موزوں پر مسح کرنے کا بیان

--
موزوں پر مسح کرنے کا جواز سنت اور آثار مشہورہ سے ثابت ہے بلکہ حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں منقول حدیث متواتر ہے اور بعض محدثین نے اس حدیث کے راوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد بھی نقل کی ہے چنانچہ اسی سے زیادہ صحابہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس حدیث کو روایت کرتے ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیںَ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ علمائے سلف میں سے کسی نے اس سے انکار کیا ہو اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر ٧٠ صحابہ کرام کو اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتے ہوئے پایا ہے حضرت امام کرخی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے کو قبول نہ کرے یعنی اسے جائز نہ سمجھے مجھے اس کے کافر ہو جانے کا خوف ہے کیونکہ اس کے جواز میں جو احادیث منقول ہیں وہ حد تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ " میں موزوں پر مسح کرنے کا قائل اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ اس کے جواز پر مشتمل احادیث آفتاب کی روشنی کی طرح مجھے نہ پہنچ گئیں۔" ان اقوال اور ارشادات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے، اس کے جواز میں کوئی شبہ کوئی شک اور کوئی کلام نہیں ہے۔ اب اس کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ موزوں پر مسح کرنا رخصت شریعت اسلامی کے مسائل و جزئیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے کتنی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی ہیں یہ حقیقت ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بے پناہ شفقت و محبت ہی ہے جس نے عالمگیر اور سب سے سچے مذہب کو انسان کی عین فطرت و مزاج بنا دیا ہے قدم قدم پر ایسے مسائل سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس میں اسلام اور شارع اسلام نے امت کو بہت زیادہ آسانیاں دی ہیں جن کے بغیر یقینا مسلمان مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہو جاتے کیونکہ سخت موقعوں پر مثلاً سردی کے موسم میں وضو کرنے کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پاؤں کو دھونے ہی میں ہوتی ہے لیکن شریعت نے اس سختی اور تکلیف کے پیش نظر موزوں پر مسح کو جائز قرار دے کر امت پر ایک عظیم احسان کیا ہے۔) یعنی آسانی ہے اور پاؤں کو دھونا عزیمت یعنی اولیٰ ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے پر اعتقاد نہ رکھے وہ بدعتی ہے لیکن جو آدمی اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتا ہے مگر عزیمت یعنی اولیٰ ہونے پر عمل کرنے کی وجہ سے موزوں پر مسح نہیں کرتا تو اسے ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ مواہب لدنیہ میں منقول ہے کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا موزوں پر مسح کرنا افضل ہے یا اسے اتار کر پاؤں کو دھونا افضل ہے؟ چنانچہ بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنا ہی افضل ہے کیونکہ اس سے اہل بدعت یعنی روافض و خوارج کا رد ہوتا ہے جو اس مسئلہ میں طعن و تشنیع کرتے ہیں، حضرت امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مختار مسلک یہی ہے اور امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کرام یعنی حضرات شوافع کا مسلک یہ ہے کہ پاؤں کو دھونا افضل ہے کیونکہ اصل یہی ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کو بالکل ترک نہ کیا جائے۔ صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں کوئی تکلف نہیں تھا، یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزہ پہنے ہوتے تھے تو پاؤں دھونے کے لیے انھیں اتارتے نہیں تھے اور اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تھے تو مسح کرنے کے لیے انھیں پہنتے نہ تھے، اس بارے میں علماء کرام کے ہاں اختلاف ہے مگر بہتر اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ میں سنت کے موافق ہی عمل کرے یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تعامل ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تمام مسلمان بے تکلفی کے ساتھ اس پر عمل کریں۔
-
عَنْ شُرَےْحِ بْنِ ھَانِئٍص قَالَ سَاَلْتُ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّےْنِ فَقَالَ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلٰثَۃَ اَےَّامٍ وَّلَےَالِےَھُنَّ لِلْمُسَافِرِ وَےَوْمًا وَلَےْلَۃً لِّلْمُقِےْمِ۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے اک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔ " (صحیح مسلم) تشریح مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن تین راتیں ہے یعنی وہ تین دن اور تین راتوں تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مقیم کے لیے مسح کی مدت ایک دن اور ایک رات ہے یعنی وہ ایک دن اور ایک رات تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مقیم کے لیے مسح کی مدت کی ابتداء جمہور علماء کے نزدیک اس وقت ہوگی جب کے وضو ٹوٹ جائے مثلاً ایک مقیم آدمی نے دوپہر کو وضو کرنے کے بعد موزہ پہنا اور شام کو اس کا وضو ٹوٹ گیا تو مسح کی مدت کی ابتداء شام ہی سے ہوگی یعنی وہ اگلے دن شام تک اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے۔
-
وَعَنِ الْمُغِےْرَۃِ ص بْنِ شُعْبَۃَ اَنَّہُ غَزَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم غَزْوَۃَ تَبُوْکَ قَالَ الْمُغِےْرَۃُ فَتَبَرَّزَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قِبَلَ الْغَائِطِ فَحَمَلْتُ مَعَہ، اِدَاوَۃً قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَمَّا رَجَعَ اَخَذْتُ اُھْرِےْقُ عَلَی ےَدَےْہِ مِنَ الْاِدَاوَۃِ فَغَسَلَ ےَدَےْہِ وَوَجْھَہُ وَعَلَےْہِ جُبَّۃٌ مِّنْ صُوْفٍ ذَھَبَ ےَحْسُرُ عَنْ ذِرَاعَےْہِ فَضَاقَ کُمُّ الْجُبَّۃِ فَاَخْرَجَ ےَدَےْہِ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّۃِ وَاَلْقَی الْجُبَّۃَ عَلٰی مَنْکِبَےْہِ وَغَسَلَ ذِرَاعَےْہِ ثُمَّ مَسَحَ بِنَاصِےَتِہٖ وَعَلَی الْعِمَامَۃِ ثُمَّ اَھْوَےْتُ لِاَنْزِعَ خُفَّےْہِ فَقَالَ دَعْھُمَا فَاِنِّی اَدْخَلْتُھُمَا طَاہِرَتَےْنِ فَمَسَحَ عَلَےْھِمَا ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْتُ فَانْتَھَےْنَا اِلَی الْقَوْمِ وَقَدْ قَامُوْا اِلَی الصَّلٰوۃِ وَےُصَلِّیْ بِھِمْ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَّقَدْ رَکَعَ بِھِمْ رَکْعَۃً فَلَمَّا اَحَسَّ بِاالنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَہَبَ ےَتَاَخَّرُ فَاَوْمٰی اِلَےْہِ فَاَدْرَکَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْدَی الرَّکْعَتَےْنِ مَعَہُ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَقُمْتُ مَعَہُ فَرَکَعْنَا الرَّکْعَۃَ الَّتِیْ سَبَقَتْنَا ۔(صحیح مسلم)۔-
" اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شرکت کی چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ (اسی دوران ایک روز) فجر سے پہلے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پاخانے کے لیے باہر تشریف لے گئے ہیں میں پانی کا لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہو لیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پاخانے سے) واپس تشریف لائے (اور وضو کرنے کے لیے بیٹھے) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر پانی ڈالنا شروع کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونی جبہ پہنے ہوئے تھے اس کی آستینیں چڑھانی چاہیں لیکن آستینیں تنگ تھیں (اس لیے چڑھ نہ سکیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جبے کے اندر سے نکال کر جبے کو کندھوں پر رکھا اور کہنیوں تک دھو کر چوتھائی سر کا اور پگڑی کا مسح کیا پھر (جب) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں دھولیں (تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں چھوڑ دو کیونکہ میں نے (پاؤں کی) پاکی کی حالت میں انھیں پہنا تھا (یعنی وضو کرنے کے بعد پہنا تھا ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں دونوں سوار ہو کر واپس لوگوں کے پاس آئے تو (فجر کی) نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوگئی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے اور ایک رکعت پڑھا بھی چکے تھے جب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کریں) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اشارہ کیا ( کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور نماز پڑھائے جاؤ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت حضرت عبدا لرحمن کی اقتداء میں ادا کی ) جب انہوں نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور جو پہلی رکعت رہ گئی تھی ہم نے اسے پڑھ لیا۔" (صحیح مسلم) تشریح راوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا ذکر کیا ہے مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو راوی کے پیش نظر اختصار تھا اس لیے انھوں نے ان دونوں چیزوں کا ذکر کرناضروری نہیں سمجھایا یہ کہ راوی اس کا ذکر کرنے کو بھول گئے ہوں گے، یا پھر اس لیے ذکر نہیں کیا کہ یہ دونوں چیزیں بھی منہ کی حد میں آجاتی ہیں اس لیے صرف منہ دھونے کا ذکر کافی سمجھا۔ پگڑی پر مسح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھائی سر پر مسح کرنے کے بعد تمام سر پر مسح کرنے کے بجائے پگڑی پر مسح کر لیا تاکہ تمام سر پر مسح کرنے کی سنت ادا ہو جائے اس کی وضاحت باب الوضو میں بھی کی جا چکی ہے (دیکھے باب سنن الوضو کی حدیث نمبر ٨) بہر حال اس حدیث سے پانچ چیزیں ثابت ہوتی ہیں : (١) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت مثلاً نماز وغیرہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے اس عبادت کے لیے تیاری کرنا مستحب ہے۔ (٢) حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے وضو پر پانی ڈالا اس سے معلوم ہوا کہ اگر دوسرا آدمی وضو کرائے تو جائز ہے۔ (٣) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت اور وضو سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے بتقاضائے ادب پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ رسول اللہ امامت فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور خود بھی آخری رکعت انہیں کی اقتداء میں پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ایک افضل آدمی نماز میں اگر اپنے سے کم درجہ آدمی کی اقتداء کرے تو یہ جائز ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لیے امام کا معصوم (بے گناہ) ہونا شرط نہیں ہے۔ اس سے اس فرقہ امامیہ کا رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ (٤) حدیث کے آخری الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ جس آدمی کی کوئی رکعت امام کے ساتھ پڑھنے سے چھوٹ جائے تو اس کی ادائیگی کے لیے اسے اس وقت اٹھنا چاہئے جب کہ امام سلام پھیر لے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تو چھوٹی ہوئی رکعت کو ادا کرنے کے لیے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا جائز ہی نہیں اور علمائے حنفیہ کے نزدیک سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا مکر وہ تحریمی ہے۔ مگر اس صورت میں جب کہ یہ خوف ہو کہ اگر امام کے سلام کا انتظار کیا جائے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی تو پہلے بھی اٹھنا جائز ہے مثلا فجر کی نماز میں امام ایک رکعت پہلے پڑھا چکا تھا ایک آدمی دوسری رکعت میں آکر شامل ہوا اب اسے ایک رکعت بعد میں ادا کرنی ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتا ہے تو اسے خوف ہے کہ سورج طلوع ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں نماز فاسد ہو جائے گی لہٰذا اس کے لیے جائز یہ ہوگا کہ وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ جائے اور نماز پوری کر لے اس مسئلہ کی وضاحت فقہ کی کتابوں میں خوب اچھی طرح کی گئی ہے اس کی تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ (٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت اگر امام مو جو نہ ہو اور اس کے آنے میں دیر ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب آئے گا تو یہ مستحب ہے کہ امام کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھانی شروع کر دے اور اگر امام کے آنے کا وقت معلوم ہو تو اس صورت میں اس کا انتظار کرنا مستحب ہے اور اگر امام کا مکان قریب مسجد ہو تو اسے جماعت کا وقت ہوجانے پر مطلع کرنا مستحب ہے۔
-
عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہ، رَخَّصَ لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ وَلَیَا لِیُھُنَّ وَلِلْمُقِیْمِ یَوْمًا وَلَیْلَۃً اِذَا تَطَھَّرَ فَلَبِسَ خُفَّیْہِ اَنْ یَمْسَحَ عَلَیْھِمَا۔ (رَوَاہُ الْاَ ثْرَمُ فِیْ سُننِہٖ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ وَالدَّارَ قُطْنِیُّ وَقَالَ الْخُطَّابِیُّ ھُوَ صَحِیْح الْاِ سْنَادِ ھٰکَذَا فِی الْمُنْتَقِیْ)-
" حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کرنے کی اجازت مسافر کو تین دن اور تین راتوں تک اور مقیم کو ایک دن اور ایک رات تک دی ہے جب کہ انھوں نے موزوں کو وضو کے بعد پہنا ہو۔" (ابن خزیمہ دارقطنی) اور خطابی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اسناد کی رو سے صحیح ہے منتقیٰ میں (بھی جو ابن تیمیہ حنبلی کی کتاب ہے) اسی طرح منقول ہے۔)
-
وَعَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَاْ مُرُنَا اِذَا کُنَّا سَفْرً ا اَنْ لَّا نَنْزِعَ خِفَا فَنَا ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ وَلَیَا لِیَھُنَّ اِلَّا مِنْ جَنَابَۃٍ وَّلٰکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَّنَوْمٍ۔ (رواہ الترمذی و النسائی )-
" اور حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " جب ہم سفر میں ہوتے تھے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ تین دن اور تین راتوں تک (وضو کرنے کے وقت پاؤں کو (دھونے کے لیے) موزے نہ اتارے جائیں، نہ پاخانے کی وجہ سے نہ پیشاب کی وجہ سے نہ سونے کی وجہ سے البتہ جنابت کی وجہ سے (یعنی غسل واجب ہونے کی صورت میں نہانے کے لیے اتارے جائیں۔" (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ سو کر اٹھنے یا پیشاب و پاخانے کے بعد وضو کرنے کی صورت میں اس مدت تک جو مسافر یا مقیم کے لیے ہے پاؤں کو دھونے کے لیے موزوں کو اتارنا نہیں چاہئے بلکہ موزوں پر مسح کر لیا جائے اور جنابت کی حالت میں یعنی جب غسل واجب ہو جائے تو نہانے کے لیے موزے اتارنے ضروری ہیں کیونکہ اس حالت میں موزوں پر مسح درست نہیں ہے۔
-
وَعَنِ الْمُغَیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ وَضَّأْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ فَمَسَحَ اَعْلَی الْخُفِّ وَاَسْفَلَہ،۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ التِّرْمِذِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَقاَلَ التِّرمِذِیُّ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مَعْلُوْلٌ وَ سَأَلْتُ اَبَازُرْعَۃَ وَمُحَمَّدً یَعْنِی الْبُخَارِیَّ عَنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ فَقَالَ لَیْسَ بِصَحِیْحٍ وَکَذَا ضَعَّفَّہ، اَبُوْدَاؤدَ)-
" اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے غزوہ تبوک میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں کے نیچے اور اوپر مسح کر لیا۔" (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ" یہ حدیث معلول ہے، نیز میں نے اس حدیث کے بارے میں ابوزرعہ اور محمد یعنی محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو دونوں نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے اسی طرح امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے) تشریح حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پشت قدم یعنی موزے کے اوپر مسح کرنا واجب ہے اور موزے کے نیچے یعنی تلوے پر مسح کرنا سنت ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ مسح فقط پشت قدم یعنی موزے کے اوپر کیا جائے یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جس سے موزے کے دونوں طرف مسح کرنے کا اثبات ہو رہا ہے خود معیار صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے کیونکہ علماء کرام نے اس کی صحت بارے کلام کیا ہے۔ نیز ایسی احادیث بہت زیادہ منقول ہیں جو اس حدیث کے بالکل برعکس ہیں اور جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسح فقط پشت پر کیا جائے لہٰذا عمل اس ہی حدیث پر کیا جائے گا۔ محدثین کی اصطلاح میں " حدیث معلول" اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں ایسا سبب پوشیدہ ہو جو اس بات کا مقتضی ہو کہ اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اس حدیث کی سند کا پہنچنا ثابت نہیں ہے بلکہ اس کی سند بولاو تک جو مغیرہ کے مولی اور کاتب تھے پہنچتی ہے، دوسری وجہ ہے کہ اس حدیث کو ثور ابن یزید نے رجاء ابن حیوۃ سے روایت کیا ہے اور رجاء ابن حیوۃ نے حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب سے روایت کیا ہے حالانکہ رجاء سے ثور کا سماع ثابت نہیں ہے پھر ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مضمون جو (حدیث نمبر ٢) حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہے اور جو معیار صحت کو پہنچی ہوئی ہے اس میں مطلقاً اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا تھا، اوپر نیچے مسح کرنے کی کوئی وضاحت منقول نہیں ہے پھر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک اور روایت اس کے بعد آرہی ہے اس میں صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں کے اوپر مسح کیا۔ لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے اور یہ وہ اسباب ہیں کہ جس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے۔
-
وَعَنْہُ اَنَّہ، قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَمْسَحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ عَلٰی ظَاھِرِ ھِمَا۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد)-
" اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔" (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد) تشریح موزے پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں دائیں پاؤں کے پنجے پر بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں کے پنجے پر رکھی جائیں پھر ان کو کھینچتے ہوئے ٹخنوں کے اوپر تک لایا جائے اس سلسلے میں اس کا خیال رہے کہ انگلیاں کشادہ رکھی جائیں آپس میں ملی ہوئی نہ ہوں۔ موزوں پر مسح کرنے کا مسنون طریقہ تو یہی ہے اور اگر کسی نے انگلی سے تین مرتبہ اس طرح مسح کیا کہ ہرمر تبہ تازہ پانی لیتا رہا اور ہر مرتبہ نئی جگہ پھیرتا رہا تو مسح جائز ہوگا ورنہ نہیں ان کے علاوہ بہت سے طریقے فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئی ہیں تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
-
وَعَنْہُ قَالَ تَوَضَّاَ اَلنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَمَسَحَ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ۔( احمد بن حنبل الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور نعلین کے ساتھ جوربین پر مسح کیا۔" (مسند احمد بن حنبل و جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح قاموس میں لکھا ہے کہ جورب پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں جیسے ہمارے ہاں جراب یا موزہ کہلاتا ہے اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اس کی تفصیل چلپی میں بڑی وضاحت سے مذکور ہے یہاں اس کے بعض احکام و مسائل لکھے جاتے ہیں۔ حنفی مسلک میں جوربین یعنی موزوں پر مسح اس وقت درست ہوگا جب کہ وہ مجلد ہوں یعنی ان کے اوپر نیچے چمڑا لگا ہوا ہو، منعل ہوں یعنی فقط نیچے ہی چمڑا ہو اور مثخنین ہوں۔ ثخنین اس موزے کو کہتے ہیں جس کو پہن کر ایک فرسخ چلا جا سکے اور وہ بغیر باندھے ہوئے پنڈلی پر رکا رہے نیز اس کے اندر کا کوئی حصہ نہ دکھلائی دے اور نہ اس کے اندر پانی چھن سکتا ہو چلپی کی عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر جوربین منعلین بغیر ثخنین ہوں گے تو اس پر مسح جائز نہیں ہوگا لہٰذا منعلین پر مسح اسی وقت درست ہوگا جب کہ ثخنین بھی ہوں۔ چونکہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جورب پر مسح درست نہیں خواہ وہ منحل ہی کیوں نہ ہو اس لیے یہ حدیث حنفیہ کی جانب سے ان پر حجت ہے جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جورب پر مسح فرمایا ہے نیز حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت انس ابن مالک اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی منقول ہے کہ ان حضرات نے اس پر مسح کیا ہے۔ آخر حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ " آپ نے نعلین کے ساتھ جوربین پر مسح کیا " تو یہاں نعلین کے مفہوم کے تعین میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ اس سے جوتے مراد ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ربین پر جوتوں کے ساتھ مسح کیا چونکہ عرب میں اس وقت ایسے جوتے استعمال ہوتے تھے جو بالکل چپل کی طرح ہوتے تھے اور ان پر اس طرح تسمہ لگا رہتا تھا کہ انہیں پہننے کے بعد پاؤں کے اوپر کا حصہ کھلا رہتا تھا جس کی وجہ سے موزوں پر مسح کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جوربین پر مسح کیا جن کے نیچے چمڑا لگا ہوا تھا "
-
عَنِ الْمُغَیْرَۃِ قَالَ مَسَحَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْخُفَّیْنِ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ نَسِیْتَ قَالَ بَلْ اَنْتَ نَسِیْتَ بِھٰذَا اَمَرْ نِیْ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤد)-
" حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر) میں نے عرض کیا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں (یعنی موزے اتار کر پاؤں نہیں دھوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں ! بلکہ تم بھول گئے ) کہ میری طرف نسیان کی نسبت کر رہے ہو کیونکہ اللہ بزرگ و برتر نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)
-
وَعَنْ عَلِیٍّ اَنَّہ، قَالَ لَوْ کَانَ الدِّیْنُ بِالرَّاْیِ لَکَانَ اَسْفَلُ الْخُفِّ اَوْلٰی بِالْمَسْحِ مِنْ اَعْلَاہُ وَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَمْسَحُ عَلٰی ظَاھِرِ خُفَّیْہِ۔ (رواہ ابوداود وللدارمی معناہ)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ " اگر دین (صرف) رائے اور عقل ہی پر موقوف ہوتا تو واقعی موزوں کے اوپر مسح کرنے سے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اور میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔" (ابوداؤد و دارمی) تشریح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ناپاکی اور گندگی چونکہ موزوں کے نیچے کی جانب لگ سکتی ہے اس لیے عقل یہی تقاضا کرتی ہے کہ جس طرف ناپاکی اور گندگی لگنے کا شبہ ہو اسی طرف پاکی اور ستھرائی کے لیے مسح بھی کرنا چاہئے مگر چونکہ شرع میں صراحتہ یہ آگیا ہے کہ مسح اوپر کی جانب کرنا چاہئے اس لیے اب عقل کو دخل دینے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مسائل و احکام میں عقل کو دخل نہیں دینا چاہئے کیونکہ عقل کامل شریعت کے تابع ہوتی ہے اس لیے کہ اللہ کی حکمتوں اور اس کے مراد و مفہوم معلوم کرنے میں عقل مطلقاً عاجز ہوتی ہے لہٰذا عاقل کو چاہئے کہ وہ پہر نوع شریعت کا تابع و پابند بن کر رہے عقل کا تابع نہ بنے اس لیے کہ کفار اور اکثر فلاسفہ و حکماء اور اہل ہوا و ہوس اپنی عقلوں پر بھروسہ و پندار کرنے کے سبب اور عقلوں کے تابع ہونے ہی کی وجہ سے گمراہی وضلالت کے غار میں گرے ہیں۔ چونکہ اس باب کی یہ آخری حدیث ہے اس لیے مناسب ہے کہ اس کے ضمن میں مسح سے متعلق چند مسائل ذکر کئے جائیں۔ (١) اگر موزہ کسی جگہ سے پاؤں کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر پھٹ جائے تو اس پر مسح درست نہیں ہوتا، اس طرح اگر ایک موزہ تھوڑا تھوڑا کر کے کئی جگہ سے اتنی مقدار میں پھٹ جائے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو وہ تین اگلیوں کے برابر ہو تو اس پر بھی مسح درست نہیں ہوتا اور اگر دونوں موزے تھوڑے تھوڑے اتنی مقدار میں پھٹے ہوں کہ اگر انھیں جمع کیا جائے تو وہ تین انگلیوں کے برابر ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ان پر مسح درست ہوگا۔ (٢) جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ان سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ (٣) حدث کے بعد موزہ اتارنے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ (٤) مسح کی مدت ختم ہو جانے کے بعد مسح ٹوٹ جاتا ہے بشرطیکہ سردی کی وجہ سے پاؤں کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہو، یعنی اگر سردی کی شدت اور کسی بیماری کی وجہ سے یہ خوف ہو کہ موزہ اتارنے سے پاؤں ضائع ہو جائے گا تو مسح کی مدت ختم ہونے کے بعد مسح نہیں ٹوٹے گا جب تک خوف باقی رہے گا مسح بھی باقی رہے گا۔ (٥) اگر موزہ اتارنے یا مدت ختم ہونے کی وجہ سے مسح ٹوٹ جائے اور وضو باقی ہو تو ایسی شکل میں از سر نو وضو کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا کافی ہوگا۔ (٦) اگر آدھے سے زیادہ پاؤں موزے سے باہر نکل آئے تو بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ (٧) اگر مقیم نے مسح کیا اور ایک رات اور ایک دن گزرنے سے پہلے مسافر ہوگیا وہ مسح کے لیے سفر کی مدت پوری کرے یعنی تین دن اور تین رات تک مسح کرتا رہے، اسی طرح اگر مسافر نے مسح کیا اور پھر وہ مقیم ہوگیا تو اسے چاہئے کہ ایک دن ایک رات کے بعد موزہ اتار دے کیونکہ اس کی مدت پوری ہوگئی ہے۔ (٨) اگر کوئی معذور مثلاً ظہر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے تو جس عذر کی وجہ سے وہ معذور ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کے لیے مسح کی مدت میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہوگا اور پھر مسح کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مسح ٹوٹ جائے گا۔
-