TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز قصر سے متعلقہ احادیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز قصر نہ پڑھنا
عَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کُلُّ ذٰلِکَ قَدْ فَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَصَرَ الصَّلَاَۃ وَاَتَمَّ ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)-
" ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر کی حالت میں) کم رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور پوری بھی پڑھی ہیں۔" (شرح النسۃ) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سفر میں دونوں طریقوں پر عمل فرماتے تھے یعنی چار رکعت والی نماز کی دو رکعتیں بھی پڑھتے تھے اور پوری چار رکعتیں بھی پڑھتے تھے ۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا عمل اسی حدیث پر ہے وہ فرماتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا بھی جائز ہے اور پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نماز پڑھے گا تو وہ گنہگار ہوگا۔ یہ حدیث اگرچہ امام شافعی کی دلیل ہے لیکن اہل نظر کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے سلسلہ روایت میں ابراہیم بن یحییٰ کا نام بھی آتا ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف قرار دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے اور سفر کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے اور دارقطنی اور بیہقی وغیرہ نے جو روایت نقل کی ہے جس سے حالت سفر میں اتمام اور قصر دونوں کا جواز ثابت ہوتا ہے بلکہ دار قطنی نے اس کی صراحت بھی کی ہے کہ اس کی سند صحیح ہے تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا تعلق حکم اول سے ہوگا یعنی ابتداء میں تو اتمام اور قصر دونوں جائز تھے۔ مگر بعد میں قصر ہی کو ضروری قرار دیدیا گیا۔ یہاں حضرت عائشہ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ حدیث کے پہلے جزء کا تعلق تو ان نمازوں سے ہے جن میں قصر کیا جاتا ہے مثلاً چار رکعتوں والی نماز اور دوسرے جز کا تعلق ان نمازں سے ہے جن میں قصر ہوتا ہی نہیں جیسے تین یا دو رکعتوں والی نماز یعنی چار رکعتوں والی نماز میں تو قصر کرتے تھے اور تین و دو رکعتوں والی نماز کو پورا کر کے پڑھتے تھے اسی مفہوم کو مراد لینے سے ظاہری معنی و مفہوم سے زیادہ دور جانا نہیں پڑتا کیونکہ قصر و اتمام دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مفہوم ہو جاتے ہیں اور یہ تو جیہہ بہت مناسب اور قریب از حقیقت ہے۔ بلا قصد وارادہ پندرہ دن سے زیادہ قیام کی صورت میں قصر جائز ہے
-
وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ غَرَوْتُ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَشَھِدْتُ مَعَہُ الْفَتْحَ فَاقَامَ بِمَکَّۃَ ثَمَانِیَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً لَا یُصَلِّی اِلَّا رَکْعَتَیْنِ یَقُوْلُ یَا اَھْلَ الْبَلَدِ صَلُّوْا اَرْبَعًا فَاِنَّا سَفْرٌ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوات میں شامل ہوا ہوں چنانچہ فتح مکہ میں (بھی ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس موقع پر) مکہ میں اٹھارہ راتیں مقیم رہے اور (چار رکعتوں کی نماز) دو رکعت پڑھتے رہے اور یہ فرما دیا کرتے تھے کہ اے اہل شہر تم لوگ چار رکعت نماز پڑھو میں مسافر ہوں۔" (صحیح البخاری ) تشریح پہلے بتایا جا چکا ہے کہ کسی جگہ بلا قصد و ارادہ پندرہ روز سے زیادہ بھی قیام کی صورت میں مسافر نماز قصر پڑھ سکتا ہے چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اٹھارہ راتیں رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آج کل میں وہاں سے روانگی کا پروگرام بناتے رہے مگر قیام بغیر قصد و ارادہ کے اتنا طویل ہو گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصر نماز پڑھتے رہے چونکہ مکہ کے قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امامت فرماتے تھے۔ اس لیے آپ اپنی دو رکعتیں پوری کر کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کو فرما دیا کرتے تھے کہ اہل شہر چار رکعت نماز پوری کرو میں مسافر ہوں چنانچہ مسافر امام کے لیے مقیم مقتدیوں کو اس طرح مطلع کر دینا مستحب ہے۔ اسی حدیث سے معلوم ہو گیا کہ اگر مقیم مسافر کی اقتداء کرے تو اس کے لیے چار رکعت نماز پوری پڑھنی ضروری ہے امام کی متابعت میں دو رکعتیں ہی پڑھنی جائز نہیں ہے ہاں اگر مسافر مقیم کی اقتداء کرے تو اس کو متابعت کے پیش نظر چار رکعتیں ہی پڑھنی چاہیے۔
-