دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے؟

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَنَتَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم شَھْرًا مُتَتَا بِعًا فِی الظُّھْرِ وَ الْعَصْرِ وَ الْمَغْرِبِ وَ الْعِشَاءِ وَصَلَاۃِ الصُّبْحِ اِذَا قَالَ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ، مِنَ الرَّکْعَۃِ الْاٰخِرَۃِ یَدْعُوْ عَلٰی اَحْیَآءٍ مِّنْ بَنِی سُلَیْمٍ عَلَی رَعْلٍ وَذَکْوَانَ وَ عُصَیَّۃَ وَیُؤَمِّنُ خَلْفَہ،۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ایک مہینہ تک (یعنی ہر روز) ظہر ، عصر، مغرب ، عشاء اور فجر کی نمازوں کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد قنوت پڑھی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی سلیم کے چند قبیلوں رعل، ذکوان اور عصیہ کے لیے بد دعا کرتے تھے اور پیچھے کے لوگ (یعنی مقتدی) آمین کہتے تھے۔" (ابوداؤد) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہمیشہ فرض نمازوں میں دعا قنوت نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ جب مسلمانوں کے لیے کوئی حادثہ پیش آجائے مثلاً کوئی دشمن حملہ کر دے، قحط پڑ جائے یا کوئی وبا پھیل جائے تو ایسے وقت میں فرض نمازوں میں دعا قنوت پڑھی جائے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَنَتَ شَھْرًا ثُمَّ تَرَکَہ،۔ (رواہ ابود والنسائی)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک (رکوع کے بعد ) دعاء قنوت پڑھی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مطلقاً فرض نمازوں میں یا یہ کہ رکوع کے بعد قنوت پڑھنے کو ترک کر دیا۔" (ابوداؤد ، سنن نسائی ) تشریح اکثر اہل علم یہی فرماتے ہیں کہ دعاء قنوت نہ تو فجر کی نماز میں مشروع ہے اور نہ وتر کے علاوہ کسی دوسری نماز میں ، چنانچہ یہ حضرات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث بھی ہیں جو فرض نمازوں میں ترک قنوت پر دلالت کرتی ہیں، اہل علم اور محققین اس کی تفصیل مرقاۃ میں ملا حظہ فرما سکتے ہیں۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ فجر کی نماز میں تو دعاء قوت ہمیشہ پڑھنی چاہیے اور نمازوں میں کسی حادثے اور وبا کے وقت پڑھی جائے۔
-
وَعَنْ اَبِی مَالِکِ الْاَشْجَعِیِّ قَالَ قُلْتُ لِاَبِی یَا اَبَتِ اِنَّکَ قَدْ صَلَّیْتَ خَلْفَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبِیْ بِکْرٍ وَّ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ وَ عَلِیٍّ ھٰھُنَا بِالْکُوَفَۃِ نَحْوًَا مِّنْ خَمْسِ سَنِیْنَ اَکَانُوْا یَقْتَنُوْنَ قَالَ اَیْ بُنَیَّ مُحْدَثٌ۔ (رواہ الترمذی والنسا ئی وابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابومالک اشجعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم سے دریافت کیا کہ ابا جان ! آپ نے سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہم کے پیچھے یہیں کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک نماز پڑھی ہے کیا یہ حضرات دعاء قنوت پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ " میرے بیٹے ! قنوت بدعت ہے۔" (جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت ابومالک اپنے والد محترم سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء اربعہ بھی فجر کی نماز میں اور دیگر نمازوں میں قنوت پڑھتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض لوگ ان نمازوں میں قنوت پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب ان کے والد نے یہ دیا کہ جو لوگ فجر کی اور دوسری نمازوں میں مستقل طریقے سے یعنی ہمیشہ دعاء قنوت پڑھتے ہیں وہ بدعت میں مبتلا ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو وتر کے علاوہ فجر کی نماز میں صرف ایک مہینہ تک قنوت پڑھی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک کر دیا تھا جیسا کہ ابھی پچھلی حدیث میں ذکر کیا گیا ، گویا کہ یہ حدیث حضرت امام ابوحنیفہ کی دلیل ہے۔ حضرات شوافع فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں نماز فجر کے اندر قنوت نہ پڑھنا ذکر کیا گیا ہے وہ سب ضعیف ہیں لیکن ملا علی قاری نے اس قول کا جواب بہت معقول اور مدلل طریقے سے دیا ہے نیز انہوں نے خلفاء اربعہ سے بھی اس طرح کی روایتیں نقل کی ہیں اس بحث کی تفصیل ان کی شرح میں دیکھی جا سکتی ہے۔
-