نماز میں سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے

عَنْ عَبْدِاﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اﷲُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ فِی الصَّلٰوۃِ قَبْلَ اَنْ نَاتِیَ اَرْضَ الْحَبَشَۃِ فَیَرُدُّ عَلَیْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ اَرْضِ الْحَبَشَۃِ اَتَیْتُہ، فَوَجَدْتُہ، یُصَلِّی فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ حَتّٰی اِذَا قَضٰی صَلٰوتَہ، قَالَ اِنَّ اﷲَ یُحْدِثُ مِنْ اَمْرِہٖ مَا یَشَاءُ وَاِنَّ مِمَّا اَحْدَثَ اَنْ لاَّ تَتَکَلَّمُوْا فِی الصَّلٰوۃِ فَرَدَ عَلَیَّ السَّلَامَ وَقَالَ اِنَّمَا الصَّلٰوۃُ لِقَرَاءَ ۃِ الْقُرْاٰنِ وَذِکْرِ اﷲِ فَاِذَا کُنْتَ فِیْھَا فَلْیَکُنْ ذَالِکَ شَانَکَ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ملک حبشہ سے واپسی سے قبل ہم سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہوتے تھے سلام کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے پھر جب ہم ملک حبشہ سے واپس ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا " اللہ تعالیٰ اپنے جس حکم کو چاہتا ہے ظاہر کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اب یہ حکم ظاہر کیا ہے کہ نماز میں بات چیت نہ کیا کرو" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیا اور اس کے بعد فرمایا نماز صرف قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے لہٰذا جب تم نماز کی حالت میں ہو تو تمہارا بھی یہی حال ہونا چاہئے یعنی صرف قرآن پڑھو اور اللہ کا ذکر کرو۔" (ابوداؤد) تشریح ابن ملک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دینا مستحب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی استنجاء کرتا ہوا ہو یا قرآن پڑھتا ہوا ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسی حالت میں اسے سلام کرے تو اس کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دے۔
-