TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
صف بندی کا طریقہ
وَعَنْ اَبِی مَالِکِ نِ الْاَشْعَرِیِّ قَالَ اَ لَا اُحَدِّثُکُمْ بِصَلاۃِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَقَامَ الصَّلَاۃَ وَصَفَّ الرِّجَالَ وَصَفَّ خَلْفَھُمُ الْغِلْمَانَ ثُمَّ صَلَّی بِھِمْ فَذَکَرَ صَلاَ تَہ، ثُمَّ قَالَ ھٰکَذَا صَلٰوۃُ قَالَ عَبْدُا الْاَعْلٰی الَااَحْسِبَہ، اِلَّا قَالَ اُمَّتِیْ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (لوگوں سے ) کہا کہ " کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (کیفیت) سے آگاہ نہ کروں؟ تو سنو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز( کے لیے لوگوں) کو کھڑا کر کے (اول) مردوں کی صف قائم کی پھر ان کے پیچھے لڑکوں کی صف باندھی اور انہیں نماز پڑھائی۔" ابومالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (کی کیفیت) بیان کی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز پڑھ کر فرمایا " کہ نماز اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ عبدالاعلی (جنہوں نے یہ روایت ابومالک سے نقل کی ہے) فرماتے ہیں کہ " میرا خیال ہے کہ ابومالک نے " میری امت کی" (بھی) کہا ہے یعنی ابومالک نے حدیث کے آخری الفاظ اس طرح نقل کئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھٰکَذَا صَلٰوۃُ اُمَّتِی (یعنی میری) امت کی نماز اسی طرح ہونی چاہیے ۔" (ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ " میری امت کے لوگوں کو چاہیے کہ نماز کی جو کیفیت مجھے سے نقل کی گئی ہے اسی طرح نماز میں پڑھیں نیز اس سے یہ تنبیہ بھی مقصود ہے کہ جو لوگ اس طریقے سے یعنی سنت نبوی کے مطابق نماز نہیں پڑھیں گے وہ اپنے اس علم سے یہ ظاہر کریں گے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعدار امت میں سے نہیں ہیں۔
-
وَعَنْ قِیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ بَیْنَا اَنَا فِی الْمَسْجِدِ فِی الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ فَجَبَذَنِی رَجُلٌ مِنْ خَلْفِیْ جَبْذَۃً فَنُحَّانِی وَقَامَ مَقَامِی فَوَ اﷲِ مَا عَقَلْتُ صَلَا تِی فَلَمَّا انْصَرَفَ اِذَا ھُوَ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ فَقَالَ یَافَتَی لَا یَسُؤْکَ اﷲُ اِنَّ ھٰذَا عَھْدٌ مِنَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اِلَیْنَا اَنْ نَلِیَہ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ فَقَالَ ھَلَکَ اَھْلُ الْعَقْدِ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ ثَلَا ثًا ثُمَّ قَالَ وَاﷲِ مَا عَلَیْھِمْ اٰسٰی وَلَکِنْ اٰسٰی عَلٰی مَنْ اَضَلُّوْاقُلْتُ یَا اَبَا یَعْقُوْبَ مَا تَعْنِی بِاَھْلِ الْعَقْدِ قَالَ الْاُمَرَائُ۔ (رواہ النسائی )-
" اور حضرت قیس ابن عباد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں مسجد میں پہلی صف میں کھڑا (نماز پڑھ رہا ) تھا۔ ایک آدمی نے پیچھے سے مجھے کھینچا اور مجھ کو ایک طرف کر کے خود میری جگہ کھڑا ہو گیا اللہ کی قسم ! (اس غصے کی وجہ سے کہ اس نے مجھے پہلی صف سے جو افضل ہے کھینچ لیا باوجود اس کے کہ میں وہاں پہلے سے کھڑا تھا ) مجھے اپنی نماز کا بھی ہوش نہ رہا۔ ( کہ میں نماز کس طرح ادا کر رہا ہوں اور کتنی رکعتیں پڑھ رہا ہوں) جب وہ آدمی نماز پڑھا چکا (اور میں نے بھی نماز پڑھنے کے بعد دیکھا) تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے (مجھے غصے کی حالت میں دیکھ کر ) انہوں نے فرمایا کہ " اے جوان (اس وقت میں نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں غمگین نہ کرے۔ (چونکہ) ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت ہے کہ ہم آپ کے پاس کھڑے ہوا کریں ( اس لیے آپ کے بعد اب ہم امام کے قریب کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں) پھر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ فرمایا " رب کعبہ کی قسم ! اہل عقد (یعنی سردار ) ہلاک ہوگئے! اور فرمایا اللہ کی قسم ! مجھے سرداروں کا کوئی غم نہیں ہے ، غم تو ان لوگوں (یعنی رعایا) کا ہے جنہیں سردار گمراہ کرتے ہیں ( بایں طور کہ جو کام سردار کرتے ہیں وہی کام ان کی رعایا کرتی ہے ) قیس ابن عباد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ " ابویعقوب ! اہل عقد سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ فرمایا " امراء (یعنی سردار وحکام )۔" (سنن نسائی ) تشریح حضرت ابی بن کعب کے الفاظ اِنْ ھٰذَا عَھْدٌ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی ا عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الخ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا لِیَلنِی مِنْکُمْ اُوْلُوْ الْاَحْلَامِ وَالنُّھٰی " یعنی (نماز میں) تم میں سے صاحب عقل و بالغ میرے نزدیک کھڑے ہوا کریں۔" اس ارشاد کا حاصل چونکہ یہ تھا کہ جو لوگ صاحب عقل و فہم اور بالغ ہوں وہ امام کے قریب کھڑے ہوا کریں اور قیس ابن عباد اس زمرے میں آتے نہیں تھے۔ اس لیے حضرت ابی بن کعب نے انہیں وہاں سے ہٹا دیا اور خود وہاں کھڑے ہوگئے۔ ھَلَکَ اَھْلُ الْعَقْدِ (اہل عقد یعنی سرور و احکام ہلاک ہوگئے) اس کا مطلب یہ ہے کہ رعایا کے اعمال و کردار اور ان کے دینی و دنیاوی احکام و افعال یہاں تک صف بندی کی رعایت اور نگہداشت حکام و سرداروں کے ذمہ ہے لیکن وہ حکام و سردار جو اپنی رعایا کے دینی و دینوی کاموں کے نگہبان و سربراہ ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے افعال و کردار پر نظر رکھتے تھے اور انہیں سنت نبوی پر چلاتے تھے ختم ہو گئے۔ اس لیے نیتجہ یہ ہوا کہ لوگوں کو دینی کاموں میں سست رفتاری بے راہ روی ، اور غلط انداز عمل و انداز فکر پیدا ہو گیا ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعے حضرت کعب نے اپنے زمانے کے حاکم پر طعن کیا ہے مگر حضرت کعب کا انتقال چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ہوا ہے اس لیے یہ کہا جائے گا کہ ان الفاظ کا محمل خود خلیفہ کی ذات نہیں ہے بلکہ حضرت کعب کے پیش نظر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ بعض حکام ہوں گے جو اپنے فرائض کو پورے طور سے انجام نہیں دیتے تھے۔
-