عبداللہ ابن مسعود کی فضیلت

وعن حذيفة قال : إن أشبه الناس دلا وسمتا وهديا برسول الله صلى الله عليه و سلم لابن أم عبد من حين يخرج من بيته إلى أن يرجع إليه لا تدري ما يصنع أهله إذا خلا . رواه البخاري-
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وقار ، میانہ روی اور راست روی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا آدمی ام عبد کا بیٹا ہے ، اس وقت سے کہ اپنے گھر سے باہر آتے ہیں اور اس وقت تک کہ جب وہ گھر میں جاتے ہیں ۔ گھر والوں کے درمیان یعنی گھر میں اہل و عیال کے ساتھ یا تنہا وہ کس حال میں رہتے ہیں یہ ہم کو معلوم نہیں ۔ " (بخاری ) ۔ تشریح " ام عبد کے بیٹے " سے مراد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ان کی والدہ کی کنیت ام عبد تھی ۔ دلّ کے معنی سیرت، حالت ہیبت کے بھی آتے ہیں اور بعض حضرات نے اس کے معنی خوش کلامی ، خوش گوئی بھی بیان کئے ہیں کہ یہ لفظ گویا " دلالت " سے ماخوذ ہے اور جس کے ذریعہ کسی انسان کی اس ظاہری حالت و خوبی کو تعبیر کیا جاتا ہے جو اس کے حسن سیرت اور اس کی نیک خصلتی پر دلالت کرے قاموس میں لکھا ہے کہ دل کے قریب قریب وہ ہی معنی ہیں جو ھدی کے ہیں لیکن یہاں حدیث میں اس لفظ سے سکینت یعنی متانت وسنجیدگی وقار اور خوبصورتی کے معنی مراد ہیں ۔ اور مجمع البحار میں لکھا ہے دل کا لفظ شکل و شمائل کے معنی رکھتا ہے " سمت " کے معنی ہیں راستہ ، میانہ روی ، اور اس لفظ کا استعمال اہل خیر و صلاح کے طور طریق اور اس کی ہیت و حالت کے لئے بھی کیا جاتا ہے چنانچہ قاموس میں " سمت " کے معنی طریق یعنی راستہ اور اہل خیر کی ہیئت کے لکھے ہیں ۔ اور صراح میں لکھا ہے " سمت " کے معنی ہیں نیک راہ روش ھدی کے معنی طریقہ سیرت ، اہل خیر کی ہیئت و حالت کے ہیں ۔ حاصل یہ کہ یہ تینوں لفظ یعنی دل سمت ھدی معنی و مفہوم میں قریب قریب ہیں اور عام طور پر یہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ اس وقت سے ہی یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جو ظاہری زندگی ہمارے سامنے ہے اور ان کے جو احوال ہم پر عیاں ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہایت پاکیزہ نفس اور راست رو ہیں اور ہم ظاہری احوال ہی کے بارے میں گواہی دے سکتے ہیں باطن کا حال ہمیں معلوم نہیں ، کہ اندر کا حال اللہ ہی جانتا ہے ۔
-
وعن أبي موسى الأشعري قال : قدمت أنا وأخي من اليمن فمكثنا حينا ما نرى إلا أن عبد الله بن مسعود رجل من أهل بيت النبي صلى الله عليه و سلم لما نرى من دخوله ودخول أمه على النبي صلى الله عليه و سلم . متفق عليه-
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی یمن سے مدینہ منورہ آئے تو یہاں در نبوت پر ایک عرصہ مقیم رہے ، اس دوران ہم نے ہمیشہ یہی خیال کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے ایک آدمی ہیں ، کیونکہ ہم ان کو اور ان کی والدہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بے وقت آتے جاتے دیکھا کرتے تھے ۔ " (بخاری ومسلم ) تشریح ایک روایت میں آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ اگر ایک آدمی میرے پاس دیکھو تو اجازت طلب کئے بغیر آ جایا کرو، اور ایک روایت میں ضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرما رکھا تھا کہ جب پردہ نہ پڑا ہوا ہو اور تم میری آواز سنو تو بس یہی تمہارے لئے اجازت ہے ، جب تک میں تمہیں منع نہ کروں اجازت طلب کئے بغیر آیا جایا کرو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی کنیت ابوعبدالرحمن تھی ، ہذلی ہیں ۔ صاحب السواد والسواک کے لقب سے مشہور تھے ان کو ابتدائے دعوت ہی میں قبول اسلام کی توفیق نصیب ہو گئی تھی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں منتقل ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے ۔ اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ چھٹے مسلمان ہیں، ان سے پہلے صرف پانچ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا قبول اسلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے پاس رکھ لیا تھا اور اپنی متعدد خدمتیں ان کے سپرد کر دی تھیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک انہی کے پاس رہا کرتی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتی پہنایا کرتے تھے ۔ سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے طہارت و وضو وغیرہ کا پانی رکھتے تھے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے تو یہ پردہ کے لئے کھڑے ہوتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حبشہ کو بھی ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ کی بھی ہجرت کی بدر اور دوسرے غزوات و مشاہد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت کی تھی ۔ اور فرمایا تھا میں اپنی امت کے لئے وہ چیز پسند کرتا ہوں جو ابن ام عبد ( عبداللہ بن مسعود ) کو پسند ہے اور میں اپنی امت کے حق میں اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں جو ام عبد کو ناپسند ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گندم گوں تھے ۔ اور ان کا جسم اس قدر دبلا و نحیف اور قد اتنا چھوٹا تھا کہ بیٹھا تھا کہ بیٹھا ہوا لانبا آدمی ان کے برابر نظر آتا تھا ۔ ابتدائی عہد تک اسی منصب پر فائز رہے ۔ پھر مدینہ آ گئے تھے ۔ اور مدینہ ہی میں ٣٢ھ میں وفات پائی ۔ اس وقت ان کی عمر کچھ اوپر ساٹھ سال تھی ان سے روایت حدیث کرنے والوں میں صحابہ و تابعین کی ایک بڑی جماعت کے علاوہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم ، بھی شامل ہیں ۔ ہمارے ائمہ کا کہنا ہے کہ خلفائے اربعہ کے استثناء کے بعد تمام صحابہ میں سب سے بڑے فقیہہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔
-