TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
پاکی کا بیان
نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا شَرِبَ الْکَلْبُ فِیْ اِنَآءِ اَحَدِکُمْ فَلْےَغْسِلْہُ سَبْعَ مَرَّاتٍ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ طُھُوْرُ اِنَآءِ اَحَدِکُمْ اِذَا وَلَغَ فِےْہِ الْکَلْبُ اَنْ ےَغْسِلَہُ سَبْعَ مَرَّاتٍ اُوْلٰھُنَّ بِالتُّرَابِ۔-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کسی کے برتن میں سے کتاپانی پی لے تو اس برتن کو سات مربتہ دھونا چاہئے ( بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جس کے برتن سے کتا پانی پی لے اس (برتن) کو پاک کرنے کی صورت یہ ہے اسے سات مرتبہ دھو ڈالے اور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوئے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس کو بھی دوسری نجاستوں کے حکم میں شمار کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس برتن کو صرف تین مرتبہ بغیر مٹی کے دھو ڈالنا کافی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں سات مرتبہ دھونے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طریقے پر نہیں ہے بلکہ اختیار کے طور پر ہے، یا پھر یہ کہ سات مرتبہ دھونے کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا! وا اللہ اعلم۔ تشریح اکثر محدثین اور تینوں آئمہ کے مسلک یہ ہیں کہ اگر برتن میں کتا منہ ڈال دے یا کسی برتن سے پانی پی لے اور کھائے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَامَ اَعْرَابِیٌّ فَبَالَ فِی الْمَسْجِدِفَتَنَاوَلَہُ النَّاسُ فَقَالَ لَھُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم دَعُوْہُ وَھَرِےْقُوْا عَلٰی بَوْلِہٖ سَجْلًا مِّنْ مَّآءٍ اَوْ ذَنُوْبًا مِّنْ مَّآءٍ فَاِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُےَسِّرِےْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِےْنَ ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن ) ایک دیہاتی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا (یہ دیکھ کر) لوگ اسکے پیچھے پڑنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اسے چھوڑ دو اور ایک ڈول میں پانی اس کے پیشاب پر بہادو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنے والے نہیں۔)" (الصحیح البخاری ) تشریح راوی کو شک ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجلا من ماء فرمایا ہے یا ذنوبا من ماء کے الفاظ فرمائے ہیں اسی لیے انہوں نے دونوں نقل کر دئیے ہیں " سجل" اور " ذنوب" دونوں کے معنی ڈول ہی کے ہیں لیکن ان کے استعمال میں تھوڑا سا فرق ہے وہ یہ کہ سجل تو اس ڈول کو کہتے ہیں جس میں پانی ہو خواہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ اور ذنوب پانی سے بھرے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی شفقت و رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و عفو کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر کتنے مہربان اور شفیق تھے چنانچہ نہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس دیہاتی کی غلطی سے در گزر فرماتے ہوئے اس کو کچھ نہ کہا بلکہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے برا بھلا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ تم جس پیغمبر کے رفیق و ساتھی اور جس امت کے فرد ہو اس کی مابہ الامتیاز خصوصیت ہی یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو سختی و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ کسی کی غلطی پر جو عدم و اقفیت کی بناء پر سرزد ہو جائے برا بھلا کہا جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے امت کے لیے یہ تعلیم مقصود ہے کہ لوگوں کو کسی دشواری اور سختی میں نہ ڈالا جائے اور نہ ایسا کوئی معاملہ کیا جائے جس سے دوسرا آدمی بد دل ہو جائے اور اپنے آپ کو کسی گھٹن اور تنگی میں محسوس کرے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر زمین پر کوئی نجاست و گندگی پڑی ہوئی ہو تو اس نجاست پر زیادہ مقدار میں پانی ڈالنے یا نجاست کو بہا دینے سے زمین پاک ہو جاتی ہے۔ یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نجاست کا دھووں اگر متغیر نہ ہو تو پاک ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے کپڑے، بدن، اور زمین پر یا کسی بوریے وغیرہ سے چھن کر زمین پر گرے تو یہ چیزیں ناپاک نہیں ہوں گی اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے مگر مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ دھوون اگر نجاست کی جگہ اس وقت گرے جب وہ نجاست کے زائل ہونے کی وجہ سے پاک ہو چکی ہو تو اس شکل میں وہ پاک ہوگا اور وہ دھوون جو نجاست کی جگہ سے پاک ہونے سے پہلے جدا ہوا وہ ناپاک ہوگا اور اگر دھوون متغیر ہو جائے بایں طور کہ پانی کے رنگ، مزے اور بو میں تبدیلی آجائے تو وہ بالاتفاق ناپاک ہے۔ علامہ طیبی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ اگر زمین کسی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہو جائے تو وہ خشک ہونے سے پاک نہیں ہوتی یعنی وہ جگہ پانی بہا کر نجاست کو زائل کر دینے ہی سے پاک ہوگی اور اس جگہ کو کھرچ ڈالنا یا وہاں سے مٹی کھود کر اٹھا لینا ضروری نہیں ہے۔ مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک خشک ہونے سے زمین پاک ہو جاتی ہے اور اگر کوئی چاہے کہ خشک ہونے سے پہلے ہی زمین پاک ہو جائے تو وہاں سے مٹی کھرچ کر اٹھا دی جائے تاکہ وہ حصہ پاک ہو جائے۔ علماء حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے مسجد کی زمین کے اس حصہ کے جہاں خشک ہو جانے سے پہلی جگہ جہاں دیہاتی نے پیشاب کر دیا تھا نماز پڑھ لی گی جس کی بناء پر حکم لگا دیا گیا کہ ناپاک زمین بغیر پانی بہائے ہوئے پاک نہیں ہوتی، جہاں تک سوال پانی ڈالنے کا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت نجاست کی جگہ پانی بہانے کا حکم اس لیے دیا ہوگا کہ پیشاب کی نجاست میں کچھ کمی ہو جائے اور پیشاب کا رنگ اور اس کی بدبو پانی بہانے کی وجہ سے ختم ہو جائے، مگر زمین کا وہ حصہ خشک ہونے کے بعد ہی پاک ہوا ہوگا۔ اس سلسلے میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے مشکوۃ کی شرح مرقات میں اور بہت سی دلیلیں لکھی ہیں جو وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ بَےْنَمَا نَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذْ جَآءَ اَعْرَابِیٌّ فَقَامَ ےَبُوْلُ فِی الْمَسْجِدفَقَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَہْ مَہْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُزْرِمُوْہُ دَعُوْہُ فَتَرَکُوْہُ حَتّٰی بَالَ ثُمَّ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم دَعَآہُ فَقَالَ لَہُ اِنَّ ھٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَی ءٍ مِّنْ ھٰذَا الْبَوْلِ وَالْقَذْرِ اِنَّمَا ھِیَ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃِ وَقِرَآۃِ الْقُرْاٰنِ اَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَاَمَرَ رَجُلًا مِّنَ الْقَوْمِ فَجَآءَ بِدَلْوٍ مِّنْ مَّآءٍ فَسَنَّہُ عَلَےْہِ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک ایک دیہاتی آیا اور مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے کہنے لگے کہ ٹھہر جا ! ٹھہر جا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اسے پیشاب کرنے سے نہ رو کو بلکہ اسے چھوڑ دو اور پیشاب کرنے دو کیونکہ اگر تمہارے دھمکانے سے اس کا پیشاب رک گیا تو اس کے لیے تکلیف دہ ہوگا پھر اس طرح اس کا پیشاب جو ایک ہی جگہ ہے کئی جگہ پھیل جائے گا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے چھوڑ دیا اور اس دیہاتی نے (جب پورا ) یشاب کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور (نہایت شفقت و مہربانی سے ) فرمایا کہ " مسجدیں پیشاب و گندگی وغیرہ کے لیے نہیں ہیں بلکہ ذکر الہٰی اور نماز و قرآن پڑھنے کے لیے ہیں " یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مثل فرمایا (یعنی راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے یہی الفاظ فرمائے تھے یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس میں سے ایک آدمی کو حکم دیا اس نے ایک ڈول پانی لا کر پیشاب پر بہا دیا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
-
عَنْ اَسْمَآءَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ سَاَلَتْ امْرَاَۃٌ رَّسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَءَ ےْتَ اِحْدٰنَا اِذَا اَصَابَ ثَوْبَھَا الدَّمُ مِنَ الْحَےْضَۃِ کَےْفَ تَصْنَعُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَصَابَ ثَوْبَ اِحْدٰکُنَّ الدَّمُ مِنَ الْحِےْضَۃِ فَلْتَقْرُصْہُ ثُمَّ لِتَنْضَحْہُ بِمَآءٍ ثُمَّ لِتُصَلِّ فِےْہِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کوئی حیض کا خون کپڑے پر لگا ہوا پائے تو کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے چاہئے کہ (پہلے ) چٹکیوں سے اسے ملے پھر پانی سے دھولے اور اسی کپڑے میں (خواہ تر ہی کیوں نہ ) ہو نماز پڑھ لے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
-
عَنْ سُلَےْمَانَ بْنِ ےَسَارٍ ص قَالَ سَاَلْتُ عَآئِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ الْمَنِیِّ ےُصِےْبُ الثَّوْبَ فَقَالَتْ کُنْتُ اَغْسِلُہُ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَےَخْرُجُ اِلَی الصَّلٰوۃِ وَاَثَرُ الْغَسْلِ فِیْ ثَوْبِہٖ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت سلیمان بن یسار ( اسم گرامی سلیمان ابن یسار اور کنیت ابوایوب ہے آپ تابعی ہیں آپ کا ١٧ء ھ میں بعمر ٥٣ سال میں انتقال ہوا۔ ) فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کپڑے پر لگی ہوئی منی کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو دھویا کرتی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جب اسی گیلے کپڑے کے ساتھ) نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو اس کپڑے پر (منی) کے دھونے کا نشان رہتا تھا۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی ناپاک ہے اگر منی کسی کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو اسے دھو کر پاک کر لینا چاہئے چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح سنک (یعنی ناک سے نکلنے والی) رطوبت پاک ہے اسی طرح منی بھی پاک ہے۔
-
عَنِ الْاَسْوَدِ وَھَمَّامٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَاعَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کُنْتُ اَفْرُکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَبِرَوَاےَۃِ عَلْقَمَۃَ وَالْاَسْوَدِرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ عَآئِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نَحْوَہُ وَفِےْہِ ثُمَّ ےُصَلِّیْ فِےْہِ۔-
" اور حضرت اسود ( حضرت اسود بن محاربی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تابعی ہیں ٨٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) و حضرت ہمام ( حضرت ہمام ابن حارث تحفی تابعی ہیں اور حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔ ) راوی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا " میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے (خشک) منی کھرچ دیا کرتی تھی" (صحیح مسلم) اور مسلم نے اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علقمہ اور حضرت اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ہی طرح ایک روایت بھی نقل کی ہے ۔ جس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کپڑے سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔" تشریح یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مطابق منی کے ناپک ہونے کو وضاحت کے ساتھ ثابت کر رہی ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ تر منی کو دھونا چاہئے اور گاڑھی منی کو جو کپڑے کے اندر سرایت نہ کرے خشک ہونے کے بعد کھرچ کر اور رگڑ کر صاف کر دینا چاہئے۔
-
وَعَنْ اُمِّ قَےْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ اَنَّھَا اَتَتْ بِاِبْنِ لَّھَا صَغِےْرٍ لَّمْ ےَاکُلِ الطَّعَامَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَجْلَسَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ حِجْرِہٖ فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِہٖ فَدَعَا بِمَاءٍ فَنَضَحَہُ وَلَمْ ےَغْسِلْہُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ام قیس بنت محصن ( حضرت ام قیس محصن کی لڑکی اور عکاشہ کی بہن ہیں ابتداء ہی میں مکہ میں اسلام کی دولت سے مشرف ہوگئی تھیں۔ ) سے مروی ہے کہ " وہ اپنے چھوٹے لڑکے کو بھی جو ابھی کھانا نہ کھاتا تھا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور کپڑوں پر بہا دیا اور خوب مل کر نہیں دھویا۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر شیر خوار بچہ جو اناج نہ کھاتا ہو کسی کپڑے وغیرہ پر پیشاب کر دے تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس پر پانی چھڑک دینا کافی ہو جائے گا چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے مسلک کی تائید کر رہی ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ بچے کے پیشاب کو بھی ہر حال میں دھونا ضروری ہے۔ اس حدیث میں " نضح" جو لفظ آیا ہے اور جس کے معنی چھڑکنا ہیں اس کے معنی یہ دونوں حضرات " دھونا " ہی فرماتے ہیں۔ پھر حدیث کے آخری الفاظ " لا یغسلہ" (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کو دھویا نہیں) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب مل مل کر نہیں دھویا بلکہ بچے کے پیشاب کے پیش نظر معمولی طور پر اس پر پانی بہا کر دھو ڈالنا ہی کافی سمجھا یہ دونوں حضرات اس حدیث کی یہ مذکورہ تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ دوسری احادیث مثلاً استنز ھو من البول (یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو) سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ ہر ایک پیشاب کو دھونا چاہئے حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں " نضح" سے مراد بغیر ملے اور نچوڑے پانی کا بہانا ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بچوں کو دعا و برکت حاصل کرنے کے لیے بزرگوں اور اولیاء اللہ کے پاس لے جانا مستحب ہے، نیز بچوں کے ساتھ تواضع و نرمی اور محبت و شفقت کا معاملہ کرنا بھی مستحب ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَاقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ اِذَا دُبِغَ الْاِھَابُ فَقَدْ طَھُرَ۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " جب چمڑا دباغت دے دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح چمڑے کو ناپاکی وغیرہ سے پاک کرنے کو دباغت کہتے ہیں۔ چمڑے کو دباغت کئی طرح دی جاتی ہے یا تو چمڑے کو چھالوں وغیرہ میں ڈال کر پکایا جاتا ہے یا دھوپ میں رکھ کر اسے خشک کر لیا جاتا ہے اور اگر چمڑا بغیر دھوپ کے خشک کیا جائے تو اس کو دباغت نہیں کہیں گے بہر حال دباغت کے ذریعے چمڑا چاروں ائمہ کرام کے نزدیک پاک کیا جا سکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تو سور اور آدمی کے چمڑے کے علاوہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے ۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک کتے کا چمڑہ بھی پاک نہیں ہوتا حالانکہ حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے۔ البتہ آدمی اور سور کا چمڑا مستثنیٰ ہے کیونکہ آدمی کا چمڑا تو انسان کی عظمت و بزرگی کے پیش نظر پاک نہیں ہوتا اور سور کا چمڑا اس لیے پاک نہیں ہوتا کہ وہ نجس عین ہے۔
-
وَعَنْہُ قَالَ تُصُدِّقَ عَلٰی مَوْلَاۃٍ لِّمَےْمُوْنَۃَ بِشَاۃٍ فَمَاتَتْ فَمَرَّ بِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ھَلَّا اَخَذْتُمْ اِھَابَھَا فَدَبَغْتُمُوْہُ فَانْتَفَعْتُمْ بِہٖ فَقَالُوْا اِنَّھَا مَےْتَۃٌ فَقَالَ اِنَّمَا حُرِّمَ اَکْلُہَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک آزاد کردہ باندی کو ایک بکری صدقہ میں دی گئی (اتفاق سے ) وہ بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " تم نے اس کا چمڑا اتار کیوں نہ لیا؟ اس چمڑے کو دباغت دے کر اس سے نفع اٹھا لیتے ! لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ صرف اس کا کھانا حرام ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردار (یعنی جانور بغیر ذبح کئے ہوئے مر جائے اور اس کا کھانا حرام ہو تو جو اجزاء ذبح کرنے کی صورت میں کھائے جاتے ہیں مثلاً گوشت وغیرہ وہ تو مرنے کے بعد حرام ہو جاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دوسری چیزوں مثلاً دباغت دئیے ہوئے چمڑے، دانت، بال اور سینگ وغیرہ سے فائدہ اٹھانا یعنی ان کی خرید و فروخت کرنا اور ان کو دوسری ضرورتوں میں استعمال کرنا جائز ہے۔
-
وَعَنْ سَوْدَۃَ زَوْجِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَتْ مَاتَتْ لَنَا شَاۃٌ فَدَ بَغْنَا مُسْکَھَا ثُمَّ مَا زِلْنَا نُبِیْذُ فِیْہِ حَتّٰی صَارَ شَنًّا۔ (رواہ البخاری)-
" اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (ام المومنین حضرت سودا زمعہ کی بیٹی ہیں ابتداء اسلام سے مشرف تھی انتقال ٥٤ھ مدینہ میں ہوا۔ ) فرماتی ہیں کہ " ہماری ایک بکری مر گئی تھی ہم نے اس کی کھال اتار کر دباغت دے لی اور ہمیشہ اسی میں نبید (یعنی پانی اور کھجوروں کا شربت ) بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی مشک ہوگئی۔" (صحیح البخاری )
-
عَنْ لُبَابَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ کَانَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ فِیْ حِجْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِہٖ فَقُلْتُ اِلْبَسْ ثَوْبًا وَاَعْطِنِیْ اِزَارَکَ حَتّٰی اَغْسِلَہ، فَقَالَ اِنَّمَا یُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْاُنْثٰی وَیُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الذَّکَرِ رَ وَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِاَ بِیْ دَاؤدَ وَالنِّسَائِیْ عَنْ اَبِی السَّمْحِ قَالَ یُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِیَۃِ وَیُرَ شُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ۔-
" حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( آپ کا نام لبابہ ہے اور حارث کی بیٹی ہیں کنیت ام فضل ہے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں۔ ) فرماتی ہیں کہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا میں نے عرض کیا کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم (دوسرا) کپڑا پہن کر یہ تہ بند مجھے دے دیجئے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں آپ نے فرمایا " لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے " (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ابوداؤد و سنن نسائی کی ایک روایت میں ابوسمح سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے۔" تشریح حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہاں " چھینٹا دینے" سے مراد تڑ یڑا دینا یعنی پیشاب کی جگہ پر بغیر ملے اور نچوڑے ہوئے پانی کا بہا دینا ہے اور " دھونے" سے مراد مبالغے کے ساتھ دھونا ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ ایک لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر پانی کا تڑیڑا دو " لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے پیشاب کو بھی دھونے کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر صرف پانی کا تڑیڑا دینا ہی کافی ہے یعنی اس کو ملنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لڑکوں کا پیشاب سوراخ کی تنگی کی بناء پر زیادہ نہیں پھیلتا اور لڑکیوں کا پیشاب سوراخ کی فراخی کی وجہ سے زیادہ پھیلتا ہے اس لیے لڑکیوں کے پیشاب کو خوب اچھی طرح دھونا چاہئے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا وَطِئَ اَحَدُ کُمْ بِنَعْلِہِ الْاَ ذٰی فَاِنَّ التُّرَابَ لَہ، طَھُوْرٌ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤوَ لِا بْنِ مَاجَۃَ مَعْنَاہُ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی اپنے جوتوں کے ساتھ گندگی پر چلے تو مٹی اس کو پاک کرنے والی ہے (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے بھی اسی کے ہم معنی روایت نقل کی ہے تشریح صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلا ایک آدمی جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے اتفاق سے کسی جگہ گندگی پڑی ہوئی تھی وہ اس کے جوتوں پر لگ گئی اب پھر وہ جب پاک اور صاف زمین پر چلے گا تو مٹی سے رگڑ کھانے کی وجہ سے اس کا جوتا پاک ہو جائے گا اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ایک شاگرد حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں گندگی سے مراد جو جسم والی اور خشک ہو یعنی اگر کسی راہ چلتے کے جوتے یا موزے میں ایسی گندگی لگ جائے جو جسم والی ہو اور خشک ہو تو پاک زمین پر رگڑ دینے سے وہ جوتا یا موزہ پاک ہو جائے گا اور اگر گندگی خشک نہ ہو تو پھر رگڑ نے سے گندگی زائل نہیں ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک دوسرے شاگرد رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ یہاں حدیث کی مراد عام ہے یعنی گندگی خواہ خشک ہو یا تر زمین پر رگڑنے سے پاک ہو جائے گی مگر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ پہلا قول ہے ان کا جدید مسلک یہ ہے کہ اس گندگی کو ہر حال میں پانی سے دھونا چاہئے زمین پر رگڑنے سے پاک نہیں ہوگی۔ فقہ حنفی میں فتویٰ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے قول پر ہے جو کہ جوتے یا موزے پر اگر تن دار نجاست لگ جائے خواہ وہ خشک ہو یا تر ہو تو زمین پر خوب اچھی طرح رگڑ دینے سے موزہ یا جوتا پاک ہو جائے گا۔ یہ سمجھ لیجئے کہ اس مسئلے میں علماء کرام کا یہ اختلاف تن دار نجاست جیسے گوبر وغیرہ ہی کے بارے میں ہے کیونکہ غیر تن دار نجاست مثلاً پیشاب و شراب کے بارے میں سب کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ اسے دھونا ہی واجب ہے۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ لَھَا اِمْرَ أَۃٌ اِنِّیْ اُطِیْلُ ذَیْلِیْ وَاَمْشِیْ فِی الْمَکَانِ الْقَدِرِ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُطَھِّرُہ، مَا بَعْدَہ،۔ (رَوَاہٌ مَالِکٌ وَ اَحْمَدُ وَ التِّرِمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَ الدَّارِمِیُّ وَقَالَا الْمَرْاَۃُ اُمُّ وَلَدٍلِا بْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ)-
" اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ ان سے ایک عورت نے کہا کہ میرا دامن لمبا ہے اور میں ناپاک جگہ پر چلتی ہوں (یہ خیال ہے کہ دامن کو ناپاکی لگ جاتی ہے) حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں) فرمایا تھا کہ " اس کو وہ چیز پاک کرتی ہے جو اس کے بعد ہے (یعنی پاک زمین یا مٹی)۔ " (مسند احمد بن حنبل، مالک، جامع ترمذی ، ابوداؤد اور درامی نے کہا ہے کہ (سوال کرنے والی) عورت ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کی ام ولد تھی (جس کا نام حمیدہ تھا) تشریح سوال کرنے والی کا مطلب یہ تھا کہ میرا دامن بہت لمبا ہے جب میں چلتی ہوں تو وہ زمین پر لگتا ہوا چلتا ہے اور جب میں نا پاک جگہ سے گزرتی ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ شاید دامن پر نجاست و گندگی لگ گئی ہوگی اس لیے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناپاک جگہ سے گزرتے ہوئے جب دامن میں نجاست لگ جاتی ہے تو بعد میں پاک صاف جگہ چلنے سے وہ نجاست زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے اور کپڑا پاک ہو جاتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ حکم خشک نجاست کے بارے میں ہے کہ اگر خشک نجاست کپڑے کو لگ جائے تو پھر پاک و صاف زمین پر چلنے سے وہ زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے جس سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ اس حکم کو خشک نجاست کے بارے میں خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اگر کپڑا ناپاک ہو جائے تو وہ بغیر دھوئے پاک نہیں ہوتا، بخلاف جوتے کے (تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جوتا اگر نجاست کے لگ جانے سے ناپاک ہو جائے تو اس کو پاک و صاف زمین پر رگڑ کر پاک کیا جا سکتا ہے خواہ وہ نجاست تر ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ ابھی اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک بیان کیا جا چکا ہے (وا اللہ اعلم)
-
وَعَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یْکَرَبَ قَالَ نَھٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ لُبْسِ جُلُوْدِ السَّبَاعِ وَالرُّ کُوْبِ عَلَیْھَا۔ (رواہ ابوداؤد و نسائی )-
" حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالوں کے پہننے اور ان پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔" (ابوداؤد ، سنن نسائی) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ درندوں مثلا شیر اور چیتے وغیرہ کی کھال کا لباس بنا کر انہیں پہنا نہ جائے، اسی طرح ان پر سوار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو بچھا کر اس پر بیٹھنا یا گھوڑے کی زین پر ڈال کر اس پر سوار ہونا مناسب نہیں ہے اس طرح ان کے استعمال سے منع اس لیے فرمایا گیا ہے کہ متکبر لوگوں اور خالص دنیا داروں کی عادت ہے لہٰذا نیک لوگوں کو ان سے اجتناب کرنا چاہئے اس شکل میں کہا جائے گا کہ یہ نہی تنزیہی ہے لیکن جن حضرات کے ہاں مردار کے بال نجس ہوتے ہیں اور وہ دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتے ان کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی الْمَلِیْحِ بْنِ اُسَامَۃَ عَنْ اَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنْ جُلُوْدِ السِّبَاعِ۔ (رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَ النِّسَائِیُّ وَزَادَ التِّرْمِذِیُّ وَ الدَّارِمِیُّ اَنْ تُفْتَرَشَ)-
اور حضرت ابوالملیح بن اسامہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عام صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال کو استعمال کرنے سے منع فرمایا (احمد، ابوداؤد و نسائی) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور دارمی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت میں یہ الفاظ زیادہ نقل کیے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ درندوں کی کھالوں کا فرش بنایا جائے)
-
وَ عَنْ اَبِی الْمَلِیْحِ اَنَّہُ کَرِہَ لَمَنَ جُلُودِ السِّبَاعِ (ترمذی)-
" اور حضرت ابوالملیح کے بارے میں منقول ہے کہ " وہ درندوں کی کھالوں کی قیمت کو (بھی) مکروہ سمجھتے تھے۔" (جامع ترمذی ) تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو خریدنا اور بیچنا بھی مناسب نہیں ہے چنانچہ ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی قول ہے اور یہ مسلک ابوالملیح رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی ہے فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہوا ہے کہ درندوں کے چمڑے کو دباغت دیے جانے سے پہلے بیچنا باطل ہے مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں لفظ راوہ کے بعد جگہ خالی تھی عبارت مذکورہ بعد میں بڑھائی گئی ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُکَیْمٍ قَالَ اَتَانَا کِتَابُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ لَّا تَنْتَفِعُوْا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِاِ ھَابٍ وَلَا عَصَبٍ۔ (رواہ الترمذی وابوداؤد و النسائی و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عبداللہ بن عکیم ( حضرت عبداللہ بن عکیم جہنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو پایا ہے لیکن یہ تحقیق سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات حاصل کیا یا نہیں۔ ( راوی ہیں کہ ہمارے (قبیلے جہینہ کے پاس سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا (جو) مکتوب گرامی آیا (اس میں یہ لکھا تھا ) کہ تم مردار کے چمڑے اور اس کے پٹھے سے نفع نہ اٹھاؤ ۔" ( جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حکم کا تعلق اس چمڑے اور پٹھے سے ہے جو دباغت نہ دیا گیا ہے یعنی دباغت سے پہلے چمڑے اور پٹھے کو استعمال میں لانا جائز نہیں ہے بلکہ چمڑے اور پٹھے کو دباغت دینے کے بعد استعمال کرنا اور ان سے منفعت حاصل کرنا جائز ہے۔ اکثر احادیث سے یہی ثابت ہے اور اکثر علماء کا مسلک بھی یہی ہے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَرَ اَنْ یُسْتَمْتَعَ بِجُلُوْدِ الْمَیْتَۃِ اِذَا بُغَتْ۔ (رواہ مالک و ابوداؤد)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردار کے چمڑے سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھایا جائے۔" ( مالک، سنن ابوداؤد) تشریح اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٩ کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے کہ دباغت کے بعد مردار کے چمڑے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یعنی اس کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی کی جاسکتی ہے البتہ اس مسئلے میں امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دو روایتیں ہیں مگر ان کا ظاہری قول یہ ہے کہ مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پاک ہو تو جاتا ہے لیکن اسے خشک چیز میں اور پانی میں رکھنے کے لیے استعمال کا جا سکتا ہے پانی کے علاوہ دوسری پتلی اور سیال چیزوں کے لیے اسے استعمال نہ کیا جائے۔
-
وَعَنْ مَیْمُوْنَہَ قَالَتْ مَرَّ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ یَجُرُّوْنَ شَاۃً لَّھُمْ مِثْلَ الْحِمَارِ فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ اَخَذْ تُمْ اِھَا بَھَا قَالُوْا اِنَّھَا مَیْتَۃٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُطِھِّرُھَا لْمَآءُ وَالْقُرَظُ۔ (رواہ احمد و ابوداؤد)-
" اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ قریش کے چند آدمی اپنی ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح کھینچتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) ان سے فرمایا کہ " اے کاش! تم اس کے چمڑے کو اتار لیتے !" (تو یہ کام آجاتا) انہوں نے عرض کیا کہ " یہ تو مردار ہے (یعنی ذبح کی ہوئی نہیں ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کیکر کے پتے اور پانی پاک کر دیتے ہیں (یعنی ان دونوں چیزوں کے ذریعے دباغت سے چمڑا پاک ہو جاتا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد) تشریح دباغت دینے کے کئی طریقے ہیں لیکن کیکر کے پتوں اور پانی سے دباغت کے بعد چمڑا خوب اچھی طرح پاک ہو جاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص ان دو چیزوں کا ذکر فرمایا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ چمڑے کی دباغت و طہارت ان ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ دوسرے طریقوں مثلاً دھوپ وغیرہ سے دباغت و طہارت ہو جاتی ہے ۔ البتہ یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث کے پیش نظر کیکر کے پتوں اور پانی سے چمڑے کو دباغت دینا مستحب ہے۔
-
وَعَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْمُحَبِّقِ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم جَآءَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ عَلٰی اَھْلِ بَیْتٍ فَاِذَا قِرْبَۃٌ مُعَلَّقَۃٌ فَسَأَلَ الْمَآءَ فَقَالُوْ ا لَہ، یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّھَا مَیْتَۃٌ فَقَالَ دِبَاغُھَا طُھُوْرُھَا۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤد)-
" حضرت سلمہ بن محبق رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی جنگ کے موقعہ پر ایک آدمی کے گھر تشریف لائے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک لٹکی ہوئی مشک پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا تو لوگوں نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! یہ تو ( دباغت دی ہوئی ) مردار کی کھال ) ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دباغت نے اسے پاک کر دیا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد)
-
عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِیْ عَبْدِالْاَشْھَلِ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ لَنَا طَرِیْقًا اِلَی الْمَسْجِدِ مُنْتِنَۃً فَکَیْفَ نَفْعَلُ اِذَا مُطِرْنَا قَالَتْ فَقَالَ اَلَیْسَ بَعْدَھَا طَرِیْقٌ ؟ ھِیَ اَطْیَبُ مِنْھَا قُلْتُ بَلٰی قَالَ فَھٰذِہٖ بِھٰذِہٖ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" بنو عبدالاشہل کی ایک عورت کا بیان ہے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ رسول اللہ ! مسجد میں آنے کا ہمار جو راستہ ہے وہ گندہ ہے جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ وہ کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کیا اس راستے کے بعد کوئی پاک صاف راستہ نہیں آتا؟" میں نے عرض کیا " جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یہ پاک راستہ اس ناپاک راستہ کے بدلے میں ہے۔" (ابوداؤد) تشریح اسی باب کی حدیث نمبر ١٣ میں اس مسئلہ کی وضاحت کی جا چکی ہے، یہاں بھی اس ارشاد کا یہ مطلب ہے کہ گندے اور ناپاک راستہ سے جو گندگی لگتی ہے وہ پاک و صاف راستہ پر چلنے کے بعد زمین کی رگڑ سے صاف و پاک ہو جاتی ہے، نیز یہاں بھی یہ ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق تن دار نجاست سے ہے کہ اگر گوبر وغیرہ قسم کی کوئی نجاست جوتے اور موزوں پر لگ جائے تو وہ اس طریقے سے صاف ہو جاتی ہے کیونکہ اگر پیشاب وغیرہ قسم کی نجاست جوتے موزے کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگے تو اس کو ہر حال میں دھو کر ہی پاک کیا جائے گا اسی طرح موزے اور جوتے کے علاوہ اگر کپڑے پر تن دار نجاست لگے گی تو بغیر دھوئے کپڑا پاک نہیں ہوگا۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ کُنَّا نُصَلِّی مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَا نَتَوَضَّأُ مِنَ الْمَوْطِئِ۔ (رواہ الترمذی)-
" اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور زمین پر چلنے (کی وجہ سے وضو نہ کرتے تھے۔" ( جامع ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہم نماز پڑھنے کے لیے اپنے اپنے مکان سے وضو کر کے چلتے تھے اور مسجد آتے ہوئے ننگے پاؤں چلنے کی وجہ سے پاؤں پر یا جوتے اور موزوں پر جو نجاست و گندگی لگ جایا کرتی تھی اسے دھویا کرتے تھے۔ اس ارشاد کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ اس کا تعلق خشک نجاست سے ہے، کہ اگر خشک گندگی مثلاً سوکھا گوبر وغیرہ پیروں پر جوتے و موزے پر لگ جاتا تو اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ صاف زمین پر چلنے کی وجہ سے وہ پاک ہو جایا کرتا تھا اس سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ مراد ہے کہ راستہ چلتے وقت جو گرد و غبار پاؤں کو لگ جایا کرتی تھی اسے دھوتے تھے۔ تر نجاست مثلاً ًپیشاب وغیرہ کے بارے میں یہ پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ اگر اس قسم کی کوئی نجاست و گندگی پاؤں وغیرہ پر لگ جائے تو تمام علماء کے نزدیک یہ متفق علیہ مسلم مسئلہ ہے کہ اسے دھویا جائے۔
-
وَعَنِ ابْن عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَاقَالَ کَانَتْ الْکِلَابُ تُقْبِلُ وَ تُدْبِرُ فِی الْمَسْجِدِ فِی زَمانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ یَکُوْنُوْا یَرْشُوْنَ شَیْأاً مِن ذٰلِکَ۔(صحیح البخاری)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں کتے آتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے آنے جانے کی وجہ سے کچھ بھی نہ دھوتے تھے ۔" (صحیح البخاری ) تشریح شروع زمانہ اسلام میں دروازے نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے مسجد کے اندر کتوں کی آمدورفت رہتی تھی اور چونکہ ان کے پاؤں خشک ہوتے تھے اس لیے کسی چیز کو دھونے کی ضرورت نہ ہوتی تھی جب مسجد میں دروازے لگنے لگے تو اس کی احتیاط ہونے لگی۔
-
وَعَنِ الْبَرَآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ بَاْسَ بِبُوْلِ مَا یَوْکَلُ لَحْمُہ، وَفِیْ رِوَایَۃِ جَابِرٍ قَالَ مَا اُکِلَ لَحْمُہ، فَلَا بَأْسَ بِبَوْلِہٖ۔( رواہ احمد بن حنبل والدارقطنی)-
" اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ " جس چیز کا گوشت کھایا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں۔" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اس طرح ہے کہ " جس جانور کا گوشت کھا یا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے۔" (مسند احمد بن حنبل و دارقطنی) تشریح اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے حضرت امام مالک، حضرت امام احمد، حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اور بعض شوافع حضرات نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کا پیشاب پاک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام ابویوسف اور تمام علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وہ نجس ہے، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے مقابلے میں ایک حدیث عام وارد ہے کہ الحدیث ( اِسْتَنْزِ ھُوْا مِنَ الْبَوْلِ فَاِنَّ عَامَّۃَ عَذَابِ الْقَبْرِمِنْہُ ) یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو اس لیے کہ عذاب قبر اکثر اسی سے ہوتا ہے ) لہٰذا اس حدیث کی عمومیت کے پیش نظر ناپاک و نجس ثابت ہوا اس لیے اس احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کے پیشاب کو بھی ناپاک کہا جائے۔
-