TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جنازوں کا بیان
مسلمان کے مسلمان پر حقوق
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " حق المسلم على المسلم خمس : رد السلام وعيادة المريض واتباع الجنائز وإجابة الدعوة وتشميت العاطس "-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ (١) سلام کا جواب دینا (٢) بیمار کی عیادت کرنا (٣) جنازہ کے ساتھ جانا (٤) دعوت قبول کرنا (٥) چھینکنے والے کا جواب دینا۔" (بخاری و مسلم) تشریح مذکورہ بالا پانچوں چیزیں فرض کفایہ ہیں۔ سلام کرنا سنت ہے اور وہ بھی حقوق اسلام میں سے ہے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا۔ مگر سلام کرنا ایسی سنت ہے جو فرض سے بھی افضل ہے کیونکہ اسے کرنے سے نہ صرف یہ کہ تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ اداء سنت واجب کا سبب بھی ہے۔ بیمار کی عیادت اور جنازہ کے ساتھ جانے کے حکم سے اہل بدعت مستثنیٰ ہیں۔ یعنی روافض وغیرہ کی نہ تو عیادت کی جائے اور نہ ان کے جنازہ کے ساتھ جایا جائے۔ " دعوت قبول کرنے" سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی مدد کے لئے بلائے تو اس کی درخواست قبول کی جائے اور اس کی مدد کی جائے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ " دعوت قبول کرنے" کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مہمانداری اور ضیافت کے لئے مدعو کرے تو اس کی دعوت کو قبول کر کے اس کی طرف سے دی گئی ضیافت میں شرکت کی جائے بشرطیکہ ضیافت کسی بھی حیثیت سے ایسی نہ ہو جس میں شرکت گناہ کا باعث ہو جیسا کہ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ جو ضیافت محض از راہ مفاخرت اور نام و نمود کی خاطر ہو اس میں شرکت نہ کی جائے چنانچہ سلف یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اور پہلے زمانہ کے علماء کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ ایسی ضیافت کو ناپسند کرتے تھے۔ " چھینکنے والے کا جواب دینے" کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والا " الحمدللہ " کہے تو اس کے جواب میں " یرحمک اللہ ' کہا جائے شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اسلام کے ان تمام حقوق کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے خواہ نیک مسلمان ہوں یا بد۔ یعنی ایسے مسلمان ہوں جو گنہگار تو ہوں مگر مبتدع(بدعتی) نہ ہوں اس احتیاط اور امتیاز کو مدنظر رکھا جائے کہ بشاشت یعنی خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا اور مصافحہ کرنا صرف نیک مسلمان ہی کے ساتھ مختص ہونا چاہئے فاجر یعنی ایسے بد اور گنہگار مسلمان کے ساتھ جو علی الاعلان معصیت و گناہ میں مبتلا رہتا ہے بشاشت و مصافحہ ضروری نہیں ہے۔
-
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " حق المسلم على المسلم ست " . قيل : ما هن يا رسول الله ؟ قال : " إذا لقيته فسلم عليه وإذا دعاك فأجبه وإذا استنصحك فانصح له وإذا عطس فحمد الله فشمته وإذا مرض فعده وإذا مات فاتبعه " . رواه مسلم-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر چھ حق ہیں۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ کیا ہیں؟ فرمایا (١) جب تم مسلمان سے ملاقات کرو تو اسے سلام کرو (٢) جب تمہیں کوئی (اپنی مدد کے لئے یا ضیافت کی خاطر) بلائے تو اسے قبول کرو۔ (٣) جب تم سے کوئی خیر خواہی چاہے تو اس کے حق میں خیر خواہی کرو (٤) جب کوئی چھینکے اور الحمد للہ کہے تو (یرحمک اللہ کہہ کر) اس کا جواب دو (٥) جب کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو (٦) جب کوئی مر جائے تو ( نماز جنازہ اور دفن کرنے کے لئے ) اس کے ساتھ جاؤ (مسلم) تشریح واذا مرض الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جانا چاہئے اور اس کی مزاج پرسی کرنی چاہئے اگرچہ عیادت اور مزاج پرسی ایک ہی مرتبہ کیوں نہ کی جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات میں بیمار کی عیادت نہ کی جائے تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اس حدیث میں اسلام کے چھ حقوق بتائے گئے ہیں جب کہ گزشتہ حدیث میں حقوق کی تعداد پانچ بیان کی گئی تھی، گویا اس حدیث میں " خیر خواہی" کا مزید ذکر کیا گیا ہے۔ تو اس بارہ میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ احادیث میں حقوق کی جو تعداد ذکر کی گئی ہے وہ حصر کے طور پر نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت زیادہ حقوق ہیں جن کو بتدریج مختلف احادیث میں تھوڑا تھوڑا کر کے بیان کیا گیا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ احکام بذریعہ وحی آپ کے پاس اسی طرح بتدریج نازل ہوئے ہوں گے یعنی پہلے تو پانچ حقوق کا حکم نازل کیا گیا ہو پھر چھ حقوق کے احکام نازل کیے گئے۔
-
وعن البراء بن عازب قال : أمرنا النبي صلى الله عليه و سلم بسبع ونهانا عن سبع أمرنا : بعيادة المريض واتباع الجنائز وتشميت العاطس ورد السلام وإجابة الداعي وإبرار المقسم ونصر المظلوم ونهانا عن خاتم الذهب وعن الحرير والإستبرق والديباج والميثرة الحمراء والقسي وآنية الفضة وفي رواية وعن الشرب في الفضة فإنه من شرب فيها في الدنيا لم يشرب فيها في الآخرة-
اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں ۔ (١) بیمار کی عیادت کرنا (٢) جنازہ کے ہمراہ جانا (٣) چھینکنے والے کو جواب دینا (٤) سلام کا جواب دینا (٥) بلانے والے کی دعوت قبول کرنا (٦) قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنا (٧) اور مظلوم کی مدد کرنا۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں (١) سونے کی انگوٹھی پہننے سے (٢) ریشم کے کپڑے پہننے سے (٣) اطلس کے کپڑے استعمال کرنے سے (٤) لاہی (دیباج) کے کپڑے پہننے سے (٥) سرخ زین پوش استعمال کرنے سے (٦) قسی کے کپڑے پہننے سے (٧) اور چاندی کے برتن استعمال کرنے سے۔ ایک روایت کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ چاندی کے برتن میں پینے سے (بھی منع فرمایا ہے) کیونکہ جو شخص چاندی کے برتن میں دنیا میں پئے گا آخرت میں اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا۔ (بخاری ومسلم تشریح قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پیش آنے والی بات کے بارے میں قسم کھائے اور تم اس کی قسم پوری کرنے پر قادر ہو اور اس میں کوئی گناہ بھی نہ ہو تو تمہیں اس کی قسم پوری کرنی چاہئے مثال کے طور پر کوئی شخص تمہیں مخاطب کرتے ہوئے قسم کھائے کہ میں تم سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ فلاں کام نہ کروں، پس اگر تم اس کام کے کرنے پر قادر ہو تو وہ کام کر ڈالو تاکہ اس کی قسم نہ ٹوٹے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو یہ قسم دلائے کہ تمہیں خدا کی قسم تم یہ کام کرو۔ تو اس شخص کے لئے مستحب ہے کہ وہ پروردگار کے نام کی تعظیم کی خاطر وہ کام کر لے اگرچہ واجب نہیں ہے۔ " مظلوم کی مدد کرنا " کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے اور اس حکم میں مسلمان اور ذمی دونوں برابر کے شریک ہیں یعنی جس طرح ایک مظلوم مسلمان کی مدد کرنا واجب ہے اسی طرح اس مظلوم کافر (ذمی) کی مدد کرنا بھی واجب ہے جو اسلامی ریاست کا تابعدار شہری بن کر رہتا ہو اور جزیہ (ٹیکس) ادا کرتا ہے" پھر مدد بھی عام ہے اگر لسانی مدد کی ضرورت ہو تو زبان و قول سے مدد کی جائے اور فعلی مدد کی ضرورت ہو تو فعل، عمل کے ذریعہ مدد کی جائے۔ " میثرہ) اس زین پوش کو کہتے ہیں جس میں روئی بھری ہوئی ہوتی ہے اور اسے گھوڑے وغیرہ کی سواری کی زین پر ڈال کر اس پر بیٹھتے ہیں اسے " نمد زین" بھی کہتے ہیں دنیا داروں کی عادت ہے کہ وہ اس زین پوش کو از راہ تکبر و رعونت حریر و دیباج وغیرہ سے بناتے ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ زین پوش حریر کا ہو تو خواہ وہ کسی بھی رنگ کا ہو حرام ہے۔ ہاں اگرچہ حریر کا نہ ہو مگر سرخ رنگ کا ہو تو اس کا استعمال مکروہ ہے۔ اگر سرخ رنگ کا نہ ہو تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ " قسی" ایک کپڑے کا نام تھا جو ریشم اور کنان سے بنا جاتا تھا اور " قس" کی طرف منسوب تھا جو مصر کے ایک علاقہ کا نام ہے۔ حدیث میں چاندی کے برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح سونے کے برتن کا استعمال بھی ممنوع ہے بلکہ سونے کے برتن میں استعمال کرنا چاندی کے برتن استعمال کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہے اس حدیث میں جن چیزوں سے منع کیا جا رہا ہے ان کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں سے نہیں ہے ہاں چاندی سونے کے برتن کے استعمال کی ممانعت مرد و عورت دونوں کے لئے ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ " آخرت میں اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا " کی صحیح وضاحت یہ ہے کہ جس شخص نے ندیا میں چاندی کا برتن استعمال کیا اسے آخرت میں اس وقت تک کہ اس کے عذاب کی مدت ختم نہ ہو جائے۔ چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا۔ یا وقف اور حساب کے وقت اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ کچھ عرصہ تک اس سے محروم رہے گا پھر بعد میں یہ پابندی اس سے ختم کر دی جائے گی، یہی مراد اس حدیث کی ہے جس میں (مردوں کے لئے ) ریشم پہننے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ من لبسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرۃ(یعنی جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا اسے آخرت میں ریشم پہننا نصیب نہیں ہو گا) اسی طرح اس حدیث کی بھی یہی وضاحت ہے جس میں شراب کے بارہ میں فرمایا گیا ہے کہ من شربہا فی الدنیا لم یشربھا فی الآخرۃ (یعنی جس نے دنیا میں شراب پی اسے آخرت میں شراب پینا نصیب نہ ہو گا۔
-