TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جنازوں کا بیان
تکلیف ومصیب مسلمان کے لیے گناہوں کا کفارہ
عن علي بن زيد عن أمية أنها سألت عائشة عن قول الله تبارك وتعالى : ( إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله ) وعن قوله : ( من يعمل سوءا يجز به ) فقالت : ما سألني عنها أحد منذ سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " هذه معاتبة الله العبد فيما يصيبه من الحمى والنكبة حتى البضاعة يضعها في يد قميصه فيفقدها فيفزع لها حتى إن العبد ليخرج من ذنوبه كما يخرج التبر الأحمر من الكير " . رواه الترمذي-
حضرت علی رضی اللہ عنہ بن زید (بصری تابعی) امیہ سے روایت کرتے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے معنی پوچھے" اگر وہ چیز جو تمہارے دلوں میں ہے ظاہر کر دو یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ ا یت (وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ) 2۔ البقرۃ : 284) اور اس آیت کے معنی بھی پوچھے ا یت (ومن یعمل سوء یجز بہ) یعنی جو شخص برا عمل کرے گا (یعنی خواہ صغیرہ گناہ کرے خواہ کبیرہ گناہ) تو اس کی جزاء (یعنی اس کی سزا دنیا یا آخرت میں) دی جائے گی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ " جیسا کہ میں نے اس کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تھا ویسا کسی نے مجھ سے اس مسئلہ کے بارہ میں نہیں پوچھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (میرے دریافت کرنے پر) فرمایا کہ " یہ (یعنی محاسبہ اور سزا جو دونوں آیتوں میں مذکور ہیں) اللہ تعالیٰ کا عتاب ہے جس میں بندہ بخار و رنج (کی تکلیف) کی صورت میں مبتلا ہوتا یہاں تک کہ کوئی بندہ اپنا کچھ مال اپنے کرتہ کے آستین (یا جیب) میں رکھتا ہے اور (پھر وہ مال گم ہو جاتا ہے جسے) وہ نہیں پاتا چنانچہ وہ اس مال کے نہ ملنے سے غمگین ہوتا ہے (تو اس کی وجہ سے اس کے گناہ دور کیے جاتے ہیں اور ہمیشہ یہی سلسلہ جاری رہتا ہے کہ بندہ کسی تکلیف اور رنج میں مبتلا رہتا ہے) یہاں تک کہ وہ بندہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہو جاتا ہے جیسا کہ سونا اور چاندی بھٹی سے (آگ میں پڑنے کی وجہ سے) سرخ نکلتا ہے۔ (ترمذی) تشریح ان دونوں آیتوں کے معنی پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندوں سے ان کے دلوں کے خطرات و وسو اس اور برے خیالات پر محاسبہ کیا جائے گا اور دوسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کو ہر برے عمل پر سزا دی جاتی ہے خواہ وہ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ ۔ چنانچہ اس سے صحابہ رضی اللہ عنہم پریشان ہوئے کہ کیا کریں کیونکہ ان سے بچنا ممکن نہیں چنانچہ حضرت امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان آیات کا مطلب پوچھا تو انہوں نے ان آیات کی وضاحت کی جس کا حاصل یہ ہے کہ ان آیات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مؤمنین کو ان کے دل کی تمام باتوں اور ان کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرے گا بلکہ آیات میں محاسبہ اور سزا کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کو ان سے سرزد ہوئے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں اپنے عتاب میں مبتلا کرتا ہے بایں طور کہ کسی کو بیماری کی تکلیف میں اور کسی کو دوسرے رنج و غم میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ یہ چیزیں ان کے گناہوں کا کفار ہو جائیں۔ عتاب کے معنی یہ ہیں کہ " کوئی شخص اپنے کسی دوست سے اس کی کسی غلط روی اور بے ادبی کی وجہ سے بظاہر اس پر اپنے غصہ کا اظہار کرے مگر دل میں اس کی محبت بدستور باقی رہے" ۔
-
وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا يصيب عبدا نكبة فما فوقها أو دونها إلا بذنب وما يعفو الله عنه أكثر وقرأ : ( وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير ) رواه الترمذي-
حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بندہ کو جو معمولی ایذاء پہنچتی ہے یا کوئی تکلیف پہنچتی ہے خواہ وہ اس سے کم ہو یا زیادہ ہو، یہ اس کے گناہوں کا ثمرہ ہوتا ہے اور وہ گناہ جنہیں اللہ تعالیٰ (بغیر سزا دئیے) دنیا و آخرت میں بخش دیتا ہے ان گناہوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جن پر وہ سزا دیتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر) اور از قسم مصیبت جو چیز تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں پیدا کی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سے (گناہوں یا گناہ گاروں) کو معاف فرما دیتا ہے" ۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو بھی مصیبت و تکلیف اور بیمار وغیرہ پہنچتی ہے وہ سب تمہاری بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ گویا یہاں گنہ گاروں کو مخاطب کیا جا رہا ہے کہ اپنی بداعمالیوں اور غلط کاریوں سے باز آ جاؤ اور نیک راستہ پر چلنے ہی کو اپنی دینی و دنیوی راحت و سکون کا ذریعہ جانو، ہاں جب وہ لوگ کسی مصیب و تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں جو گناہ گار نہیں ہوتے تو اس سے ان کی آزمائش و امتحان مقصود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے درجات میں بلندی ہوتی ہے، اگرچہ خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے کسی معمولی سی تکلیف اور پریشانی میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے عجز و بیچارگی کے احساس کی وجہ سے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ایک بزرگ کے بارہ میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ چوہے نے ان کے جوتے کے تسمہ کو کتر لیا تو وہ اتنا متاثر ہوئے کہ روتے جاتے تھے کہ آہ! نامعلوم میں کس گناہ میں مبتلا ہو گیا تھا جس کی سزا میں نے یہ پائی ہے۔
-