TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان۔
جلدی نماز پڑھنے کا بیان
--
ارشاد ربانی ہے : آیت (فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰت) 2۔ البقرۃ : 148) یعنی بھلائیوں میں جلدی کرو۔" آیت سے معلوم ہوا کہ نماز کے بارے میں اصل یہی ہے کہ اسے جلدی یعنی اوّل وقت ادا کر لیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ آیت کا مفہوم تو یہی ہے کہ بھلائی کے تمام کاموں کو جن میں نماز بھی شامل ہے جلدی کر ڈالنا بہتر اور مناسب ہے مگر جن مواقع کے لیے شارع علیہ السلام نے تاخیر کا حکم فرمایا ہے وہاں تاخیر کرنا اولیٰ و افضل ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تمام نمازوں کو ان کے اوّل وقت میں ادا کرنا مطلقا مستحب ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ سردی کے موسم میں تو ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھ لینی چاہئے مگر گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا چاہئے۔ اسی طرح فجر کی نماز ہر موسم میں اجالے میں پڑھنی چاہئے اور عشاء کی نماز تاخیر کے ساتھ پڑھنی چاہئے نیز عصر کی نماز بھی تاخیر کر کے پڑھنی چاہئے مگر اس میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ آفتاب متغیر ہو جائے نمازوں کو جلدی پڑھنے کی حدیہ ہے کہ ان کے اوّل وقت کے پہلے نصف حصہ میں ادا کی جائیں۔
-
عَنْ سَےَّارِ بْنِ سَلَامَۃَ قَالَ دَخَلْتُ اَنَا وَاَبِیْ عَلٰی اَبِیْ بَرْزَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ص فَقَالَ لَہُ اَبِیْ کَےْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ فَقَالَ کَانَ ےُصَلِّی الْھَجِےْرَ الَّتِیْ تَدْعُوْنَھَا الْاُوْلٰی حِےْنَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ وَےُصَلِّی الْعَصْرَ ثُمَّ ےَرْجِعُ اَحَدُنَا اِلٰی رَحْلِہٖ فِیْ اَقْصَی الْمَدِےْنَۃِ وَالشَّمْسُ حَےَّۃٌ وَّنَسِےْتُ مَاقَالَ فِی الْمَغْرِبِ وَکَانَ ےَسْتَحِبُّ اَنْ ےُّؤَخِّرَ الْعِشَآءَ الَّتِیْ تَدْعُوْنَھَا الْعَتَمَۃَ وَکَانَ ےَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَھَا وَالْحَدِےْثَ بَعْدَھَا وَکَانَ ےَنْفَتِلُ مِنْ صَلٰوۃِ الْغَدَاۃِ حِےْنَ ےَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِےْسَہُ وَےَقْرَأُ بِالسِّتِّےْنَ اِلَی الْمِائَۃِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ وَّلَا ےُبَالِیْ بِتَأْخِےْرِ الْعِشَآءِ اِلٰی ثُلُثِ الَّلےْلِ وَلَا ےُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَھَا وَالْحَدِےْثَ بَعْدَھَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
حضرت سیار ابن سلامہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد (ہم دونوں) حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کس طرح (یعنی کس کس وقت) پڑھتے تھے، انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز جسے پہلی نماز کہا جاتا ہے سورج ڈھلنے کے وقت پڑھتے تھے اور عصر کی نماز (ایسے وقت ) پڑھتے تھے کہ ہم میں سے کوئی نماز پڑھ کر مدینہ کے کنارے اپنے مکان پر جا کر سورج روشن ہوتے ہوئے ( یعنی اس کے متغیر ہونے سے پہلے) واپس آجاتا تھا۔ سیار فرماتے ہیں کہ مغرب کے بارے میں ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ میں بھول گیا اور (ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ عشاء کی نماز جسے تم عتمہ کہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر سے پڑھنے کو بہتر سمجھتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد (دنیاوی) باتیں کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکروہ سمجھتے تھے اور صبح کو نماز ایسے وقت پڑھ ( کر فارغ ہو) لیتے تھے کہ ہر آدمی اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا اور (نماز میں) ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھ لیا کرتے تھے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہائی رات تک عشاء میں دیر کرنے میں تامل نہ فرماتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں ظہر کے بارے میں جو وقت ذکر گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سردی کے موسم میں ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھتے ہوں گے کیونکہ یہ قولا اور فعلا ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ عتمہ اس تاریکی کو کہتے ہیں جو شفق غائب ہونے کے بعد ہوتی ہے چنانچہ پہلے عرب میں عتمہ عشاء کو کہتے تھے مگر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو منع کر دیا کہ عشاء کو عتمہ نہ کہا جائے ۔ یہاں تاخیر سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز تہائی رات تک تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد دنیا کی باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اعمال کا خاتمہ عبادت اور ذکر اللہ پر ہونا چاہئے کیونکہ نیند بمنزلہ موت ہے۔ شرح السنۃ میں منقول ہے کہ عشاء سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے اور بعض حضرات نے سونے کی اجازت دی ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عشاء سے پہلے سوتے اور بعض علماء کے نزدیک صرف رمضان میں عشاء سے پہلے سونا جائز ہے۔ حضرت امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر نیند کا غلبہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ عشاء کی نماز کا وقت سونے کی نذر ہو جائے گا تو سونا مکروہ نہیں ہے۔ عشاء کے بعد باتوں میں مشغول ہونے کو علماء کی ایک جماعت نے مکروہ کہا ہے چنانچہ حضرت سعید ابن مسیب کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میرے نزدیک بغیر عشاء کی نماز پڑھے سو رہنا اس سے بہتر ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد کوئی آدمی لغو کلام اور دنیاوی باتوں میں مشغول ہو۔ بعض علماء نے عشاء کے بعد علم کی باتیں کرنے کی اجازت دی ہے اسی طرح ضرورت اور حاجت کے سلسلے میں یا گھر والوں اور مہمان کے ساتھ باتیں کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (ملا علی قاری) حضرت شٰخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں جائز ہیں، یعنی اگر کوئی آدمی عشاء کی نماز سے پہلے سستی اور کاہلی کو دور کرنے اور نشاط و تازگی حاصل کرنے کے لیے سونا چاہے تو اس کے لیے سونا جائز ہے، اسی طرح عشاء کی نماز کے بعد ایسی باتیں کرنا جو ضروری ہوں اور بے معنی نہ ہوں جائز ہے۔
-
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ صَلٰوۃِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ کَانَ ےُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْھَاجِرَۃِ وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَےَّۃٌ وَالْمَغْرِبَ اِذَا وَجَبَتْ وَالْعِشَآءَ اِذَا کَثُرَالنَّاسُ عَجَّلَ وَاِذَا قَلُّوْا اَخَّرَ وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت محمد بن ابن عمرو ابن حسن ابن علی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر ڈھلے پڑھتے تھے اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ سورج زنار (یعنی روشن) ہوتا تھا اور مغرب کی نماز آفتاب غروب ہونے کے بعد پڑھتے تھے اور عشاء کی نماز میں جب لوگ زیادہ آجاتے تو جلدی ہی پڑھ لیتے تھے اور جب لوگ کم ہوتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھ لیتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح عشاء کی نماز کے بارے میں یہاں وضاحت کر دی گئی ہے کہ اگر لوگ زیادہ آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جلدی پڑھ لیتے اور اگر کم آتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماعت کی کثرت کی پیش نظر نماز کو اوّل وقت سے تاخیر کر کے پڑھنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین نے اوّل وقت نماز پڑھنے کا التزام اسی لیے نہیں کیا ہے کہ تاخیر سے نماز پڑھنے میں جماعت میں کثرت ہوجاتی ہے نہ یہ کہ ان حضرات کے نزدیک اوّل وقت افضل نہیں ہے ۔ اوّل وقت تو بہر صورت افضل ہے لیکن بعض خارجی عوارض جیسے جماعت کی کثرت وغیرہ کی بناء پر تاخیر ہی اولیٰ ہوتی ہے۔ صبح کی نماز تاریکی میں پڑھنے کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ صحابہ کرام رات بھر سونے کے بجائے ذکر و عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے صبح سویرے ہی مسجد میں موجود رہتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کی کثرت کے پیش نظر جلدی پڑھ لیتے تھے۔ آخر میں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقلاً تاریکی ہی میں فجر کی نماز پڑھتے تھے اور اگر بفرض محال اسے مان بھی لیا جاے تو یہ ثابت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز روشنی میں پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حنفیہ کے نزدیک فعل کے مقابلے میں امر (یعنی حکم) کو ترجیح دی جاتی ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ کُنَّا اِذَا صَلَّےْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِالظَّھَآئِرِسَجَدْنَا عَلٰی ثِےَابِنَا اتِّقَآءَ الْحَرِّ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَلَفْظُہُ لِلْبُخَارِیِّ۔)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھتے ہوئے گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کر لیا کرتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حنفیہ کے نزدیک چونکہ نمازی اپنے پہنے ہوئے کپڑے پرسجدہ کر سکتا ہے اس لیے یہ حضرات اس حدیث کو اپنے مسلک کی دلیل میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کے لئے پہنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کرنا درست ہے۔ حضرات شوافع کے نزدیک چونکہ ایسے کپڑے پر جو نمازی کے ہلنے سے حرکت کرتے ہوں سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے وہ حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے وہ ان کے بدن پر نہیں ہوتے تھے بلکہ گرمی سے بچاؤ کی خاطر انہیں علیحدہ فرش پر بچھائے رکھتے تھے۔ اس حدیث کو مصنف مشکوٰۃ نے باب تعجیل الصلوٰۃ میں نقل کیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ زمین پر گرمی کی تپش اوّل وقت ہی رہتی ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرمی کے موسم میں بھی ظہر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ بات اس حدیث سے معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بسا اوقات (بلکہ زیادہ گرمی کے موسم میں ) اوّل وقت کی بہ نسبت بعد میں زیادہ گرمی ہو جاتی ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَاَبْرِدُوْا بِالصَّلٰوۃِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّلْبُخَارِیِّ عَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ بِالظُّھْرِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَےْحِ جَھَنَّمَ وَاشْتَکَتِ النَّارُ اِلٰی رَبِّھَا فَقَالَتْ رَبِّ اَکَلَ بَعْضِیْ بَعْضًا فَاَذِنَ لَھَا بِنَفَسَےْنِ نَفَسٍ فِی الشِّتَآءِ وَنَفْسٍ فِی الصَّےْفِ اَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْحَرِّ وَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الزَّمْھَرِےْرِ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَفِی رِوَاےَۃٍ لِّلْبُخَارِیِّ فَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْحَرِّ فَمِنْ سَمُوْمِھَا وَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْبَرْدِ فَمِنْ زَمْھَرِےْرِھَا۔-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں ابوسعید سے منقول ہے کہ ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھا کرو ( یعنی ابوہریرہ کی روایت میں تو بالصلوٰۃ کا لفظ آیا ہے اور ابوسعید کی روایت میں بالظہر کا لفظ آیا ہے نیز اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے اور (دوزخ کی) آگ نے اپنے رب سے شکایۃ عرض کیا کہ میرے پروردگا! میرے بعض (شعلے) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ہے۔ اب وہ ایک سانس جاڑے میں لیتی ہے اور ایک سانس گرمی میں۔ گرمی میں جس وقت تمہیں زیادہ گرمی معلوم ہوتی ہے اور جاڑے میں جس وقت تمہیں زیادہ سردی معلوم ہوتی ہے (تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں لیتی ہے۔)" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جس وقت تم گرمی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا گرم سانس ہوتا ہے اور جس وقت تم سردی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا ٹھنڈا سانس ہوتا ہے۔" تشریح پروردگار سے دوزخ کی آگ کی نے یہ شکایت کی کہ، میرے بعض (شعلے) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ کنایہ ہے اجزاء آگ کی کثرت سے اور آپس کے اختلاط سے یعنی آگے کے شعلے اتنے زیادہ ہوتے ہیں اور اس شدت سے بھڑکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ دوسرے شعلے کو فنا کر گھاٹ اتار کر اس کی جگہ بھی خود لے لے۔ چنانچہ پروردگار نے اسے سانس لینے کی اجازت دے دی یعنی سانس سے مراد شعلے کو دبانا اور اس کا دوزخ سے باہر نکلنا ہے۔ جس طرح کہ جاندار سانس لیتا ہے تو ہوا باہر نکلتی ہے۔ بہر حال ایسے وقت باوجود یہ کہ مشقت بہت ہوتی ہے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسے سخت وقت میں جب کہ گرمی اپنی شدت پر ہوتی ہے دل و دماغ تپش کی وجہ سے بے چین ہوتے ہیں نیز خشوع اور سکون وا طمینان حاصل نہیں ہوتا جو نماز کی روح ہیں۔ اس موقع پر عقلی طور پر چند اشکال پیدا ہوتے ہیں ان کی وضاحت کر دینی ضروری ہے۔ پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ گرمی اور سردی کی شدت زمین کی حرکت، عرض البلد اور آفتاب کی وجہ سے ہوتی ہے اس لیے یہاں یہ کیسے کہا گیا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہاں دوزخ کی بھاپ کو گرمی کی شدت کا سبب بتایا گیا ہے نہ کہ اصل گرمی کا ۔ اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ گرمی اور سردی کی شدت بھی آفتاب کے قرب و بعد کی بناء پر ہوتی ہے کیونکہ اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ دوزخ کا سانس اس میں مزید شدت پیدا کرتا ہو لہٰذا اسکا انکار مخبر صادق کی خبر کے ہوتے ہوئے طریقہ اسلام کے منافی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اتنی بات تو طے ہے کہ زمین میں حرارت کی علت سورج کا مقابلہ اور اس کی شعاعیں پڑنا ہے اور یہ کہیں ثابت نہیں ہوا ہے کہ سورج دوزخ نہیں ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ہمارے نظام کی دوزخ یہی ہو جسے ہم سورج کہتے ہیں کیونکہ سورج میں ناریت کا تموج اور اشتعال اس قدر ہے کہ دوزخ کی تمام صفات اس پر منطبق ہوتی ہیں اور اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ سورج دوزخ نہیں ہے تو یہ بالکل بعید اور نا ممکن نہیں ہے کہ دوزخ علیحدہ ہو اور اس کی گرمی کا اثر زمین پر پڑتا ہو۔ دوسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ نے شکایت کیسے کی کیونکہ دوزخ بے زبان ہے اور بے زبان اظہار مدعا کیسے کر سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح زبان کے لیے تلفظ ضروری نہیں ہے اسی طرح تلفظ کے لیے زبان بھی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اکثر جانوروں کی زبان ہوتی ہے مگر وہ تلفظ نہیں کرتے ایسے ہی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے زبان نہیں ہوتی مگر وہ بات کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ اشکال پیدا کرنا کہ بغیر زبان کے بات کرنا نا ممکن ہے کم فہمی کی بات ہے۔ کیونکہ اگر کوئی یہ پوچھنے بیٹھ جائے کہ زبان سے بات کیوں کی جاتی ہے اس سے سننے کا کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ آنکھ سے دیکھتے اور کان سے سنتے کیوں ہو ان سے بات کیوں نہیں کرتے جب کہ یہ سب اعضاء بظاہر ایک ہی مادہ سے بنتے ہیں جو نطفہ ہے تو ہر ایک قوت کی تخصیص کی وجہ ایک خاص چیز سے کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ یہ صانع مطلق کی قدرت ہے کہ بولنا زبان سے مختص کیا، دیکھنا آنکھ سے اور سننا کان سے ورنہ یہ سب اعضاء گوشت کا ایک حصہ ہونے میں برابر ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ کیا صانع مطلق کی یہ قدرت نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی ایک مخلوق کو گویائی کی قوت دے دے اور جب کہ حکماء کی ایک جماعت تو یہ بھی کہتی ہے کہ اجرام فلکیہ میں نفوس ہیں اور ان میں احساس و ادراک کی قوت ہے تو اس صورت میں بولنا بعید ہے؟۔ تیسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ جاندار نہیں ہے وہ سانس کیسے لیتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دوزخ میں نفس ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے اور جب مذکورہ بالا بحث کی رو سے اس سے تکلم ثابت ہو سکتا ہے تو سانس لینے میں کیا اشکال باقی رہ جائے گا!۔ چوتھا اشکال یہ ہے کہ آگ کے ٹھنڈا سانس لینے کے کیا معنی ؟۔ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ آگ سے مراد اس کی جگہ یعنی دوزخ ہے اور اس میں ایک طبقہ زمہریر بھی ہے۔ پانجواں اشکال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کے مفہوم کے مطابق تو یہ چاہئے تھا کہ سخت سردی کے موسم میں فجر کو بھی تاخیر سے پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سردی میں صبح کو سورج نکلتے تک اسی شدت کے ساتھ رہتی ہے اگر طلوع آفتاب تک نماز میں تاخیر کی جاتی ہے تو وہاں سرے سے وقت ہی جاتا رہتا ۔ بہر حال۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خود صحابہ بھی گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ چنانچہ صحیح البخاری کی ایک روایت میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز (تاخیر سے) ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے زمین پر پڑنے لگتے تھے ۔ اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ٹیلے چونکہ پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اس لیے ان کے سائے زمین پر بہت دیر کے بعد پڑتے ہیں بخلاف دراز چیزوں مثلاً مینار وغیرہ کے ان کے سائے جلدی ہی پڑنے لگتے ہیں۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز کے لیے دیواروں کے سائے میں ہو کر جاتے تھے۔ اور دیواروں کے بارے میں تحقیق ہو چکی ہے کہ اس وقت دیواریں عام طور پر سات سات گز کی ہوتی تھی۔ لہٰذا ان کے سائے میں چلنا اس وقت کار آمد ہوتا ہوگا جب کہ سورج کافی نیچے ہوتا ہو۔ بعض حضرات نے تاخیر کی حد آدھا وقت مقرر کی ہے یعنی کچھ علماء یہ فرماتے ہیں کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز آدھے وقت تک مؤخر کر کے پڑھنی چاہئے۔ بعض شوافع حضرات حدیث سے ثابت شدہ ابراد (یعنی نماز کو ٹھنڈا کر کے) کا محمول وقت زوال کو بتاتے ہیں یعنی ان کا کہنا یہ ہے کہ اس ابراد کا مقصد نماز ظہر میں اتنی تاخیر نہیں ہے جو حنفیہ بتاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت استواء کی شدید گرمی سے بچنے کے لیے زوال کی وقت ظہر کی نماز پڑھنی چاہئے۔ ان حضرت کی یہ تاویل نہ صرف یہ کہ بعیداز مفہوم ہے بلکہ خلاف مشاہدہ بھی ہے کیونکہ وقت استواء کے مقابلہ میں زوال کے وقت گرمی کی شدت میں کمی آجانے کا خیال تجربہ و مشاہدہ ہے۔ ہدایہ میں مذکور ہے کہ جن شہروں میں گرمی کی شدت آفتاب کے ایک مثل سایہ پہنچنے کے وقت ہوتی ہے وہاں تو ابراد کا مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ نماز ایک مثل سایہ ہونے کے بعد پڑھی جائے۔ الحاصل۔ ظہر کی نماز کو ابراد میں یعنی ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے بارے میں بہت زیادہ حد یثیں وارد ہیں جن سے متفقہ طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کر کے پڑھنا ہی افضل و اولیٰ ہے۔ جہاں تک حدیث حباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق ہے جس میں مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گرمی کے موسم میں دوپہر کی شدت کے بارے میں شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری درخواست قبول نہیں کی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کو پورے وقت تک موخر کرنے کی درخواست کی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمائی کہ اگر اتنی تاخیر کی جائے گی تو نماز کا وقت بھی نکل جائے گا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراد رخصت ہے اور وہ بھی سب کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جو جماعت کے لیے مسجدوں میں جانے کے لیے مشقت و محنت کا سامنا کرتے ہیں۔ جو لوگ تنہا نماز پڑھتے ہوں یا اپنے پڑوس و محلہ کی مسجد میں نماز کے لیے آتے ہوں ان کے لیے میرے نزدیک یہ پسندیدہ ہے کہ وہ اول وقت سے تاخیر نہ کریں، یہ قول ظاہر حدیث کے خلاف ہے اس لیے اس کی اتباع نہیں کی جا سکتی۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک حدیث نقل کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی باوجود یہ کہ سب یکجا رہتے تھے ابراء کا حکم فرمایا کرتے تھے، نیز امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے ظہر کی نماز کو تاخیر سے پڑھنے کے لیے کہتا ہے اس مسلک کی اتباع سنت کی وجہ سے اولیٰ و افضل ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ حَےَّۃٌ فَےَذْھَبُ الذَّاھِبُ اِلَی الْعَوَالِیْ فَےَاْتِےْھِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ وَّبَعْضُ الْعَوَالِیْ مِنَ الْمَدِےْنَۃِ عَلٰی اَرْبَعَۃِ اَمْےَالٍ اَوْ نَحْوِہٖ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ سورج اونچا اور زندہ (یعنی روشن) ہوتا تھا اور کوئی جانے والا عوالی جا کر واپس آجایا کرتا تھا اور سورج اونچا ہی رہتا تھا اور بعض عوالی مدینہ سے چار میل تقریباً چار میل کے فاصلے پر ہیں۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عوالی عالیہ کی جمع ہے، مدینہ شہر کے باہر بلندی پر جو بستیاں ہیں انہیں عوالی کہا جاتا ہے۔ مسجد بنی قریظہ بھی اسی طرف ہے۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تِلْکَ صَلٰوۃُ الْمُنَافِقِ ےَجْلِسُ ےَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی اِذَا اصْفَرَّتْ وَکَانَتْ بَےْنَ قَرْنَیِ الشَّےْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ اَرْبَعًا لَّا ےَذْکُرُ اللّٰہَ فِےْھَا اِلَّا قَلِےْلًا۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ (عصر کی نماز جو آخر وقت میں پڑھی جاتی ہے ) منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے جب سورج زرد ہو کر شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (چھپنے کے قریب) ہو جاتا ہے تو جلدی سے اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر بھی اس نماز میں قدرے کم ہی کرتا ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح " ٹھونگیں مارنے" کا مطلب یہ ہے وہ بغیر طمانیت و سکون کے اس طرح جلدی جلدی سجدے کرتا ہے جیسے جانور دانہ چگتا ہے عصر کی نماز میں سجدے آٹھ ہوتے ہیں مگر یہاں چار اس لیے فرمائے ہیں کہ جب اس نے پہلا سجدہ کر کے اچھی طرح سر نہیں اٹھایا تو گویا دونوں سجدے ایک سجدہ کے حکم میں آگئے یا دونوں سجدوں کو ایک ہی رکن مانتے (سمجھتے ) ہوئے بجائے آٹھ کے چار کا ذکر فرمایا ہے۔ یہاں صرف عصر کی نماز کا ذکر کیا گیا ہے دوسری نمازوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز وسطی ہے اور یوں تو سب ہی نمازوں میں ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بری بات ہے مگر دوسری نمازوں کی بہ نسبت اس نماز کو دل جمعی اور سکون خاطر کے ساتھ نہ پڑھنا اور اس کے ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بہت ہی بری بات ہے۔ مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے عصر کی نماز کو سورج کے زرد ہونے تک موخر کیا تو اس نے اپنے آپ کو منافقین کے مشابہ ظاہر کیا کیونکہ منافق نماز کی صحت و تکمیل کا کوئی خیال نہیں کرتا وہ تو صرف ظاہری طور پر مسلمان بن کر تلوار سے بچنے کے لیے نماز پڑھتا ہے اور اسے نماز میں اتنی زیادہ تاخیر کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ اسے اجر و ثواب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ منافقین کی عملاً و فعلاً مخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز کو وقت مختار میں پڑھ لیا کریں۔
-
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم الَّذِیْ یَفُوْتُہُ صَلٰوۃُ الْعَصْرِ فَکَاَنَّمَا وُتِرَ اَھْلہُ وَمَالہُ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کی نماز عصر قضا ہو گئی تو گویا کہ مال اس کے اہل و عیال سب لٹ گئے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کی عصر کی نماز قضا ہو جائے تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس کا گھر بار اور مال و اولاد سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ یا ان میں کمی واقع ہو جائے لہذا جس طرح کوئی آدمی اپنے اہل و عیال کی تباہی و بربادی سے ڈرتا رہتا ہے جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے ۔ یہاں بھی صرف نماز عصر کے ذکر کی وجہ سے یہ ہے کہ یہ نماز وسطی ہے اس کو چھوڑنا دوسری نمازوں کو چھوڑنے کے مقابلے میں زیادہ سخت گناہ ہے۔
-
وَ عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ َترَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ۔-
" اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس آدمی نے عصر کی نماز چھوڑ دی (گویا) اس کے تمام (نیک) اعمال برباد ہوگئے۔" (صحیح البخاری ) تشریح اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ تمام اعمال کے برباد ہو جانے کی بد بختی تو صرف اس آدمی کے حصہ میں آتی ہے جو مرتد مرتا ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی تو اس نماز کی وجہ سے اسے جو اجر و ثواب ملتا اور اس کی نیکیوں میں جو زیادتی ہوتی ہے وہ اس سے محروم رہا یا یہ کہ اس دن کے اعمال میں جو کمال اسے نماز عصر کی بناء پر حاصل ہوتا وہ ضائع ہو گیا جس سے اس کے اعمال میں کمی واقع ہو گئی۔ حنفیہ کے نزدیک صرف مرتد ہو جانے سے تمام اعمال باطل ہو جاتے ہیں ان کے نزدیک موت کی قید نہیں ہے حتی کہ اگر کسی آدمی پر حج واجب تھا اور وہ حج کرنے کے بعد (نعوذ با اللہ ) مرتد ہوگیا پھر بعد میں خدا نے اسے ہدایت بخشی اور وہ اسلام میں داخل ہوگیا تو اسے حج دوبارہ کرنا ہوگا معتزلہ کے نزدیک کبیرہ گناہوں کے صدور سے بھی اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔ وا اللہ اعلم۔
-
وَعَنْ رَّافِعِ بْنِ خَدِےْجٍص قَالَ کُنَّا نُصَلِّی الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَےَنْصَرِفُ اَحَدُنَا وَاِنَّہُ لَےُبْصِرُ مَوَاقِعَ نَبْلِہٖ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز (ایسے وقت) پڑھتے تھے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد کوئی اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا ۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مغرب کی نماز ایسے (اول ) وقت پڑھ لیتے تھے کہ نماز پڑھ کر واپس آنے کے بعد اگر کوئی آدمی تیر پھینکتا تو وہ یہ دیکھ لیتا تھا کہ وہ تیر جا کر کہاں گرا ہے۔ بہر حال۔ تمام علماء کے نزدیک بالاتفاق مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا مستحب ہے۔
-
وَ عَنْ عَآئِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانُوْا ےُصَلُّوْنَ الْعَتَمَۃَ فِےْمَا بَےْنَ اَنْ ےَّغِےْبَ الشَّفَقُ اِلٰی ثُلُثِ الَّلےْلِ الْاَوَّلِ ۔(مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عشاء کی نماز شفق کے غائب ہونے کے بعد سے اول تہائی رات تک پڑھتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ پہلے عرب میں لوگ عشاء کو عتمہ کہتے تھے مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عشاء کو عتمہ کہنے سے منع کر دیا تو یہ نام ترک کر دیا گیا، مگر یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عشاء کو عتمہ ہی کہا ہے تو اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ معلوم نہیں ہوا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو عتمہ کہنے سے منع کر دیا ہے۔ عشاء کے وقت کے سلسلے میں بھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ تہائی رات تک تو وقت مختار ہے اور طلوع صبح سے پہلے پہلے تک وقت جواز رہتا ہے۔
-
وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَےُصَلِّی الصُّبْحَ فَتَنْصَرِفُ النِّسَآئَُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوْطِہِنَّ مَا ےُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (جب ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے تھے تو (وہ ) عورتیں (جو آپ کے ہمراہ نماز پڑھتی تھیں) چادروں میں لپٹی ہوئی واپس چلی جاتی تھیں اور اندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی شناخت نہیں کر سکتا تھا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
-
وَعَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَزَےْدَ بْنَ ثَابِتٍ تَسَحَّرَا فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ سُحُوْرِھِمَا قَامَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلَی الصَّلٰوۃِ فَصَلّٰی قُلْنَا لِاَنَسٍ کَمْ کَانَ بَےْنَ فَرَاغِھِمَا مِنْ سُحُوْرِھِمَا وَدُخُوْلِھِمَا فِی الصَّلٰوۃِ قَالَ قَدْرُ مَا ےَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِےْنَ اٰےَۃً۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (روزہ رکھنے کے لیے) سحری کھائی۔ سحری سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور نماز پڑھی (قتادہ فرماتے ہیں کہ) ہم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ان دونوں کے سحری سے فارغ ہونے اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنے وقت کا وقفہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " اتنے وقت کا وقفہ تھا کہ ایک آدمی پچاس (متوسط) آیتیں پڑھ لے۔" (صحیح البخاری ) تشریح علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں وقت کا جو اندازہ بیان کیا گیا ہے اس پر عام مسلمان کو عمل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل براہ راست بارگاہ الوہیت سے مطلع ہو جانے کے بعد تھا۔ دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دین کے معاملہ میں معصوم عن الخطا تھے کہ آپ سے کسی دینی معمولی لغزش کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ ہر ایک کو کہاں نصیب!۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَےْفَ اَنْتَ اِذَا کَانَتْ عَلَےْکَ اُمَرَآءُ ےُمِےْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اَوْ ےُؤَخِّرُوْنَ عَنْ وَقْتِھَا قُلْتُ فَمَا تَاْمُرُنِیْ قَالَ صَلِّ الصَّلٰوۃَ لِوَقْتِھَا فَاِنْ اَدْرَکْتَھَا مَعَھُمْ فَصَلِّ فَاِنَّھَا لَکَ نَافِلَۃٌ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب کہ تمہارے امراء (احکام) نماز کو وقت مختار سے ٹال کر، یا وقت مختار سے مؤخر کر کے پڑھیں گے۔ میں نے عرض کیا، ایسے وقت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ اس وقت تم اپنی نماز کو وقت پر پڑھ لو پھر اگر ان کے ساتھ بھی نماز مل جائے تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، یہ نماز تمہارے لیے نفل ہو جائے گی۔" (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ (او کانوا یوخرون عن وقتھا ) لفظ او راوی کا شک ہے یعنی حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا ہے کہ اس سے پہلے کے راوی نے لفظ یمیتون کہا ہے یا یو خرون۔ ویسے معنی کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے اس وقت تم کیا کرو گے جب کہ تم یہ دیکھو گے کہ وہ آدمی جو تمہارا حاکم و سردار ہوگا نماز میں سستی و کاہلی کرے گا نماز کو اس کے اول وقت میں نہ پڑھے گا بلکہ غیر مختار طور پر مؤخر کرے گا اور چونکہ وہ تمہارا حاکم ہوگا اس لیے اس پر قادر نہیں ہو سکو گے کہ اس کی مخالفت کر کے اسے سیدھی راہ پر لگا دو تمہیں یہ خوف ہوگا کہ اگر نماز اس کے ہمراہ پڑھتے ہو تو اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت ہاتھ سے جاتی ہے اور اگر اس کی مخالفت کرتے ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کی طرف سے تکلیف و ایذاء پہنچنے کا بلکہ جماعت کی فضیلت سے محروم ہونے کا بھی خدشہ رہے گا۔ چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لگے ہاتھوں ایسے موقع کے لیے حکم بھی پوچھ لیا کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو مجھے کیا طریقہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ سیدھا راستہ بتا دیا کہ جب بھی ایسا موقع ہو تو کم سے کم تم اپنی نماز تو صحیح وقت پر ادا کر ہی لینا پھر اس کے بعد اگر تمہیں اتفاق سے ان کی نماز میں بھی شامل ہو جانے کا موقع مل جائے تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لینا تمہاری یہ نماز نفل ہو جائے گی، اس طرح تمہیں دوہرا ثواب مل جائے گا۔ چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام نماز میں تاخیر کرے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ اول وقت اپنی نماز ادا کر لیں پھر بعد میں امام کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیں تاکہ اس طرح وقت اور جماعت دونوں کی فضیلت پا سکیں لیکن یہ جان لینا چاہئے کہ یہ حکم صرف ظہر اور عشاء کے بارے میں ہے ۔ کیونکہ فجر اور عصر میں تو فرض ادا کر لینے کے بعد نفل نماز پڑھنی مکروہ ہے اور مغرب کی چونکہ تین رکعت فرض ہیں اور تین رکعت نفل مشروع نہیں ہے اس لیے مغرب میں بھی یہ طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک حدیث کے اطلاق کا تعلق ہے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ ضرورت کی بناء پر ہے کہ امراء و حکام کے ہمراہ چونکہ نماز نہ پڑھنے اور ان کے خلاف کرنے کی وجہ سے فتنے و فساد میں مبتلا ہونے کا خدشہ تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عشاء کی قید نہیں لگائی کہ مکروہات کا ارتکاب اس سے بہتر ہے کہ فتنہ و فساد کو جنم دیا جائے پھر یہ کہ اسے مواقع پر مکروہات بھی مباح ہوجاتے ہیں۔ آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو یہ فرمایا تھا وہ محض پیش بندی کے طور پر نہیں فرمایا تھا بلکہ در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزے کے طور پر آئندہ پیش آنے والے یقینی حالات کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ چنانچہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بنی امیہ کے دور میں یہ پیشین گوئی پوری صداقت کے ساتھ صحیح ہوئی کہ اس زمانے کے امراء و حکام نماز میں انتہائی سستی و کاہلی کرتے تھے اور نماز کو وقت مختار سے مؤخر کر کے پڑھا کرتے تھے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الصُّبْحَ وَمَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِّنَ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الْعَصْرَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس آدمی نے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے صبح کی نماز کو پا لیا اور جس نے آفتاب غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی ایک رکعت پا لی تو اس نے عصر کی نماز کو پالیا (یعنی اس کی نماز ضائع نہیں ہوگی لہٰذا اسے چاہئے کہ بقیہ رکعتیں پڑھ کر نماز پوری کر لے)۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی عصر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھنے کھڑا ہوا، ابھی اس نے ایک ہی رکعت نماز پڑھ پائی تھی۔ کہ سورج ڈوب گیا اسی طرح ایک آدمی فجر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھنے کھڑا ہوا حتی کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد سورج نکل آیا تو اس حدیث کی رو سے دونوں کی نمازیں صحیح ہو جائیں گی۔ مگر اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ اکثر علماء کے نزدیک اس حدیث کے مطابق آفتاب کے طلوع و غروب کی بناء پر فجر، عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے متبعین فرماتے ہیں کہ عصر کی نماز میں تو یہ شکل صحیح ہے کہ غروب آفتاب کی بناء پر عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن فجر کے بارے میں معاملہ بالکل مختلف ہوگا بایں طور کہ طلوع آفتاب کے بعد فجر کی نماز باطل ہو جائے گی ۔ اس طرح یہ حدیث چونکہ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف ہوگی اس لیے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس حدیث اور ان احادیث میں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت نماز خواہ نفل ہوں یا فرض پڑھنا ممنوع ہے۔ تعارض واقع ہو رہا ہے اس لیے ہم نے اصول فقہ کے اس قاعدے کے مطابق کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو تو حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور جب دو حدیثوں میں تعارض ہو تو قیاس کا سہارا لینا چاہئے، قیاس پر عمل کیا ہے چنانچہ قیاس نے اس حدیث کے حکم کو تو نماز عصر میں ترجیح دی اور احادیث نہی کو فجر کی نماز میں ترجیح دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فجر میں طلوع آفتاب تک پورا وقت کامل ہو تا ہے لہٰذا طلوع آفتاب سے پہلے پہلے جب نماز شروع کی جاتی ہے تو وہ اسی صفت کمال کے ساتھ واجب ہوتی ہے جس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ابتداء صفت کمال سے ہوئی ہے اسی طرح اختتام بھی صفت کمال کے ساتھ یعنی وقت کے اندر اندر ہو۔ مگر جب ایک رکعت کے بعد آفتاب طلوع ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت ختم ہو جانے کی وجہ سے نماز میں نقصان پیدا ہو گیا لہٰذا یہ نماز جس طرح صفت کمال کے ساتھ واجب ہوئی تھی اس طرح اداء نہیں ہوئی اور جب صفت کمال کے ساتھ ادا نہیں ہوئی تو گویا پوری نماز باطل ہوگئی۔ اس کے برعکس عصر میں دوسری شکل ہے وہ یہ کہ عصر میں غروب آفتاب تک پورا وقت کامل نہیں ہوتا یعنی جب تک کہ آفتاب زرد نہ ہو جائے اس وقت تک تو وقت مختار یا وقت کامل رہتا ہے مگر آفتاب کے زرد ہو جانے کے بعد آخر میں وقت مکروہ ہو جاتا ہے لہٰذا عصر کی نماز جب بالکل وقت آخر یعنی ناقص میں شروع کی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی ابتداء چونکہ وقت ناقص میں ہوئی اس لیے اس کا وجوب بھی صفت نقصان کے ساتھ ہو لہٰذا اس کا اختتام جب غروب آفتاب پر ہوگا تو کہا جائے گا کہ غروب آفتاب سے نماز میں نقصان پیدا ہو جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوئی۔ کیونکہ جس طرح اس کی ابتداء وقت ناقص میں ہوئی تھی اسی طرح اس کی انتہاء بھی وقت ناقص میں ہوئی گویا جس صفت کے ساتھ نماز واجب ہوئی تھی اسی صفت کے ساتھ (یعنی ناقص سے ) ادا ہوئی۔ جن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب اور نصف النہار کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے ان کے بارے میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق نوافل کے ساتھ ہے یعنی اگر کوئی آدمی ان تینوں اوقات میں نفل نماز پڑھنا چاہئے تو اس کے لیے یہ جائز نہ ہوگا البتہ فرض نمازیں ان تینوں اوقات میں بھی جائز ہوں گی لیکن احادیث کے الفاظ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید نہیں کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں فرض و نفل کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ عمومی طور پر تمام نمازوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ لہٰذا اگر اس بارے میں کسی نماز کی تخصیص کی جاتی ہے تو یہی کہنا پڑے گا کہ یہ حدیث کے ظاہری منشاء اور مفہوم کے سراسر خلاف ہے۔ ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے طلوع آفتاب سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی تو بے شک اس نے نماز کا وقت پا لیا اگرچہ وہ وقت نماز کے مناسب نہیں تھا لیکن پھر وہ وقت نماز کے مناسب اس لیے ہو گیا کہ ایک رکعت کی مقدار وقت بہر حال باقی رہا تھا لہٰذا وہ نماز اس آدمی کے لیے لازم ہوگی۔
-
ووَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَدْرَکَ اَحَدُکُمْ سَجْدَۃً مِّنْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَلْےُتِمَّ صَلٰوتَہُ وَاِذَا اَدْرَکَ سَجْدَۃً مِّنْ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْےُتِمَّ صَلٰوتَہُ (صحیح البخاری)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تم میں سے کوئی آدمی آفتاب غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی ایک رکعت پا لے تو اسے نماز پوری کر لینی چاہئے اور اگر آفتاب نکلنے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے۔" (صحیح البخاری ) تشریح اسے چاہئے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے۔ حنفیہ تو اس جملے کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی نماز کا اعادہ کرے یعنی اس کی قضاء پڑھے اور شوافع کے نزدیک وہی معنی ہیں جو اس سے پہلی حدیث میں ذکر کئے گئے ہیںَ
-
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ نَسِیَ صَلٰوۃً اَوْنَامَ عَنْھَا فَکَفَّارَتُھَا اَنْ ےُّصَلِّےَھَا اِذَا ذَکَرَھَا وَفِیْ رِوَاےًۃٍ لَّا کَفَّارَۃَ لَھَا اِلَّا ذَالِکَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے یا نماز کے وقت (غافل ہو کر ) سو جائے (اور وہ نماز رہ جائے) تو اس کا بدل یہی ہے کہ جس وقت یاد آئے پڑھ لے، اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نماز کے پڑھ لینے کے سوا اس کا اور کوئی بدل نہیں ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اگر کوئی آدمی نماز پڑھنی بھول جائے یا نماز کے وقت ایسا غافل ہو کر سو جائے کہ نماز کا وقت نکل جائے اور نماز نہ پڑھ سکے تو اس کا کفارہ صرف یہی ہے کہ اسے جب بھی یاد آجائے یا جب بھی سو کر اٹھے نماز قضاء پڑھ لے۔ یہ نہیں کہ جس طرح بغیر عذر کے رمضان کے روزے چھوڑنے کا کفارہ صدقہ وغیرہ ہوتا ہے نماز کے ترک کرنے پر بھی کفارہ کے طور پر کئی پڑھنی پڑیں گی یا صدقہ وغیرہ دینا ہوگا۔ ابن ملک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو نماز پڑھنے سے رہ گئی ہو وہ جب بھی یاد آئے اس کے پڑھنے میں تاخیر وغیرہ کرنی چاہئے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَےْسَ فِی النَّوْمِ تَفْرِےْطٌ اِنَّمَا التَّفرَےْطُ فِی الْےَقَظَۃِ فَاِذَا نَسِیَ اَحَدُکُمْ صَلٰوۃً اَوْ نَامَ عَنْھَا فَلْےُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔(پ ١٦ رکوع ١٠)۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سوتے میں نماز کا رہ جانا قصور میں شمار نہیں بلکہ قصور تو جاگتے میں (شمار) ہوتا ہے (کہ وہ اس طرح سویا) لہٰذا جب تم میں سے کوئی پڑھنے سے رہ جائے یا نماز کے وقت (غافل ہو کر ) سو جائے تو جس وقت بھی یاد آئے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ) 20۔طہ : 14) (مجھے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لیا کرو۔)" (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز سے پہلے غافل ہو کر سو جائے تو اس حالت میں نماز کی تاخیر کے قصور کی نسبت سونے والے کی طرف نہیں ہوتی کیونکہ وہ سونے کی حالت میں مکلف نہیں ہے بلکہ مجبور ہے البتہ اس کی طرف قصور کی نسبت جاگنے کی حالت میں ہوگی کہ اس نے ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھے بغیر سو گیا مثلاً وقت سے پہلے سو گیا تو اس میں اس کی خطا ہے ایسے ہی اس نے ایسے کام کئے جو نیند کا سبب ہیں مثلاً لیٹ گیا یا شطرنج کے کھیل یا ایسے دوسرے کاموں میں مشغول رہا جو نسیان و بھول کا باعث ہوتے ہیں تو اس میں اس کا قصور ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نماز کا یاد کرنا بمنزلہ اللہ کے یاد کرنے کے ہے اس لیے نماز یاد کرنے کو اللہ نے اپنا یاد کرنا قرار دے کر فرمایا کہ جب مجھے یاد کرو یعنی نماز جب تمہیں یاد آئے کہ وہ میرے یاد کرنے کا سبب ہے تو پڑھ لیا کرو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ لذکری کے معنی یہ ہیں کہ میں جب تمہیں نماز یاد دلادوں اور اس وقت نماز پڑھ لیا کرو تمہارا کچھ قصور نہیں۔
-
عَنْ عَلِیِّ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ یَا عَلِیُّ ثَلَاثُ لَّا تُؤَ خِّرْھَا اَلصَّلٰوۃُ اِذَاَتَتْ وَالْجَنَازَۃُ اِذَا حَضَرَتْ وَالْاَ یِّمُ اِذَا وَجَدْتَ لَھَا کُفُوًا۔ (رواہ الترمذی)-
" حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔ " (جامع ترمذی ) تشریح لسان نبوت سے حضرت علی المرتضیٰ کو تین کاموں میں تاخیر نہ کرنے کی نصیحت فرمائی جا رہی ہے ۔ پہلے تو نماز کے بارے میں فرمایا کہ جب نماز کا وقت مختار ہو جائے تو اس میں تاخیر نہ کرنی چاہئے بلکہ سب سے پہلے نماز پڑھو اس کے بعد کوئی دوسرا کام کرو۔ دوسرے نمبر پر جنازے کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس وقت جنازہ تیار ہو جائے تو اس کی نماز اور تدفین میں قطعاً تاخیر نہ کرنی چاہئے۔ علامہ اشرف رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول علامہ طیبی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نقل کرتے ہیں کہ، اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنازے کی نماز اوقات مکروہہ ( یعنی آفتاب نکلنے ڈوبنے کے وقت اور نصف الہنار کے وقت) میں پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ صورت ہو کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے آجائے تو پھر ان اوقات میں نماز پڑھنی مکروہ ہو گی۔ یہی سجدہ تلاوت کا حکم ہے بہر حال ان تینوں اوقات مکروہہ کے علاوہ تمام اوقات میں حتی کہ فجر کی نماز سے پہلے و بعد میں اور عصر کی نماز کے بعد بھی یہ دونوں چیزیں یعنی نماز جنازہ اور سجدہ تلاوت مطلقاً مکروہ نہیں ہیں۔ تیسری چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ بے خاوند عورت کا کفو یعنی ہم قوم مرد جب بھی مل جائے اس کے نکاح میں تاخیر نہ کرنی چاہئے۔ ایم بے خاوند عورت کو کہتے ہیں خواہ وہ کنواری ہو یا مطلقہ، بیوہ ہو مگر علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " ایم" اس کو فرماتے ہیں جس کا زوج (یعنی جوڑہ) نہ ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور عورت خواہ ثیبہ ہو یا باکرہ!۔ " کفو" کا مطلب یہ ہے کہ مرد ان جملہ اوصاف میں عورت کے ہم پلہ و برابر ہو۔ (١) نسب ۔ (٢) اسلام (٣) حریت۔ (٤) دیانت ۔ (٥) مال۔ (٦) پیشہ۔ اس موقعہ پر حدیث کی مناسبت سے ایک تکلیف دہ صورت حال کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلا دینا ضروری ہے۔ آج کل یہ عام رواج سا ہوتا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کی شادی میں بہت تاخیر کی جاتی ہے اکثر تاخیر تو تہذیب جدید کی اتباع اور رسم و رواج کی پابندی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و فرمان کے سراسر خلاف ہے لڑکیوں کی فطرت اور ان کے جذبات کا گلا گھونٹ کر ان پر ظلم کے مترادف بھی ہے چنانچہ اس کے نتائج آج کل جس انداز سے سامنے آرہے ہیں اسے ہر آدمی جانتا ہے کہ زنا کی لعنت عام ہوگئی ہے، بے حیائی و بے غیرتی کا دور دورہ ہے اور اخلاق و کردار انتہائی پستیوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ پھر نہ صرف یہ کہ کنواری لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے بلکہ اگر کوئی عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی وجہ سے بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کے دوبارہ نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اس طرح اس بے چاری کے تمام جذبات و خواہشات کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی پوری زندگی کو حرمان و یاس، رنج و الم اور حسرت و بے کیفی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ تمام اہل سنت و الجماعت کا متفقہ طور پر یہ عقیدہ ہے کہ جو آدمی کسی معمولی سنت کا بھی انکار کرے یا اس کی تحقیر کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور یہ سبھی لوگ جانتے ہی کہ عورت کا نکاح کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم و مشہور سنت ہے جس کی تاکید بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن ۔ افسوس ہے کہ مسلمان جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت کا اقرار کرتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ کوئی آدمی تو اپنی مجبوریوں کی آڑ لے کر لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتا ہے، کوئی تہذیب جدید اور فیشن کا دلدادہ ہو کر اس سعادت سے محروم رہتا ہے اور کوئی آدمی طعن و تشنیع کے خوف سے بیوہ کی شادی کرنے سے معذوری ظاہر کرتا ہے گویا وہ لوگوں کے طعن و تشنیع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ترجیح دیتا ہے حالانکہ دانش مندی کا تقاضتا تو یہ ہے گویا وہ لوگوں کے اس طعن و تشنیع کو اپنے لیے باعث سعادت اور قابل فخر جانے کہ انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے نیک بندوں کے اچھے کاموں پر ہمیشہ ہی لوگوں نے طعن و تشنیع کی ہے مگر ان لوگوں نے اللہ کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیک کاموں میں کبھی کوتاہی یا قصور نہیں کیا۔ اس موقعہ پر ایک بزرگ کی دلچسپ حکایت سن لیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ نے اپنی لڑکی کا نکاح اپنے ایک مرید سے جو اس لڑکی کے مناسب و لائق تھا کر دیا اور اس کی خبر کو کسی نہ کسی طرح اپنی بیوی سے بھی پوشیدہ رکھا۔ بعد میں جب ان کی بیوی کو یہ معلوم ہوا تو جزبر ہوئی اور ان سے کہنے لگی کہ، آپ نے اس کا بھی خیال کیا کہ آپ کے اس طرز عمل سے آپ کی ناک کٹ گئی، اور پھر جیسا کہ ان ناقص العقل والدین عورتوں کی عادت ہے اس بے چارے بزرگ کو لاکھ صلواتیں سنائیں۔ وہ بزرگ یہ سمجھ کر کہ عورتوں کے منہ لگنا خواہ مخواہ اپنی عقل خراب کرنا ہے۔ خاموش ہوگئے پھر باہر آکر انہوں نے مریدوں سے پوچھا کہ کیوں بھائیو میرے منہ پر ناک بھی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے تعجب سے کہا کہ ہاں کیوں نہیں ہے! وہ کہنے لگے کہ میری بیوی تو کہتی ہے کہ میری ناک کٹ گئی ١ ۔ وہ عورت جس کا نکاح ہوا، مگر یا تو خاوند مر گیا یا خاوند نے طلاق دے دی ہو۔ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ آدمی کو چاہئے کہ نیک کام کرنے میں کسی طعن و تشنیع کا خیال نہ کرے کیونکہ حقیقت میں جو بات بری نہیں ہوتی وہ کسی کے کہہ دینے سے بری نہیں ہو جاتی اور نہ اس کام کو کرنے والے کی ذات و آدمییت کو کوئی بٹہ لگتا ہے۔ حضرت مولانا الشاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آیت (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ) 24۔ النور : 32) کے ضمن میں اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، علی ! تین کاموں میں دیر نہ کرو۔ (١) فرض نماز کی ادائیگی میں جب کہ اس کا وقت ہو جائے۔ (٢) جنازے میں جب کہ موجود ہو۔ (٣) بیوہ عورت (کے نکاح میں) جب کہ اس کی ذات (و مرتبہ) کا مرد مل جائے ۔ جو شخص (بیوہ کو ) دوسرا خاوند کرنے میں عیب لگائے (تو سمجھو کہ ) اس کا ایمان سلامت نہیں ہے اور جو لونڈی و غلام نیک ہوں (یعنی شادی کر دینے کے بعد ان کے مفرور ہو جانے کا خوف نہ ہو اور تمہیں اعتماد ہو کہ یہ نیک بخت ہیں شادی کے بعد ہمارا کام نہیں چھوڑیں گے) تو ان کا بھی نکاح کر دو۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْوَقْتُ الْاَوَّلُ مِنَ الصَّلَاۃِ رِضْوَانُ اﷲِ وَالْوَقْتُ الْاٰخِرُ عَفْوُاﷲِ ۔ (رواہ الترمذی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نماز کو اول وقت ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی معافی کا سبب ہے۔" (جامع ترمذی ) تشریح اول وقت سے مراد اول وقت مختار ہے اور اس کی قید لگانے کی ضرورت یوں ہوئی کہ حنفیہ کے نزدیک بعض نمازوں میں تاخیر کی جاتی ہے جیسے فجر کی نماز میں اور گرمی میں ظہر کو مؤخر کر کے پڑھنا ہی مستحب ہے لہٰذا یہ نمازیں مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کا اول وقت مختار نہیں ہے بلکہ ان میں تاخیر ہی مختار ہے۔ " آخر وقت" سے مراد وقت مکروہ ہے مثلاً عصر کی نماز میں سورج کا متغیر ہو جانا یا عشاء کی نماز میں وقت کا آدھی رات سے زیادہ گزر جانا ۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آخر وقت میں نماز کی فرضیت تو بہر حال ادا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس وقت نماز پڑھنے والا ترک نماز کے گناہ سے تو بچ ہی جاتا ہے کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔
-
وَعَنْ اُمِّ فَرْوَۃَ قَالَتْ سُئِلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ الْاَعْمَالِ اَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاۃُ لِاَوَّلِ وَقْتِھَا رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِّیُ وَاَبُوْدَاؤدَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَا یُرْ َوی الْحَدِیْثُ اِلَّامِنْ حَدِیْثِ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِی وَھُوَ لَیْسَ بِالْقَوِی عِنْدَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ۔-
" اور حضرت ام فردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ (ثواب کی زیادتی کے اعتبار سے) کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) اور حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صرف حضرت عبداللہ ابن عمر عمری سے روایت کی جاتی ہے۔ اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔" تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد افضل ترین عمل یہی ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھا جائے۔ کتاب الصلوٰۃ کی حدیث نمبر پانچ کے فائدہ کے ضمن میں بتایا جا چکا ہے کہ افضل اعمال کے سلسلے میں بہت زیادہ حدیثیں وارد ہیں ۔ جن میں مختلف اعمال کو افضل کہا گیا ہے۔ وہاں اس کی بھی وضاحت کر دی گئی تھی کہ جن جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہ اپنے اپنے موقع و مناسبت کی بناء پر یقینا افضل ہیں۔ چنانچہ یہاں پھر سمجھ لیجئے کہ دوسری احادیث میں جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہاں ا فضیلت اضافی مراد ہے یعنی بعض اعمال بعض حیثیت سے افضل ہیں اور بعض اعمال کو دوسری وجوہ اور حیثیت سے دوسرے اعمال پر فضیلت حاصل ہے لیکن نماز علی الا طلاق یعنی بہمہ وجوہ ایمان کے بعد اعمال سے افضل و اشرف ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے راوی صرف ایک یعنی عبدا اللہ ابن عمر عمری ہیں اور وہ بھی محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ عبداللہ ابن عمر عمری کے بارے میں غالباً پہلے بھی کسی حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے ہیں اس لیے انہیں عمری کہا جاتا ہے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عبداللہ ابن عمر ابن حفص ابن عاصم ابن عمر فاروق ۔ بہر حال ترمذی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو نہیں پہنچتی حالانکہ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
-
وَعَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ مَا صَلَّی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَاۃً لِّوَ قْتِھَا الْاٰخِرِ مَرَّتَیْنِ حَتّٰی قَبَضَہُ اﷲُ تَعَالٰی۔ (رواہ الترمذی)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز آخر وقت میں دو دفعہ بھی نہیں پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی۔ " (جامع ترمذی ) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کو ان کے مختار اوقات میں پڑھا کرتے تھے۔ مکروہ اوقات میں نہیں پڑھتے تھے۔ صرف ایک مرتبہ بیان جواز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز آخر وقت میں پڑھی تھی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز کا آخری وقت یہ ہے اور وقت کے اس حصے تک نماز جائز ہو سکتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس نماز کو شمار نہیں کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ آخر وقت میں پڑھی تھی کیونکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے وقت معلوم کرنے کے لیے آخر وقت نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کو ایک دن اول وقت میں اور ایک دن آخر وقت میں پڑھ کر دکھائی تھی اسے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شمار نہیں کیا ہے اس لیے کہ تعلیم پر محمول ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَزَالُ اُمَّتِیْ بِخَیْرٍ اَوْ قَالَ عَلَی الْفِطْرَۃِ مَالَمْ یُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ اِلٰی اَنْ تَشْتَبِکَ النُّجُوْمُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَاہُ الدَّرِامِیُّ عَنِ الْعَبَّاسِ۔-
" اور حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری امت کے لوگ اگر مغرب کی نماز کو (اس قدر) دیر کر کے نہ پڑھا کریں کہ ستارے جگمگانے لگیں تو ہمیشہ بھلائی، یا فرمایا کہ، فطرت (یعنی اسلام کے طریقے) پر رہیں گے، (سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو دارمی نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے۔" تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مغرب کے وقت فقط ستارے نظر آجانے سے کراہیت نہیں آتی البتہ ستارے گنجان ہو کر جگمگانے لگتے ہیں تو جب وقت مکروہ ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مغرب کی نماز تاخیر سے پڑھی تھی اور وہ بھی بیان جواز کے لیے ورنہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اول وقت ہی مغرب کی نماز ادا فرماتے تھے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُھُمْ اَنْ یُؤخِّرُو الْعِشَاءَ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ اَوْ نِصْفِہٖ۔ (رواہ احمد بن حنبل و الترمذی و ابن ماجہ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت کے لوگوں کی تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو انہیں (وجوب کے طریقہ پر ) یہ حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو تہائی رات تک یا آدھی رات تک مؤخر کر کے پڑھیں۔ " (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ)
-
وَعَنْ مُعَاذِبْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَعْتِمُوْا بِھٰذِہِ الصَّلَاۃِ فَاِنَّکُمْ قَدْ فُضِّلْتُمْ بِھَا عَلٰی سَائِرِ الْاُ مَمِ وَلَمْ تُصلِّھَا اُمَّۃٌ قَبْلَکُمْ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اس نماز (یعنی عشاء کی نماز) کو دیر کر کے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں دوسری امتوں پر اس نماز کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔" (ابوداؤد) تشریح اس سے پہلے باب المواقیت کی حدیث نمبر تین میں گزر چکا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچوں وقت کی نماز پڑھائی اور کہا کہ (ھذا وقت الانبیاء من قبلک ) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز پڑھتے تھے مگر جو حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشاء کی نماز صرف اسی امت پر فرض ہے پہلی امتوں پر فرض نہیں تھی۔ لہٰذا محدثین نے ان دونوں حدیثوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ پہلی امتوں میں عشاء کی نماز صرف پیغمبر و رسول ہی پڑھتے تھے۔ کیونکہ یہ نماز ان کی امتوں پر واجب نہیں تھی بلکہ انہیں پر واجب تھی جیسا کہ بعض علماء کے قول کے مطابق تہجد کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر واجب نہیں ہے اس لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ارشاد ھذا وقت الانبیاء سے پہلی امتوں پر عشاء کا وجوب ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ یہ نماز انبیاء علیہ السلام ہی پڑھتے تھے اور اس کو حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام بھی عشاء کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز پہلی امتوں کے لوگ نہیں پڑھتے تھے اور یہ نماز اسی امت کے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسطرح ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔ آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ ھذا وقت الا نبیاء من قبلک میں لفظ ھذا سے فجر کے وقت اسفار کی طرف اشارہ ہے کہ بخلاف دوسرے اوقات کے اس میں تمام انبیاء شریک ہیں۔
-
وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ قَالَ اَنَااَعْلَمُ بِوَقْتِ ھٰذِہِ الصَّلَاۃِ صَلٰوۃِ الْعِشَاءِ الْاٰخِرَۃِ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْھَا لِسُقُوْطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَۃٍ۔ (رواہ ابوداؤد ، دارمی)-
" اور حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس نماز یعنی دوسری عشاء کے وقت کو خوب جانتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو تیسری تاریخ کے چاند چھپنے کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ " (ابوداؤد، دارمی) تشریح تیسری تاریخ کی شب میں چاند رات کے تقریباً پانچویں حصہ میں غروب ہوتا ہے، اس طرح یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر ہی سے پڑھنا مستحب ہے۔ عشاء کی نماز کو دوسری عشاء اس لیے کہا گیا ہے کہ بسا اوقات مغرب کو بھی عشاء کہا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ دوسری عشاء ہوئی۔
-
وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَسْفِرُوْا بِالفَجْرِ فَاِنَّہ، اَعْظَمُ لِاَ جْرِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ وَا لدَّرِامِیُّ وَلَیْسَ عِنْدَ النِّسَائِی فَاِنّہ، اَعْظَمُ لِلْاَجْرِ۔-
" اور حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، فجر کی نماز اجالے میں پڑھو کیونکہ اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے اور سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ (فانہ اعظم للاجر ) (یعنی اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے )۔ نہیں ہیں۔ " (جامع ترمذی ، ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی) تشریح اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں شروع کرنی چاہئے چنانچہ حنفیہ کا ظاہری مسلک یہی ہے کہ فجر کی نماز کی ابتداء و اختتام دونوں ہی اسفار میں ہوں۔ مگر حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ جو حنفی مسلک کے ایک جلیل القدر امام ہیں، فرماتے ہیں کہ ابتداء تو غلس (اندھیرے) میں ہونی چاہئے اور اختتام اسفار میں، اور اس کا طریقہ یہ ہو کہ قرائت اتنی طویل کی جائے کہ پڑھتے پڑھتے اجالا پھیل جائے۔ چنانچہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ تاویل اولیٰ اور احسن ہے کیونکہ اس طرح ان تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جن میں سے بعض تو غلس میں نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسفار میں نماز پڑھنا افضل ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔ ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق کی وجہ خود ایک حدیث بھی ہے جو شرح السنہ میں منقول ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں موسم کا اعتبار ہوگا یعنی جاڑے کے موسم میں تو غلس میں نماز پڑھنا بہتر ہوگا اور گرمی کے موسم میں اسفار کرنا بہتر ہگا۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں : الحدیث ( قَالَ مُعَاذٌ بَعْثَنِیْ رَسُوْلُ ا صلی اللہ علیہ وسلم اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اِذَا کَانَ فِی الشِّتَاءِ فَغَلِّسْ بِالفَجْرِ وَاطِلٍ القِرَآءَ ۃُ قَدْرَ مَا یُطِیْقُ النَّاسُ وَلَا تُمِلَّھُمْ وَاِذَا کَانَ فِی الصَّیْفِ فَاسْفِرْ بِالفَجْرِ فَاِنَ اللَّیْلِ قَصِیْرٌ وَالنَّاسُ نِیَامٌ فَاَ مْھِلْھُمْ حَتّٰی اَدْرَکُوْا یَعْنِی الصَّلٰوۃَ۔) " حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو یہ (بھی) فرمایا کہ جب سردی کا موسم ہو تو فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھنا اور قرائت طویل کرنا (مگر اتنی کہ) لوگوں پر بھاری نہ ہو کہ وہ تنگ ہو جائیں اور جب گرمی کا موسم ہو تو فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں پڑھنا کیونکہ (گرمی) میں رات چھوٹی ہونے کیوجہ سے لوگ سوئے رہتے ہیں اس لیے انہیں اتنا موقع دو کہ وہ نماز میں شریک ہو سکیں۔" بہر حال علماء حنفیہ کے نزدیک اسفار کی حد یہ ہے کہ طلوع آفتاب میں اتنا وقت رہے کہ اس میں قرائت مسنون (جو چالیس سے ساٹھ یا سو آیتوں تک ہے) ترتیل کے ساتھ پڑھی جا سکے۔ اور نماز کے بعد اگر طہارت میں کوئی خلل معلوم ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے پہلے وضو اور مذکورہ بالا طریقہ پر نماز کا اعادہ ممکن ہو سکے۔
-
عَنْ رَّافِعِ بْنِ خَدِےْجٍ قَالَ کُنَّا نُصَلِّی الْعَصْرَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ ےُنْحَرُ الْجَزُوْرُ فَتُقْسَمُ عَشْرَ قِسَمٍ ثُمَّ تُطْبَخُ فَنَاکُلُ لَحْمًا نَضِےْجًا قَبْلَ مَغِےْبِ الشَّمْسِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور پھر وہ دس حصوں پر تقسیم کیا جاتا، اس کے بعد اسے پکایا جاتا اور پھر ہم سورج چھپنے سے پہلے اس پکے ہوئے گوشت کو کھا کر فارغ ہو جایا کرتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بظاہر اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر کی نماز جلدی یعنی ایک مثل سایہ ہونے کے وقت یا اس سے تھوڑی دیر کے بعد پڑھی جاتی ہوگی جیسا کہ آئمہ ثلثہ اور صاحبین کا مسلک ہے اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے اور بعض حضرات نے فتوی بھی اسی روایت پر دیا ہے مگر حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور مسلک یہ ہے کہ عصر کا وقت دو مثل سائے کے بعد ہوتا ہے چنانچہ ان کی طرف سے اس حدیث کی یہ تاویل کی جائے گی کہ ہو سکتا ہے کہ گرمیوں میں ایسا ہوتا ہو کیونکہ اس وقت دن بڑا ہوتا ہے۔ نیز حضرت ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہدایہ کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر عصر کی نماز سورج کے متغیر ہونے سے پہلے پڑھی جائے تو غروب آفتاب تک بقیہ وقت میں حدیث میں مذکورہ عمل جیسا عمل بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے چنانچہ جن لوگوں نے امراء و حکام کے ہمراہ کھانا پکانے والے ماہرین کو سفر میں کھانا پکاتے ہوئے دیکھا ہوگا وہ اسے بعید نہیں جانیں گے۔
-
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ مَکَثْنَا ذَاتَ لَےْلَۃٍنَنْتَظِرُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلٰو ۃَ الْعِشَآءِ الْاٰخِرَۃِ فَخَرَجَ اِلَےْنَا حِےْنَ ذَھَبَ ثُلُثُ الَّلےْلِ اَوْ بَعْدَہُ فَلَا نَدْرِیْ اَشَےْئٌ شَغَلَہُ فِیْ اَھْلِہٖ اَوْ غَےْرُ ذَالِکَ فَقَالَ حِےْنَ خَرَجَ اِنَّکُمْ لَتَنْتَظِرُوْنَ صَلٰوۃً مَّا ےَنْتَظِرُھَا اَھْلُ دِےْنٍ غَےْرَکُمْ وَلَوْلَا اَنْ ےَّثْقُلَ عَلٰی اُمَّتِیْ لَصَلَّےْتُ بِھِمْ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ ثُمَّ اَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَصَلّٰی۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لیے بہت دیر تک بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہائی یا اس سے بھی زیادہ رات جانے کے بعد تشریف لائے اور ہمیں معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام میں مشغول رہے تھے (کہ عادت کے مطابق سویرے نماز پڑھنے تشریف نہیں لائے) یا اس کے علاوہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو کوئی عذر پیش آگیا تھا) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر فرمایا، تم لوگ نماز کا انتظار کر رہے تھے (اور تمہارے لیے یہ مناسب بھی تھا کیونکہ ) نماز کا انتظار تو تم ہی لوگ کیا کرتے ہو۔ تمہارے سوا کسی اور دین والوں نے نماز کا انتظار نہیں کیا۔ اور اگر مجھے اپنی امت پر گراں گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس نماز کو ہمیشہ اسی وقت پڑھا کرتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تکبیر کا) حکم دیا اس نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔" (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سوا کسی بھی دین کے لوگ (یعنی یہود و نصاری ) عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ نماز تو صرف اسی امت کے ساتھ مخصوص فرمائی گئی ہے اور کسی امت کو نصیب نہیں ہوئی ہے لہٰذا تم اس وقت جب کہ آرام کرنے کا وقت ہے اپنے نفس پر قابو پا کر اور مشقت اٹھا کر نماز کا جتنا زیادہ انتظار کرو گے اتنا ہی زیادہ ثواب پاؤ گے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عشاء کی نماز تہائی رات کے وقت پڑھنا افضل ہے جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے مگر جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا تعلق ہے تو یہ بھی ثابت ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا اکثر حصہ اول وقت جمع ہو جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت ہی نماز پڑھ لیتے تھے اور جو حضرات تاخیر سے جمع ہوتے تھے وہ دیر سے پڑھتے تھے چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ جو نمازی اوّل وقت جمع ہو جائیں اول وقت نماز پڑھ لیں اور جو نمازی تاخیر سے جمع ہوں وہ دیر کر کے پڑھیں۔
-
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی الصَّلَوٰاتِ نَحْوًا مِنْ صَلٰوتِکُمْ وَکَانَ یُؤَخِّرُالْعَتَمَۃَ بَعْدَ صَلٰوتِکُمْ شَیْعًا وَکَانَ یُخَفِّفُ الصَّلٰوۃَ ( مسلم )-
" اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نمازوں کے قریب قریب (اوقات میں) نماز پڑھا کرتے تھے مگر عشاء کی نماز تمہاری نماز سے کچھ دیر کر کے پڑھتے تھے اور ہلکی نماز پڑھتے تھے۔ " (صحیح مسلم) تشریح نہی کے باوجود حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشاء کو عتمہ اس لیے کہا ہے کہ شاید اس وقت تک ان کو نہی کا حکم معلوم نہیں ہوا ہوگا یا پھر یہ نام چونکہ اہل عرب میں پہلے سے جانا پہچانا جاتا تھا اس لیے انہوں نے یہ سوچ کر کہ اس نام سے لوگ اس نماز کو اچھی طرح پہچان لیں گے عتمہ ہی کہا۔ بہر حال یہ حدیث بھی اس بات پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا ہی افضل و مستحب ہے۔ " ہلکی نماز پڑھنے " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے مگر علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں چھوٹی چھوٹی سورتیں اس وقت پڑھتے تھے جب کہ امامت فرماتے اور ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت مد نظر ہوتی ۔ اور ویسے بھی یہ بات باعتبار اکثر کے فرمائی گئی ہے کیونکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں سورت اعراف بھی پڑھی ہے ۔ اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنی بڑی بڑی سورتیں پڑھنا بھی لوگوں پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسا کیف و سرور محسوس ہوتا تھا کہ طویل قرات بھی انہیں ہلکی ہی معلوم ہوتی تھی اور ازراہ شوق طویل قرات میں زیادتی کے طالب رہتے تھے اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کی امامت میں یہ بات حاصل ہونا مشکل ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ صَلَّیْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَاۃَ العَتَمَۃِ فَلَمْ یَخْرُجْ حَتّٰی مَضٰی نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّیْلِ فَقَالَ خُذُوْامَقَاعِدَ کُمْ فَاَخَذْنَا مَقَاعِدَنَا فَقَالَ اِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلُوا وَاَخَذُوْا مَضَا جِعَھُمْ وَ اِنَّکُمْ لَنْ تَزَالُوْ افِیْ صَلَاۃٍ مَا انْتَظَرْ تُمُ الصَّلَاۃَ وَلَوْ لَا ضَعْفُ الضَّعِیْفِ وَسَقْمُ السَّقِیْمِ لَاَ خَّرْتُ ھٰذِہِ الصَّلٰوۃَ اِلٰی شَطْرِ اللَّیْلِ۔ (رواہ ابوداؤ والنسائی )-
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جماعت کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھنے گئے۔ (اتفاق سے اس روز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے قریب تک تشریف نہ لائے (بعد ازاں آکر ہم سے ) ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا، چنانچہ ہم اپنی جگہوں (سے اٹھے نہیں بلکہ وہیں) پر بیٹھے رہے (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لیے ہیں اور (تمہیں معلوم ہو نا چاہئے کہ) جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمہارا یہ سارا وقت نماز ہی میں شمار کیا جائے گا (یعنی تمہیں اس انتظار کی وجہ سے برابر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہے گا) اور اگر مجھے ضعیفوں کی کمزوری اور بیماروں کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں ہمیشہ یہ نماز آدھی رات تک دیر کر کے پڑھا کرتا۔" (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح جیسا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرز چکا ہے کہ (مسلمانوں کے علاوہ) کسی بھی دوسرے دین کے لوگ عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے، لہٰذا اس ارشاد کی روشنی میں حدیث کے الفاظ دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لیے ہیں، کی تشریح یہ کی جائے گی کہ دوسرے دین کے لوگ (مثلاً یہود و نصاری ) تو شام کی نماز پڑھ کر یا اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر کے اپنے اپنے بستروں پر جا کر نیند کی آغوش میں پہنچ گئے مگر چونکہ تمہارے نصیب میں اس نماز کی سعادت و فضیلت لکھی ہوئی ہے۔ اس لیے تم اب اس سعادت و فضیلت کی تکمیل کی خاطر نماز کی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہو۔ اور چونکہ تم اپنا آرام اپنی نیند اور اپنا چین سب اپنے پروردگار کی عبادت کے انتظار میں لٹا چکے ہو اس لیے تمہارا پرودردگار بھی اس محنت و مشقت کا صلہ اس طرح تمہیں دے گا کہ تمہارے اس انتظار کے ایک ایک لمحے کو سراپا عبادت و باعث سعادت بنا دے گا بایں طور پر کہ تمہارا یہ جتنا وقت انتظار میں گزرا ہے یا جتنا وقت گزرے گا تو سمجھو کہ وہ نماز ہی میں گزرا ہے یا گزرے گا یعنی جتنا ثواب نماز پڑھنے کا ملتا ہے اتنا ہی ثواب اس انتظار کا بھی ملے گا۔ یا پھر اس جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے محلوں کے مسلمان جو اس مسجد میں حاضر نہیں ہیں عشاء کی نماز پڑھ کر سو رہے ہیں اور تم لوگ اب تک نماز عشاء کے انتظار میں یہاں بیٹھے ہو اس طرح ان مسلمانوں کے مقابلے میں تم زیادہ ثواب و فضیلت کے حقدار بنو گے، یہی معنی ما بعد کے الفاظ ( وانکم لن ترالو الخ ) کے زیادہ قریب اور مناسب ہیں۔ بہر حال۔ یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز میں آدھی رات تک تاخیر جائز ہے بلکہ عبادت کے سلسلے میں زیادہ محنت و مشقت اٹھانے کی وجہ سے مستحب اور افضل ہے۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماَشَدَّ تَعْجِیْلًا لِلظُّھْرِ مِنْکُمْ وَاَنْتُمْ اَشَدَّ تَعْجِیْلًا لِلْعَصْرِ مِنْہُ۔ (رواہ احمد بن حنبل الترمذی)-
" اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز (گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں میں ) تم سے بہت زیادہ جلدی پڑھتے تھے اور تم عصر کی نماز پڑھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جلدی کرتے ہو۔" (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ) تشریح حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد اتباع سنت پر لوگوں کو رغبت دلانا اور متوجہ کرنا ہے کہ ہر جگہ اور ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر نے میں ہی بھلائی وسعادت ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عصر کی نماز میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَانَ الْحَرُّاَبْرَدَ بِالصَّلَاۃِ وَاِذَا کَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ۔ (رواہ النسائی )-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر کی) گرمی کے موسم میں ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھ لیتے تھے۔" (سنن نسائی) تشریح ظہر کے وقت کے سلسلے میں احادیث میں جو تعارض ہے کہ بعض حدیثوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دیر (لیٹ) کر کے پڑھتے تھے اور بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جلدی پڑھ لیتے تھے ۔ اس حدیث سے یہ تعارض ختم ہو جاتا ہے بایں طور کہ گرمی کے موسم میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھا کرتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھتے تھے۔
-
وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِنَّھَا سَتَکُوْنُ عَلَیْکُمْ بَعْدِی اُمَرَاءُ یَشْغَلُھُمْ اَشْیَاءُ عَنِ الصَلَاۃِ لِوَ قْتِھَا حَتّٰی یَذْھَبَ وَقْتُھَا فَصَلُّوا الصَّلَاۃَ لِوَقْتِھَا فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اُصَلِّیْ مَعَھُمْ قَالَ نَعَمْ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد عنقریب تم پر ایسے (لوگ) حاکم ہوں گے جنہیں دنیا کے چیزیں (یعنی خواہشات نفسانی) وقت (مستحب) پر نماز پڑھنے سے باز رکھیں گی، یہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے گا (یعنی وقت کراہت آجائے گا) لہٰذا تم اپنی نمازیں وقت پر پڑھتے رہنا (خواہ تنہا ہی کیوں نہ پڑھنی پڑے) ایک آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا پھر (دوبارہ) ان کے ساتھ بھی نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! (ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرنا تاکہ ثواب بھی زیادہ ملے اور حکام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے فتنہ و فساد بھی پیدا نہ ہو)۔" (سنن ابوداؤد)
-
وَعَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکُوْنُ عَلَیْکُمْ اُمَرَاءُ مِنْ بَعْدِی یُؤَخِرُوْنَ الصَّلَاۃَ فَھِیَ لَکُمْ وَھِیَ عَلَیْھِمْ فَصَلُّوْا مَعَھُمْ مَا صَلُّوا الْقِبْلَۃَ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت قبیصہ ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میرے بعد تم پر ایسے حاکم ہوں گے جو نماز (وقت مستحب سے ) تاخیر کر کے پڑھیں گے اور وہ نماز تمہارے لیے تو مفید ہوگی اور ان کے لیے وبال ہوگی لہٰذا جب تک وہ قبلہ (یعنی کعبتہ اللہ ) کی طرف نماز پڑھتے ہیں تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہنا۔" (ابوداؤد) تشریح " فائدہ" کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وقت مستحب کی فضیلت حاصل کرنے کی خاطر ان کی نماز سے پہلے نماز پڑھ لی۔ اور پھر اس کے بعد ان کے ساتھ بھی پڑھی تو یہ دوسری نماز تمہارے لیے نفل ہو جائے گی جس کی وجہ سے تمہیں بہت زیادہ ثواب ملے گا اور اگر ان کی نماز سے پہلے نماز نہ پڑھی بلکہ ان کے ہمراہ پڑھی تو اس کے لیے تم پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ وقت مکروہ میں تمہارا نماز پڑھنا فتنے کے خوف اور فساد کے دفعیہ کی غرض سے ہوگا۔ اسی طرح " وبال" کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز ان کے لیے مواخذہ کا باعث ہوگی کہ جب وہ وقت مختار میں نماز ادا کرنے پر قادر تھے تو وقت سے تاخیر کر کے غیر مطلوب وقت میں نماز کیوں پڑھی اور پھر یہ کہ امور دنیا نے انہیں امور عقبی کی انجام دہی سے باز رکھا جو یقینًا کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں۔
-
عَنْ عُبَےْدِاللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخَےَّارِ اَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی عُثْمَانَ وَھُوَ مَحْصُوْرٌ فَقَالَ اِنَّکَ اِمَامُ عَآمَّۃٍ وَّنَزَلَ بِکَ مَا تَرٰی وَےُصَلِّیْ لَنَااِمَامُ فِتْنَۃٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلٰوۃُ اَحْسَنُ مَا ےَعْمَلُ النَّاسُ فَاِذَا اَحْسَنَ النَّاسُ فَاَحْسِنْ مَعَھُمْ وَاِذَا اَسَآءُ وا فَاجْتَنِبْ اِسَآءَ تَھُمْ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت عبیداللہ ابن عدی ابن خیار کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ وہ (اپنی شہادت سے پہلے بغاوت کے ایام میں اپنے مکان کے اندر) محصور تھے چنانچہ (عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) میں نے عرض کیا کہ آپ ہم سب کے امام (اور امیر) ہیں اور آپ پر جو کچھ مصائب و پریشانیاں) نازل ہوئی ہیں وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور (ہمارا حال یہ ہے کہ) ہمیں فتنے و فساد کا ایک امام نماز پڑھاتا ہے (جس کے پیچھے نماز پڑھنا) گناہ سمجھتے ہیں، (یہ سن کر) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نماز پڑھنا لوگوں کے تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے۔ لہٰذا جب لوگ نیکی و بھلائی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی و بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔" (صحیح البخاری ) تشریح " فتنہ و فساد کے امام" سے مراد باغیوں کا سردار ہے جس کا نام کنانۃ ابن بشیر تھا۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی نیکیوں میں تو شریک رہو یعنی اگر وہ نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ مل کر وہی نیک کام کرو البتہ ان کی بدی میں شریک نہ رہو۔ اور نماز کا پڑھنا نیک ہی عمل ہے اس لیے باغیوں کے سردار کے پیچھے تمام پڑھ سکتے ہو اسے گناہ کی بات نہ سمجھو۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے ان کے عدل و انصاف اور ان کے حلم و بردباری کے عظیم وصف پر روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے سخت موقعہ پر جب کہ باغیوں نے اپنے ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے انہیں مکان میں محصور کر رکھا تھا اور ان کے اوپر تکالیف و پریشانیوں کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی ان کی نیکی اور بھلائی کو از راہ بغض و انتقام برائی سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے اچھا ہی کہا۔ یہ ارشاد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر نیک و بد آدمی کے پیچھے نماز جائز ہو جاتی ہے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔
-