TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
قیامت کی علامتوں کا بیان
قیامت کی ایک خاص علامت
وعن جابر بن سمرة قال سمعت رسول النبي صلى الله عليه وسلم يقول إن بين يدي الساعة كذابين فاحذروهم . رواه مسلم .-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ۔ " قیامت کے آنے سے پہلے جھوٹوں کی پیدائش بڑھ جائے گی ' لہٰذا ان سے بچتے رہنا ۔ " (مسلم ) تشریح " جھوٹوں " سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو جھوٹی حدیثیں گھڑیں گے، یا وہ لوگ مراد ہیں جو نبوت کا جھوٹا دعوی کریں گے اور زیادہ تر وہ لوگ مراد ہیں جو بدعتیں رائج کریں گے، اپنے غلط سلط عقائد وخیالات اور اپنی جھوٹی اغراض وخواہشات کو صحیح اور جائز ثابت کرنے کے لئے ان کی نسبت صحابہ کرام اور اگلے بزرگوں کی طرف کریں گے ۔ ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرح مشارق میں لکھا ہے فاحذروہم کا جملہ صحیح مسلم میں مذکور نہیں ہے البتہ اس کے علاوہ دوسری روایتوں میں یہ جملہ یقینًا موجود ہے، بلکہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہ جملہ اصل حدیث یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا جزء نہیں ہے بلکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا قول ہے ! نیز جامع میں یہ روایت بعینہ اس طرح منقول ہے جس طرح یہاں مشکوۃ میں نقل کی گئی ہے اور صاحب جامع نے کہا ہے کہ اس روایت کو امام محمد اور امام مسلم نے حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے ۔
-
وعن أبي هريرة قال بينما كان النبي صلى الله عليه وسلم يحدث إذ جاء أعرابي فقال متى الساعة ؟ قال إذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة . قال كيف إضاعتها ؟ قال إذا وسد الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة . رواه البخاري .-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے سے (کسی سلسلہ میں ) باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی (مجلس نبوی میں ) آیا اور کہنے لگا کہ قیامت کب آئے گی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت، تلف کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرنے لگنا ۔" دیہاتی نے پوچھا کہ امانت ، کیونکر تلف کی جائے گی اور یہ نوبت کب آئے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " جب حکومت وسلطنت کا کام نااہل لوگوں کے سپرد ہو جائے تو ( سمجھنا کہ یہ امانت کا تلف ہو جانا ہے اور اس وقت ) قیامت کا انتظار کرنا ۔ " (بخاری) تشریح امانت سے مراد شریعت کی طرف سے عائد کی جانے والی ذمہ داریاں اور دین کے احکام ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے ارشاد انا عرضنا الامانۃ میں امانت کا یہی مفہوم ہے یا " امانت " سے لوگوں کے حقوق اور ان کی امانتیں مراد ہیں ۔ حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کے پوچھنے پر یہ واضح فرمایا کہ قیامت کا متعین وقت عالم الغیوب کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو وہ ذریعہ بتایا ہے جس سے قیامت کا متعینہ وقت جانا جا سکے، ہاں اس نے ایسی علامتیں ضرور مقرر کی ہیں جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی اور جو اس امر کی نشانیاں ہوں گی کہ اب قیامت قریب ہے چنانچہ ان علامتوں میں سے ایک علامت امانتوں کا ضائع کرنا ہے کہ لوگ امانتوں میں خیانت کرنے لگیں گے ۔ " نا اہل " سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اندر حکومت وسیادت کی شرائط نہ رکھنے کی وجہ سے حکمراں بننے کا استحقاق نہ رکھتے ہوں گے ، جیسے عورتیں ، بچے جہلاء، فاسق وبد کار ، بخیل اور نا مرد وغیرہ ، اسی طرح جو شخص قریش النسل نہ ہو وہ بھی اس باب میں " نا اہل " ہی کے زمرہ میں شمار ہوگا خواہ وہ سلاطین کی نسل سے کیوں نہ ہو لیکن اس شرط کا تعلق خاص طور پر خلافت سے ہے !حدیث کے اس جزء کا حاصل یہ ہے کہ اگر دین ودنیا کے امور کا نظم وانتظام ایسے شخص کے ہاتھوں میں آجائے جو اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو یقینا ان امور کا صحیح طور پر انجام پانا نا ممکن نہیں ہوگا اور طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہو جائیں گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے حقوق ضائع وپامال ہونے لگیں گے اور ہر شخص بے چین ومضطرب رہے گا ۔ " وسد " بصیغہ مجہول اور سین کی تشدید کے ساتھ یا تشدید کے بغیر ۔ اصل میں " وسادۃ " سے مشتق ہے ، جس کے لغوی معنی تکیہ کے ہیں ، چنانچہ جس شخص کے سپرد کوئی کام کیا جاتا ہے تو گویا اس کام کے اعتبار سے اس شخص پر تکیہ کیا جاتا ہے ۔
-