شفاعت سے تمام انبیاء کا انکار

وعن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يحبس المؤمنون يوم القيامة حتى يهموا بذلك فيقولون لو استشفعنا إلى ربنا فيريحنا من مكاننا فيأتون آدم فيقولون أنت آدم أبو الناس خلقك الله بيده وأسكنك جنته وأسجد لك ملائكته وعلمك أسماء كل شيء اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا . فيقول لست هناكم . ويذكر خطيئته التي أصاب أكله من الشجرة وقد نهي عنها ولكن ائتوا نوحا أول نبي بعثه الله إلى أهل الأرض فيأتون نوحا فيقول لست هناكم ويذكر خطيئته التي أصاب سؤاله ربه بغير علم ولكن ائتوا إبراهيم خليل الرحمن . قال فيأتون إبراهيم فيقول إني لست هناكم ويذكر ثلاث كذبات كذبهن ولكن ائتوا موسى عبدا آتاه الله التوراة وكلمه وقربه نجيا . قال فيأتون موسى فيقول إني لست هناكم ويذكر خطيئته التي أصاب قتله النفس ولكن ائتوا عيسى عبد الله ورسوله وروح الله وكلمته قال فيأتون عيسى فيقول لست هناكم ولكن ائتوا محمدا عبدا غفر الله له ماتقدم من ذنبه وما تأخر . قال فيأتوني فأستأذن على ربي في داره فيؤذن لي عليه فإذا رأيته وقعت ساجدا فيدعني ما شاء الله أن يدعني فيقول ارفع محمد وقل تسمع واشفع تشفع وسل تعطه . قال فأرفع رأسي فأثني على ربي بثناء تحميد يعلمنيه ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرج فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة ثم أعود الثانية فأستأذن على ربي في داره . فيؤذن لي عليه فإذا رأيته وقعت ساجدا . فيدعني ما شاء الله أن يدعني ثم يقول ارفع محمد وقل تسمع واشفع تشفع وسل تعطه . قال فأرفع رأسي فأثني على ربي بثناء وتحميد يعلمنيه ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرج فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة ثم أعود الثالثة فأستأذن على ربي في داره فيؤذي لي عليه فإذا رأيته وقعت ساجدا فيدعني ما شاء الله أن يدعني ثم يقول ارفع محمد وقل تسمع واشفع تشفع وسل تعطه . قال فأرفع رأسي فأثني على ربي بثناءوتحميد يعلمنيه ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرج فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة حتى ما يبقى في النار إلا من قد حبسه القرآن أي وجب عليه الخلود ثم تلا هذه الآية ( عسى أن يبعثك الله مقاما محمودا ) قال وهذا المقام ا لمحمود الذي وعده نبيكم متفق عليه . ( متفق عليه )-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ قیامت کے دن ( میدان حشر میں ) مؤمنین کو روک دیا جائے گا ( یعنی سب کو کسی ایک جگہ اس طرح محصور کر دیا جائے گا کہ کوئی شخص بھی کسی طرح کی نقل وحرکت نہیں کر سکے گا اور ہر شخص سکتے کی سی کیفیت میں ٹھہرا رہے گا ) یہاں تک کہ سارے لوگ اس ( محصور ہو جانے ) کی وجہ سے سخت فکر وتردد میں پڑجائیں گے ، پھر وہ آپس میں تذکرہ کریں گے کہ کاش ہمیں کوئی ایسا شخص مل جاتا جو ہمارے پروردگار سے ہماری شفاعت کرتا اور ہمیں اس سختی وپریشانی سے چھٹکارا دلاتا اور پھر ( کچھ لوگ سب کی نمائندگی کرتے ہوئے ) حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ آدم علیہ السلام ہیں ، تمام لوگوں کے باپ ، آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ( بلا کسی واسطہ وسیلہ کے ) اپنے ہاتھ سے ( یعنی اپنی قدرت کاملہ سے ) پیدا کیا ، آپ علیہ السلام کو جنت کی سکونت عطا فرمائی ، اپنے فرشتوں سے ( تحیہ کا ) سجدہ آپ علیہ السلام کو کرایا ، اور آپ علیہ السلام کو ہر چیز کے نام سکھائے : براہ کرام آپ علیہ السلام اپنے پروردگار سے ( کہ جس نے آپ علیہ السلام کو اتنی زیادہ فضیلتیں اور اعزاز بخشے ہیں ) ہماری سفارش کر دیجئے کہ وہ ہم کو اس ( سخت ہولناک اور پریشان کن ) جگہ سے نکال کر راحت واطمینان بخشے حضرت آدم علیہ السلام ( یہ سن کر کہیں گے ) کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ( یعنی میں یہ مرتبہ ( درجہ نہیں رکھتا کہ آج کے دن بارگاہ کبریائی میں شفاعت کرنے کا حوصلہ کروں ) پھر حضرت آدم علیہ السلام اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو انہوں نے ( گیہوں کا ) درخت کھانے کی صورت میں کی تھی درآنحالیکہ ان کو اس درخت کے قریب جانے سے بھی منع کر دیا گیا تھا ، ( اس کے بعد وہ کہیں گے کہ ) تم لوگوں کو نوح علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے ( وہ تمہاری شفاعت کر سکتے ہیں ) کیونکہ وہ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا تھا ) وہ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کے لئے درخواست کریں گے ) حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! اور وہ اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو انہوں نے بے جانے بوجھے اللہ تعالیٰ سے ( اپنے بیٹھے کو غرق ہونے سے بچانے کی درخواست کرنے کی صورت میں کی تھی ( پھر وہ مشورہ دیں گے کہ ) تم لوگوں کو ابراہیم علیہ السلام کے پاس " جو اللہ تعالیٰ کے خلیل ( دوست ہیں ، جانا چاہئے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ( یہ سن کر ) ابراہیم خلیل اللہ کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کی درخواست کریں گے ) حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں اور وہ دنیا میں تین مرتبہ اپنے جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے (پھر وہ مشورہ دیں گے کہ ) تم لوگ موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جو خدا کے ایسے بندے ہیں جن کو خدا نے ( اپنی عظیم الشان کتاب ) توریت عطا کی ) اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کو ان کا تابع بنایا ، اور جن کو خدا نے براہ راست اپنی ہمکلامی کے شرف سے نوازا اور ان کو اپنا کمال قرب عطا فرما کر اپنا محرم اسرار بنایا ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، وہ لوگ ( یہ سن کر ) حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کے لئے درخواست کریں گے ) حضرت موسی علیہ السلام ان کو جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! اور وہ اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو ایک قبطی کو قتل کرنے کی صورت میں سرزد ہوگئی تھی ( یعنی انہوں نے طیش میں آکر ایک قبطی کو مکا مار دیا تھا جس سے اس کا کام تمام ہوگیا تھا ۔ پھر وہ مشورہ دیں گے کہ تمہیں عیسی علیہ السلام کے پاس جانا چائے جو خدا کے بندے اور رسول علیہ السلام ہیں ۔ وہ سراسر روحانی ہیں ( کہ جسمانی مادہ کے بغیر محض خدا کی قدرت سے پیدا ہوئے تھے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، وہ لوگ ( یہ سن کر ) حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئینگے ( اور ان سے شفاعت کے لئے کہیں گے ) حضرت عیسی علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! البتہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جو خدا کے ایسے بندے ہیں جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں ( یقینا وہی تم لوگوں کی شفاعت کریں گے ۔ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تب لوگ ( شفاعت کی درخواست لے کر ) میرے پاس آئیں گے اور میں ( ان کی شفاعت کے لئے تیار ہوجاؤں گا اور مقصد کی خاطر ) در رب العزت پہنچ کر اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، اللہ تعالیٰ مجھے اپنی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت مرحمت فرمائے گا ! میں جب اس کے حضور میں پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو اس کی ہیبت وخوف کے مارے اور اس کی تعظیم کرنے کے لئے ) سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جتنا عرصہ مناسب سمجھے گا اتنے عرصہ کے لئے مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! سر اٹھاؤ ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو، تمہاری بات سنی جائے گی ، تم ( جس کے حق میں چاہو ) شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ، اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے ) باہر آؤں گا اور اس ( متعینہ ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا پھر ( دوسری جماعتوں کے حق میں شفاعت کرنے کے لئے ) میں دوبارہ در رب العزت پر حاضر ہو کر اس کی خدمت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا مجھے اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور جب میں اس کے حضور میں پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑونگا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہئے گا مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا ، پھر فرمائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، تمہاری بات سنی جائے گی ، شفاعت کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا اس کی حمد وثنا بیان کروں گا پھر میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی ، اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے ) باہر آؤں گا اور اس متعینہ ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا اور پھر میں تیسری مرتبہ بارگاہ رب العزت پر حاضر ہو کر اس کی خدمت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، مجھے اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور جب میں پروردگار کے حضور پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا ، اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا ۔ پھر فرمائے گا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، تمہاری بات سنی جائے گی ۔ شفاعت کرو میں قبول کروں گا اور مانگو میں دوں گا ۔ " ( یہ سن کر ) میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس حمد وتعریف کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا اس کی حمد وثنا بیان کروں گا پھر میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی ۔ اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے ) باہر آؤں گا اور اس ( متعینہ ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا ، یہاں تک کہ دوزخ میں ان کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہ جائے گا جن کو قرآن نے روکا ہوگا ( یعنی اس آخری شفاعت کے بعد دوزخ میں وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن کے بارے میں قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ، چنانچہ حدیث کے اس جملہ کی وضاحت حضرت انس کے نیچے کے روای حضرت قتادہ جو جلیل القدر تابعی ہیں ان الفاظ میں کی ہے کہ ) اس کا مطلب یہ ہے کہ بس وہ لوگ دوزخ میں باقی رہ جائیں گے جو ( قرآن کے حکم کے بموجب ) ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب دوزخ کے مستوجب قرار پا چکے ہیں ( اور وہ کفار ہیں ) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (یا حضرت انس یا حضرت قتادہ نے اس بات کو مستند کرنے کے لئے ) قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17۔ الاسراء : 79) امید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود میں جگہ دے گا ۔ اور پھر ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا حضرت انس نے یا حضرت قتادہ نے ) یہ فرمایا کہ ( یہی وہ مقام محمود ہے ، جس کا وعدہ خدا نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے ۔ " (بخاری ومسلم ) تشریح : " وہ پہلے نبی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ۔۔۔ الخ کے سلسلہ میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے تین نبی حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام دنیا میں آچکے تھے ۔ تو حضرت نوح علیہ السلام دنیا والوں کی طرف آنے والے پہلے نبی کیونکر ہوئے !؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ پہلے تینوں نبی جب دنیا میں آئے تو تمام روئے زمین صرف اہل کفر کی آماجگاہ نہیں تھی بلکہ اس دنیا میں اہل ایمان بھی موجود تھے اور گویا ان تینوں نبیوں کے مخاطب اہل ایمان اور اہل کفر دونوں تھے ، ان کے برخلاف جب جضرت نوح علیہ السلام دنیا والوں میں آئے تو تمام روئے زمین پر صرف کافر ہی کافر تھے اہل ایمان کا وجود نہیں تھا ، اس اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں آنے والے پہلے نبی ہیں جن کا واسطہ صرف کافروں سے تھا ، اس اشکال کے کچھ اور جواب بھی علماء نے لکھے ہیں لیکن وہ زیادہ مضبوط نہیں ہیں ۔ اس مقام پر خاص نکتہ کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے یہ جو فرمایا گیا ہے کہ جب تمام لوگ ابتدائی اور سب سے پہلے حضرت آدم کے پاس اور پھر یکے بعد دیگرے ایک ایک نبی کے پاس جائیں گے یہاں تک کہ آخر میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی درخواست قبول کرلیں گے تو سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوگا کہ وہی ان لوگوں کے دلوں میں کسی شفاعت کرنے والے کے پاس جانے کا خیال ڈالے گا اور پہلا خیال حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ہوگا کہ وہی ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ڈال دے اور وہ ایک ایک نبی کے پاس جانے کے بجائے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر شفاعت کی درخواست کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت کر دیں تو یہ احتمال باقی رہے گا کہ دوسرے بھی شفاعت کرنے جرأت رکھتے ہوں گے اور اگر کسی اور نبی سے بھی شفاعت کی درخواست کی جاتی تو وہ بھی شفاعت کر دیتا ، لیکن جب وہ لوگ ایک ایک نبی کے پاس جا کر ان سے شفاعت کی دراخوست کریں گے اور ہر ایک شفاعت سے انکار کر دے گا اور پھر آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی جائے گی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبول کرکے ان کا مقصد پورا کر دیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے عالی مرتبہ ہونا اور بارگاہ کبریائی میں کمال قرب رکھنا واضح طور پر ثابت ہو جائے گا اور ہر ایک پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ ودرجہ کا کوئی اور نہیں ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق ، حتی کہ انسانوں فرشتوں اور تمام انبیاء تک پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ شفاعت جو اتنا بڑا درجہ اور اتنا اہم کام ہے کہ کوئی بھی ، خواہ وہ فرشتہ یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو اس کی جرأت وحوصلہ نہیں کرے گا صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی جس لغزش کا ذکر کیا ، اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح کو مسلسل جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی سزا میں دنیا والوں پر پانی کا عذاب نازل ہوا اور تمام روئے زمین پر ہلاکت خیز پانی ہی پانی پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اپنے ماننے والوں کی ایک مختصر تعداد کو لے کر ایک کشتی میں بیٹھ گئے تاکہ وہ سب طوفانی سیلاب کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہیں ، اس وقت انہوں نے اپنے بیٹے کو جو کافروں کے ساتھ تھا ، بلایا اور کہا کہ کافروں کے ساتھ وہ بھی غرق ہوگیا ، اس موقع پر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے اس بیٹے کے حق میں غرقابی سے نجات کی دعا مانگی تھے اور بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا تھا کہ۔ رب ان ابنی من اہلی وان وعدک الحق وانت ا حکم الحاکمین ۔ " میرے پروردگار ! میرا یہ بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے ، ( اس کو نجات دے ) بے شک آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور آپ ا حکم الحاکمین ہیں ۔" (جاری)
-
--
بقیہ) اللہ تعالیٰ سے حضرت نوح علیہ السلام کی یہ درخواست چونکہ ایک ایسا امر تھا جس کو انہوں نے جانے بوجھے بغیر ظاہر کیا تھا اور اس بات کی تحقیق نہیں کرلی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا مانگنی چاہئے یا نہیں ، اس لئے ان پر بارگاہ خداوندی سے عتاب نازل ہوا کہ نوح ہم سے وہ چیز نہ مانگو جس کی حقیقت کا تمہیں علم نہیں ہے اور جس کے بارے میں تم نہیں جانتے کہ وہ چیز مانگی جانی چاہئے یا نہیں ۔ ' اور وہ دنیا میں تین مربتہ جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے " حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی جن باتوں کو " جھوٹ " سے تعبیر کریں گے حقیقت میں ان پر" جھوٹ " کا اطلاق نہیں ہو سکتا ، گو ظاہری حیثیت کے اعتبار سے وہ جھوٹ کی سی صورت رکھتی ہوں ، لیکن انبیاء جس عالی مربتہ کے ہوتے ہیں اور ان کا جو اونچا مقام ہوتا ہے اس کے پیش نظر ان کی اس طرح کی باتوں کو بھی جو ان کے مقام سے فروتر ہوں ، بارگاہ رب العزت میں نظر انداز نہیں کیا جاتا اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ حسنات الا برار سئیات المقربین ( بعض باتیں نیکوں کے حق میں تو نیکیاں ہوتی ہیں لیکن مقربین کے حق میں برائیاں ہوتی ہیں ۔ " رہی یہ بات کہ وہ تین باتیں کیا تھیں جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام " جھوٹ " کے طور پر اپنی لغزش بتائیں گے ، تو ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم اپنے کسی میلہ میں تماشہ دیکھنے آبادی سے باہر جانے لگی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں جاؤں گا اور جب یہ سب لوگ چلے جائیں گے تو ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ان کے بت توڑ دوں گا جن کو یہ پوجتے ہیں اور میری باربار کی تلقین وتنبیہ کے باوجود بت پرستی سے باز نہیں آتے ، چنانچہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگوں کو جانا ہو تو جاؤ میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا کیونکہ میں بیمار ہوں ، ظاہر ہے کہ وہ دیکھنے میں جسمانی طور پر بیمار نہیں تھے ، اور ان کا یہ کہنا کہ " میں بیمار ہوں " بظاہر جھوٹ سمجھا جا سکتا ہے ، لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان کی یہ بات " جھوٹ " میں شمار نہیں کی جاسکتی کیونکہ جب انہوں نے یہ بات کہی تھی تو یہ مراد رکھ کر کہی تھی کہ تمہارے کفر وشرک اور تمہاری غلط حرکتوں نے میرے دل کو دکھی کر دیا ہے اور میں تمہارے غم میں اندورنی طور پر بیمار ہوں ، دوسری بات یہ تھی کہ قوم کے لوگوں کے میلے میں چلے جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا اور جب ان لوگوں نے واپس آکر دیکھا کہ آپ نے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔ ان کا یہ جواب بھی اپنی ظاہری حیثیت میں ایک جھوٹ نظر آتا ہے ، لیکن یہاں بھی وہی صورت حال ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات اس مراد کے ساتھ کہی تھی کہ یہ جو بڑا بت ہے یہ تمہاری عبادات وتعظیم کے لئے ایک ممتاز ومنفرد حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اس کا وجود اس بات کا باعث بنا کہ میں دوسرے چھوٹے چھوٹے بتوں کو توڑ دوں یا اس بات سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد ان لوگوں کا مذاق اڑانا اور ان کو شرمندہ کرنا تھا کہ جس بت کو تم سب سے بڑا مانتے ہو اور سب سے زیادہ اس کی عبادت کرتے ہو ، اس کی لاچاری اور بے وقعتی کا یہ عالم ہے کہ اس کے ساتھی بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا گیا مگر وہ کسی بت کو بچا نہیں سکا ایسی صورت میں کیا یہ بت تمہاری پرستش کا مستحق ہو سکتا ہے ! اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسا کہ ایک شخص تو بہت زیادہ خوشخط ہو اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص بہت زیادہ بد خط ہو، اور وہ بدخط شخص خوشخط شخص کی کسی لکھی ہوئی تحریر کو دیکھ کر کہے کہ کیا یہ تحریر تم نے لکھی ہے اور خوشخط شخص اس کے جواب میں کہے کہ جی نہیں ، یہ تو تم نے لکھی ہے ، ظاہر ہے کہ اس جواب کے ذریعہ وہ یہی واضح کرتا ہے کہ تم تو اتنی اچھی تحریر ہر گز نہیں لکھ سکتے ، پھر یہاں میرے علاوہ اور کون لکھنے والا ہو سکتا ہے ! تیسری بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بیوی یعنی حضرت سارہ کو ایک بدکار کافر کے ہاتھوں سے بچانے کے لئے کہا تھا کہ یہ عورت میری بہن ہے یہ بات بھی بظاہر " جھوٹ " کے دائرہ میں آتی ہے ، لیکن اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ ایک مؤمن کی مؤمنہ بیوی بہرحال اس کی دینی بہن ہوتی ہے اور یہ بات کہنے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد بھی یہی تھی کہ یہ عورت میری دینی بہن ہے ، تو اس پر جھوٹ کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے ، ویسے یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چچازاد بہن بھی تھیں ، اس اعتبار سے بھی ان کا سارہ کو بہن کہنا کوئی جھوٹ نہیں تھا۔ اب حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف آئے ، دوسرے انبیاء کے برخلاف حضرت عیسی شفاعت کی درخواست لے کر آنے والوں کے سامنے اپنے کسی عذر کو بیان نہیں کریں گے اور نہ اپنی کسی لغزش کا ذکر کریں گے ، اس کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ حضرت عیسی اس وقت اپنا عذر بیان کرنے میں توقف شاید اسی لئے کرینگے کہ وہ اس تہمت کی وجہ سے جو عیسائیوں کی طرف سے ان کو اللہ کا بیٹا کہے جانے کی صورت میں ان پر تھوپی گئی ہے ، اس درجہ شرمندہ ونادم ہوں گے کہ وہ اپنی خاموشی ہی کو زبان حال سے عذر بنا لیں گے ویسے بعض روایتوں میں ان کے کچھ عذر نقل بھی کیے گئے ہیں ، بہر حال اصل بات یہ ہے کہ شفاعت کا درجہ صرف ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا جو سید المرسلین اور امام النبین ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے تمام انبیاء اور رسول صلوت اللہ علیہم اجمعین شفاعت کے مقام پر کھڑا ہونے اور بارگاہ رب العزت میں شفاعت کرنے سے عاجز وقاصر ہیں ، ان کو یہ بلند بالا مرتبہ عطا ہی نہیں ہوا ہے ، لہٰذا شفاعت کی درخواست لے کر آنے والوں کے سامنے انہیں کونسی عذر بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ، اور وہ سب یا ان میں سے کچھ انبیاء کوئی عذر بیان کیے بغیر یہی کہیں گے کہ ہم اس عظیم الشان امر کے اہل نہیں ہیں ۔ " جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیے ہیں ۔ " اس جملہ کے سلسلہ میں واضح رہے کہ تمام ہی انبیاء معصوم عن الخطا یعنی گناہوں سے محفوظ ہیں چہ جائیکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بدرجہا اولی اس سے پاک ومنزہ ہیں کہ کسی گناہ کی نسبت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو ، پس یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ " ان کے سارے اگلے پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں ۔ " یہ معنی رکھتا ہے ؟ اس کے بارے میں علماء نے مختلف باتیں کہی ہیں اور اس جملہ کی متعدد تاویلیں منقول ہیں ، لیکن زیادہ واضح تاویل یہ ہے کہ یہ جملہ دراصل بارگاہ رب العزت کی جانب سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم اعزاز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برتر فضیلت کے اظہار کا ذریعہ ہے قطع نظر اس امر کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس کی بخشش کی جائے ! اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی امر مطلق اور بادشاہ اپنے کسی خاص مصاحب کو ہر حالت میں اپنا مطیع و فرمانبردار پرکھ لیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو اپنے دوسرے مصاحبوں اور رعایا کے لوگوں کے درمیان اس خاص مصاحب کی امتیازی اور مخصوص حیثیت کو ظاہر کرنے کے لئے اس سے یہ کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں معاف کیا خواہ تم نے کچھ ہی کیا ہو اور آئندہ تم جو کرو وہ بھی معاف ، تم پر کوئی مواخذہ اور گرفت نہیں ۔ " اور میں در رب العزت پر پہنچ کر اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ۔ " یہ جملہ حدیث کی اس عبارت ۔" کا آزاد ترجمہ ہے اگر اس عبارت کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ یوں ہوگا کہ پس میں اپنے پرودگار کے پاس اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت طلب کروں گا ۔ " اس صورت میں کہا جائے گا کہ " اس کے مکان " سے مراد اس کی طرف سے عطا ہونے والے اجروثواب کی جگہ یعنی جنت ہے ۔ " لیکن یہ مراد گنجلک ہے ، زیادہ واضح تاویل وہ ہے جو علامہ تورپشتی نے بیان کی ہے ، انہوں نے لکھا ہے کہ " پروردگار کے پاس اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے " سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ اجازت مانگیں گے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام میں داخل ہونے کی اجازت عطا کرے جہاں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے جہاں پہنچ کر جو بھی عرض ودعا کی جائے ، اس کا منظور ومقبول ہونا یقینی ہے اور جہاں پہنچ کر کھڑے ہونے والے اور پروردگار کے درمیان کوئی حجاب حائل نہیں ہے ، اور یہ وہ مقام ہے جس کو مقام محمود " سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی کو مقام شفاعت " بھی کہتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ پروردگار تو مکان ولامکان کی قید سے پاک ہے ۔ اس کو جہاں بھی پکارا جائے اور جس جگہ بھی اس سے عرض ودعا کی جائے وہ وہیں موجود ہے اور وہیں سنتا اور دیکھتا ہے تو پھر اس کی کیا ضرورت ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میدان حشر میں جس جگہ لوگوں کی شفاعت کی درخواست قبول کریں گے وہاں سے چل کر اس مقام خاص پر بارگاہ رب العزت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کریں گے اور پھر عرض ومعروض کریں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مؤقف ( یعنی میدان حشر کہ جہاں لوگ ٹھہرے ہوں گے ) دراصل ایک ایسے ملکی نظام کی طرح ہوگا جو کسی باقاعدہ اور مہذب حکومت کے تحت ہو، جہاں ہر شخص کے مرتبہ ودرجہ کے مطابق طریق کار اور نظم عمل کا ( اصول کار فرما ہو ، چنانچہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم " شافع " کی حیثیت رکھیں گے اور " شافع " کا یہ حق ہے کہ وہ اعزاز واکرام کی جگہ آکر کھڑا ہو ، لہٰذا اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ بات ڈالے گا کہ وہ اس جگہ سے چل کر جو خوف وہولناکی اور وحشت وگھبراہٹ سے گھری ہوگی ، اس جگہ آئیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز واکرام کا مقام ہے ، تاکہ آپ وہاں اطمینان اور دلجمی کے ساتھ عرض ومعروض کر سکیں ۔ اور اس حمد وتعریف کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا ۔۔۔ الخ سے حضور نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اس وقت میں جن الفاظ ، جس اسلوب اور جس انداز میں اللہ رب العزت کی تعریف وتوصیف بیان کرونگا وہ کیا ہوگا ۔ اس وقت اس کا علم مجھے بھی نہیں ہے وہ سب کچھ مجھے اسی وقت سکھایا اور بتایا جائے گا اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوتعریف اس موقع اور اس مقام کی مناسبت سے جس قدر وسعت وگہرائی رکھ سکتی ہے اس کا ادراک یہاں کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ اسی اعتبار سے اس مقام کو " مقام حمد " اور مقام محمود کہتے ہیں ۔ حدیث کے اس جزو سے یہ بات ہوئی کہ جو شخص کسی سے سفارش کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ پہلے اس ( اس سفارش قبول کرنے والے کی تعریف وتوصیف کرے تاکہ اس کا قرب اور اس کی توجہ حاصل کر سکے اور قبول سفارش سے نوازا جائے ۔ " پھر میں شفاعت کروں گا " کے ضمن میں قاضی نے لکھا ہے کہ حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی خوب خوب حمد و ثنا کریں گے اور پھر اس حمدو ثناء کے بعد شفاعت کی اجازت پا کر امتی امتی کہنا شروع کریں گے ۔ " اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی " کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے یہ متعین فرما دے گا کہ ایسے ایسے گنہگاروں کی شفاعت کرو ، مثلا وہ فرمائے گا کہ اپنی امت کے ان لوگوں کی شفاعت کرو جو زنا کار تھے ، یا جو بے نمازی تھے اور یا جو شراب نوش تھے ، چنانچہ میں اسی تعین کے ساتھ شفاعت کروں گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے زانیوں کے حق میں تمہاری سفارش قبول کی ، پھر فرمائے گا کہ میں نے بے نمازیوں کے حق میں تمہاری شفاعت قبول کی ۔ اسی پر دوسرے طبقوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ اور اس جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث کے شروع میں تو یہ مذکور ہے کہ شفاعت کی درخواست کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کو میدان حشر میں محصور کیا گیا ہوگا اور وہاں کی تنگی وسختی اور کرب وہولناکی سے تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش چاہیں گے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس جگہ کی پریشانیوں اور ہولنا کیوں سے نجات دلائیں لیکن یہاں حدیث کے اس جزو میں جب بارگاہ خداوندی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول ہونے کا ذکر آیا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسے شفاعت کی درخواست کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہوگا ! ؟ اس کے دو جواب ہیں ، ایک تو یہ کہ شاید اہل ایمان کے دو طبقے ہونگے ایک طبقہ کو تو ( جو اپنے گناہوں کے سبب سزا کا مستوجب ہوگا ) میدان حشر میں محصور کیے بغیر دوزخ میں بھیج دیا جائے گا ، اور یہی طبقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کی درخواست کرے گا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے ذریعہ اس طبقہ کو اس بدترین حالت سے کہ جس میں وہ گرفتار ہوگا نجات دلا کر جنت میں پہنچوائیں گے اور پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طبقہ کے حق میں جماعت جماعت کر کے شفاعت فرمائے گے جو دوزخ میں ڈالا جا چکا ہوگا ، اور متعدد دفعوں میں ان کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کروائیں گے ! اس جواب کا حاصل یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہاں صرف اسی ایک طبقہ کا ذکر فرمایا اور اختصار کلام کے طور پر دوسرے طبقہ کے ذکر کو حذف فرما دیا کیونکہ اس ایک طبقہ کو نجات دلانے کے ذکر سے دوسرے طبقہ کو نجات دلانے کے ذکر سے دوسرے طبقہ کو نجات دلانا بطریق اولی مفہوم ہو جاتا ہے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ حدیث میں یہاں " نار " ( یعنی آگ ) کا لفظ منقول ہے جس کا ترجمہ " دوزخ " کیا گیا ہے " لیکن ہو سکتا ہے کہ " نار " یعنی آگ سے مراد" دوزخ " نہ ہو بلکہ وہ سخت حبس ، تپش اور گرمی مراد ہو جو میدان حشر میں سورج کے بہت قریب آجانے کی وجہ سے وہاں محسوس کی جائے گی اور " نکلوانے " سے مراد اس سخت تپش اور گرمی سے لوگوں کو چھٹکارا دلانا ہو ، اس صورت میں حدیث کی اس عبارت فاخرجہم من النار وادخلہم الجنۃ کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں شفاعت قبول ہونے کے بعد درگاہ رب العزت سے باہر آؤں گا اور لوگوں کو سخت ترین تپش اور گرمی سے چھٹکارا دلا کر جنت تک پہنچواؤں گا یہ جواب اگرچہ ایک ایسی وضاحت ہے جس پر مجازی اسلوب کا اطلاق ہو سکتا ہے ، مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی جواب حقیقت امر کے بہت قریب ہے اور حدیث کے اصل موضوع کے نہایت مناسب ہے ، کیونکہ اس ارشاد گرامی میں جس شفاعت کا ذکر ہو رہا ہے اس سے " شفاعت عظمی " مراد ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد ادم ومن دونہ تحت لوائی یوم القیامۃ ۔ کے بموجب مقام محمود اور لوائے ممدود سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس شفاعت عظمی کا اصل مقصد تمام مخلوق کو میدان حشر کی پریشانیوں اور ہولنا کیوں سے چھٹکارا دلانا ، جہاں وہ حساب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے اور ان کا حساب جلد کرنا ہوگا ، نیز یہی وہ شفاعت ہے جو صرف آنحضرت کے لئے مخصوص ہے ، اس کے بعد پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، دوسرے انبیاء ، اولیاء علماء ، صلحا ، شہدا اور فقراء کی طرف سے متعدد شفاعتیں ہوں گی جن کی تفصیل ابتدائے باب میں بیان ہو چکی ہے ۔ یہی وہ مقام محمود ہے ۔۔۔ الخ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں حضور کے لئے جس " مقام محمود " کا وعدہ کیا ہے وہ اسی " شفاعت عظمی " کا مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو عطا نہیں ہوگا ۔ واضح رہے کہ اس مقام کی صفت لفظ " محمود " کے ساتھ یا تو اس اعتبار سے ہے کہ اس مقام پر کھڑا ہونے والا اس کی تعریف کرے گا اور اس کو پہچانے گا ، یا اس اعتبار سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر کھڑے ہو کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کریں گے اور یا اس اعتبار سے ہے کہ وہ مقام عطا ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف تمام اولین وآخرین مخلوق کی زبان پر ہوگی ۔
-