درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی بِھِمْ فَسَھَا فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ ثُمَّ تَشَھَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ-
" اور حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز ) لوگوں کو نماز پڑھائی ( درمیان نماز ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہو گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سلام پھیر کر) دو سجدے کئے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات پڑھی اور سلام پھیرا ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔" تشریح حضرت عمران کا قول فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ کا مطلب یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر کر سہو کے دونوں سجدے کئے جیسا کہ تیسری فصل کی پہلی حدیث سے (جو انہیں سے مروی ہے) بصراحت معلوم ہو جائے گی۔ اس حدیث میں نماز کا وہ رکن ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کو بھول گئے تھے نیز اس حدیث میں سجدے کے بعد تشہد پڑھنے کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسری روایتوں میں تشہد کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت عمران کی اس روایت کی روشنی میں جو تیسری فصل میں آرہی ہے یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی دلیل ہے کہ پہلے سلام پھیر کر پھر سجدئہ سہو کرنا چاہیے۔ اسی طرح امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ شوافع و مالکیہ کے بعض حضرات کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ درود و دعا جو التحیات میں پڑھی جاتی ہیں اسے تشہد میں پڑھنا چاہیے جو سجدہ سہو سے پہلے ہے یا سجدے کے بعد کے تشہد میں پڑھنا چاہیے؟ چنانچہ امام کرخی نے تو یہ اختیار کیا ہے کہ درود و دعا سجدہ سہو کے بعد کے تشہد میں پڑھے جائیں اور ہدایہ میں بھی اسی کو صحیح کہا گیا ہے۔ البتہ ہدایہ کی بعض شروح میں یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے تشہد میں پڑھنا بہتر ہے۔ امام طحاوی کا قول یہ ہے کہ دونوں تشہد میں پڑھنا چاہیے۔ شیخ ابن ہمام نے بھی امام طحاوی کے قول کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے۔ حنفیہ کا معمول پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ " التحیات پڑھنے کے بعد دائیں طرف سلام پھیرا جائے اس کے بعد سہو کے دو سجدے کئے جائیں اس کے بعد دوبارہ التحیات اور پھر درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے۔
-
وَعَنِ الْمُغِیْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اَقَامَ الْاِمَامُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ فَاِنْ ذَکَرَ قَبْلَ اَنْ یَسْتَوِی قَائِمًا فَلْیَجْلِسْ وَاِنْ اسْتَویٰ قَائِمًا فَلَا یَجْلِسْ وَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَی السَّھْوِ۔ (رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب امام دو رکعت پڑھ کر (پہلے قعدہ میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لیے ) کھڑا ہو جائے تو اگر سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے اسے یاد آجائے تو اسے چاہیے کہ وہ (قعدہ کے لیے) بیٹھ جائے اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو چکا ہو (اس کے بعد اسے یاد آئے) تو وہ (اب ) نہ بیٹھے اور (آخری قعدہ میں) سہو کے دو سجدے کر لے۔" (سنن ابوداؤد، و سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صورت مذکورہ میں معتبر پوری طرح کھڑا ہونا یا پوری طرح کھڑا نہ ہونا ہے ۔ اس سلسلہ میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ایسا آدمی اگر بیٹھنے کے قریب تر ہو جائے تو التحیات پڑھے اور اگر کھڑے ہونے کے قریب تر ہو تو نہ بیٹھے بلکہ اپنی بقیہ دونوں رکعتیں پوری کر لے۔ " قریب تر بیٹھنے" مطلب یہ ہے کہ اٹھتے وقت اس کے نیچے کا بدن (مثلاً ٹانگیں وغیرہ) سیدھا نہ ہو جائے اور اگر نیچے کا بدن سیدھا ہو جائے تو کھڑے ہونے کے قریب تر ہو گا۔ شیخ ابن الہمام نے کہا ہے کہ اقربیت کے سلسلہ میں امام ابویوسف کی بھی ایک روایت ہے جس کو صحیح البخاری کے مشائخ نے اختیار کیا ہے مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا صحیح مسلک یہی ہے کہ جب تک پورا کھڑا نہ ہو جائے بیٹھا جا سکتا ہے پورا کھڑا ہو جانے کی صورت میں بیٹھنا نہیں چاہیے، یہی قول صحیح ہے اور اس کی تائید یہ حدیث بھی کرتی ہے۔ اگر کوئی آدمی کھڑا ہونے سے پہلے قعدے کے لیے بیٹھ جائے تو اس کے لیے سجدہ سہو کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہاں جو آدمی پورا کھڑا ہو جائے اور اس سے پہلا قعدہ چھوٹ جائے تو اس کو سجدہ سہو کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں اتنی بات اور جان لیجئے جب کوئی آدمی پہلے قعدے میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لیے پوری طرح کھڑا ہو جائے تو اس کو بیٹھنا نہیں چاہیے کیونکہ اگر وہ بیٹھ جائے گا تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔
-
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَےْنٍص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی الْعَصْرَ وَسَلَّمَ فِیْ ثَلٰثِ رَکْعٰتٍ ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلَہُ فَقَامَ اِلَےْہِ رَجُلٌ ےُقَالُ لَہُ الْخِرْبَاقُ وَکَانَ فِیْ ےَدَےْہِ طُوْلٌ فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَذَکَرَ لَہُ صَنِےْعَہُ فَخَرَجَ غَضْبَانَ ےَجُرُّ رِدَآءَ ہُ حَتَّی انْتَھٰی اِلَی النَّاسِ فَقَالَ اَصَدَقَ ھٰذَا قَالُوْا نَعَمْ فَصَلّٰی رَکْعَۃً ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَےْنِ ثُمَّ سَلَّمَ۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور گھر میں تشریف لے گئے۔ ایک آدمی نے کہ جس کا نام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے انہوں نے (یعنی ذوالید ین) کھڑے ہو کر عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " اور انہوں نے (یعنی ذوالیدین) نے واقعہ بیان کیا (یعنی تین رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بارے میں ذکر کیا یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں اپنی چادر مبارک کھینچتے ہوئے باہر نکلے اور لوگوں کے پاس (مسجد میں) پہنچے اور فرمایا کہ " کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہہ رہے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ " جی ہاں" !چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھی، پھر سلام پھیر اور سہو کے دو سجدے کر کے سلام پھیر دیا ۔" (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت کے بعد سلام پھیر کر گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے تشریف لائے، اس عرصے میں قبلے کی جانب سے منہ بھی پھرا، گفتگو بھی ہوئی اور بہت زیادہ چلنا ہوا ، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک رکعت جو پڑھنے سے رہ گئی تھی پڑھی، لہٰذا یہ افعال سہواً ہونے کے باوجود ( بھی حنفیہ کے مسلک میں چونکہ مفسد نماز ہیں اس لیے حنفیہ کی جانب سے اس حدیث کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ نماز میں گفتگو کی طرح یہ بھی منسوخ ہے یعنی یہ افعال و کلام پہلے نماز میں جائز تھے پھر بعد میں منسوخ ہوگئے۔ اور یہ واقعہ جواز کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے۔ 'خرباق" انہیں ذوالیدین کا نام ہے جن کی حدیث اس سے پہلے (نمبر ٤) گزر چکی ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور وہ واقعہ جو حدیث نمبر ٤ میں ذکر کیا گیا ہے دونوں ایک ہی ہیں لیکن اس حدیث اور حدیث نمبر ٤ میں چونکہ بعض باتوں میں با ہم تضاد ہے اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ایک ہی نہیں بلکہ الگ الگ واقعات ہیں اور دونوں واقعوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر نے والے حضرت ذوالیدین ہی تھے۔ اس حدیث کے آخری جملوں سے یہ بات بصراحت معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سلام پھیرا پھر سجدہ سہو کیا، اس کے بعد سلام پھیر کر نماز پوری کی، چنانچہ علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہی مسلک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے کہ ان کے یہاں سلام کے بعد سہو کے دو سجدے زیادتی اور نقصان کے پیش نظر کئے جاتے ہیں اس کے بعد تشہد پڑھا جاتا ہے اور سلام پھیرا جاتا ہے۔
-