سبب ہوتا ہے کیونکہ دیوار کی مٹی کو شورا لگ جاتا ہے اس لیے یہ مسئلہ ہے کہ جو دیوار کسی کی ملکیت میں ہو اس کے نیچے بیٹھ کے مالک کی اجازت کے بغیر پیشاب نہیں کرنا چاہئے اب اس میں وسعت ہے کہ اجازت خواہ حقیقۃً ہو یا حکماً۔
-
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَرَادَا الْحَاجَۃَ لَمْ یَرْفَعْ ثَوْبَہ، حَتّٰی یَدْنُوَ مِنَ الْاَرْضِ۔(رواہ الجامع ترمذی و ابوداؤد و الدارمی)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب استنجاء کا ارادہ فرماتے تو جب (بیٹھنے کے لیے) زمین سے قریب نہ ہو جاتے کپڑا نہ اٹھاتے تھے۔" (جامع ترمذی، ابوداؤد ، دارمی) تشریح : یہ بھی استنجاء کے ادب اور شرم و حیا کا تقاضہ ہے کہ بغیر ضرورت ستر نہ کھولے اور ظاہر ہے کہ ضرورت جب ہی پڑتی ہے جب کہ استنجاء کے لیے بیٹھنے کے وقت زمین کے بالکل قریب ہو جائے چنانچہ رسول اللہ و صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے کے وقت زمین سے بالکل متصل نہ ہو جاتے کپڑا اوپر نہ اٹھاتے تھے۔ چنانچہ یہ مسئلہ ہے کہ بیٹھنے سے پہلے یعنی کھڑے ہی کھڑے ستر کا کھول دینا جائز نہیں ہے، خواہ گھر کے بیت الخلاء کے اندر پاخانہ کرنا ہو یا جنگل میں کرنا ہو۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ مِثْلُ الْوَالِدِلِوَلَدِہٖ اُعَلَّمُکُمْ اِذَا اَتَیْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوْا الْقِبْلَۃَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوھَا وَ اَمَرَ بِثَلَاثَۃِ اَحْجَارِ وَنَھٰی عَنِ الرُّوْثِ وَالرِّمَّۃِ وَنَھٰی اَنْ یَّسْتَطِیْبَ الرَجُلُ بِیَمِیْنِہٖ۔ (رواہ ابن ماجۃ والدارمی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (تعلیم و نصیحت کے سلسلہ میں) تمہارے لیے ایسا ہی ہوں جیسے باپ بیٹے کے لیے ہوتا ہے، چنانچہ میں سکھاتا ہوں کہ" جب تم پاخانہ میں جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ تو منہ کرو اور نہ پشت کرو" (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پاخانہ کے بعد) تین ڈھلیوں سے استنجاء کرنے کا حکم فرمایا اور لید (یعنی تمام نجاستوں) اور ہڈی سے استنجاء کرنے کو منع فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔" (ابن ماجہ، دارمی) تشریح : اس حدیث سے جہاں اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ امور دین اور نصیحت کے سلسلہ میں اپنی امت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا شغف اور تعلق تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو باپ اور امت کو اولاد کی مثل قرار دیا، وہیں حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کو باپ کی اطاعت کرنی لازم ہے اور باپ پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ان چیزوں کے آداب سکھائیں جو ضروریات دین سے ہیں۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَ کَانَتْ یَدُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ الْیُمْنَی لِطُھُوْرِہٖ وَطَعَامِہٖ وَ کَانَتْ یَدُہُ الْیُسْرٰی لِخَلَائِہٖ وَمَا کَانَ مِنْ اَذًی۔(رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا دست مبارک وضو کرنے اور کھانے کے لیے تھا اور بایاں ہاتھ استنجاء اور ہر مکروہ کام کے استعمال کے لیے تھا۔" (ابوداؤد) تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے وضو کرتے تھے اور اس سے کھانا بھی کھاتے نیز جتنے اچھے کام ہیں سب دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے مثلاً یہ، صدقہ و خیرات کرنا یا دوسری چیزیں لینا دینا وغیرہ وغیرہ اور بائیں ہاتھ کو استنجاء کرنے یا ایسی چیزوں کی انجام دہی میں استعمال فرماتے جو مکروہ ہوتیں یعنی ایسی چیزیں جو طبعاً مکروہ ہوں، جیسے ناک سنکنی یا ایسے ہی دوسری چیزیں جنہیں نفس مکروہ سمجھتا ہو۔ اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وضو وغیرہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناک میں پانی دائیں ہاتھ سے دیتے ہوں گے اور ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرتے ہوں گے، مگر۔ افسوس کہ جس طرح آج کے دور میں عقل و دین سے بیگانہ لوگوں نے دوسری اسلامی چیزوں کو ترک کر دیا اور دینی آداب کو فیشن پرستی کے بھینٹ چڑھا دیا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی اکثر لوگ بالکل برعکس عمل اختیار کئے ہوئے ہیں مثلاً آج کل یہ بہت بڑا مرض عام طور پر لوگوں میں سرایت کر چکا ہے کہ کتاب تو لوگ بائیں ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اپنے جوتے دائیں ہاتھ میں اٹھاتے ہیں اب اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یا تو ایسے لوگ آداب شریعت سے قطعاً نا واقف ہوتے ہیں یا پھر نفس کی گمراہی میں پھنس کر غفلت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
-
وَعَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا ذَھَبَ اَحَدُکُمْ اِلَی الْغَائِطِ فَلْیَذْھَبْ مَعَہ، بِثَلَاثَۃِ اَحْجَارِ یَسْتَطِیْبُ بِھِنَّ فَاِنَّھَا تُجْزِی عَنْہ،۔ (رواہ ابوداؤدوالسنن نسائی و الدارمی)-
" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ تین پتھر (یا ڈھیلے) لے جائے جو کافی ہوں گے (یعنی پانی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔" (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی) تشریح : اصل مقصد تو نجاست سے پاکی حاصل کرنا ہے، اور جب تین ڈھیلے سے استنجاء کرے گا اور نجاست صاف کرے گا تو پانی سے استنجاء کی حاجت نہیں رہے گی کیونکہ اصل طہارت اس سے حاصل ہو جائے گی جس سے نماز پڑھنی بھی جائز ہو جائے گی، البتہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی سے بھی اسنتجاء کر لے تو یہ اچھی بات ہوگئی کیونکہ پانی سے استنجاء کرنا مستحب ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا تَسْتَنْجُوْا بِالرُّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ فَاِنَّہ، زَادُ اِخْوَانِکُمْ مِنَ الْجِنِّ۔ (رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ النِّسَائِیُّ اِلَّا أَنَّہ، لَمْ یَذْکُرْزَادَاِخْوَانِکُمْ مِنَ الْجِنِّ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم لوگ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ (ہڈی) تمہارے بھائی جنات کی غذا ہے۔" (جامع ترمذی سنن نسائی مگر سنن نسائی نے زاد اخو انکم من الجن کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں) تشریح : جس طرح شریعت محمدی کے مخاطب انسان ہیں اسی طرح جنات بھی ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح انسانوں کی دنیوی اور دینی رہبری فرماتے ہیں اسی طرح جنات کی دینی و دنیوی امور کی بھی رعایت فرماتے ہیں چنانچہ اس حدیث کے ذریعہ انسانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی تو جنات کی غذا ہے اور لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔
-
وَعَنْ رَوَ یْفِعِ بِنْ ثَابِتِ قَالَ قَالَ لِی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَا رَوَیْفَعُ لَعَلَ الْحَیَاۃَ سَتَطُوْلُ بِکَ بَعْدِی فَاَخْبِرِ النَّاسِ اَنَّ مَنْ عَقَدَلِحْیَتَہ، اَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا اَوِ اسْتَنْجٰی بِرَ جِیْعِ دَآبَّۃِ اَوْ عَظْمِ فَاِنَّ مُحَمَّدًا مِنْہُ بَرِیْیئٌ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت رویفع بن ثابت (رویفع بن ثابت بن سکن بن عدی بن حارثہ بنی مالک نجار سے ہیں ان کا شمار اہل مصر میں ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اے رویفع! شاید میرے بعد تمہاری زندگی دراز ہو، لہٰذا تم لوگوں کو خبردار کرنا کہ جس آدمی نے اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگائی یا (گلے میں) تانت کا ہار ڈالا یا جانور کی نجاست (لید اور گوبر وغیرہ) اور ہڈی سے استنجاء کیا تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے بیزار ہیں۔" (ابوداؤد) تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت رویفع کو اس انداز سے مخاطب کرنے کا یہ معنی ہیں کہ شاید میرے انتقال کی بعد تمہاری زندگی دراز ہو اور تم دوسرے لوگوں کو گناہ کرتے اور رسوم جاہلیت میں انہیں مبتلا دیکھو تو ان باتوں سے انہیں خبردار کر دینا " ڈاڑھی میں گرہ لگانے " کے کئی معنی ہیں، چنانچہ اکثر علماء یہ لکھتے ہیں کہ ڈاڑھی میں گرہ لگانا یہ ہے کہ کوئی آدمی تدابیر اور تکلّف اختیار کر کے مثلاً گرہ وغیرہ لگا کر ڈاڑھی کے بالوں کو گھنگر یالے بنائے چنانچہ ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس سے سنت کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے کے ڈاڑھی کے بالوں کو سیدھا چھوڑنا سنت ہے۔ بعض علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ جنگ کے وقت اپنی ڈاڑھی کے بالوں میں گرہ دے لیتے تھے چنانچہ اس سے منع فرمایا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔ کچھ علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اہل عجم کی بھی عادت تھی کہ وہ اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگا لیتے تھے اس لیے اس سے منع فرمایا کیونکہ اس سے خلقت الہٰی میں تغیر لازم آتا ہے۔ (و اللہ اعلم) لفظ وتر کے بھی کئی معنی ہیں، یا تو اس کے معنی دورے کے ہیں جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگ دفع نظر اور آفات نظر سے محافظت کی خاطر تعویز اور گنڈے وغیرہ باندھ کر بچوں اور گھوڑوں کے گلوں میں ڈال دیتے تھے، اس منع فرمایا گیا ہے، بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس سے ڈورے مراد ہیں جن میں کفار گھنٹی اور گھنگر و بادندہ کر لٹکاتے تھے یا اس سے کمان کے وہ چلے مراد ہیں جو گھوڑے کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں تاکہ نظر نہ لگے، بہر حال، ان تمام رسموں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے کافروں کی مشابہت ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی مشابہت سے بیزار ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کفار کی ایسی چھوٹی چھوٹی رسمیں اختیار کرنا گناہ کبیرہ میں شامل نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیزاری و ناراضگی کا سبب ہے، تو کفر کی وہ بڑی بڑی رسمیں جن میں بد قسمتی سے آج مسلمان مبتلا ہیں اور جن کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے ان سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی زیادہ نفرت ہوگی اور ان رسموں کے کرنے والوں کا اللہ کے یہاں کیا انجام ہوگا؟
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنِ اکْتَحَلَ فَلْیُوْتِرْ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَحْسَنَ وَمَنْ لَّا ک فَلَا حَرَجَ وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ مَنْ فَعَلَ فَقَدْاَحْسَنَ وَمَنْ لَّا فَلَا حَرَجَ وَمَنْ اَکَلَ فَمَا تَخَلَّلَ فَلْیَلْفَظْ وَمَالَا ک بِلِسَانِہٖ فَلْیَبْتَلِعْ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ وَمَنْ اَتَی الْغَائِطَ فَلْیَسْتَتِرْ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْ اِلَّا اَنْ یَجْمَعَ کَثِیْبًا مِنْ رَمَلِ فَلْیَسْتَدْبِرْہ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَلْعَبُ بِمَقَاعِدِ بَنِی اٰدَمَ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ۔(رواہ ابوداؤدوابن ماجۃ والدارمی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی سرمہ لگائے تو اسے چاہئے کہ طاق سلائیاں لگائے جس نے ایسا کیا (یعنی طاق سلائیاں لگائیں) اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا تو کچھ گناہ نہیں! اور جو آدمی استنجاء کرے تو اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے استعمال کرے ( یعنی تین پانچ یا سات) جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھا گناہ نہیں! اور جو آدمی کچھ کھائے جو چیز خلال میں نکلے تو اسے چاہئے کہ پھینک دے اور جو چیز زبان سے نکلے تو اسے چاہئے کہ نگل لے، جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھ گناہ نہیں اور جو آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو اسے چاہئے کہ پردہ کرے، اگر کوئی چیز پردہ کی نہ ملے تو (کم از کم) ریت کو جمع کر کے اس کا تودہ اپنے پیچھے کر لے اس لیے کہ شیطان بنی آدم (انسان) کے پاخانہ کے مقام پر کھیلتا ہے جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں" ۔" (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی) تشریح : طاق سلائیوں سے سرمہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگائے، زیادہ بہتر یہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی ایسا ہی معمول منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے آپ سرمہ اس طرح لگاتے تھے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگاتے اور تین سلائی دوسری آنکھ میں لگاتے۔ بعضوں نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ تین سلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے، نیز کچھ حضرات نے کہا ہے کہ پہلے دوسلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے اور اس کے بعد پھر ایک سلائی دائیں آنکھ میں لگائے تاکہ ابتدا بھی دائیں آنکھ سے ہو اور اختتام بھی دائیں ہی آنکھ پر ہو، جو آدمی طاق سلائی لگائے گا اس کے لیے بہتر اور اچھا ہوگا، اور جو آدمی طاق سلائی نہ لگائے گا اس میں کوئی حرج اور گناہ بھی نہیں ہے کیونکہ طاق سلائی لگانا مستحب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاق ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ " جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نہ ایسا نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں، اس سے حنفیہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ تین یا طاق ڈھیلے لینے واجب نہیں ہیں اس سے کم اور زیادہ بھی لیے جا سکتے ہیں البتہ طاق ڈھیلے لینا مستحب ہے، کھانا کھانے کے بعد خلال سے نکالی ہوئی چیز کو منہ سے پھینک دینے کو بہتر قرار دیا جا رہا ہے اور زبان سے نکالی ہوئی چیز کو نگل لینے کے لیے کہا جا رہا ہے اس لیے کہ تنکے سے خلال کرنے میں اکثر خون بھی نکل آتا ہے اس لیے احتیاطاً اس کو بھینک دینا ہی بہتر ہے زبان سے چونکہ خون نکلنے کا احتمال نہیں ہوتا اس لیے اس کو نگل لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا کہ" جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں" تو یہ حکم اسی صورت میں ہوگا جب کہ خون نکلنے کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو اگر خون نکلنے کا یقین ہو تو پھر خلال میں ہر طرح کی نکلی ہوئی چیز کا نگلنا حرام ہوا، اس کا پھینک دینا واجب ہوگا۔ آخر حدیث میں فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لیے جائے تو پاخانہ کے وقت اسے پردہ کر کے بیٹھنا چاہئے یعنی ایسی جگہ بیٹھے جہاں لوگ نہ دیکھ سکیں اگر پردہ کے لیے کچھ نہ پائے بایں طور کے نہ تو ایسی جگہ ہے جو گھری ہوئی اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہو اور نہ اپنے پاس ایسا کوئی کپڑا یا یا کوئی دوسری چیز ہے جس سے پردہ کیا جا سکے تو اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ ریت کا تودہ جمع کر لے اور اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے اس طرح کسی نہ کسی حد تک پردہ ہو جائے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی پاخانہ کے وقت پردہ کا لحاظ نہیں کرتا تو شیطان اس کے پاخانہ کے مقام سے کھیلتا ہے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس آدمی کے ستر کو دیکھیں جو بے پردہ بیٹھا ہوا پاخانہ کر رہا ہے، نیز یہ کہ اگر پردہ نہ کیا جائے تو اس کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ جب ہوا چلے تو اس کی وجہ سے ناپاک چھینیٹں اڑ کر بدن اور کپڑے پر پڑیں گی اس لیے پاخانہ کے وقت پردہ کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بارہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی پردہ کا لحاظ کرے تو یہ اچھا ہے اور اگر نہ کرے تو کوئی گناہ کی بات بھی نہیں ہے مگر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ پردہ کا خیال رکھا جائے بلکہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ پردہ نہ کیا گیا تو لوگ دیکھیں گے تو ایسی شکل میں پردہ کرنا لازم اور ضروری ہے، اگر پردہ نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔ اگر بحالت مجبوری کوئی آدمی بغیر پردہ کے پاخانہ کے لیے بیٹھ جائے تو پھر اس کی ستر کی طرف قصدا دیکھنے والوں کو گناہ ہوگا، مجبوری سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا موقع آپڑے جب کہ پردہ کا کوئی انتظام ممکن نہ ہو اور اس کو شدید حاجت ہو تو اس صورت میں اسے مجبوری ہے۔ ریت کے تودہ کو پشت کی طرف کرنے کو اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آگے کے ستر کو تو دامن وغیرہ سے بھی چھپایا جا سکتا ہے بخلاف پیچھے کے ستر کے کہ اس کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مُغَفَّلِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا یَبُوْلَنَّ اَحَدُ کُمْ فِی مُسْتَحَمِّہٖ ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیْہِ اَوْیَتَوَضَّأُ فِیْہِ فَاِنََّ عَامَۃَ الْوَسْوَاسِ مِنْہُ رَوَاہُ اَبُوْدُاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُّ اِلَّا اَنَّھُمَا لَمْ یَذْکُرَا ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیْہَ اَوْیَتَوَضَّأُ فِیْہٖ۔-
" اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عبداللہ بن مغفل کی کنیت ابوسعید ہے پہلے مدینہ میں سکونت اختیار فرمائی پھر آپ بصرہ چلے گئے آپ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ میں مسائل دین کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا تھا آپ کی وفات بمقام بصرہ ٥٩ھ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی اپنے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے جس میں پھر وہ نہائے یا وضو کرے (یعنی یہ عقل سے بعید ہے کہ نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور پھر وہیں نہائے یا وضو کرے) اس لیے کہ اس سے اکثر وساوس پیدا ہوتے ہیں" (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ) جامع ترمذی اور سنن نسائی نے ثم یغتسل فیہ او یتوضا فیہ کہ الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔" تشریح : غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے وساوس اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ جب وہاں پیشاب کیا جاتا ہے تو وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے اور پھر وضو یا غسل کے وقت جب اس پر پانی پڑتا ہے تو دل میں وسو سے پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں چھینیٹں تو نہیں پڑ رہے ہیں اور پھر یہ شبہ رفتہ رفتہ دل میں جم جاتا ہے جس سے ایک مستقل خلجان واقع ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر غسل خانہ کی زمین ایسی ہو کہ اس پر سے چھینیٹں اچھل کر اوپر نہ پڑتی ہوں مثلاً وہاں کی زمین ریتلی ہو اس کا فرش اور اس میں نالی ایسی ہو کہ پیشاب کا ایک قطرہ بھی وہاں نہ رکتا ہو سب نکل جاتا ہو تو پھر وہاں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں غسل خانہ میں پیشاب کرنے کو جو منع کیا گیا ہے تو نہی تنزیہی ہے نہی تحر یمی نہیں ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ سَرْجِسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا یَبُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ فِی جُحُرِ۔ (رواہ ابوداؤد و السنن نسائی )-
" اور حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم میں سے کوئی آدمی کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے۔" ( ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح : سوراخ میں پیشاب کرنے سے اس لیے روکا جا رہا ہے کہ اکثر و بیشتر سوراخ کیڑے مکوڑوں اور سانپ بچھو کا مسکن ہوتے ہیں چنانچہ ہو سکتا ہے کہ پیشاب کرتے وقت اس میں سے سانپ یا بچھو یا تکلیف دینے والا کوئی دوسرا کیڑا نکل کر ایذاء پہنچائے یا اگر اس سوراخ کے اندر کوئی ضعیف اور بے ضرر جانور ہو تو پھر پیشاب کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچے گی۔ بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوراخوں میں جنات رہتے ہیں چنانچہ ایک صحابی سعد بن عبادہ خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے زمین حوران کے ایک سوراخ میں پیشاب کر دیا تھا تو ان کو جنات نے مار ڈالا اور اس میں یہ شعر پڑھتے تھے۔ نَحْنُ قَتَلْنَا سَیِّدَ الْخَزْرَجَ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ وَرَمِیْنَاہُ بِسَھْمَیْنِ فَلَمْ نَخُطُّ فَؤَادَہُ ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا ہم نے اس کی طرف دو تیر مارے اور اس کے دل کو نشانہ بنانے میں خطا نہیں کی اور بعض علماء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی سوراخ خاص طور پر پیشاب ہی کے لیے ہو تو اس میں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔
-
وَعَنْ مُعَاذِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اتَّقُوالْمَلَاِ عِنَ الثَّـلَاثَہَ الْبَرَازَ فِی الْمَوَارِدِوَ قَارِعَۃَ الطَّرِیْقِ وِالظِلِّ۔ (رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم تین چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں (١) گھاٹوں پر استنجاء (یعنی پیشاب پاخانہ ) کر نے سے (٢) راستہ کے درمیان اور (٣) سایہ میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے۔" (ابوداؤد و ابن ماجہ) تشریح : یہ تین افعال ایسے ہیں جو لعنت کا سبب ہیں یعنی جب کوئی آدمی کسی راستہ پر، یا گھات پر ، یا سایہ کی جگہ پر پاخانہ کرتا ہے تو جو لوگ اس راستہ سے گزرتے ہیں یا گھاٹ کو استعمال کرتے ہیں، یا سایہ دار جگہ پر آتے ہیں وہ اس آدمی پر لعنت بھیجتے ہیں یا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ آدمی ان افعال بد کی بنا پر لوگوں کی ان منفعت اور آرام کو جوان جگہوں سے مختص ہیں فاسد کرتا ہے، لہٰذا یہ ظالم ہوا اور ظالم آدمی ملعون ہوتا ہے۔ موارد ان مکانوں کو فرماتے ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرتے ہیں، بعض علماء کرام نے کہا ہے کہ موارد جمع مورد گھاٹ کو کہتے ہیں جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے ۔ سایہ ، عام ہے خواہ درخت کا سایہ ہو یا کسی اور چیز کا جہاں لوگ سوتے اور بیٹھتے ہوں، نیز اپنے جانوروں کو باندھتے ہیں۔
-
وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا یَخْرُجُ الرَّجُلَانِ یَضْرِبَانِ الْغَائِطَ کَا شِفَیْنِ عَنْ عَوْرَتِھِمَا یَتَحَدَّثَانِ فَاِنَّ اﷲَ یَمْقُتُ عَلَی ذٰلِکَ۔(رواہ مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ( ایک ساتھ) دو آدمی پاخانہ کے لیے (اس طرح) نہ جائیں کہ دونوں اپنی شرم گاہ کھولے ہوئے ہوں اور باتیں کرتے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ غصب ناک ہو جاتا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل ابوداؤد و ابن ماجہ) تشریح : مردوں اور عورتوں کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ پاخانہ کے لیے اس طرح بیٹھیں کہ ایک دوسرے کی شرم گاہیں دیکھیں اسی طرح ایسی حالت میں آپس میں باتیں کرنا بھی مکروہ ہے یہ دونوں چیزیں غضب خداوندی کا سبب اور اس کے عتاب کا باعث ہیں۔ اس موقع پر اس تکلیف دہ صورت حال کی وضاحت ضروری ہے کہ آج کل عورتوں میں خصوصیت سے ایسی بد احتیاتیاں پائی جاتی ہیں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں آپس میں ایک دوسری کے سامنے ستر کھولنے کو قطعا معیوب نہیں سمجھتیں خصوصاً غسل اور پاخانہ کے وقت اس قسم کی شرمناک حرکتیں عام طور پر کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو چاہئے کہ وہ اس حدیث کو غور سے پڑھیں اور پھر سمجھیں کہ وہ ایسی ناشائستہ اور شرم و حیا کے منافی چیزوں کے ارتکاب سے اللہ کا غضب مول رہی ہیں اور اس کے عتاب کا باعث ہو رہی ہیں۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ پاخانہ کرتے وقت اور جماع (ہم بستری) کے وقت زبان سے ذکر اللہ نہ کیا جائے بلکہ دم کے ساتھ کیا جائے۔
-
وَعَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِنَّ ھٰذِہٖ الْحُشُوْشَ مُخْتَضِرَ ۃٌ فَاِذَا اَتَی اَحَدُ کُمُ الْخَلاءَ فَلْیَقُلْ اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ۔ (رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( آپ انصاری ہیں اور کنیت ابوعمرو ہے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سترہ غزوات میں شرکت کی ہے آپ کوفہ میں رہتے تھے اور وہیں ٦٨ھ انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " پاخانے شیاطین اور جنات کے حاضر ہونے کی جگہ ہیں، اس لیے جب تم میں سے کوئی بیت الخلا جائے تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے اعوذ با اللہ من الخبث و الخبائث یعنی میں ناپاک جنوں اور جنیوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔" (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح : جنات اور شیاطین پاخانہ میں آتے ہیں اور اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ جو آدمی پاخانہ میں آئے اس کو ایذاء پہنچائیں اور تکلیف دیں کیونکہ پاخانہ جانے والا آدمی وہاں ستر کھول کر بیٹھا ہے اور ذکر اللہ کر نہیں سکتا اس لیے یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو آدمی پاخانہ جاتے وقت یہ دعا پڑھ لے گا وہ جنات اور شیاطین کی ایذاء و تکلیف سے محفوظ رہے گا۔ اس باب میں جو حدیث نمر ٣ گزری ہے اس میں اس دعا کے الفاظ اس طرح ہیں۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ چونکہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اس لیے اختیار ہے کہ چاہے وہ دعا پڑھی جائے لیکن بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ کبھی وہ دعا پڑھ لے اور کبھی یہ پڑھ لے یا دونوں کو ساتھ ساتھ پڑھے۔
-
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُ عَنْہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ سَتْرُ مَابَیْنَ اَعْیُنِ الْجِنِّ وَعَوْرَاتِ بَنِی اٰدَمَ اِذَا دَخَلَ اَحَدُھُمُ الْخَلاءَ اَنْ یَّقُوْلَ بِسْمِ اﷲِ۔ (رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ وَاِسْنَادُہ، لَیْسَ بِقَوِیِّ)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب کوئی آدمی پاخانہ میں داخل ہو تو جن (شیطان) کی آنکھوں اور انسان کی شرم گاہ کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ بسم اللہ کہے۔" (اس حدیث کو جامع ترمذی نے روایت کیا اور کہا ہے) کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے) تشریح : ارشاد کا مطلب ہے کہ جب انسان بیت الخلاء میں جاتا ہے، تو چونکہ وہاں ستر کھول کر بیٹھتا ہے اس لیے شیاطین اس کی شرم گاہ دیکھتے ہیں، لہٰذا جب کوئی آدمی پاخانہ جائے تو اسے چاہئے کہ بسم اللہ کہہ کر بیت الخلاء جائے کیونکہ اس سے شیاطین ستر نہیں دیکھ سکتے علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں سنت یہ ہے کہ جب کوئی آدمی بیت الخلاء جائے تو پہلے بسم اللہ اور پھر اس کے بعد وہ دعا پڑھے جو اس سے پہلے حدیث میں گزر چکی ہے، لیکن ان دونوں یعنی بسم اللہ اور مذکورہ دعاؤں میں سے کسی ایک کو بھی پڑھ لیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی مگر افضل یہی ہے کہ دونوں پڑھی جائیں یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ قَالَ غُفْرَانَکَ۔ (رواہ جامع ترمذی و ابن ماجۃ والدارمی)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے غفر انک یعنی اے اللہ ! میں تیری بخشش کا خواست گار ہوں۔" (جامع ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح : علماء نے اس وقت بخشش چاہنے کی دو وجہیں لکھی ہیں، اول تو یہ کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم زبان سے ذکر اللہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتے تھے سوائے اس کے کہ کسی شدید حاجت اور مجبوری مثلاً پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ترک فرما دیتے تھے اس کی وجہ سے آپ اللہ سے بخشش کے خواستگار ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ جب انسان کوئی غذا کھاتا ہے، تو وہ غذا معدہ میں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک حصہ تو خون بن کر قوت و طاقت پیدا کرتا ہے اور دوسرا حصہ فضلہ ہو کر پاخانہ کی شکل میں نکل جاتا ہے، اگر قدرت کے اس نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بندوں پر اللہ کا بہت بڑا انعام اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکر بندے سے کماحقہ، ادا نہیں ہو سکتا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخشش چاہتے تھے کہ اے اللہ ! مجھ سے تیری اس عظیم نعمت کا شکر ادا نہیں ہوا اس لیے تو مجھے اس کوتاہی پر بخش دے۔ بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ایسے موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ اپنی احتیاج اور اس بات کا خیال کیا جائے کہ انسان کی ذات کی حیثیت ہی کیا ہے جس میں نجاست ہی نجاست بھری ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں رب قدوس کی ذات پاک اور اس کے تقدس کا تصور کرے، افضل یہ ہے کہ لفظ غفرانک کے بعد یہ دعا پڑھ لی جائے الحمد اللہ الذی اذھب عنی الاذی وعافنی۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَتَی الْخَلاءَ اَتَیْتُہ، بِمَاءِ فِی تَوْرِ اَوْرَکْوَۃِ فَاسْتَنْجٰی ثُمَّ مَسَحَ یَدَہ، عَلَی الْاَرْضِ ثُمَّ أَتَیْنَہ، بِانَآءِ اَخَرَ فَتَوَضَّأَ۔(رواہ ابوداؤ وروی الدرامی و السنن نسائی معناہ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ جاتے تو آپ کے لیے پیالہ یا چمڑے کی چھاگل میں پانی لاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استنجاء کرتے پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑتے پھر اس کے بعد میں (پانی کا) دوسرا برتن لاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے۔" (دارمی ، سنن نسائی ) تشریح : تور عرب میں پیتل یا پتھر کا ایک چھوٹا سا برتن پیالہ کی طرح ہوتا ہے، اس میں کھانا کھاتے ہیں، اور بوقت ضرورت اس میں پانی بھر کر اس سے وضو بھی کر لیتے ہیں رکوۃ چمڑے کی چھاگل کو فرماتے ہیں جو پانی رکھنے کے کام آتا ہے۔ استنجاء سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر ہاتھ رگڑ کر اس لیے دھوتے تاکہ ہاتھ سے بدبو نکل جائے اور ہاتھ خوب پاک و صاف ہو چنانچہ پاخانہ سے آکر اس طرح سے ہاتھ دھونا سنت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضوء کے لیے دوسرے برتن میں پانی اس لیے نہیں لاتے تھے کہ استنجے کے بقیہ پانی یا اس برتن سے وضو درست نہیں تھا بلکہ اس برتن میں چونکہ پانی صرف استنجے کی ضرورت کی مطابق ہی رہتا ہوگا اس لیے وضو کے لیے دوسرے برتن میں پانی لانے کی ضرورت ہوتی تھی، اس حدیث میں بعض علماء کرام نے یہ اخذ کیا ہے کہ اگر استنجے اور وضو کے پانی کے لیے الگ الگ برتن ہوں تو یہ مستحب ہے۔
-
وَعَنِ الْحَکَمِ بْنِ سُفْیَانَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا بَالَ تَوَضَّأَ وَنَضَحَ فَرْجَہ،۔ (رواہ ابوداؤد و السنن نسائی )-
" اور حضرت حکم ابن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کر چکتے تو وضو فرماتے اور اپنی شرم گاہ پر چھینٹا دیتے!۔" (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح : پیشاب کرنے کے بعد جب آپ وضو فرماتے تو دفع وساوس کے لیے تھوڑا سا پانی لے کر ستر کی جگہ ازار پر چھڑک لیتے تھے تاکہ پیشاب کے قطرہ کا وہم باقی نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس و ساوس و خطرات سے پاک و صاف تھی اس لیے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ پیشاب کرنے کہ بعد جب وضو کیا جائے تو تھوڑا سا پانی ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر چھڑک لیا جائے، اس لیے کہ اگر پانی نہ چھڑکا جائے اور ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر تری کا احساس ہو تو اس سے پیشاب کے قطروں کا وہم ہوگا اور پانی چھڑک لیا جائے تو اس کے بعد اگر تری کا حساس ہوگا بھی تو یہی سمجھا جائے گا کہ اسی چھڑ کے ہوئے پانی کی تری ہے چنانچہ اس سے وسوسہ کی راہ بند ہو جائے گی اور مقصد یہی ہے کہ وساوس و خطرات کی راہ روک دی جائے تاکہ اطمینان قلب کے ساتھ عبادت میں مصروف رہا جا سکے۔ ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ وضوء کے بعد شرم گاہ کے اوپر پانی چھڑکنے کی ایک وجہ تو یہ دفع وساوس ہو سکتی ہے مگر ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے پیشاب وغیرہ کے قطرے رک جائیں باہر نہ آئیں۔
-
وَعَنْ اُمَیْمَۃَ بِنْتِ رُقَیْقَۃَ قَالَتْ کَانَ لِلنَبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْحٌ مِنْ عِیْدَانِ تَحْتَ سَرِیْرَۃِ یَّبُوْلُ فِیْہٖ بِاللَّیْلِ۔ (رواہ ابوداؤد و السنن نسائی )-
" اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ ( امیمہ بنت رقیقہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہمشیرہ کی صاحبزادی ہیں۔ ) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اس میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔" (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح : چونکہ رات میں سردی وغیرہ کی بناء پر اٹھنا تکلیف دہ اور پریشانی کا سبب ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اس کام کے لیے مخصوص کر لیا تھا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں پیشاب کی حاجت ہوتی تھی تو اس پیالہ میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ اور اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت ہی مقصد سامنے آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے امت کے لیے یہ آسانی پیدا کر دی ہے کہ جب رات میں پیشاب کی حاجت ہو اور سردی وغیرہ کی تکلیف کی بناء پر باہر نکلنا دشوار ہو تو کسی برتن وغیرہ میں پیشاب کر لیا جائے اور صبح اٹھ کر اسے پھینک دیا جائے تاکہ ایک طرف تو تکلیف اور پریشانی میں مبتلاء ہونے سے بچا جائے اور دوسری طرف رات میں بیت الخلاء جانے سے بچ جائیں جو شیاطین کا مسکن ہے اور شیاطین دن کے مقابلہ میں رات کو زیادہ ضرر اور تکلیف پہنچانے کا سبب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امت کے لیے یہ تعلیم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی جذبہ رحمت و شفقت کی مرہون منت ہے جو اعمال و افعال میں ہر مرحلہ پر آسانی و سہولت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک صحابی نا دانستہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب اسی پیالہ میں سے پی گئے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ جب تک وہ زندہ رہے ان کے بدن سے خوشبو آتی رہی اور نہ صرف ان کے بدن سے بلکہ کئی نسلوں تک انکی اولاد کے بدن میں بھی وہی خوشبو باقی رہی۔
-
وَعَنْ عُمَرَ قَالَ رَاَنِی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَنَا اَبُوْلُ قَائِمًا فَقَالَ یَا عُمَرُ لَا تَبُلْ قَائِمًا فَمَا بُلْتُ قَائِمًا رَوَاہُ الْتِرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ قَالَ الشَّیْخُ الْاِمَامُ مُحِیُّ السُّنَّۃِ رَحِمْہُ اﷲُ قَدْ صَحَّ عَنْ حُذَیْفَۃَ ص قَالَ اَتَی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَبَاطَۃَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا ( مُتَّفَقٌ عَلَیْہٖ )، قِیْلَ کَانَ ذٰلِکَ لِعُذْرِ۔-
" اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز) مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ " عمر! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا کرو" چنانچہ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا (ابن ماجہ ، جامع ترمذی) امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کی کوڑی پر گئے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل (کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، کسی عذر کی بناء پر تھا۔" تشریح : متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی چنانچہ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔ جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ چونکہ ایام جاہلیت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا طریقہ رائج تھا اور ان کو وہی عادت پڑی ہوئی تھی اس لیے انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا، یا ہو سکتا ہے کہ کسی عذر کی بنا پر انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہو۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے اس سلسلہ میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی عذر کی بنا پر ایسا کیا ہوگا، اور علماء کرام نے وہ اعذار بھی لکھے ہیں چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ چونکہ وہاں نجاست کی وجہ سے آپ نے بیٹھنے کی جگہ نہیں پائی اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیر مبارک میں درد تھا اور بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق پیٹھ میں درد تھا ، اس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ نہیں سکتے تھے اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کر لیا۔
-
عَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ مَنْ حَدَّثَکُمْ اَنَّ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَبُوْلُ قَائِمًا فَلَا تُصَدِّقُوْہ، مَا کَانَ یَبُوْلُ اِلَّا قَاعِدًا۔(رواہ مسند احمد بن حنبل و الجامع ترمذی و السنن نسائی )-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جو آدمی یہ حدیث بیان کرے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اسے سچ نہ مانو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیا۔" تشریح : امام محی السنۃ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت نقل فرمائی ہے اس سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث اس بات کی بالکل نفی کر رہی ہے، اب ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے علم کے مطابق خبر دے رہی ہیں یعنی انہوں نے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے کبھی گھر میں نہیں دیکھا تھا اس لیے انہوں نے اس بات کی سرے سے نفی کر دی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ باہر سے متعلق ہے اور وہ بھی عذر کی بناء پر نادر ہے، اور ظاہر کہ نادر شی معدوم کی مانند ہے نیز عذر کی بنا پر اسے مستثنی بھی قرار دیا جا سکتا ہے لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔
-
وَعَنْ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّ جِبْرِیْلَ اَتَاہ، فِی اَوَّلِ مَا اَوْحِیَ اِلَیْہٖ فَعَلَّمَہُ الْوُضُوءَ وَالصَّلٰوۃَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الْوُضُوْءِ اَخَذً غُرَفَۃً مِنَ الْمَآءِ فَنَضَحَ بِھَا فَرْجَہ،۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل والدارقطنی)-
" اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی زید بن حارثہ، کنیت ابواسامہ ہے عظیم صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متبنیٰ بننے کا شرف حاصل ہوا ہے غزوہ موتہ کے موقع پر سر زمین شام میں آٹھ ہجری کو آپ نے شہادت پائی شہادت کے وقت آپ کی عمر ٥٥سال کی تھی۔) سرکار دو عالم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (جب) سے پہلی وحی کے موقع پر آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ کو وضو کرنا سکھایا، پھر نماز پڑھنی سکھائی چنانچہ جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو پانی لیا اور اس کو اپنی شرم گاہ پر چھڑک لیا۔" (مسند احمد بن حنبل، دارقطنی) تشریح : حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی کی شکل میں آئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وضو کیا اور نماز پڑھی تاکہ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیکھ جائیں اسی طرح انہوں نے اللہ کی جانب سے ان دونوں چیزوں کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی پھر اس کے ساتھ ساتھ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وضو کے بعد شرم گاہ پر یا ستر کی جگہ کپڑے کے اوپر وضو کے بعد پانی چھڑک کر بھی آپ کو دیکھایا تاکہ دفع و ساوس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ جَآءَ جِبْرِیْلُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ اِذَا تَوَضَّاتَ فَانْتَضِحْ رَوَاہُ الْتِرْمِذِّیُ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا یَعْنِی الْبُخَارِیَّ یَقُوْلُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ الْھَاشِمِی التُرَّاوَیِّی مُنْکَرُ الْحَدَیْثِ۔-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور کہا " " ' اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کریں تو تھوڑا سا پانی (شرم گاہ پر دفع وساوس کے لیے چھڑک لیا کیجئے" (جامع ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے اور میں نے محمد (یعنی عبداللہ بن اسماعیل صحیح البخاری ) کو یہ کہتے سنا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی حسن بن علی ہاشمی منکر الحدیث ہیں۔"
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ بَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَامَ عُمَرَ خَلْفَہ، بِکُوْزِ مِنْ مَّآءِ فَقَالَ مَاھٰذَا یَا عُمَرُ قَالَ مَائٌنَتَوَضَّأُ بِہٖ قَالَ مَا اُمِرْتُ کُلَّمَا بُلْتُ اَنْ اَتَوَضَّأَ وَلَوْ فَعَلْتُ لَکَانَتْ سُنَّۃً۔(رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کا لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا " عمر یہ کیا ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے وضو کے لیے پانی ہے۔" آپ نے فرمایا مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب میں پیشاب کروں تو وضو بھی کروں، اگر میں ایسا کروں تو یہ (میرا فعل سنت ہو جاتا)۔" (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ مجھے بطریق وجوب اور فرض کے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب بھی پیشاب کروں تو اس کے بعد وضوء بھی کروں اور اگر میں اپنی طرف سے یہ فعل اختیار کر لیتا ہوں تو پھر ہر مرتبہ پیشاب کے بعد وضو کرنا سنت موکدہ ہو جائے گا، بہر حال یہاں سنت سے مراد سنت موکدہ ہی ہے ، کیونکہ ویسے تو پانی سے استنجاء کرنا اور ہر وقت باوضو رہنا تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مستحب ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادنیٰ چیزوں کو اپنی امت کی آسانی او سہولت کی خاطر کبھی ترک فرما دیتے تاکہ وہ چیزیں امت کے لیے کہیں ضروری نہ ہو جائیں۔
-
وَعَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ وَ جَابِرِ وَاَنَسِ اَنَّ ہٰذِہِ الْاٰیَۃَ لَمَّا نَزَلَتْ فِیْہِ رِّجَالُ یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْ اوَاﷲُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمیَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اِنَّ اﷲَ قَدْ اَثْنٰی عَلَیْکُمْ فِی الطُّھُوْرُ کُمْ قَالُوْا نَتَوَضَّأُ لِلصَّلٰوۃِ وَنَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ وَنَسْتَنْجِیْ بِالْمَآءِ قَالَ فَھُوَذَاکَ فَعَلَیْکُمُوْہُ۔ (رواہ ابن ماجۃ، التوبہ ١٠٨)-
" حضرت ابوایوب، جابر، حضرت انس رضوان اللہ علیہم راوی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آیت (فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ) 9۔ التوبہ : 108) یعنی مسجد قبا میں ایسے مرد (انصاری) ہیں جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ خوب پاکی حاصل کریں اور اللہ خوب پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے پاکی کے معاملہ میں تمہاری تعریف کی ہے تمہاری پاکی کیا ہے؟ اور انہوں نے عرض کیا " ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں" جنابت (ناپاکی) سے غسل کرتے ہیں (جیسا کہ دوسرے مسلمان کرتے ہیں) اور (ڈھیلے کے بعد) پانی سے استنجاء کرتے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں ! وہ یہی ہے ، لہٰذا اسے لازم پکڑو۔" (ابن ماجہ) تشریح : انصاری کی عادت تھی کہ وہ پیشاب و پاخانہ کے بعد ڈھیلوں سے صفائی کے بعد پانی سے بھی استنجاء کرتے تھے، اس بنا پر ان کی فضیلت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور انصار کی اس فضیلت کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ کونسی پاکیزگی ہے جسے حاصل کرنے کے بعد تم اس سعادت کے حقدار ہوئے ہو، جب انہوں نے پاکیزگی کی تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق کر دی کہ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی سبب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں تمہاری تعریف کی ہے اور پھر بعد میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کہ اس سعادت کو ہمیشہ باقی رکھو یعنی جس طرح تم لوگ پاکی حاصل کرتے ہو اسی طرح ہمیشہ حاصل کرتے رہو۔
-
وَعَنْ سَلْمَان قَالَ قَالَ بَعْضُ الْمُشْرِکِےْنَ وَھُوَ ےَسْتَھْزِئُ اِنِّی لَاَرٰی صَاحِبَکُمْ ےُعَلِّمُکُمْ حَتّٰی الْخَرَاۃَ قُلْتُ اَجَلْ اَمَرَنَا اَنْ لَّا نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ وَلَا نَسْتَنْجِیَ بِأَےْمَانِنَا وَلَا نَکْتَفِیْ بِدُوْنِ ثَلٰثَۃِ اَحْجَارٍ لَےْسَ فِےْھَا رَجِےْعٌ وَلَا عَظْمٌ۔ (رواہ صحیح مسلم )-
" اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی نے بطور استہزاء یہ کہا کہ میں تمہارے سردار (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتا ہوں تو وہ تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ بیٹھنے کی صورت بھی؟ میں نے کہا! ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ (استنجے کے وقت ) ہم قبلہ کی طرف رخ کر کے نہ بیٹھیں، اپنے دائیں ہاتھوں سے استنجاء پاک نہ کریں، تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کریں اور ان پتھروں میں نجاست (یعنی پاخانہ، لید گوبر) اور نہ ہڈی ہو۔" (مسلم مسند احمد بن حنبل الفاظ مسند احمد بن حنبل کے ہیں) تشریح : اگر مذہب کی بنیاد پر حقیقت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوگی کہ مذہب اور دین دراصل نام ہے ایک مکمل ضابطہ حیات کا اور ایک دستور کامل ہے نظام زندگی کا جس میں انسانوں کے لیے دین اور دنیا دونوں جگہ کے لیے مکمل رہبری، کامل راہنمائی اور ہمہ گیر ہدایات ہوں۔ اگر چند مخصوص اعتقادات پر چند مخصوص عبادات اور چند اعمال کا نام، مذہب اور دین، رکھ دیا جائے تو وہ کامل و مکمل مذہب وہ دین ہی نہیں بلکہ انسانی دماغ کے اختراعات اور نظریات کا مجموعہ ہے۔ اسلام دوسرے تمام مذاہب میں اگر اپنی کوئی امتیازی شان رکھتا ہے اگر دوسرے دینوں پر کوئی تفوق و برتری رکھتا ہے اور اگر دوسری شریعتوں میں اکملیت کا کوئی درجہ رکھتا ہے تو وہ اسلام کی شان ہمہ گیریت اور اس کی شان جامعیت ہے مسلمانوں کو چھوڑئیے وہ تو اسلام کی پیروی کرنے والے ہیں ہیں، دنیا کے وہ دانشور اور عقلاء بھی اسلام کے اعتقادات و احکامات کے پابند و متبع نہیں ہیں، آج اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اور دنیا کی تمام شریعتوں میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور دین ہے جو انسانوں کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ایک نظام زندگی اور کائنات کے ہر شعبہ پر حاوی ایک مجموعہ ہدایات ہے جو انسانی زندگی کے ہر چھوٹے و بڑے مسئلہ کی رہبری کرتا ہے۔ چنانچہ اسلام اگر ایک طرف اعتقادات و نظریات کی انتہائی بلندی تک جن و انس کی راہنمائی کرتا ہے، عبادت و احکامات کے بلند و بالا نظام کا تفوق بخشتا ہے، تو دوسری طرف زندگی کی ان چھوٹی راہوں کی بھی معرفت عطا کرتا ہے جو دنیا والوں کی نظر میں حقیر ہیں، جن کی طرف دوسرے مذاہب آنکھ بھی نہیں اٹھاتے۔ دیکھئے ایک بے بصیرت اور عقل و دانائی کا دشمن مشرک مسلمانوں کا یہی تو مزاق اڑا رہا ہے کہ شارع اسلام کی شان و شوکت کا بھی کوئی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کو سکھاتے پھریں، یہاں تک کہ وہ پیشاب و پاخانہ تک کے مسائل اور ان کے طور طریقے بتاتے ہیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اسی کا جواب دے رہے ہیں کہ اے بے خبرادر، نادان انسان! یہ ہنسنے کی بات نہیں ہے ، استہزاء کا مقام نہیں ہے، تجھے کیا معلوم کہ ہمارے سردار ہم پر کتنے شفیق ہیں ہم پر کتنے مہربان ہیں؟ امت پر انتہائی شفقت و محبت ہی کی یہ وجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلہ پر ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔ اگر ایک طرف صلی اللہ علیہ وسلم تو حید و رسالت کے عقائد اور نماز روزہ ، زکوۃ اور حج جیسے دینی اصول کے احکام و مسائل ہمیں بتاتے ہیں تو دوسری طرف پیشاب و پاخانہ جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے آداب بھی بتائے ہیں اور ہدایات اور راہنمائی کا یہی تو وہ مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت ہم قبلہ کی طرف پشت و رخ کر کے نہ بیٹھیں کہ اس سے قبلہ کے احترام پر حرف آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا جائے یہ چیز پاکیزگی و نظافت کے منافی ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا کھایا جائے اسی ہاتھ سے گندگی و غلاظت کی صفائی کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہتر قرار دیا ہے کہ تین ڈھیلوں یا پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کیا جائے کہ صفائی و پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ استنجاء کے ڈھیلوں میں لید و گوبر اور دوسری نجاست نہ ہو کہ اس سے بجائے پاکیزگی حاصل ہونے کے اور زیادہ غلاظت و گندگی لگے گی اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی جنات کی خوراک ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ حَسَنَۃَ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَفِیْ یَدِہِ الدَّرَقَۃُ فَوَضَعَھَا ثُمَّ جَلَسَ فَبَالَ اِلَیْھَا فَقَالَ بَعْضُھُمْ اُنْظُرُوْ اِلَیْہِ یَبُوْلُ کُنَّا تَبُوْلُ الْمَرْأَۃُ فَسَمِعَہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ وَیْحَکَ اَمَاعَلِمْتَ مَا اَصَابَ صَاحِبَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کَانُوْا اِذَا اَصَابَھُمُ الْبَوْلُ قَرَضُوْہُ بِالْمَقَارِیْضِ فَنَھَا ھُمْ فَعُذِّبَ فِیْ قَبْرِہٖ۔ (رواہ ابوداؤ د وابن ماجۃ ورواہ السنن نسائی عن ابی موسی)-
" اور حضرت عبدالرحمن ابن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ڈھال تھی، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے سامنے زمین پر) رکھ دیا پھر اس کے سامنے بیٹھ کر پیشاب کیا (یہ دیکھ کر) ایک مشرک نے کہا ان کی طرف دیکھو اس طرح پیشاب کرتے ہیں جسے عورت پیشاب کرتی ہے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی اور فرمایا " تجھ پر افسوس ہے" کیا تو اس چیز کو نہیں جانتا جو بنی اسرائیل کے ساتھی کو پہنچی (یعنی عذاب) بنی اسرائیل (جب پیشاب کرتے اور ان) کے (جسم یا کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو اس کو قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے چنانچہ (بنی اسرائیل میں اس ایک ) آدمی نے (اس حکم کو ماننے سے ) لوگوں کو روکا، لہٰذا اسے قبر کے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔" (ابو داؤد، ابن ماجہ اور سنن نسائی اس حدیث کو عبدالرحمن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ سے روایت کیا ہے) تشریح : بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا کہ اگر کسی آدمی کے بدن میں نجاست لگ جاتی تو اتنے حصہ کے گوشت کو چھیل ڈالتے تھے اور اگر کپڑے پر لگ گئی تو اس جگہ سے کپڑا کاٹ ڈالتے تھے مگر ان میں سے ایک آدمی نے اپنی شریعت کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکا کرتا تھا لہٰذا اس بنا پر اسے عذاب قبر میں مبتلا کیا گیا۔ اسی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ بنی اسرائیل کی شریعت کا وہ قاعدہ اگرچہ شرعی اعتبار سے پسندیدہ تھا مگر چونکہ اس میں مال اور جان کا ضرر ہوتا تھا اس لیے خلاف عقل و دانائی تھا مگر اس کے باوجود شریعت کے اس حکم کو نہ ماننے اور دوسرے لوگوں کو اس سے روکنے پر جب اس آدمی پر عذاب قبر نازل کیا گیا تو شرم و حیا نہ کرنا بطریق اولیٰ عذاب کا سبب ہے کیونکہ پیشاب کے وقت پردہ کرنا اور شرم کرنا نہ صرف یہ کہ از راہ شریعت پسندیدہ اور بہتر چیز ہے بلکہ عقل و دانائی کے اعتبار سے بھی اولیٰ و افضل ہے۔
-
وَعَنْ مَرْوَانَ الْاَصْفَرِ قَالَ رَاَیْتُ بْنَ عُمَرَ اَنَاخَ رَاحِلَتَہُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ ثُمَّ جَلَسَ یَبُوْلُ اِلَیْھَا فَقُلْتُ یَا اَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ اَلَیْسَ قَدْنُھِیَ عَنْ ھٰذَا قَالَ بَلْ اِنَّمَا نُھِیَ عَنْ ذٰلِکَ فِی الْفَضَآءِ فَاِذَا کَانَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ شَیْی ءٌ یَسْتُرُکَ فَلَا بَأْسَ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت مروان اصفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا اونٹ قبلہ کی طرف بیٹھایا پھر خود بیٹھے اور اونٹ کی طرف پیشاب کیا میں نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا " ابوعبدالرحمن!(یہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ہے) کیا اس طرح قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا " انہوں نے فرمایا " ہاں جنگل میں اس سے منع فرمایا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔" (ابوداؤد) تشریح : اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے دلیل پکڑتے تھے جسے اس باب کی پہلی حدیث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ کی طرف پشت کر کے پاخانہ کرتے ہو دیکھا تھا اور یہ اسی موقع پر بتایا جا چکا ہے کہ اس فعل میں کئی احتمالات پیدا ہوتے ہیں لہٰذا فعل محتمل کو دلیل کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور پھر اس کی بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر احادیث سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کا حکم عام ہے اس میں جنگل کی تخصیص نہیں ہے اسی لیے امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ اس حکم میں جنگل و آبادی سب برابر ہیں قبلہ کی طرف منہ و پشت کرنا ہر جگہ ممنوع ہے خواہ جنگل کا کھلا میدان ہو یا آبادی میں گھرے ہوئے مکانات۔
-
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلاءِ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِیّ الْاَذٰی وَعَافَنِی یعنی تمام تعریفیں خداہی کو زیبا ہیں جس نے مجھے سے تکلیف دہ چیز (یعنی پاخانہ) کو دور کیا اور مجھے عافیت بخشی۔''(ابن ماجہ)-
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِیّ الْاَذٰی وَعَافَانِی یعنی تمام تعریفیں خداہی کو زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز (یعنی پاخانہ) کو دور کیا اور مجھے عافیت بخشی۔" (ابن ماجہ) تشریح : یوں تو اگر کوئی انسان یہ چاہے کہ وہ اللہ کی نعمت کو دائرہ شمار میں لے آئے جو اس پر اللہ کی جانب سے ہیں تو یہ مشکل ہیں نہیں بلکہ ناممکن ہے، پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی ساری زندگی اور اس کی حیات کا ایک ایک لمحہ اللہ رحیم و کریم کی بے شمار نعمتوں ہی کا مرہون منت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اللہ کی ان بے شمار اور لا محدود نعمتوں کا شکر بھی بجا طور پر ادا نہیں کر سکتا۔ اب آپ پیشاب و پاخانہ ہی کو لے لیجئے بظاہر تو کتنی معمولی سے چیز ہے، اور کتنی غیر اہم ضرورت مگر ذرا کسی حکیم و ڈاکٹر سے اس کی حقیقت تو معلوم کر کے دیکھ لیجئے، ایک طبی ماہر آپ کو بتائے گا کہ ان معمولی چیزوں پر انسان کی زندگی کا کتنا دار و مدار ہے اور انسان کی موت و حیات سے اس کا کتنا گہرا تعلق ہے؟ اگر کسی آدمی کا کچھ عرصہ کے لیے پیشاب بند ہو جائے، یا کسی کا پاخانہ رک جائے تو اسکی زندگی کے لالے پڑھ جاتے ہیں اور خدانخواستہ اگر اس عرصہ میں غیر معمولی امتداد پیدا ہوجائے تو پھر اس کی زندگی موت کی آغوش میں سوتی نظر آتی ہے۔ تو کیا؟ یہ اللہ کا ایک عظیم انعام اور اس کا بہت بڑا فضل و کرم نہیں ہے کہ وہ اس تکلیف دہ چیز کو انسان کے جسم سے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کتنی آسانی سے خارج کرتا رہتا ہے، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ زبان جو اس کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر ہر وقت ادائے شکر و سپاس میں مشغول رہتی تھی اس کی عظیم الشان نعمت پر شکر سے قاصر رہتی۔ چنانچہ یہ حدیث یہی بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بیت الخلاء سے باہر نکلتے، اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اے الٰہ العلمین! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے زیبا ہیں، تمام حمد و ثناہ کا تو ہی مستحق ہے، اور کیوں نہ ہو؟ جب کے تیری ذات اپنے بندوں کے لیے سراسر لطف و کرم اور رحمت و شفقت ہے۔۔۔ جس کا ایک ادنیٰ سا اظہار یہ بھی ہے کہ تو نے اس وقت محض اپنے فضل و کرم سے ایک تکلیف دہ چیز کو میرے جسم سے خارج کیا اور اس طرح مجھے سکون وا طمینان عطا فرمایا اور عافیت بخشی۔ بعض احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا بھی منقول ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا سے باہر آنے کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ اَلحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذْھَبَ عَنِّی مَایُؤْ ذِیْنِی وَاَبْقَی عَلَیَّ مَایَنْفَعُنِی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور وہ چیز باقی رکھی جو میرے لے فائدہ منہ ہے۔ غذا ہضم ہونے پر دوحصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، ایک بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جو فضلہ بن جاتا ہے، دوسرا حصہ جو غذا کا اصل جوہر ہوتا ہے وہ خون وغیرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اس پر زندگی کی بقامنحصر ہوتی ہے، چنانچہ اس دعا میں غذا کی انہی دونوں حصوں کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگر ان دونوں نعمتوں کا کوئی آدمی خیال کرے تو اسے احساس ہو کہ یہ کتنی اہمیت کی حامل ہیں لیکن افسوس کہ آج ایسے کتنے ہی بے حس و لاپرواہ انسان ملیں گے جن کے دماغ و شعور میں ان کا تصور بھی نہیں ہوگا۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ وَفْدُ الْجِنِّ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اﷲ اِنْہَ اُمَّتَکَ اَنْ یَسْتَنْجُوْا بِعَظْمٍ اَوْرَوْثَۃٍ اَوْحِمَمَۃٍ فَاِنَّ اﷲَ جَعَلَ لَنَا فِیْھَا رِزْقًافَنَھَانَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمعَنْ ذٰلِکَ۔(رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنات کی جماعت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی امت کو منع فرما دیجئے کہ وہ گوبر، ہڈی اور کوئلہ سے استنجاء نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارا رزق پیدا کیا ہے" چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان (چیزوں کے استعمال) سے منع فرمایا۔" (ابوداؤد) تشریح : ہڈی جنات کی خوارک ہے جس سے وہ غذا حاصل کرتے ہیں، اسی طرح لید ان کے جانوروں کی خوارک ہے نیز کوئلے سے بھی چونکہ جنات فائدہ اٹھاتے ہیں مثلاً کوئلہ سے کھانا وغیرہ پکاتے ہیں یا اس سے روشنی کرتے ہیں اس لیے اس کو بھی رزق میں شمار کیا گیا ہے۔
-