عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

--
عذاب قبر قرآن و احادیث سے ثابت ہے اس میں کوئی شبہ اور کلام نہیں، یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہاں قبر سے مراد محض ڈیڑھ دو گز کا گڑھا نہیں ہے بلکہ قبر کا مطلب عالم برزخ ہے جو آخرت اور دنیا کے درمیان ایک عالم ہے اور یہ عالم ہر جگہ ہو سکتا ہے جیسے بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں، جلا دیئے جاتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو ان پر بھی عذاب مسلط کیا جاتا ہے یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں دفن کیا جاتا ہے صرف ان پر ہی عذاب ہوتا ہے اور جو لوگ دوسرے طریقے اختیار کرتے ہیں وہ عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ عذاب قبر کی تصدیق کے درجات میں صحیح اور اولی مرتبہ اس بات کا اعتقاد و یقین رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں دفن کرنے کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور جو لوگ بد کار و گناہ گار ہوتے ہیں ان پر اللہ کا سخت عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں منکر نکیر، عذاب دینے والے فرشتے اور سانپ و بچھو جو بد کر دار و لوگوں پر مسلط کئے جاتے ہیں اور جن کا وجود احادیث سے ثابت ہے ۔ یہ سب صحیح اور واقعی چیزیں ہیں ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ جان لینا چاہئے کہ کسی چیز کو دیکھ لینا اور اس کا مشاہدہ میں آجانا ہی اس کی صداقت کی دلیل نہیں ہوتا، اس لیے ان چیزوں کے بارہ میں یہ بات دل میں جاگزیں کر لینا کہ جب ان چیزوں کو آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا اور یہ مشاہدہ میں نہیں آتیں تو ان کا اعتبار کیسے کیا جائے؟ بالکل غلط اور خلاف عقل ہے، اس لیے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ عالم بالا کی چیزوں کا مشاہدہ کر لینا، عالم ملکوت کو بچشم دیکھ لینا ان ظاہری آنکھوں کے بس کی بات نہیں ہے ، ان کو مشاہدہ کرنے کے لیے چشم حقیقت کی ضرورت ہے ہاں یہ بات بھی ناممکن نہیں ہے کہ اگر اللہ چاہے تو ان دونوں ظاہری آنکھوں سے بھی عالم ملکوت کو دکھلا سکتا ہے۔ پھر دوسرے یہ کہ اسی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم بظاہر دیکھ نہیں پاتے اور نہ آنکھیں ان کا مشاہدہ کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کا ادراک بھی ہوتا ہے اور اس کی حقیقت بھی تسلیم ہوتی ہے مثلاً ایک آدمی عالم خواب میں دنیا بھر کی چیزیں دیکھ اور سن لیتا ہے، ہر طرح کے غم و مصیبت اور لذت و آرام محسوس کرتا ہے لیکن دوسرا اسے نہیں دیکھ سکتا، یا اسی طرح کسی آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اسے لذت حاصل ہوتی ہے یا وہ کسی غم و چین کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا ایک دوسرا آدمی اس سے بے خبر رہتا ہے اور وہ اس کا ادراک و احساس نہیں کر سکتا۔ نیز زمانہ نبوت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی آتی تھی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے لیکن وہیں مجلس میں بیٹھے ہوئے صحابہ نہیں دیکھتے تھے اور نہ ان کی ظاہری آنکھیں حضرت جبرائیل کا مشاہدہ کرتی تھیں، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام ان پر ایمان لاتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح عذاب قبر کا معاملہ ہے، وہاں جو کچھ بندے کے ساتھ ہوتا ہے اس دنیا میں اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے اسے دیکھا جا سکتا ہے، بس یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ عذاب قبر کے بارہ میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے وہ سب مبنی برحقیقت اور یقینی چیزیں ہیں۔
-
عَنِ الْبَرَآءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَلْمُسْلِمُ اِذَا سُئِلَ فِی الْقَبْرِ ےَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ فَذَالِکَ قَوْلُہُ ےُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَےٰوۃِ الدُّنْےَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (ابراھیم پ١٣۔رکوع١٦)وَفِی رِوَاےَۃٍ عَنِِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ےُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ نَزَلَتْ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ ےُقَالُ لَہُ مَنْ رَّبُّکَ فَےَقُوْلُ رَبِّیَ اللّٰہُ وَنَبِیِّیْ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت براء بن عازب ( اسم گرامی براء بن عازب اور کنیت ابوعمارہ ہے مدینہ کے باشندہ اور انصاری ہیں جنگ بدر میں آپ شریک نہیں ہوسکے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صغر سنی کی وجہ سے روک دیا تھا سب سے پہلے غزوہ احد میں شریک ہوئے ہیں۔) راوی ہیں کہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس وقت قبر میں مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور یہی مطلب ہے اس ارشاد بانی کا یُثَبِّتُ ا ُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فَی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وِفِیْ الْاٰخِرَۃِ (القرآن) ترجمہ : اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت و قائم رکھتا ہے جو ایمان لاتے ہیں مضبوط و محکم طریقہ پر ثابت رکھنا دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں، اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ) 14۔ ابراہیم : 27) عذاب قبر کے بیان میں نازل ہوئی ہے (چنانچہ قبر میں مردہ سے) سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح آیت مذکورہ میں بالقول الثابت سے مراد کلمہ شہادتے ہے یعنی جب مومن سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا پروردگار کون ہے، اور تیرا پیغمبر کون ہے اور تیرا دین کیا تو ان تینوں سوالوں کا جواب اسی کلمہ شہادت میں ہے۔ آیت کے دوسرے جز کا مطلب یہ ہے جو لوگ ایمان و یقینی کی روشنی سے اپنے قلوب کو منور کر لیتے ہیں اور جن کے دل میں ایمان و اسلام کی حقانیت راسخ اور پختہ ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دونوں جگہ ان پر رحمت خداوندی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ دنیاوی زندگی کا اس کا فضل تو یہ ہے کہ وہ اپنے ان نیک بندوں کو کلمہ اسلام کی حقانیت کے اعتقاد پر قائم رکھتا ہے اور ان کے دل میں ایمان و اسلام کی وہ روح اور طاقت بھر دیتا ہے کہ دنیاوی امتحان و آزامائش کے سخت سے سخت موقع پر بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی وہ اپنی جانوں کو قربان کر دینا اور آگ میں ڈالے جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنے ایمان و اعتقاد میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ اخروی زندگی میں اس کی رحمت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی بے شمار نعمتوں سے نوازے جاتے ہیں اور عالم برزخ میں جب قبر کے اندر ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ ٹھیک ٹھیک جواب دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کی نجات اور اکرام خداوندی کے مستحق قرار دے دیے جاتے ہیں۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَتَوَلّٰی عَنْہُ اَصْحَابُہُ اِنَّہُ لَےَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فَےُقْعِدَانِہٖ فَےَقُوْلَانِ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَمَّا الْمُوْمِنُ فَےَقُوْلُ اَشْھَدُ اَنَّہُ عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ فَےُقَالُ لَہُ انْظُرْ اِلٰی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ قَدْ اَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہٖ مَقْعَدًا مِّنَ الْجَنَّۃِ فَےَرٰھُمَا جَمِےْعًا وَّاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَےُقَالُ لَہُ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَالرَّجُلِ فَےَقُوْلُ لَا اَدْرِیْ کُنْتُ اَقُوْلُ مَا ےَقُوْلُ النَّاسُ فَےُقَالُ لَہُ لَادَرَےْتَ وَلَا تَلَےْتَ وَےُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِےْدٍ ضَرْبَۃً فَےَصِےْحُ صَےْحَۃً ےَّسْمَعُھَا مَنْ ےَّلِےْہِ غَےْرَ الثَّقَلَےْنِ۔ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَلَفْظُہُ لِلْبُخَارِیِّ)-
" اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اعزا و احباب واپس آتے ہیں تو وہ (مردہ) ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اور اس کے پاس (قبر میں) دو فرشتے آتے ہیں اور ان کو بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ کیا کہتے تھے؟ اس کے جواب میں بندہ مومن کہتا ہے، میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) بلاشبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس بندہ سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنا ٹھکانا دوزخ میں دیکھو جس کو اللہ نے بدل دیا ہے اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں جگہ دی گئی ہے۔ چنانچہ وہ مردہ دونوں مقامات (جنت و دوزخ) کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ اس آدمی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارہ میں تو کیا کہتا تھا؟ وہ اس کے جواب میں کہتا کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو لوگ (مومن) کہتے تھے وہی میں بھی کہہ دیتا تھا اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ تو نے قرآن شریف پڑھا؟ یہ کہہ کر اس کو لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ اس کے چیخنے اور چلانے کی آواز سوائے جنوں اور انسانوں کے قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں) تشریح جب انسان اس دنیا کی عارضی زندگی ختم کر کے دوسری دنیا میں پہنچتا ہے تو اس کی سب سے پہلی منزل قبر ہوتی ہے، جسے عالم برزخ بھی کہا جاتا ہے، مردہ کو قبر میں اتارنے کے بعد جب اس کے عزیز و اقا رب واپس لوٹتے ہیں تو اس میں اللہ کی جانب سے وہ قوت سماعت دے دی جاتی ہے جس کے ذریعہ وہ ان لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا رہتا ہے اس کے بعد منکر نکیر قبر میں آتے ہیں اور اس سے دوسرے سوالات کے علاوہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ ان کے متعلق تمہارا اعتقاد کیا ہے، اگر مرد مومن صادق ہوتا ہے تو وہ صحیح جواب دے دیتا ہے اور اگر وہ کافر ہے تو جواب نہیں دے پاتا بعد میں نتیجہ سنا دیا جاتا ہے کہ صحیح جواب دینے والا اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کا مستحق قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ اس کی آخری منزل جنت کی طرف اس کی راہنمائی کر دی جاتی ہے، غلط جواب دینے والا اللہ کے غضب کا مستحق قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے اس کی آخری منزل دوزخ کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ مردہ سے پوچھتے ہیں کہ" تم اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کیا کہتے تھے" تو اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معنوی اشارہ ہوتا ہے یا پھر یہ اس وقت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مثالی صورت میں مردہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ ایک مومن کے لیے موت کی آرزو سب سے بڑی نعمت ہوگی اس لیے کہ وہ اس کی وجہ سے اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہوگا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے منور و مشرف ہوگا اور حقیقت تو یہ ہے کہ عاشقان رسول کے بے تاب و بے چین قلوب کے لیے اس کے اندر ایک زبردست بشارت ھے۔ بقول شاعر شب عاشقان بیدل چہ قدر دراز باشد تو بیا کہ اول شب در صبح باز باشد " ترجمہ" عشاق کی شب ہجر کس قدر طویل ہوتی ہے۔ تو جلدی آ۔ یہ اول شب ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح ہو جائے۔ اس سوال و جواب کے بعد کامیاب مردہ یعنی مسلمانوں کو دونوں جگہیں یعنی جنت و دوزخ دکھلائی جاتی ہیں اور وہ دونوں مقامات دیکھتا ہے تاکہ اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اگر اللہ کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہوتی اور وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا تو اس دوزخ میں ڈال دیا جاتا جہاں اللہ کے درد ناک عذاب میں مبتلا ہوتا لیکن اس نے دنیا میں چونکہ نیک کام کئے اور سچا مخلص مومن بن کر رہا اس کے نتیجے میں اللہ کے فضل و کرم سے اسے جنت کی نعمت عظمی سے نوازا جا رہا ہے نیز ایک طرف تو وہ دوزخ اور اس کے ہیبت ناک منظر کی طرف دیکھے گا دوسری طرف جنت اور اس کی خوشگوار و مسرور کن فضا کی طرف نظر اٹھائے گا تاکہ اس کے دل میں جنت کی نعمت کی قدر ہو۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب قبر میں معذب مردہ پر عذاب نازل کیا جاتا ہے یعنی فرشتے لوہے کے گرزوں سے اس کو مارتے ہیں تو اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسان نہیں سن پاتے، اس کی حکمت یہ ہے کہ جن وانس غیب کی چیزوں پر ایمان لانے کے مکلّف ہیں اگر ان کو آواز سنائی دے، یا وہاں کے حالات کا علم اس دنیا میں ہو جائے تو پھر ایمان با لغیب جاتا رہے گا۔ نیز اگر قبر کے حالات کا احساس انسانوں کو ہونے لگے تو خوف و ہیب ناکی کی وجہ سے دنیا کے کاروبار میں ہلچل مچی رہے گی اور سلسلہ معیشت منقطع ہو جائے گی۔ صحیح احادیث میں مومنین کی نجات اور کافروں و منافقین کے عذاب کے بارہ میں یہی ذکر کیا جاتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس نجات کا تعلق مومنین صالحین سے ہے لیکن فاسق و گناہ گار مومنین کے بارہ میں احادیث میں کچھ مذکور نہیں ہے کہ آیا ان پر عذاب کیا جاتا یا ان کی بھی نجات ہو جاتی ہے، البتہ علماء فرماتے ہیں کہ فاسق مومن جواب میں تو مومن صالحین کا شریک ہے لیکن نعمتوں کی خوشخبری، جنت کے دروازے کھلنے وغیرہ میں ان کا شریک نہیں ہے یا اگر ان چیزوں میں بھی ان کا شریک ہو تو پھر مرتبہ و درجہ میں ان سے کم تر ہوگا بلکہ اس پر تھوڑا بہت عذاب بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جس فاسق و گناہ گار کو اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بخش دے اور اس کی مغفرت کر دے۔
-
وعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَےْہِ مَقْعَدُہُ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَمِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَمِنْ اَھْلِ النَّارِ فَےُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی ےَبْعَثَکَ اللّٰہُ اِلَےْہِ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر کے اندر) صبح اور شام اس کا ٹھکانہ اس کے سامنے لایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تیرا ٹھکانہ اس کا انتظار کر، یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اٹھا کر وہاں بھیجے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
-
عَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ ےَھُوْدِےَّۃً دَخَلَتْ عَلَےْھَا فَذَکَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَھَا اَعَاذَکِ اللّٰہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأ لَتْ عَائِشَۃُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ قَالَتْ عَائِشَۃُ فَمَا رَأَ ےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدُ صَلّٰی صَلٰوۃً اِلَّا تَعَوَّذَ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور پھر اس نے حضرت عائشہ سے کہا " عائشہ ! اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے!" حضرت عائشہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کا حال پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں قبر کا عذاب حق ہے ! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ کو عذاب قبر کا حال معلوم نہیں ہوگا چنانچہ جب اس یہودی عورت نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو وہ بڑی حیران ہوئیں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا جس کا جواب دیا گیا کہ قبر کا عذاب حق اور یقینی ہے، یعنی اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں گناہ گار لوگوں پر اللہ کی جانب سے طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جاتے ہیں اور اس کا احساس و ادراک اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پناہ مانگنے کے بارے میں احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہلے سے قبر کے عذاب کا حال معلوم نہ ہوا ہو، اس کے بعد بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا ہو جس کے بعد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگنی شروع کر دی اور ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو قبر میں اس قسم کو کوئی معاملہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پناہ مانگنا محض امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ جب اللہ کا محبوب و برگزیدہ بندہ اور اس کا پیارا رسول بھی عذاب قبر سے پناہ مانگ رہا ہے تو امت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ عذاب قبر کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے معلوم تھا اور پوشیدہ طور پر اس سے پناہ بھی مانگتے ہوں گے جس کی حضرت عائشہ کو خبر نہیں ہوگی، بعد میں حضرت عائشہ کے سوال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے طور پر پناہ مانگنی شروع کر دی ہوتا کہ دوسرے بھی متنبہ ہوں اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔
-
وَعَنْ زَیدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ بَےْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ حَآئِطٍ لِّبَنِیْ النَّجَّارِ عَلٰی بَغْلَۃٍ لَّہُ وَنَحْنُ مَعَہُ اِذْا حَادَتْ بِہٖ فَکَادَتْ تُّلْقِےْہِ وَاِذَ اَقْبُرٌ سِتَّۃٌ اَوْ خَمْسَۃٌ فَقَالَ مَنْ ےَّعْرِفُ اَصْحَابَ ھٰذِہِ الْاَقبُرِ قَالَ رَجُلٌ اَنَا قَالَ فَمَتٰی مَاتُوْا قَالَ فِی الشِّرْکِ فَقَالَ اِنَّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ تُبْتَلٰی فِیْ قُبُوْرِھَا فَلَوْلَا اَنْ لَّا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ اَنْ ےُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِیْ اَسْمَعُ مِنْہُ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَےْنَا بِوَجْھِِہٖ فَقَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوْا نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ قَالُوْا نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت زید بن ثابت ( زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ھ یا ٤٥ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرادے، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا، " میں جانتا ہوں!" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز ) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قبر کے عذاب سے خداہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔" (صحیح مسلم) تشریح نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کر لیتا ہے اس لیے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔ چانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کر لیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں ا اس کا مشاہدہ کر لیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بے ہوش ہو جاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقینا تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ادیتا اور تمہیں سنوا بھی دتیا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَآ اُقْبِرَ الْمَیِّتُ اَتَاہُ مَلَکَانِ اَسْوَدَانِ اَزْرَ قَانَ یُقَالُ لِاَحَدِ ھِمَا الْمُنْکَرُ وَ لِلْاٰخَرِ النَّکِیْرُ فَیَقُوْ لَانِ مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُلِ ؟ فَاِنْ کَانَ مُؤْمِنًا فَیَقُوْلُ ھُوَ عَبْدُاﷲِ وَرَسُوْلُہ،، اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، فَیَقُوْلَاِن قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ھٰذَا ثُمَّ یُفْسَحُ لَہ، فِی قَبْرِہٖ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِیْ سَبْعِیْنَ ثُمَّ یُنَوَّرُلَہ، فِیْہِ ثُمَّ یُقَالُ لَہ، نَمْ فَیَقُوْلُ اَرْجِعْ اِلٰۤی اَھْلِیْ فَاُخْبِرُھُمْ فَیَقُوْلَاِن نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ الَّذِیْ لَا یُوْقِظُہ، اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہٖ اِلَیْہِ حَتّٰی یَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِہٖ ذٰلِکَ وَاِنْ کَانَ مُنَا فِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاس یَقُوْلُوْنَ قَوْلًا فَقُلْتُ مِثْلَہ، لَآ اَدْرِیْ فَیَقُوْلَانِ قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ذٰلِکَ فَیُقَالُ لِلْاَرْضِ الْتَمِِی عَلَیْہِ فَتَلْتَئِمْ عَلَیْہِ فَتَخْتَلِفُ اَضْلاَعُہ، فَلَا یَزَالُ فِیْھَا مُعَذَّبًا حَتّٰی یَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِہٖ ذٰلِکَ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جب مردہ کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالی کیری آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کو منکر اور دوسرے نکیر کہتے ہیں وہ دونوں اس مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کہتے تھے؟ اگر وہ آدمی مومن ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ سن کر) وہ دونوں فرشتے فرماتے ہیں ۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقینًا یہی کہے گا، اس کے بعد اس کی قبر کی لمبائی اور چوڑائی میں ستّر ستّر گز کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس مردہ سے کہا جاتا ہے کہ (سو جاؤ) مردہ کہتا ہے (میں چاہتا ہوں) کہ اپنے اہل و عیال میں واپس چلا جاؤں تاکہ ان کو (اپنے اس حال سے) باخبر کردوں۔ فرشتے اس سے فرماتے ہیں تو اس دولہا کی طرح سوجا جس کو صرف وہی آدمی جگا سکتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے محبوب ہو یعنی ہر کسی کا جگانا اچھا نہیں لگتا کیونکہ اس سے وحشت ہوتی ہے البتہ جب محبوب جگاتا ہے تو اچھا لگتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ اور اگر وہ مردہ منافق ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا تھا وہی میں کہتا تھا لیکن میں (اس کی حقیقت کو) نہیں جانتا (منافق کا یہ جواب سن کر) فرشتے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یقینًا تو یہی کہے گا، (اس کے بعد ) زمین کو مل جانے کا حکم دیا جاتا ہے، چنانچہ زمین اس مردہ کو اس طرح دباتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں اور بائیں پسلیاں دائیں نکل آتی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔" (جامع ترمذی ) تشریح قبر میں فرشتے ہیبت ناک اور خوفناک شکل میں آتے ہیں تاکہ ان کے خوف اور شکل کی وجہ سے کافروں پر ہیبت طاری ہو جائے اور وہ جواب دینے میں بد حو اس ہو جائیں لیکن یہ مومنوں کے لیے آزمائش و امتحان ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھتا ہے اور وہ نڈر ہو کر صحیح جواب دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اس لیے کہ وہ دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبر میں ہر قسم کے خوف و ہر اس سے نڈر ہو جاتے ہیں۔ مردہ کے جواب میں فرشتوں کا یہ کہنا کہ" ہم جانتے ہیں کہ تو یقینًا یہی کہے گا " یا تو اس بناء پر ہوگا کہ پروردگار عالم کی جانب سے ان کو خبر دی جاتی ہوگی کہ فلاں مردہ یہ جواب دے گا اور فلاں مردہ وہ جواب دے گا، یا وہ مردہ کی پیشانی اور اس کے آثار سے یہ معلوم کر لیتے ہیں۔ کہ مومن کی پیشانی پر نور ایمانی کی چمک اور سعادت و نیک بختی کا نشان ہوتا ہے اور کافر و منافق کے چہرہ پر پھٹکار برستی ہے۔ مومن جب صحیح جواب دے دیتا ہے اور اس پر اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اس اچھے معاملہ اور عظیم نعمت کی خبر دے دے جیسا کہ جب کوئی مسافر کسی جگہ راحت و سکون پاتا ہے اور وہاں عیش و آرام کے سامان اسے ملتے ہیں تو اس کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ کاش اس وقت میں اپنے اہل و عیال اور اعزا و اقرباء کے پاس جاتا تاکہ انہیں اپنے اس آرام و راحت سے اور چین و سکون سے مطلع کر دیتا ۔ اس لیے مومن مردہ اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
-
وَعَنِ الْبَرَآءِ بْنِ عَازِبِ عَنْ رَّسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ یَاْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہٖ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَنْ رَّبُّکَ فَیَقُوْلُ رَبِّیَ اﷲُ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَا دِیْنُکَ فَیَقُوْلُ دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ فَیَقُوْلَانِ لَ،ہ مَا ھٰذَا لرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ فَیَقُوْلُ ھُوَرَسُوْلُ اﷲِ فَیَقُوْلَانِ لَہ، وَمَا یُدْرِیْکَ فَیَقُوْلَ قَرَأْتُ کِتَابَ اﷲِ فَاٰمَنْتُ بِہٖ وَ صَدَّقْتُ فَذٰلِکَ قَوْلَہ، یُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِالْقَوْلِ الثَّابِتِ اَلْاَیَۃَ قَالَ فَیُنَادِیْ مُنَادِ مِّنَ السَّمَآءِ اَنْ صَدَقَ عَبْدِیْ فَاَفْرِ شُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَاَلْبِسُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃ وَافْتَحُوْالَہ، بَابًا اِلَی الْجَنَّۃِ فَیُفْتَحُ لَہ، قَالَ فَیَاْتِیْہِ مِنْ رُوْحِھَا وَطِیْبِھَا وَیُفْسَحُ لَہ، فِیْھَا مَدَّ بَصَرِہٖ وَاَمَّا الْکَافِرُ فَذَکَرَ مَوْتَہ، قَالَ وَیُعَادُ رُوْحُہ، فِیْ جَسَدِہٖ وَیَاْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہٖ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَنْ رَبُّکَ فَیَقُوْلُ ھَاہْ ھَاہْ لَا اَدْرِیْ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَا دِیْنُکَ فَیَقُوْلُ ھَا ہْ ھَاہْ لَا اَدْرِیْ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَا ھٰذَا ارَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ فَیَقُوْلَ ھَاہْ ھَاہْ لَا اَدْرِیْ فَیُنَادِیْ مُنَادِ مِنَ السَّمَآءِ اَنْ کَذَب فَاَفْرِ شُوْہُ مِنَ النَّارِ وَ اَلْبِسُوْہُ مِنَ النَّارِ وَ افْتَحُوْالَہ، بَابًا اِلَی النَّارِ قَالَ فَیَاْتِیْہِ مِنْ حَرِّھَاوَسَمُوْمِھَا قَالَ وَیُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہ، حَتّٰی تَخْتَلِفَ فِیْہِ اَضْلَاعُہ، ثُمَّ یُقَیَّضُ لَہ، اَعْمٰی اَصَمَّ مِعْہَ مِرْزَبَۃٌ مِنْ حَدِیْہِ لَوْ ضُرِبَ بِھَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا فَیَضْربُہ، بِھَا ضَرْبَۃً یَّسْمَعُھَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ اِلَّا الثَّقَلَیْنِ فَیَصِیْرُ تُرَابًا ثُمَّ یُعَادُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد)-
" اور حضرت براء بن عازب راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قبر میں) مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ " تیرا رب کون ہے؟" وہ جواب دیتا ہے " میرا رب اللہ ہے!" پھر فرشتے پوچھتے ہیں " تیرا دین کیا ہے" وہ جواب میں کہتا ہے، " میرا دین اسلام ہے" پھر فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں، جو آدمی (اللہ کی طرف سے) تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے" وہ اللہ کے رسول ہیں" پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں یہ تجھے کس نے بتایا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ جانا، (یعنی جو کلام اللہ پر ایمان لائے گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے ایمان لائے گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا ۔ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ) 14۔ ابراہیم : 27) (الایۃ) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھتا ہے جو ثابت بات پر ایمان لائے (اخیر آیت تک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آسمان سے پکارنے والا (یعنی اللہ تعالیٰ یا اس کے حکم سے فرشتہ) پکار کر کہتا ہے میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا اس کے لیے جنت کا فرش بچھاؤ اور اس کو جنت کی پوشاک پہناؤ، اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، چنانچہ جنت کی طرف دروزاہ کھول دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( جنت کے دروازہ سے) اس کے پاس جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور حد نظر تک اس قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے اب رہا کافر! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور اس کے بعد فرمایا کہ، پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھا کر پوچھتے ہیں، " تیرا رب کون ہے؟" وہ کہتا ہے، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں " تیرا دین کیا ہے؟" وہ کہتا ہے، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا پھر وہ پوچھتے ہیں، یہ آدمی کون ہے (جو اللہ کی جانب سے) تم میں بھیجا گیا تھا، وہ کہتا ہے " ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا " پھر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا، یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا فرش بچھاؤ، آگ کا لباس اسے پہناؤ اور اس کے واسطے ایک دروازہ دوزخ کی طرف کھول دو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دوزخ سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لوئیں آتی ہیں ، اور فرمایا اور اس کی قبر اس کے لیے تنگ کر دی جاتی ہے، یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایسا گرز ہوتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ پر مارا جائے تو پیھاڑ مٹی ہو جائے اور وہ فرشتہ اس کو اس گرز سے اس طرح مارتا ہے کہ (اس کے چیخنے چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک تمام مخلوقات سنتی ہے مگر جن و انسان نہیں سنتے اور اس مارنے سے وہ مردہ مٹی ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے۔ " (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد) فائدہ : ہاہ ہاہ ایک لفظ ہے جو عربی میں دہشت زدہ اور متحیر آدمی بولتا ہے جیسے اردو میں حیرت و دہشت کے وقت آہ، ہائے اور وائے وائے بولا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس وقت کافر اتنا خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ اس کی زبان سے ہیبت ناکی سے خوف و حسرت کے الفاظ نکلتے ہیں اور وہ صحیح جواب نہیں دے پاتا اور وہ کہتا ہے کہ " میں نہیں جانتا " اس کے اس جواب پر ندائے غیب سے اس کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے، اس لیے کہ دین اسلام کی آواز مشرق سے لے کر مغرب تک پہنچی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن چار دانگ عالم میں پھیلایا اور تمام دنیا اس آفاقی و آسمانی مذہب سے باخبر تھی، اسکے باوجود اس کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں جانتا یا مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا، سراسرکذب اور جھوٹ ہے۔ قبر میں عذاب کے جو فرشتے مقرر کئے جاتے ہیں وہ اندھے اور بہرے ہوتے ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ نہ تو مردہ کے چیخنے چلانے کی آواز سن سکیں اور نہ اس کے حال کو دیکھ سکیں تاکہ رحم نہ آسکے۔ نیز اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ معذب مردہ کے جسم میں بار بار روح ڈالی جاتی ہے تاکہ اس پر عذاب شدید سے شدید ہو سکے اور یہ اس چیز کا انجام ہے کہ وہ دنیا میں عذاب قبر کا انکار کیا کرتا تھا اور اس کو جھٹلایا کرتا تھا۔ (نعوذ با اللہ )۔
-
وَعَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ اَنَّہ، کَانَ اِذَا وَقَفَ عَلٰی قَبْرِ بَکٰی حَتّٰی یَبُلَّ لِحْیَتُہ، فَقِیْلَ لَہ، تَذْکُرُ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ فَلَا تَبْکِیْ وَتَبْکِیْ مِنْ ھٰذَا فَقَالَ اِنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ الْقَبْرَ اَوَّلُ مَنْزِلِ مِنْ مَنَازِلِ الْاٰخِرَۃِ فَاِنْ نَجَامِنْہُ فَمَا بَعْدَہ، اَیْسَرُ مِنْہُ وَاِنْ لَّمْ یُنْجَ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہ، اَشَدُّ مِنْہُ قَالَ وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَارَاَیْتُ مَنْظَرًا قَطُّ اِلَّا وَالْقَبْرُ اَفْظَعُ مِنْہُ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔-
" اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ جب وہ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو (خوف خدا سے) اس قدر روتے کہ ان کی ڈاڑھی (آنسوؤں) سے تر ہو جاتی، ان سے کہا گیا کہ آپ جب جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور اس جگہ کھڑے ہو کر روتے ہیں (اس کے جواب میں) انہوں نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے لہٰذا جس نے اس منزل سے نجات پائی اس کو اس کے بعد آسانی ہے اور جس نے اس منزل سے نجات نہیں پائی اس کو اس کے بعد سخت دشواری ہے " حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کہ میں نے کبھی کوئی منظر قبر سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔" (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔) فائدہ؛ یعنی قبر پر کھڑے ہو کر انسان عیش و عشرت کو بھول جاتا ہے اور دنیا کی بے ثباتی پر اس کا ایمان مضبوط ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا سے اپنے قلب کو لرزاں پاتا ہے اور آخرت سے لگاؤ محسوس کرتا ہے نیز قبر عیش و عشرت سے متنفر کرتی ہے اور محنت و مشقت اور یاد الہٰی میں مصروف رکھتی ہے ۔ اسی کو فرمایا گیا ہے سب سے زیادہ سخت جگہ قبر ہے۔
-
وَعَنْہُ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لِاَ خِیْکُمْ ثُمَّ سَلُوْالَہ، بِالتَّثْبِیْتِ فَاِنَّہ، الْا،نَ یُسْأَلُ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر (لوگوں سے ) فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو، یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت اس کو ثابت قدم رکھے اس لیے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جاتا ہے۔" '(ابوداؤد) فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندوں کی طرف سے مردہ کے لیے دعائے استغفار کارآمد اور مفید ہے چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے۔ یہ دعا نیز مردہ کی استقامت و اثبات کے لیے دعا، تلقین میت کے علاوہ ہیں جو دفن کرنے کے بعد کرتے ہیں تلقین میت کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تلقین اکثر حنفیہ کے یہاں ثابت نہیں ہے لیکن اکثر شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک مستحب ہے، چنانچہ دفن کرنے کے بعد تلقین میت کے سلسلے میں ایک حدیث ابوامامہ صحابی سے وارد ہوئی ہے جسے علامہ سیوطی نے جمع الجوامع میں طبرانی سے ذکر کیا ہے اور ابن نجار، ابن عساکر اور دیلمی نے بھی ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی انتقال کر جائے اور اسے دفن کر چکو تو ایک آدمی قبر کے سرہانے کھڑا ہو اور کہے " اے فلاں ابن فلاں" مردہ یہ الفاظ سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا، وہ آدمی پھر کہے" اے فلاں ابن فلاں" اس مرتبہ مردہ کہتا ہے اللہ آپ رحم کرے، ارشاد فرمائیے، لیکن تم اسے نہیں سنتے۔ اس کے بعد اس آدمی کو کہنا چاہئے، اے فلاں! اس کلمہ کو یاد کرو جس پر تم اس دنیا سے سدھارے اور وہ لا الہ الا اللہ وان محمد اعبدہ ورسول کی شہادت ہے نیز تم اس پر راضی ہوئے کہ اللہ تمہارا پروردگار ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ساتھی پیغمبر ہیں، اسلام تمہارا دین ہے اور قرآن تمہارا راہبر امام ہے جب یہ کہا جاتا ہے تو منکر و نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چلو اس بندہ کے سامنے باہر نکلو! اس سے ہمیں کیا سروکار کیونکہ حق تعالیٰ کی جانب سے اس کو تلقین کی جار ہی ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا ! یا رسول اللہ اگر ہم میت کی ماں کا نام نہ جانتے ہوں تو کیا کہیں اور اس کی نسبت کس طرف کریں؟ رسول اللہ نے فرمایا، حوا کی طرف نسبت کرو اس لیے کہ وہ سب کی ماں ہیں۔ نیز تلقین میت کے سلسلہ میں اس کے علاوہ قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر سورت بقرہ کا " مفلحون" اور آمن الرسول سے آخر سورت تک پڑھنا بھی منقول ہے اور اگر قرآن شریف پورا پڑھا جائے تو یہ سب سے افضل و بہتر ہے بعض علماء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر وہاں کسی بھی مسئلہ کا ذکر کیا جائے تو یہ بھی فضیلت کا باعث اور رحمت خداوندی کے نزول کا سبب ہوگا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیُسَلَّطُ عَلَی الْکاَفِرِ فِیْ قَبْرِہٖ تِسْعَۃٌ وَّتِسْعُوْنَ تَنِیْنًا تَنْھَسُہ، وَتَلْدَغُہ، حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ لَوْ اَنَّ تَنِیْنًا مِنْھَا نَفَخَ فِی الْاَرْضِ مَا اَنْبَتَتْ خَضِرًا۔ رَوَاہُ الدَّرِامِیُّ وَروَی التِّرْمِذِیُّ نَحْوَہ، وَقَالَ سَبْعُوْن بَدَلَ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُوْنَ-
" اور حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کافر کے اوپر اس کی قبر میں ننانوے اژدھا مسلّط کئے جاتے ہیں جو اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈستے ہیں اور وہ اژدھا ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک اژدہا زمین پر پھنکار مارے تو زمین سبزہ اگانے سے محروم ہو جائے، دارمی اور جامع ترمذی سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے لیکن اس میں بجائے ننانوے کے ستّر کا عدد ہے۔
-
عَنْ جَابِرِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذِ حِیْنَ تُوُ فِّیَ فَلَمَّا صَلَّی صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَسُوِّیَ عَلَیْہِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِیْلًا ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ لِمَ سَبَّحْتَ ثُمَّ کَبَّرْتَ فَقَالَ لَقَدْ تَضَایَقَ عَلٰی ھٰذَا الْعَبْدِا الصَّالِحِ قَبْرُہ، حَتّٰی فَرَّجَہُ اﷲُ عَنْہُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" حضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ رضی الله تعالیٰ عنه کی وفات کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ان کے جنازہ پر گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کی نماز پڑھ چکے اور حضرت سعد رضی الله تعالیٰ عنه کو قبر میں اتار کر قبر کی مٹی برابر کر دی گئی تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح (یعنی سبحان اللہ ) پڑھتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہی ہم نے بھی تکبیر کہی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے تسبیح کیوں پڑھی اور پھر تکبیر کیوں کہی؟ فرمایا اس بندہ صالح پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھی پھر اللہ نے ہماری تسبیح و تکبیر کی وجہ سے اسے کشادہ کر دیا۔ " (مسند احمد بن حنبل) فائدہ : تسبیح و تکبیر سے اللہ کا غضب رحمت میں اور اس کا غصہ شفقت میں بدل جاتا ہے اور وہاں مقدس کلموں کی بدولت اپنی رحمت و نعمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ چنانچہ اسی لیے خوف و دہشت کے موقع پر یا کسی خوفناک چیز کو دیکھ کر تکبیر مستحب ہے۔ تسبیح و تکبیر کا جنتا ورد رکھا جائے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوتا جائے گا اور دنیاوی آفات و بلا نیز غضب خداوندی سے دور ہوتا ہوجائے گا۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ھٰذَا الَّذِی تَحَرَّکَ لَہُ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَہ، اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَشَھِدَہ، سَبْعُوْنَ اَلْفًامِّنَ الْمَلَائِکَۃِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْہُ۔ (رواہ السنن نسائی )-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ (یعنی سعد ابن معاذ رضی الله تعالیٰ عنه) وہ آدمی ہیں جن کے لیے عرش نے حرکت کی (یعنی ان کی جب پاک روح آسمان پر پہنچی تو اہل عرش نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا) اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ان کے جنازے پر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے اور ان کی قبر تنگ کی گئی۔ پھر یہ تنگی دور ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ان کی قبر کشادہ ہوگئی۔"
-
(١٣)عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَتْ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم خَطِےْبًا فَذَکَرَ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ الَّتِیْ ےُفْتَنُ فِےْھَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَکَرَ ذَلِکَ ضَجَّ الْمُسْلِمُوْنَ ضَجَّۃً ۔(صحیح البخاری)ھٰکَذَا وَزَادَ النَّسَآئِیُّ حَالَتْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اَنْ اَفْھُمْ کَلَامَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا سَکَنَتْ ضَجَّتُھُمْ قُلْتُ لِرَجُلِ قَرِیْبِ مِّنِّیْ اَیْ بَارَکَ اﷲُ فِیْکَ مَاذَا قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْۤ اٰخِرِ قَوْلِہٖ قَالَ قَالَ قُدْاُوْحِیَ اِلَیَّ اِنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِی الْقُبُوْرِ قَرِیْبًا مِّنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّال۔-
" اور حضرت اسماء بنت ابی بکر راوی ہیں کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور قبر کے فتنہ کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جاتا ہے چنانچہ اس ذکر سے مسلمان (خوف زدہ ہو کر روتے) اور چلاتے رہے، یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور سنن نسائی نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ (خوف و دہشت کی وجہ سے ) مسلمانوں کے چیخنے اور چلانے کے سبب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نہ سن سکی، جب یہ چیخنا چلانا بند ہوا تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے پوچها، الله تمهیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمهارے علم و حلم میں زیادتی هو، آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟) اس آدمی نے کها آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا مجھ پر یہ وحی آئی ہے کہ تم قبروں کے اندر فتنہ میں ڈالے جاؤ گے یعنی تم کو آزمایا جائے گا اور یہ آزمائش و امتحان فتنہ دجال کے قریب قریب ہوگا۔" فائدہ : مطلب یہ ہے کہ جس طرح فتنہ دجال اپنی تباہی و بربادی اور نقصان و خسران کی بناء پر سخت ہلاکت آفریں اور تباہ کن ہو گا، اسی طرح فتنہ قبر بھی ہول و دہشت اور اپنی شدت و سختی کی بناپر بہت زیادہ خوفناک ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ایسے سخت و نازک وقت میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اس امتحان و آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔
-
وَعَنْ جَابِرِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَا اُدْخِلَ الْمَیِّتُ الْقَبْرَ مُثِّلَتْ لَہُ الشَّمْسُ عِنْدَ غُرُوْبَھا فَیَجْلِسُ یَمْسَحُ عَیْنَیْہِ وَیَقُوْلُ دَعُوْنِیْ، اَصَلِّیْ۔ (رواہ ابن ماجہ)-
" اور حضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جب مردہ (مومن) کو قبر کے اندر دفن کر دیا جاتا ہے تو اس کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ وہ مردہ ہاتھوں سے آنکھوں کو ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔" (سنن ابن ماجہ) فائدہ : با عمل مومن مردہ جس وقت قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ جس طرح دنیا میں ایمان و اسلام پر قائم رہا اور فرائض اسلام کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ رہا، اسی طرح قبر میں بھی اسے سب سے پہلے نماز ہی یاد آتی ہے چنانچہ جب منکر و نکیر اس کے پاس قبر میں حاضر ہوتے ہیں تو وہ سوال و جواب سے پہلے نماز ادا کرنے کے لیے کہتا ہے کہ پہلے نماز پڑھ لوں اس کے بعد تمہیں جو کچھ کہنا سننا ہو کہو سنو یا سوال وجواب کے بعد وہ یہ الفاظ کہتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے درمیان بیٹھا ہوں، اس کے شعور و احساس میں سب سے پہلے نماز ہی آتی ہے۔ یہ حالت اس کی رعایت حال پر دلالت کرتی ہے کہ گویا وہ ہنوز دنیا میں ہی ہے اور سو کر ابھی اٹھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو بندہ دنیا میں پکا نمازی ہوگا، اور جس کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی ہوگی، قبر میں بھی حسب عادت اسے پہلے نماز ہی یاد آئے گی۔ دفن کے بعد مردہ کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کرنا اس کی حالت مسافر اور تنہائی کی مناسبت کی وجہ سے ہے چنانچہ جب کوئی مسافر کسی شہر میں شام کو پہنچتا ہے تو وہ حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کہاں جاؤں اور کیا کروں؟ جیسا کہ شام غریباں مشہور ہے۔ تو زلف راکشا دی و تاریک شد جہاں اکنوں فتاد شام غریباں کجا روند اور نماز شام غریباں چوگریہ آغازم بہائے ہائے غریبانہ گر بہ پردازم
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ الْمَیِّتَ یَصِیْرُ اِلَی الْقَبْرِ فَیُجْلَسُ الرَّجُلُ فِیْ قَبْرِہٖ مِنْ غَیْر فَزَعِ وَلَا مَشْغُوْبِ ثُمَّ یُقَالُ لَہ، فِیْمَ کُنْتَ فَیَقُوْلُ کُنْتُ فِی الْاِسْلَامِ فَیَقُاْلُ مَا ھٰذَا الرَّجُلُ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ جَآءَ نَا بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَصَدَقْنَاہُ فَیُقَالُ لَہ، ھَلْ رَاَیْتَ اﷲَ فَیَقُوْلُ مَا یَنْبَغِیْ لِاَحَدِاَنْ یَّرَی اﷲَ فَیُفَرَّجُ لَہ، فُرْجَۃٌ قِبَلَ النَّارِ فَیَنْظُرُ اِلَیْھَا یَحْطِمُ بَعْضُھَا بَعْضًا فَیُقَالُ لَہ، اُنْظُرْ اِلٰی مَاوَقٰکَ اﷲُ ثُمَّ یُفَرَّجُ لَہ، فُرْجَۃٌ قِبَلَ الْجَنَّۃِ فَیَنْظُرُ اِلٰی زَھْرَتِھَا وَمَا فِیْھَا فَیُقَالُ لَہ، ھٰذَا مَقْعدُکَ عَلَی الْیَقِیْنِ کُنْتَ وَ عَلَیْہِ مُتَّ وَعَلَیْہِ تُبْعَثُ اِنْ شَآءَ اﷲُ تَعَالٰی وَ یَجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوْۤءُ فِیْ قَبْرِہٖ فَزِعًا مَشْغُوْبًا فَیُقَالُ لَہ، فِیْمَ کُنْتَ فَیَقُوْلُ لَآ اَدْرِیْ فَیُقَالُ لَہ، مَاھٰذَا الرَّجُلُ فَیَقُوْلُ سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ قَوْلًا فَقُلْتُہ، فَیُفَرَّجُ لَہ، فُرْجَۃٌ قِبَلَ الْجَنَّۃِ فَیَنْظُرُ اِلٰی زَھْرَ ِتَھا وَ مَا فِیْھَا فَیُقَالُ لَہ، اُنْظُرْ اِلٰی مَاصَرَفَ اﷲُ عِنْکَ ثُمَّ یُفَرَّجُ لَہ، فُرْجَۃٌ اِلَی النَّارِ فَیَنْظُرُ اِلَیْھَا یَحْطِمُ بَعْضُھَا بَعْضًا فَیُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ عَلَی الشَّکِّ کُنْتَ وَعَلَیْہِ مُتَّ وَ عَلَیْہِ تُبْعَثُ اَنْ شَآءَ اﷲُ تَعَالٰی۔ (رواہ ماجہ)-
" حضرت ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مردہ قبر کے اندر پہنچتا ہے (یعنی اسے دفن کر دیا جاتا ہے) تو (نیک) بندہ قبر کے اندر اس طرح اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے کہ نہ تو وہ لمحہ بھر خوفزدہ ہوتا اور نہ گھبرایا ہوا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ " تم کس دین میں تھے؟" وہ کہتا ہے میں دین اسلام میں تھا! پھر اس سے پوچھا جاتا ہے " یہ آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟" وہ کہتا ہے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں جو اللہ کے پاس سے ہمارے لیے کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آئے اور ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ کو تو کوئی نہیں دیکھ سکتا! اس کے بعد اس کے لیے ایک روشن دان دوزخ کی طرف کھولا جاتا ہے اور وہ ادھر دیکھتا ہے اور آگ کے شعلوں کو اس طرح بھڑکتا ہوا پاتا ہے گویا اس کی لپیٹیں ایک دوسرے کو کھا رہی ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے، اس چیز کو دیکھو جس سے اللہ نے تجھے بچایا ہے، پھر اس کے لیے ایک کھڑکی جنت کی طرف کھول دی جاتی ہے، وہ جنت کی تروتازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے، یہ تمہارا ٹھکانہ ہے کیونکہ ( تمہارا اعتقاد مضبوط اور اس پر) تمہیں کامل یقین تھا اور اسی (یقین وا عتماد) کی حالت میں تمہاری وفات ہوئی اور اسی حالت میں تمہیں (قیامت کے دن ) اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور بدکار بندہ اپنی قبر میں خوف زدہ اور گھبرایا ہوا اٹھ کر بیٹھتا ہے پس اس سے پوچھا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے" یہ آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کون تھے " وہ کہتا ہے میں لوگوں کو جو کچھ کہتے سنتا تھا وہی میں کہتا تھا، اس کے بعد اس کے لیے بہشت کی طرف ایک روشن دان کھولا جاتا ہے جس سے وہ بہشت کی تروتازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے، اس چیز کی طرف دیکھ جسے اللہ نے تجھ سے پھر لیا ہے پھر اس کے لیے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ آگ کے تیز شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔ اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانہ ہے اس شک کے سبب جس میں تو مبتلا تھا اور جس پر تو مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔" (سنن ابن ماجہ)
-