TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
اذان کا بیان۔
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
--
یہاں نماز کے مقامات سے جگہیں مراد ہیں جہاں جہاں نماز پڑھنا مکروہ یا غیر مکروہ ہے۔ چنانچہ ایسے مقامات کی وضاحت آئندہ احادیث میں کی جائے گی۔ مساجد کی فضائل و برکات کے سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں ان میں سے جن احادیث کو صاحب مشکوٰۃ نے منتخب کیا ہے وہ اس عنوان کے تحت نقل کی جائیں گی البتہ وہ احادیث جنہیں صاحب مشکوٰۃ نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ حدیث کی دوسری کتابوں میں نقل ہیں حصول سعادت و برکت کی خاطر ان میں بعض کے ترجمے یہاں نقل کئے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں مساجد کی عظمت و فضیلت کا احساس جاگزیں ہو جس کی وجہ سے وہ خدائے تعالیٰ کی عبادت کے لئے مسجد میں جانے کو دینی اور دنیاوی فلاح و کامرانی کا ذریعہ سمجھیں۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا، میرے بیٹے! مسجد تمہارا گھر ہونا چاہئے، کیونکہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسجدیں پرہیز گاروں کا گھر ہیں لہٰذا جس کا گھر مسجد ہو اللہ تعالیٰ اس کی راحت و رحمت کا اور پل صراط سے جنت کی طرف اس کے گزرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان سے بچنے کے لیے مسجد ایک مضبوط قلعہ ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ مساجد زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں اور جس کی زیارت کی گئی ہے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اپنی زیارت کرنے والے کا اعزاز و اکرام کرتا ہے یعنی جو آدمی مسجد میں جاتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرتا ہے۔ اس طرح مسجد میں جانے والا بندہ تو زیارت کرنے والا ہوا اور جس کی زیارت کی گئی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والے بندوں کا عزاز و اکرام کرتا ہے اور انہیں اپنے فضل و کرم کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی آدمی مسجد میں نماز پڑھنے یا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے جگہ پکڑتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت و شفقت کی نظر فرماتا ہے جس طرح اس آدمی کے اہل خانہ جو مدت کے بعد اپنے گھر لوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ جن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں جگہ پکڑنا ممنوع ہے تو اس کی شکل یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی مسجد میں کسی مخصوص جگہ کو ایسا اختیار کرتا ہے کہ اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ نہیں بیٹھتا تو یہ ممنوع ہے خواہ اس کا کسی مخصوص جگہ کو اختیار کرنا نماز پڑھنے اور ذکر اللہ ہی کے لیے کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح ریا و نمائش کا شبہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اور اس قسم کی وہ احادیث جن سے مسجد میں جگہ پکڑنے کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے اس بات پر محمول ہیں کہ مسجد کو کسی دنیاوی غرض و منفعت سے قطع نظر محض نماز پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے کی نیت سے جائے قیام قرار دیا جائے۔
-
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ لَمَّا دَخَلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلمالْبَےْتَ دَعَا فِیْ نَوَاحِےْہِ کُلِّھَا وَلَمْ ےُصَلِّ حَتّٰی خَرَجَ مِنْہُ فَلَمَّا خَرَجَ رَکَعَ رَکْعَتَےْنِ فِیْ قُبُلِ الْکَعْبَۃِ وَقَالَ ھٰذِہِ الْقِبْلَۃُ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْہُ وَ عَنْ اُسَامَۃَ اَبْنِ زَیْدِ)-
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے چاروں کونوں میں جا کر دعا کی اور بغیر نماز پڑھے باہر نکل آئے اور پھر باہر آکر کعبہ کے سامنے آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ (صحیح البخاری ) صحیح مسلم نے اس روایت کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔" تشریح کعبہ کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ " یہی قبلہ ہے" اس بات کا اعلان کرنا تھا کہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دائمی طور پر ہوگیا ہے اور یہ قبلہ معین و مقرر ہوچکا ہے جو اب کسی حالت میں منسوخ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ قبلہ اسی اگلی سمت ہے دوسری سمتوں سے اس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور نہ اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف باہر کی سمت سے قبلہ کی طرف متوجہ ہونا معتبر ہے اندر کے حصہ میں نماز درست نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ قبلہ کے اندر فرض نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ کعبہ کے اندر نفل پڑھنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک جائز ہے کیونکہ آگے آنے والی حضرت عبداللہ بن عمر فاروق کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔ البتہ فرض پڑھنے کے سلسلہ میں علماء کے یہاں اختلاف ہے چنانچہ اکثر علماء کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں مگر حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کعبہ کے اندر فرض نماز کی ادائیگی سے منع کرتے ہیں۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلَ الْکَعْبَۃَ ھُوَ وَاُسَامَۃُ بْنُ زَےْد رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَۃ الْحَجَبِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَبِلَالُ بْنُ رَبَاحٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ، فَاَغْلَقَہَا عَلَےْہِ وَمَکَثَ فِےْھَا فَسَاَلْتُ بِلَالًا حِےْنَ خَرَجَ مَا ذَاصَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ جَعَلَ عَمُوْدًا عَنْ ےَّسَارِہٖ وَعُمُوْدَےْنِ عَنْ ےَّمِےْنِہٖ وَثَلٰثَۃَ اَعْمِدَۃٍ وَّرَآءَ ہُ وَکَانَ الْبَےْتُ ےَوْمَئِذٍ عَلٰی سِتَّۃِ اَعْمِدَۃٍ ثُمَّ صَلّٰی ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے روز) سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم، اسامہ ابن زید، عثمان ابن طلحہ حجبی اور بلال ابن رباح رضی اللہ عنہم خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور حضرت بلال یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے اندر سے دروازہ بند کر لیا (تاکہ لوگ ہجوم نہ کریں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر تک اندر (دعا وغیرہ میں مشغول رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب کہ وہ یا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) خانہ کعبہ سے باہر آئے تو پوچھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (خانہ کعبہ کے اندر) کیا کر رہے تھے؟ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی ایک ستون آپ کے بائیں طرف تھا، دو داہنی طرف تھے تین پیچھے تھے ان دنوں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے (اور اب تین ستون ہیں)۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی تھی مگر اس سے پہلے اس مضمون کی حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ جو حدیث گزری ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی تھی۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اسی طرح ہوگی کہ یہ کہا جائے گا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ یہ حضرات خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا مانگتے ہوئے دیکھ کر حضرت اسامہ بھی کسی دوسرے کو نہ میں جا کر دعا میں مشغول ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کو نہ میں کھڑے تھے وہاں سے حضرت اسامہ تو دور تھے مگر حضرت بلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھے اس لیے حضرت بلال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور چونکہ حضرت اسامہ اول تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فاصلہ پر تھے دوسرے وہ خود بھی نماز میں مشغول تھے، پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز بھی جلد ہی پڑھ لی تھی۔ اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی منقول ہے کہ بیت اللہ کی دیواروں سے تصویریں مٹانے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ کو پانی لانے کے لیے باہر بھیج دیا تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ جس وقت وہ باہر گئے ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عرصے میں نماز پڑھ لی ہو۔ بہر حال حضرت اسامہ اور حضرت بلال دونوں نے اپنے علم و مشاہدہ کے مطابق خبر دی ہے اور بہر صورت ادائیگی نماز کو ثابت کرنا ہی مختار ہے اس کی نفی نہیں۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلٰوۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ھٰذَا خَےْرٌ مِّنْ اَلْفِ صَلٰوۃٍ فِےْمَا سِوَاہُ اِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں ہزار نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مسجد حرام کو مستثنیٰ اس لیے کیا گیا ہے کہ مسجد حرام نہ صرف یہ کہ دوسری مساجد کے مقابلے میں زیادہ بابرکت ہے بلکہ اپنی عظمت و برکت اور فضیلت کے اعتبار سے مسجد نبوی سے بھی افضل ہے چنانچہ منقول ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے۔ اب اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ حرم شریف میں وہ کون سی جگہ ہے جہاں نماز ادا کرنے پر اتنا ثواب ملتا ہے، چنانچہ پہلا قول یہ ہے کہ کوئی متعین جگہ نہیں ہے بلکہ پورا حرام اس فضیلت و برکت کا حامل ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جس جگہ جماعت ہوتی ہے ۔ علماء حنفیہ کے اقوال سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ اسی قول کو بعض شافعی علماء نے بھی اختیار کیا ہے۔ علماء حنفیہ کے نزدیک ثواب کی اس زیادتی کی فضیلت خاص طور پر فرائض سے متعلق ہے نوافل سے نہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ جگہ خانہ کعبہ ہے۔ یہ چوتھا قول ان چاروں اقوال میں سب سے ضعیف ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدِنِ الْخُدْرِیِّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی وَمَسْجِدِیْ ھٰذَا ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لیے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو) مسجد حرام، مسجد اقصی، (یعنی بیت المقدس اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی)۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کہ خدانے ان کی عظمت و بزرگی کی زیادتی کے سبب انہیں ایک امتیازی شان عطا فرمائی ہے۔ کیس دوسری جگہ کا سفر جائز نہیں ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ اس ممانعت اور نہی کا تعلق تقرب و عبادت سے ہے یعنی تقرب الی اللہ اور عبادت سمجھ کر ان تینوں جگہوں کے علاوہ اور کسی جگہ کا سفر نہ کرنا چائے۔ ہاں اگر کسی دوسری جگہ تحصیل علم، ادائے حقوق ، تجارت یا ایسی ہی کسی دوسری ضرورت کی بناء پر سفر کرنا ہو تو یہ الگ چیز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے البتہ اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر جانے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے تو اسے مباح قرار دیا ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے کہ یہ حرام ہے یعنی محض اولیاء اللہ کے مزارارت کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر پہنچ کر حصول برکت کی خاطر مستقل سفر کرنا مطلقا جائز نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ نذر و منت کی نیت سے سفر کا قصد کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان تینوں مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ پہنچنے کی نذر مانی جائے تو اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس نہی کا تعلق صرف مساجد سے ہے یعنی حصول برکت اور زیارت کے ارادے سے ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے لیے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں مساجد کے علاوہ دیگر مقامات خارج از مفہوم ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تینوں مقامات کے علاوہ دوسری جگہوں کا سفر کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ اس ارشاد کا مقصد دراصل ان تینوں مساجد کی اہمیت و عظمت اور فضیلت اور انکے لیے سفر کرنے کی سعادت و خوش بختی ظاہر کرنا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطمح نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ اگر وہ سفر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان تینوں مساجد کی زیارت کے لیے سفر کریں یہ مساجد سب سے زیادہ باعظمت و فضیلت اور متبرک ترین مقامات ہیں۔ ان کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا کوئی فلاح و سعادت کی بات نہیں ہے بلکہ بے فائدہ صعوبت و پریشانیوں کو برداشت کرنا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور معرکۃ الآر تصنیف حجۃ اللہ البالغۃ میں اس حدیث کی وضاحت کے دوران تحریر فرمایا ہے کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کچھ مقامات کو اپنے گمان و خیال کے مطابق باعظمت و بابرکت تصور کر کے وہاں کا سفر کرتے تھے اور ان مقامات کی زیارت کرنے کو سعادت وبرکت کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اپنے وہم و گمان کے مطابق کسی جگہ اور مقام کو باعث برکت و فضیلت سمجھنا اور پھر خاص طور پر اس کی زیارت کے لیے وہاں جانا نہ صرف یہ کہ حقیقت سے انحراف اور عقیدہ اور ذہن و فکر کی کمزوری کی علامت ہے بلکہ فتنہ و فساد کا سبب بھی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ و عمل کو راہ راست پر قائم رکھنے کی خاطر اس غلط طریقے کو بند فرما دیا تاکہ اسلامی شعائر کے ساتھ غیر شعائر جمع نہ ہو جائیں اور یہ طریقہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش کا سبب نہ بن جائے، چنانچہ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مزارات اولیاء اللہ کی عبادت کرنے کی جگہیں یہاں تک کہ کوہ طور پر یہ سب اس سلسلہ میں برابر ہیں کہ خاص طور پر زیارت یا حصول برکت و سعادت کے جذبہ سے ان مقامات کا سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا بَےْنَ بَےْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِےَاضِ الْجَنَّۃِ وَمِنْبَرِیْ عَلٰی حَوْضِیْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میرے مکان اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض (یعنی حوض کوثر ) کے اوپر ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی میرے مکان اور (مسجد نبوی میں) میرے منبر کے درمیان واقع جگہ پر عبادت کرے گا تو اسے اس عظیم سعادت کے صلے میں جنت کا ایک باغ ملے گا اور جو آدمی میرے منبر کے نزدیک عبادت میں مشغول رہے گا تو قیامت کے دن وہ حوض کوثر سے سیراب ہو گا۔ حضرت امام امالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے کیونکہ روضہ کے معنی ٹکرے کے ہیں لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان و منبر کے درمیان کی جگہ وہ ٹکڑا ہے جو جنت سے زمین پر اس جگہ منتقل کیا گیا ہے اور یہ ٹکڑا زمین کے دوسرے حصوں کی طرح قیامت کے روز فنا نہیں ہوگا بلکہ جوں کا توں جنت میں واپس چلا جائے گا۔ علامہ تور پشتی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے منبر اور حجرہ رسول کے درمیان کی جگہ کو روضہ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربت مبارک کی زیارت کرنے والے، وہاں کے حاضرباش ملائکہ اور جن وانس ہمیشہ عبادت اور ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں ایک جماعت جاتی ہے تو دوسری جماعت آجاتی ہے اس طرح لگاتار وہاں عبادت کرنے والوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے لہٰذا اس مناسبت سے اس جگہ کو روضہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جیسا کہ ذکر کے حلقوں کو ریاض جنت فرمایا گیا ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَر ص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَاْتِیْ مَسْجِدَ قُبَاءٍ کُلَّ سَبْتٍ مَّاشِےًا وَّرَاکِبًا فَےُصَلِّیْ فِےْہِ رَکْعَتَےْنِ ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کو پیدل یا سواری پر مسجد قبا تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح قبا ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کے وقت مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے قیام فرمایا تھا اور یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد بنائی تھی جو مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کی فضیلت بہت زیادہ ہے، چنانچہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ صریح ارشاد منقول ہے کہ " مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرہ ادا کر نے کے مانند ہے۔" جلیل القدر اور باعظمت صحابی حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں دو مرتبہ حاضری دینے سے زیادہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھوں اور اگر لوگ جان لیں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا کتنا ثواب ہے تو وہ سفر کی مصیبت و مشقت جھیل کر دور دراز سے اس مسجد میں آنے لگیں۔ بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کے روز مسجد قبا جاتے تھے اور اس میں دو رکعت تحیۃ المسجد یا کوئی دوسری نماز جو تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہوتی ہوگی پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک عمل سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہفتے کے روز علماء، صلحاء اور بزرگوں سے ملاقات کرنا سنت ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَحَبُّ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ مَسَاجِدُھَا وَاَبْغَضُ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ اَسْوَاقُھَا۔ (صحیح مسلم)-
' اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کے نزدیک تمام شہروں میں محبوب و پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور بدترین و ناپسندیدہ مقامات بازار ہیں۔" (صحیح مسلم) تشریح مسجدیں اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مساجد محبوب و پسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں ہوتا ہے رب قدوس اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرتا ہے اور اسے خیر و بھلائی کی سعادت سے نوازتا ہے اس کے مقابلے میں بازار وہ جگہ ہے جہاں شیطان کا سب سے زیادہ تسلط رہتا ہے۔ حرص و طمع، خیانت و بددیانتی، جھوٹ اور اللہ کی یاد سے غفلت وہ چیزیں ہیں جو بازار کا جزو لاینفک اور شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ اللہ کے نزدیک بازار بد ترین و ناپسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ناگزیر ضروریات کی تکمیل کے علاوہ محض سیر و تفریح کی غرض سے بازاروں میں رہتا ہے اس پر محرومی و برائی کا سایہ رہتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔ یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ بت خانے، شراب خانے اور چکلے وغیرہ تو بازار سے بھی بد ترین ہیں پھر انہیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور مبغوض ترین مقامات کیوں نہیں کہا گیا ہے؟ بازار کو کیوں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بازاروں کو قائم کرنے کا حکم شارع کی جانب سے ہے اور یہ چیزیں ایسی ہیں جن کو بنانے اور رکھنے کا حکم شارع کی جانب سے نہیں ہے لہٰذا ارشاد کا مطلب یہ ہے جن مقامات کو بنانا اور قائم رکھنا جائز ہے ان میں سے بد ترین اور ناپسند یدہ مقام بازار ہے۔
-
وَعَنْ عُثْمَانَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِدًا بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَےْتًا فَی الْجَنَّۃِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی اللہ کے لیے مسجد بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اللہ کے لیے مسجد بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے مسجد بناتا ہے، نہ کہ لوگوں کو دکھانے سنانے کے لیے اور اپنا نام پیدا کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس آدمی کے لیے جنت میں مکان بنا دیتا ہے اسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ جو آدمی مسجد بنا کر اس پر اپنا نام لکھتا ہے تاکہ تشہیر کا ذریعہ بنے تو یہ اس کے عدم اخلاص کی دلیل ہے۔ لفظ مسجدا میں تنکیر (عمومیت) تقلیل کے لیے ہے۔ یعنی اگرچہ کوئی آدمی مسجد کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ بنائے اسے اس کا بدلہ اسی طرح دیا جائے گا۔ جس طرح کسی بڑی اور عالی شان مسجد بنانے والے کو۔ چنانچہ روایت میں یہ الفاظ ہیں اگرچہ وہ مسجد بیٹر کے گھونسلے کی مانند ہو۔ یہ مسجد کی تنگی و اختصار میں مبالغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو نیت کو دیکھتا ہے اگر کوئی آدمی دنیا کی شہرت اور نمائش کے جذبے سے بالا تر ہو کر محض اللہ کی رضا و خوشنودی کی غرض سے اور اپنی نیت کے پورے اخلاص کے ساتھ مسجد بناتا ہے تو وہ جنت میں اللہ کی طرف سے ایک مکان کا حقدار ہوگا اگرچہ اس کی بنائی ہوئی مسجد کتنی چھوٹی اور مختصر کیوں نہ ہو۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ غَدَا اِلَی الْمَسْجِدِ اَوْرَاحَ اَعَدَّاللّٰہُ لَہُ نُزُلَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ کُلََّمَا غَدَا اَوْ رَاحَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی دن کے اول حصہ میں یا آخری حصہ میں مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے خواہ وہ صبح کو جائے یا شام کو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسجد گویا اللہ کا گھر ہے چنانچہ جو آدمی مسجد میں جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی زیارت کرنے والوں کی ضیافت کرتا ہے اور انہیں اپنی رحمت سے محروم نہیں رکھتا۔ مسجد میں جانے کی بہت سی نیتیں ہو سکتی ہیں ان میں سے ایک نیت یہ بھی ہو سکتی ہے ۔ اس کتاب کی ابتداء میں حدیث انما الا اعمال بالنیات کے فائدہ کے ضمن میں نیت کے اس مسئلے اور اس کی اقسام کو مفصل طریقے سے ذکر کیا جا چکا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَعْظَمُ النَّاسِ اَجْرًا فِی الصَّلٰوۃِ اَبْعَدُھُمْ فَاَبْعَدُھُمْ مَمْشًی وَّالَّذِیْ ےَنْتَظِرُ الصَّلٰوۃَ حَتّٰی ےُصَلِّےَھَا مَعَ الْاِمَامِ اَعْظَمُ اَجْرًا مِّنَ الَّذِیْ ےُصَلِّیْ ثُمَّ ےَنَامُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نماز کا سب سے زیادہ اجر اس آدمی کو ملتا ہے جو باعتبار مسافت کے سب سے زیادہ دور ہو (یعنی جس آدمی کا گھر مسجد سے جتنا دور ہوگا اور وہ گھر سے چل کر نماز کے لیے مسجد آئے گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا ) اور جو آدمی نماز کے انتظار میں مسجد کے اندر (بیٹھا ) رہتا ہے تاکہ امام کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کا ثواب اس آدمی سے زیادہ ہے جو (تنہا ) اپنی نماز پڑھ کر سو جائے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی نماز میں اس لیے تاخیر کرے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھ سکے تو اسے اس آدمی کے مقابلے میں جو انتظار کئے بغیر تنہا نماز پڑھ کر سو جائے اگرچہ وہ وقت مختار ہی میں نماز کیوں نہ پڑھ لے زیادہ ثواب ملتا ہے اسی طرح ایک آدمی تو وہ ہے جو چھوٹی اور مختصر جماعت کے ہمراہ نماز پڑھ لیتا ہے یا کسی امام کے ساتھ نماز ادا کر لیتا ہے جو درحقیقت امام بننے کا حق نہیں رکھتا اور دوسرا وہ آدمی ہے جو انتظار کے بعد بڑی جماعت کے ہمراہ نماز پڑھنا ہے یا ایسے امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے جو امامت کا حق رکھتا ہے تو اس دوسرے آدمی کو پہلے آدمی کے مقابلے میں خصوصاً جب وہ کسل و جلد بازی کے جذبہ سے ایسا کرتا ہے اسے زیادہ ثواب ملے گا۔
-
وَعَنْ جَابِرٍ ص قَالَ خَلَتِ الْبِقَاعُ حَوْلَ الْمَسْجِدِ فَاَرَادَ بَنُوْ سَلِمَۃَ اَنْ ےَّنْتَقِلُوْا قُرْبَ الْمَسْجِدِ فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لَھُمْ بَلَغَنِیْ اَنَّکُمْ تُرِےْدُوْنَ اَنْ تَنْتَقِلُوْا قُرْبَ الْمَسْجِدِ قَالُوْا نَعَمْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَدْ اَرَدْنَا ذَالِکَ فَقَالَ ےَا بَنِیْ سَلِمَۃَ دِےَارُکُمْ تُکْتَبُ اٰثَارُکُمْ دِےَارُکُمْ تُکتَبُ اٰثَارُکُمْ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے قریب کچھ مکان خالی ہوئے تو بنوسلمہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب آجائیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کے اس ارادے کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! ہم نے یہی ارادہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بنو سلمہ! تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔" (صحیح مسلم) تشریح بنو سلمہ انصار مدینہ کا ایک خاندان ہے اس خاندان کے افراد مسجد نبوی سے دور رہتے تھے ۔ جب مسجد نبوی کے قریب رہنے والوں میں سے کچھ لوگوں کا انتقال ہو جانے یا کسی دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے ان کے مکانات خالی ہوئے تو بنو سلمہ نے مسجد نبوی کے قریب رہنے کی سعادت حاصل کی غرض سے ان خالی مکانات میں منتقل ہونے کا ارادے کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اس ارادہ کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم لوگ جہاں آباد ہو وہی جگہ سعادت و بھلائی کے اعتبار سے تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ تم لوگ مسجد سے جتنا دور رہو گے مسجد آنے کے لیے تمہیں اتنا ہی چلنا پڑے گا اور نماز کے لیے تم جتنے زیادہ قدم اٹھاؤ گے تمہارے نامہ اعمال میں ان کے بدلے اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا اس لیے بھلائی و بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنی سابق جگہ آباد رکہو۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم سَبْعَۃٌ ےُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ےَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّشَآبٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی ےَعُوْدَ اِلَےْہِ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَےْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَےْہِ وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِےًا فَفَاضَتْ عَےْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ اِمْرَاَۃٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہ' مَا تُنْفِقُ ےَمِےْنُہ'۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اس روز (یعنی قیامت کے دن) اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (١) انصاف کرنے والا حاکم۔ (٢) وہ جوان جو اپنی جوانی کو اللہ کی محبت میں صرف کر دے۔ (٣) وہ آدمی جو مسجد سے نکلتا ہے تو جب تک وہ دوبارہ مسجد میں نہیں چلا جاتا اس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔ (٤) وہ دو آدمی جو محض اللہ کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں اگر یکجا ہوتے ہیں تو اللہ کی عبادت میں اور جدا ہوتے ہیں تو اللہ کی محبت میں یعنی حاضر و غائب خالص لوجہ اللہ محبت رکھتے ہیں۔ (٥) وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور (خوف خدا سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ (٦) وہ آدمی جس کو کسی شریف النسب اور حسین عورت نے (برے ارادے سے) بلایا اور اس نے (اس کی خواہش کے جواب میں) کہہ دیا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (٧) وہ آدمی جس نے اس طرح مخفی طور پر صدقہ دیا ہو کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں ان سات قسم کے خوش نصیب شخص کی وضاحت کی گئی ہے جو اپنے اعمال و کردار کی بناء پر قیامت کی روز میدان حشر میں اللہ کے سائے میں ہوں گے یعنی رب قدوس ان لوگوں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سایہ خداوندی سے مراد عرش کا سایہ ہے۔ یعنی قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمت خداوندی کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوں گے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ سا تو اں آدمی وہ جو اللہ کی راہ میں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال اتنی پوشیدگی سے خرچ کرتا ہے کہ جب وہ اپنے دائیں طرف کے آدمی کو کوئی چیز یعنی روپیہ پیسہ یا مال وغیرہ دیتا ہے تو اس کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی اور اس طرح اس کے چھپانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ریا اور نمائش کا جذبہ نہ پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے ثواب سے محرومی رہے۔ بعض علماء نے اس کے حقیقی معنی ہی مراد لیے ہیں یعنی وہ آدمی اتنے مخفی طریقے سے صدقہ و خیرات کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ دائیں ہاتھ نے کس کو کیا دیا ہے؟ اس صورت میں یہ جملہ کمال پوشیدگی کے لیے کنایہ ہو گا۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلمصَلٰوۃُ الرَّجُلِ فِی الْجَمَاعَۃِ تُضَعَّفُ عَلٰی صَلٰوتِہٖ فِیْ بَےْتِہٖ وَفِیْ سُوْقِہٖ خَمْسًا وَّعِشْرِےْنَ ضِعْفًا وَّذَالِکَ اَنَّہُ اِذَا تَوَضَّأَفَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ ثُمَّ خَرَجَ اِلَی الْمَسْجِدِ لَا ےُخْرِجُہُ اِلَّا الصَّلٰوۃُ لَمْ ےَخْطُ خُطْوَۃً اِلَّا رُفِعَتْ لَہُ بِھَا دَرَجَۃٌ وَّحُطَّ عَنْہُ بِھَا خَطِےْئَۃٌ فَاِذَا صَلّٰی لَمْ تَزَلِ الْمَلٰئِکَۃُ تُصَلِّیْ عَلَےْہِ مَادَامَ فِیْ مُصَلَّاہُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَےْہ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ وَلَا ےَزَالُ اَحَدُکُمْ فِیْ صَلٰوۃٍ مَّا انْتَظَرَ الصَّلٰوۃَ و َفِیْ رِوَاےَۃٍ اِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ کَانَتِ الصَّلٰوۃُ تَحْبِسُہُ وَزَادَ فِیْ دُعَآءِ الْمَلٰئِکَۃِ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہُ اَللّٰھُمَّ تُبْ عَلَےْہِ مَالَمْ ےُؤْذِ فِےْہِ مَالَمْ ےُحْدِثْ فِےْہِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جماعت کے ساتھ آدمی کی نماز اس نماز سے جو گھر میں یا (تجارت وغیرہ کی مشغولیت کی بناء پر) بازار میں پڑھی جائے پچیس درجے فضیلت رکھتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اچھی طرح (یعنی آداب و شرائط کو ملحوظ رکھ کر) وضو کرتا ہے اور (کسی غرض کی وجہ سے نہیں بلکہ) صرف نماز ہی کے لیے مسجد آتا ہے تو وہ جو قدم اٹھاتا ہے اس کے ہر قدم کے عوض اس کے نامہ اعمال میں سے ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ کم ہو جاتا ہے (یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے) اور جب تک وہ نماز پڑھ کر اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے برابر اس کے لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں۔ اَلَّلھُمَّ صَلِّی عَلَیْہِ اَللَّھُمَّ اَرْحَمْہُ اے اللہ ! اس کی بخشش کر! اے اللہ اس پر رحم کر، جب تک تم میں سے کوئی نماز کے انتظار میں رہتا ہے تو اس کا وہ وقت نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کوئی مسجد میں گیا اور نماز ہی کی وجہ سے وہاں رک گیا (تو گویا وہ نماز ہی میں ہے ) اور فرشتوں کی دعاء میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اَلَّلھْمَّ اَغْفِرْلَہُ اَلَّلھْمَّ تَبْ عَلَیْہِ(یعنی اے اللہ ! اس بندے کی بخشش فرما، اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما) اور (یہ اس وقت تک ہوتا رہتا ہے) جب تک کہ وہ کسی (مسلمان) کو (اپنی زبان یا ہاتھ سے ) ایذاء نہ پہنچائے اور باوضو رہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچیس درجے زیادہ ثواب کی فضیلت اسی وقت حاصل ہوگی جب کہ نماز جماعت کے ساتھ اور مسجد میں پڑھی جائے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے نمازی کے حق میں خدا کی رحمت و برکت کی دعا اس وقت تک کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ مسلمان کو اپنے کسی عمل یا اپنے کسی قول سے ایذاء نہیں پہنچاتا۔ گویا فرشتوں کے دعا کرنے کے حق میں یہ حدیث معنوی ہے۔ اس کے بعد حدث ظاہری کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب تک نمازی باوضو رہے یعنی اگر کوئی نمازی کسی مسلمان کو ایذاء پہنچائے گا یا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا تو فرشتے اس کے لیے رحمت و برکت اور مغفرت کی دعا نہیں کریں گے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کی دعا کی فضیلت اسی وقت حاصل ہوگی جب کہ نمازی نماز پڑھ کر وہیں مصلٰی پر بیٹھا رہے اگر وہاں سے اٹھ کردوسری جگہ جا بیٹھے گا تو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ بعض مشائخ اور بزرگ نماز پڑ کر ریاء و نمائش وغیرہ کے خوف سے مصلی سے اٹھ جاتے ہیں اور کسی گوشے وغیرہ میں بیٹھ کر ذکر و تسبیح میں مشغول ہو جاتے ہیں، گو ان کی نیت صحیح اور ان کا یہ طریقہ قابل جزاء و انعام ہے کہ انہیں ذکر و تسبیح کی فضیلت حاصل ہوتی ہے مگر نماز پڑھ کر مصلی ہی پر بیٹھے رہنے کی جو فضیلت ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی۔
-
وَعَنْ اَبِیْ اُسَےْدٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْےَقُلْ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَاِذَا خَرَجَ فَلےَقُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوسید ( حضرت ابواسید مالک بن ربیعہ کے صاحبزادے اور ساعدی انصاری ہیں، بدری صحابہ میں شامل اور سب سے بعد میں ٦٠ھ میں بعمر ٧٨ سال وفات پائی١٢۔ ) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو۔ تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ اَلَّلھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَبَ رَحْمَتِکَ (اے اللہ اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے) اور جب مسجد سے نکلے تو یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَسْلئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ (اے اللہ ! میں تیراہی فضل چاہتا ہوں)۔" (صحیح مسلم) تشریح پہلی دعا کا مطلب تو یہ ہے کہ اے اللہ ! اس مقدس و محترم جگہ کی برکت سے یا اس مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق دینے کے سبب سے یا نماز کے حقائق ظاہر کرنے کے سبب سے مجھ پر اپنی رحمتوں، اپنی نوازشوں اور اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دے۔ دوسری دعا میں " فضل" سے مراد حلال رزق ہے کیونکہ نماز سے فارغ ہو کر بندہ اسباب معیشت ہی کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْےَرْکَعْ رَکْعَتَےْنِ قَبْلَ اَنْ ےَّجْلِسَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد یعنی مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اس لیے کہ اس حدیث میں امر وجوب کے لیے ہے۔ حنفیہ کے نزدیک چونکہ تحیۃ المسجد واجب نہیں مستحب ہے اس لیے وہ حضرات کہتے ہیں کہ یہاں امر (حکم ) وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔
-
وَعَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ اِلَّا نَھَارًا فِی الضُّحٰی فَاِذَا قَدِمَ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَصَلّٰی فِےْہِ رَکْعَتَےْنِ ثُمَّ جَلَسَ فِےْہِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم (کی عادت تھی کہ) جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو چاشت کے وقت آتے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھ کر (تھوڑی دیر تک) بیٹھے رہتے۔ (پھر مکان میں تشریف لے جاتے)" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر وہاں تھوڑی دیر تک اس لیے بیٹھے رہتے تھے تاکہ وہ صحابہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی کی وجہ سے آپ کی صحبت سے محروم رہتے تھے ۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی سعادت حاصل کر سکیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ سفر سے واپس آکر گھر جانے سے پہلے مسجد میں آکر نماز پڑھے اور تھوڑی دیر تک وہاں بیٹھا رہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ سَمِعَ رَجُلًا ےَّنْشُدُ ضَآلَّۃً فِی الْمَسْجِدِ فَلْےَقُلْ لَّا رَدَّھَا اللّٰہُ عَلَےْکَ فَاِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِھٰذَا۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو آدمی یہ سنے (یاد دیکھے) کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کوئی گم شدہ چیز تلاش کر رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہہ دے کہ اللہ کرے تیری گم شدہ چیز تجھے نہ ملے۔ اس لیے کہ مسجدوں کو اس لیے نہیں بنایا گیا ہے (کہ ان میں جا کر گم شدہ چیزوں کو تلاش یا دریافت کیا جائے۔" (صحیح مسلم) تشریح اس سلسلہ میں بظاہر تو مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقعہ پر یہ کلمات اس آدمی کی تنبیہ و توبیخ کے لیے صرف زبان سے ادا کئے جائیں دل سے بد دعا نہ کی جائے اور نہ درحقیقت یہ خواہش ہو کہ ایک مسلمان کی گمشدہ چیز اسے واپس نہ ملے۔ اور اگر کوئی آدمی درحقیقت دلی خواہش پر یہی کھتا ہے کہ ایسے آدمی کو اس کی گم شدہ چیز نہ ملے تاکہ آئندہ کے لیے اسے عبرت ہو اور اپنے اس نا مناسب فعل کی سزا پائے اور یہ کہ پھر آئندہ وہ ایسی حرکت نہ کرنے پائے تو ایک حد تک یہ بھی صحیح ہوگا۔ اس سلسلہ میں مسجد کی عظمت و تقدس کا تقاضا تو یہ ہے کہ صرف گم شدہ چیز تلاش کرنے ہی کی تخصیص نہیں بلکہ ہر وہ چیز ممنوع ہے جس کو اختیار کرنا مسجد کی بناء غرض کے منافی ہو جیسے خرید و فروخت وغیرہ ۔ چنانچہ عہد سلف کے بعض علماء اسی بناء پر کہ مسجدیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہیں اور کسی مقصد کی تکمیل کے لیے نہیں مسجد میں کسی سائل کو صدقہ وغیرہ دینا بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
-
وَعَنْ جَابِرٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلممَنْ اَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ الْمُنْتِنَۃِ فَلَا ےَقْرِبَنَّ مَسْجِدَنَا فَاِنَّ الْمَلٰئِکَۃَ تَتَاَذّٰی مِمَّا ےَتَاَذّٰی مِنْہُ الْاِنْسُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی کہ اس بدبودار درخت (یعنی پیاز، لہسن وغیرہ) میں سے کچھ کھائے تو ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے کیونکہ جس (بدبو) سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدبوردار چیزوں سے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح فرشتے بھی ان سے تکلیف محسوس کرتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پیاز و لہسن وغیرہ کھا کر مسجدوں میں نہ آئیں کیونکہ مسجد میں فرشتوں کے حاضر ہونے کی جگہیں ہیں اس لیے انہیں تکلیف ہوگی اس حکم میں ہر وہ چیز داخل ہے جو بدبودار ہو اس کا تعلق خواہ کھانے پینے سے ہو یا رہن سہن سے مثلا منہ غلاظت و بدبو، بغل وغیر کی گندگی و تعفن وغیرہ وغیرہ ۔ پھر مسجد ہی کی طرح ان دوسری جگہوں کا بھی یہی حکم ہے جہاں مجالس عبادت و وعظ منعقد ہوتی ہوں یا جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم ہوتی ہو یا جہاں ذکر و تسبیح کے حلقے ہوتے ہوں کہ ان مقامات پر بھی بد بودار چیزوں کے ہمراہ نہ جانا چاہئے۔
-
وَعَنْ اَنَس ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم الْبُزَاقُ فِی الْمَسْجِدِ خَطِےْئَۃٌ وَّکَفَّارَتُھَا دَفْنُھَا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مسجد نبوی میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس تھوک کو زمین میں دبا دیا جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مسجد کے تقدس و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں تھوک کر گندگی و غلاظت نہ پھیلائی جائے اور اگر اتفاقاً ایسا غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو اس گناہ کے دفعیہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس تھوک کو زمین دوز کر کے اسے دور کر دیا جائے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عُرِضَتْ عَلَیَّ اَعْمَالُ اُمَّتِیْ حَسَنُھَا وَسَےِّئُھَا فَوَجَدْتُّ فِیْ مَحَاسِنِ اَعْمَالِھَا الْاَذٰی ےُمَاطُ عَنِ الطَّرِےْقِ وَوَجَدْتُّ فِیْ مَسَاوِیْ اَعْمَالِھَا النُّخَاعَۃَ تَکُوْنُ فِی الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے ہیں میں نے اس کے نیک اعمال میں تو راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو دور کر دینا پایا اور برے اعمال میں مسجد کے اندر تھوکنا دیکھا جس کو دبایا نہ گیا ہو۔ " (صحیح مسلم)
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قَامَ اَحَدُکُمْ اِلَی الصَّلوٰۃِ فَلَا ےَبْصُقْ اَمَامَہُ فَاِنَّمَا ےُنَاجِی اللّٰہَ مَادَامَ فِیْ مُصَلَّاہُ وَلَاعَنْ ےَمِےْنِہٖ فَاِنَّ عَنْ ےَّمِےْنِہٖ مَلَکًا وَّلْےَبْصُقْ عَنْ ےَّسَارِہٖ اَوْ تَحْتَ قَدَمَےْہِ فَےَدْفِنُھَا وَفِیْ رَوَاےَۃٍ اَبِیْ سَعِےْدٍ تَحْتَ قَدَمِہِ الْےُسْرٰی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے اس لیے کہ وہ جب تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے اور اسے اپنے دائیں طرف بھی نہیں تھوکنا چاہیے کیونکہ دائیں طرف ایک فرشتہ ہوتا ہے ہاں بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے اور پھر اسے زمین میں دبا دے۔ ابوسعید کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بلکہ اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک لے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں نمازی کو اس آدمی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہو کر اس سے سر گوشی کرتا ہے لہٰذا جس طرح اس موقع پر وہ آدمی اپنے مالک کی عزت احترام کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتا ہے اسی طرح نمازی کے لیے بھی واجب ہے کہ جب وہ اپنے پروردگار حقیقی کے سامنے نماز کے لیے کھڑا ہو تو حضوری کے تمام شرائط و آداب کو پورار پورا خیال رکھے۔ اور اس سلسلے میں ایک اہم ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے ، گو رب قدوس کی ذات پاک جہت و سمت کی قیود سے پاک ہے تاہم سامنے نہ تھوکنے کی قید لگا کر آداب حضوری کے راستے سے روشناس کرایا جا رہا ہے کہ پروردگار عالم کے دربار میں حاضری کے وقت ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ جو رب ذوالجلال کی شان و عظمت و کبریائی کی منافی ہو۔ " فرشتے" سے مراد یا کراما کا تبین کے علاوہ وہ فرشتہ ہے جو خاص طور پر نماز کے وقت نمازی کی تائید اور اس کی رہبری اور اس کی دعا پر آمین کہنے کے لیے حاضر ہوتا ہے لہٰذا نمازی پر واجب ہے کہ اس فرشتے کی مہمانی کا خیال کرتے ہوئے کراماکا تبین سے زیادہ اس کا اکرام و احترام کرے کیونکہ کراما کا تبین تو ہر وقت ہی ساتھ رہتے ہیں اور اس کے اکرام و احترام کی شکل یہی ہو سکتی ہے کہ دوران نماز اپنی دائیں طرف نہ تھوکے کہ یہ فرشتہ اسی سمت رہتا ہے۔ یا پھر" فرشتے" سے مراد کراماً کا تبین ہے کہ اس صورت میں کہ کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دائیں طرف تھوکنے سے اس لیے منع فرمایا تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ دائیں طرف کا فرشتہ جو بندے کے نیک اعمال لکھنے پر مقرر ہے بائیں طرف کے فرشتے سے جو بندہ کے برے اعمال لکھنے پر متعین ہے رتبے کے اعتبار سے زیادہ افضل ہے جس طرح کہ دائیں سمت بائیں سمت سے افضل ہوتی ہے یا رحمت کا فرشتے عذاب کے فرشتہ سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔
-
وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فِیْ مَرْضِہِ الَّذِیْ لَمْ ےَقُمْ مِنْہُ لَعَنَ اللّٰہُ الْےَھُوْدَ وَالنَّصَارَی اِتَّخَذُوْا قُبُورَ اَنْبِےَآءِ ھِمْ مَسَاجِدَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیماری میں جس سے اٹھ نہ سکے (یعنی مرض وفات میں ) فرمایا ۔ عیسائیوں اور یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انیباء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیمانہ حیات جب لبریز ہونے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو گیا کہ اب اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوف سے کہ مبادا میری امت کے لوگ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنائیں اس فعل شنیع کی ممانعت کا اظہار یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرتے ہوئے فرمایا کیونکہ ان امتوں کے لوگ اپنے انبیاء کی کرام قبروں پر سجدہ کیا کرتے ہیں۔ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ صاحب قبر یا محض اپنی قبر کی عبادت و پرستش کے مقصد سے قبروں پر سجدہ کیا جائے جیسا کہ بت پرست بتوں کو پوجتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سجدہ تو قبر کو کیا جائے مگر اس سے مقصد اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت و پرستش ہو اور یہ اعتقاد ہو کہ اس طرح قبر کی طرف نماز پڑھنا اور سجدہ کرنا درحقیقت پروردگار حقیقی کی عبادت کرنا ہے اور یہ کہ اس طریقے سے پروردگار کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور اس کا قرب میسر ہوتا ہے۔ یہ دونوں طریقے غیر مشروع اور خدا و رسول کی نظر میں نا پسندیدہ ہیں۔ پہلا طریقہ تو صریحا کفر و شرک ہے۔ دوسرا طریقہ بھی حرام ہے کیونکہ اس میں اللہ کی پرستش و عبادت میں دوسرے کو شریک کرنا لازم آتا ہے اگرچہ شرک خفی ہے یہ دونوں طریقے اللہ کی لعنت کا سبب ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ نبی کی قبر یا کسی بزرگ و ولی کی قبر کی طرف ازراہ بزرگ و تعظیم نماز پڑھنا حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
-
وَعَنْ جُنْدُبٍ ص قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ اَلَا وَاِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا ےَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ اَنْبِےَآءِ ھِمْ وَصَالِحِےْھِمْ مَسَاجِدَ اَلاً فَلَا تَتَّخِذُوْا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ اِنِّیْ اَنْھٰکُمْ عَنْ ذَالِکَ۔ ( مسلم)-
" اور حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آگاہ رہو! تم سے پہلے (یعنی دوسری امتوں کے) لوگوں نے اپنے انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا ۔ لہٰذا خبردار ! تم لوگ قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔ " (صحیح مسلم)
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَر ص قَالَ قَالَ رَسْوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اِجْعَلُوْا فِیْ بَیُوْتِکُمْ مِنْ صَلاَ تِکُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوْھَا قُبُوْرًا۔( صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم کچھ نمازیں اپنے گھروں میں بھی پڑھ لیا کرو اور گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح " گھروں کو قبریں نہ بنانے" کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں میں قبریں نہ بناؤ اور اپنے کسی مردے کو گھر کے اندر دفن نہ کر دیا کرو اس سے یہ مراد ہے کہ قبروں کو گھروں کی مانند نہ سمجھو یعنی جس طرح کسی حاجت و ضرورت کے وقت لوگ اپنے گھروں ہی کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس حاجت و ضرورت کو پوری کر سکیں۔ اسی طرح اگر کسی کو کوئی حاضت و ضرورت پیش ہو تو وہ قبروں پر دوڑا ہوا نہ چلا جائے اور صاحب قبر سے مرادیں نہ مانگنے لگے بلکہ جب کوئی حاجت و ضرورت پیش ہو تو اللہ ہی سے مانگے اور اسی کے سامنے دست سوال دراز کرے کہ سب اسی کے محتاج ہیں یہاں تک کہ جس پیر و صاحب کو حاجت روا اور مرادیں پوری کرنے والا سمجھا جاتا ہے وہ بھی اللہ ہی کے رحم و کرم اور اس کے فضل کا محتاج ہے۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ جس طرح مقبروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی اسی طرح اپنے گھروں کو بھی بے ذکر الہٰی نہ چھوڑو بلکہ اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو تاکہ نماز اور ذکر الہٰی کی برکت سے گھر میں رحمت خداوندی کا نزول ہو۔ اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ سوائے فرض نماز کے سنت و نوافل وغیرہ مسجد کی بہ نسبت گھروں میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَابَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ۔ (رواہ الترمذی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔" (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث کا تعلق مدینہ منورہ کے باشندوں سے ہے کیونکہ مدینہ منورہ سے قبلہ جانب جنوب واقع ہے نیز اس حدیث کا تعلق ان اطراف کے لوگوں سے بھی ہے جن کا قبلہ مدینہ کے موافق جانب جنوب واقع ہے لہٰذا اس اعتبار سے ان لوگوں کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہوا۔
-
وَعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ خَرَجْنَا وَفْدًا اِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَا یَعْنَاہُ وَصَلَّیْنَا مَعَہ، وَاَخْبَرْنَاہُ اَنَّ بَاَرْضِنَا بَیْعَۃً لَنَا فَاسْتَوْ حَبْنَاہُ مِنْ فَضْلِ طَھُوْرِہٖ فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَّضَأَ وَتَمَضْمَضَ ثُمَّ صَبَّہُ لَنَافِی اِدَاوَۃٍ وَاَمَرْنَا فَقَالَ اخْرُ جُوْ افَاِذَا اَتَیْتُمْ اَرْضَکُمْ فَاَکْسِرُوْ ابَیْعَتَکُمْ وَانَضَحُوْا مَکَانَھَا بِھٰذَالْمَآءِ وَاتَّخِذُوْ ھَا مَسْجِدًا قُلْنَا اِنَّ لْبَلَدَ بَعِیْدٌ وَالْحَرُّ شَدِیْدٌ وَالْمَآءُ یُنْشَفُ فَقَالَ مُدُّوْہ، مِنَ الْمَآءِ فَاِنَّہُ لَا یَزِیْدُہُ اِلَّا طِیْبًا۔ (رواہ النسائی )-
" اور حضرت طلق ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کی شکل میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اسلام کی) بیعت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی اور پھر یہ بھی عرض کر دیا کہ ہماری سر زمین پر ہمارا ایک گرجا بنا ہوا ہے (اس کو کیا کریں) اس کے بعد ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور وضو کیا اور (وضو کے بعد بقیہ پانی سے ) کلی کی اور اس کلی کا پانی ہماری چھاگل میں ڈال دیا اور فرمایا کہ جاؤ ! جب تم اپنے ملک میں پہنچو تو اس گرجے کو توڑ کر اس کی جگہ یہ پانی چھڑک دینا (تاکہ دین و اسلام کے انوار و برکات وہاں پھیل جائیں) اور پھر وہاں مسجد بنا لینا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارا شہر تو بہت دور ہے اور گرمی سخت ہے لہٰذا یہ پانی (وہاں پہنچتے پہنچتے) خشک ہو جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں اور پانی ملا لینا اس سے اس کی پاکیزگی و برکت ہی میں اضافہ ہوگا۔" (سنن نسائی ) تشریح " (بیعۃ) نصاری کے عبادت خانے کو کہتے ہیں جسے ہمارے ہاں گرجا کہا جاتا ہے ۔ یہ حضرات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے تھے نصاری قوم سے تھے چنانچہ جب یہ لوگ ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوگئے تو ان کی خواہش ہوئی کہ اپنے گرجے کو جو پہلے مذہب کی یادگار عبادت گاہ ہے توڑ ڈالیں اور اس جگہ برکت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا دھان مقدس سے نکلا ہوا متبرک پانی چھڑک ڈالیں تاکہ اس جگہ ایک دوسرے مذہب کی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے وہاں کفر و شرک کے جو جراثیم پیداہو گئے ہیں وہ اس پانی کی برکت سے ختم ہو جائیں اور وہاں دین اسلام کے فیوض و برکات پھیل جائیں۔ چنانچہ لفظ فاستوہبناہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر دھوپ و گرمی کی شدت اور طویل مسافت کی وجہ سے یہ پانی خشک ہونے لگے اور تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ منزل مقصود تک پہنچے پہنچتے یہ پانی بالکل ہی خشک ہو جائے گا تو اس پانی میں دوسرا پانی ملا لینا لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اور پانی ملا لینے سے اس پانی کی برکت و فضیلت ختم ہوگئی ہے یا کم ہوگئی ہے بلکہ یہ تو پہلا پانی جو چھاگل میں تھا بعد میں ڈالے جانے والے اس پانی میں خیر و برکت کی زیادتی کرے گا یا پھر بعد میں ڈالے جانے والے اس دوسرے پانی میں منجاب اللہ یہ شرف و فضیلت پیدا ہو جائے گی کہ اس پانی کی وجہ سے چھاگل میں موجود پہلے پانی میں مزید خیر و برکت ہو جائے گی اور حاصل یہ کہ مزید پانی ملا لینے سے خیر و برکت زیادہ ہی ہوگی کم نہ ہوگی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آب زم زم کو باعث خیر و برکت جاننا اور پھر اسے بطور تبرک دوسری جگہ لے جانا جائز ہے۔ نیز اس پر قیاس کیا جاتا ہے کہ علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ کے استعمال کردہ کھانے اور پانی یا ان کے بدن کے اترے ہوئے کپڑوں کو خیر و برکت کا باعث جاننا اور انہیں متبرک سمجھ کر استعمال کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں حدود شرع سے تجاوز نہ ہو یعنی ان چیزوں کو متبرک و مقدس سمجھ کر ان کی حدیث سے زیادہ تعظیم و تکریم یا نعوذ باللہ ان کی پرستش نہ ہونے لگے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ اَمَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ فِی الدُّوْ وَ رِوَاَنْ یُنَظَّفَ وَیُطَیَّبَ۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی، ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجد بنانے کا حکم فرمایا ہے اور یہ کہ (وہ مسجدیں) پاک و صاف رکھی جائیں اور ان میں خوشبوئیں رکھی جائیں۔" (ابوداؤد، جامع ترمذی، ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محلوں میں مسجدیں بنانا اشد ضروری ہیں کیونکہ مسجدوں کا قیام نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی دینی و مذہبی حمیت اور قوی و ملی بیداری کا ثبوت ہے بلکہ ان کی وجہ سے اہل محلہ پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ مسجدوں کو محض بنا ڈالنا ہی ایمانی حرارت اور دینی و مذہبی بیداری کا ثبوت نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ مسجدوں کو آباد بھی رکھا جائے۔ وہاں کسی قسم کی کوئی غلاظت و گندگی نہ ڈالی جائے اور نہ وہاں رہنے دی جائے اور اگر بتی وغیرہ اور خوشبوؤں کے ذریعے انہیں معطر رکھا جائے ۔ اور اگر ان چیزوں کے کرنے کے وقت اس مقدس و محترم جگہ کی تعظیم و تکریم کی نیت کی جائے اور یہ نیت بھی کی جائے کہ پاکی و صفائی اور خوشبو کی وجہ سے مسجد میں آنے والے فرشتے اور مسلمان بھائی خوش ہوں گے تو ثواب میں بہت زیادتی ہوگی۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُمِرْتُ بِتَشْیِیْدِ الْمَسَاجِدِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَتُزُخْرِ فُنَّھَا کَمَا زَخْرَفَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصَارٰی۔(رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھ کو مسجدوں کے بلند کرنے او آراستہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس طرح یہود و نصاری ( اپنے عبادت خانوں کی) زینت کرتے ہیں اسی طرح تم بھی (مساجد) کی زینت کرو گے۔" (ابوداؤد) تشریح زخرف کہتے ہیں علماء کو اور کسی چیز کی کمال خوبی کو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں نقش و نگار کریں گے اور ان کے درودیوار پر سونا چڑھائیں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حسب عادت، انسانی لوگوں کے افعال کی خبر دینے کے مترادف ہے یعنی آئندہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مسجدوں کو منقش و مزین کریں گے، اور ان کے درودیوار پر سونا چڑھائیں گے حالانکہ ان کا یہ طریقہ خلاف سنت ہوگا کیونکہ اسلام کی سادگی پسند فطرت اس قسم کی چیزوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مزید یہ کہ اس طریقے سے یہود و نصاری کی مشابہت ہوتی ہے۔ متاخرین علماء نے مساجد کی زیب و زینت اور ان میں نقش و نگار کی اجازت دی ہے اور کہا کہ لوگ اپنے مکانوں کو بلند و مطلا بناتے ہیں اور انہیں منقش و مزین کرتے ہیں اگر مسلمان اپنی مسجدوں کو لکڑی و مٹی سے بالکل سادہ بنائیں تو ہو سکتا ہے کہ عوام کی نظروں میں ان کی دقعت و عظمت نہ ہو اس لیے مسجدوں کو ایسے ڈھنگ سے بنانے کی اجازے دے دی گئی ہے جو موجودہ زمانے کے معیار پر دقیع و محترم سمجھی جائیں۔ مسجد نبوی زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بالکل سادہ اور کچی تھی دیواریں اینٹوں کی اور چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دوبارہ بنوایا تو انہوں نے بھی اسی طرح مسجد کو سادہ رکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس مسجد کو از سر نونئے طرز پر تعمیر کروایا چنانچہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مسجد کو وسیع تر بنا دیا بلکہ اس کی دیواروں میں منقش پتھر اور چھت میں سال استعمال کیا اس طرح مسجد نبوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مقابلے میں بہت بڑی اور خوبصورت ہو گئی۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ اَشْرَاطِ السَّاعَۃِ اَنْ یُّتَبَاھِیَ النَّاسُ فِی الْمَسَاجِدِ۔ (رواہ ابواؤد، والنسائی و الدارمی و ابن ماجہ)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ مساجد کے بارے میں فخر کیا کریں گے۔" (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت لوگ بڑی بڑی مسجدیں بنائیں گے اور انہیں آراستہ کریں گے اور اس سے ان لوگوں کا مقصد اللہ کی رضا و خوشنودی اور ان کی نیت خالصۃ اللہ کیلئے نہیں ہوگی بلکہ ان کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ بڑے فخر و مباہات کے ساتھ اپنے اس کار نامے کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور دنیا والے ان کی تعریف و بڑائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُرِضَتْ عَلَیَّ اُجُوْرُا اُمَّتِی حَتّٰی القَذَاۃُ یُخْرِجُھَا الْرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَعْرِضَتْ عَلَیَّ ذُنُوْبُ اُمَّتِی فَلَمَّ اَرَذًنْبًا اَعْظَمَ مِنْ سُوْرَۃٍ مِنَ الْقُرْاٰنِ اَوْاٰیَۃً اَوْتِیْھَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِیَّھَا۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد)-
" اور حضرت انس راوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت کے ثواب میرے سامنے پیش کئے گئے ۔ یہاں تک کہ اس کوڑے اور خاک کا ثواب بھی (پیش کیا گیا) جسے کسی آدمی نے مسجد سے (جھاڑو دے کر) نکالا ہو، نیز میرے سامنے میری امت کے گناہ بھی پیش کئے گئے۔ ان گناہوں میں مجھ کو اس سے بڑا کوئی گناہ نظر نہیں آیا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد ہو پھر اس نے اس کو بھلا دیا ہو۔" (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) تشریح کسی کو قرآن کی سورت یا آیت کا یاد ہو جانا اللہ کی بڑی نعمت ہے اور جس نے یاد کر کے اسے بھلا دیا گویا اس آدمی نے اس نعمت کی سخت بے قدری و ناشکری کی اور اس کی قدر نہ جانی لہٰذا ایسا آدمی سخت گناہ گار ہوگا۔
-
وَعَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَشِّرِ الْمَشَائِیْنَ فِی الظُّلْمِ اِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّوْرِ التَّامِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ وَاَنَسٍ۔-
" اور حضرت حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو لوگ اندھیرے میں مسجدوں کی طرف جاتے ہیں انہیں یہ خوشخبری پہنچا دو کہ قیامت کے دن (اس کے سبب سے) ان کو کامل روشنی نصیب ہوگی۔" ( جامع ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ آیت (نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا) 66۔ التحریم : 8) " ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا (اور ) یوں دعا کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے لیے اس نور کو اخیر تک رکھیے۔"
-
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدِ الْخُدْرِیِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَاَیْتُمُ الرَّجُلَ یَتَعَاھَدُ الْمَسْجِدَ فَا شْھَدُوْا لَہُ بِالْاِیْمَانِ فَاِنَّ اﷲَ تَعَالٰی یَقُوْلُ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اﷲِ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرْ۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ والدرامی)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم کسی آدمی کو مسجد کی خبر گیری کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو اس لیے کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ) 9۔ التوبہ : 18) اللہ کی مسجدوں کو وہی آدمی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا۔" (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم اگر کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو اللہ کے گھر کی خبر گیری کرتا ہو یعنی اس کی حفاظت و مرمت کرتا ہے اس میں جھاڑو وغیرہ دے کر اس کی صفائی و ستھرائی رکھتا ہے اس میں نماز پڑھتا ہے اور عبادت کرتا ہے اور اس میں دینی علوم کے درس و تدریس میں مشغول رہتا ہے تو تم اس کے حق میں گواہی دو کہ وہ مرد مومن اور اللہ و رسول کا اطاعت گذار و فرمانبردار بندہ ہے۔
-
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ قَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ائْذَنْ لَنَا فِی الْاِخْتِصَاءِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَصَی وَلَا اَخْتَصَی اِنَّ خِصَاءَ اُمَّتِ الصِّیَامُ فَقَالَ ائْذَنُ لَنَا فِی السِّیَاحَۃِ فَقَالَ اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اﷲِ فَقَالَ اَئْذَنْ لَنَا فِی التَّرَھُّبِ فَقَالَ اِنَّ تَرَھُّبَّ اُمَّتِی الْجُلُوْسُ فِی الْمَسَاجِدِ اِنْتِظَارَ الصَّلَاۃِ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)-
" اور حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی عثمان بن مظعون اور کنیت ابوسائب ہے۔ جلیل القدر صحابی اور چودھویں مرد مسلمان ہیں۔ ہجرت حبشہ میں وہ اور ان کے صاحبزادے سائب شامل ھے اور ہجرت مدینہ میں شریک ہوئے مہاجرین میں سے پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ میں ٢ھ میں وفات پائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی نعش کو بوسہ دیا تھا۔ ) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! مجھ کو خصی (نامرد) ہونے کی اجازت دیجئے (تاکہ زنا میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہماری سنت کے راستے سے ہٹا ہوا ہے) جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہو جائے (بلکہ) میری امت کے لیے خصی ہونا روزہ رکھنا ہے (کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت جاتی رہتی ہے) حضرت عثمان نے عرض کیا کہ پھر مجھے سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت کی سیاحی یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اچھا تو پھر مجھے راہب بننے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا راہب بننا یہی ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے۔ " (شرح النسۃ) تشریح حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش یہ تھی کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں کہ جس سے دنیا کی لذتوں، نفسانی خواہشات اور شیطانی حرکات میں نہ مبتلا ہو سکیں تاکہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو، چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنی قوت مردانگی کو ختم کر کے بالکل نامرد بن جائیں تاکہ زنا جیسے بڑے گناہ میں ملوث ہونے کا خدشہ نہ رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس خواہش کو انسانی فطرت اور اسلامی روح کے منافی سمجھتے ہوئے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو کہ نفسانی خواہشات ختم ہو جائیں اور روحانی و عرفانی جذبات غالب رہیں تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ روزہ رکھا کرو کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے اور تعلق مع اللہ کے جذبات کو جلا بخشتا ہے۔ پھر انہوں نے سیر و سیاحت کی اجازت طلب کی تاکہ اس مشغلے سے نفسانی خواہشات میں کمی آجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا صرف جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے، محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے راہب بن جانے کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ اہل کتاب میں وہ لوگ جو دیندار اور مذہبی قسم کے ہوتے ہیں دنیاوی علائق سے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں اور مشغولیات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور نہ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس خواہش کو بھی رد کر دیا کیونکہ رہبانیت اہل کتاب کا شیوہ ہے یہ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی فطرت کے بالکل منافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہماری امت میں رہبانیت صرف اسی قدر ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے کیونکہ اس طرح تمام لوگوں اور دنیا کی تمام چیزوں سے منہ پھیر کر پروردگار کی طرف توجہ ہوتی ہے اور اس پر بے شمار اجر و انعام ملتے ہیں اس کے مقابلے میں اہل کتاب کی جو رہبانیت ہے وہ بالکل بے فائدہ اور بے کار محض ہے کہ اس کا انجام دینی اور دنیوی اعتبار سے اچھا نہیں ہوتا۔
-
وَعَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَائِشٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزُّوَجَلَّ فِی اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ قَالَ فِیْمَا یَخْتَسِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی قُلُتُ اَنْتَ اَعْلَمُ قَالَ فَوَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَھَا بَیْنَ ثَدیَیَّ فَعَلِمْتُ مَا فِی السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَ تَلا وَ کَذٰلِکَ نُرِیْ اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ رَوَاہُ الدَّارِمِیُّ مُرْسَلًا وَلِلتِّرْمِذِیُّ نَحْوُہ، عَنْہُ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَزَادَفِیْہِ قَالَ یَا مُحَمَّدُ ھَلْ تَدْرِی فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَا ُالْاَعْلی قُلْتُ نَعَمْ فِی الْکَفَّارَاتِ وَ الْکَفَّارَاتُ الْمُکْثُ فِی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلوَاۃِ وَالْمَشْیُ عَلَی الْاَقْدَامِ اِلَی الْجَمَاعَاتِ وَ اِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِی الْمَکَارِہٖ وَمَنْ فَعَل ذٰلِکِ عَاشَ بِخَیْرٍ وَ مَاتَ بِخَیْرٍ وَ کَانَ مِنْ خَطِیْئَتِہٖ کَیَوْمِ وَ لَدَتْہُ اُمُّہُ وَقَالَ یَا مُحَمَّدُ اِذَا صَلَّیْتَ فَقُلْ اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْن فَاِذَا اَرَدْتَ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃَ فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ قَالَ وَالدَّرَجَاتُ اِفْشَاءُ السَّلَامِ وَ اِطْعَامُ الطَّعَامِ وَالصَّلاَۃُ بِاللَّیْلِ وَ النَّاسُ نِیَامٌ وَلَفْظُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ کَمَا فِی الْمَصَابِیْحِ لَمْ اَجِدْہُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ اِلَّا فِی شَرْحِ السُّنَّۃِ۔-
" اور حضرت عبدالرحمن بن عائش رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو (خواب میں) بہت ہی اچھی صورت میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ مقربین فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کی پروردگار ! تو ہی بہتر جانتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا جس کے ٹھنڈک مجھے اپنے سینہ پر محسوس ہوئی (اور اس کی وجہ سے) میں زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو جان گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَكَذٰلِكَ نُرِيْ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ) 6۔ الانعام : 75) ترجمہ اور اس طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمانوں کا تصرف دکھایا تاکہ وہ یقین کرنے والے لوگوں میں شامل ہو جائے۔ (دارمی مرسلا) اور ترمذی نے یہ بھی روایت بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ عبدالرحمن بن عائش، عبداللہ ابن عباس اور معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے نقل کی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یعنی آپ کو زمین و آسمانوں کا علم دینے کے بعد سوال فرمایا، کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کو معلوم ہے کہ مقریبن فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں؟ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا، ہاں ! میں جانتا ہوں کفارات (یعنی گناہوں کو ختم کرنے والی چیزوں ) کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں اور وہ کفارات (یہ) ہیں کہ نمازوں کے بعد مسجدوں میں (دوسرے وقت کی نماز کے انتظار میں یا ذکر و تسبیح کے لیے) بیٹھا جائے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے پیدل چلا جائے اور سختی کے وقت (مثلاً بیماری یا سردی میں اعضائے وضو پر) وضو کا پانی اچھی طرح پہنچا یا جائے (لہٰذا) جس نے یہ کیا (یعنی مذکورہ اعمال کئے) وہ بھلائی پر زندہ رہے گا اور بھلائی ہی پر مرے گا اور گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گا گویا اس کی ماں نے آج ہی اس کو جنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے محمد ! جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نماز سے فارغ ہو لیں تو یہ دعا پڑھ لیا کیجئے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِی اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرَکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ فَاِذَا اَرْدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے اور برائیوں کے چھوڑنے اور مسکینوں کی دوستی کا سوال کرتا ہوں اور جب تو بندوں میں گمراہی ڈالنے ( یا انہیں سزا دینے) کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھا لیجئے۔ اور اللہ تعالیٰ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں زیادتی کے لیے) فرماتا ہے (یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں) کہ درجات (یعنی وہ اعمال جن سے بندے کے درجات بارگاہ حق میں بلند ہوتے ہیں) یہ ہیں کہ (ہر مسلمان کو خواہ وہ آشنا ہو یا نا آشنا) سلام کیا جائے۔ (اللہ کی راہ میں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ سو رہے ہوں نماز پڑھی جائے۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں) کہ میں نے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ جیسا کہ مصابیح میں عبدالرحمن سے منقول ہے سوائے شرح السنۃ کے اور کسی کتاب میں نہیں دیکھی۔" تشریح اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ تو اس میں کچھ اشکال نہیں ہے کیونکہ انسان خواب میں بسا اوقات شکل دار چیز کو بغیر شکل دیکھتا ہے اور کبھی غیر شکل دار کو شکل دار صورت میں دیکھتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم بیداری میں دیکھا تھا تو پھر اس کی تاویل کرنا ضروری ہوگی۔ اور تاویل یہ ہوگی کہ صورت سے مراد صفت ہے کہ حق تعالیٰ جل مجدہ نے صفت جمال اور لطف و کرم کے ساتھ تجلی فرمائی۔ یہ تاویل حقیقت و محاورہ سے بالکل قریب ہے کیونکہ اکثر و بیشتر صورت کا اطلاق صفت پر ہوتا ہے جیسا کہ روز مرہ کی بول چال میں کسی چیز کی حقیقت و کیفیت کے بیان کے وقت کہا جاتا ہے کہ " صورت حال یہ ہے" یا اس مسئلے کی صورت یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی بہتر ہے کہ " صورت " کے معنی کا محمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہی کو قرار دیا جائے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نے اپنے " رب کو دیکھا اور اس وقت میں اچھی صورت میں تھا۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ مقربین فرشتے کون سے اعمال کی فضیلت و عظمت کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ یا یہ کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کو مقام قبولیت تک پہنچانے میں فرشتے آپس میں تنازعہ کر رہے ہیں۔ بایں طور کہ ایک فرشتہ تو کہتا ہے کہ اس عمل کو مقام قبولیت تک پہلے میں پہنچاؤں اور دوسرا کہتا ہے کہ پہلے میں لے کر جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا ہاتھ رکھنا حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان رکھا تھا کیونکہ ذات خداوندی ظاہری اجسام کی ثقالت سے پاک و صاف ہے بلکہ دراصل یہ اس چیز سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فضل و کرم اور جزاء و انعام کی زیادتی و کثرت کے ساتھ خاص کیا جیسا کہ دنیاوی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ یا امیر اپنے کسی خاص خادم پر بہت زیادہ مہربان ہوتا ہے اور اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو وہ اس خادم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہے اس کی گردن میں باہیں ڈال دیتا ہے ۔ یہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اس خادم سے بہت زیادہ خوش ہے اور اس پر انعام و اکرام کی بارش کرنے والا ہے۔ " سینے میں سردی محسوس ہونا فیض ربانی کا اثر پہنچے سے کنایہ ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب فیض ربانی سینہ میں پہنچا تو زمین و آسمان کے تمام پر دے اٹھ گئے اور تمام چیزوں کا علم مجھے حاصل ہو گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ و حال کی مناسبت اور اس کے امکان پر گواہی دینے کے ارادہ سے مذکورہ آیت پڑھی جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جس طرح ہم نے آپ کے سامنے زمین وآسمانوں کے پردے اٹھا دیے جس کے نتیجے میں آپ کو تمام چیزوں کا علم حاصل ہوگیا ہے اسی طرح ہم نے اپنے جلیل القدر پیغمبر وخلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی دوعالم ربوبیت والوہیت کی حقیقتوں کو واشفگاف کردیا تھا اور انہیں زمین وآسمانوں کی تمام چیزوں کا مشاہدہ کرا دیا تھا تاکہ وہ خدا کی ربوبیت و الوہیت پریقین کامل کرنے والوں میں سے ہوجائیں اس طرح آیت کے آخری الفاظ ولیکون من الموقنین کا معطوف علیہ محذوف ہوگا اور پوری عبارت یوں ہوگی کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو عالم ربوبیت و الوہیت دکھلادیے تھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ ہماری ذات کے وجود کے بارہ میں دلیل پکڑ سکے اور یقین کرنے والوں سے ہوجائے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ غرور و تکبر کی بری عادتوں سے یکسر ہٹ کر اپنے اندر تواضع و انکساری جود و بخشش اور عبادت و ریاضت کے جذبات و اوصاف پیدا کرے اور ان عرفانی اصولوں کی روشنی سے پہلے دل و دماغ کو منور کرکے نہ صرف یہ کہ خدا کا حقیقی بندہ بن جائے بلکہ پوری انسانیت کے لیے باعث رحمت و راحت ہوجائے۔ شرف مردے جو دست و کرامت بسجود ہرکہ ایں ہر دو ندارد عدمش بہ ز وجود
-
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ کُلُّهُمْ ضَامِنٌ عَلَی اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَی اللَّهِ حَتَّی يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ وَرَجُلٌ رَاحَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَی اللَّهِ حَتَّی يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسَلَامٍ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَی اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
’’ اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ دنیا وآخرت کی آفات و مصیبتوں سے محفوظ رکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو خدا کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے چنانچہ وہ خدا کی ذمہ داریوں میں ہے کہ یا تو اسے موت یعنی شہادت کا درجہ دے کر جنت میں پہنچادے یا اس کوثواب و مال غنیمت دے کر گھر واپس پہنچادے پہلی اور دوسری صورت یعنی شہادت و ثواب میں تو اسے دین کی سعادت حاصل ہوتی ہے اور تیسری یعنی مال غنیمت میں دنیا کی سعادت و بھلائی ملتی ہے اور وہ دوسرا شخص ہے جو مسجد جائے تو اللہ اس کا بھی ضامن ہے کہ عبادت کے لیے اس کی کوشش اور اس کا ثواب ضائع نہ کرے گا۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو اپنے گھر میں سلام کرتا ہوا داخل ہو تو وہ بھی اللہ کی ذمہ داری میں ہے۔ (ابوداؤد)۔ تشریح اللہ تعالیٰ پر پہلے شخص کے لیے جو ذمہ ہے اسے توبیان کر دیا گیا کہ اسے دین ودنیا دونوں جگہ کیا کیا انعامات ملیں گے لیکن دوسرے اور تیسرے شخص کے لیے جو ذمہ ہے اللہ تعالیٰ پر ہے چونکہ وہ ظاہر تھا اس لیے اس کو بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی گھر میں سلام کرتا ہوا داخل ہو اس کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ گھر میں داخل ہو سلام کرتا ہوا چنانچہ اس صورت میں اس کے لیے اللہ پر ذمہ ہے کہ اس کو اور اس کے گھر والوں کو خیر و برکت سے نوازے گا اور ان پر اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے دروازے کھول دے گا دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب گھر میں داخل ہوجائے تو لوگوں کی صحبت سے امن وسلامتی حاصل کرنے کے لیے گھر ہی میں رہنا اپنے اوپر لازم کرلے اور گھر سے باہر نہ نکلے چنانچہ اس صورت میں اس کے لیے اللہ پر یہ ذمہ ہے کہ وہ اسے مصائب و آفات سے محفوظ و سلامت رکھے گا۔
-
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَی صَلَاةٍ مَکْتُوبَةٍ فَأَجْرُهُ کَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ وَمَنْ خَرَجَ إِلَی تَسْبِيحِ الضُّحَی لَا يَنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ فَأَجْرُهُ کَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ وَصَلَاةٌ عَلَی أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا کِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ-
اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کرکے گھر سے نکلے گا اور فرض نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جائے تو اس کو اتناثواب ملے گا جتنا احرام باندھ کر حج کرنے والے کو ملتا ہے اور جو شخص چاشت کی نفل نماز ہی کے لیے تکلیف اٹھا کر گھر سے نکلے یعنی بغیر کسی غرض اور ریا کے محض چاشت کی نماز پڑھنے کے قصہ سے گھر سے نکلے۔ تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کے برابر ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنا اور ان دونوں نمازوں کے درمیانی وقت لغو بیہودہ باتیں نہ کرنا ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھاجاتا ہے۔ (احمد، ابودادؤد)۔ تشریح۔ اس حدیث میں وضو کو احرام سے اور نماز کو حج سے مشابہت دی گئی ہے اور وہ دونوں میں تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح حاجی حج کے ارادہ سے گھر سے نکلتا ہے اور احرام باندھتا ہے تواسی وقت سے اسے ثواب ملنا شروع ہوجاتا ہے اور اس کے ثواب کا سلسلہ اس کے واپس آجانے تک جاری رہتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص محض نماز کے ارادہ سے نکلتا ہے تو وہ جس وقت گھر سے نکلتا ہے اسے بھی اسی وقت سے ثواب ملنا شروع ہوجاتا ہے اور جب تک وہ نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر گھر واپس نہیں آجاتا اس کو ثواب برابر ملتارہتا ہے لیکن اتنی بات بھی سمجھ لیجیے کہ نمازی اور حاجی کے ثواب میں یہ برابری بہمہ وجوہ نہیں ہے ورنہ تو حج کرنے کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ثواب دونوں بالکل برابر ہیں کیونکہ حاجی کا ثواب نمازی کے ثواب سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حج کی نسبت عمرہ کو وہی حثییت حاصل ہے جو فرض نماز کی بہ نسبت نفل نماز کو حاصل ہے کتاب فی علیین سے حدیث کے آخری جزو کا مطلب کنایتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص نماز کی مداومت و محافظت کرے یعنی تمام نمازوں کو پابندی سے ادا کرتا رہے اور نماز کو اس کی تمام شرائط وآداب کا لحاظ کرتے ہوئے اس طرح پڑھتا رہے کہ اس کے اس عمل اور نیت میں نماز کے منافی کسی چیز کا دخل نہ ہو تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے اعلی اور بہتر کوئی عمل نہیں ہے۔ جو فرشتے نیکیاں لکھنے پر مامور ہیں انکے دفتر کا نام علیین ہے کہ تمام نیک اعمال وہیں جمع ہوتے ہیں۔
-
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ قَالَ الْمَسَاجِدُ قُلْتُ وَمَا الرَّتْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ-
’’ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں میں جایا کرو تو وہاں میوہ کھایا کرو آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں جنت کے باغ کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا مسجدیں۔ پھر پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ میوہ کھانا کیا ہے آپ نے فرمایا سبحان اللہ والحمدللہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر۔ مسجدوں میں ان کلمات کا ورد میوہ کھاناہے۔ (ترمذی) تشریح۔ مساجد کو جنت کے باغ اس لیے کہا گیا ہے کہ ان میں عبادت کرنا اور نماز پڑھنا جنت کے باغوں کے حاصل ہونے کا سبب ہے۔ رتع دراصل اسے کہتے ہیں کہ باغ میں جا کر اچھی طرح میوے اور لذیذ چیزیں کھائی جائیں اور نہر وغیرہ کی سیر کی جائے جیسا کہ باغوں میں جانے والے لوگ یہ کیا کرتے ہیں پھر یہ لفظ ثواب عظیم کے مرتبہ پر پہنچنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ بہرحال اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب تم مسجدوں میں جاؤ تو مذکورہ تسبیحات پڑھا کرو کیونکہ اس سے بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے۔
-
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَتَی الْمَسْجِدَ لِشَيْئٍ فَهُوَ حَظُّهُ-
’’ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روای ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دنیا یا دین کے جس کام کے لیے مسجد میں آئے گا اسے اسی میں سے حصہ ملے گا۔" (ابودؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں جس غرض سے آئے گا وہی اس کا نصیب ہوگا۔ یعنی اگر عبادت کے لیے آئے گا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر کسی دینوی زندگی کی غرض سے آئے گا تو گرفتار وبال ہوگا۔ گویا یہ حدیث مضمون کے اعتبار سے نیت کی مشہور حدیث انما الا عمال بالنیات کا ایک جزو ہے۔
-
وَعَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْحُسَیْنِ عَنْ جَدَّتِھَا فَاطِمَۃِ الْکُبْرٰی قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ صَلَّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْلِی ذُنُوْبِی وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَاِذَا خَرَجَ صَلَی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمْ وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْلِی ذُنُوْبِی وَافْتَحْ لِی اَبْوَابَ فَضْلِکَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَاَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَۃَ وَفِیْ رِوَایَتِھِمَا قَالَتْ اِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَکَذَاِذَا خَرَجَ قَالَ بِسْمِ اﷲِ وَالسَّلَامُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ بَدَلَ صَلَی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَیْسَ اِسْنَادُہ، بِمُتَّصِلٍ وَ فَاطِمَۃُ بِنْتِ الْحُسَیْنِ لَمْ تُدْرِکْ فَاطِمَۃُ الْکُبْرٰی۔-
" اور حضرت فاطمہ بنت حسین ابن علی المرتضیٰ اپنی دادی فاطمہ کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (زہرا) سے روایت کرتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں تشریف لاتے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے، یعنی یہ الفاظ فرماتے صلی اللہ علی محمد یا فرماتے اَللَّھُمَّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ اور پھر یہ دعا پڑھتے رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ یعنی اے میرے پروردگار، میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے باہر آتے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیج کر یہ دعا پڑھتے۔ رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ یعنی اے میرے پروردگا! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ یہ روایت ترمذی ، احمد ، ابن ماجہ نے نقل کی ہے اور احمد بن حنبل و ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے اور اسی طرح جب باہر نکلتے تو صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ کے بجائے یہ الفاظ فرماتے بسم اللہ والسلام علی رسول اللہ یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں اور نکلتا ہوں اور سلامتی ہو رسول پر۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر فاطمہ رحمہا اللہ تعالیٰ علیہا نے حضرت فاطمہ کبری بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا اور ان سے نہیں ملی ۔" تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود و سلام وغیرہ کے الفاظ اس طرح نہیں فرمائے کہ اللَّھُمَّ صِلِّ عَلٰی یَا اَغْفِرْلَمُحَمَّدٍ کیونکہ درود و سلام کے ساتھ اسم شریف کو مناسبت ہے اسی طرح رَبِّ اغْفِرْلِیْ ارشاد فرمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے یا پھر کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ امت کی تعلیم کے لیے فرمائے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ درود و سلام کن الفاظ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔ فاطمہ صغری جو اس حدیث کی راوی اور حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں انہوں نے اپنی دادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا کیونکہ انکے وقت میں حضرت امام حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی لہٰذا اس حدیث کی سند متصل نہیں ہوئی کیونکہ درمیان کا ایک راوی متروک ہے۔
-
وَعَنْ عَمْرِوبْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ نَھی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ تَنَا شُدِ الْاَشْعَارِ فِی الْمَسْجِدِ وَعَنِ الْبَیْعِ وَالْاِشْتِرَا ءِ فِیْہِ وَ اَنْ یَتَخَلَّقَ النَّاسُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ قَبْلَ الصَّلَاۃِ فِی الْمَسْجِدِ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی)-
" اور حضرت عمرو ابن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اشعار پڑھنے، خرید و فروخت کرنے اور جمعہ کے روز نماز سے پہلے لوگوں کو حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے (خواہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا مذاکرہ علم اور ذکر و تسبیح کے لیے کیوں نہ ہو) منع فرمایا ہے۔" (ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح اشعار سے مراد ایسے اشعار ہیں جن میں جھوٹ اور لغو باتیں ذکر کی گئی ہوں کیونکہ مسجد اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہے وہاں خلاف شرع اور جھوٹ و لغو باتوں کو بیان کرنا ناجائز ہے البتہ ایسے اشعار جن میں اللہ کی تو حید و مناجات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص متبعین اور فرمانبردار امتیوں کی تعریف و توصیف، دین و مذہب اور اخلاق و کردار کو بخشنے والی باتوں کا ذکر ہو تو ان کا پڑھنا ہر جگہ جائز اور مستحسن ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر اسلام حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جو اپنے اشعار کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور کفار کی ہجو بیان کیا کرتے تھے مسجد نبوی میں منبر بچھواتے تھے اور حضرت حسان اس منبر پر کھڑے ہو کر اس قسم کے پاکیزہ اشعار پڑھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اشعار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی جانب سے کفار سے مقابلہ کرتے ہیں۔ مسجد میں جس طرح خریدوفروخت ممنوع ہے اسی طرح وہاں دنیا کے دوسرے معاملات طے کرنا منع ہیں۔ جمعہ کے روز نماز پڑھنے سے پہلے مسجد میں حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو منع فرمایا ہے علماء اس کی مختلف وجوہ بیان کرتے ہیں چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا نمازیوں کی ہیت اجتماعی کے خلاف ہے نیز یہ کہ جمعہ کے روز نماز جمعہ کے لیے مسجد میں جمع ہونا خود ایک مستقل اور عظیم الشان کام ہے جب تک اس کام یعنی نماز جمعہ سے فارغ نہ ہو لیں، دوسرے کام میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے۔ نیز یہ کہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا غفلت کا سبب ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں اس نہی کا تعلق خاص طور پر خطبے کے وقت سے نہیں ہوگا۔ تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ وقت خاموش اور چپ رہنے کا ہے اور نہایت توجہ کے ساتھ امام کا خطبہ سننے کا ہے، اور چونکہ حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے امام کے خطبے کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے لہٰذا یہ درست نہیں ہے ۔ اس صورت میں اس ممانعت کا تعلق صرف خطبہ کے وقت سے ہوگا۔ لہٰذا پہلی اور دوسری توجیہ کی صورت میں یہ نہی تنزیہی ہوگی اور تیسری توجیہ کی صورت میں نہی تحریمی ہوگی۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا ارَائَیْتُمْ مَنْ یَبِیْعُ اَوْ یَبْتَاعُ فِی الْمَسْجِدِ فَقُوْلُوْ اِلَا اَرْبَحَ اﷲُ تِجَارَتَکَ وَ اِذَارَاَیْتُمْ مَنْ یَنْشُدُ فِیْہٖ ضَالَّۃَ فَقُوْلُوْا لَا رَدَّھَا اﷲُ عَلَیْکَ۔ (رواہ الترمذی و الدارمی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم مسجد میں کسی آدمی کو خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ کرے تیری سوداگری میں نفع نہ ہو اور جب تم (مسجد میں) کسی آدمی کو بلند آواز سے گمشدہ چیز ڈھونڈھتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ " اللہ کرے تیری چیز نہ ملے" ۔ (جامع ترمذی ، دارمی)
-
وَعَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ نَھَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ یُسْتَقَادَ فِی الْمَسْجِدِ وَ اَنْ یُنْشَدَ فِیْہٖ الْاَشَعَارُوَاَنْ تُقَامَ فِیْہِ الْحُدُوْدُ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ فِی سُننِہٖ وِصَاحِبُ جَامِعِ الْاُصُوْلِ فِیْہِ عَنْ حَکِیْمٍ وَفِی الْمَصَابِیْحِ عَنْ جَابِرٍ۔-
" اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قصاص لینے (یعنی قاتل کا خون بہانے) اور اشعار پڑھنے اور (زنا کرنے، شراب پینے وغیرہ کی) حدو دقائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔" (سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب) جامع الاصول میں حکیم سے (یعنی بغیر لفظ ابن حزام ) روایت کیا ہے۔ نیز یہ روایت مصابیح میں جابر سے منقول ہے (اور یہ اصول میں موجود نہیں ہے)۔"
-
وَعَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَھَی عَنْ ھَاتَیْنِ الشَّجَرَتَیْنِ یَعْنِی اَلْبَصَلَ وَالثَّوْمَ وَقَالَ مَنْ اَکَلَھُمَا فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا وَقَالَ اِنْ کُنْتُمْ لَا بُدَّاٰکَلِیْھِمَا فَاَمِیْتُوْھُمَا طَبْخًا۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت معاویہ ابن قرۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے دو درختوں یعنی پیاز، لہسن کے کھانے) سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ جو آدمی ان کو کھائے وہ ہماری ( مسلمانوں کی) مسجدوں کے قریب نہ آئے نیز فرمایا کہ اگر تم انہیں کھانا ضروری ہی سمجھو تو انہیں پکا کر ان کی بدبو دور کر دو (اور کھالو)۔ " (ابوداؤد) تشریح جملہ مَنْ اَکَلَھُمَا پہلے جملے کا بیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ جو آدمی ان کو کھائے۔ وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے۔ پیاز و لہسن کھا کر مسجد میں داخلے کی ممانت کو مبالغے کے طور پر بیان کرنا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان بد بو دار چیزوں کو کھائے اسے چاہئے کہ وہ مسجد کی عظمت و احترام کے پیش نظر مسجد کے نزدیک بھی نہ آئے چہ جائیکہ مسجد میں داخل ہو۔ یا پھر قریب نہ آئے، کنایہ ہے مسجد میں داخل نہ ہونے سے کہ جو آدمی پیاز و لہسن کھائے ہوئے ہو وہ مسجد میں داخل نہ ہو۔
-
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْاَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِدٌ اِلَّا الْمَقْبُرَۃَ وَالْحَمَّامَ۔(رواہ ابوداؤدوالترمذی والدارمی)-
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مقبرہ اور حمام کے علاوہ ساری زمین مسجد ہے، کہ (ہر جگہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔" (جامع ترمذی ، دارمی)
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَھٰی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یُصَلَّی فِی سَبْعَۃِ مَوَاطِنَ فِی الْمَزْبَلَۃِ وَالْمَجْزَرَۃِ وَالْمَقْبَرَۃِ وَقَارِعَۃِ الطَّرِیْقِ وَفِی الْحَمَّامِ وَفِی مَعَاطِنِ الْاِبِلِ وَفَوْقَ ظَھْرِبَیْتِ اﷲِ ۔(رواہ الجامع ترمذی و ابن ماجہ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔ (١) جہاں ناپاک چیزیں ڈالی جاتی ہوں۔ (یعنی کوڑی)۔ (٢) جہاں جانور ذبح کئے جاتے ہوںَ(٣) راستے کے درمیان۔ (٤) مقبرے میں۔ (٥) حمام کے اندر۔ (٦) اونٹوں کے بندھنے کی جگہ پر۔ (٧) اور خانہ کعبہ ( کعبۃ اللہ کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے البتہ ضرورت کے لیے چھت پر چڑھنا جائز ہے١٣۔ ) کی چھت پر۔" (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح بعض علماء سلف تو حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے یہی فرماتے ہیں کہ مقبرے کے اندر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور بعض علماء کے نزدیک مقبرہ میں نماز پڑھنا جائز ہے لیکن قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا متفقہ طور پر علماء کے نزدیک حرام ہے مزبلہ اور مجزرہ (یعنی کوڑی اور مذبح) میں نماز پڑھنا اس لیے مکروہ ہے کہ ان دونوں جگہوں میں نجاست و گندنگی پھیلی رہتی ہے۔ چنانچہ ان مقامات میں اگر کسی ایسی جگہ نماز پڑھی جائے جو صاف ہو مگر اس کے قریب ہی نجاست بھی پڑی ہو یا نجاست ہی پر مصلی بچھا کر نماز پڑھی جائے۔ یہ مکروہ ہے اس سے دین کی حقارت و بے وقعتی ظاہر ہوتی ہے اور نماز کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے بالکل پاک و صاف جگہ ادا کیا جائے نہ کہ ایسی جگہ جہاں گندگی و نجاست پھیلی ہوئی ہو۔ راستہ کے درمیان نماز پڑھنا اس لئے ممنوع ہے کہ وہاں لوگوں کے آنے جانے کی وجہ سے دھیان بٹتا ہے اور یکسوئی حاصل نہیں ہوتی نیز اس سے لوگوں کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ عام گزر گاہ ہونے کی وجہ سے اگر لوگ مجبوری کی بناء پر نمازی کے آگے سے گزریں گے تو ان کے گزرنے سے نمازی گناہگار ہوگا اور اگر لوگ بے ضرورت ہی گزریں گے۔ تو وہ گناہگار ہوں گے۔ حمام میں نماز پڑھنا اس لیے مکروہ ہے کہ وہ ستر کھلنے اور شیطان کے رہنے کی جگہ ہے کعبہ کی چھت پر بھی نماز پڑھنا اس لیے مکروہ ہے کہ اس سے کعبۃ اللہ کے بے ادبی ہوتی ہے ۔ اب علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ ان ساتوں جگہوں پر نماز پڑھنے کو مکروہ کہا گیا ہے تو آیا یہ مکروہ تنزیہی ہے یا مکروہ تحریمی ؟ چنانچہ بعض علماء کے نزدیک تو ان ساتوں جگہ نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہیں۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلُّوْفِی مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَلَا تُصَلُّوْا فِی اَعْطَانِ الْاِبِلِ۔(رواہ الترمذی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بکریوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھو، البتہ انٹوں کے بندھنے کی جگہ مت پڑھو۔" (جامع ترمذی) تشریح اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے کہ اونٹوں کے پاس نماز پڑھنے میں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ کھل کر نمازی کو لات وغیرہ نہ مار دیں اس سے نہ صرف یہ کہ نمازی کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہے بلکہ اس طرح نماز دلجمعی اور سکون خاطر سے ادا نہیں ہو سکتی البتہ بکریوں سے چونکہ اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس لیے ان کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْھَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرْجَ۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی والنسائی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔" (ابوداؤد ، جامع ترمذی، سنن نسائی ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی تھی، چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں تھی لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر اب اس عام اجازت کے پیش نظر درست و جائز ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں کے حق میں وہ نہی اب بھی باقی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چونکہ کمزور دل اور غیر صابر ہوتی نیز ان کے اندر جزع و فزغ کی عادت ہوتی ہے اسلیے ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لیے جائز ہے۔ قبر پر چراغ جلانا اس لیے حرام ہے کہ اس سے بے جا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر قبر کے پاس کوئی گزر گاہ ہو تو راہ گیروں کی آسانی کے لیے چراغ جلانا یا وہاں روشنی میں کوئی کام کرنے کے لیے چراغ جلانا جائز ہے کیونکہ اس سے قبر پر چراغ جلانا مقصود نہیں ہوگا بلکہ دوسری ضرورت و حاجت پیش نظر ہوگی۔ مولانا محمد اسحق محدث دہلوی کی تحقیق یہ ہے کہ صحیح اور معتمد قول کے مطابق عورتوں کو قبر کی زیارت کرنا مکروہ تحریمی ہے چنانچہ مستملی میں لکھا ہوا ہے کہ قبروں کی زیارت مردوں کے لیے مستحب ہے اور عورتوں کے لیے مکروہ ہے۔ کتاب مجالس و اعظیہ میں مذکور ہے کہ عورتوں کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ انہ علیہ الصلوۃ والسلام لعن ذوارات القبور یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ نصاب الاحتساب میں منقول ہے کہ عورتوں کے قبروں پر جانے کے جواز اور اس کی خرابی وقباحت کے بارے میں قاضی سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا جواز اور اس کا فساد نہ پوچھو بلکہ یہ پوچھو کہ اس پر جو لعنت و پھٹکار برستی ہے اس کی مقدار کیا ہے؟چنانچہ جان لو! کہ جب عورت قبر پر جانے کا ارادہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی لعنت میں گرفتار ہو جاتی ہے اور جب وہ قبر پر جانے لگتی ہے تو اس کو ہر طرف سے شیاطین چمٹ جاتے ہیں اور جب قبر پر پہنچ جاتی ہے تو مردے کی روح اس پر لعنت بھیجتی ہے اور جب قبر سے واپس ہوتی ہے۔تو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں گرفتار ہوتی ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ جو عورت مقبرے پر جاتی ہے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت میں مقبرہ کا راستہ طے کرتی ہے اور جو عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر میت کے لیے دعائے خیر کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو حج اور عمرہ کا ثواب دیتا ہے۔ حضرت سلمان اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل کر اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے تھے کہ (باہر سے ) حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آر ہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں عورت کا انتقال ہو گیا ہے اس کے مکان پر گئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم اس کی قبر پر بھی گئی تھیں؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا معاذ اللہ ! کیا میں اس عمل کو کر سکتی ہوں جس (کی ممانعت) کے بارہ میں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے میں سن چکی ہوں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تم نے یہ اچھا ہی کیا کہ اس کی قبر پر نہ گئیں کیونکہ اگر تم اس کی قبر پر چلی جاتیں تو تمہیں جنت کی بو (بھی ) میسر نہ ہوتی۔ حضرت قاضی ثناہ اللہ پانی پنی نے اپنی کتاب مالا بد منہ میں لکھا ہے کہ " زیارت قبور مرداں را جائز است نہ زناں را " یعنی قبروں کی زیارت مردوں کے لیے تو جائز ہے عورتوں کے لیے نہیں۔
-