سورت الم تنزیل السجدہ کا سجدہ

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَاَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم سَجَدَ فِیْ صَلٰوۃِ الظُّھْرِ ثُمَّ قَامَ فَرَکَعَ فَرَأَوْا اَنَّہُ قَرَأتَنْزِیْلَ السَّجْدَۃِ۔ (رواہ ابوداؤ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز میں سجدہ کیا اور کھڑے ہوئے پھر رکوع کیا اور لوگوں کو یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت الم تنزیل السجدہ پڑھی ہے۔" (ابوداؤد) تشریح صحابہ نے محض سجدے سے معلوم نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت آلم تنزیل السجدہ پڑھی ہے بلکہ سورت کی ایک آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی اس سے انہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورت پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (آہستہ آواز سے پڑھی جانے والی نمازوں میں) کبھی کبھی ایک آیت بآواز بلند بھی پڑھ دیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں سورت کی قرات ہو رہی ہے یا یہ کہ انتہائی شوق اور حضور قلب کی وجہ سے بے اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان مقدس سے کوئی آیت بآواز بلند جاری ہو جاتی تھی۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت سجدہ پڑھ کر جب سجدہ کیا اور سجدے سے اٹھے تو بقیہ سورت پوری نہیں کی بلکہ رکوع میں چلے گئے چنانچہ یہ جائز ہے اگرچہ افضل یہی ہے کہ سجدے سے اٹھ کر بقیہ سورت پوری کی جائے اس کے بعد رکوع کیا جائے لہٰذا یہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بیان جواز کی خاطر کیا ہو باوجود یہ نص سے بصراحت تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ سورت پوری نہیں کی اور رکوع میں چلے گئے تاہم بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض رکوع پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مستقلاً سجدہ کیا جیسا کہ حنفیہ کے ہاں ایسی صورت میں رکوع ہی میں سجدہ ادا ہو جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ افضل اور اولیٰ چونکہ سجدہ کر لینا ہی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل طریقہ کو اختیار فرمایا ۔
-