TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان
جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان
--
نکاح کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ عورت محرمات میں سے نہ ہو لہذا اس باب میں یہی بتایا جائے گا کہ کون کون عورتیں محرمات میں سے ہیں کہ جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ ان عورتوں کی تفصیل فقہ حنفی کی مشہور ومعتمد کتاب فتاوی عالمگیری میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فتاوی عالمگیری کی اس تفصیل کو یہاں ذکر کر دیا جائے۔ محرمات کی تفصیل جو عورتیں محرمات میں سے ہیں ان کی نو قسمیں ہیں یا یوں کہیے کہ نکاح کے حرام ہونے کے نو سبب ہیں جن کی نمبر وار تفصیل یوں ہے : پہلا سبب : نسبی رشتہ : جو عورتیں نسبی رشتہ کے سبب حرام ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔ ماں بیٹی بہن پھوپھی خالہ بھتیجی اور بھانجی ۔ لہذا ان رشتوں سے نکاح کرنا جماع کرنا اور ایسے کام کرنا جو جماع کے محرک اور سبب بن جاتے ہیں جیسے بوسہ لینا وغیرہ یہ سب کام ہمیشہ کے لئے حرام ہیں۔ ماں سے اپنی ماں بھی مراد ہے اور دادی اور نانی خوہ اوپر کے درجہ کی ہوں جیسے پردادی اور پر نانی وغیرہ) بھی مراد ہیں ۔ بیٹی کے حکم میں اپنی حقیقی بیٹی اپنے بیٹے کی بیٹی پوتی اپنی بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی اور اس طرح نیچے تک سب شامل ہیں۔ اسی طرح بہن خواہ حقیقی ہو خواہ سوتیلی صرف باپ شریک ہو اور خواہ اخیافی صرف ماں شریک ہو سب حرام ہیں۔ بھتیجی اور بھانجی سے بھی تین طرح کی بھتیجیاں اور بھانجیاں یعنی حقیقی بھائی بہن کی اولاد ، سوتیلے بھائی بہن کی اولاد اور اخیافی بھائی بہن کی اولاد مراد ہیں (اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں کہ یہ سب محرمات میں سے ہیں۔ پھوپھی بھی تینوں طرح کی مراد ہیں یعنی حقیقی پھوپھی سوتیلی باپ شریک) پھوپھی اور اخیافی صرف ماں شریک پھوپھی اسی طرح پھوپھی کے حکم میں باپ کی پھوپھی اور دادا کی پھوپھی اور دادی کی پھوپھی بھی شامل ہیں کہ یہ سب پھوپھیاں بھی محرمات میں سے ہیں، ہاں پھوپھی کی پھوپھی حرام ہے یا نہیں اس میں تفصیل ہے۔ اگر مثلا زید کی پھوپھی اس کے باپ کی حقیقی بہن ہو یا سوتیلی یعنی صرف باپ شریک بہن ہو تو اس پھوپھی کی پھوپھی زید کے لیے حرام ہوگی اور اگر زید کی پھوپھی اس کے باپ کی اخیافی ( یعنی صرف ماں شریک) بہن ہو تو ایسی پھوپھی زید کے لئے حرام نہیں ہوگی۔ خالہ بھی کئی طرح کی مراد ہیں تفصیل یہ ہے کہ : اگر مثلا سوتیلی خالہ اخیافی خالہ اپنے باپ کی خالہ اور اپنی ماں کی خالہ یہ سب خالائیں حرام ہیں لیکن خالہ کی خالہ کے بارے میں تفصیل ہے اگر مثلا زید کی خالہ اس کی ماں کی حقیقی بہن ہو یا اخیافی یعنی صرف ماں شریک بہن ہو تو اس خالہ کی خالہ زید کے لئے حرام ہو گی یعنی اس سے زید کا نکاح نہیں ہو سکتا اور اگر زید کی خالہ اس کی ماں کی سوتیلی یعنی صرف باپ شریک بہن ہو تو ایسی خالہ حرام نہیں ہو گی اس سے زید کا نکاح جائز ہوگا۔ دوسرا سبب سسرالی رشتہ : وہ عورتیں جو بسبب صہریت یعنی سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہو جاتی ہیں ان کی چار قسمیں ہیں ایک ساس یعنی بیوی کی ماں دو یا ساس یعنی بیوی کی دادی ، ننیاساس یعنی بیوی کی نانی اور اس سے اوپر کے درجہ کی مثلا بیوی کے باپ اور ماں کی دادی وغیرہ بیوی کی بیٹی اور بیوی کے بیٹوں کی اولاد اور اس سے نیچے کے درجہ کی مثلا بیوی کی نواسی کی اولاد وغیرہ یہ سب حرام ہیں بشرطیکہ بیوی سے جماع کر لیا ہو خواہ وہ بیوی کی بیٹی اس مرد کی پرورش میں ہو یا نہ ہو اور حنفی علماء نے بیوی کی بیٹیوں کی حرمت کے سلسلہ میں خلوت صحیحہ کو جماع کا قائم مقام قرار نہیں دیا یعنی بیوی کی بیٹیوں کی حرمت ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ مرد نکاح کے بعد بیوی سے جماع بھی کر لے اگر صرف خلوت صحیحہ ہوئی ہو یعنی جماع کرنے کا پورا موقع مل گیا ہو) مگر دونوں نے جماع نہ کیا ہو تو اس صورت میں اس بیوی کی بیٹی ( جو دوسرے شوہر کے نطفہ سے ہو) کی حرمت ثابت نہیں ہوگی بہو یعنی بیٹے کی بیوی پوت بہو یعنی پوتے کی بیوی اور نواسی بہو یعنی نواسے کی بیوی اور اسے نیچے کے درجہ کی (یعنی پڑپوتے کی بیوی وغیرہ ) اور ان عورتوں کے ساتھ ان کے شوہروں یعنی بیٹے اور پوتے وغیرہ نے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو دونوں صورتوں میں حرام ہیں۔ہاں لے پالک یعنی منہ بولے بیٹے کی بیوی حرام نہیں ہوتی یعنی مثلا زید بکر کا منہ بولا بیٹا ہے تو زید کی بیوی بکر کے حق میں محرمات میں سے نہیں ہوگی اگر زید اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا وہ مر جائے تو بکر اس کی مطلقہ یا وہ بیوہ سے اپنا نکاح کر سکتا ہے باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں اور دادا اور نانا کی بیویاں یعنی سوتیلی دادی اور سوتیلی نانی اور اس سے اوپر کے درجہ کے یہ سب بھی ہمیشہ کے لئے حرام ہیں نہ ان سے نکاح ہو سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے طریقہ سے جماع ہو سکتا ہے۔ سسرالی رشتہ سے حرمت اس صورت میں ثابت ہوتی ہے جب کہ نکاح صحیح ہو فاسد نکاح سے حرمت ثابت نہیں ہوگی چنانچہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو زنا کرنیوالے کے لیے اس عورت کی ماں، دادی ، نانی اور اس عورت کی بیٹی پوتی نواسی سب حرام ہو جائیں گی اسی طرح اس عورت کے لئے زنا کرنیوالے کے باپ دادا نانا اور اس عورت کے لڑکے پوتے نواسے سب حرام ہو جائیں گے۔ اگر کسی شخص نے ایک عورت سے جماع کیا جس کی وجہ سے اس عورت کے پیشاب اور پاخانہ کا مقام ایک ہو گیا تو اس عورت کی ماں جماع کرنیوالے کے لئے حرام نہیں ہوگی کیونکہ اس صورت میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے عورت کے پیشاب کے مقام ہی میں جماع کیا ہے ہاں اگر جماع کے بعد وہ عورت حاملہ ہو جائے اور یہ معلوم بھی ہو جائے کہ یہ حمل اسی شخص کے نطفہ سے قرار پایا ہے تو اس صورت میں اس کی ماں اس کے لئے حرام ہو جائے گی ۔ اور جس طرح یہ حرمت جماع کرنے سے ثابت ہوتی ہے اسی طرح شہوت کے ساتھ) عورت کو چھونے بوسہ لینے اور شہوت کے ساتھ عورت کی شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے ثابت ہو جاتی ہے۔ اور یہ مذکورہ چیزیں یعنی چھونا وغیرہ خواہ نکاح کی صورت میں پیش آئیں یا خواہ ملکیت کی صورت میں اور خواہ فجور کی صورت میں حنفیہ کے نزدیک یہ تینوں یکساں ہیں۔ نیز حنفی علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس بارے میں شبہ اور غیرشبہ برابر ہیں اور اس سلسلہ میں شہوت کے ساتھ مباشرت (مرد وعورت کا شہوت کے ساتھ ایک دوسرے سے لپٹنا) بھی بوسہ کے حکم میں ہے اسی طرح معانقہ کا بھی یہی حکم ہے ایسے ہی اگر شہوت کے ساتھ دانتوں سے اس کو کاٹا تو بھی یہی حکم ہے یعنی ان تمام صورتوں میں حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ اگر کسی نے شہوت کے ساتھ مرد کے عضو مخصوص کی طرف دیکھا یا شہوت کے ساتھ اسکو ہاتھ لگایا یا بوسہ لیا تو اس صورت میں اس کے ساتھ حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی اور باقی دوسرے تمام اعضاء کی طرف دیکھنے سے اور ان کو ہاتھ لگانے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہاں اگر یہ دیکھنا یا ہاتھ لگانا شہوت کے ساتھ ہو تو پھر بغیر کسی اختلاف کے حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ حرمت کے سلسلہ میں عورت کی شرمگاہ کے ظاہری حصہ کو دیکھنے کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اندر کے حصہ کو دیکھنے سے حرمت ثابت ہوا کرتی ہے چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر مرد کسی کھڑی ہوئی عورت کی شرم گاہ کو دیکھ لے تو اس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی کیونکہ عورت جب کھڑی ہوئی ہو تو اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ پر نظر نہیں پڑتی بلکہ شرمگاہ کے اندرونی حصہ پر اس وقت نظر پڑے گی جب وہ پشت سے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھی ہو ۔ اگر کسی مرد نے عورت کی شرمگاہ کے اندرونی حصہ کو اس طرح دیکھا کہ درمیان میں باریک پردہ یا شیشہ حائل تھا لیکن اندرونی حصہ نظر آرہا تھا تو بھی حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ ہاں اگر کوئی شخص آئینہ دیکھ رہا تھا اور اس میں کسی عورت کی شرمگاہ نظر آگئی اور پھر مرد نے اس کو شہوت کے ساتھ دیکھا تو اس مرد پر نہ اس عورت کی ماں حرام ہو گی اور نہ بیٹی حرام ہو گی کیونکہ اس نے شرمگاہ کو نہیں دیکھا بلکہ اس کا برعکس دیکھا ۔ اگر کوئی عورت پانی کے حوض کے کنارے پر یا پل پر بیٹھی ہو اور کسی مرد نے اس کا عکس پانی میں دیکھا اور پھر اس کے بعد وہ شہوت کے ساتھ پانی ہی میں اس کی شرمگاہ کا عکس دیکھتا رہا تو اس صورت میں بھی حرمت ثابت نہیں ہوگی ہاں اگر عورت پانی میں ہو اور مرد کی نگاہ اس کی شرمگاہ پر پڑھ جائے اور پھر اسے شہوت کے ساتھ دیکھے تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔ کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمت ثابت ہونے کے سلسلے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ قصدا چھوئے تب ہی حرمت ثابت ہوگی بلکہ چاہے قصدًا چھوئے یا چاہے بھول کر چھوئے چاہے کسی کے زبردستی کرنے سے یا خود غلطی سے چھوئے اور چاہے نیند کی حالت میں چھوئے ہر صورت میں حرمت ثابت ہو جائے گی۔ چنانچہ اگر کسی مرد نے جماع کرنے کے لئے اپنی بیوی کو نیند سے اٹھانا چاہا مگر غلطی سے اس کا ہاتھ لڑکی پر پڑھ گیا اور پھر یہ سمجھ کر کہ یہی میری بیوی ہے شہوت کے ساتھ اس کی چٹکی بھر لی اور وہ لڑکی بھی جوان تھی قابل شہوت تھی تو اس صورت میں اس مرد کے لئے اس لڑکی کی ماں یعنی اس کی بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔ اگر کسی مرد نے شہوت کے ساتھ عورت کے ان بالوں کو ہاتھ لگایا جو سر سے ملے ہوئے ہیں تو حرمت ثابت ہو جائے گی اور اگر لٹکے ہوئے بالوں کو ہاتھ لگایا تو حرمت ثابت نہیں ہوگی مگر ناطفی نے اس تفصیل کے بغیر مطلقا بالوں کے چھونے کو حرمت کا باعث لکھا ہے اسی طرح اگر مرد نے عورت کے ناخن کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔ یہ جو بتایا گیا ہے کہ عورت کو شہوت کے ساتھ چھونا اور ہاتھ لگانا حرمت کو ثابت کر دیتا ہے تو اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ عورت کو چھونے اور ہاتھ لگانے سے اسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے جب کہ دونوں کے درمیان کپڑا حائل نہ ہو اور اگر کپڑا حائل ہو تو وہ اس قدرباریک ہو کہ چھونے والے کا ہاتھ بدن کی حرارت محسوس نہیں ہوتی تو حرمت ثابت نہیں ہوگی خواہ اس کی وجہ سے مرد کے عضو مخصوص میں ایستادگی ہی کیوں نہ ہو جائے، اسی طرح اگر کسی مرد نے عورت کے موزہ کے نیچے کا حصہ چھوا تو حرمت ثابت ہو جائے گی ہاں اگر موزے پر چمڑا چڑھا ہوا ہو جس کی وجہ سے عورت کے پاؤں کی ایڑھی چھونے والے کو محسوس نہ ہو تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ اگر کسی مرد نے عورت کا بوسہ لیا ایسی حالت میں کہ دونوں کے درمیان کپڑا حائل ہو تو حرمت ثابت ہو جائے گی بشرطیکہ بوسہ لینے والے کو عورت کے دانتوں کی یا ہونٹوں کی ٹھنڈک محسوس ہو۔ حرمت ثابت ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ چھونے کے بعد دیر تک چھوتا ہی رہے چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی نے شہوت کے ساتھ اپنی بیوی کیطرف ہاتھ بڑھایا لیکن وہ ہاتھ بیوی کی بجائے اپنی لڑکی کی ناک پر پڑھ گیا اور اس کے ساتھ ہی شہوت زیادہ ہوگئی تو اس لڑکی کی ماں یعنی بیوی اس مرد کے لئے حرام ہو جائے گی اگرچہ اس نے اپنا ہاتھ فورًا ہی ہٹا لیا ہو۔ حرمت ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ جس عورت کو ہاتھ لگایا جائے یا بوسہ لیا جائے اور وہ قابل شہوت ہو اور فتوی اس پر ہے کہ کم سے کم نو سال کی لڑکی قابل شہوت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، چنانچہ اگر کسی مرد نے کسی ایسی نابالغہ لڑکی سے جماع کیا جو قابل شہوت نہ ہویں تو حرمت ثابت نہیں ہوگی اس کے برخلاف اگر عورت اتنی بوڑھی ہو جائے کہ قابل شہوت نہ رہے تو وہ حرمت ثابت ہونے کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ وہ حرمت کے حکم میں داخل ہو چکی تھی اور بڑھاپے کی وجہ سے اس حکم سے باہر نہیں ہو سکتی جب کہ نابالغہ ابھی حرمت کے حکم میں داخل ہی نہیں ہوئی۔ جس طرح حرمت ثابت ہونے کے لئے عورت کا قابل شہوت ہونا شرط ہے اسی طرح مرد کا بھی قابل شہوت ہونا شرط ہے۔ لہذا اگر چار سال کے بچہ نے مثلا اپنے باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے جماع کر لیا تو اس کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی ۔ لیکن اگر جماع کرنیوالا ایسا بچہ ہو جس کے ہم عمر بچے عام طور پر جماع کر سکتے ہوں تو تو اس کا وہی حکم ہوگا جو بالغ کا ہوتا ہے اور اس بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ ایسے بچہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ جماع کرنے پر قادر ہو عورت کی طرف اس کا میلان ظاہر ہوتا ہو اور عورتیں اس سے شرم کرتی ہوں۔ مذکورہ بالا چیزوں یعنی چھونے اور دیکھنے کے بارے میں شہوت یعنی ہیجان کا ہونا شرط ہے یعنی عورت کو ہاتھ لگانے بوسہ لینے اور شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھتے وقت اگر شہوت ہو تب حرمت ثابت ہوگی لہذا اگر یہ دونوں چیزیں بغیر شہوت کے پائی جائیں اور پھر بعد میں شہوت پیدا ہو تو حرمت ثابت نہیں ہو گی اور شہوت کا معیار مرد کے لئے یہ ہے کہ اس کے عضو مخصوص میں ایستادگی ہو جائے اور اگر ایستادگی پہلے سے تھی تو اس میں زیادتی ہو جائے ۔ اس مسئلہ میں یہی قول صحیح ہے اور اسی پر فتوی ہے لہذا اگر کسی مرد کے عضو مخصوص میں ایستادگی تھی ایسی حالت میں اس نے اپنی بیوی کو اپنے پاس بلایا اور پھر اسی دوران کسی طرح اس کا عضو مخصوص اس کی لڑکی کی دونوں رانوں کے درمیان داخل ہو گیا تو اس صورت میں اگر اس کے عضو مخصوص کی ایستادگی میں زیادتی نہ پیدا ہوگئی ہو تو اس لڑکی کی ماں یعنی اس کی بیوی اس کے لئے حرام نہیں ہوگی ۔ اور شہوت کا معیار اس مرد کے لئے ہے جو جوان اور جماع کرنے پر قادر ہو اور اگر مرد بوڑھا ہو تو اس کے حق میں شہوت کا معیار یہ ہے کہ خواہش کے وقت اس کے قلب میں حرکت پیدا ہو جائے اگر پہلے سے حرکت نہیں تھی اور اگر قلب میں پہلے سے حرکت موجود تھی تو اس خواہش میں زیادتی ہو جائے اور عورت کے لئے اس اس مرد کے لئے جس کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہو شہوت کا معیار یہ ہے کہ قلب میں خواہش پیدا ہو اور ہاتھ لگانے وغیرہ سے جنسی لذت حاصل ہو۔ اگر خواہش وغیرہ پہلے سے موجود نہ تھی اور اگر یہ پہلے سے موجود تھی تو اس میں زیادتی ہو جائے اور یہ بات ملحوظ رہے کہ مرد و عورت میں سے کسی ایک میں شہوت کا ہونا حرمت ثابت ہونے کے لئے کافی ہو۔ ہاتھ لگانے یا بوسہ لینے وغیرہ سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے اس میں یہ شرط اور ضروری ہے کہ انزال نہ ہو اگر ہاتھ لگانے یا شرمگاہ کی طرف دیکھنے کے وقت انزال ہوگیا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی ۔ کیونکہ اب انزال ہونے سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ چھونا وغیرہ جماع لینے کا سبب نہیں بنا ۔ اگر کسی مرد نے عورت کی مقعد کی طرف دیکھا تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی اسی طرح اگر کسی مرد نے عورت کے پیچھے کی طرف بد فعلی کی تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ ایسے ہی اگر مرد کے ساتھ جماع کے افعال کئے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کے ساتھ حرمت مصاہرت کا اقرار کیا تو اس کا اعتبار کیا جائے گا اور ان دونوں یعنی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے گی اسی طرح اگر مرد نکاح سے قبل زمانہ کی طرف حرمت کی نسبت کرے یعنی اپنی بیوی سے یوں کہے کہ میں نے تم سے نکاح کرنے سے پہلے تہاری ماں سے جماع کیا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائیگا اور دونوں میں جدائی کرا دی جائے گی لیکن اس عورت کا پورا مہر ( جو نکاح کے وقت متعین ہوا تھا ) واجب ہوگا عقد واجب نہیں ہوگا اور اس اقرار کے لئے مداومت شرط نہیں یعنی صرف ایک مرتبہ اقرار کر لینا کافی ہے بار بار اقرار کرنا ضروری نہیں ہے اسی لئے اگر کوئی شخص اپنے اقرار سے رجوع کرلے یعنی ایک مرتبہ اقرار کرنے کے بعد پھر انکار کر دے تو قاضی اس نکاح کو صحیح تسلیم نہیں کرے گا ہاں اگر اس نے واقعۃً غلط اقرار کیا تھا تو عند اللہ وہ عورت اس کی بیوی رہے گی اگرچہ ظاہرًا قاضی جدائی کرا دے گا۔ اگر کسی شخص نے ایک عورت کے بارے میں یہ کہا کہ میری رضاعی ماں ہے ( یعنی اس عورت نے مجھے دود ھ پلایا ہے) اور پھر کچھ عرصہ بعد جب اس عورت سے نکاح کرنا چاہے اور یہ کہے کہ میں نے پہلے غلط کہا تھا کہ یہ میری رضاعی ماں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے اس عورت سے نکاح کرنا استحسانا جائز ہوگا۔ اگر کسی شخص نے عورت کا بوسہ لیا اور پھر کہنے لگا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا یا عورت کو چھوا اور یا اس کی شرم گاہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو بوسہ لینے کی صورت میں تو فورًا حرمت کا حکم لگا دیا جائے گا جب تک کہ یہ یقین نہ ہو جائے کہ اس نے واقعی شہوت کے ساتھ بوسہ نہیں لیا تھا اور دوسری دونوں صورتوں میں حرمت کا حکم فورًا لگا دیا جائیگا جب یہ یقین ہو جائے کہ یہ چیز شہوت کے ساتھ سرزد ہوئی ہے تو حرمت کا حکم لگایا جائے گا اور یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ بوسہ عام طور پر شہوت کے ساتھ لیا جاتا ہے اور بوسہ کی بنیاد ہی شہوت پر ہوتی ہے بخلاف چھونے اور دیکھنے کے کہ یہ دونوں فعل بغیر شہوت کے بھی سرزد ہوتے ہیں مگر یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب کہ شرمگاہ کے علاوہ کسی اور عضو کو چھوا ہو اور اگر کسی شخص نے عورت کی شرمگاہ کو چھوا ہو اور پھر کہا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائیگا ۔ اگر کسی شخص نے عورت کی چھاتی پکڑ لی اور کہا کہ شہوت کے ساتھ نہیں پکڑی تھی تو اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اسی طرح اگر عورت کے ساتھ جانور پر سوار ہوا تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ ہاں اگر عورت کی پشت پر سوار ہو کر دریا کو پار کیا اور کہا کہ اس وقت شہوت نہیں تھی تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ ایک شخص نے لوگوں کے سامنے اقرار کیا کہ میں نے فلاں عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا ہے یا اس کا بوسہ لیا ہے اور ان لوگوں نے اس کے اس اقرار کی گواہی دی تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی اور حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی اسی طرح اگر گواہ یہ کہیں کہ فلاں شخص نے فلاں عورت کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تھا یا بوسہ لیا تھا تو ان کی گواہی مانی جائے گی کیونکہ شہوت ایک ایسی چیز ہے جو فی الجملہ معلوم ہو جاتی ہے چنانچہ جن لوگوں کے عضو میں حرکت ہوتی ہے اس کو دیکھ کر اور جن کے عضو میں حرکت نہیں ہوتی ان کے بارے میں دوسری علامتوں سے شہوت کا معلوم ہو جانا ممکن ہوتا ہے۔ قاضی علی سعدی فرماتے ہیں کہ اگر نشہ میں مدہوش کسی شخص نے اپنی لڑکی کو پکڑ کر اپنے بدن سے لپٹایا اور اس کا بوسہ لیا اور پھر جب اس سے جماع کرنے کا ارادہ کیا تو لڑکی نے کہا کہ میں تمہاری لڑکی ہوں، یہ سن کر اس شخص نے لڑکی کو چھوڑ دیا تو اس صورت میں بھی لڑکی کی ماں یعنی اس شخص کی بیوی اس کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اگر کسی شخص سے پوچھا گیا کہ تم نے اپنی ساس کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے جماع کیا ہے تو اس صورت میں بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی اگرچہ سوال کرنے والے نے مذاق میں سوال کیا ہو اور اس شخص نے بھی ازراہ مذاق ہی جواب دیا ہو پھر اس کے بعد وہ شخص لاکھ کہے کہ میں نے یہ بات غلط کہی تھی اس کا اعتبار نہیں کیا جائیگا ۔ اگر کسی شخص نے کسی ایسی لونڈی کے بارے میں جو اس کی ملکیت میں ہو یہ کہا کہ میں نے اس لونڈی سے جماع کیا ہے تو وہ لونڈی اس کے لڑکے کے لئے حلال نہیں ہوگی اور اگر اس نے کسی ایسی لونڈی کے بارے میں جو اس کی ملکیت نہیں ہے بلکہ کسی اور کی ہے یہ کہا کہ میں نے اس سے جماع کیا ہے تو اس صورت میں اس کے لڑکے کے لئے یہ جائز ہوگا کہ اپنے باپ کی اس بات کا اعتبار نہ کرے اور اس لونڈی کو اپنی ملکیت میں لے کر اس سے جماع کر لے اور اگر کسی شخص کو اپنے باپ کی میراث میں کوئی لونڈی ملی تو وہ اس سے جماع کر سکتا ہے جب تک کہ یقین کے ساتھ یہ معلوم نہ ہو جائے کہ باپ نے اس لونڈی کے ساتھ جماع کیا ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے اس شرط پر شادی کی کہ وہ باکرہ ہے لیکن شادی کے بعد جب اس سے جماع کرنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ باکرہ نہیں ہے پھر اس نے عورت سے پوچھا کہ تہارا پردہ بکارۃ کس طرح زائل ہوا ہے ( یعنی تمہارے ساتھ کسی مرد نے جماع کیا ہے؟) عورت نے جواب دیا کہ تمہارے باپ نے اس صورت میں اگر وہ شخص خاوند اس کی بات کا اعتبار کرے تو نکاح ختم ہو جائیگا ۔ اور عورت مہر کی حقدار نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ شخص اس کی بات کا اعتبار نہ کرے اور کہے کہ تم جھوٹ بولتی ہو تو نکاح باقی رہے گا۔ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کے لڑکے کے بارے میں کہا کہ اس نے مجھے شہوت کے ساتھ چھوا ہے لہذا میں اپنے شوہر کی بیوی نہیں رہی تو عورت کی اس بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر کے لڑکے کا قول معتبر ہو گا۔ کسی شخص نے اپنے باپ کی بیوی کا شہوت کے ساتھ زبردستی بوسہ لیا یا کسی باپ نے اپنے لڑکے کی بیوی کا شہوت کے ساتھ زبردستی بوسہ لیا اور شوہر نے کہا کہ یہ عمل شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو شوہر کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور یہ اسی کی بیوی رہے گی لیکن اگر شوہر نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ بوسہ لینا واقعی شہوت ہی کے ساتھ تھا تو پھر دونوں میاں بیوی) میں جدائی ہو جائے گی اور شوہر پر مہر واجب ہوگا مگر شوہر وہ رقم جو اس نے مہر میں ادا کی ہے اس شخص سے وصول کرلے گا جس کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے بشرطیکہ اس نے فتنہ پھیلانے کے لئے یہ حرکت کی ہو اور اگر یہ حرکت فتنہ پھیلانے کے مقصد سے نہیں تھی تو پھر کچھ بھی وصول کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اور اگر اس مسئلہ میں بوسہ لینے کی بجائے باپ نے لڑکے کی بیوی سے یا لڑکے نے باپ کی بیوی سے جماع کر لیا تو اس صورت میں شوہر مہر میں دی ہوئی رقم کسی طرح بھی وصول نہیں کر سکتا کیونکہ جماع کرنیوالے پر حد واجب ہوگی اور ضابطہ یہ ہے کہ شرعی حد کے ساتھ کوئی مالی جرمانہ واجب نہیں ہوتا۔ کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی باندی کے ساتھ نکاح کیا اور پھر اسکے قبل کہ اس کا خاوند جماع کرتا باندی نے شوہر کے لڑکے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا خاوند نے دعوی کیا کہ میری بیوی نے میرے لڑکے کا بوسہ شہوت کے ساتھ لیا ہے مگر باندی کے آقا نے کہا کہ یہ غلط ہے، اس صورت میں نکاح ختم ہو جائیگا کیونکہ شوہر نے اس بات کا اقرار کر لیا ہے کہ میری بیوی نے شہوت کے ساتھ بوسہ لیا ہے لیکن شوہر پر پورا مہر واجب نہیں ہوگا بلکہ نصف مہر واجب ہوگا کیونکہ اس باندی کے مالک نے اس کی بات کو جھٹلایا ہے اس بارے میں لونڈی کا قول معتبر نہیں ہوگا کہ میں نے شہوت کے ساتھ بوسہ لیا تھا لہذا میرا پورا مہر دو۔ اگر کسی عورت نے لڑائی جھگڑے میں اپنے دادا کا عضو مخصوص پکڑ لیا اور کہا کہ میں نے شہوت کے ساتھ نہیں پکڑا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائیگا ۔ حرمت مصاہرت یا حرمت رضاعت کی وجہ سے نکاح باطل نہیں ہوتا بلکہ فاسد ہو جاتا ہے ( جس کی وجہ سے جماع کرنا حرام ہو جاتا ہے لہذا شوہر کو چاہئے کہ طلاق دیدے اگر وہ طلاق نہ دے تو پھر قاضی دونوں کے درمیان جدائی کرا دے ) چنانچہ جدائی سے پہلے اگر شوہر نے جماع کر لیا تو اس پر حد واجب نہیں ہو گی خواہ اس نے جماع شبہ میں مبتلا ہو کر ہی کیا ہو یا بغیر شبہ کے کیا ہو ۔ اگر کسی شخص نے ایک عورت سے حرام کاری کی یا ایسا کوئی بھی فعل کیا جس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے جیسے چھونا وغیرہ اور پھر توبہ کر لی تو یہ شخص اس عورت کی لڑکی کا محرم ہی رہے گا اس لئے کہ اس کی لڑکی سے نکاح کرنا اس کے حق میں ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ محرمت، زنا سے ثابت ہو جاتی ہے اور ایسے ہی ان تمام چیزوں سے بھی ثابت ہو جاتی ہے جن سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے جیسے چھونا وغیرہ۔ اگر مثلا زید نے خالدہ سے نکاح کیا اور زید کے لڑکے نے ( جو خالدہ کے پیٹ سے نہیں ہے) خالدہ کی بیٹی سے جو خالدہ کے پہلے شوہر سے ہے) نکاح کر لیا یا خالدہ کی ماں سے نکاح کر لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے عضو مخصوص پر کپڑا لپیٹ کر اپنی بیوی سے جماع کیا تو دیکھا جائے گا کہ وہ کپڑا باریک تھا اور مرد کے عضو مخصوص کو حرارت محسوس ہونے سے نہیں روکتا تھا تو وہ عورت جماع کے بعد پہلے شوہر کے لئے جس نے اسے طلاق مغلظہ دیدی تھی) حلال ہو جائے گی اور اگر کپڑا ایسا تھا جس کی وجہ سے اس کے عضو مخصوص کو حرارت محسوس نہیں ہو رہی تھی تو وہ عورت اپنے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
-
--
تیسرا سبب دودھ کا رشتہ : یعنی وہ عورتیں جو رضاعت دودھ پلانے کی وجہ سے حرام ہیں چنانچہ تمام وہ رشتے جو نسبی اور سسرالی ہونے کی وجہ سے حرام ہیں رضاعت کی وجہ سے بھی حرام رہیں گے اگر کسی عورت نے کسی بچہ کو اس کی شیرخوارگی کی عمر میں دودھ پلایا ہے تو ان دونوں میں ماں اور اولاد کا تعلق پیدا ہو جائیگا لہذا دودھ پلانیوالی عورت کا شوہر دودھ والے بچہ کا رضاعی باپ ہوگا جس کی وجہ سے رضاعی ماں اور باپ کے تمام وہ رشتے دار اس بچہ کے لئے حرام ہوں گے جو حقیقی ماں اور باپ کی رشتہ داری کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ۔ شیرخوارگی کی عمر میں مطلقًا دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے خواہ زیادہ دودھ پیا ہو خواہ کم پیا ہو اور کم کی آخری حد یہ ہے کہ دودھ کا پیٹ میں مطلقًا پہنچ جانا یقینی کے ساتھ معلوم ہو جائے ۔ شیرخوارگی کی عمر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق تو تیس مہینہ تک ہے اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق دو برس تک ہے۔ اگر کسی بچہ نے شیرخوارگی کی عمر میں دودھ پینا بند کر دیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس نے شیرخوارگی ہی کی عمر میں دودھ پیا تو یہ رضاعت کے حکم میں داخل ہوگا کیونکہ دودھ پلانا شیرخوارگی ہی کی مدت میں واقع ہوا ہے ۔ شیرخوارگی کی مدت رضاعت گزر جانے کے بعد دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دودھ پلانے کی اجرت کے استحقاق کے سلسلے میں شیرخوارگی کی مدت دو برس ہی تسلیم کی گئی ہے چنانچہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور اس مطلقہ نے اس کے بچہ کو دو برس کی عمر کے بعد دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ بچہ کے باپ یعنی اپنے سابق شوہر سے کیا تو اس کا مطالبہ تسلیم نہیں ہوگا اور بچہ کے باپ کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنی مطلقہ کو دو برس کے بعد کے عرصہ کے دودھ پلانے کی اجرت دے ہاں اس کی مطلقہ نے دو برس کے عرصہ میں جو دودھ پلایا ہے اس کی اجرت دینے پر اسے مجبور کیا جائیگا ۔ حرمت رضاعت جس طرح رضاعی ماں یعنی دودھ پلانے والی کی رشتہ داروں میں ثابت ہوتی ہے اسی طرح رضاعی باپ کے رشتہ داروں میں بھی ثابت ہوتی ہے اور رضاعی باپ سے مراد دودھ پلانے والی کا وہ خاوند ہے جس کے جماع کی وجہ سے دودھ اترتا ہے۔ " رضیع، یعنی دودھ پینے والے پر اس کے رضاعی ماں باپ اور ان رضاعی ماں باپ کے اصول یعنی ان کے باپ دادا وغیرہ) اور ان کے فروع یعنی ان کی اولاد خواہ وہ نسبی ہوں یا رضاعی سب حرام ہیں ۔ یہاں تک کہ اس کے دودھ پینے سے پہلے اس کی رضاعی ماں کے ہاں جو اولاد ہو چکی ہو گی یا اس کے دودھ پینے کے بعد جو اولاد ہوگی اور وہ اولاد خواہ اس کے رضاعی باپ سے ہو خواہ اس کی رضاعی ماں کے کسی دوسرے شوہر سے ہو یا اس کی رضاعی بہن اور بھائی بہن کی اولاد اس کے بھتیجے ، بھتیجی اور بھانجے بھانجی ہوں گے، اسی طرح رضاعی باپ کا بھائی اس کا چچا ہوگا رضاعی باپ کی بہن اس کی پھوپھی ہوگی رضاعی ماں کا بھائی اس کا ماموں ہوگا۔ رضاعی ماں کی بہن اس کی خالہ ہوگی اور رضاعی ماں کا دادا اور اس کی دادی و نانی رضیع کا دادا اور اس کی دادی و نانی ہوگی۔ جس طرح رضاعت میں نسبی رشتوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اسی طرح رضاعت میں حرمت مصاہرت یعنی سسرالی رشتہ کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے چنانچہ رضاعی باپ کی بیوی اور رضیع دودھ پینے والے پر حرام ہیں اور رضیع کی بیوی اس کے رضاعی باپ پر حرام ہے اسی دوسرے رشتوں کو بھی قیاس کیا جاتا ہے لیکن دو صورتیں مستثنی ہیں اول تو یہ کہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اپنے نسبی بیٹے کی بہن سے نکاح کر لے تو یہ اس کے لئے جائز نہیں ہے لیکن رضاعت یعنی دودھ کے رشتہ میں یہ جائز ہے کیونکہ کسی شخص کے نسبی بیٹے کی بہن اگر اس کے نطفہ سے ہے تو وہ اس کی حقیقی بیٹی ہوگی اور اگر اس کے نطفہ سے نہیں ہے تو پھر یہ یعنی اس کی سوتیلی بیٹی ہوگی جب کہ دودھ کے رشتہ میں یہ دونوں باتیں مفقود ہوتی ہیں چنانچہ اگر نسبی رشتہ میں بھی ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی بات نہیں پائی جائے گی تو نکاح درست ہوگا مثلا کسی ایسی لونڈی کے بچہ پیدا ہوا جو دو آدمیوں کی مشترک مملوکہ ہے اور وہ دونوں شریک اس بچہ پر اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں یہاں تک کہ اس بچہ کا نسب ان دونوں سے ثابت ہو گیا ہے، ادھر ان دونوں کے ہاں اپنی اپنی عورت سے ایک ایک بیٹی ہے تو اب ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ دوسرے شریک کی بیٹی سے اپنا نکاح کر لے کیونکہ اس صورت میں دونوں باتوں میں اسے ایک بات بھی نہیں پائی گئی باوجودیکہ ان میں سے جس نے بھی دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا ہے اس نے گویا اپنے نسبی بیٹے کی بہن سے نکاح کیا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے نسبی بھائی کی ماں سے نکاح کرے اور دودھ کے رشتہ میں یہ جائز ہے کیونکہ نسبی رشتہ میں یا تو یہ صورت ہوگی کہ وہ دونوں اخیافی یعنی سسرالی صرف ماں شریک) بھائی ہوں گے اسی طرح دونوں کی ماں ایک ہی ہوگی یا یہ صورت ہوگی کہ وہ دونوں سوتیلے صرف باپ شریک بھائی ہوں گے اسی طرح بھائی کی ماں اپنے باپ کی بیوی ہوگی جب کہ دودھ کے رشتہ میں یہ دونوں باتیں مفقود ہوتی ہیں۔ دودھ شریک بھائی کی بہن سے یعنی جس نے اس کی ماں کا دودھ پیا ہے اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے جس طرح کہ نسبی رشتہ میں جائز ہے مثلا زید کا ایک سوتیلا بھائی ہے جس کا نام بکر ہے اور بکر کی ایک اخیافی بہن ہے یعنی دونوں کی ماں تو ایک ہے مگر باپ الگ الگ ہیں تو بکر کی اس اخیافی بہن سے نکاح کرنا زید کے لئے جائز ہوگا جو بکر کا سوتیلا بھائی ہے۔ دودھ شریک بھائی کی ماں یعنی جس نے اس کی ماں کا دودھ پیا ہے اس کی ماں) محرمات میں سے نہیں ہے اسی طرح رضاعی چچا رضاعی ماموں رضاعی پھوپھی اور رضاعی خالہ کی ماں بھی محرمات میں سے نہیں ۔ اپنی رضاعی پوتی کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے اسی طرح اپنے رضاعی بیٹے کی دادی اور نانی سے بھی نکاح کرنا جائز ہے۔ رضاعی بیٹے کی پھوپھی اس کی بہن کی ماں اس کی بھانجی اور اس کی پھوپھی کی بیٹی سے بھی نکاح کرنا جائز ہے، اسی طرح عورت کو اپنی رضاعی بہن کے باپ اپنے رضاعی بیٹے کے بھائی اپنے رضاعی پوتے کے باپ اور اپنے رضاعی بیٹے کے دادا اور ماموں سے نکاح کرنا جائز ہے جب کہ نسبی رشتہ میں یہ سب محرمات میں سے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔ کسی شخص نے اپنی بیوی کو جس کے دودھ اترا ہوا تھا طلاق دیدی پھر اس مطلقہ نے عدت کے دن گزار کر ایک دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور اس دوسرے خاوند نے اس سے جماع کیا تو اس بارے میں علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب اس دوسرے خاوند کے نطفہ سے اس کے بچہ پیدا ہوگا تو اس عورت کے دودھ کا سبب بھی دوسرا خاوند قرار پائے گا اس کے دودھ سے پہلے خاوند کا کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا ہاں اگر دوسرے خاوند سے حاملہ نہیں ہوگی تو اس دودھ کا سبب پہلا ہی خاوند سمجھا جائیگا ۔ لیکن اگر یہ صورت ہو کہ دوسرے شوہر سے حاملہ تو ہوئی مگر ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا ہے تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جب تک اس دوسرے شوہر کا بچہ پیدا نہ ہو جائے دودھ پہلے شوہر ہی کا کہلائے گا ۔ ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن اس سے کبھی بھی کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا پھر ( بغیر کسی ولادت کے) اس کے دودھ اتر آیا اور وہ دودھ اس نے کسی دوسرے کے بچے کو پلایا تو وہ دودھ اسی عورت کا کہلائے گا اس کے خاوند کا اس دودھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ اس صورت میں اس دودھ پینے والے بچہ اور اس شخص کی اس اولاد کے درمیان جو دوسری بیوی سے ہو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی ۔ ایک شخص نے کسی عورت سے زنا کیا جس کے نتیجہ میں اس کے ہاں ولادت ہوئی اور پھر اس عورت نے کسی دوسری لڑکی کو دودھ پلایا تو اس زنا کرنیوالے اس کے باپ دادا اور اس کی اولاد کو اس دودھ پینے والی لڑکی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا ہاں زنا کرنیوالے کا چچا اور اس کا ماموں نکاح کر سکتا ہے جس طرح کہ زنا کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی لڑکی سے زنا کرنیوالے کا چچا اور ماموں نکاح کر سکتا ہے ۔ کسی شخص نے شبہ میں مبتلا ہو کر یعنی کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر ایک عورت سے جماع کیا جس سے وہ حاملہ ہو گئی اور پھر اس نے کسی بچہ کو دودھ پلایا تو یہ بچہ اس جماع کرنیوالے کا رضاعی بیٹا ہوگا اس پر یہ قیاس کیا جانا چاہئے کہ جن صورتوں میں بچہ کا نسب جماع کرنیوالے سے ثابت ہوتا ہے انہی صورتوں میں رشتہ رضاعت بھی اس سے ثابت ہوگا اور جن صورتوں میں بچہ کا نسب جماع کرنے والے سے ثابت نہیں ہوتا اس صورت میں رشتہ رضاعت دودھ پلانیوالی عورت سے ثابت ہوگا۔ کسی شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس سے عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا ۔ عورت نے اپنے بچہ کو دودھ پلایا اور بعد میں دودھ خشک ہو گیا کچھ عرصہ کے بعد دودھ پھر اتر آیا اور اس نے کسی دوسرے لڑکے کو وہ دودھ پلایا تو اس لڑکے کے لئے اس شخص کی اس اولاد سے نکاح کرنا جائز ہوگا جو اس دودھ پلانیوالی عورت کے علاوہ کسی دوسری بیوی کے بطن سے ہو۔ کسی کنواری لڑکی کے دودھ اتر آیا اور اس نے وہ دودھ کسی بچی کو پلایا تو یہ اس بچی کی رضاعی ماں ہوگی اور رضاعت کے تمام احکام دونوں کے حق میں ثابت ہوں گے لہذا اگر کسی شخص نے اس کنواری لڑکی سے نکاح کیا اور جماع سے پہلے اسے طلاق دیدی تو اس شخص کے لئے اس دودھ پینے والی لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہوگا ( کیونکہ اس صورت میں بیوی کی بیٹی کا بھی یہی حکم ہے) اور اگر جماع کے بعد طلاق دی تو اس لڑکی سے نکاح کرنا ناجائز ہوگا۔ اگر کسی ایسی لڑکی کے دودھ اتر آیا جس کی عمر نو برس سے کم تھی اور پھر اس نے وہ دودھ ایک لڑکے کو پلایا تو اس سے دونوں کے درمیان حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی کیونک حرمت رضاعت اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے جب کہ دودھ نو برس یا نو برس سے زائد کی عمر میں اترے ۔ اسی طرح اگر کسی کنواری لڑکی کی چھاتیوں میں زرد رنگ کا پانی اتر آیا تو اس کے پلانے سے بھی حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ کسی عورت نے ایک بچہ کے منہ میں اپنی چھاتی داخل کر دی لیکن بچہ کا اس کی چھاتی سے دودھ چوسنا معلوم نہیں ہوا تو اس صورت میں شک کی وجہ سے حرمت رضاعت کا حکم نافذ نہیں کیا جائے گا البتہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ حرمت ثابت ہو جائے۔ کسی عورت کی چھاتی سے زرد رنگ کی بہنے والی پتلی چیز بچہ کے منہ میں پہنچ گئی تو حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی اور یہی کہا جائے گا کہ یہ دودھ ہی ہے جس کا رنگ متغیر ہو گیا ہے۔ اگر کسی مرد کی چھاتیوں میں دودھ اتر آیا اور اس نے کسی بچہ کو پلا دیا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی اور حرمت ثابت ہونے کے لئے زندہ اور مردہ عورت کے دودھ کا یکساں حکم ہے۔ اور اگر دو بچوں نے کسی ایک چار پائے جانور کا دودھ پیا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ رضاعت کا حکم دار الاسلام اور دار الحرب دونوں جگہ یکساں ہے لہذا اگر کسی کافر عورت نے دار الحرب میں کسی کافر بچہ کو دودھ پلایا اور پھر وہ دودھ پلانیوالی اس کے قرابت دار اور دودھ پینے والا بچہ مسلمان ہو گئے یا وہ دار الحرب میں اسلام ہی کی حالت میں تھے اور پھر دار الحرب سے دار الاسلام میں آگئے تو پھر رضاعت کے تمام احکام نافذ ہوں گے۔ جس طرح عورت کی چھاتی سے دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اسی طرح بچہ کے منہ میں دودھ ڈال دینے یا ناک میں نچوڑ دینے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے البتہ کان میں ٹپکانے عضو مخصوص کے سوراخ میں ڈالنے حقنہ کے ذریعہ استعمال کرنے اور مقعد میں اور دماغ اور پیٹ کے زخم میں ڈالنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اگرچہ دودھ ان زخموں کے ذریعہ دماغ اور پیٹ میں پہنچ جائے ۔ لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک حقنہ کے ذریعہ استعمال کرنے سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ اگر غذا کی کسی چیز میں دودھ مل گیا اور اسے آگ پر پکا کر کھانا بنا لیا گیا جس کی وجہ سے دودھ کی حقیقت بدل گئی تو اس کو کھانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی خواہ دودھ غالب ہو یا مغلوب ہو اور اگر دودھ ملی ہوئی چیز آگ پر پکائی نہیں گئی تو اس صورت میں بھی اس کو کھانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ بشرطیکہ اس چیز میں دودھ غالب نہ ہو اور اگر وہ دودھ غالب ہوگا تو بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک حرمت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ جب بہنے والی چیز جمی ہوئی چیز میں مخلوط ہو گئی تو بہنے والی چیز اس جمی ہوئی چیز کے تابع ہوگئی اور مشروبات کی قسم سے خارج ہوگئی یعنی پینے کے قابل نہیں رہی اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ جس چیز میں دودھ مخلوط ہوگیا اگر وہ غالب نہ ہو اور اب بھی وہ دودھ بہنے کے قابل ہو تو اس کے پینے سے حرمت ثابت ہوجائیگی۔
-
--
اگر عورت کا دودھ(کسی جانور مثلا) بکری کے دودھ میں مخلوط ہوگیا اور عورت کا دودھ غالب ہے تو اس کے پینے سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر عورت نے اپنے دودھ میں روٹی بھگوئی اور روٹی نے دودھ کو جذب کر لیا یا اپنے دودھ میں ستو گھولا اور پھر وہ روٹی یا ستو کسی بچہ کو کھلا دیا تو اگر اس میں دودھ کا ذائقہ موجود ہو تو حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ لیکن ذائقہ کی موجودگی کی شرط اسی صورت میں ہے جب کہ اس کو لقمہ لقمہ کر کے کھلایا جائے اور اگر گھونٹ گھونٹ کر کے پلایا گیا تو پھر اگر ذائقہ موجود نہ ہو تب بھی حرمت ثابت ہو جائے گی، اگر عورت کا دودھ پانی یا دوا یا جانور کے دودھ میں مخلوط ہو گیا تو اس میں غالب کا اعتبار ہوگا یعنی اگر وہ دودھ غالب ہوگا تو اس کو پینے سے حرمت ثابت ہو جائے گی اور اگر پانی وغیرہ غالب ہوگا تو حرمت ثابت نہیں ہوگی) اس طرح اگر عورت کا دودھ کسی بھی پتیل سیال چیز یا کسی بھی جمی ہوئی چیز میں مخلوط ہو جائے تو غالب کا اعتبار ہوگا اور غالب سے مراد یہ ہے کہ اس کا رنگ بو اور ذائقہ تینوں چیزیں یا ان میں سے کوئی ایک چیز محسوس و معلوم ہو ۔ اور اگر دونوں چیزیں یعنی دودھ اور وہ چیز جس میں دودھ مخلوط ہو گیا ہے برابر ہوں تو حرمت کا ثابت ہونا ضروری ہو جائے گا کیونکہ دودھ مغلوب نہیں ہے۔ اگر دو عورتوں کا دودھ باہم مل گیا ہے تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کے نزدیک اس عورت سے حرمت رضاعت ثابت ہوگی جس کا دودھ زیادہ اور غالب ہو لیکن حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں دونوں عورتوں سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی حضرت امام ابوحنیفہ کا ایک قول بھی اسی کے مطابق ہے اور یہی قول زیادہ صحیح اور اقرب الی الاحتیاط ہے اور اگر دونوں عورتوں کا دودھ برابر ہو تو متفقہ طور پر یعنی ان تینوں ائمہ کے نزدیک مسئلہ یہی ہے کہ دونوں عورتوں کے ساتھ حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ اگر کسی عورت نے اپنے دودھ کا چھاچھ یا دہی یا پنیر اور یا ماوا وغیرہ بنا لیا اور اسے کسی بچہ کو کھلا دیا تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ اس پر رضاعت یعنی دودھ پینے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بستی و گاؤں کی کسی عورت نے ایک بچی کو دودھ پلایا مگر بعد میں یہ کسی کو بھی یاد ومعلوم نہیں رہا کہ وہ دودھ پلانیوالی عورت کون تھی اور پھر اس بستی کے کسی شخص نے اس لڑکی سے نکاح کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائیگا ۔ عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت کسی بچی کو اپنا دودھ نہ پلائیں اور اگر کسی بچہ کو اپنا دودھ پلائیں تو یاد رکھیں یا لکھ لیا کریں عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بلا ضرورت دوسروں کے بچوں کے منہ میں اپنی چھاتی دے دیتی ہیں اور انہیں دودھ پلا دیتی ہیں اور پھر بعد میں انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کس بچہ کو میں نے اپنا دودھ پلایا ہے اس کی وجہ سے حرمت رضاعت کے احکام کی صریحًا خلاف ورزی ہوتی ہے لہذا اس بارے میں احتیاط ضروری ہے۔ دودھ خواہ پہلے پلایا ہو خواہ بعد میں پلایا گیا ہو حرمت رضاعت بہرصورت ثابت ہو جائے گی پہلے اور بعد میں کوئی فرق نہیں ہو گا لہذا اگر کسی شخص نے ایک شیرخوار بچی سے نکاح کر لیا اور پھر بعد میں اس شخص یعنی خاوند کی نسبی یا رضاعی ماں نے یا بہن نے یا لڑکی نے آکر اس کو اپنا دودھ پلا دیا تو یہ بچی اس شخص کے لئے حرام ہو جائے گی اور اس پر نصف مہر واجب ہوگا لیکن اس نصف مہر کے طور پر جو رقم وہ ادا کرے گا اسے وہ مرضعہ یعنی دودھ پلانیوالی سے وصول کر لے گا بشرطیکہ اس دودھ پلانیوالی نے محض شرارت یعنی نکاح ختم کرانے کے لئے اپنا دودھ پلا دیا ہو اور اگر اس نے شرارت کی نیت سے دودھ نہ پلایا ہو بلکہ وہ بچی بھوک سے بلک رہی تھی اور اس عورت نے ہمدردی کے جذبہ سے اسے دودھ پلا دیا تو پھر خاوند اس سے اپنی رقم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ کسی شخص نے دو شیرخواربچیوں سے نکاح کیا اس کے بعد ایک اجنبی عورت نے آ کر ان دونوں بچیوں کو ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرے دودھ پلا دیا تو وہ دونوں بچیاں شوہر کے لئے حرام ہو جائیں گی اور پھر اس کے بعد وہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے جسے وہ پسند کرے نکاح کر سکتا ہے ۔ اور اگر اس کے نکاح میں دو کی بجائے تین بچیاں ہوں اور اس عورت نے ان تینوں کو ایک ساتھ دودھ پلایا تو وہ تینوں حرام ہو جائیں گی اس کے بعد وہ ان تینوں میں سے جس سے چاہے نکاح کر سکتا ہے۔ اور اگر تینوں کو یکے بعد دیگرے پلایا تو پہلی دو تو حرام ہو جائیں گی اور تیسری اس کی بیوی رہے گی اور اگر پہلے تو دو بچیوں کو ایک ساتھ دودھ پلایا اور اس کے بعد تیسری کو پلایا تو بھی یہی حکم ہوگا۔ اور اگر پہلے ایک لڑکی کو پلایا اور بعد میں دو کو ایک ساتھ پلایا تو تینوں حرام ہو جائیں گی اور ان میں سے ہر ایک بچی کا نصف مہر اس پر واجب ہوگا جسے وہ دودھ پلانے والی سے وصول کرے گا بشرطیکہ اس نے شرارت کی نیت سے دودھ پلایا ہو اور اگر اس کے نکاح میں چار بچیاں ہوں اور اس عورت نے ان چاروں بچیوں کو ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے دودھ پلایا ہو تو چاروں حرام ہو جائیں گی اور اگر پہلے ایک کو اور پھر تین کو ایک ساتھ پلایا ہو تو بھی یہی حکم ہوگا اور اگر پہلے تین کو ایک ساتھ اور بعد میں چوتھی کو پلایا تو چوتھی حرام نہیں ہوگی۔ اگر کسی شخص نے ایک بڑی عورت سے اور ایک شیرخوار بچی سے نکاح کیا اور پھر بڑی نے چھوٹی کو اپنا دودھ پلا دیا تو شوہر کے لئے دونوں حرام ہو جائیں گی اب اگر اس شخص نے بڑی سے جماع نہیں کیا تھا تو اسکو کچھ مہر نہیں ملے گا اور چھوٹی کو اسکا آدھا مہر دینا واجب ہوگا جسے وہ بڑی سے وصول کرے گا بشرطیکہ اس نے شرارت کی نیت سے اسے دودھ پلایا ہو اور اگر اس نے دودھ شرارت کی نیت سے نہیں پلایا تو اس سے کچھ وصول نہیں کیا جائے گا اگرچہ اس بڑی کو یہ معلوم ہو کہ یہ چھوٹی بچی میرے شوہر کی بیوی ہے۔ رضاعت دودھ پلانے کا ثبوت دو باتوں میں سے کسی ایک بات سے ہو جاتا ہے ایک تو اقرار یعنی کوئی عورت خود اقرار کرے کہ میں نے فلاں کو دودھ پلایا ہے اور دوسرے گواہی یعنی گواہ یہ گواہی دیں کہ فلاں عورت نے فلاں بچے کو دودھ پلایا ہے) اور رضاعت کے سلسلہ میں گواہی یا تو دو مردوں کی معتبر ہوتی ہے یا ایک مرد اور دو عورتوں کی بشرطیکہ وہ عادل ہوں۔ (حرمت رضاعت کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان) جو تفریق جدائی ہوتی ہے وہ قاضی کے حکم کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے اور جب دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں کسی میاں بیوی کے درمیان رضاعت کے رشتہ کی گواہی دیں اور اس کی بنیاد پر قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دے تو عرت کو کچھ نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو اور اگر جماع ہو چکا ہوگا تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہوگی وہ مہر خاوند پر واجب ہوگا اور نفقہ و سکنہ یعنی کھانے پینے کا خرچ اور رہنے کے لئے مکان واجب نہیں ہوگا۔ اگر دو عادل مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں نے نکاح ہو جانے کے بعد شادی شدہ عورت کے سامنے گواہی دی اور کہا کہ شوہر کے ساتھ تمہارا رشتہ رضاعت ثابت ہوتا ہے) تو اس عورت کے لئے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ شہادت صحیح ہے بایں طور کہ جس طرح یہ شہادت اگر قاضی کے سامنے دی جاتی تو رضاعت ثابت ہو جاتی اور وہ دونوں کے درمیان تفریق کرا دیتا ہے) اسی طرح جب یہ شہادت عورت کے سامنے آئے گی تو اس کا حکم بھی وہ یہی ہوگا اور اگر رضاعت کی یہ خبر صرف ایک شخص دے اور اس عورت کے دل میں یہ بات پیدا ہو جائے کہ یہ شخص سچ کہہ رہا ہے تو شوہر سے پرہیز کرنا بہتر ہے لیکن واجب نہیں ہے۔ ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اسکے بعد ایک دوسری عورت نے آ کر ان دونوں میاں بیوی سے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے تو اس مسئلہ کی چار صورتیں ہوں گی، -1 اگر دونوں میاں بیوی نے اس عورت کا اعتبار کر لیا تو نکاح فاسد ہو جائیگا اور عورت کو کچھ مہر نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو۔ -2 اگر دونوں میاں بیوی نے اس عورت کا اعتبار نہ کیا تو نکاح بحالہ باقی رہے گا لیکن اگر وہ عورت جس نے رشتہ رضاعت کی خبر دی ہے) عادل ہے تو پھر احتیاط کا تقاضہ یہی ہوگا کہ خاوند اپنی بیوی کو چھوڑ دے اب اگر اس نے چھوڑ دیا تو بہتر ہے کہ خاوند نصف مہر دیدے اور عورت کے لئے بہتر یہ ہے کہ کچھ نہ لے بشرطیکہ چھوڑنا جماع سے پہلے ہو اور اگر چھوڑنے سے پہلے جماع ہو چکا ہو تو مرد کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اس کا پورا مہر بھی دیدے اور عدت کے ایام پورے ہونے تک نفقہ و سکنہ بھی دے اور عورت کے لئے بہتر یہ ہے کہ مہر مثل و مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو وہ لے لے اور نفقہ وسکنہ نہ لے اور اگر خاوند نے بیوی کو نہیں چھوڑا یعنی اس نے طلاق نہیں دی) تو بیوی کو خاوند کے پاس رہنا جائز ہے اسی طرح اگر دو عورتوں نے یا ایک مرد اور ایک عورت نے یا دو غیر عادل مردوں نے یا غیر عادل ایک مرد اور دو عورتوں نے رضاعت کی گواہی دی تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا یعنی خاوند کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔ -3 اگر خاوند نے اس عورت کا اعتبار کیا اور بیوی نے اعتبار نہیں کیا تو نکاح فاسد ہو جائے گا اور مہر دینا واجب ہوگا -4 اگر بیوی نے اس عورت کا اعتبار کیا مگر خاوند نے اس کا اعتبار نہیں کیا تو نکاح بحالہ باقی رہے گا لیکن بیوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاوند سے قسم کھلوائے کہ وہ واقعۃً اس عورت کی بات کو صحیح نہیں سمجھتا) اور اگر خاوند قسم کھانے سے انکار کر دے تو دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔ ایک مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا اور پھر کہنے لگا کہ یہ میری رضاعی بہن ہے یا اس کی طرف اسی قسم کے کسی اور رضاعی رشتہ کی نسبت کی اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے وہم ہو گیا تھا میں نے جو کچھ کہا تھا غلط تھا تو استحسانًا ان دونوں کے درمیان تفریق نہیں کرائی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنی اس دوسری بات پر قائم رہے کہ میں نے جو کچھ کہا تھا غلط ہے) اور اگر وہ اپنی پہلی بات پر قائم رہے اور یہ کہے کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ صحیح ہے تو اس صورت میں دونوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی پھر اس کے بعد وہ اپنی پہلی بات سے انکار کرے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اور اگر عورت نے اپنے خاوند کی اس بات کی تصدیق کر دی تو اس کو کچھ مہر نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو ) اور اگر اس عورت کے ساتھ جماع ہو چکا ہو اور وہ اپنے خاوند کی اس بات کی تصدیق نہ کرے تو مرد پر اس کا پورا مہر اور نفقہ و سکنہ واجب ہوگا۔ اور اگر مرد نے کسی عورت کے بارے میں اس سے نکاح کرنے سے پہلے یہ کہا کہ یہ میری رضاعی بہن ہے یا رضاعی ماں ہے اور پھر بعد میں کہنے لگا مجھے وہم ہو گیا تھا یا مجھ سے چوک ہو گئی تھی ( یعنی میں نے پہلے جو کچھ کہا تھا غلط ہے) تو اس شخص کو اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہو گا ۔ اور اگر اپنی سابقہ بات پر قائم رہا یعنی بعد میں اس نے کہا کہ میں نے جو کچھ پہلے کہا تھا وہ صحیح ہے تو اس صورت میں اس عورت سے اس کو نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر وہ اس کے باوجود نکاح کر لے تو ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی اور اگر وہ اپنے سابقہ اقرار ہی سے مکر جائے ( یعنی یہ کہنے لگے کہ میں نے یہ اقرار نہیں کیا تھا کہ یہ میری رضاعی ماں یا بہن ہے) لیکن دو شخص اس بات کی گواہی دیں کہ اس نے اقرار کیا تھا تو پھر اس صورت میں ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔ اگر کسی عورت نے کسی مرد کے بارے میں اقرار کیا کہ یہ میرا رضاعی باپ رضاعی بھائی یا رضاعی بھتیجا ہے لیکن مرد نے اس کا انکار کیا اور اس کے بعد پھر عورت نے بھی اپنے قول کی تردید کی اور کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی تو اس عورت سے نکاح جائز ہو جائیگا اور اسی طرح اگر مرد نے اس عورت سے نکاح کر لیا قبل اس کے کہ وہ عورت اپنے قول کی تردید کرتی تو نکاح صحیح ہوگا۔ اگر کسی مرد نے کسی عورت سے جو اس کے نکاح میں ہو اپنے نسبی رشتہ کا اقرار کیا یعنی یوں کہا کہ یہ عورت میری حقیقی ماں ہے یا حقیقی بہن ہے یا حقیقی بیٹی ہے اور اس عورت کا نسب کسی کو معلوم نہیں ہے نیز وہ مرد یہ صلاحیت رکھتا ہے (یعنی اس کے بارے میں یہ گمان ہو سکتا ہے کہ وہ عورت اس کی ماں یا بیٹی ہو تو ) اس مرد سے دوبارے پوچھا جائے گا اب اگر وہ یہ کہے کہ مجھے وہم ہو گیا تھا یا میں چوک گیا تھا ، یا میں نے غلط کہا تھا تو استحسانًا ان کا نکاح باقی رہے گا اور اگر دوبارہ پوچھے جانے پر اس نے یہ کہا کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہی صحیح ہے تو پھر دونوں میں تفریق کرا دی جائے گی ۔ اور اگر مرد یہ صلاحیت نہیں رکھتا یعنی ان دونوں کی عمر میں اس قدر تفاوت ہے کہ وہ اس بات کا امکان نہیں رکھتا ) کہ وہ عورت جس عمر کی ہے اس عمر کی کوئی عورت اس کی حقیقی ماں یا اس کی حقیق بہن ہو سکے تو نسب ثابت نہیں ہوگا اور ان دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی اور اگر مرد نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ یہ میری حقیقی لڑکی ہے اور پھر بعد میں اپنی اس بات کی تردید بھی نہیں کی بلکہ اس پر اصرار کرتا رہا حالانکہ لوگوں کو اس لڑکی کا نسب معلوم ہے ( یعنی دنیا جانتی ہے کہ یہ لڑکی اس کی نہیں ہے بلکہ دوسرے کی ہے) تو ان دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی اور اسی طرح اگر اس نے یہ کہا کہ یہ میری حقیقی ماں ہے حالانکہ لوگوں کو اس کا نسب معلوم ہے ( یعنی سب جانتے ہیں کہ یہ اس کی ماں نہیں ہے) تو اس صورت میں بھی دونوں کے درمیان تفریق نہیں کرائی جائے گی چوتھا سبب جمع کرنا : یعنی وہ عورتیں جو دوسری عورتوں کے ساتھ جمع ہو کر محرمات میں سے ہو جاتی ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں۔ (١) اجنبی عورتوں کو جمع کرنا (٢) ذوات الارحام کو جمع کرنا پہلی قسم یعنی اجنبی عورتوں کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے جس قدر نکاحوں کی اجازت دی ہے ان سے زیادہ نکاح کرنا چنانچہ شریعت نے آزاد مرد کو ایک وقت میں چار نکاح تک کی اجازت اور غلام کو ایک وقت میں دو نکاح تک کی اجازت دی ہے لہذا کسی آزاد شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کو جمع کرے (یعنی چار سے زیادہ عورتوں کو اپنی بیوی بنائے) اور غلام کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں دو سے زیادہ عورتوں کو جمع کرے آزاد شخص کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ایک وقت میں جتنی چاہے بغیر نکاح باندیاں رکھے باندیاں رکھنے کی تعداد کی کوئی قید نہیں ہے لیکن غلام کو بغیر نکاح باندی رکھنا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا آقا اجازت دیدے آزاد شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے اور وہ چار عورتیں خواہ آزاد ہوں خواہ باندیاں ہوں اور آزاد دونوں ملی جلی ہوں۔ اگر کسی شخص نے پانچ عورتوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کیا تو پہلی چار کا نکاح جائز اور پانچویں کا باطل ہوگا اور اگر پانچوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو پانچوں کا نکاح باطل ہوگا اسی طرح اگر کسی غلام نے تین عورتوں سے نکاح کیا تو یہی تفصیل ہوگی کہ ان تینوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کرنے کی صورت میں تو پہلی دونوں کا نکاح صحیح ہو جائیگا اور تیسری کا باطل ہوگا اور اگر تینوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو تینوں کا نکاح باطل ہوگا۔ اگر کسی حربی کافر نے پانچ کافرہ عورتوں سے نکاح کیا اور پھر وہ سب یعنی بانچوں بیویاں اور شوہر مسلمان ہو گئے تو اگر یہ پانچوں نکاح یکے بعد دیگرے ہوئے تھے تو پہلی چار بیویاں جائز رہیں گی اور پانچویں بیوی سے جدائی کرا دی جائے گی اور اگر پانچوں نکاح ایک ہی عقد میں ہوئے تھے تو پانچوں کا نکاح باطل ہو جائیگا اور ان پانچوں سے شوہر کی جدائی کرا دی جائے گی۔ اگر کسی عورت نے ایک عقد میں دو مردوں سے نکاح کیا اور ان میں سے ایک شخص کے نکاح میں پہلے سے چار عورتیں تھیں تو اس کا نکاح اس دوسرے شخص کے ساتھ صحیح ہوگا ( جس کے نکاح میں پہلے چار بیویاں نہیں تھیں اور اگر ان دونوں کے نکاح میں پہلے سے چار بیویاں تھیں یا ان میں سے کسی ایک کے بھی نکاح میں چار عورتیں نہیں تھیں تو یہ نکاح کسی کے ساتھ بھی صحیح نہیں ہوگا۔ جمع کرنے کی دوسری قسم یعنی ذوات الارحام کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھا جائے گا جو آپس میں ذی رحم اور نسبی رشتہ دار ہوں چنانچہ دو بہنوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا حرام ہے اسی طرح دو بہنوں کو باندی بنا کر ان سے جماع کرنا بھی حرام ہے یعنی اگر دو بہنیں بطور باندی کسی کی ملکیت میں ہوں تو دونوں سے جماع نہ کیا جائے اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے خواہ وہ دونوں نسبی حقیقی بہنیں ہوں یا رضاعی بہنیں ہوں۔ اس بارے میں اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسی دو عورتیں جو ایک دوسرے کی رشتہ دار ہوں اور ایسا رشتہ ہو کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو مرد فرض کر لیا جائے تو آپس میں ان دونوں کا نکاح درست نہ ہو خواہ وہ رشتہ نسبی حقیقی ہو یا رضاعی ہو تو ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہوتا لہذا جس طرح دو حقیقی یا رضاعی بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے اسی طرح لڑکی اور اس کی حقیی یا رضاعی پھوپھی کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا حرام ہے ایسے ہی کسی لڑکی اور اس کی حقیقی یا رضاعی خالہ یا اسی قسم کی کسی اور رشتہ دار کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ ہاں کسی عورت اور اس کے پہلے خاوند کی لڑکی کو جو اس عورت کے بطن سے نہیں ہے) بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے کیونکہ اگر اس عورت کو مرد فرض کر لیا جائے تو اس کے شوہر کی اس لڑکی سے اس کو نکاح کرنا جائز ہوگا بخلاف اس کے عکس کے کہ اگر اس لڑکی کو مرد فرض کر لیا جائے تو اس کے لئے اس عورت یعنی باپ کی بیوی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا ) اسی طرح کسی عورت اور اس کی باندی کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے بشرطیکہ پہلے اس باندی سے نکاح کیا ہو۔
-
--
اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو نکاح باطل ہوگا اور ان دونوں کو ان کے شوہر سے جدا کرا دیا جائے گا اور پھر یہ جدائی اگر دخول یعنی جماع سے پہلے ہوگی تو ان دونوں کو مہر کے طور پر کچھ نہیں دلوایا جائے گا اور اگر جدائی دخول کے بعد ہوگی تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہوگی وہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو دیا جائیگا ۔ اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے مختلف عقد میں یعنی یکے بعد دیگرے نکاح کیا تو جو نکاح بعد میں ہوگا وہ فاسد ہو جائیگا اور شوہر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کرے اگر وہ خود سے علیحدگی اختیار نہ کرے اور قاضی کو اس کا علم ہو جائے تو قاضی علیحدگی کرا دے ۔ اور پھر یہ علیحدگی اگر دخول جماع سے پہلے واقع ہو گئی تو علیحدگی کے احکام (یعنی مہر و عدت وغیرہ) میں سے کوئی حکم نافذ نہیں ہوگا اور اگر دخول کے بعد علیحدگی واقع ہو گئی تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو گی وہ مہر مل جائے گا اور اس پر عدت واجب ہو گی اور اگر بچہ پیدا ہوا تو اس کا نسب ثابت ہو گا اور اس شخص کو اپنی بیوی یعنی پہلی منکوحہ سے اس وقت تک علیحدہ رہنا ہوگا جب تک کہ اس کی بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے اور اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے دو عقدوں میں یعنی یکے بعد دیگرے نکاح کر لیا مگر یہ معلوم نہیں کہ کس بہن سے پہلے اور کس بہن سے بعد میں نکاح کیا تھا تو ایسی صورت میں شوہر کو حکم دیا جائے گا کہ وہ بیان کرے اگر وہ بیان کر دے کہ فلاں بہن سے پہلے اور فلاں بہن سے بعد میں نکاح کیا تھا تو اس بیان کے مطابق عمل کیا جائے (یعنی پہلی کا نکاح باقی اور دوسری کا نکاح باطل قرار دیا جائے اور اگر شوہر بھی بیان نہ کر سکے تو پھر قاضی ان دونوں ہی سے شوہر کی علیحدگی کرا دے، علیحدگی کے بعد ان دونوں کو نصف مہر ملے گا بشرطیکہ دونوں کا مہر برابر ہو اور عقد کے وقت متعین ہوا ہو اور یہ علحیدگی بھی جماع سے پہلے واقع ہوئی ہو اور اگر دونوں کا مہر برابر نہ ہو تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کے مہر کا چوتھائی حصہ ملے گا اور اگر عقد کے وقت مہر متعین نہ ہوا تو آدھے مہر کی بجائے ایک جوڑا کپڑا دونوں کو دیا جائیگا ۔ اور اگر یہ علیحدگی جماع کے بعد ہوئی ہو تو ہر ایک کو اس کا مہر پورا ملے گا۔ اور ابوجعفر ہندوانی فرماتے ہیں کہ مسئلہ مذکورہ کا یہ حکم اس وقت ہوگا جب کہ ان دونوں میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے کہ پہلے مجھ سے نکاح ہوا تھا اور گواہ کی ایک کے بھی پاس نہ ہوں تو دونوں کو نصف مہر دلایا جائے گا لیکن اگر دونوں یہ کہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ ہم میں سے کس کا نکاح پہلے ہوا ہے تو ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک کہ دونوں کسی ایک بات پر متفق ہو کر صلح نہ کر لیں اور دونوں کے صلح کی صورت یہ ہوگی کہ وہ دونوں قاضی کے پاس جا کر یہ کہیں کہ ہم دونوں کا مہر ہمارے خاوند پر واجب ہے اور ہمارے اس مطالبہ میں کوئی تیسرا دعوی دار شریک نہیں ہے ( یعنی ہمارے خاوند پر مہر کی جو رقم واجب ہے اس میں ہم دونوں کے علاوہ اور کسی تیسری عورت کا کوئی حق نہیں ہے) لہذا ہم دونوں اس بات پر صلح و اتفاق کرتی ہیں کہ نصف مہر لے لیں اس کے بعد قاضی فیصلہ کر دے گا اور اگر ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنا نکاح پہلے ہونے پر گواہ پیش کئے تو مرد پر نصف مہر واجب ہوگا جو دونوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا اس حکم میں تمام علماء کا اتفاق ہے نیز دو بہنوں کے سلسلہ میں جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ ایسی تمام عورتوں میں بھی جاری ہوں گے جن کا جمع کرنا (یعنی جن کو بک وقت اپنے نکاح میں رکھنا) حرام ہے اور اگر یہ شخص یعنی جس نے دو بہنوں سے ایک عقد میں نکاح کر لیا تھا اور یہ نکاح باطل ہونے کی وجہ سے ان دونوں بہنوں اور اس کے درمیان علیحدگی کرا دی تھی) ان دونوں بہنوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد پھر ان دونوں میں سے کسی ایک سے نکاح کرنا چاہے تو نکاح کر سکتا ہے بشرطیکہ علیحدگی جماع سے پہلے ہوئی ہو اور اگر یہ علیحدگی جماع کے بعد ہوئی تھی تو اس صورت میں دونوں بہنوں کی عدت گزر جانے سے پہلے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر ایک عدت میں ہے اور دوسری کی عدت پوری ہو گئی ہے تو اس بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا جو عدت میں ہے دوسری سے اس وقت تک نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا جب تک اس بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے جو عدت میں ہے ۔ اور اگر علیحدگی سے پہلے ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جماع ہو گیا تھا تو اس بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا جس سے جماع ہو چکا تھا اور اگر اس بہن سے نکاح کرنا چاہے جس سے جماع نہیں ہوا تھا تو) اس سے اس وقت تک نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا جب تک اس بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے جس سے جماع ہوا تھا، ہاں اگر اس بہن کی عدت پوری ہو جائے جس سے جماع ہوا تھا تو پھر ان دونوں میں سے جس سے چاہے نکاح کر سکتا ہے۔ جس طرح بیک وقت دو بہنوں کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے اسی طرح بیک وقت دو باندی بہنوں سے جنسی لطف حاصل کرنا یعنی مساس وجماع کرنا بھی جائز نہیں ہے ( یعنی اگر کسی شخص کی ملکیت میں بیک وقت دو بہنیں بطور باندی ہوں تو وہ ان دونوں سے جنسی تلذذ حاصل نہ کرے بلکہ ان میں سے کسی ایک ہی سے مساس و جماع وغیرہ کرے) کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے جنسی لطف لینے کے بعد دوسری بہن حرام ہو جائے گی اس دوسری بہن سے اسی وقت جنسی لطف حاصل کر سکتا ہے جب کہ پہلی بہن کو اپنے اوپر حرام کر لے ۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ایک باندی خریدی اور اس سے جماع کر لیا پھر اس کے بعد اس کی بہن کو خرید لیا تو صرف پہلی ہی سے جماع کر سکتا ہے دوسری سے جماع اس وقت تک حرام ہوگا جب تک کہ پہلی کو اپنے لئے حرام نہ کر لے اور حرام کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ یا تو کسی سے اس کا نکاح کر دے یا اپنی ملکیت سے نکال دے یا آزاد کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے یا فروخت کر دے یا صدقہ کر دے اور یا مکاتب بنا دے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ بعض حصہ کو آزاد کرنا کل حصہ کو آزاد کرنے کے مترادف ہے ( مثلا کسی نے اپنی باندی سے کہا کہ میں نے تیرا آدھا حصہ یا تیرا چوتھائی حصہ آزاد کیا تو یہ کل کو آزاد کرنے کے مرادف ہوگا اور اس سے جماع کرنا ناجائز ہوگا) اسی طرح اس کے بعض حصہ کو اپنی ملکیت سے نکالنا کل کو اپنی ملکیت سے نکالنے کے مرادف ہوگا۔ اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ پہلی مجھ پر حرام ہے تو اس کو کہہ دینے کی وجہ سے دوسری سے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا جیسا کہ ایک کے حیض و نفاس اور احرام و روزہ کی وجہ سے دوسری حلال نہیں ہو جاتی یعنی جس طرح اگر ایک بہن حیض وغیرہ کی حالت میں حرام ہو جاتی ہے تو محض اس کی وجہ سے اس کی دوسری بہن حلال نہیں ہو جاتی اسی طرح فقط اتنا کہہ دینا کہ پہلی میرے لئے حرام ہے دوسری کو حلال کر دینے کے لئے کافی نہیں ہے) اگر کسی شخص نے ان دونوں بہنوں سے جماع کر لیا جو بطور باندی اس کی ملکیت میں تھیں تو اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ جماع نہیں کر سکتا تاوقتیکہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق دوسری کو اپنے لئے حرام نہ کر لے۔ اگر کسی شخص نے ان دونوں باندی بہنوں میں سے کہ جو بیک وقت اس کی ملکیت میں تھیں کسی ایک کو فروخت کر دیا لیکن وہ کسی عیب کی وجہ سے لوٹ کر آ گئی یا اس کو ہبہ کر دیا تھا لیکن اپنے ہبہ کو ختم کر کے اسے واپس لے لیا یا اس کا نکاح کر دیا تھا مگر اس کے شوہر نے اس کو طلاق دیدی اور اس کی عدت بھی پوری ہو گئی تو ان صورتوں میں وہ شخص ان میں سے کسی ایک سے بھی جماع نہ کرے تاوقتیکہ دوسری بہن کو اپنے لئے حرام نہ کر لے۔ کسی شخص نے ایک باندی سے نکاح کر لیا اور اس کے ساتھ جماع کرنے سے پہلے اس کی بہن کو خرید لیا تو اس کے لئے خریدی ہوئی باندی سے جنسی لطف حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ فراش یعنی زوجتی کا استحقاق نفس نکاح سے ثابت ہو جاتا ہے اس لئے اگر وہ خریدی ہوئی باندی سے جماع کرے گا تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے فراش یعنی زوجیت کا استحقاق) میں دو بہنوں کو جمع کیا اور یہ حرام ہے۔ اگر ایک شخص نے اپنی باندی سے جماع کر لیا اور اس کے بعد اس کی بہن سے نکاح کیا تو یہ نکاح صحیح ہوگا اور جب نکاح صحیح ہو گیا تو اب وہ باندی سے جماع نہ کرے گا اگرچہ ابھی تک منکوحہ سے جماع نہ کیا ہو اور اس منکوحہ سے اس وقت تک جماع نہ کرے جب تک کہ اپنی باندی یعنی منکوحہ کی بہن کو مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے اپنے لئے حرام نہ کر لے اور اگر اس نے اپنی باندی کی بہن سے ایسی صورت میں نکاح کیا کہ اس باندی سے جماع نہیں ہوا ہے تو پھر منکوحہ سے جماع کر سکتا ہے۔ اگر کسی شخص نے اپنی باندی سے جماع کے بعد اس کی بہن سے نکاح کیا مگر وہ نکاح کسی وجہ سے فاسد ہو گیا تو محض نکاح سے وہ باندی حرام نہ ہو گی ہاں اگر نکاح کے بعد وہ منکوحہ سے جماع کر لے تو باندی سے جماع کرنا حرام ہو جائیگا ۔ اگر دو بہنوں نے کسی شخص سے یہ کہا کہ ہم نے اتنے مہر کے عوض تمہارے ساتھ اپنا نکاح کیا اور یہ الفاظ دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ادا ہوئے اور اس شخص نے ان میں سے ایک کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائیگا اور اگر پہلے خود اس شخص نے ان دونوں بہنوں سے یہ کہا کہ میں نے تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کے عوض اپنا نکاح کیا اور ان میں سے ایک نے قبول کر لیا اور دوسری نے انکار کر دیا تو دونوں کا نکاح باطل ہوگا۔ اما محمد فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنا نکاح کروانے کے لئے ایک آدمی کو اپنا وکیل بنایا اور پھر کسی دوسرے آدمی کو بھی اسی کام کے لئے اپنا وکیل بنا دیا اس کے بعد ان دونوں میں سے ہر ایک وکیل نے ایک ایک عورت سے اس شخص کا نکاح ان عورتوں کی اجازت کئے بغیر کر دیا اور پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دونوں عورتیں رضاعی بہنیں ہیں ، نیز ان دونوں وکیلوں کی زبان سے نکاح کے الفاظ ایک ساتھ ادا ہوئے تھے تو اس صورت میں دونوں عورتوں کے نکاح باطل ہوں گے، اسی طرح اگر یہ دونوں نکاح ان عورتوں کی اجازت سے ہوں یا ایک کی اجازت سے اور ایک کی بغیر اجازت تو بھی یہی حکم ہوگا۔ ایک شخص مثلا زید نے دو بہنوں سے نکاح کیا حالانکہ ان میں سے ایک بہن کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی یا کسی دوسرے شوہر کے طلاق دینے کی وجہ سے ابھی عدت کے دن گزار رہی تھی تو اس صورت میں زید کا نکاح صرف دوسری بہن کے ساتھ صحیح ہوگا۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی یا ایک طلاق بائن یا تین طلاق دی یا نکاح فاسد ہو جانے کی وجہ سے نکاح فسخ ہو گیا یا شبہ ہو کر کسی عورت سے جماع کر لیا غرضیکہ ان میں سے کسی بھی صورت کے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ عورت کہ عدت کے دن گزرا رہی ہو تو اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے وہ شخص نکاح نہیں کر سکتا اور جس طرح اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز نہیں اسی طرح اس کی کسی بھی ایسی رشتہ والی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں جو اس کے لئے ذوات الارحام میں سے ہو اور دونوں کا بیک وقت کسی ایک کے نکاح میں رہنا حرام ہو (مثلا اس کے زمانہ عدت میں اس کی بھتیجی سے نکاح کرنا جائز نہیں) اور اسی طرح اس کے زمانہ عدت میں اس کے علاوہ مزید چار عورتوں سے نکاح کرنا بھی حلال نہیں ۔ اگر کسی شخص نے اپنی باندی کو جو ام ولد یعنی اس کے بچہ کی ماں تھی آزاد کر دیا تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے اس کی بہن سے شادی کرنا جائز نہیں ہوگا۔ البتہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے زمانہ عدت میں اس کے ما سوا چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہو گا جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے بھی نکاح کر سکتا ہے ۔ اگر کسی شوہر نے کہا کہ میری مطلقہ بیوی نے بتایا کہ اس کی عدت کے دن پورے ہو گئے ہیں (لہذا میں اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہوں) تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ طلاق دیئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ اگر طلاق دیئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے جس میں عدت پوری ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تو شوہر کا قول معتبر نہیں ہوگا اس طرح اس کی مطلقہ بیوی کا یہ کہنا کہ میری عدت پوری ہو گئی ہے قابل اعتبار نہ ہوگا ہاں اگر وہ کوئی ایسی صورت بیان کرے جس میں عدت پوری ہونے کا احتمال ہو جیسے وہ یہ بیان کرے کہ طلاق کے دوسرے دن میرا حمل جس کے اعضاء پورے تھے ساقط ہو گیا ہے تو اس صورت میں اس کا قول معتبر ہو گا ۔ اور طلاق کو اتنا عرصہ گزر چکا ہو کہ اس میں عدت پوری ہونے کا امکان ہو تو اگر عورت اپنے شوہر کے قول کی تصدیق کر دے یا اس مجلس میں موجود نہ ہو تو شوہر کا قول معتبر ہوگا اور اس کیلئے بیک وقت چار دوسری عورتوں سے یا سابقہ بیوی کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا بلکہ حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اگر بیوی شوہر کو جھٹلا دے تو بھی شوہر کا قول معتبر ہوگا۔ کسی شخص کی بیوی مرتد ہو کر دار الحرب چلی جائے تو شوہر کے لئے اس کی عدت پوری ہونے سے پہلے اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے جیسا کہ اس کے مر جانے کی صورت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے پھر اگر وہ مرتدہ عورت مسلمان ہو کر دار الحرب سے لوٹے اور اس کا شوہر اس کی بہن سے نکاح کر چکا ہو تو اس کی بہن کا نکاح فاسد نہیں ہوگا اور اگر وہ بہن کے ساتھ نکاح ہونے سے پہلے لوٹے تو حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک تو اس صورت میں بھی وہ شخص اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص اس صورت میں اس کی بہن سے نکاح نہیں کر سکتا۔ ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے جو ایک دوسرے کی پھوپھی یا ایک دوسرے کی خالہ ہوں اور اس کی صورت یہ ہے کہ مثلا زید نے عمرو کی ماں سے اور عمرو نے زید کی ماں سے نکاح کیا اور ان دونوں کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں تو ان میں ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کی پھوپھی ہوگی یا یہ کہ مثلا زید نے عمرو کی لڑکی سے اور عمرو نے زید کی لڑکی سے نکاح کیا اور ان کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں تو ان میں سے ہر ایک لڑکی کی خالہ ہوگی اور ان دونوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے ایسی دو عورتوں سے نکاح کر لیا جن میں سے ایک تو اس شخص کے لئے حرام تھی خواہ اس کی محرم ہونے کی وجہ سے یا شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اور یا بت پرست ہونے کی وجہ سے اور دوسری عورت ایسی تھی جس سے اس شخص کو نکاح کرنا جائز تھا تو ایسی صورت میں اسکا اس عورت کے ساتھ نکاح صحیح ہوگا جو اس کے لئے حلال تھی اور اس عورت کے ساتھ نکاح باطل ہوگا جو اس کے لئے حرام تھی اور مقرر کردہ کل مہر اسی عورت کو ملے گا جس کے ساتھ نکاح صحیح ہوا ہے یہ حکم امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق ہے اور اگر اس شخص نے نکاح کے بعد اس عورت سے جماع کر لیا جس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لئے حلال نہیں تھا تو اس کو مہر مثل ملے گا خواہ وہ کسی مقدار میں ہو اور مقرر کردہ کل مہر اس عورت کو ملے گا جس کے ساتھ نکاح کرنا حلال تھا۔ پانچواں سبب مملوکہ ہونا : یعنی وہ باندیاں جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے جب کہ پہلے سے آزاد عورت نکاح میں ہو اسی طرح آزاد عورت سے اور باندی سے ایک ساتھ نکاح کرنا بھی حرام ہے۔ مدبر یعنی وہ لونڈی جس سے اس کا آقا کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہو جائے گی) اور ام ولد ( یعنی وہ باندی جس کے پیٹ سے اس کے آقا کا بچہ پیدا ہو) اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک عقد میں ایک آزاد عورت اور ایک باندی سے نکاح کیا تو آزاد عورت کا نکاح صحیح ہوگا اور باندی کا نکاح باطل ہو جائیگا بشرطیکہ وہ آزاد عورت ایسی ہو جس سے نکاح کرنا اس کے لئے جائز تھا اگر وہ آزاد عورت ایسی ہو جس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا جیسے وہ اس کی پھوپھی یا خالہ تھی تو پھر باندی کا نکاح باطل نہیں ہوگا اور اگر کسی شخص نے پہلے باندی سے نکاح کیا اور پھر آزاد عورت سے نکاح کیا تو دونوں کا نکاح صحیح ہوگا۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو جو ایک آزاد عورت ہے طلاق بائن یا تین طلاق دیدیں اور وہ ابھی تک اپنی عدت کے دن گزار رہی تھی کہ اس شخص نے ایک باندی سے نکاح کر لیا تو اس صورت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول تو یہ ہے کہ بانی کا نکاح جائز نہیں ہوگا اور امام ابویوسف وامام محمد یہ فرماتے ہیں کہ جائز ہو جائیگا اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی طلاق رجعی کی عدت کے دوران کسی باندی سے نکاح کر لے تو اس کے بارے میں متفقہ طور پر یہ مسئلہ ہے کہ اس کا نکاح جائز نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے ایک باندی اور ایک ایسی آزاد عورت کے ساتھ نکاح کیا جو نکاح فاسد یا جماع بشبہ کی عدت کے دن گزرا رہی تھی تو باندی کا نکاح صحیح ہو جائیگا ۔ اگر کسی شخص نے اپنی منکوحہ باندی کی طلاق رجعی کی عدت کے دوران کسی آزاد عورت سے نکاح کیا اور پھر اپنی اس منکوحہ باندی سے رجوع کر لیا (یعنی اپنی دی ہوئی طلاق واپس لے کر پھر اسے بیوی بنا لیا) تو یہ جائز ہو گا۔ کسی غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر ایک آزاد عورت سے نکاح کیا اور اس سے جماع بھی کر لیا اور پھر آڑا کی اجازت کے بغیر کسی باندی سے بھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد اس کے آقا نے اسکو دونوں سے نکاح کی اجازت دیدی تو اس صورت میں آزاد عورت کا نکاح صحیح اور باندی کا باطل ہو جائیگا ۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی باندی سے اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا لیکن اس کے ساتھ جماع نہیں کیا اور پھر کسی آزاد عورت سے بھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد باندی کے مالک نے نکاح کی اجازت دیدی تو اس صورت میں بھی باندی کا نکاح صحیح نہیں ہو گا اور اگر کسی شخص نے ایک باندی سے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اور پھر اس باندی کی لڑکی سے جو آزاد تھی نکاح کر لیا اور اسکے بعد باندی کے مالک نے باندی کے نکاح کی اجازت دیدی تو لڑکی کا نکاح صحیح ہوگا باندی کا نکاح صحیح نہ ہوگا۔ ایک شخص مثلا زید کے ایک بالغہ لڑکی اور ایک بالغہ باندی ہے زید نے کسی شخص سے کہا کہ میں نے دونوں کا نکاح اتنے مہر کے عوض تمہارے ساتھ کر دیا اس شخص نے باندی کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح باطل ہوگا اور اگر اس کے بعد اس شخص نے آزاد لڑکی کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائیگا ۔ اور اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود کسی باندی سے نکاح کر لے اور وہ باندی خواہ مسلمان ہو یا اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی) تو نکاح صحیح ہو جائیگا لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ آزاد عورت سے نکاح کرنے استطاعت و قدرت رکھنے کے باوجود باندی سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک ہی عقد میں چار باندیوں اور پانچ آزاد عورتوں سے نکاح کیا تو صرف باندیوں کا نکاح صحیح ہوگا۔ چھٹا سبب تعلق حق غیر : یعنی ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے جن کے ساتھ کسی دوسرے مرد کا حق متعلق ہو ۔ چنانچہ جو عورت کسی کے نکاح میں ہو، یا کسی کی عدت میں ہو اور عدت خواہ طلاق کی ہو یا موت کی یا نکاح فاسد کی کہ جس میں جماع ہو گیا تھا اور یا شبہ نکاح کی تو ایسی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی شخص نے انجانے میں دوسرے کی منکوحہ عورت سے نکاح کر لیا اور اس کے ساتھ جماع بھی کر لیا تو اب جب کہ ان میں جدائی ہوگی تو عورت پر عدت واجب ہو گی اور اگر وہ شخص جانتا تھا کہ یہ دوسرے کی بیوی ہے تو جدائی کے بعد اس عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی اور اس کے خاوند کے لئے اس سے جماع کرنا ناجائز نہیں ہوگا اور اگر اس کا خاوند اسے طلاق دیدے تو صاحب عدت کے لئے زمانہ عدت میں اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا بشرطیکہ عدت کے علاوہ اور کوئی مانع موجود نہ ہو۔ جس عورت کو زنا کا حمل ہو اس سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن جب تک ولادت نہ ہو جائے خاوند کو اس سے جماع کرنا ناجائز ہے اور اسباب جماع یعنی بوسہ اور مساس وغیرہ بھی ناجائز ہیں اور اگر اس حاملہ زنا سے وہ شخص نکاح کرے جس نے اس کے ساتھ زنا کیا تھا تو اس کا نکاح بھی صحیح ہوگا اور وہ وضع حمل سے قبل جماع بھی کر سکتا ہے اور وہ عورت نفقہ کی مستحق ہوگی۔ ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا کچھ عرصہ بعد میں عورت کا حمل ساقط ہو گیا جس کے اعضاء ظاہر ہو چکے تھے اب اگر یہ اسقاط حمل نکاح سے چار ماہ یا اسے زائد عرصہ بعد ہوا ہے تو نکاح جائز ہوگا اور اگر چار مہینہ سے کم عرصہ میں یہ اسقاط ہوا ہے تو نکاح جائز نہیں ہوگا اسلئے کہ حمل کے اعضاء چار مہینہ سے کم میں ظاہر نہیں ہوتے ( حاصل یہ کہ اگر اسقاط نکاح سے چار ماہ یا اس سے زائد عرصہ کے بعد ہوا ہے اور حمل کے اعضاء ظاہر ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ حمل اسی شخص کا ہے جس نے نکاح کیا ہے اور اگر چار ماہ سے کم عرصہ میں اسقاط ہوا ہے اور حمل کے اعضاء ظاہر ہیں تو پھر یہ احتمال ہوگا کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی اور اس کا یہ حمل ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں نکاح صحیح نہیں ہوتا اور ایسی حاملہ عورت جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کا حمل فلاں شخص کے جائز نطفہ سے ہے تو متفقہ طور پر یہ مسئلہ ہے کہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اور امام ابویوسف نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی ایسی عورت ہو جو حربی کافر سے حاملہ ہوئی ہو اور وہ ہجرت کر کے یا باندی بنا کر دار الاسلام میں لائی گئی ہو تو اس سے نکاح کرنا جائز ہے ۔ لیکن جب تک اس کے ہاں ولادت نہ ہو جائے اس سے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ امام طحاوی نے اسی قول پر اعتماد کیا ہے لیکن حضرت امام محمد نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا ایک یہ قول نقل کیا ہے کہ اس صورت میں نکاح جائز نہیں ہوتا اسی پر امام کرخی نے اعتماد کیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے۔ اگر کسی شخص نے اپنی ام ولد باندی کا نکاح کسی کے ساتھ کر دیا درآنحالیکہ وہ اپنے آقا سے حاملہ تھی تو یہ نکح باطل ہوگا ہاں اگر وہ حاملہ نہ ہو تو پھر نکاح صحیح ہوگا۔ ایک شخص نے اپنی باندی سے جماع کیا اور اس کے بعد کسی سے اس کا نکاح کر دیا تو نکاح جائز ہو جائیگا لیکن آقا کے لۓ یہ مستحب ہوگا کہ وہ اپنے نطفہ کی حفاظت کی خاطر اس باندی سے استبراء کرائے (یعنی ایک حیض آنے کے بعد اس کو خاوند سے جماع کرانے دے اور جب یہ نکاح جائز ہو گیا تو خاوند کے لئے استبراء کا انتظار کئے بغیر) اس سے جماع کرنا بھی جائز ہوگا۔ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کا قول ہے اور حضرت امام محمد کا یہ قول ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا خاوند اس کے استبراء کے بغیر اس سے جماع کر لے ۔ فقیہ ابواللیث فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام محمد کا قول مبنی بر احتیاط ہے اور ہم اسی پر عمل کرتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کا یہ اختلاف قول اس صورت میں ہے کہ جب آقا نے باندی کا نکاح استبراء کرائے بغیر کر دیا ہو اور اگر نکاح سے پہلے استبراء ہو چکا تھا یعنی آقا سے مجامعت کے بعد باندی کو ایک حیض آگیا تھا تو اس صورت میں سب کا متفقہ قول یہی ہے کہ خاوند کو استبراء کے بغیر اس سے جماع کرنا جائز ہوگا۔ کسی شخص نے ایک عورت کو زناء کراتے دیکھا اور پھر بعد میں خود اس سے نکاح کر لیا تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کے نزدیک اس استبراء سے پہلے بھی اس سے جماع کرنا جائز ہوگا لیکن حضرت امام محمد کا اس صورت میں بھی یہی قول ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا خاوند اس سے استبراء کے بغیر جماع کر لے۔ اگر کوئی شخص اپنے لڑکے کی باندی سے نکاح کرلے تو حنفیہ کے نزدیک یہ نکاح جائز ہو جائیگا ۔ اگر کسی عورت کو قید کر کے دار الحرب سے دار الاسلام لایا گیا اور اسکا شوہر ساتھ نہیں ہے تو اس پر عدت واجب نہ ہو گی اور اس سے کوئی بھی شخص نکاح کر سکتا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر دار الحرب سے ہجرت کر کے دار الاسلام آ جائے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اس پر بھی عدت واجب نہیں ہوگی اور اس سے کوئی بھی شخص نکاح کر سکتا ہے لیکن صاحبین یعنی امام ابویوسف اور امام حمد کے نزدیک اس پر عدت واجب ہوگی۔ جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے) اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس سے جماع کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک کہ ایک حیض آ جانے کی وجہ سے استبراء نہ ہو جائے۔ سا تو اں سبب اختلاف مذہب : یعنی وہ عورتیں جن کے مشترک ہونے کی وجہ سے ان سے نکاح کرنا حرام ہے چنانچہ آتش پرست اور بت پرست عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں خواہ وہ آزاد ہوں یا باندی اور بت پرستوں کے حکم میں وہ عورتیں بھی داخل ہیں جو سورج اور ستاروں کی پرستش کرتی ہیں یا اپنی پسندیدہ تصویروں کی پوجا کرتی ہیں یا یونانی حکماء کے نظریہ کے مطابق خدا کے بے کار معطل ہونے کا عقیدہ رکھتی ہیں یا زندقہ (یعنی دہریت) میں مبتلا ہیں یا فرقہ باطنیہ اور فرقہ اباحیہ سے تعلق رکھتی ہیں فرقہ باطنیہ سے وہ فرقہ مراد ہے جو قرآن کے باطنی معنی کا عقیدہ رکھتا ہے اور فرقہ اباحیہ سے مراد وہ فرقہ ہے جس کے ہاں دنیا کا ہر کام خواہ وہ اچھا ہو یا برا کرنا جائز ہے ) اسی طرح ہر اس مذہب کو ماننے والی عورت بھی اسی حکم میں داخل ہے جس کو اختیار کرنا کفر کا باعث ہو اسی طرح اپنی اس باندی سے جو آتش پرست مشرکہ ہو جماع کرنا بھی ناجائز ہے۔ مسلمان کو کتابیہ یعنی یہودی یا عیسائی عورت سے جو دار الحرب میں رہتی ہو اور ذمیہ کافرہ یعنی مسلمانوں کے ملک میں خراج دے کر رہنے والی ) عورت سے شادی کرنا جائز ہے خواہ وہ آزاد ہو یا باندی ہو لیکن اولی یہی ہے کہ ان سے بھی شادی نہ کی جائے اور نہ ان کا ذبح کیا ہوا جانور بغیر ضرورت کے کھایا جائے ۔ اگر کسی مسلمان نے کسی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کر لی تو اس کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے عبادت خانہ (یعنی گرجا گھر وغیرہ ( نہ جانے دے اور نہ اسے اپنے گھر میں شراب بنانے دے لیکن مسلمان شوہر کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنی عیسائی یا یہودی بیوی کو حیض ونفاس کے منقطع ہونے اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کے لئے مجبور کرے۔ اگر کسی مسلمان نے دار الحرب میں کتابیہ حربیہ سے نکاح کر لیا تو اس کا نکاح جائز ہو جائیگا لیکن مکروہ ہو گا اور پھر اس نکاح کے بعد دونوں میاں بیوی دار الاسلام آ جائیں تو دار الحرب میں کیا ہوا نکاح باقی رہے گا۔ ہاں اگر یہ صورت ہو کہ شوہر دار الاسلام آ جائے اور بیوی کو وہیں چھوڑ آئے تو تباین دارین (ملک بدل جانے) کی وجہ سے دونوں میں جدائی ہو جائے گی۔ جو لوگ کسی آسمانی مذہب کے پیروکار ہوں اور ان کے فرقہ کے لے ا سمانی کتاب بھی ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت شیث علیہ السلام کے صحیفے اور حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور وغیرہ تو وہ لوگ اہل کتاب میں شمار ہوں گے اور ان کی عورتوں سے مسلمانوں کی شادی بھی جائز ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا بھی حلال ہوگا۔ اگر کسی شخص کے والدین میں سے ایک تو کتابی یعنی یہودی یا عیسائی ہو اور دوسرا آتش پرست ہو تو وہ شخص اہل کتاب میں شمار کیا جائیگا ۔ ایک مسلمان نے کسی کتابیہ عورت سے شادی کی اور پھر وہ عورت اپنا مذہب تبدیل کر کے) آتش پرست ہو گئی تو وہ اپنے مسلمان شوہر کے لیے حرام ہو جائے گی اور دونوں کی شادی کالعدم قرارپائیگی اور اگر یہودی عورت سے شادی کی اور پھر وہ عیسائی ہو گئی یا عیسائی عورت سے شادی کی اور شادی کے بعد وہ یہودی ہو گئی تو اس صورت میں نکاح باقی رہے گا ۔ اس بارے میں اصول وضابطہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ تبدیل مذہب کے وقت یہ دیکھا جائیگا کہ خاوند بیوی میں سے جس نے بھی اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب قبول کیا ہے وہ کوئی ایسا مذہب تو نہیں ہے کہ اگر وہ دونوں از سر نو شادی کریں تو اس مذہب کی وجہ سے ان کی شادی جائز نہ ہو سکے ( مثلا آتش پرستی ایسا مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی آتش پرست عورت سے شادی کرنا چاہے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا ) چنانچہ اگر وہ مذہب ایسا ہوگا جس کے پیروکار اور مسلمان کے درمیان شادی بیاہ سرے سے جائز ہی نہیں ہوتا تو خاوند و بیوی میں سے جو بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اس مذہب کو قبول کرے گا شادی کالعدم ہو جائے گی ۔ اب رہی یہ بات کہ اگر مسلمان خاوند اور یہودی یا عیسائی بیوی میں سے کوئی بھی مجوسیت (یعنی آتش پرستی) اختیار کر لے اور اس کی وجہ سے ان دونوں کی شادی فاسد ہو جائے تو اس کے بعد کیا حکم ہوگا؟ تو اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر شادی کے فاسد ہونے کا سبب عورت بنی ہے یعنی بیوی نے مجوسیت اختیار کر لی ہے تو دونوں کے درمیان جدائی ہو جائے گی اور اسے نہ مہر ملے گا اور نہ متعہ بشرطیکہ اس نے جماع سے پہلے اپنا مذہب تبدیل کیا ہو اور اگر اس نے اس وقت مجوسیت کو اختیار کیا جب کہ اس کا شوہر اس سے جماع کر چکا تھا تو پھر اس کو پورا مہر دیا جائیگا اور اگر شادی کے فاسد ہونے کا سبب مرد بنا ہے یعنی خاوند نے اپنا مذہب چھوڑ کر مجوسیت کو اختیار کر لیا ہے اور خاوند و بیوی میں جدائی ہو گئی ہے تو اسے عورت کو مقررہ مہر کا آدھا دینا ہو گا بشرطیکہ یہ صورت حال جماع سے پہلے ہی واقع ہو چکی ہو اور اگر مہر مقرر نہیں تھا تو متعہ ایک جوڑا کپڑا دینا ہوگا اور اگر جماع کے بعد ایسا ہوا تو پھر اس عورت کو پورا مہر دینا واجب ہوگا۔ جو مسلمان مرتد ہو گیا ہو اس کا نکاح نہ تو کسی مرتدہ سے جائز ہوتا ہے نہ کسی کافرہ سے اور نہ کسی مسلمان عورت سے، اسی طرح جو مسلمان عورت مرتدہ ہو جائے اس کا نکاح بھی کسی کے ساتھ جائز نہیں ہوتا۔ کسی مسلمان عورت کی شادی نہ تو مشرک سے جائز ہوتی ہے اور نہ کتابی یعنی یہودی یا عیسائی سے ۔ بت پرست وآتش پرست عورت کی شادی ہر مشرک و کافر سے صحیح ہو جاتی ہے مگر مرتد کے ساتھ صحیح نہیں ہوتی۔ ذمی کافروں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے اگرچہ ان کے مذاہب مختلف ہوں۔ مسلمان کے لئے اپنی مسلمان بیوی کی موجودگی میں کتابیہ یعنی یہودی یا عیسائی عورت ) سے اور اپنی کتابیہ بیوی کی موجودگی میں مسلمان عورت سے عقد ثانی جائز ہے اور نوبت یعنی شب گزاری کے لئے باری مقرر کرنے کے سلسلے میں دونوں کے حقوق برابر ہوں گے۔ آٹھواں سبب مالک ہونا : یعنی وہ عورتیں جو مالک ہونے کے سبب سے اپنے مملوک غلام کے لئے حرام ہیں ۔ چنانچہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے غلام سے نکاح کرے اسی طرح اس کو اس غلام کے ساتھ بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہے جو اس کے اور کسی دوسرے شخص کے درمیان مشترک ہو۔ اگر نکاح کے بعد خاوند بیوی میں کوئی بھی ایک دوسرے کے کل یا جزء کا مالک ہو جائے تو نکاح باطل ہو جائیگا ۔ اگر کسی مرد نے اپنی لونڈی سے نکاح کر لیا یا اس لونڈی سے نکاح کیا جس کا وہ جزوی مالک ہے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوگا ۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ ہمارے زمانہ میں لونڈی غلاموں کی خرید وفروخت کا بالکل رواج نہیں رہا اور نہ آج کے دور میں وہ شرائط و قیود پائی جاتی ہیں جن کی موجودگی میں لونڈی سے جماع جائز ہوتا ہے اسی لئے بعض علماء لکھتے ہیں کہ اگر کہیں لونڈی رکھنے کا کوئی رواج ہو تو اس سے جماع نہ کرنا چاہئے بلکہ) اس لونڈی سے نکاح کر لینا چاہئے تاکہ اگر واقعۃً لونڈی نہ ہو بلکہ آزاد عورت ہو تو نکاح کی وجہ سے اس سے جماع کرنا جائز ہو جائے اگر کسی آزاد مرد نے اپنی بیوی کو جو کسی کی باندی ہو شرط خیار کے ساتھ خرید لیا تو اس صورت میں اسکا نکاح باطل نہیں ہوگا۔ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول ہے۔ نواں سبب طلاق : یعنی وہ عورتیں جو طلاق سے حرام ہو جاتی ہیں چنانچہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو جو آزاد عورت ہو تین طلاق دیدیں تو اس کے بعد اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا ہاں اگر وہ عورت اپنی عدت پوری کر کے) دوسرے کسی مرد سے نکاح کر لے اور دونوں میں مجامعت ہو جائے اور پھر وہ مرد اس کو طلاق دیدے تو عدت گزرنے کے بعد پہلے شوہر کے لئے اس سے نکاح کرنا جائز ہو جاتا ہے اور اگر کسی شخص نے کسی باندی سے نکاح کیا اور پھر اسے دو طلاقیں دیدیں تو اس کے بعد اس سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا اور جس طرح اس سے نکاح کرنا جائز نہیں اسی طرح اس کو باندی بنا کر اس سے جماع کرنا بھی درست نہیں ہے۔ ایک شخص نے کسی کی باندی سے نکاح کیا اور پھر طلاق دیدیں اس کے بعد اس کو خرید کر آزاد کر دیا اب اگر وہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو وہ اس صورت میں جائز ہوگا کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ مرد اس کے ساتھ جماع کرے اور پھر اس کو طلاق دیدے اور جب عدت کے دن پورے ہو جائیں تو وہ شخص یعنی پہلا شوہر اس سے نکاح کر لے۔
-