رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم

عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا قَامَ ےُصَلِّیْ جَا ءَ ہُ الشَّےْطَانُ فَلَبَسَ عَلَیْہِ حَتّٰی لَا ےَدْرِیْ کَمْ صَلّٰی فَاِذَا وَجَدَ ذَلِکَ اَحَدُکُمْ فَلْےَسْجُدْ سَجْدَتَےْنِ وَھُوَ جَالِسٌ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس (نمازی) کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں، لہٰذا تم میں سے کسی کو اگر یہ صورت پیش آئے تو اسے چاہیے کہ وہ آخری قعدے میں) بیٹھ کر دو سجدے کرے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ سہو سے متعلق نہیں ہے بلکہ شک کی صورت ہے اور شک و سہو کے درمیان فرق یہ ہے کہ سہو میں ایک جانب کا تعین ہوتا ہے (کہ فلاں چیز بھول گیا ) اور شک میں تردد ہوتا ہے کہ آیا یہ صحیح ہے یا وہ اور شیطان ملعون کی کیا مجال تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شک و شبہ میں مبتلا کر دیتا۔ ہاں غلبہ استغراق اور آخرت کی طرف بے انتہا توجہ کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہو جاتا تھا۔ سجدہ سہو واجب ہونے کے سلسلہ میں شک اور سہو دونوں کا یکساں حکم ہے، اس مسئلے کی پوری وضاحت آئندہ حدیث کے فائدہ میں ملا حظہ فرما یے۔
-
وَعَنْ عَطَآءِ بْنِ ےَسَارٍص عَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا شَکَّ اَحَدُکُمْ فِیْ صَلٰوتِہٖ فَلَمْ ےَدْرِکَمْ صَلّٰی ثَلٰثًا وَّاَرْبَعًا فَلْےَطْرِحِ الشَّکَّ وَلْےَبْنِ عَلٰی مَا اسْتَےْقَنَ ثُمَّ ےَسْجُدْ سَجْدَتَےْنِ قَبْلَ اَنْ ےُسَلِّمَ فَاِنْ کَانَ صَلّٰی خَمْسًا شَفَعْنَ لَہُ صَلٰوتَہُ وَاِنْ کَانَ صَلّٰی اِتَمَامًا لِّاَرْبَعٍ کَانَتَا تَرْغِےْمًا لِّلشَّےْطَانِ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ )-
" اور حضرت عطاء ابن یسار حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی درمیان نماز شک میں مبتلا ہو جائے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا شک دور کرے اور جس عدد پر اسے یقین ہو اس پر بناء کرے (یعنی کسی ایک عدد کا تعین کر کے نماز پوری کر لے) اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے۔ اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ پانچ رکعتیں ان دو سجدوں کے ذریعے اس کی نماز کو جفت کر دیں گی اور اگر اس نے پوری چار رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بنیں گے مسلم اور مالک نے اس روایت کو عطاء سے بطریق ارسال نقل کیا ہے نیز امام مالک کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں " کہ نمازی ان دونوں سجدوں کے ذریعے پانچ رکعتوں کو جفت کر دے گا۔" تشریح صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے درمیان نماز وہ شک و شبہ میں مبتلا ہو گیا یعنی اسے یاد نہیں رہا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اسے چاہئے کہ وہ کمتر عدد کا تعین کرے اور اسی کا گمان غالب کر کے نماز پڑھ لے مثلاً اسے یہ شبہ ہو کہ نہ معلوم میں نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اس صورت میں اس تین رکعتوں کا تعین کر کے نماز پوری کرنی چاہیے اور پھر آخری قعدے میں التحیات پڑھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے دائیں طرف سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کرنا چاہئے۔ صحیح البخاری کی روایت میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے کی قید نہیں ہے چنانچہ اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرنے چاہئے یا سلام پھیرنے کے بعد۔ اس مسئلے کی تفصیل ہم آئندہ کسی حدیث کے فائدہ کے ضمن میں بیان کریں گے۔ حدیث میں سہو کے دونوں سجدوں کا فائدہ بھی بتایا گیا ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی آدمی نے مذکورہ صورت میں تین رکعت کا تعین کر کے ایک رکعت اور پڑھ لی حالانکہ حقیقت میں وہ چار رکعتیں پہلے پڑھ چکا تھا اس طرح اس کی پانچ رکعتیں ہوگئی تو پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں کی وجہ سے اس کی نماز کو شفع (جفت کر دیں گی کیونکہ وہ دونوں سجدے ایک رکعت کے حکم میں ہیں یعنی یہ پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں سے مل کر چھ رکعت کے حکم میں ہو جائیں گی اور اگر اس نے حقیقت میں تین ہی رکعتیں پڑھی ہیں اور سہو کی صورت میں اس نے تین ہی کا تعین کرکے ایک رکعت اور پڑھی اور اس کی چار رکعتیں پوری ہوگئیں تو اس کے وہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بن جائیں گے۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس آدمی نے چار ہی رکعتیں پڑھی ہیں تو دونوں سجدوں کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ نماز کو جفت کر دیں جیسا کہ پہلی صورت (پانچ رکعتیں پڑھنے کی صورت) میں ان دونوں سجدوں کی ضرورت تھی لیکن ان دونوں سجدوں کو جو بظاہر زائد معلوم ہوتے ہیں یہ فائدہ ہوا کہ ان سے شیطان کی ذلت و ناکامی ہوئی۔ کیونکہ شیطان کا مقصد تو یہ تھا کہ وہ نمازی کو شک و شبہ میں مبتلا کر کے اسے عبادت سے باز رکھے حالانکہ نمازی نے اس کے برعکس دو سجدے اور کر کے عبادت چھوڑنے کی بجائے اس میں زیادتی کی جو یقینی بات ہے کہ شیطان کی ناکامی و نامرادی کا باعث ہے۔ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شک کی صورت میں اقل (کمتر) کو اختیار کرنا چاہئے تحری (غالب گمان ) پر عمل نہ کیا جائے چنانچہ جمہور ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام ترمذی کا قول یہ ہے کہ اہل علم میں سے بعض حضرات کا مسلک یہ ہے کہ شک کی صورت میں نماز کا اعادہ کرنا چاہیے یعنی اگر کسی کو درمیان نماز میں رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو از سر نو پڑھے۔ اس مسئلے میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کا حاصل یہ ہے کہ " اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہو جائے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اگر اس آدمی کی عادت شک کرنے کی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ پھر نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر اس کو شک ہونے کی عادت ہو تو اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جتنی رکعتیں اس کو غالب گمان سے یاد پڑیں تو اسی قدر رکعتیں سمجھے کہ پڑھ چکا ہے اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو کمتر عدد کو اختیار کرے مثلاً کسی کو ظہر کی نماز میں شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اسے کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے اور ایک رکعت اور پڑھ کر نماز پوری کرلے پھر سجدہ سہو کر لے۔ اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ غالب گمان پر عمل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں غالب گمان کو اختیار کرنے کی اصل موجود ہے جیسا کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسی جگہ نماز پڑھنا چاہے جہاں سے قبلے کی سمت معلوم نہ ہو سکے تو اس کے لیے حکم ہے کہ وہ جس سمت کے بارے میں غالب گمان رکھے کہ ادھر قبلہ ہے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کی نماز ہو جائے گی۔ غالب گمان کو اختیار کرنے کے سلسلے میں احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کر کے (یعنی کسی ایک پہلو پر غالب گمان کر کے ) نماز پوری کر لے" اس حدیث کو شمنی نے بھی شرح نقایہ میں نقل کیا ہے نیز جامع الاصول میں بھی نسائی سے ایک حدیث تحری ( غالب گمان) پر عمل کرنے کے صحیح ہونے کے بارے میں منقول ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب موطا میں تحری کی افادیت کے سلسلے میں یہ کہتے ہوئے کہ " تحری کے سلسلے میں بہت آثار وارد ہیں " بڑی اچھی بات یہ کہی ہے کہ " اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی تحری کو قابل قبول نہ قرار دیا جائے تو شک اور سہو سے نجات ملنی بڑے مشکل ہوگی اور پہر شک و شبہ کی صورت میں اعادہ بڑی پریشانی کا باعث بن جائے گا۔" حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس موقع پر مسئلہ مذکورہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ " اس موقع پر حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تین احادیث منقول ہیں۔ پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں جب بھی کسی کو شک واقع ہو جائے تو وہ نماز کو از سر نو پڑھے دوسری حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جب کسی کو نماز میں شک واقع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ صحیح بات کو حاصل کرنے کے لئے تحری کرے۔ یعنی غالب گمان پر عمل کرے۔ تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ " جب نماز میں شک واقع ہو تو یقین پر عمل کرنا چاہیے یعنی جس پہلو پر یقین ہو اسی پر عمل کیا جائے" حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان تینوں حدیثوں کو اپنے مسلک میں جمع کر دیا ہے اس طرح کہ انہوں نے پہلی حدیث کو تو مرتبہ شک واقع ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے، دوسری حدیث کو کسی ایک پہلو پر غالب گمان ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے اور تیسری حدیث کو کسی بھی پہلو پر غالب گمان نہ ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ " حضرت امام اعظم" کے مسلک کے کمال جامعیت اور انتہائی محقق ہونے کی دلیل ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍِص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی الظُّھْرَ خَمْسًا فَقِےْلَ لَہُ اَزِےْدَ فِی الصَّلٰوۃِ فَقَالَ وَمَا ذَاکَ قَالُوْا صَلَّےْتَ خَمْسًا فَسَجَدَ سَجْدَتَےْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ قَالَ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ فَاِذَا نَسِےْتُ فَذَکِّرُوْنِیْ وَاِذَا شَکَّ اَحَدُکُمْ فِیْ صَلٰوتِہٖ فَلْےَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْےُتِمَّ عَلَےْہِ ثُمَّ لِےُسَلِّمْ ثُمَّ ےَسْجُدْ سَجْدَتَےْنِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ " کیا نماز میں کچھ زیادتی ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ " آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں" (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر لینے کے بعد دو سجدے کئے۔ اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں انسان ہی تو ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو اس طرح میں بھی بھول جاتا ہوں جب میں کچھ بھول جایا کروں، مجھے یاد دلایا کرو اور جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کرے اور اس رائے کی بنیاد پر نماز پوری کر لے اور پھر سلام پھیر کر دو سجدے کر لے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں کمتر پر عمل کرنے کو نہیں کہا گیا گو مراد یہی ہے کہ اگر تحری فائدہ نہ دے یعنی کسی بھی عدد کے بارے میں غالب گمان نہ ہو سکے تو کمتر عدد کو اختیار کر کے نماز پوری کرلی جائے چونکہ حضرات شوافع تحری کے قائل نہیں ہیں اس لیے وہ بھی اس حدیث کے الفاظ فلیتحر الصواب سے مراد " کمتر عدد کو اختیار کرنا " لیتے ہیں۔ حنفیہ کے ہاں پانچ رکعت ادا کر لینے کی صورت میں مسئلے کی کچھ تفصیل ہے۔ چنانچہ ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قعدہ اخیرہ بھول کر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور پانچویں رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے اسے یاد آجائے تو اسے چاہیے کہ فورًا بیٹھ جائے اور التحیات پڑھ کر سجدہ سہو کر لے۔ اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر چکا ہو تو پھر نہیں بیٹھ سکتا اور اس کی یہ نماز اگر فرض کی نیت سے پڑھ رہا تھا تو فرض ادا نہیں ہوگا بلکہ نفل ہو جائے گی۔ اور اس کو اختیار ہوگا کہ ایک رکعت کے ساتھ دوسری رکعت اور ملا دے تاکہ یہ رکعت بھی ضائع نہ ہو اور دو رکعتیں یہ بھی نفل ہو جائیں۔ اگر عصر اور فجر میں یہ واقعہ پیش آئے تب بھی دوسری رکعت ملا سکتا ہے اس لیے کہ عصر و فجر کے فرض کے بعد نفل مکروہ ہے اور یہ رکعتیں فرض نہیں رہی بلکہ نفل ہوگئی ہیں پس گویا فرض سے پہلے نفل پڑھی گئی ہیں اور اس میں کچھ کراہت نہیں۔ مغرب کے فرض میں صرف یہی رکعت کافی ہے دوسری رکعت نہ ملائی جائے، ورنہ پانچ رکعتیں ہو جائیں گی اور نفل میں طاق رکعتیں منقول نہیں اور اس صورت میں سجدہ سہو کی ضرورت نہ ہوگی۔ یہ شکل تو قعدہ اخیرہ میں بیٹھے بغیر رکعت کے لیے اٹھ جانے کی تھی۔ اگر کوئی آدمی قعدہ اخیرہ میں التحیات پڑھنے کے بقدر بیٹھ کر سلام پھیرنے سے پہلے پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو اگر وہ پانچویں رکعت کا سجدہ نہ کر چکا ہو تو فورا بیٹھ جائے اور چونکہ سلام کے ادا کرنے میں جو واجب تھا تاخیر ہوگئی اس لیے سجدہ سہو کر لے اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر نیکے بعد یاد آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ اب نہ بیٹھے بلکہ ایک رکعت اور ملا دے تاکہ یہ پانچوں رکعت ضائع نہ ہو اور اگر رکعت نہ ملائے بلکہ پانچویں رکعت کے بعد سلام پھیر دے تب بھی جائز ہے مگر ملا دینا بہتر ہے۔ اس صورت میں اس کی وہ رکعتیں اگر فرض نیت کی تھی تو فرض ادا ہوں گی نفل نہ ہوں گی۔ عصر اور فجر کے فرض میں بھی دوسری رکعت ملا سکتا ہے اس لیے کہ عصر اور فجر کے فرض کے بعد قصدا نفل پڑھنا مکروہ ہے اور اگر سہوا پڑھ بھی لیا جائے تو کچھ کراہت نہیں۔ اس صورت میں فرض کے بعد رکعتیں پڑھی گئیں ہیں یہ ان موکدہ سنتوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتیں جو فرض کے بعد ظہر و مغرب اور عشاء کے وقت مسنوں ہیں کیونکہ ان سنتوں کا تحریمہ سے ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت کے بعد قعدہ اخیرہ میں بیٹھ کر پھر بعد میں رکعت کے لیے اٹھ گئے تھے چونکہ اس حدیث سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچویں رکعت کے ساتھ چھٹی رکعت نہیں ملائی تھی اور صرف سہو پر اکتفاء کیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے اس لیے کہا جائے گا کہ یہاں یہ احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کی خاطر ایسا کیا ہوگا "
-
وَعَنِ ابْنِ سِےْرِےْنَ صعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْدٰی صَلٰوتَیِ الْعَشِیِّ قَالَ ابْنُ سِےْرِےْنَ قَدْ سَمَّاھَا اَبُوْ ھُرَےْرَۃَ وَ لٰکِنْ نَّسِےْتُ اَنَا قَالَ فَصَلّٰی بِنَا رَکْعَتَےْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ اِلٰی خَشْبَۃٍ مَّعْرُوْضَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَاَ تَّکَأَ عَلَےْھَا کَاَنَّہُ غَضْبَانٌ وَوَضَعَ ےَدَہُ الْےُمْنٰی عَلَی الْےُسْرٰی وَشَبَّکَ بَےْنَ اَصَابِعِہٖ وَوَضَعَ خَدَّہُ الْاَےْمَنَ عَلٰی ظَھْرِ کَفِّہِ الْےُسْرٰی وَخَرَجَتْ سَرْعَانُ الْقَوْمِ مِنْ اَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالُوْا قُصِرَتِ الصَّلٰوۃُ وَفِی الْقَوْمِ اَبُوْ بَکْرٍ وَّعُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَھَابَاہُ اَنْ ےُّکَلِّمَاہُ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ فِیْ ےَدَےْہِ طُوْلٌ ےُقَالُ لَہُ ذُوْالْےَدَےْنِ قَالَ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَسِےْتَ اَمْ قُصِرَتِ الصَّلٰوۃُ فَقَالَ لَمْ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ فَقَالَ اَکَمَا ےَقُوْلُ ذُوالْےَدَےْنِ فَقَالُوْا نَعَمْ فَتَقَدَّمَ فَصَلّٰی مَا تَرَکَ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ کَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُوْدِہٖ اَوْ اَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَہُ وَکَبَّرَ ثُمَّ کَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُوْدِہٖ اَوْ اَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَاسَہُ وَکَبَّرَ فَرُبَّمَا سَاَلُوْہُ ثُمَّ سَلَّمَ فَےُقُوْلُ نُبِّئْتُ اَنّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَےْنٍ قَالَ ثُمَّ سَلَّمَ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَلَفْظُہُ لِلْبُخَارِیِّ وَفِیْ اُخْرٰی لَھُمَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَدْلَ لَمْ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ کُلُّ ذَالِکَ لَمْ ےَکُنْ فَقَالَ قَدْکَانَ بَعْضُ ذَالِکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔-
" اور حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( آپ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابوبکر ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کے تیس بچے تھے جو آپ کی زندگی ہی میں سوائے ایک کے وفات پاگئے صرف ایک صاحبزادے عبداللہ بن محمد بن سیریں بقید حیات تھے۔ ستر سال کی عمر میں ١۱٠ھ میں ان انتقال ہوا۔) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا " (ایک دن) سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز جس کا نام ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو بتایا تھا مگر میں بھول گیا، ہمیں پڑھائی۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کی بجائے سلام پھیر لیا، پھر اس لکٹری کے سہارے جو مسجد میں عرضا کھڑی تھی کھڑے ہو گئے اور (محسوس ایسا ہوتا تھا ) گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنا بایاں رخسار مبارک اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ لیا۔ جلد باز لوگ (جو نماز کی ادائیگی کے بعد ذکر اور دعا وغیرہ کے لیے نہیں ٹھہرتے تھے ) مسجد کے دروازوں سے جانے لگے، صحابہ کہنے لگے کہ کیا نماز میں کمی ہو گئی ہے ؟ ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعت کے بجائے دو ہی کعتیں پڑھی ہیں؟) صحابہ کے درمیان (جو مسجد میں باقی رہ گئے تھے) حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی موجود تھے مگر خوف کی وجہ سے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرنے کی جرات نہ ہوئی صحابہ میں ایک اور آدمی (بھی ) تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور جنہیں (اسی وجہ سے ) ذوالیدین (یعنی ہاتھوں والا کے لقب سے) پکارا جاتا تھا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) بھول گئے ہیں یا نماز ہی میں کمی ہوگئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے" پھر (صحابہ سے مخاطب ہوئے اور ) فرمایا " کیا تم بھی یہی کہتے ہو جو ذوالیدین کہہ رہے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ " جی ہاں یہی بات ہے" اور یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آئے اور جو نماز (یعنی دو رکعت) چھوٹ گئی تھی اسے پڑھا اور سلام پھیر کر تکبیر کہی اور حسب معمول سجدوں جیسا یا ان سے بھی کچھ طویل سجدہ کیا اور پھر تکبیر کہہ کر سر اٹھایا " لوگ ابن سیرین سے پوچھنے لگے کہ " پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے عمران بن حصین سے یہ خبر ملی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا " اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔ اور صحیح البخاری ومسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالیدین کے جواب میں ) لم انس ولم تقصر (یعنی نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے) کے بجائے یہ فرمایا کہ " جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے" انہوں نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس میں سے کچھ ضرور ہوا ہے۔" تشریح فتح الباری میں اس حدیث کی بہت لمبی چوڑی شرح کی گئی ہے اگر اس کو یہاں نقل کی جائے تو بات بڑی لمبی ہو جائے گی البتہ اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ اس حدیث کے بارے میں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلا اشکال تو یہ ہے کہ علماء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ خبر میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہونا ناممکن ہے اور افعال میں بھی اختلاف ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ذوالیدین کے جواب میں جو یہ فرمایا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہی ہوئی ہے " کیا خلاف واقعہ نہیں ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر میں بھی سہو ہو سکتا تھا۔ اس کا جواب مختصر طریقہ پر یہ ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو ہونا ان خبروں میں نا ممکن ہے جو تبلیغ شرائع ، دینی علم اور وحی الہٰی سے متعلق ہیں نہ کہ تمام خبروں میں۔ دوسرا یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افعال بھی سرزد ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو بھی کی مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ جو رکعتیں باقی رہ گئیں تھی انہیں کو پورا کر لیا ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ مفسد نماز وہ کلام و افعال ہیں جو قصدا واقع ہوئے ہوں نہ کہ وہ کلام و افعال جو سہوا ہوگئے ہوں جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے ۔ لیکن چونکہ یہ جواب نہ صرف یہ کہ خود اپنے اندر جھول رکھتا ہے بلکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے ہاں مطلقا کلام مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصدا صادر ہوا ہو یا سہوا۔ اس لیے علماء حنفیہ کے نزدیک اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ نماز میں کلام اور افعال کا جواز منسوخ نہیں ہوا تھا۔ حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ نماز میں کلام مطلقاً مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصدا ہو یا سہوا مگر ان کے ہاں اتنی گنجائش بھی ہے کہ نماز میں جو کلام امام یا مقتدی سے نماز کی کسی مصلحت کے پیش نظر صادر ہوا ہوگا وہ مفسد نماز نہیں ہوگا جیسا کہ حدیث مذکورہ میں پیش آمدہ صورت ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو جب حضرت ابن سیرین لوگوں کے سامنے بیان کر چکے تو ان سے بطریق استفہام اکثر لوگوں نے پوچھا کہ کیا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ثم سلم بھی کہا تھا گویا ان لوگوں کے پوچھنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا یا پہلے کیا تھا اس کے جواب میں ابن سیرین نے کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں تو یہ الفاظ مجھے یاد نہیں پڑتے، ہاں حضرت عمران ابن حصین نے یہی حدیث مجھ سے روایت کی ہے ان کی روایت میں ثم سلم کے الفاظ موجود ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا اور میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ثم سلم کے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ عمران ابن حصین ہی کی روایت سے اس جگہ لایا ہوں۔
-