عشاء و فجر کے درمیان گیارہ رکعت

عَنْ عَآئِشَۃَرضی اللہ عنہا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ فِےْمَا بَےْنَ اَنْ ےَّفْرُغَ مِنْ صَلٰوۃِ الْعِشَآءِ اِلَی الْفَجْرِ اِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ےُّسَلِّمُ مِنْ کُلِّ رَکْعَتَےْنِ وَےُؤْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ فَےَسْجُدُ السَّجْدَۃَ مِنْ ذَالِکَ قَدْرَ مَا ےَقْرَاُ اَحَدُکُمْ خَمْسِےْنَ اٰےَۃً قَبْلَ اَنْ ےَّرْفَعَ رَاْسَہُ فَاِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَتَبَےَّنَ لَہُ الْفَجْرُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَےْنِ خَفِےْفَتَےْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَےْمَنِ حَتّٰی ےَأْتِےَہُ الْمُؤَذِّنُ لِلْاِقَامَۃِ فَےَخْرُجُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فارغ ہو کر نماز فجر تک (اکثر) گیارہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور (پھر آخر میں) ایک رکعت کے ساتھ وتر کر لیا کرتے تھے اور اس رکعت میں اتنا طویل سجدہ کرتے جتنی دیر میں کوئی آدمی اپنا سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور فجر طلوع ہو جاتی یعنی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں ہلکی ( یعنی فجر کی سنتیں) پڑھتے اور (اس کے بعد تھوڑی دیر کے لیے) اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ موذن تکبیر کے لیے (یعنی تکبیر کہنے کی اجازت حاصل کر نے کے لیے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے (مسجد) تشریف لے جاتے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ "ویوتر بواحدۃ" کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے لیے ایک رکعت علیحدہ پڑھتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتیں اس طرح پڑھا کرتے تھے کہ آخری دونوں رکعتوں یعنی نویں اور دسویں کے ساتھ ایک رکعت بڑھا کر تینوں کو وتر بنا دیا کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، اوّل یہ کہ وتر کی کم سے کم ایک رکعت ہے یعنی وتر کی ایک رکعت علیحدہ سے پڑھی جا سکتی ہے ، دوم یہ کہ تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت پر سلام پھیر دینا چاہیے، چنانچہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے۔ فیسجد السجدۃ الخ سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت کا سجدہ بقدر مذکورہ طویل کرتے تھے لیکن اس کا مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف وتر کے سجدوں میں سے ایک سجدہ یا وتر کے سب سجدے بقدر مذکور طویل کرتے تھے۔ بعض مقامات پر کچھ لوگ وتر کے بعد کیفیت معروفہ کے ساتھ دو سجدے کرتے ہیں اور بعض ضعیف فقہی روایات میں ان کی فضیلت بھی مذکور ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ احادیث میں ان دونوں سجدوں کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ فقہ کی وہ روایت جو معتمد و مختار ہیں ان میں ان کا کوئی ذکر ہے ۔ نیز حرمین شر یفین بلکہ پورے عرب میں کہیں بھی یہ سجدے نہیں کئے جاتے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی منقول ہے جس میں ان سجدوں کو " اختراع محض" کا درجہ دیا گیا ہے پھر یہ کہ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی امام اس کے نہ مسنون ہونے کا قائل ہے اور نہ ہی مستحب ہونے کا بلکہ بلادعرب کے اکثر حنیفہ تو اسے جانتے بھی نہیں اور بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، بہر حال اگر کسی جگہ یہ طریقہ رائج ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ "رکعتیں خفیفتین" یعنی فجر کی سنتیں ہلکی پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنت کی دونوں رکعتوں میں قل یا ایھا الکا فرون اور قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے اور یہی مستحب ہے مگر لازم نہیں ہے۔ فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے لیٹ جاتے تھے تاکہ تمام رات عبادت خداوندی اور نماز میں مشغول رہنے کی وجہ سے جو تکان وغیرہ پیدا ہو جاتا تھا وہ تھوڑی دیر آرام کر لینے سے ختم ہو جائے اور فرض پوری چستی اور بشاشت کے ساتھ ادا ہوں ، لہٰذا مختار یہ ہے کہ جو آدمی رات کو عبادت الہٰی اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے اس کے لیے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے بغرض استراحت لیٹ جانا مستحب ہے۔
-