نا بالغ کی امامت کا مسئلہ

عَنْ عَمْرِوبْنِ سَلِمَۃَص قَالَ کُنَّا بِمَآءٍ مَمَرِّ النَّاسِ ےَمُرُّ بِنَاالرُّکْبَانُ نَسْاَلُھُمْ مَا لِلنَّاسِ مَا ھٰذَا الرَّجُلُ فَےَقُوْلُوْنَ ےَزْعَمُ اَنَّ اللّٰہَ اَرْسَلَہُ اَوْحٰی اِلَےْہِ اَوْحٰی اِلَےْہِ کَذَا وَکُنْتُ اَحْفَظُ ذَالِکَ الْکَلَامَ فَکَاَنَّمَا ےُغَرّٰی فِیْ صَدْرِیْ وَکَانَتِ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِاِسْلَامِھِمْ الْفَتْحَ فَےَقُوْلُوْنَ اُ تْرُکُوْہُ وَقَوْمَہُ فَاِنَّہُ اِنْ ظَھَرَ عَلَےْھِمْ فَھُوَ نَبِیٌّ صَادِقٌ فَلَمَّا کَانَتْ وَقْعَۃُ الْفَتْحِ بَادَرَ کُلُّ قَوْمٍ بِاِسْلَامِھِمْ وَبَدَرَ اَبِیْ قَوْمِیْ بِاِسْلَامِھِمْ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ جِئْتُکُمْ وَاللّٰہِ مِنْ عِنْدِالنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلمحَقًّا فَقَالَ صَلُّوْا صَلٰوۃَ کَذَا فِیْ حِےْنِ کَذَا وَصَلٰوۃَ کَذَا فِیْ حِےْنِ کَذَا فَاِذَا حَضُرَتِ الصَّلٰوۃُ فَلْےُؤَذِّن ْ اَحَدُکُمْ فَلْےَؤُمَّکُمْ اَکْثَرُکُمْ قُرْاٰنًا فَنَظَرُوْا فَلَمْ ےَکُنْ اَحَدٌ اَکْثَرُ قُرْاٰناً مِّنِّیْ لِمَا کُنْتُ اَتَلَقّٰی مِنَ الرُّکْبَانِ فَقَدَّمُوْنِیْ بَےْنَ اَےْدِےْھِمْ وَاَنَا ابْنُ سِتٍّ اَوْ سَبْعِ سِنِےْنَ وَکَانَتْ عَلَیَّ بُرْدَۃٌ کُنْتُ اِذَا سَجَدْتُّ تَقَلَّصَتْ عَنِّیْ فَقَالَتِ امْرَاَۃٌ مِّنَ الْحَیِّ اَلَّا تَغُطُّوْنَ عَنَّا اسْتَ قَارِئِکُمْ فَاشْتَرَوْا فَقَطَعُوْا لِیْ قَمِےْصًا فَمَا فَرِحْتُ بِشَیءٍ فَرَحِیْ بِذَالِکَ الْقَمِےْصِ۔(صحیح البخاری)-
" حضرت عمرو ابن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پانی کے کنارے رہتے تھے جو لوگوں کی گزر گاہ تھا قافلے ہمارے پاس سے گزرتے ہم ان سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کے واسطے (ایک آدمی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین نکالا ہے وہ ) کیا ہے؟ اور اس آدمی (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کیا ہیں؟ وہ لوگ ہم سے بیان کرتے کہ وہ (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) دعوی کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں (اپنا نبی برحق بنا) کر بھیجا ہے اور (قافلے کے لوگ قرآن کی آیتیں سنا کر کہا کرتے تھے کہ یہ) ان کے پاس وحی آتی ہے (اس طرح) ان کے پاس وحی آتی ہے چنانچہ میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کو جو قافلے والے بیان کرتے تھے اور کلام کو) یعنی قافلے والے جو آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے ان کو اس طرح یاد کر لیتا تھا گویا وہ میرے سینے میں جم جاتی تھیں (یعنی قرآن کی آیتیں مجھے خود یاد ہو جایا کرتی تھیں) اہل عرب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے علاوہ ) اسلام لانے کے سلسلے میں مکہ کے فتح ہونے کا انتظار کر رہے تھے (یعنی یہ کہتے تھے کہ اگر مکہ فتح ہوگیا تو ہم اسلام لائیں گے اور یہ ) کہا کرتے تھے تھے ان (رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کی قوم پر چھوڑ دو اگر وہ اپنے لوگوں پر غالب آگئے اور مکہ کو فتح کر لیا ) تو سمجھو کہ وہ سچے نبی ہیں (کیونکہ انکی اس ظاہری بے سروسامانی اور مادی کمزوری کے باوجود اہل عرب پر غالب آجانا اور مکہ کو فتح کر لینا ان کا معجزہ ہوگا اور معجزہ صرف سچے نبی ہی سے صادر ہو سکتا ہے چنانچہ جب اللہ نے اپنے دین کا بول بالا کیا اور مکہ فتح ہو گیا تو لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے میرے والد نے اپنی قوم پر پہل کی اور سب سے پہلے اسلام لے آئے جب وہ یعنی میرے والد لوٹ کر آئے تو اپنی قوم سے کہنے لگے کہ " اللہ کی قسم ! میں سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فلاں وقت میں ایسی ( اور اتنی) نماز پڑھو اور فلاں وقت میں ایسی (اور اتنی) نماز پڑھو (یعنی آپ نے نماز کی کیفیات اور اوقات بیان کئے) اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور تم میں سے جو آدمی قرآن زیادہ جاننے والا ہو وہ تمہاری امامت کرائے چنانچہ جب نماز کا وقت آیا اور جماعت کی تیاری ہوئی تو لوگوں نے آپس میں دیکھا ( کہ امام کسے بنایا جائے!) مجھ سے زیادہ کوئی قرآن کا جاننے والا نہیں تھا کیونکہ میں (پہلے ہی سے ) قافلے والوں سے قرآن سیکھ رہا تھا چنانچہ لوگوں نے مجھے آگے کر دیا (اور نماز میں میری اقتداء کی ) اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے بدن پر فقط ایک چادر تھی چنانچہ جب میں سجدہ کرتا تو وہ چادر میرے بدن سے سرک جاتی تھی (اور کولھے کھل جاتے تھے) قوم میں سے ایک عورت نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ ہمارے سامنے سے تم لوگ اپنے امام کی شرم گاہ کیوں نہیں ڈھانکتے ؟ تب قوم نے کپڑا خریدا اور میرے لیے کرتہ بنوا دیا اس مرتبے کی وجہ سے مجھے جیسی خوشی ہوئی ایسی خوشی کبھی نہیں ہوئی تھی۔" (صحیح البخاری) تشریح عام طور پر " سلمہ لام کے زبر کے ساتھ ہے مگر یہ عمرو جو قوم کے امام بنے تھے ان کے والد کے نام " سلمہ " میں لام زبر کے ساتھ ہے۔ اس کے بارہ میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ عمرو ابن سلمہ بھی اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام قبول کرنے گئے یا نہیں؟ اسی وجہ سے اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ صحابی نہیں یا ہیں ؟ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے تھے یہ ان کے ساتھ نہیں گئے تھے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لڑکے کی امامت کے جواز میں اسی حدیث سے استدالال کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نا بالغ لڑکے کی امامت جائز ہے البتہ جمعے کی نماز میں نا بالغ لڑکے کی امامت کے سلسلے میں امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ جمعے کی نماز میں بھی لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور دوسرے قول سے عدم جواز کا اثبات ہوتا ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم فرماتے ہیں کہ نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے البتہ نفل نماز کے سلسلہ میں علماء حنفیہ کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ بلح کے مشائخ نماز میں نا بالغ لڑکے کی امامت کے جواز کے قائل ہیں اور اسی پر ان کا عمل ہے نیز مصر اور شام میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے ان کے علاوہ دیگر علماء نے نفل نماز میں بھی نا بالغ لڑکے کی امامت کو نا جائز قرار دیا ہے چنانچہ علماء ماوراء النہر کا عمل اسی پر ہے۔ زیلعی نے شرح کنز میں اس مسئلے کے متعلق کہا ہے کہ " امام شافعی نے اس مسئلے میں کہ نا بالغ لڑکے کی امامت جائز ہے حضرت عمرو ابن سلمہ کے اس قول فقد مونی الخ سے استدلال کیا ہے لیکن ہمارے (یعنی حنیفہ کے) نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی روشنی میں کہ " وہ لڑکا جس پر حدود واجب نہیں ہوئی امامت نہ کرے" نا بالغ لڑکے کی امامت جائز نہیں ہے اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بھی یہی ہے کہ" لڑکا جب تک محتلم (یعنی بالغ) نہ ہو جائے امامت نہ کرے۔" لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا نابالغ لڑکے کی اقتداء کرے جہاں تک عمرو ابن سلمہ کی امامت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کی امامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی بنا پر نہیں تھی بلکہ یہ ان کی قوم کے لوگوں کے اپنے اجتہاد تھا کہ عمرو چونکہ قافلے کے لوگوں سے قرآن کریم سیکھ چکے تھے اس لیے ان کو امام بنا دیا۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ حضرات شوافع حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اقوال سے تو استدلال نہیں کرتے ۔ ایک نا بالغ لڑکے (عمرو ابن سلمہ) کے فعل کو مستدل بناتے ہیں۔
-