TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے مناقب کا بیان
خدیجۃ الکبری کی فضیلت
وعن علي رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " خير نسائها مريم بنت عمران وخير نسائها خديجة بنت خويلد " متفق عليه وفي رواية قال أبو كريب : وأشار وكيع إلى السماء والأرض-
" حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا مریم بنت عمران اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں اور خدیجہ بن خویلد اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں (بخاری ومسلم ) اور ایک روایت میں ابوکریب نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت وکیع رضی اللہ عنہ نے (جو حفاظ حدیث میں سے ہیں اور حضرت امام مالک اور ان کے ہم عصروں کے ہم پلہ ہیں ) آسمان اور زمین کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا کہ اس حدیث کے مطابق یہ دونوں خواتین اپنی امتوں میں دنیا بھر کی عورتوں سے افضل و اشرف ہیں ۔ " تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مریم جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں اپنی امت میں اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنی امت (امت محمدیہ ) میں سب عورتوں سے افضل ہیں لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ خود ان دونوں میں کون کس سے افضل ہے ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے افضل ہیں یا حضرت خدیجہ حضرت مریم سے افضل ہیں تاہم تفسیر نسفی میں لکھا ہے کہ صحیح قول کے مطابق حضرت مریم علی السلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا افضل ہیں کیونکہ حضرت مریم پیغمبر تو ہیں نہیں ، اور یہ بھی طے ہے کہ یہ امت مرحومہ دوسری تمام امتوں سے بہتر و افضل ہے تو اس بارے میں علماء کے اختلافی اقول ہیں اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی مختلف فیہ ہے اور امام مالک کا یہ قول ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پیغمبر کی جگر پارہ ہیں اور میں جگر پارہ پیغمبر پر کسی خاتون کو فضیلت نہیں دیتا ۔
-
وعن أبي هريرة قال : أتى جبريل النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " يا رسول الله هذه خديجة قد أتت معها إناء فيه إدام وطعام فإذا أتتك فأقرأ عليها السلام من ربها ومني وبشرها ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه ولا نصب " . متفق عليه-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی خدیجہ (مکہ سے چل کر غار حرا میں ) آ رہی ہیں، ان کے ساتھ ایک برتن ہے جس میں سالن ( اور روٹی ) ہے جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پروردگار کی طرف سے اور میری طرف سے بھی سلام کہہ دیجئے اور ان کو جنت میں ایک محل کی خوش خبری سنا دیجئے جو خولدار موتی ہے اور اس موتی میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و تکان ہے ۔ " (بخاری ومسلم ) تشریح یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلوت کے لئے غار حرا چلے جاتے تھے اور کئی کئی دن تک وہاں عبادت اور ذکر الہٰی میں مشغول رہتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کھانے پینے کی کچھ چیزیں (جیسے ستو ) اور پانی وغیرہ لے لیتے تھے تاکہ بھوک اور پیاس کا غلبہ خلوت گزینی میں مخل نہ ہو ، ایک دن خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے پینے کا کچھ سامان خود لے کر غار حرا پہنچیں اور مذکورہ سعادت و بشارت سے سرفراز ہوئیں ۔ واضح ہو کہ عام طور پر ثابت تو یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلوت گزینی کے لئے غار حرا میں جانا اور وہاں عبادت و ذکر میں مشغول رہنا اس زمانہ کا معمول تھا جب کہ آپ خلعت نبوت سے سرفراز نہیں ہوئے تھے اور آپ کے پاس حضرت جبرائیل کا آنا جانا شروع نہیں ہوا تھا ، لیکن اس میں کجھ استبعاد نہیں کہ مرتبہ نبوت پر فائز ہوتے اور حضرت جبرائیل کی آمد شروع ہو جانے کے بعد بھی کچھ دنوں تک آپ نے یہ معمول جاری رکھا ہو اور انہی دنوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کسی دن آپ کے لئے کھانا لے کر غار حرا میں گئی ہوں ۔ " ان کو سلام کہہ دیجئے " علماء نے لکھا ہے کہ رب العلمین کا سلام ایسا شرف ہے جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی سلام کہلایا تھا لیکن صرف اپنی طرف سے اسی لئے اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کی دلیل قرار دیا جاتا ہے ۔ " جو خولدار موتی کا ہے " قصب " کا اطلاق اس موتی پر ہوتا ہے جو بہت بڑا ہو اور اندر سے خالی ہو ، روایتوں میں آتا ہے کہ جنت کے محلات پر جو گنبد ہوں گے وہ دراصل قبہ جسے بڑے بڑے موتی ہوں گے جن کے اندر سے خلا ہوگا ۔ لہٰذا اس جملہ کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ اس محل کا گنبد ایک پورا موتی ہوگا ، یا یہ کہ وہ پورا محل موتی کا ہوگا یعنی ایک اتنا بڑا موتی ہوگا جس کے اندر کا خلاء ایک پورے محل پر محیط ہوگا ۔ " اس محل میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف اور تکان ہے " بطور خاص ان دونوں چیزوں کی نفی اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ دنیاوی گھروں میں رہنے والوں کو دو ناگوار چیزوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے ایک تو شور و غل کا اور دوسرے اس محنت و مشقت اور تکلیف و تکان کا جو گھروں کو بنانے ، سنوارنے اور سجانے میں ہوتی ہے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جنت کے محلات ان ناگوار اور تکلیف دہ چیزوں سے خالی ہوں گے نیز علماء نے لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حق میں یہ بشارت گو اس مقام کا اعلان تھا جو ان کو اس بات کے بدلہ میں عطا ہوا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کو سب سے پہلے بطیب خاطر اور بخوشی قبول کر لیا تھا انہوں نے خدائی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا آبائی مذہب یک لخت اس طرح ترک کر دیا کہ نہ تو کسی طرح کا شور شرابہ ہونے دیا نہ بحث و تکرار اور لڑنے جھگڑنے کے تعب میں پڑیں
-