نماز کے فضائل کا بیان

وَعَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رُوَےْبَۃَ ص قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ لَنْ ےَّلِجَ النَّارَ اَحَدٌ صَلّٰی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَاےَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت عمارہ ابن رویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( حضرت عمیرہ رویبہ کے صاحبزادے اور قبیلہ بنی جثم بن ثقیف سے ہیں اور کوفی ہیں١٢۔) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے سورج نکلنے اور چھپنے سے پہلے ( دو نمازیں) یعنی فجر اور عصر کی پڑھیں تو وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ " (رواہ صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں کو پابندی سے پڑھتا رہے تو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔ بظاہر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں پر مداومت کرے گا، وہ دوسری نمازوں کو چھوڑنے یا دوسرے گناہوں کے صدور کے سبب دوززخ میں داخل نہیں کیا جائے گا حالانکہ جمہور علماء کرام کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ نمازیں صغیرہ گناہوں کا کفارہ تو ہو جاتی ہیں۔ کبیرہ گناہوں کا نہیں ہوتیں۔ چنانچہ علامہ طیبی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ صبح کا وقت عام طور پر آرام کا ہوتا ہے اسی طرح شام کا تجار وغیرہ کی مشغولیت کا ہوتا ہے لہٰذا جو آدمی ان دونوں موانع کے باجود ان دونوں نمازوں کی مخافظت کرتا ہے تو وہ بزبان حال اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دوسرے اعمال میں بھی کمی زیادتی کرنے والا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَا ءِ وَالْمُنْكَرِ ) 29۔ العنکبوت : 45) (بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے) لہٰذا اس بناء پر وہ بخشش کی سعادت سے نوازا جائے گا اور دوزخ میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ اور ظاہر یہ ہے کہ اس حدیث سے ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت کے بیان میں مبالغہ مراد ہے کہ ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی محافظت کرنے والا آدمی دوزخ میں داخل نہ کیا جائے گا اور باوجودیکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ہر عمل پر جزاء و سزا کا ترتب کرتا ہے مگر وہ چاہے تو ان دونوں نمازوں کے ادا کرنے کے سبب وہ گناہ جو اس کے بندوں سے سرزد ہوئے ہوں بخش سکتا ہے
-
وَعْن اَبِیْ مُوْسٰی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الْبَرْدَےْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی ٹھنڈے وقت کی دونوں نمازیں (یعنی فجر و عشاء) پڑھتا رہا تو وہ جنت میں جائے گا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ّص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَائِکَۃٌ بِاللَّےْلِ وَمَلَائِکَۃٌ بِالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِی صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس (آسمان سے) فرشتے رات دن آتے رہتے ہیں ( جو تمہارے اعمال لکھتے ہیں اور انہیں بارگاہ الوہیت میں پہنچاتے ہیں) اور فجر و عصر کی نماز میں سب جمع ہوتے ہیں اور جو فرشتے تمہارے پاس رہتے ہیں وہ (جس وقت) آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال جاننے کے باوجود ان سے (بندوں کے احوال و اعمال) پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ پروردگار! ہم نے تیرے بندوں کو نماز پرھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے اعمال کو لکھنے اور انہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے لیے (فرشتوں کی دو جماعتیں بندوں کے ہمراہ رہتی ہیں۔ ایک جماعت تو دن کے اعمال لکھتی ہے اور پھر عصر کے بعد واپس جا کر بارگاہ الوہیت میں اپنی رپورٹ پیش کر دیتی ہے۔ دوسری جماعت رات کے اعمال لکھتی ہے۔ یہ فجر کی نماز کے بعد واپس جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بندوں کے رات کے اعمال کی رپورٹ دیتی ہے چنانچہ دن اور رات میں دو وقت ایسے ہوتے ہیں جب کہ یہ دونوں جماعتیں جمع ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ تو فجر کے وقت جب کہ رات کے فرشتے واپس جاتے ہیں اور دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پر اتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مرتبہ ان دونوں جماعتوں کا اجتماع عصر کے وقت ہوتا ہے جب کہ دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس جاتے ہیں اور رات کے فرشتے اپنے کام پر حاضر ہوتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور اس کا علم زمین و آسمان کے ذرے ذرے کو محیط ہے ۔ وہ زمین و آسمانوں کے رہنے والوں کے ایک ایک عمل کو جانتا ہے مگر جب فرشتے بندوں کے اعمال کی رپورٹ لے کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو ان سے پوچھتا ہے کہ جب تم اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس لوٹ رہے تھے تو بتاؤ کہ اس وقت میرے بندے کیا کر رہے تھے ؟ اور اس کا یہ پوچھنا (نعوذ با اللہ ) علم حاصل کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سوال سے اس کا مقصد فرشتوں کے سامنے اپنی بندوں کی فضیلت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو بھیجنا چاہا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ پروردگار کیا تو ایسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہے جو دنیا میں فساد اور خون ریزی و غارت گری کا بازار گرم کرے گی ۔ اور پھر انہوں نے اپنی برتری و بڑائی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیری عبادت کے لیے تو ہم ہی کافی ہیں اور ہم ہی تیری عبادت و پر ستش کر بھی سکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان سے یہ سوال کر کے ان پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دیکھو! جس مخلوق کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ دہ دنیا میں سوائے فتنہ و فساد پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں کرے گی اب تم خود یکھ آئے ہو کہ وہ میری عبادت اور میری پر ستش کس پابندی اور کس ذوق و شوق سے کرتی ہے۔ بہر حال! اس حدیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو رغبت دلا رہے ہیں کہ ان دونوں اوقات میں ہمیشہ پابندی سے نماز پڑھتے رہو تاکہ وہ فرشتے اللہ کے سامنے تمہارے اچھے اور بہتر اعمال ہی پیش کرتے رہیں اور رب قدوس تمہاری فضیلت و بڑائی اسی طرح فرشتوں کے سامنے ظاہر کرتا رہے۔
-
وَعَنْ جُنْدُبِ الْقَسْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلّٰی صَلٰوۃَ الصُّبْحِ فَھُوَ فِیْ ذِمَّۃِ اللّٰہِ فَلَا ےَطْلُبَنَّکُمُ اللّٰہُ مِنْ ذِمَّتِہٖ بِشَےْئٍ فَاِنَّہ ُ مَنْ ےَّطْلُبُہ ُ مِنْ ذِمَّتِہٖ بِشَئٍْ ےُّدْرِکْہُ ثُمَّ ےَکُبُّہُ عَلٰی وَجْھِہٖ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ)-
" اور حضرت جندب قسری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ (دنیا و آخرت میں) اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے عہد میں کچھ مواخذہ کرے کیونکہ جس سے اس نے عہد و امان میں مواخذہ کیا تو (اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ) کہ اسے پکڑ کر دوزخ کی آگ میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قسری کے بجائے قشیری ہے۔" تشریح مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس آدمی سے بدسلوکی نہ کریں، اس کو قتل نہ کریں۔ اس کا مال نہ چھینیں، اس کی غیبت نہ کریں اور اس کو بے آبروئی نہ کریں۔ اگر کسی آدمی نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی یا اس کے ساتھ کوئی ایسا رویہ اختیار کیا جو اس کی جان و مال اور اس کی آبرو کے لیے نقصان دہ ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد و امان میں خلل ڈالا لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے آدمی سے سخت مواخذہ کرے گا اور جس بد نصیب سے اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کیا اس کے لیے نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہوگا۔ یا پھر " عہد و امان" سے مراد نماز ہے کہ صبح کی نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں امن دینے کا وعدہ کر لیا ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صبح کی نماز ہر گز قضا نہ کریں ورنہ ان کے اور پروردگار کے درمیان جو عہد ہے وہ ٹوٹ جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کرے گا اور اس کے مواخذے سے بچانے کی کوئی ہمت بھی نہیں کر سکتا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ ےَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِی النِّدَآءِ وَالصَّفِّ الْاَوَّلِ ثُمَّ لَمْ ےَجِدُوْا اِلَّا اَنْ ےَّسْتَھِمُوْا عَلَےْہِ لَاسْتَھَمُوْا وَلَوْ ےَعْلَمُوْنَ مَا فِی التَّھْجِےْرِ لَا سْتَبَقُوْا اِلَےْہِ وَلَوْ ےَعْلَمُوْنَ مَا فِی الْعَتَمَۃِ وَالصُّبْحِ لَاَتَوْھُمَا وَلَوْ حَبْوًا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر لوگوں کو اذان کہنے اور (نماز میں) پہلی صف میں کھڑے ہونے کا ثواب معلوم ہو جائے اور بغیر قرعہ ڈالے انہیں یہ حاصل نہ ہو سکے تو وہ ضرور قرعہ ہی ڈالیں (یعنی اگر لوگ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کے لیے آپس میں نزاع کریں اور قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ کس کا نام نکلتا ہے تو یہ مناسب ہے) اور اگر ظہر کی نماز کے لیے جلدی آنے کا ثواب جان لیں تو اس نماز میں دوڑتے ہوئے آیا کریں اور اگر عشاء و صبح کی نماز کی فضیلت معلوم ہو جائے (تو فوت نہ ہونے کی حالت میں بھی ان نمازوں کے لیے) سرین کے بل چل کر آئیں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اگر تھجیر کے معنی وہی لیے جائیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی ظہر کی نماز کے لیے جلدی آنا، تو اس فضیلت کا تعلق گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں کی ظہر کی نماز سے ہوگا کیونکہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھنا مستحب ہے۔ یا پھر " تہجیر کے معنی" طاعت کی طرف جلدی کرنا، ہوں گے اور بعض حضرات نے اس کے معنی" نماز جمعہ کے لیے دوپہر کو جانا بھی لکھے ہیں۔ وا اللہ اعلم۔ سرین کے بل چل کر آنے، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پاؤں سے چلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اس طرح گھسٹتا ہوا آئے جس طرح ضعیف و معذور چل کر آتے ہیں۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَےْسَ صَلٰوۃٌ اَثْقَلَ عَلَی الْمُنَافِقِےْنَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَآءِ وَلَوْ ےَعْلَمُوْنَ مَافِےْھِمَا لَاتَوْھُمَا وَلَوْ حَبْوًا (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافقین پر عشاء اور فجر سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں۔ اگر دونوں کے ثواب وہ جان لیں تو سرین کے بل چلتے ہوئے آیا کریں۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح منافقین کے مزاج میں عبادت کے سلسلے میں کسل و سستی بہت ہوتی ہے پھر جو نمازیں وہ پرھتے ہیں وہ بھی محض اپنی جان بچانے اور مسلمانوں کو دکھانے سنانے کے لیے پڑھتے ہیں۔ فجر اور عشاء یہ دو وقت ایسے ہیں جو اول تو آرام و استراحت اور نیند کی لذت حاصل کرنے کے ہیں۔ نیز جاڑوں کے موسم میں سردی کے ہیں دوسرے یہ کہ ان اوقات میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے کوئی کسی کو کم ہی پہچانتا ہے اس لیے یہ دونوں نمازیں ان بدبختوں پر بہت گراں ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مخلص و صادق مومنین کو چاہئے کہ وہ اس خصلت سے بچیں تاکہ منافقین کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔
-
وَعَنْ عُثْمَانَّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الْعِشَآءَ فِیْ جَمَاعَۃٍ فَکَاَنَّمَا قَامَ نِصْفَ الَّلےْلِ وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِیْ جَمَاعَۃٍ فَکَاَنَّمَا صَلَّی الَّلےْلَ کُلَّہُ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے نصف رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور جس آدمی نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے تمام رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔" (صحیح مسلم) تشریح اگر حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صبح کی نماز کا ثواب عشاء کی نماز کے ثواب سے زیادہ ہے کہ جب ہی تو کہا گیا ہے کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے والا ، نصف رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے والا پوری رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی تو اسے آدھی رات تک نماز پڑھنے کا ثواب ملا پھر فجر کی نماز بھی جماعت سے ادا کرلی تو بقیہ نصف رات تک کا ثواب مل گیا اس طرح دونوں نمازوں کے پڑھنے سے پوری رات تک عبادت کرنے والے کے ثواب کا وہ حقدار ہو گیا۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ ّص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَغْلِبَنَّکُمُ الْاَعْرَابُ عَلَی اسْمِ صَلٰوتِکُمُ الْمَغْرِبِ قَالَ وَتَقَوْلُ الْاَعْرَابُ ھِیَ الْعِشَآءُ وَقَالَ لَا ےَغْلِبَنَّکُمُ الْاَعْرَابُ عَلَی اسْمِ صَلٰوتِکُمُ الْعِشَآئئِ فَاِنَّھَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ الْعِشَآءُ فَاِنَّھَا تُعْتِمُ بِحِلَابِ الْاِبِلِ ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دیہاتی لوگ نماز مغرب کے نام لینے میں تم پر غالب نہ آجائیں راوی فرماتے ہیں کہ دیہاتی لوگ( مغرب کو) عشاء کہتے تھے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، نماز عشاء کے نام لینے میں بھی دیہاتی لوگ تم پر غالب نہ آجائیں۔ اس نماز کا نام کتاب اللہ میں عشاء ہے (چنانچہ ارشاد ربانی ہے آیت ( وَمِنْ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَا ءِ ) 24۔ النور : 58) اور وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے اس نماز میں تاخیر کر دیتے تھے۔" (صحیح مسلم) تشریح " دیہاتی لوگوں" سے مراد ایام جاہلیت کے دیہاتی لوگ ہیں جو مغرب کو تو عشاء کہتے تھے اور عشاء کو عتمہ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منع فرما دیا کہ یہ نام نہ لیے جائیں کیونکہ اس میں ان کا غالب ہونا لازم آتا ہے اس لیے کہ جب ان لوگوں کا رکھا نام استعمال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے ان کی زبان کو اپنایا جس کی بناء پر وہ تم پر غالب رہے لہٰذا تم وہی نام استعمال کر و جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں یعنی مغرب اور عشاء۔ لہٰذا۔ بظاہر تو اس نہی کا تعلق دیہاتی لوگوں سے ہے کہ وہ غالب نہ ہوں لیکن حقیقت میں اس نہی کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے کہ وہ ان نمازوں کے ناموں کے سلسلے میں دیہاتی لوگوں کی موافقت نہ کریں تاکہ مسلمانوں پر ان کا غالب ہونا لازم نہ آئے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان اور اپنا کلام اصطلاح شریعت کے مطابق درست کریں اور جو باتیں کفار و فجار کی زبان زد ہوں ان سے پرہیز کریں۔ نہی اور علت نہی بیان فرمانے کے بعد فَاِنَّھَا بِحَلَابِ الْاِبِلِ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو عتمہ کہنے کی وجہ کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔ " تعتم" صحیح روایت میں صیغہ معروف کے ساتھ ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ عتمہ تاریکی کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کو تاریکی میں پڑھتے تھے بایں طور پر کہ وہ شفق غائب ہونے کے بعد دودھ شروع کرتے تھے پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے۔ ایک دوسری روایت میں یہ لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ مذکور ہے جس کے معنی یہ ہوں گے ۔ اونٹنیوں کا دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کی نماز تاریکی میں پڑھی جاتی تھی۔ بہر حال ایام جاہلیت میں عرب کے لوگ عتمہ تاریکی کو کہتے تھے۔ جب اسلام کی مقدس روشنی نے عرب کی سر زمین کو کفر و شرک کے اندھیروں سے صاف کیا اور نمازیں مشروع ہوئیں تو عشاء کی نماز کو دیہاتی لوگ صلوۃ العتمہ کہنے لگے چنانچہ اس نام سے مسلمانوں کو روکا گیا اور اہل جاہلیت سے مشابہت کی بناء پر اس نام کو مکروہ قرار دے دیا گیا۔ یہ پہلے بھی کئی جگہ بتایا جا چکا ہے کہ جن روایتوں میں بجائے عشاء کی عتمہ کا لفظ آیا ہے وہ روایتیں اس نہی سے قبل کی ہوں گی۔
-
وَعَنْ عَلِیٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ےَوْمَ الْخَنْدَقِ حَبَسُوْنَا عَنْ صَلٰوۃِ الْوُسْطٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ مَلَأ اللّٰہُ بُےُوْتَھُمْ وَقُبُوْرَھُمْ نَارًا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے روز فرماتے تھے کہ (کافروں نے) ہمیں درمیانی نماز یعنی عصر کے پڑھنے سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں میں آگ بھرے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح غزوہ خندق کو غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں جو ٤ھ یا ٥ھ میں ہوا تھا۔ اس جنگ کو غزوہ خندق اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی غزوہ کے موقعہ پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے دشمنوں سے بچاؤ کی خاطر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی۔ خندق کھود نے میں تمام مسلمانوں کے ہمراہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی) بھی بنفس نفیس شریک تھے۔ جس طرح دیگر مخلص مومنین دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اللہ کے دین کی حفاظت اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی کے لیے اس محنت و مشقت میں مصروف رہتے تھے اسی طرح آقائے نامدار سرور کائنات فخر دو عالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بڑی بڑی تکالیف برداشت فرما کر مصائب و رنج اٹھا کر بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ کر سردی کی شدید پریشانی اور زمین کو کھودنے پتھر اکھاڑنے کی سخت محنت جھیل کر اپنے جانثار رفقاء کے ہمراہ خندق کھودتے تھے۔ اسی جنگ میں بسبب تردد اور تیر اندازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا گئی تھیں انہیں میں عصر کی نماز بھی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے یہ بد دعا فرمائی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان کفار و مشرکین نے ہماری نمازیں قضا کرا کر ہمیں سخت روحانی تکلیف و ازیت میں مبتلا کیا ہے، اللہ کرے وہ بھی دنیا و آخرت کے شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں۔ ایک معمولی سا خلجان یہاں واقع ہو سکتا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو جبکہ کفار کی جانب سے بے انتہا تکلیف پہنچائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں بددعا نہیں کی اور یہاں بدعا فرمائی اس کی وجہ کیا ہے؟۔ اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا معاملہ تھا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ اپنے نفس کے معاملہ میں کسی کے لیے بددعا نہ کریں مگر یہاں نماز کا سوال تھا جس کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نہ تھا بلکہ حقوق اللہ سے تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دع فرمائی۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ " صلوٰۃ وسطی" عصر کی نماز ہے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم میں سے اکثر جلیل القدر حضرات، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم وغیرہ کا قول یہی ہے لہٰذا قرآن شریف کی آیت کریمہ آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ : 238) (یعنی محافظت کرو تم سب نمازوں کی اور درمیانی نماز کی) میں وسطی سے عصر کی نماز ہی مراد لی جائے گی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کے تعین میں اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اختلاف رہا ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت تک ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث (جو آئندہ فصل میں آرہی ہے) نہیں پہنچی ہوگی جس سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ " صلوٰۃ وسطیٰ" سے عصر کی نماز مراد ہے ۔ اس لیے وہ حضرات اپنے اجتہاد اور رائے کی بناء پر اس کے تعین میں اختلاف کرتے ہوں گے چنانچہ اس حدیث کے صحت کے بعد یہ متعین ہوگیا کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ وا اللہ اعلم۔
-
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَسَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الْعَصْرِ۔ (رواہ الترمذی)-
" حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، درمیانی نماز (یعنی قرآن مجید میں جو والصلوۃ الوسطی مذکور ہے وہ) عصر کی نماز ہے۔" (جامع ترمذی ) تشریح صلوٰۃ وسطیٰ( یعنی درمیانی نماز) سے عصر کی نماز اس لیے مراد لی جاتی ہے کہ یہی نماز دن کی دونوں نمازوں (یعنی فجر اور ظہر) اور رات کی دونوں نمازوں ) یعنی مغرب و عشاء کے درمیان آتی ہے)۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدً ا قَالَ تَشْھَدُ ہ، مَلَآئِکَۃُ اللَّیْلِ وَمَلَآئِکَۃُ النَّھَارِ۔ (رواہ الترمذی)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قول آیت ( اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا) 17۔ الاسراء : 78) (یعنی فجر کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے) کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ صبح کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے حاضر (یعنی جمع) ہوتے ہیں۔" (جامع ترمذی ) تشریح آیت ( اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا) 17۔ الاسراء : 78) کے معنی قرات قرآن فجر ہیں اور اس سے مراد فجر کی نماز ہے۔ اسے قرآن اس لیے کہا ہے کہ قرات نماز کا ایک رکن ہے جیسے کہ بعض مقامات پر نماز کو سجدہ یا رکوع کہا گیا ہے۔ بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں " مشہود" سے مراد یہ ہے کہ بندوں کے دن اور رات کے اعمال لکھنے والے فرشتے اس نماز میں جمع ہوتے ہیں جیسا کہ اسی باب کی حدیث نمبر تین میں اس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔
-
عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَّعَائِشَۃَ قَالَا اَلصَّلٰوۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الظُّھْرِ رَوَاہُ مَالِکٌ عَنْ زَیْدٍ وَالتِّرْمِذِیٌّ عَنْھُمَا تَعْلِیْقًا۔-
" حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں فرماتے ہیں کہ صلوٰۃ وسطی (یعنی درمیانی نماز) ظہر کی نماز ہے۔ اس روایت کو امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے صرف حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے دونوں (یعنی حضرت زید و حضرت عائشہ) سے بطریق تعلیق یعنی بلا سند روایت کیا ہے۔" تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلوٰۃ وسطی سے ظہر کی نماز اس لیے مراد لیتے تھے کہ یہ نماز دن کے درمیانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے۔
-
وَعَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلَّی الظُّھْرَ بِالْھَا جِرَۃِ وَلَمْ یَکُنْ یُصَلِّی صَلَاۃً اَشَدُّ عَلٰی اَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلممِنْھَا فَنَزََلَتْ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقَالَ اِنَّ قَبْلَھَا صَلَ تَیْنِ وَ بَعْدَ ھَا صَلَاتَیْنِ۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤد)-
" اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سویرے ( یعنی دن ڈھلتے ہی) پڑھ لیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر ان تمام نمازوں میں جو وہ پڑھتے تھے ظہر کی نماز سے زیادہ سخت کوئی نماز نہ تھی چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی) 2۔ البقرۃ : 238) یعنی! تم سب نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز کی محافظت کرو۔ اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ظہر کی نماز سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور بعد بھی دو نمازیں ہیں۔" (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری جز سے راوی کا مقصد یہ ہے کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ لہٰذا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ثابت کرنا کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے ان کا اپنا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس لیے ان کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے متعارض نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صراحت کے ساتھ فرما دیا ہے۔ کہ " درمانی نماز" سے مراد عصر کی نماز ہے۔
-
وَعَنْ مَالِکٍ بَالَغَۃُ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَ عَبْدَاﷲِ بْنَ عَبَّاسٍ کَانَ یَقُوْ لَا نِ الصَّلٰوۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الصُّبْحِ رَوَاہُ فِی الْمُوطَّا وَرَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ تَعْلِیْقًا۔-
" اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کہا کرتے تھے کہ درمیانی نماز (سے مراد) صبح کی نماز ہے۔ (موطا امام مالک) اور یہ روایت حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق تعلیق نقل کی ہے۔" تشریح یہ بھی ان دونوں حضرات کا اپنا اجتہاد ہے کہ ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہ پہنچی ہوگی اس لیے انہوں نے بطریق احتمال کہا کہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے۔ بہر حال۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہی ہے یہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے مگر حضرت امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ جو شافعی المسلک ہیں فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں صحیح احادیث منقول ہیں کہ درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے۔ گو حضرت ماوردی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو شوافع کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ تصریح کر دی ہے کہ صبح کی نماز درمیانی نماز ہے۔ تاہم ان صحیح احادیث کو دیکھتے ہوئے جن سے بصراحت ثابت ہے کہ عصر کی نماز ہی درمیانی نماز ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شافعی مسلک میں بھی یہی ہوگا کیونکہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ " اگر تم ایسی حدیث پاؤ جس کے برخلاف میں نے حکم دے رکھا ہو تو میرا صحیح مسلک وہی سمجھنا جو صحیح حدیث سے ثابت اور میرا پہلا حکم دیوار پر پھینک مارنا " ۔
-
وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ غَدَاِلٰی صَلَاۃِ الصُّبْحِ غَدَابَرَاْیَۃِ لینان وَمَنْ غَدَراِلٰی اَلسَّوْقِ غَدَابَرَایَۃِ اِبْلِیْسَ۔(رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی صبح کی نماز کے لیے جاتا ہے وہ گویا وہ ایمان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے اور جو آدمی صبح بازار جاتا ہے تو گویا وہ شیطان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے۔ " (ابن ماجہ) تشریح علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے لشکر اور شیطان کو بیان کرنے کے لیے تمثیل ہے کہ جو آدمی فجر کی نماز پڑھنے کے لیے صبح سویرے مسجد کی طرف چلتا ہے تو گویا وہ ایمان کا جھنڈا اٹھا کر شیطان سے جنگ کرنے کے لیے چلتا ہے جس طرح غازی اور مجاہدین دشمناں اسلام سے برسر پیکار ہونے کے لیے اسلامی جھنڈا لے کر چلتے ہیں لہٰذا صبح سویرے فجر کی نماز کو جانے والا آدمی اللہ تعالیٰ کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے اور جو آدمی صبح سویرے حصول دنیا کے چکر میں بازار کی طرف چلتا ہے تو وہ شیطان کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے۔ بایں طور کہ وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نماز کو جانے کی بجائے شیطان کی خواہش پر عمل کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے دین کو کمزور کر کے شیطان کی پیروی اور تابعداری کا جھنڈا اٹھا کر اس کی شان و شوکت بڑھاتا ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ یہ تمثیل اس آدمی کے حق میں ہے جو فجر کی نماز اور وظائف پڑھے بغیر بازار جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی آدمی نماز و تلاوت اور وظائف سے فارغ ہو کر حلال رزق طلب کرنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے سامان حیثیت کی فراہمی کی خاطر بازار جاتا ہے تو وہ اس تمثیل کی رو سے شیطان کے لشکر کا فرد نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے لشکر کا فرد ہوتا ہے۔
-