تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

--
تقدیر پر ایمان لانا فرض اور لازم ہے یعنی وجود ایمان کے لیے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ بندوں کے تمام اعمال خواہ وہ نیک ہوں یا بد، ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھ دیئے گئے ہیں، بندہ سے جو عمل بھی سر زد ہوتا ہے وہ اللہ کے علم و اندازہ کے مطابق ہوتا ہے، لیکن اللہ نے انسان کو عقل و دانش کی دولت سے نواز کر اس کے سامنے نیکی اور بدی دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ان پر چلنے کا اختیار دے دیا اور بتا دیا کہ اگر نیکی کے (راستہ کو) اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہوگا جس پر جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے اور اگر بدی کے راستہ کو اختیار کرو گے تو یہ اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا باعث ہوگا جس کی وجہ سے سزا اور عذاب کے مستحق گردانے جاؤ گے۔ اب اس واضح اور صاف ہدایت کے بعد جو آدمی نیکی و بھلائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ ازراہ فضل و کرم اللہ کی رحمت سے نوازا جائے گا اور اس پر اللہ کی جانب سے فلاح و سعادت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اگر کوئی عقل کا اندھا اپنے کسب و اختیار سے برائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ ازراہ عدل سزا کا مستوجب ہوگا اور اسے عذاب و تباہی کے غار دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تقدیر کا مسئلہ عقل و فکر کی رسائی سے باہر ہے کیونکہ یہ اللہ کا ایسا ایک راز ہے جس کا انسانی عقل میں آنا تو درکنار اسے نہ تو کسی مقرب فرشتہ پر ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا بھید کسی پیغمبر اور رسول کو معلوم ہے۔ اس لیے اس مسئلہ میں زیادہ غور و فکر کرنا اور اس میدان میں عقل کے گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ہے بلکہ تحقیق و جستجو کے تمام راستوں سے ہٹ کر صرف یہ اعتقاد رکھنا ہی فلاح و سعادت کا ضامن ہے کہ اللہ نے یہ مخلوق پیدا کر کے ان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک گروہ وہ ہے جو اچھے اعمال اور نیک کام کرنے کی بنا پر اللہ کی جنت اور اس کی نعمتوں کا مستحق ہوگا جو محض اس کا فضل و کرم ہوگا۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو برے اعمال کرنے کی وجہ سے دوزخ میں ڈالا جائے گا جو عین عدل ہوگا۔ منقول ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے قضا وقدر کے بارہ میں سوال کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا " یہ ایک بڑا راستہ ہے اس پر نہ چلو" اس آدمی نے " پھر یہی سوال کیا " " انہوں نے فرمایا " یہ ایک گہرا دریا ہے ، اس میں نہ اترو وہ آدمی نہ مانا اور اس نے پھر سوال کیا۔ آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ اللہ کا ایک راز ہے جو تم سے پوشیدہ ہے اس لیے اس کی تفتیش و تحقیق میں مت پڑو" ۔ لہٰذا اخروی سعادت اسی میں ہے کہ اس مسئلہ کے بارہ میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے اور جن اعتقادات کو ماننے کے لیے کہا ہے اس پر عمل پیرا ہو جائے، ورنہ اپنی عقل کے تیر چلانا درحقیقت گمراہی کا راستہ اختیار کرنا اور تباہی و بربادی کی راہ پر لگنا ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِےْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ ےَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِےْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا ہے۔ اور " فرمایا " (اس وقت) اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔" (صحیح مسلم) تشریح ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات اجسام ظاہری اور مادیات کی ثقاوت سے پاک ہے اس لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے تقدیریں لکھ دی تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ خدانے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں قلم کو جاری ہونے کا حکم دے کر اس کے ذریعہ لوح محفوظ میں ثبت کردی تھیں، یا یہ کہ فرشتوں کو حکم دے کر ان سے تقدیریں لکھوادی تھیں۔ منقول ہے کہ زمین و آسمان اور تمام مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے پانی ہی پانی تھا اور کہا جاتا ہے کہ پانی کا استقرار ہوا پر تھا اور ہوا اللہ کی قدرت پر قائم تھی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ اس عالم میں ازل سے لے کر ابد تک ہونے والے تمام واقعات و اعمال اسی وقت اللہ کے علم میں تھے۔ جب کہ یہ زمین و آسمان بھی پیدا نہیں ہوئے تھے اور اس کا عرش پانی پر تھا جس کے درمیان کوئی دوسری چیز حائل نہیں تھی۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَث قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّ شَیْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّی الْعَجْزُ وَالْکَےْسُ۔-
" اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر چیز تقدیر سے ہوتی ہے، یہاں تک کہ دانائی اور نادانی۔" (صحیح مسلم)
-
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْتَجَّ اٰدَمُ وَمُوْسٰی عِنْدَ رَبِّھِمَا فَحَجَّ اٰدَمُ مُوْسٰی قَالَ مُوْسٰی اَنْتَ اٰدَمُ الَّذِیْ خَلَقَکَ اللّٰہُ بِےَدِہٖ وَنَفَخَ فِےْکَ مِنْ رُّوْحِہٖ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلٰئِکَتَہُ وَاَسْکَنَکَ فِیْ جَنَّتِہٖ ثُمَّ اَھْبَطْتَّ النَّاسَ بِخَطِےْئَتِکَ اِلَی الْاَرْضِ قَالَ اٰدَمُ اَنْتَ مُوْسٰی الَّذِی اصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہٖ وَبِکَلَامِہٖ وَاَعْطَاکَ الْاَلْوَاحَ فِےْھَا تِبْےَانُ کُلِّ شَیْءٍ وَقَرَّ بَکَ نَجِّےًا فَبِکَمْ وَجَدتَّ اللّٰہَ کَتَبَ التَّورٰۃَ قَبْلَ اَنْ اُخْلَقَ قَالَ مُوْسٰی بِاَرْبَعِےْنَ عَامًا قَالَ اٰدَمُ فَھَلْ وَجَدْتَّ فِےْھَا وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہُ فَغَوٰی قَالَ نَعَمْ قَالَ اَفتَلُوْمُنِی عَلٰی اَنْ عَمِلْتُ عَمَلًا کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیَّ اَنْ اَعْمَلَہُ قَبْلَ اَنْ ےَّخْلُقَنِیْ بِاَرْبَعِےْنَ سَنَۃً قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَحَجَّ اٰدَمُ مُوْسَی۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (عالم رواح میں) آدم و موسیٰ علیہما السلام نے اپنے پروردگار کے سامنے مناظرہ کیا اور حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام پر غالب آگئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ وہی آدم ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا آپ میں اپنی روح پھونکی تھی، فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا تھا، اور اپنی جنت میں آپ کو رکھا تھا اور پھر آپ نے اپنی خطاء سے لوگوں کو زمین پر اتروا دیا تھا (یعنی اگر آپ خطا نہ کرتے تو یہاں زمین پر نہ اتارے جاتے اور آپ کی اولاد اس دنیا میں نہ پھیلتی بلکہ جنت میں رہتی) آدم علیہ السلام نے کہا تم وہی موسیٰ ہو جن کو اللہ نے اپنے منصب رسالت سے نواز کر برگزیدہ کیا اور ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا تھا اور تم کو وہ تختیاں دی تھیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور پھر تم کو سر گوشی کے لیے تقرب کی عزت بخشی تھی ، اور کیا تم جانتے ہو اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا " چالیس سال پہلے! آدم علیہ االسلام نے پوچھا " کیا تم نے تورات میں یہ لکھے ہوئے الفاظ نہیں پائے (ا یت وعصی آدم ربہ فغوی) (یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہوگیا۔ موسی علیہ السلام نے کہاں ہاں۔ آدم علیہ السلام نے کہا پھر تم مجھ کو میرے اس عمل پر کیوں ملامت کرتے ہو جس کو اللہ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے لیے لکھ دیا تھا،" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اس دلیل سے ) آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غائب آگئے۔" (صحیح مسلم) تشریح حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جو دلیل پیش کی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے چونکہ میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ میں شیطان کے گمراہ کرنے کی وجہ سے بہک جاؤں گا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے شجر ممنوع کا استعمال کرلوں گا۔ لہٰذا اس میں میرے کسب و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ گمراہی میرے مقدر میں لکھی گئی تھی اس لیے اس کا مجھ سے صادر ہونا لازم و ضروری تھا لہٰذا میں مورد الزام نہیں ٹھہر سکتا۔ علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس گمراہی کو میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے لوح محفوظ میں مقدر فرما دیا تھا جس کا ملطب یہ تھا کہ وہ ضرور بروقت وقوع پذیر ہوگی، لہٰذا جب وقت مقدر آپہنچا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امر مقدر اور اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف دہ عمل ممنوع سر زد نہ ہوتا چنانچہ تم مجھ پر یہ الزام تو ڈال رہے ہو اور تمہیں سبب ظاہری یعنی میرا کسب و اختیار تو یاد رہا لیکن اصل چیز یعنی مقدر سے تم صرف نظر کر گئے۔ حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مناظرہ اس عالم دنیا میں نہیں ہوا جہاں اسباب سے قطع نظر درست نہیں ہے بلکہ یہ مناظرہ عالم بالا میں ان دونوں کی روجوں کے درمیان ہوا تھا۔ اسی لیے یہاں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر کوئی عاصی و گناہ گار اس قسم کی دلیل کا سہارا لینے لگے تو وہ اس کے لیے کار آمد نہیں ہوگی، کیونکہ حضرت آدم کا معاملہ اس جہاں میں تھا جہاں وہ اسباب کے مکلف نہیں تھے اور پھر ان کی یہ خطاء بارگارہ الوہیت سے معاف بھی کر دی گئی تھی، لہٰذا یہاں تو کسب و اختیار اور ابواب کی بنا پر مواخذہ ہوگا کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر جو تختیاں اتری تھیں وہ زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ستر اونٹوں پر لادی جاتی تھیں، ان تختیوں میں ان کی قوم کے لیے اللہ کی جانب سے احکام و مسائل لکھے ہوئے تھے، ان تختیوں میں جو مضامین مذکور تھے وہ قدیم ہیں لہٰذا چالیس سال کی تحدید ان مضامین کے بارہ میں نہیں ہوگی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ وہ مضامین جو ان تختیوں پر لکھے گئے تھے، ان کے لکھنے کی مدت آدم کی پیدائش سے چالیس سال قبل ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ اِنَّ خَلْقَ اَحَدِکُمْ ےُجْمَعُ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِےْنَ ےَوْمًا نُّطْفَۃً ثُمَّ ےَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ ےَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ ےَبْعَثُ اللّٰہُ اِلَےْہِ مَلَکًا بِاَرْبَعِ کَلِمَاتٍ فَےَکْتُبُ عَمَلَہُ وَاَجَلَہُ وَ رِزْقَہُ وَشَقِیٌّ اَوْ سَعِےْدٌ ثُمَّ ےُنْفَخُ فِےْہِ الرُّوْحُ فَوَالَّذِیْ لَا اِلٰہَ غَےْرُہُ اِنَّ اَحَدَکُمْ لَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَا ےَکُوْنَ بَےْنَہُ وَبَےْنَھَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَےَسْبِقُ عَلَےْہِ الْکِتَابُ فَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ فَےَدْخُلُھَاوَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ حَتّٰی مَا ےَکُوْنَ بَےْنَہُ وَبَےْنَھَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَےَسْبِقُ عَلَےْہِ الْکِتَابُ فَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَےَدْخُلُھَا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ صادق و مصدوق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا۔ تم میں سے ہر آدمی کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ (پہلے) اس کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے، پھر اتنے ہی دنوں یعنی چالیس دن کے بعد وہ جما ہوا خون بنتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوتھڑا ہو جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ کو چار باتوں کے لکھنے کے لیے بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتہ اس کے عمل اس کی موت (کا وقت) اس کے رزق (کی مقدار) اور اس کا بدبخت و نیک بخت ہونا اللہ کے حکم سے اس کی تقدیر میں لکھ دیتا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تم میں سے ایک آدمی جنت والوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا آگے آتا ہے۔ اور وہ دوزخیوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے، اور تم میں ایک آدمی دوزخیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا سامنے آتا ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح ایسا کم ہوتا ہے کہ لوگ بھلائی کے راستہ کو چھوڑ کربرائی کا راستہ اختیار کرتے ہوں لیکن اللہ کی رحمت کاملہ کے صدقے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو لوگ بد بختی و برائی کے راستہ کو اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھلائی کی طرف آجاتے ہیں اور نیکی کے راستہ کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اس حدیث نے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ابدی نجات و عذاب کا دار و مدار خاتمہ پر ہے، اگر کسی کی پوری زندگی گناہ و معصیت یا کفر و شرک میں گزری لیکن اس نے آخر وقت میں صدق دل سے اپنی بداعمالیوں اور گمراہی پر نادم و شرمسار ہو کر نیک بختی و سعادت کے راستہ کو اختیار کر لیا تو وہ نجات پا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی تمام عمر نیکی و بھلائی کرتا رہا اور اس کی تمام زندگی اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزری لیکن آخر وقت میں وہ شیطان کی گمراہی یا اپنے نفس کی شرارت سے گمراہ ہو گیا اور اس نے اپنی حیات کے آخری لمحوں کو برائی و بدبختی کی بھینٹ چڑھا دیا تو وہ اپنی زندگی بھر کی نیکیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ لہٰذا اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ بھلائی و بہتری اور اخروی نجات اسی میں ہے کہ بندہ ہمیشہ اطاعت الہٰی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بجا آوری میں مصروف رہے، اس کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی حدود شریعت سے تجاوز کرنے نہ پائے اور ہر آنے والے لمحہ کو یہ سوچ کر کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری لمحہ ہو نیکی و بھلائی میں صرف کرتا رہے تاکہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے۔ اس موقع پر اتنی بات اور بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو لوگ قضا و قدر کے مسئلوں کو دیکھ کر یہ نظریہ قائم کر بیٹھے ہیں کہ جب نجات و عذاب، نیک بختی و بدبختی اور جنت و دوزخ کا ملنا تقدیری چیز ہے تو عمل کی کیا ضرورت ہے؟ وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی جو اس مسئلہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے تھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس قسم کی بات کہی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم عمل کئے جاؤ کیونکہ جس کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اس کو اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یعنی قضا و قدر پر بھروسہ کر کے تمہارا عمل میں توقف کرنا یا عمل سے انکار کرنا کوئی کار آمد نہیں ہوگا اس لیے کہ احکام شارع کی جانب سے وارد ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تم کو سوچنے سمجھنے کی قابلیت اور نیکی و بدی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی دی گئی ہے، نیز تمہارے اندر قصد و جہد کا مادہ بھی پیدا کیا گیا ہے تاکہ تم ان اسباب کے ذریعہ عمل کر سکو، لہٰذا اب اگر تم قضا و قدر کا سہارا لے کر اسباب سے قطع نظر کرو گے اور اعمال کو چھوڑ دو گے تو تباہی و بربادی کے غار میں جا گرو گے۔ ہاں یہ اللہ کی یقینا کوئی مصلحت ہوگئی جس کی حقیقت و حکمت کو تو وہی جانتا ہے کہ ایک طرف تو اس نے قضا و قدر کے مسئلہ کو سامنے کر دیا دوسری طرف اعمال وافعال کے کرنے کا حکم دیا اور پھر اس مسئلہ میں تحقیق و تفتیش کرنے سے بھی منع فرما دیا، اور پھر قضا و قدر کے سہارے اعمال کی ضرورت سے انکار کر دیا جائے تو اس کا کیا جواب ہوگا کہ اللہ کی جانب سے شریعت کا اتارنا، احکام بھیجنا اور رسولوں کی بعثت جن کا مقصد احکام خداوندی پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا تھا بلا وجہ ہوئی کیونکہ جب محض تقدیر پر بھروسہ ہوگا کہ جس کے مقدر میں جنت میں جانا لکھا ہوگا وہ جنت میں یقینا جائے گا اور جس کے مقدر میں دوزخ لکھی ہوگی اور دوزخ میں یقینا جائے گا تو ان رسولوں کی بعثت اور احکام و اعمال کی بجا آوری کی تاکید کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی ، لہٰذا اس حیثیت سے بھی دیکھا جائے تو یہ خیال غلط ثابت ہوگا۔ بہر حال جس طرح اور بہت سے اسرار الہٰی ہیں کہ ان کی بندوں کو خبر نہیں ہے اسی طرح یہ بھی ایک راز ہے جو بندوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے، اس لیے کسی کے ظاہری عمل کو دیکھ کر اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا بلکہ یہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے کہ (ا یت یعذب من یشاء و یرحم من یشاء) ( یعنی وہ جس کو چاہے (بداعمالیوں کی بنا پر) عذاب میں مبتلا کر دے اور جس کو چاہے اپنے فضل و کرم سے بخش دے)۔
-
وَعَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الْعَبْدَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ اَھْلِ النَّارِ وَاِنَّہُ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ یَعْمَلُ عَمَلَ اَھْلِ الْجَنَّہِ وَاِنَّہُ مِنْ اَھْلِ النَّار وَاِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ o (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت سہل بن سعد ( سہل بن سعد بن مالک کا پہلا نام حزن تھا لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل رکھا، کنیت ابوالعباس اور بعض نے ابویحیی بھی لکھی ہے مدینہ میں ٨٨ھ میں بعمر ٩٦ سال آپ کا انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور جنت والوں کے سے کام کرتا ہے لیکن وہ دوزخی ہوتا ہے کیونکہ (نجات و عذاب کا) دار و مدار خاتمہ کے عمل پر ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث نے پہلی حدیث کی توثیق کر دی ہے کہ اعمال سابق کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ان اعمال کا اعتبار ہوگا جس پر کا خاتمہ ہوا ہے اس لیے کسی کی نجات و عذاب کا دار و مدار اس کے خاتمہ پر ہوگا، خاتمہ بالخیر ہوگا تو اللہ کی نعمتوں اور اس کی جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا اور اگر خدانخواستہ خاتمہ خیر پر نہیں ہوا تو پھر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ چنانچہ اس حدیث نے صراحۃً یہ بات واضح کر دی کہ بندہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت الہٰی میں مصروف رہے اور ہر وقت معاصی و گناہ سے بچتا رہے اس لیے کہ نا معلوم اس کا وقت آخر کب آجائے، اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو کہ اچانک موت کا زبردست پنجہ اس کا گلا دبوچ لے اور اسے توبہ کی بھی مہلت نہ ملے جس کے نتیجہ میں وہاں کے دائمی خسران و عذاب میں گرفتار ہو جائے۔
-
وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاقَالَتْ دُعِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلٰی جَنَازَۃِ صَبِیٍّ مِّنَ الْاَنْصَارِ فَقُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ طُوْبٰی لِھَذَا عُصْفُوْرٌ مِّنْ عَصَافِےْرِ الْجَنَّۃِ لَمْ ےَعْمَلِ السُّوْءَ وَلَمْ ےُدْرِکْہُ فَقَالَ اَوْغَےْرُ ذٰلِکَ ےَا عَائِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ اٰبَائِھِمْ وَخَلَقَ لِلنَّارِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ اٰبَآئِھِمْ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ ( ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت ابوبکر صدیق کی ذی شان صاحبزادی اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چہیتی اور محبوب زوجہ مطہرہ ہیں جن کا لقب صدیقہ ہے۔ آپ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ ٥٧ھ،٥٨ میں آپ کا انتقال ہوا ہے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔) فرماتی ہیں کہ ایک انصاری بچہ کے جنازہ پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا، میں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس بچہ کو خوشخبری ہو، یہ تو جنت کی چڑیوں میں کی ایک چڑیا ہے، جس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ برائی کی حد تک پہنچا۔ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " عائشہ ! کیا اس کے سوا کچھ اور ہوگا؟ یعنی اس کے جنتی ہونے کا جزم و یقین نہ کرو کیونکہ اللہ نے جنت کے لیے مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے اور دوزخ کے لیے بھی مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔ " (صحیح مسلم) تشریح بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونا نیک و بد عمل پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ تقدیری معاملہ ہے اللہ نے ایک جماعت کے لیے ازل ہی سے جنت لکھ دی ہے اس لیے وہ جنت میں جائے گی خواہ وہ نیک اعمال کریں یا نہ کریں، اسی طرح ایک گروہ دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا ہے جو دوزخ میں یقینا جائے گا خواہ اس کے اعمال بد ہوں یا نہ ہوں۔ لہٰذا یہ لڑگا اگر دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا تھا تو وہ دوزخ میں یقینا جائے گا اگرچہ اس سے اب تک اعمال بد صادر نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف اکثر آیات و احادیث اور علماء کے متفق علیہ اقوال ایسے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمان بچہ اگر کمسنی کی حالت میں انتقال کر جائے تو وہ یقینا جنتی ہے بلکہ کفار و مشرکین کے کمسن بچوں کے بارہ میں بھی صحیح یہی مسئلہ ہے کہ وہ بھی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ لہٰذا اب اس حدیث کی توجیح یہی کی جائے گی کہ چونکہ حضرت عائشہ نے اس کے جنتی ہونے پر اس عزم و یقینی کے ساتھ حکم لگایا تھا کہ گویا انہیں غیب کا علم ہے اور اللہ کی مصلحت و مرضی کی راز دان ہیں، اس لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس جزم و یقین پر یہ تنبیہ فرمائی کہ تم اپنے اس وثوق کی بنیاد پر گویا غیب دانی کا اقرار کر رہی ہو، جو کسی بندہ کے لیے مناسب نہیں ہے یا زیادہ صحیح توجیہ اس حدیث کی یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس وقت تک ہوگا جب تک بچوں کے جنتی ہونے کا حکم وحی کے ذریعہ معلوم نہیں ہوا تھا ( اللہ علم)
-
وَعَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مَقْعَدُہ، مِنَ النَّارِ وَمَقْعَدُہ، مِنَ الْجَنَّۃِ قَالُوْا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نَتَوَکَّلُ عَلٰی کِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ قَالَ اعْمَلُوْا فَکُلُّ مُّےَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ اَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ السَّعَادَۃِ فَسَےُےَسَّرُ لِعَمَلِ السَّعَادَۃِ وَاَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الشِّقَاوَۃِ فَسَےُےَسَّرُ لِعَمَلِ الشَّقَاوَۃِ ثُمَّ قَرَأَ'' فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی الاےۃ''(پ٣٠۔رکوع ١٧) (صحیح البخاری و صحیح مسلم )7-58-
" اور حضرت علی کرم وجہہ ( امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی، آپ کی سب سے لاڈلی صاحب زادی حضرت فاطمہ کے شوہر اور چوتھے خلیفہ راشد ہیں ان کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے آخر عشرہ رمضان ٣٠ھ میں آپ نے انتقال فرمایا اور شہادت کا درجہ پایا۔ اس وقت آپ کی عمر واقدی کی تحقیق کے مطابق ٦٣ برس کی تھی تین دن کم پانچ سال تک آپ خلیفہ رہے ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم میں سے ہر آدمی کی جگہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ میں لکھ دی ہے۔ (یعنی یہ معین ہو گیا کہ کون لوگ جنتی ہیں اور کون لوگ دوزخی ہیں) صحابہ نے عرض کیا " یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنے نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کر بیٹھیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم عمل کرو اس لیے کہ جو آدمی جس چیز کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس پر اسے آسانی اور توفیق دی جاتی ہے لہٰذا جو آدمی نیک بختی کا اہل ہوتا ہے اللہ اس کو نیک بختی کے اعمال کی توفیق دیتا ہے اور جو آدمی بدبختی کا اہل ہوتا ہے اس کو بدبختی کے اعمال کا موقع دیا جاتا ہے اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ)" جس نے اللہ کر راہ میں دیا، پرہیزگاری کی اور اچھی بات (دین و اسلام) کو سچ مانا، اس کے لیے ہم آسانی کی جگہ (جنت) آسان کر دیں گے لیکن جس نے بخل کیا اور (خواہشات نفسانی و دنیاوی چمک دمک میں پھنس کر) آخرت کی نعمتوں سے بے پروائی کی، نیز عمدہ بات (دین و اسلام) کو جھٹلایا تو اس کے لیے ہم مشکل جگہ (دوزخ کی راہ) آسان کر دیں گے۔" الخ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا منشاء یہ تھا کہ تم لوگ تقدیر پر بھروسہ کر کے عمل چھوڑنے کو جو کہتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جنت و دوزخ کا پہلے مقدر میں لکھا جانا اور ہر ایک کے بارہ میں معین ہو جانا کہ کون نیک بخت ہے اور کون بد بخت، اعمال کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہے اس لیے کہ اللہ نے اپنی ربوبیت و الوہیت کے اظہار کے طور پر جو کچھ احکام دیئے ہیں اور جو فرائض بندوں پر عائد کئے ہیں اس پر عمل کرنا اور احکام کی پیروی کرنا بمقتضائے عبودیت بندوں پر لازم و ضروری ہے کیونکہ عمل ہی کو نیک بختی و بدبختی کا نشان قرار دیا گیا ہے کہ جو کوئی عمل کرے گا اس کو نیک بخت سمجھا جائے اور جو عمل نہیں کرے گا اس کو بدبخت سمجھا جائے گا اور پھر یہ بھی تقدیری معاملہ ہے کہ اللہ نے جس کے مقدر میں نیک بخت ہونا لکھ دیا ہے وہ یقینا اعمال کو پورا کرے گا اور جس کے مقدر میں بد بخت ہونا لکھا گیا ہے وہ اعمال کو چھوڑ کر گمراہی میں جا پڑے گا۔ جہاں تک ثواب و عذاب کا معاملہ ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کی مصلحت پر موقوف ہے وہ جو بھی معاملہ کرے گا اس پر اسے اختیار ہوگا اس میں کسی کے جبر و اکراہ کو دخل نہیں ہوگا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا اَدْرَکَ ذَالِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَاالْعَےْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَتَشْتَھِیْ وَالْفَرْجُ ےُصَدِّقُ ذٰلِکَ وَےُکَذِّبُہُ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رَوَاےَۃٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ کُتِبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ نَصِےْبُہُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِ کٌ ذالِکَ لَا مَحَالَۃَ الْعَےْنَانِ زِنَاھُمَا النَّظَرُ وَالْاُذُنَانِ زِنَاھُمَا الْاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلاَمُ وَالْےَدُ زِنَاھَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاھَا الْخُطٰی وَالْقَلْبُ ےَھْوِیْ وَےَتَمَنّٰی وَےُصَدِّقُ ذَالِکَ الْفَرْجُ وَےُکَذِّبُہُ۔-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اللہ نے انسان کی تقدیر میں جتنا حصہ زنا کا لکھ دیا ہے وہ ضرور اس سے عمل میں آئے گا، آنکھوں کا زنا تو نامحرم کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز باتیں کرنا، اور نفس آرزو و خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی ایک روایت ہے کہ " آدمی کی تقدیر میں زنا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے اس کو وہ ضرور عمل میں لائے گا۔ آنکھوں کا زنا (نامحرم کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں سننا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورت سے شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا (نامحرم عورت کو برے ارادہ سے) چھونا ہے اور پاؤں کا زنا (بدکاری کی طرف) جانا ہے اور دل خواہش و آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔" تشریح اصل زنا تو یہی ہے کہ کسی نا محرم عورت سے بدکاری میں مبتلا ہو، لیکن اصطلاح شریعت میں ان حرکات و اعمال کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے جو حقیقی زنا کے لیے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں جو اس تک پہنچاتے ہیں، مثلاً کسی نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا، یا بری نظر سے اس کی طرف دیکھنا، یا گندے خیال کے ساتھ اس کی باتیں سننا، یا برے ارادہ سے اس کا ہاتھ چھونا، یا اسی طرح گندے خیالات کے ساتھ کسی نامحرم عورت کے پاس جانا، یہ سب چیزیں چونکہ حقیقی زنا کی محرک بنتی ہیں جو آگے چل کر بدکاری میں مبتلا کرا دیتی ہیں اس لیے ان کو بھی مجازا زنا کہا جاتا ہے ، تاکہ ان حرکات و اسباب کی نفرت و کراہت دلوں میں بیٹھ جائے اور لوگ ان سے بھی بچتے رہیں۔ بہر حال حدیث سے معلوم ہوا کہ جس آدمی کے مقدر میں زنا کا جنتا حصہ لکھ دیا جاتا ہے وہ اسے عمل میں لاتا ہے ، اب چاہے تو اس کے مقدر میں محض مجازی زنا لکھا ہو یا حقیقی زنا، لیکن اللہ جن کو ان قبیح افعال سے محفوظ رکھتا ہے وہ ان سے باز رہتے ہیں اور وہ ان چیزوں سے بھی پرہیز کرتے رہتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی معصیت و گناہ کے خیال کا بھی شائبہ پایا جاتا ہو جو گناہ و معصیت کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہوں۔ " شرم گاہ کی تصدیق و تکذیب" کا مطلب یہ ہے کہ جب نفس انسانی ہوا و ہوس کا غلام بن جاتا ہے اور وہ غلط و حرام فعل کی خواہش کرتا ہے تو اگر شرم گاہ اس کے اس غلط و ناجائز خواہش پر عمل کرتی ہے اور زنا میں مبتلا ہو جاتی ہے تو یہی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، یا اگر کسی احساس و شعور اور ضمیر اللہ کے عذاب سے لرزاں اور اس کے خوف سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو شرمگاہ نفس کی خواہش کی تکمیل سے انکار کر دیتی ہے اور وہ بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا یہ اس کی تکذیب ہوتی ہے۔
-
وَعَنْ عِمْرَا نَ بْنِ حُصَےْنٍ ث اَنَّ رَجُلَےْنِ مِنْ مُّزَےْنَۃَ قَالَا ےَارَ سُوْلَ اللّٰہِ اَرَءَ ےْتَ مَا ےَعْمَلُ النَّاسُ الْےَوْمَ وَےَکْدَحُوْنَ فِےْہِ اَشَیْءٌ قُضِیَ عَلَےْھِمْ وَمَضٰی فِےْھِمْ مِّنْ قَدَرٍ سَبَقَ اَوْ فِےْمَا ےَسْتَقْبِلُوْنَ بِہٖ مِمَّا اَتٰھُمْ بِہٖ نَبِےُّھُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّۃُ عَلَےْھِمْ فَقَالَ لَا بَلْ شَےْئیٌ قُضِیَ عَلَےْھِمْ وَمَضٰی فِےْھِمْ وَتَصْدِےْقُ ذالِکَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ''وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا''۔(پ٣٠۔ر کوع ١٦) (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عمران بن حصین ( آپ کا اسم گرامی عمران ابن حصین اور کنیت ابونجید ہے آپ فتح خیبر کے سال اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے تھے بمقام بصرہ٥١ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ ایک مرتبہ قبیلہ مزینہ کے دو آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں یہ بتائیے کہ آج (دنیا میں) لوگ عمل کرتے ہیں اور اعمال کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کیا یہ وہی شے ہے جس کا حکم ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے یا یہ عمل ان احکام کے موافق ہیں جو ا ئندہ ہونے والے ہیں جن کو اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم لایا ہے اور جن پر دلیل قائم ہو چکی ہے" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں یہ وہی شے ہیں جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے اور اس کی تصدیق کتاب اللہ کی اس آیت سے ہوتی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوَاھَا (القران الحکیم، پارہ ۳۰۔رکوع ١٦)۔ قسم ہے (انسان کی) جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا پھر اس کی بد کرداری اور پرہیزگاری (دونوں کا) القاء کیا۔" (صحیح مسلم) تشریح سوال یہ تھا کہ یا رسول اللہ ہمیں یہ بتلا دیجئے کہ دنیا میں لوگ جتنے اعمال کرتے ہیں خواہ وہ اعمال خیر ہوں یا عمال بد کیا یہ وہی ہیں جو ان کے لیے ازل ہی میں مقدر ہو چکے تھے اور اب وقت پر وقوع پذیر ہوتے ہیں یا یہ وہ چیزیں ہیں جو ازل میں تو ان کے لیے نوشتہ تقدیر نہیں بنی تھیں بلکہ اب جب رسول آئے اور انہوں نے اللہ کی جانب سے دیئے گئے معجزات کے ذریعہ اپنی صداقت کا اعلان اور ان احکام و اعمال کے کرنے کا حکم دیا تو یہ اعمال وقوع پذیر ہونے لگے تو ایسی شکل میں کیا یہ کہا جائے گا کہ یہ اعمال بندوں کے مقدر میں پہلے سے نہیں لکھے ہوئے تھے بلکہ اپنے اختیار سے یہ اعمال کرتے ہیں چاہے وہ اچھے اعمال ہوں یا برے اعمال؟ بارگاہ رسالت سے جواب دیا گیا کہ یہ اعمال وہی ہیں جو ازل ہی سے بندوں کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں اور اب اسی نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر صادر ہوتے رہتے ہیں۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ رَجُلٌ شَآبٌّ وَّاَنَا اَخَافُ عَلٰی نَفْسِیْ الْعَنَتَ وَلَا اَجِدُ مَا اَتَزَوَّجُ بِہِ النِّسَآءَ کَاَنَّہُ ےَسْتَاْذِنُہُ فِی الْاِخْتِصَآءِ قَالَ فَسَکَتَ عَنِّیْ ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَسَکَتَ عَنِّیْ ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَسَکَتَ عَنِّیْ ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ جُفَّ الْقَلَمُ بِمَا اَنْتَ لَاقٍ فَاخْتَصِ عَلٰی ذَالِکَ اَوْذَرْ۔(صحیح البخاری)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، " یا رسول اللہ میں ایک جوان مرد ہوں اور میں اپنے نفس سے ڈرتا ہوں کہ بدکاری کی طرف مائل نہ ہو جائے اور میرے اندر اتنی استطاعت نہیں ہے کہ کسی عورت سے شادی کر لوں" گویا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے اندر سے قوت مردمی ختم کر دینے کی اجازت مانگتے تھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا، میں نے دوبارہ یہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے، میں نے پھر عرض کیا اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا میں نے پھر اسی طرح عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ! جو کچھ ہونا ہے (اسے تمہارے مقدر میں لکھ کر) قلم خشک ہو چکا ہے لہٰذا تمہیں اختیار ہے کہ قوت مردمی ختم کرو یا نہ کرو۔" (صحیح البخاری ) تشریح سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تمہارے مقدر میں جو کچھ ہونا لکھا ہے وہ پورا ہوگا، اگر خدانخواستہ کسی بدکاری میں مبتلا ہونا تمہارے لیے نوشتہ تقدیر بن چکا ہے تو یہ قبیح فعل تم سے ضرور ہوگا، اور اگر قضا و قدر نے تمہاری پاکدامنی اور معصیت سے حفاظت لی ہے تو چاہے تم اپنی قوت مردمی ختم کر کے نامرد بن جاؤ، یا اس فعل سے باز رہو، تمہارا نفس تمہیں نہیں بہکا سکتا اور تم پاک دامن رہو گے اسی طرف جف القلم کہہ کر اشارہ فرمایا گیا۔ اس حدیث میں اصل میں اس طرف تنبیہ اور تہدید مقصود ہے کہ اسباب و تدبیر کو تقدیر کے مقابلہ پر لانا اور نوشتہ تقدیر سے لاپرواہ ہو کر اس سے بھاگنا جائز نہیں ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ قُلُوْبَ بَنِیْ اٰدَمَ کُلَّھَا بَےْنَ اِصْبَعَےْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَّاحِدٍ ےُّصَرِّفُہُ کَےْفَ ےَشَآءُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمام انسانوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کی درمیان اس طرح ہیں جیسے ایک انسان کا دل ہے اور وہ (اپنی انگلیوں سے) جس طرح چاہتا ہے قلوب کو گردش میں لاتا ہے" اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے طور پر یہ فرمایا۔ " اے دلوں کو گردش میں لانے والے خدا! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔" (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے اللہ کے کمال قدرت کا اظہار مقصود ہے کہ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے اور سب پر متصرف ہے یہاں تک کہ قلوب کے رخ اور دل کی دھٹرکنیں تک بھی اسی کے اختیار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انگلیوں کا استعمال یہاں مجازا ہوا ہے کیونکہ اس کی پاک و صاف ذات مادیات اور اجسام کی ثقالت سے پاک ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمام قلوب اللہ کے قبضہ و تصرف میں ہیں، وہ جس طرف چاہتا ہے دلوں کو پھیر دیتا ہے کسی قلب کو گناہ و معصیت اور بدکاری کی طرف مائل کر دینا بھی اسی کی صفت ہے اور کسی قلب کو عصیان و سرکشی کے جال سے نکال کر اطاعت و فرمانبرداری اور نیکوکاری کے راستہ پر بھی اسی کا کام ہے وہ جس طرح چاہتا ہے گمراہی وضلالت کے اندھیرے میں پھینک دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، ہدایت و راستی کے مرغزاروں میں چھوڑ دیتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ اَوْ ےُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِےْمَۃُ بَھِےْمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِےْھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ ےَقُوْلُ'' فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَےْھَا لَا تَبْدِےْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّےْنُ الْقَےِّمُ''۔ (پ٢١۔ رکوع ٧) (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کو فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے (یعنی امر حق کو قبول کرنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح ایک چار پایہ جانور پورا چار پایہ بچہ دیتا ہے، کیا تم اس میں کوئی کمی پاتے ہو" پھر آپ نے یہ آیت تلاوتی فرمائی (ترجمہ) یہ اللہ تعالیٰ کی اس بنائی کے موافق ہے جس پر اللہ نے آدمیوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یہ دین مستحکم ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق فطرت پر کی ہے اور فطرت صرف امر حق یعنی ایمان و اسلام کو قبول کر سکتی ہے۔ لہٰذا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے۔تو وہ اس فطرت پر ہوتا ہے لیکن خارجی اثر سے وہ فطرت کے تقاضوں سے دور ہو جاتا ہے اور خلاف اصول و فطرت طریقوں پر چلنے لگتا ہے یعنی اگر اس کے ماں باپ مجوسی ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کے مذہب میں رنگ جاتا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر فرمایا کہ جس طرح کسی جانور کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی اصلی حالت میں پیدا ہوتا ہے اس کے اندر کسی قسم کی کوئی کمی یا کوئی نقصان نہیں ہوتا، ہاں اگر خارجی طور پر کوئی اس کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے یا اس کے جسم میں کوئی عیب پیدا کر دے تو وہ اپنی اصلی اور تخلیقی حالت کھو دیتا ہے، اسی طرح انسان پیدا کے وقت اپنی اصلی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا ماحول، اس کی سوسائٹی یعنی ماں باپ وغیرہ اس کے احساسات و شعور اور اس کے عقائد پر اپنے مذہب کا رنگ چڑھا کر اس کے ذہن و فکر اور قلب و دماغ کو غلط راستہ پر موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلی اور تخلیقی فطرت پر قائم نہیں رہتا بلکہ کافر ہو جاتا ہے ، ہاں اگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کے ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان رہتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہ عَنْہ قَالَ قَامَ فِےْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ لَا ےَنَامُ وَلَا ےَنْبَغِیْ لَہُ اَنْ ےَّنَامَ ےَخْفِضُ الْقِسْطَ وَےَرْفَعُہُ ےُرْفَعُ اِلَےْہِ عَمَلُ اللَّےْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّھَارِ وَعَمَلُ النَّھَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّےْلِ حِجَابُہُ النُّوْرُ لَوْ کَشَفَہُ لَاَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْہِہٖ مَا انْتَھٰی اِلَےْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہٖ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور پانچ باتیں ارشاد فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے ، اور سونا اس کی شان کے مناسب نہیں ہے۔ وہ ترازو کو بلند و پست کرتا ہے، دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل اور رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جاتے ہیں اور اس کا حجاب نور ہے جسے اگر وہ اٹھا دے تو اس کی ذات پاک کا نور مخلوقات کی تاحد نگاہ تمام چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دے۔" (صحیح مسلم) تشریح ترازو کو بلند و پست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خداوند قدوس کسی بندہ پر رزق کی وسعت کرتا ہے اور اسے مال و زر کی فراوانی سے نوازتا ہے اور کس پر اسباب معیشت اور رزق کے دروازے تنگ کر کے اسے محتاجی و تنگدستی میں مبتلا کر دیتا ہے، اسی طرح کسی بندہ کو وہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیکوکاری کی بدولت عزت و عظمت اور شرف و فضیلت سے نوازتا ہے اور کسی گناہ گار بندہ کو اس کی سرکشی و نافرمانی اور بدکاری کی بنا پر اسے ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور اسے تباہی و بربادی کے غار میں ڈال دیتا ہے۔ ایسے ہی " دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جانے" کا مطلب یہ ہے کہ بندہ سے جو کوئی عمل سرزد ہوتا ہے وہ فوراً بلا تاخیر بارگاہ الوہیت تک پہنچ جاتا ہے یعنی ابھی سورج بھی نہیں نکلتا اور کوئی عمل صادر ہونے بھی نہیں پاتا کہ رات کے عمل جو بندہ سے سرزد ہوئے ہیں اوپر پہنچ چکے ہوتے ہیں ، اسی طرح رات شروع بھی نہیں ہوتی کہ دن کے عمل وہاں پہنچ جاتے ہیں، اب جو نیک عمل اور اچھا ہوتا ہے اسے قبولیت کے شرف سے نواز کر اس پر جزاء و انعام کا پروانہ صادر کر دیا جاتا ہے اور اس پر عذاب و سزا کا حکم دے دیا جاتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَدُاللّٰہِ مَلْئٰی لَا تَغِےْضُھَا نَفَقَۃٌ سَحَّآءُ اللَّےْلَ وَالنَّھَارَ اَرَءَ ےْتُمْ مَّا اَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ فَاِنَّہُ لَمْ ےَغِضْ مَا فِیْ ےَدِہٖ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَآءِ وَبِےَدِہِ الْمِےْزَانُ ےَخْفِضُ وَےَرْفَعُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) وَفِیْ رِوَایَۃِ لِّمُسُلِمٍ ''یَمِیْنُ اللّٰہِ مَلْاٰی قَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ مَلْاٰنُ سَحَّآءُ لَا یَغِیِْضُھَا شَیءٌ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ-
" اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ (یعنی اس کا خزانہ) بھرا ہوا ہے ، دن اور رات ہر وقت خرچ کرنا بھی اس میں کمی پیدا نہیں کرتا، کیا تم نہیں دیکھتے؟ کہ جب سے کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور جب کہ اس کا عرش(بھی) پانی پر تھا، کتنا خرچ کیا ہے، لیکن (اتنا زیادہ) خرچ کرنے کے باوجود جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے (یعنی اس کا خزانہ) اس میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے جسے وہ بلند و پست کرتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی روایت ہے" اللہ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے" ۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے (اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا، اور ہمیشہ دینے والا ہے، رات اور دن خرچ کرنے کے باوجود) اس میں کوئی چیز کمی نہیں کرتی۔" تشریح ابن نمیر حضرت امام مسلم کے استاد ہیں، ان کی سند سے جو حدیث ہے اس میں بجائے ملای کے ملان کا لفظ ہے اور ان الفاظ میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے ویسے ازروئے لغت ملای ہی صحیح ہے اور یہی الفاظ مناسب ہے۔
-
وَعَنْہُ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ ذَرَارِیِّ الْمُشْرِکِےْنَ قَالَ اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِےْنَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں پوچھا گیا ( کہ مرنے کے بعد دوزخ میں جائیں گے یا جنت میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے (اگر زندہ رہتے تو وہ کیا عمل کرتے)۔" ( صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح یعنی یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اگر وہ اس صغر سنی کی حالت میں نہ مرتے اور زندہ رہتے تو بڑے ہو کر کیا عمل کرتے، لہٰذا اب ان کے ساتھ جو معاملہ ہوگا اسی کے مطابق ہوگا اور یہ کہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جنت میں جاتے ہیں یا دوزخ میں، وہاں کی حالت کسی بندہ کو کیا معلوم!۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس وقت فرمایا ہوگا جب کہ ابھی تک مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں وحی کے ذریعہ کچھ معلوم نہیں ہوا تھا۔ اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح اور اولیٰ یہی ہے کہ اس بارہ میں توقف کرنا چاہیے یعنی نہ تو ان کو دوزخی کہا جائے اور نہ جنتی۔
-
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمُ فَقَالَ لَہ، اُکْتُبْ قَالَ مَآ اَکْتُبُ قَالَ اُکْتُبِ الْقَدَرَ فَکَتَبَ مَا کَانَ وَمَا ھُوَا کَآئِنٌ اِلٰی الْاَبَدِ۔ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ اِسْنَادًا۔-
" حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم تھا، پھر اس (قلم) کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے کہا، " الہٰ العالمین! کیا لکھوں " بارگاہ الوہیت سے جواب ملا " تقدیر لکھو!" لہٰذا اس قلم نے ان چیزوں کو لکھا جو (اب تک) ہو چکی ہیں اور ان چیزوں کو لکھا جو ا ئندہ ہونے والی ہیں۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے غریب ہے۔"
-
وَعَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارِ قَالَ سُئِلَ عُمَرُ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ وَاِذْا اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِ ھِمْ ذُرِّیَّتُھُمْ اَلْاٰیَۃَ قَالَ عُمَرُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسْئَلُ عَنْھَا فَقَالَ اِنَّ اﷲَ خَلَقَ اٰدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہ، بِیَمِیْنِہٖ فَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ خَلَقْتُ ھَؤُ لَآ ءِ لِلْجَنَّۃِ وَ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ یَعْمَلُوْنَ ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہ، بِیَدِہٖ فَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ خَلَقْتُ ھٰۤؤُ لَآ ءِ لِلنَّارِ وَ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ یَعْمَلُوْنَ فَقَالَ رَجُلٌ فَفِیْمَ الْعَمَلْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اﷲَ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّۃِ اِسْتَعْمَلَہ، بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَمُوْتَ عَلٰی عَمَلِ مِنْ اَعْمَالِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُدْ خِلُہ، بِہٖ الْجَنَّۃَ وَ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اِسْتَعْمَلَہ، بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ حَتّٰی یَمُوْتَ عَلٰی عَمَلِ مِنْ اَعْمَاِل اَھْلِ النَّارِ فَیُدْ خِلْہ، بِہٖ النَّارَ۔ (رواہ موطا امام مالک والجامع ترمذی وابوداؤد، الاعراف ١٧٢)-
" اور حضرت مسلم بن یسار راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اس آیت (وَاِذْاَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بنی ا دم من ظہورھم ذریتھم؟ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْ ایَوْاَم الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ۔ (الاعراف ١٧٢)" ترجمہ" اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کا نکالا اور (سب کچھ سمجھ عطا کر کے) ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں! ہم سب (اس واقعہ کے ) گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس (توحید سے محض بے خبر تھے) کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب اس آیت کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا پھر ان کی پیٹھ پر داہنا ہاتھ پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو جنت کے لیے اور جنت والوں کے سے اعمال کرنے کے لیے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ پھر اپنا ہاتھ آدم کی پشت پر پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو دوزخ کے لیے اور دوزخیوں کے سے کام کرنے کے لیے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا " یا رسول اللہ ! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنت والوں ہی کے سے عمل کراتا ہے یہاں تک کہ اس (بندہ ) کی وفات جنت والوں جیسے اعمال پر ہو جاتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کی بنا پر اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے اور جب کسی بندہ کو دوزخ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے دوزخیوں کے سے اعمال صادر کراتا ہے یہاں تک کہ وہ اہل دوزخ جیسے اعمال پر مر جاتا ہے لہٰذا اسے ان اعمال کی بناء پر دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔" (مؤطامالک، جامع ترمذی، ابوداؤد) تشریح یہ عہد میثاق عالم ارواح میں ہوا تھا جیسا کہ دیگر احادیث میں آتا ہے کہ رب قدوس نے تمام روحوں کو جو ازل سے لے کر ابد تک دنیا میں آنے والی تھیں ننھی ننھی چیونٹیوں کی شکل میں جمع کیا اور پھر ان کو عقل و دانائی بھی عنایت فرمائی اور اپنی ربوبیت و الوبیت کا سب سے اقرار کرایا۔ اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ ازل سے ابد تک دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی تھی مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی ان کی پشت سے ان کی اولاد اسی طرح قیامت تک جتنے انسان پیدا کئے جائیں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی۔ داہنے ہاتھ کے پھیرنے کے معنی یہ ہیں کہ خداوند قدوس نے فرشتہ کو داہنا ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا تھا ورنہ اللہ تعالیٰ کی نورانی ذات ہاتھ پیر کی ظاہری ثقالت سے پاک و صاف ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ اس سے اپنی قوت و قدرت کا اظہار مقصود ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِ وَقَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِیْ یَدَ ْیِہ کِتَابَانِ فَقَالَ اَتَدْرُوْنَ مَا ھٰذَانِ الْکِتَابَانِ قُلْنَا لَا یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلَّا اَنْ تُخْبِرَ نَا فَقَالَ لِلَّذِیْ فِیْ یَدِہِ الْیُمْنٰی ھٰذَا کِتَابٌ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ فِیْھَا اَسْمَآ ءُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ اَسْمَآءَ اٰبَآئِھِمْ وَ قَبَآئِلِھِمْ ثُمَّ اُجْمِلَ عَلٰۤی اٰخِرِھِمْ فَلَا یُزَادُفِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْھُمْ اَبَدًا ثُمَّ قَالَ لِلَّذِیْ فِیْ شِمَالِہٖ ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ فِیْہِ اَسْمَآءُ اَھْلِ النَّارِ وَ اَسْمَآءُ اٰبَآئِھِمْ وَ قَبَائِلِھْمْ ثُمَّ اُجْمِلَ عَلٰۤی اٰخِرِھِمْ فَلَا یُزَادُ فِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْھُمْ اَبَدًافَقَالَ اَصْحَابُہ، فَفِیْمَ الْعَمَلُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنْ کَانَ اَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ فَقَالَ سَدِّدُوْاوَقَارِبُوْا فَاِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّۃِ یُخْتَمُ لَ،ہ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَاِنْ عَمِلَ اَیَّ عَمَلِ وَاِنَّ صَاحِبَ النَّارِ یُخْتَمُ لَہ، بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِوَاِنْ عَمَلِ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیْہِ فَنَبَذَ ھُمَا ثُمَّ قَالَ فَرَغَ رَبُّکُمْ مِنَ الْعِبَادِ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں اور (صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے) فرمایا جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا معلوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتا دیجئے (یہ کتابیں کیا ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کے بارہ میں فرمایا جو داہنے ہاتھ میں تھی کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جس میں اہل جنت ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہوئے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے لہٰذا اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ، اس کے بعد بائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک ایسی کتاب ہے جس پر اہل دوزخ ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے۔ لہٰذا اب نہ تو اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ زیادتی۔ یہ (سن کر) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگرچہ یہ چیز پہلے سے ہی طے ہو چکی ہے (کہ جنت و دوزخ کا مدار نوشتہ تقدیر پر ہے تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (دین و شریعت کے مطابق اپنے اعمال کو) اچھی طرح مضبوط کرو اور (حق تعالیٰ کا ) تقرب حاصل کرو۔ اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ اہل جنت کے اعمال پر ہوتا ہے خواہ (زندگی میں) اس نے کیسے ہی (نیک یا بد) عمل کئے ہوں اور دوزخمی کا خاتمہ اہل دوزخ کے عمل پر ہوتا ہے خواہ اس کے اعمال جیسے بندوں کے بارے میں یہ پہلے سے طے کر چکا ہے کہ ایک جماعت جنتی ہے اور ایک جماعت دوزخی ہے۔" (جامع ترمذی) تشریح کتابوں کو پیچھے ڈال دینا اہانت کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ بارگاہ الوہیت سے اس معاملہ میں کہ دوزخی و جنتی کون کون لوگ ہیں ازل ہی میں حکم ہو چکا ہے اور جو نوشتہ تقدیر بن چکا ہے۔ ظاہری طور پر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں واقعی کتابیں تھیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دکھلا بھی دیا تھا۔ لیکن ان کے اندر جو مضمون لکھے ہوتے تھے وہ نہیں دکھلائے تھے، لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حقیقت میں کتابیں نہیں تھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال کے طور پر اس انداز سے فرمایا تاکہ یہ مسئلہ صحابہ کے ذہن نشین ہو جائے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ خَزَامَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَرَاَیْتَ رُقًی نَسْتَرْ قِیْھَا وَدَوَآئً نَتَدَاوٰی بِہٖ وَتُقَاۃً نَتَّقِیْھَا ھَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ شَیْئًا قَالَ ھِیَ مِنْ قَدْرِ اﷲِ ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و الجامع ترمذی وابن ماجۃ)-
" اور ابی خزامہ ( ابی خزامہ تابعی ہیں ان کے والد کا نام عمیر ہے جو صحابی ہیں اور جن سے ابوخزامہ روایت کرتے ہیں ابی خزامہ سے زہری روایت کرتے ہیں۔ ) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ عملیات جن کو ہم (شفاء کے لیے) پڑھواتے ہیں اور وہ دوائیں جن کو ہم (حصول صحت کے لیے) استعمال کرتے ہیں اور وہ ہر چیزیں جن سے ہم حفاظت حاصل کرتے ہیں (مثلاً ڈھال اور زرہ وغیرہ ان کے بارے میں مجھے بتائیے کہ کیا یہ سب چیزیں نوشتہ تقدیر میں کچھ اثر انداز ہو جاتی ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ چیزیں بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہیں)۔ " (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیماری وغیرہ امر مقدر ہیں، اسی طرح ان کا علاج اور ان سے حفاظت کے اسباب بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہوتے ہیں یعنی جس طرح کسی آدمی کے مقدر میں کوئی بیماری لکھ دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نوشتہ تقدیر بن چکا ہے کہ یہ بیمار فلاں وقت میں اپنی بیماری کا علاج کرے گا اور یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ اس علاج و معالجہ سے اسے فائدہ ہوگا یا نہیں، اگر فائدہ ہونا لکھا ہے تو فائدہ ہو جائے گا اور فائدہ ہونا نہیں لکھا ہے تو نہیں ہوگا، اس لیے اگر کسی بیمار نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور اسے فائدہ نہیں ہوا تو اسے سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں شفا نہیں لکھی تھی ! لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری میں علاج کرنا، یا اپنی حفاظت کے لیے خارجی اسباب کا سہارا لینا نوشتہ تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کا مسئلہ یہ ہے کہ تعویذ گناہ ہے اگر قرآن کی آیتوں اور احادیث کی دعاؤں کے مطابق ہوں یا جھاڑنا، پھونکنا اور دم کرنا اگر اسماء و صفات الہٰی اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو۔ نیز ان کو موثر حقیقی سمجھنے کا عقیدہ بھی نہ ہو یعنی یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ ان چیزوں سے یقینا فائدہ ہوگا خواہ مرضی الہٰی ہو یا نہ ہو بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ شفا و صحت کا عطا کرنے والا تو اللہ ہے یہ صرف اسباب و تبرک کے درجہ میں ہیں تو ایسی شکل میں یہ چیزیں جائز ہوں گی، اگر اس کے برخلاف ہو کہ جھاڑنا پھونکنا اور تعویذ گنڈے غیر شرعی ہوں یعنی اس میں غیر اللہ کی مدد لی جاتی ہو تو یہ حرام ہوگا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِی الْقَدْرِ فَغَضِبَ حَتّٰی اِحْمَرَّ وَجْھُہ، حَتّٰی کَاَنَّمَا فُقِئَ فِیْ وَجْنَتَیْہِ حَبُّ الرُّمَّانِ فَقَالَ اَبِھٰذَا مُرِتْمُْ اَ ْم بِھٰذَا اُرْسِلْتُ إِلَیْکُمْ اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَیْنَ تَنَازَعُوْا فِیْ ھٰذَا الْاَمْرِ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ اَن لَّا تَنَازَعُوْا فِیْہِ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ۔-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) ہم قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے (ہمیں اس مسئلہ میں الجھا ہوا دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انار کے دانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک پر نچوڑ دیئے گئے ہیں ( اسی حالت میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں اسے لیے تمہارے پاس (رسول بنا کر بھیجا) گیا ہوں؟ جان لو! تم سے پہلے کے لوگ اس لئے ہلاکت کی وادی میں پھینک دئیے گئے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں الجھنا اپنا مشغلہ بنا لیا تھا لہٰذا میں تمہیں بات کی قسم دیتا ہوں (اور پھر دوبار) قسم دیتا ہوں کہ تم اس مسئلہ پر بحث نہ کیا کرو (جامع ترمذی ) اور ابن ماجہ نے اسی طرح کی روایت عمر و بن شعیب سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے" ۔ تشریح صحابہ آپس میں تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے بعض صحابہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر ثواب و عذاب کا ترتب کیوں ہوتا ہے؟ جیسا کہ معتزلہ کا مذہب ہے اور کچھ حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ اس میں اللہ کی کیا مصلحت و حکمت ہے کہ بعض انسانوں کو تو جنت کے لیے پیدا کیا اور بعض انسانوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے؟ کچھ صحابہ نے اس کا جواب دیا کہ یہ اس لیے ہے کہ انسانوں کو کچھ اختیارات بھی اعمال کے کرنے اور نہ کرے کا دے دیا ہے ، کچھ نے کہا یہ اختیار کس نے دیا؟ بہر حال اس قسم کی گفتگو ہو رہی تھی اور اپنی عقل و دانش کے بل بوتہ پر اللہ کے اس رازو مصلحت کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو اس بحث مباحثہ میں مشغول پایا تو غصہ و غضب سے چہرہ مقدس سرخ ہوگیا اس لیے صحابہ کو بتلا دیا گیا کہ یہ تقدیر کا مسئلہ اللہ کا ایک راز و بھید ہے جو کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس میں اپنی عقل لڑانا اور غور و تحقیق گمراہی کی راہ اختیار کرنا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس لیے دنیا میں نہیں بھیجا گیا ہوں کہ تقدیر کے بارہ میں بتاؤں اور تم اس میں بحث و مباحثہ کرو، میری بعثت کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ و تعالیٰ کے احکام تم لوگوں تک پہنچا دوں اور اطاعت فرمانبرداری کی راہ پر تمہیں لگاؤں۔ دین و شریعت کے فرائض و اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں، لہٰذا ایک سچے و مخلص ہونے کے ناطے پر صرف اتنا ہی فرض ہے کہ تم ان احکام فرائض پر عمل کرو اور جن اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں اس کی بجا آوری میں لگے رہو، تم اس تقدیر کے مسئلہ میں مت پڑو پس اتنا ہی اعتقاد تمہارے لیے کافی ہے کہ یہ اللہ کا ایک راز ہے جس کی حقیقت و مصلحت وہی جانتا ہے ، اس کو اسی کی مرضی پر چھوڑ دو۔ آخر حدیث میں صاحب مشکوۃ نے ابن ماجہ کی اسی طرح کی روایت کردہ حدیث کی سند کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث شعیب نے اپنے دادا سے نقل کی ہے جو عبداللہ بن عمرو بن العاص ہیں اور شعیب سے ان کے صاحبزادے عمرو روایت کرتے ہیں اس طرح" عن ابیہ" کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوگی اور " عن جدہ" کی ضمیر شعیب کی طرف راجع ہوگی اس لیے کہ عمر اپنے دادا سے روایت نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے دادا محمد بن عبداللہ سے وہ روایت منقول نہیں ہے، یہ سلسلہ نسب اس طرح ہے عمر بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص۔ اس کی فائدہ اس لیے یہاں ضروری ہے کہ دوسری احادیث میں اس طرح کی عبارات میں" عن جدہ" کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوتی ہے لیکن یہاں سے اس کے برخلاف ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ اﷲَ خَلَقَ اٰدَمَ مِنْ قَبْضَۃِ قَبَضَھَا مِنْ جَمِیْعِ الْاَرْضِ فَجَآءَ بَنُوْۤا اٰدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْاَرْضِ مِنْھُمُ الْاَحْمَرُ وَلْاَبْیَضُ وِالْاَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَ السَّھْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل والجامع ترمذی وابودؤد)-
" اور حضرت ابوموسی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ایک مٹھی (مٹی) سے کی جو ہر جگہ کی زمین سے لی گئی تھی لہٰذا آدم کی اولاد (انہیں) زمین کے موافق پیدا ہوئی چنانچہ (انسانوں میں) بعض سرخ، بعض سفید، بعض کالے، بعض درمیانہ رنگ کے، بعض نرم مزاج، بعض تند مزاج بعض پاک اور بعض ناپاک ہیں۔" (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) تشریح حضرت آدم کی تخلیق کے وقت ایک فرشتہ حضرت عزرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک مٹھی بھر کے مٹی لے آئیں چنانچہ وہ تمام روئے زمین سے ہر خطہ و ہر جگہ کی تھوڑی مٹی اپنی مٹھی میں بھر لائے اسی سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی اسی لیے آدم کی اولاد میں مختلف رنگ و نسل اور مختلف طبائع کے انسان پیدا ہوتے ہیں کوئی کالا ہوتا ہے تو کوئی گورا اور کسی کا رنگ گندمی ہوتا ہے اسی طرح کچھ انسان اپنی طبیعت و مزاج کے اعتبار سے نرم خو، خوش اخلاق اور میٹھی زبان کے ہوتے ہیں کچھ لوگوں کی طبیعت سخت و تیز اور غیر معتدل ہوتی ہے، بعض انسان فطرتاً پاک و صاف ہوتے ہیں اور بعض گندگی و نجاست سے ملوث رہتے ہیں اور یہ فرق و اختلاف اسی بنیادی مادہ کی وجہ سے ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی تھی۔
-
وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِوقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ اﷲَ خَلَقَ خَلْقَہ، فِی ظُلْمَۃِ فَاَلْقٰی عَلَیْھِمْ مِنْ نُّوْرِہٖ فَمَنْ اَصَابَہ، مِنْ ذٰلِکَ النُّوْرِ اِھْتَدَی وَمَنْ اَخْطَأَہ، ضَلَّ فَلِذٰلِکَ اَقُوْلُ جَفَّ الْقَلَمُ عَلٰی عِلْمِ اﷲِ۔(رواہ مسند احمد بن حنبل والجامع ترمذی)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق (جن وانس) کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا پر تو ڈالا، لہٰذا جس کو اس نور کی روشنی میسر آگئی وہ راہ راست پر لگ گیا اور جو اس کی مقدس شعاعوں سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ تقدیر الہٰی پر قلم خشک ہو چکا ہے (کہ اب تقدیر میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ " (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی ) تشریح اندھیرے سے مراد نفس امارہ کی ظلمت ہے کہ انسان کی جبلت میں خواہشات نفسانی اور غفلت کا مادہ رکھا تھا لہٰذا جس کا قلب و دماغ ایمان و احسان کی روشنی سے منور ہو گیا اور اس نے طاعت الہٰی سے اللہ کی ذات کا عرفان حاصل کر لیا تو وہ نفس امارہ کے مکر و فریب اور اس کی ظلمت سے نکل کر اللہ پرستی و نیکو کاری کے لالہ زار میں آگیا اور جو اپنے نفس کے مکر و فریب میں پھنس کر طاعت الہٰی کے نور سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا۔
-
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ اَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَانَبِیَّ اﷲِ اٰمَنَّابِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ اِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ اﷲِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآئُ۔ (رواہ الجامع ترمذی و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر بیشتر بطور دعا کے یہ فرمایا کرتے تھے۔ اے قلوب کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ! میں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے لائے ہوئے دین و شریعت پر بھی ایمان لائے تو کیا اب بھی ہمارے بارہ میں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ڈرتے ہیں (کہ کہیں ہم گمراہ نہ ہو جائیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک قلوب اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ( یعنی اس کے تصرف و اختیار میں ہیں اور جس وہ طرح چاہتا ہے ان کو گردش میں لاتا رہتا ہے)۔" (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) فائدہ : حضرت انس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بالک معصوم اور محفوظ ہیں۔ نعوذ باللہ کسی گمرائی کا شائبانہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر نہیں آسکتا ظاہر ہے کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے ہی کرتے ہوں گے کہ کہیں ہم دنیا کے چمک دمک میں پھنس کر اپنے دین و ایمان سے گمراہ نہ ہو جائیں تو کیا ایسی شکل میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی صداقت کا اعتقاد رکھتے ہیں، نیز ہمارے قلوب ایمان و ایقان کی حقیقی کیفیت سے سر شار ہیں ہمارے گمراہ ہونے کا کیا خدشہ ہو سکتا ہے اس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ قلوب کے رخ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیرتا رہتا ہے، نہ معلوم کس کے قلب کا رخ گمراہی کی طرف کب ہو جائے اس لیے دعا مانگی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دل کو ہمیشہ سلامتی کی راہ پر لگائے رہے اور گمراہی کی طرف نہ مڑنے دے۔
-
وَعَنْ اَبِی مُوْسٰی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْقَلْبِ کَرِیْشَۃِ بِاَرْضِ فُلاَۃِ یُقَلِّبُھَا الرِّیَاحُ ظَھْرًا لِبَطْنِ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابوموسی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، دل کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پرَ کسی میدان میں پڑا ہو اور ہوائیں اس کی پیٹھ سے پیٹ اور پیٹ سے پیٹھ کیطرف پھرتی رہتی ہیں۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح اسی طرح دلوں کا حال ہے کہ کبھی وہ برائی سے بھلائی کی طرف رخ کر لیتے ہیں اور کبھی بھلائی سے برائی کے راستہ پر جا لگتے ہیں۔
-
وَعَنْ عَلِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی یُؤْمِنَ بِاَرْبَعِ یَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ وَیُؤْمِنْ بِالْمَوْتِ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَیُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ۔ (رواہ التہ مذی وابن ماجۃ)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے۔ (١) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (٢) اور میں بلاشبہ اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور حق (دین اسلام) لے کر اس دنیا میں آیا ہوں۔ (٣) موت اور مرنے کے بعد (میدان حشر میں) اٹھنے پر ایمان لانا۔ (٤) اور تقدیر پر ایمان لانا۔ " (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح موت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی جانے کہ اس دنیا کی تمام زندگی عارضی اور فانی ہے جو اپنے وقت پر ختم ہو جائے گی۔ اور اس دنیا میں جو کچھ ہے سب ایک دن فنا کے گھاٹ اتر جائے گا یا اس سے یہ مراد ہے کہ اس بات پر صدق دل سے یقین و اعتقاد رکھا جائے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ خداوند کے حکم سے آتی ہے کوئی بیماری، حادثہ یا تکلیف موت کا حقیقی سبب نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں بادی النظر میں ظاہری اسباب ہوتے ہیں کسی انسان کی زندگی اور موت کلیۃً اللہ کے ہاتھ میں ہے جب تک اس کا حکم ہوتا ہے زندگی رہتی ہے اور جب وہ چاہتا ہے موت بھیج کر زندگی ختم کر دیتا ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صِنْفَانِ مِنْ اُمَّتِیْ لَیْسَ لَھُمَا فِی الْاِسْلَامِ نَصِیْبٌ اَلْمُرْجِئَۃُ وَالْقَدَرِیَّۃُ رَوَاہُ الْتِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میری امت میں دو فرقے ایسے ہیں جن کو اسلام کا کچھ بھی حصہ نصیب نہیں ہے اور وہ" مرجیہ و قدریہ" ہیں، جامع ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔" تشریح اسلام میں ایک گروہ" مرجیہ" کے نام سے مشہور ہے، یہ فرقہ اعمال کے سلسلہ میں اسباب کا قائل نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ کسی عمل اور فعل کی نسبت بندہ کی جانب ایسی ہی ہے جیسے کسی فعل کی نسبت جمادات کی طرف کر دی جائے یعنی جس طرح ایک لکڑی پتھر، روڑہ ہے کہ اس کو جس طرف پھینک دیجئے یا جدھر کو لڑھکا دیجئے وہ لڑھکتا چلا جائے گا اس کو اپنے پھینکے جانے اور لڑھکائے جانے میں کوئی دخل و اختیار نہیں ہے، بلکہ وہ پھینکنے والے اور لڑھکانے والے کے قبضہ و قدرت میں ہے، اسی طرح ایک بندہ ہے کہ اس کو اپنے کسی عمل اور فعل میں کوئی دخل اور اختیار نہیں ہے بلکہ وہ محض اور بے اختیار ہے، قدرت اس سے جیسے عمل صادر کراتی ہے وہ کرتا ہے وہ نہ کسی عمل کے از خود کرنے پر قادر ہے اور نہ کسی عمل سے باز رہنا اس کے اختیار میں ہے۔ اس کے مد مقابل ایک دوسرا فرقہ " قدریہ" ہے جو سرے سے تقدیر ہی کا منکر ہے، اس جماعت کا مسلک یہ ہے کہ بندہ کے اعمال میں تقدیر الہٰی کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ بندہ خود اپنے اعمال کا خالق اور اپنے افعال میں مختار و قادر ہے۔ وہ جو کچھ عمل کرتا ہے اپنی قدرت و اختیار کی بنا پر کرتا ہے۔ یہی مسلک " معتزلہ اور " روافض " کا بھی ہے یہ دونوں فرقے اسلامی نقطہ نظر سے اپنے اپنے مسلک میں راہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں اس لیے کہ اگر مرجیہ کے اعتقادات کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب بندہ سے اختیار و قدرت اور ارادہ و مشیت کی نفی کر کے اسے اینٹ پتھر اور لکڑی اور غیرذی ارادہ مخلوق کی طرح مان لیا گیا اور بندہ کے ہر فعل میں اختیار و قدرت کلیۃ اللہ کا مانا گیا یا صاف لفظوں میں یہ کہا جائے کہ گویا صفات خالق کو سامنے رکھ کر صفات عبد سے انکار کر دیا گیا تو قدرتی طور پر یہ بات ماننی پڑے گی کہ بندہ سے سرزد شدہ افعال خود بندہ کے نہیں کہلائے جائیں گے بلکہ ان کو اللہ کے افعال کہا جائے گا خواہ وہ فعل کسی قسم کا ہو اور کسی بھی عضو سے صادر ہوا ہو لہٰذا جب بندہ دیکھے گا تو کہا جائے گا کہ وہ نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ خدا دیکھ رہا ہے جب بندہ کھائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ نہیں کھا رہا ہے، بندہ جب سنے گا تو تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ نہیں سن رہا ہے بلکہ اللہ سن رہا ہے، بندہ جب سوئے گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ نہیں سو رہا ہے بلکہ اللہ سو رہا ہے تو گویا بندہ سے کوئی فعل بھی جب سرزد ہوگا تو یہی کہنا ہوگا کہ وہ اس بندہ سے نہیں بلکہ درحقیقت اللہ سے سرزد ہو رہا ہے۔ اور چونکہ یہ سب وجود کے آثار ہیں جن سے غافل کے موجود ہونے کا پتہ چلتا ہے تو خلاصہ یہ نکلے گا کہ بندہ اگرچہ موجود ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ وہ خالق اور افعال کے درمیان ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان افعال کے اظہار کے لیے واسطہ بن رہا ہے بلکہ موجود تو صرف اللہ کی ذات ہے ورنہ تمام کا تمام کالعدم ہے۔ لہٰذا یہ ساری حجت وحدۃ الوجود اور کثرت موجودات کی نفی پر آکر ختم ہو جائے گی جس کو بعض جاہل صوفیاء کی اصطلاح میں " ہمہ اوست" فرماتے ہیں جسکا حاصل کثرت موجودات اور اعیان ثابت کا برملا انکار اور ساری کثرتوں کو ایک فرضی اور وقتی کارخانہ تصور کر لینا نکل آتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ گویا اس کائنات میں ہر چیز موجود ہو کر بھی کالعدم اور معدوم ہی ہے، موجود صرف ذات واحد ہی ہے اور کوئی نہیں اس کا نتیجہ اصطلاحی الفاظ میں یہ ہے کہ دائرہ وجود کی صرف ایک ہی نوع رہ جائے جسے واجب الوجود فرماتے ہیں اور ممکن الوجود کو کوئی نشان و پتہ ہی نہ رہے بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے معدوم محض ہو کر رہ جائے۔ اب ظاہر ہے کہ ایجاد خداوندی یا فیضان وجود جسے تخلیق فرماتے ہیں ممکن ہی پر ہو سکتا ہے اس لیے کہ اسی میں قبول وجود کی صلاحیت ہے لیکن چونکہ وہ معنی معدوم محض ہوگیا ہے جس پر آثار وجود اور آثار زندگی ظاہر نہیں ہو سکتے، تو اب ایجاد کس پر واقع ہو اور تخلیق کس چیز کی عمل میں آئے؟ نیز ایجاد کے بعد ابقاء خداوندی یعنی تدبیر و تصرف اور ربوبیت وغیرہ ایسی وہ تمام صفات حق جن کا تعلق مخلوق سے تھا کس پر واقع ہوں گی؟ اور کہاں اپنی تجلیات دکھلائیں گی؟ جب کہ ذات خداوندی کے سوا کسی غیر کا پتہ نہیں کہ وہ ان صفات کا مورد و مظہر بن سکے، لہٰذا اس شکل میں مانند پڑے گا کہ ایجاد و ابقاء کی تمام صفات معاذ اللہ معطل و بیکار ثابت ہو گئیں ہیں اور تعطل اگر عدم نہیں تو کالعدم ضرور ہے، یا بالفاظ دیگر افعال باری کا عدم ہے جو انتہائی نقص ہے۔ اور جب کہ یہ تمام فعلی کمالات صفات وجود کے آثار تھے جو ذات حق سے منتفی ہوگئے تو بلا شبہ اللہ کا وجود ان کی نفی سے ناقص ٹھہرا اور اللہ کی بے عیب ذات کتنے ہی کمالات مثلا ظہور صفات اور افعال سے کوری رہ گئی جن پر معبودیت کا کارخانہ قائم تھا اور ظاہر ہے کہ نقص صفات اور نقص افعال کے ساتھ خدائی جمع نہیں ہو سکتی، تو ایسی ناقص ذات کو اللہ نہیں کہہ سکتے، نتیجہ یہ نکلا کہ نہ خالق رہا اور نہ مخلوق رہی۔ غور کیجئے کہ مرجیہ کے نظریات نے بندہ کو مجبور محض اور بے اختیار تصور کیا اور اس کے تمام افعال و اعمال کی ذمہ داری تقدیر الہٰی کے سر ڈال دی ، نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بندہ کے اختیار و قدرت کا انکار کیا تھا تو انجام کار اللہ کی صفات افعال ایجاد ، ترزیق اور قیومیت و تدبیر وغیرہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب ذرا " قدریہ" کے مسلک کی تنقیح بھی کر لیجئے اس جماعت نے مرجیہ کارد عمل کرتے ہوئے اس سلسلہ میں محض صفات عہد کو سامنے رکھا، اور صفات معبود سے صرف نظر کر لیا، یعنی بندہ کے اختیارت و قدرت ، ارادہ مشیت اور فعل اور عمل کو اس درجہ میں مستقل اور آزاد بتلایا کہ اس میں اللہ کے ارادہ قدرت اور اختیار و فعل کو دخل ہی نہیں حتی کہ بعض غالی قدریہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ کو بندہ کے افعال کا علم بھی اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اسے کر لیتا ہے ، گویا بندہ کے استعمال اختیار کی حد تک نہ اللہ میں ارادہ ہے، نہ قدرت کو اختیار ہے نہ مشیت ، حتی کہ نہ سابق علم نہ خبر۔ لہٰذا مرجیہ نے تو تقدیر سے مثلاً صفات خالق ارادہ ، علم، قدرت، اختیار وغیرہ کو اللہ سے وابستہ کر کے بندے کو ان سے کورا مان لیا اور قدریہ نے ان صفات کو بندہ سے مستقلاً وابستہ کر کے اللہ کو ان سے خالی مان لیا۔ غور کیجئے! اس لیے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ بندہ منٹ بھر میں سینکڑوں اچھے برے افعال اور حرکات و سکنات مختلف اندازوں سے کر گزرتا ہے جس کے عمر بھر کے افعال و حرکات کی گنتی ناممکن ہے، پھر انسانی تصرفات کی حدود اسی عالم تک نہیں ہیں، اس لیے کہ بعض ایسے متعدی افعال بھی ہیں جن میں انسان دوسری اشیاء کائنات کو مفعول بناتا ہے ظاہر ہے ان اشیاء عالم میں جو اس کے تسخیر و تصرف میں آتی ہیں، زمین سے لے کر آسمان تک ساری ہی مخلوقات داخل ہیں۔ لہٰذا سارے انسانوں کے یہ تمام افعال جو سارے ہی عالموں میں پھیلے ہوئے ہیں اور بقول قدریہ یہ انسانوں کی ایسی مخلوقات ہیں جن کی ایجاد و تخلیق میں اللہ کا دخل تو کیا ہوتا ان پر اس کا نہ زور چل سکتا ہے اور نہ ہی اسے ان کی پیدائش سے پہلے ان کا علم ہی ہوتا ہے گویا انسان جو خود اپنی تخلیق میں بے بس ہے اسے تو ان کی تخلیق کا ارادہ کرتے وقت علم ہو جاتا ہے کہ اسے کیا اور کب پیدا کرنا ہے، مگر نعوذ باللہ اللہ اتنا بے خبر اور لا علم کہ اسے یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ کون سی چیز کب پیدا ہوئی اور کون سا فعل کب صادر ہوا۔ اس صورت میں یقینا انسان کی تخلیق کا شمار اللہ کی مخلوقات کے شمار سے بڑھ جائے گا، اس لیے کہ اللہ تو انسان کا خالق ہے اور انسان تمام افعال و اشیاء کا خالق ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی نسبت سے ان کا افعال بلا شبہ کروڑوں گنا زیادہ ہیں، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ انسانی مخلوقات اللہ کی مخلوقات سے زیادہ نہیں نہ ہو جائے اور پھر مخلوقات بھی ایسی کہ خدائی سرحد سے بالکل خارج جس پر اس کو کوئی بس نہ ہو بلکہ علم قدیم بھی نہ ہو پس اس معاملہ میں کہنا پڑے گا کہ اللہ تو بے بس ہو گیا اور انسان مختار کل ہو گیا، بندہ تو خدائی حدود میں آگیا اور اللہ بندوں کی صف میں جابیٹھا، یعنی بندہ کا زور تو اللہ کی خدائی پر چل گیا کہ اس نے افعال و اشیاء کی تخلیقات کر ڈالیں اور اللہ کا بس اپنی خدائی پر بھی نہ رہا کہ اس ان مخلوقات کے وجود میں آنے کا علم بھی نہ ہو سکا اور اس مقام پر آکر اس کا ارادہ، قدرت، مشیت اور اختیار وغیرہ سب بے کار اور معطل ہو کر رہ گئے۔ (ماخوذاز مسئلہ تقدیر مصنفہ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب مدظلہ) یہ ہے ان دونوں فرقوں کے مسلک کی حقیقت اور اس کا انجام ظاہر ہے کہ یہ دونوں نظریے اپنی اپنی جگہ اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف یہ کہ حد اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں بلکہ گمراہی کی طرف بڑھے ہوئے بھی ہیں جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ان دونوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک بالکل صاف اور صحیح ہے علماء حق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال کا خالق رب قدوس ہے اور کا سب بندہ ہے یعنی دنیا میں جتنی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں یا ہونے والی ہیں وہ سب اللہ کے حکم اور اس کے ارادہ و علم سے ہوتی ہیں، اسی طرح بندوں سے جو کچھ افعال سرزد ہوتے ہیں خواہ وہ افعال نیک ہوں یا افعال بد سب نوشتہ تقدیر کے مطابق دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ اگر نیکی و بھلائی کے راستے کو اختیار کرو گے تو سعادت و نیک بختی سے نوازے جاؤ گے اور اگر کوئی برائی و بدی کے راستے کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کئے جاؤ گے لہٰذا بندہ اسباب کسب کے اعتبار سے اپنے ہر عمل و فعل میں مختار ہے۔ گویا اہل سنت و الجماعت بندہ کو بیک وقت مختار بھی فرماتے ہیں اور مجبور بھی مگر درمیانی انداز سے کہ اسے نہ مختار مطلق جانتے ہیں نہ مجبور محض یعنی ایک طرف سے اسے مختار مان کر زنجیر تقدیر سے پابستہ بھی فرماتے ہیں اور دوسری طرف اسے مجبور کہہ کر اینٹ و پتھر کی طرح بے حس بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بہر حال اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فرقے یعنی مرجیہ اور قدریہ کافر ہیں لیکن حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تحقیق کے مطابق علماء کا قول مختار یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے کافر نہیں ہیں البتہ فاسق ہیں کیوں کہ یہ فرقے بھی قرآن و حدیث ہی سے تمسک کرتے ہیں اور اپنے نظریات میں تاویل و توضیح کر کے کفر کے دائرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے بارہ میں کہا جائے گا کہ اس سے ان فرقوں کی زجر و ملامت مقصود ہے اور ان کے غلط عقائد کی گمراہی کو واضح کرنا ہے جس میں اس شدت و سختی کے ساتھ ان کے مذہب کا رد کیا جارہا ہے۔ بعض حضرات اس حدیث کی صحت میں بھی کلام کیا ہے۔ حضرت شاہ اسحق کی تحقیق اس کے برخلاف ہے وہ فرماتے ہیں کہ علماء محققین ان فرقوں پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور ان کو خارج الاسلام مانتے ہیں لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ان کا کفر آیا تاویلی ہے یا ارتدادی۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ یَکُوْنُ فِیْۤ اُمَّتِیْ خَسْفٌ وَّمَسْخٌ وَذٰلِکَ فِی الْمُکَذِّبِیْنَ بِالْقَدْرِ۔ رَوَاُہ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَی التِّرْمِذِیُّ نَحْوَہ،۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کہ میری امت میں (اللہ کے درد ناک عذاب) زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہوجانا بھی ہوگا اور یہ عذاب ان لوگوں پر ہوگا جو تقدیر کے منکر ہیں (ابوداؤد) امام جامع ترمذی نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔' تشریح زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہو جانا اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سخت عذاب ہیں جو اس امت سے پہلے دوسری امتوں پر ان کی سرکشی اور حد سے زیادہ نافرمانی کی بنا پر ہو چکے ہیں ، اس امت میں بھی آخر زمانہ میں اللہ سے تمرود سرکشی اور بغاوت و نافرمانی حد سے زیادہ بڑھ جائے گی تو ان فرقوں پر یہ عذاب ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسخ و خسف جیسے درد ناک عذاب میری امت پر ہوئے تو ان دونوں فرقوں پر ہوں گے۔
-
وَعَنْہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْقَدَرِیَّۃُ مَجُوْسُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِنْ مَرِضُوْافَلَا تَعُوْدُوْھُمْ وَاِنْ مَاتُوْا فَلَا تَشْھَدُوْھُمْ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل وابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، فرقہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں لہٰذا اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے لیے نہ جاؤ اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ میں شریک مت ہونا۔" (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے قدریہ کی صریح گمراہی اور ان کی ضلالت واضح ہے کہ ان کو اس امت کا مجوس قرار دیا گیا مجوس ایک آتش پرست قوم ہے جو دو اللہ مانتی ہے ایک وہ اللہ جو نیکی و بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے، اس کو یزداں کہتے یں۔ دوسرا وہ اللہ جو برائی و بدی کا پیدا کرنے والا ہے، اس کو اہرمن یعنی شیطان فرماتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح مجوسی تعداد الٰہ کے قائل ہیں اسی طرح قدریہ بھی بے انتہا خالقوں کے قائل ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک ہر بندہ اپنے افعال کا خالق ہے اسی طرح جتنے بندے ہوں گے اتنے بھی خالق ہی ہوں گے، نیز جس طرح قدریہ خالق خیر الگ اور خالق شر الگ مانتے ہیں اسی طرح قدریہ بھی فرماتے ہیں کہ خیر و بھلائی کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اور شر و برائی کا پیدا کرنے والا شیطان اور انسانی نفس ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس فرقہ سے کلیۃ اجتناب کرنا ضروری ہے اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت کے لیے نہیں جانا چاہیے اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا چاہیے گویا غمی خوشی کسی موقع پر بھی ان کے ساتھ نہ رہنا چاہیے اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا معاشرتی میل جول رکھنا جائز ہے۔ چنانچہ وہ حضرات جو اس جماعت کو کافروں کے زمرہ میں داخل کرتے ہیں اس حدیث کو اپنے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کو ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ اور جو حضرات ان کو کافر نہیں بلکہ فاسق فرماتے ہیں وہ اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصد اس جماعت کی گمراہی و ضلالت کو بیان کرنا اور ان کی زجر و ملامت میں شدت کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ محققین کا قول یہی ہے کہ نہ تو ان کی عیادت میں جائے اور نہ ان کے جنازہ میں شریک ہوا اور جہاں تک ہو سکے ان سے قطع تعلق رکھے۔
-
وَعَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُجَالِسُوْاَھْلَ الْقَدْرِوَ لَا تُفَاتِحُوْھُمْ۔ (رواہ ابودؤد)-
" حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ قدریہ کی ہم نشینی اختیار نہ کرو اور نہ ان کو اپنا حکم (ثالث) بناؤ۔" (ابوداؤد) تشریح قدریہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان سے مجالست کرنا اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کی مجلسوں میں شریک ہونے سے یہ ظاہر ہوگا کہ ان سے محبت و موانست ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ کسی گمراہ جماعت سے تعلق قائم کریں اور ان سے انس و محبت کا برتاؤ کریں۔ اس لیے کہ جب ان کے ساتھ رہنا سہنا ہوگا اور ان کی ہم نشینی اختیار کی جائے گی تو ان کے غلط نظریات اور گمراہ اعتقادات کا اثر ان پاس بیٹھنے والوں پر بھی ہوگا اور ان کی گمراہی اہل مجلس کی اعتقاد و اعمال پر بھی اثر انداز ہوگی۔ اور ہو سکتا ہے کوئی شیطانی مکر و فریب میں آکر ان کے اعتقادات کو تسلیم کرے، اس لیے بنیادی طور پر ان کی مجالست و موانست سے بھی منع فرما دیا گیا ہے۔ اسی طرح حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کسی تنازعہ میں اہل قدر کو حاکم نہ بنائیں اور نہ ان کو اپنا ثالث مقرر کریں لاتفاتحوھم کے معنی بعض حضرات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ پہلے سلام کرو اور نہ از خود ان سے بات چیت شروع کرو۔ و اللہ اعلم۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُمْ وَلَعَنَھُمْ اﷲُوَکُلُّ نَبِّیِ یُجَابُ اَلزَّائِدُ فِی کِتَابِ اﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ اﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّ مَنْ اَذَلَّہُ اﷲُ وَیُذِلَّ مَنْ اَعَزَّہُ اﷲُ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحُرُم اﷲ وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِیْ مَاحَرَّمَ اﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ رَوَاہُ الْبَیْھَقِیُّ فِی الْمَدْخَلِ وَرَزِیْنٌ فِی کِتَابِہٖ۔ (بیہقی، رزین)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ چھ آدمی ایسے ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ نے بھی ان کو ملعون قرار دیا ہے اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (پہلا) کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا (دوسرا) تقدیر الہٰی کو جھٹلانے والا۔ (تیسرا) وہ آدمی جو زبردستی غلبہ پانے کی بنا پر ایسے آدمی کو معزز بنائے جس کو اللہ نے ذلیل کر رکھا ہو اور اس آدمی کو ذلیل کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت و عظمت کی دولت سے نواز رکھا ہو۔ (چوتھا) وہ آدمی جو (حدود اللہ سے تجاوز کر کے اس چیز کو حلال جانے جسے اللہ نے حرام کیا ہو۔ (پانچواں) وہ جو میری اوالاد سے وہ چیز (قتل) حلال جانے جو اللہ نے حرام کی ہے۔ اور (چھٹا) وہ آدمی جو میری سنت کو چھوڑ دے۔" (بیہقی، رزین) تشریح حدیث میں جن اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے ان غلط عقائد اور گمراہ کن اعمال کی بنا پر شریعت کی نظر میں اتنے مجرم ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور نہ صرف یہ کہ دربار رسالت سے ان پر پھٹکار برسائی گئی ہے بلکہ وہ بارگاہ الوہیت سے بھی راندہ درگاہ کر دیئے گئے۔ چنانچہ کسی آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں پر لعنت کیوں بھیجتے ہیں؟ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ چونکہ خدواند قدوس نے ان کو اپنے اعمال کی بنا پر ملعون قرار دیا ہے اس لیے یہ اسی کے مستحق ہیں کہ رسول بھی ان کو ملعون قرار دے اور ظاہر ہے نبی کی لسان مقدس سے نکلی ہوئی ہر دعا اور ہر بدعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے اس لیے جس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لعنت بھیجیں اس کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور دین میں تباہ ہو جائے گا اسی طرف کل نبی یجاب کہہ کر اشارہ فرمایا گیا ہے۔ ویسے تو اس حدیث میں جس ترکیب کے اعتبار سے یہ جملہ معترضہ واقع ہو رہا ہے اور اس کے مقصدلعنت میں شدت ہے ۔ پہلا آدمی جسے ملعون قرار دیا جارہا ہے وہ قرآن میں زیادتی کرنے والا ہے، خواہ وہ قرآن میں الفاط کی زیادتی کرے یا قرآن کی آیتوں کے ایسے معنی بیان کرے جو کتاب اللہ کے مفہوم کے خلاف اور منشاء الہٰی کے برعکس ہوں۔ تیسرا آدمی وہ ہے جو زبردستی غلبہ حاصل کرے اور اپنی ظاہری شان و شوکت کے بل بوتہ پر ان لوگوں کو معزز کرے جو اللہ کی نظروں میں ذلیل ہیں اور ان لوگوں کو ذلیل کرے جو اللہ کے یہاں بڑا مرتبہ رکھتے ہیں اور اس تیسرے آدمی سے مراد ایسے بادشاہ اور ظالم حاکم ہیں جو اپنے اغراض و مقاصد کی بنا پر حکومت و دولت کے نشہ میں اللہ کے ان صالح و نیک بندوں اور مسلمانوں کو ذلیل خوار کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک بڑی عزت و عظمت کے مالک ہوتے ہیں اور ایسے کافروں، جاہلوں اور بدکار لوگوں کو عزیز رکھتے ہیں جو اللہ کی نظر میں سخت ذلیل ہوتے ہیں۔ چوتھا آدمی وہ ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے یعنی ان چیزوں کو حلال سمجھتا ہے جو اللہ کی جانب سے حرام کر دی گئی ہیں مثلاً بیت اللہ مکہ میں جن باتوں کو اللہ نے ممنوع قرار دیا ہے جیسے کسی جانور کا شکار کرنا، درخت وغیرہ کاٹنا، یا بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا، ان کو وہ حلال سمجھتا ہو، ایسے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے بارہ میں جن چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کو حرام کرتا ہو یعنی رسول اللہ صلی اللہ عنہ کی اولاد کی عزت و تعظیم کرنا ضروری ہے لیکن کوئی آدمی نہ کرنے کو جائز سمجھے یا ان کو تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا گیا ہے ان کو تکلیف پہنچانا حلال جانے تو اس پر بھی لعنت فرمائی گئی۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی میری اولاد میں سے ہونے کے باو جو ان افعال کو حلال جان کر کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے اس طرح اس کا مقصد سیدوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ یہ لوگ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں ہونے کے ناطے گناہ و معصیت سے بچتے رہیں، اس لیے کہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں اس قوم کو گناہ و معصیت زیادہ برائی و تباہی کا باعث ہیں کیونکہ ان کا نسبی تعلق براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اسی طرح پانچواں ملعون وہ آدمی قرار دیا گیا ہے جو ان چیزوں کو حرام سمجھتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہو۔ چھٹا ملعون آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو سنت نبوی کو ترک کرتا ہو۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی سستی اور کسل کی بنا پر سنت کو ترک کرتا ہو وہ گناہ گار ہے اور جو آدمی سنت کو نعوذ باللہ ناقابل اعتناء سمجھ کر چھوڑتا ہو تو وہ کافر ہے لیکن اس لعنت میں دونوں شریک ہیں۔ مگر یہ کہا جائے گا کہ جو آدمی ازراہ کسل و سستی سنت چھوڑتا ہے اس پر لعنت کرنا زجر و توبیخ کے لیے ہے اور جو آدمی ناقابل اعتناء سمجھ کر سنت کو ترک کرتا ہے اس پر حقیقۃ لعنت ہوگی ہاں اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے کسی وقت سنت کو ترک کر دے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا لیکن یہ بھی مناسب نہیں ہے۔ حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی فرماتے ہیں کہ یہ وعید سنت موکدہ کے ترک کرنے پر ہے۔
-
وَعَنْ مَطَرِ بْنِ عُکَامِسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَضَی اﷲُ لِعَبْدِ اَنْ یَّمُوْتَ بِاَرْضِ جَعَلَ لَہ، اِلَیْھَا حَاجَۃً۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل والجامع ترمذی)-
" اور حضرت مطر بن عکامس ( مطر ابن عکامس السلمی کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے ان سے صرف یہی ایک حدیث منقول ہے، ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی موت کو کسی زمین پر مقدر کر دیتا ہے تو اس زمین کی طرف اس کی حاجت کو بھی پورا کر دیتا ہے تاکہ وہاں جانے پر مجبور ہو اور وہاں جا کر موت کا شکا ہو۔" (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی )
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ذَرَارِیُ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ قَالَ مِنْ اٰبَائِھِمْ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ بَلَا عَمَلِ قَالَ اﷲُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ قُلْتُ فَذَ رَارِیُ الْمُشْرِکِیْنَ؟ قَالَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ قُلْتُ بِلَا عَمَلِ قَالَ اَﷲُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَا مِلِیْنَ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کے سلسلہ میں) مسلمان بچوں کا کیا حکم ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں یعنی وہ اپنے باپوں کے ساتھ جنت میں ہیں" میں نے عرض کیا یا رسول اللہ بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے، میں نے پھر پوچھا اچھا مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اپنے باپوں کے تابع ہیں۔ میں نے (تعجب سے) پوچھا ، بغیر کسی عمل کے؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے۔" (ابوداؤد) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا منشاء ان مومنین اور مشرک بچوں کے بارہ میں معلوم کرنا تھا جو حالت کمسنی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے اور جن سے کوئی عمل خیر یا عمل بد صادر نہیں ہوا تھا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے بعد حضرت عائشہ کو تعجب ہوا کہ مسلمان بچے بغیر کسی عمل کے بہشت میں کس طرح داخل ہو جائیں گے تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے و اللہ اعلم بما کانواعاملین (یعنی اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے) کہہ کر قضا و قدر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ وہ جو کچھ عمل کرنے والے تھے وہ نوشتہ تقدیر میں محفوظ ہو چکا ہے، گو اس وقت بالفعل ان سے عمل سرزد نہیں ہوئے ہیں لیکن جو کچھ عمل وہ زندگی کی حالت میں کرتے وہ اللہ کے علم میں ہوں گے اس لیے ان کے جنتی ہونے پر تعجب نہ کرو۔ مشرک بچوں کے بارے میں علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے باپوں کے تابع ہیں، آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور وہی جانتا ہے کہ وہاں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوگا اس لیے ان کے بارہ میں کوئی حکم یقین کے ساتھ نہیں لگایا جا سکتا۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْوَائِدَۃُ وَالْمَوْءُ وْدَۃُ فِی النَّارِ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ زندہ بچہ کو گاڑنے والی (عورت) اور وہ جس کو گاڑا گیا دونوں دوزخ میں ہیں۔" (سنن ابوداؤد) تشریح زمانہ جاہلیت میں زندہ بچوں کو دفن کر دینے کا درد ناک طریقہ جاری تھا، خصوصاً لڑکی کو تو پیدا ہوتے ہی منوں مٹی کے نیچے اندوہ ناک طریقہ پر دبا دیا جاتا تھا جب اسلام کی مقدس روشنی نے ظلم و جہل کی تمام تاریکیوں کو دور کیا تو یہ غیر انسانی طریقہ بھی ختم کر دیا گیا، اس کے بارے میں یہ حدیث وعید ہے اور زندہ بچوں کو دفن کر دینے والوں کو دوزخی قرار دے رہی ہے۔ " گاڑنے والی" سے مراد وہ عورت ہے جس نے بچہ کو زمین میں دفن کیا مثلاً دائی یا نو کر انی وغیرہ اور موؤدہ، جس کو گاڑا گیا ، سے مراد وہ عورت ہے جس نے اسے جنا ہے یعنی اس بچہ کی ماں جس کے حکم سے اس کو زمین میں دفن کیا گیا ہو۔ یا اس سے مراد وہی بچی ہے جس کو گاڑ دیا گیا ہے کہ جس طرح اس کے والدین دوزخی ہیں اسی طرح جب وہ بھی کمسنی کی حالت میں اس دنیا سے ختم کر دی گئی تو اپنے باپ کی طرح دوزخی ہوئی جیسا کہ اس سے پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت کمسنی میں جو بچہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے وہ اپنے باپ کے تابع ہوتا ہے۔
-
عَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اﷲُ عَزوَجَلَّ فَرَغَ اِلٰی کُلِّ عَبْدِ مِنْ خَلْقِہٖ مِنْ خَمْسِ مِنْ اَجَلِہٖ وَعَمَلِہٖ وَمَضْجَعِہٖ وَاَثَرِہٖ وَرِزْقِہٖ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابودرداء ( آپ کا نام عویمر ہے لیکن اس میں بہت اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے اصل نام عامر بن مالک ہے اور عویمر لقب ہے لیکن یہ اپنی کنیت ابودرداء سے مشہور ہیں۔ حضرت عثمان کی شہادت سے دو سال قبل دمشق میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر ایک بندے کے متعلق پانچ باتوں سے (تقدیر لکھ کر ) فارغ ہو گیا۔ (١) اس کی موت (کہ کب آئے گی) (٢) اس کے (نیک و بد) اعمال۔ (٣) اس کے رہنے کی جگہ۔ (٤) اس کی واپسی کی جگہ۔ (٥) اس کا رزق۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح ہر انسان کی پیدائش سے بھی بہت پہلے ازل ہی میں اس کے مقدر میں پانچ چیزیں لکھ دی گئی ہیں جن میں اب نہ کمی بیشی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تغیر و تبدل ممکن ہے چنانچہ ہر انسان کی تقدیر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہے اور موت کب آئے گی اب جو وقت اور جو لمحہ موت کا لکھ دیا ہے اس میں ایک سیکنڈ اور ایک پل بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی، اسی طرح انسان کے نیک و بد اعمال بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہی نوشتہ تقدیر ہو چکے ہوتے ہیں، کہ اس سے اعمال کیسے صادر ہوں گے، جتنے نیک اعمال لکھ دئیے گئے ہیں وہ یقینا صادر ہوں گے اور جتنے بد اعمال لکھ دیئے گئے ہیں وہ بھی اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوں گے۔ ہر انسان کے قیام کی جگہ اور اس کے حرکات و سکنات کا مقام بھی پہلے سے متعین ہو چکا ہوتا ہے کہ کس زمین اور کس خطہ میں اس کا وجود و قیام ہوگا اور کس روئے زمین پر اس کی زندگی کے اعمال و افعال صادر ہوں گے، انسان کا رزق بھی اس کی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی حصہ میں آتا ہے جس کے مقدر میں جتنا اور جس قسم کا رزق لکھ دیا گیا ہے وہ ضرور اس تک پہنچے گا اگر تھوڑا ہی رزق لکھا ہے تو کم ہی ملے گا اور زیادہ لکھ دیا گیا ہے تو زیادہ ملے گا اسی طرح کسی کے مقدر میں حلال رزق لکھا گیا ہے تو وہ حلال رزق ہی کھائے گا اور اگر حرام رزق لکھ دیا گیا ہے تو وہ حرام رزق کھائے گا۔ یا رزق سے مراد یہ ہے کہ بندہ کو اس کی زندگی میں جو کچھ منافع و آسانیاں اور راحت و آرام سے پہنچنے والے ہیں سب اس کی تقدیر میں پہلے ہی لکھ دیئے گئے ہیں۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ تَکَلَّمَ فِیْ شَیْیءِ مِنَ الْقَدَرِ یُسْئَلُ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَّمْ یَتَکَلَّمْ فِیْہِ لَمْ یُسْئَلْ عَنْہُ۔ (رواہ ابن ماجہ)-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تقدیر کے مسئلے میں بحث ومباحثہ کرے گا قیامت میں اس سے باز پرس ہوگی اور جو (شخص اس پر ایمان لا کر ) خاموشی اختیار کرے گا وہ اس مواخذہ سے بچ جائے گا۔ تشریح اس حدیث کا مقصد تقدیر کے مسئلہ میں غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے منع کرنا ہے کہ اللہ کے اس راز میں جو بندوں پر ظاہر نہ کرنا ہی مصلحت خداوندی ہے زیادہ بحث و مباحثہ کرنا یا اپنی عقل کی پیروی کرنا آخرت کے لیے کوئی کار آمد نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ میں کسی قسم کا غور و فکر یا تحقیق و تجسس خسران آخرت اور قیامت میں باز پرس کا باعث ہے اس لیے فلاح و سعادت اسی میں ہے کہ تقدیر پر ایمان لایا جائے اور خاموشی اختیار کر کے عمل میں مصروف رہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ الدَّیْلَمِیِّ قَالَ اَتَیْتُ اُبَیَّ بْنَ کَعْبِ فَقُلْتُ لَہ، قَدْوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ شَیْیءِ مِّنَ الْقَدَرِ فَحَدِثْنِیْ لَعَلَّ اﷲَ اَنْ یُّذْھِبَہ، مِنْ قَلْبِیْ فَقَالَ لَوْ اَنَّ اﷲَ عَذَّبَ اَھْلَ سَمٰوَاتِۃٖ وَاَھْلَ اَرْضِہٖ عَذَّبَھُمْ وَھُوَ غَیْرُ ظَالِمِ لَھُمْ وَلَوْ رَجْمَھُمْ کَانَتْ رَحْمَتُۃ، خَیْرً الَّھُمْ مِنْ اَعْمَالِھِمْ وَلَوْ اَنْفَقْتَ مِثْلَ اُحُدِ ذَھَبًا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ مَا قَبِلَہُ اﷲُ مِنْکَ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ وَ تَعْلَمَ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ وَاَنَّ مَأَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَلَوْ مُتَّ عَلٰی غَیْرِ ھٰذَا الَدَخَلْتَ النَّارَ قَالَ ثُمَّ اَتَیْتُ عَبْدَاﷲِ بْنَ مَسْعُوْدِ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ قَالَ ثُمَّ اَتَیْتُ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ اَتَیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتِ فَحَدَّثَنِیْ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم مِثْلَ ذٰلِکَ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل ابوداؤد ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابن دیلمی رحمہ اللہ (تابعی) ( حضرت ابن دیلمی رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں اسم گرامی ضحاک بن فیروز دیلمی ہے آپ کا شمار یمن کے تابعین میں ہوتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابی کعب (صحابی) (حضرت ابی بن کعب انصاری و خزرجی ہیں کنیت ابوالمنذر ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی آپ کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی۔) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے دل میں تقدیر کے بارہ میں کچھ شبہات پیدا ہو رہے ہیں (کہ جب تمام چیزیں نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر یہ ثواب یا عذاب کیسا؟) اس لیے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے تاکہ (اس کی وجہ سے ) شاید اللہ تعالیٰ میرے دل کو اس شبہ (کی گندگی) سے پاک کر دے۔ (یہ سن کر) انہوں نے فرمایا ۔ اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو وہ ان پر کسی طرح کا ظلم کرنے والا نہیں ہے (یعنی وہ اہل زمین اور اہل آسمان کو کتنا ہی عذاب دے اسے ظالم نہیں کہا جائے گا) اور اگر وہ ان کو اپنی رحمت سے نواز دے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے یقینا بہتر ہوگی، اور اگر تم اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو تمہارا یہ عمل خیر اللہ کے نزدیک اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پر کامل اعتقاد و ایمان نہ رکھو اور یہ سمجھ لو کہ جو کچھ تم کو پہنچا ہے وہ (رکنے) اور خطا کرنے والا نہ تھا اور جو چیز رک گئی اور تمہیں نہیں پہنچی تو (سمجھو کہ) وہ تمہارے مقدر میں نہیں تھی ، اور اگر تم اس حالت میں مر جاؤ کہ اس کے خلاف عقیدہ ہو (یعنی تقدیر پر کامل ایمان نہ ہو) تو یقینا دوزخ میں جاؤ گے، ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ ابی بن کعب کا یہ بیان سن کر میں عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے بھی یہی بیان کیا پھر حذیفہ بن یمان کے پاس گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا اور پھر میں زید بن ثابت کے پاس پہنچا انہوں نے اس قسم کی حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔" (مسند احمد بن حنبل ، ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح حدیث کے الفاظ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ الخ کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو کچھ حاصل ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ اسے میں نے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کیا ہے اور اگر کوئی چیز تمہیں نہ ملے تو یہ مت کہو کہ اگر یہ کوشش اور جدوجہد کرتا تو ضرور اسے حاصل کر لیتا اس لیے کہ جو کچھ تم تک پہنچا ہے اس میں تمہاری سعی و کوشش کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق پہنچتا ہے اور جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ چونکہ ہمارے تمہارے مقدر میں نہیں تھی اس لیے وہ تمہاری کوشش سے بھی نہیں ملتی اس لیے یہ جان لینا چاہیے کہ کسی چیز کا حاصل ہونا اور نہ ملنا سب تقدیر الہٰی کے مطابق ہے۔
-
وَعَنْ نَّافِعِ اَنَّ رَجُلًا اَتَی ابْنَ عُمَرَ قَالَ اِنَّ فُلاَنًا یُقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلَامَ فَقَالَ اِنَّہ، بَلَغَنِیْۤ اَنَّہ، قَدْ اَحْدَثَ فَاِنْ کَانَ قَدْ اَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْہ، مِنِّی السَّلَامَ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ یَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ اَوْفِیْ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ خَسْفٌ وَّمَسْخُ اَوْ قَذْفٌ فِیْۤ اَھْلِ الْقَدْرِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ غَرِیْبٌ۔-
" اور حضرت نافع رضی اللہ عنہ ( حضرت نافع کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے ١١٠ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) کی روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ فلاں آدمی نے آپ کو سلام کہا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس آدمی نے دین میں (کوئی) نئی بات نکالی ہے اگر واقعی اس نے دین میں (کوئی) نئی بات پیدا کی ہے۔ تو میری طرف سے (جواب میں) اسے سلام نہ پہنچاؤ، اس لیے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں سے یا یہ فرمایا کہ اس امت میں سے (اللہ کے درد ناک عذاب زمین میں دھنس جانا، اور صورت کا مسخ ہو جانا یا سنگساری اہل قدر) (یعنی تقدیر کا انکار کرنے والوں) پر ہوگا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)، اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح و غریب ہے۔" تشریح آنے والے نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تک جس آدمی کا سلام پہنچایا تھا اس کے بارہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا ہوگا کہ اس نے اپنی طرف سے دین میں نئی باتیں پیدا کی ہیں یعنی وہ تقدیر کا انکار کرتا ہے ۔ لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے سلام کے جواب میں میرا سلام اس تک نہ پہنچانا کیونکہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے سلام کلام نہ کریں اور نہ ان سے تعلقات قائم کریں جو بدعتی ہوں اور خدا، اللہ کے رسول کے قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتے ہوں۔ چنانچہ علماء اسی حدیث کی بنا پر اس بات کا حکم لگاتے ہیں کہ فاسق و فاجر و اہل بدعت کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ سنت بھی نہیں ہے اور چونکہ ان کے ساتھ یہ معاملہ ان کی تنبیہ کے لیے ہے اس لیے ان سے ترک ملاقات بھی جائز ہے
-
وَعَنْ عَلِیِّ قَالَ سَأَلَتْ خَدِیْجَۃُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ وَلَدَیْنِ مَا تَا لَھَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ھُمَا فِی النَّارِ قَالَ فَلَمَّا رَأَی لْکَرَاھَۃَ فِیْ وَجْھِھَا قَالَ لَوْرَاَیْتِ مَکَانَھُمَا لَاَ بْغَضْتِھِمَا قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ فَوَلَدِیْ مِنْکَ قَالَ فِی الْجَنَّۃِ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَوْ لَا دَھُمْ فِی الْجَنَّۃِ وَاِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ وَاَوْلَادَھُمْ فِی النَّارِ ثُمَّ قَرَأَرَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتَھُمْ۔(رواہ مسند احمد بن حنبل)-
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ حضرت خدیجہ ( ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری خدیجہ بنت خویلد قریشیہ اور اسدیہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا امتیازی شرف یہ ہے کہ آپ تمام مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے اسلام لائیں ہیں۔ آپ کا انتقال ہجرت سے تین سال پہلے مکہ مکرمہ رمضان کے مہینہ میں ٦٥ سال کی عمر میں ہوا۔) آپ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دونوں بچوں کے بارہ میں پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں (اسلام سے پہلے) فوت ہو گے تھے (کہ وہ جنتی ہیں یا دوزخی) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دونوں (بچے) دوزخ میں ہیں، حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے چہرہ کا رنگ (اپنے بچوں کے بارہ میں سن کر ) بد لا ہوا (یعنی ان کو رنجیدہ) دیکھا تو فرمایا، اگر تم ان (بچوں) کے ٹھکانے اور ان کا حال دیکھو کہ وہ کس طرح اللہ کی رحمت سے دور ہیں تو تم کو ان (بچوں) سے نفرت ہو جائے ، پھر حضرت خدیجہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! اچھا میری وہ اولاد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیدا ہوئی ہے (قاسم اور عبدا اللہ ) " آپ نے فرمایا " وہ جنت میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مومنین اور ان کی اولاد جنت میں ہیں اور مشرکین کی اولاد دوزخ میں ہیں، اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّ تُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَ قْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ) (52۔ الطور : 21)" ترجمہ " جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اطاعت کی (تو ) ہم ان کی اولاد کو (جنت میں) انہیں کے ساتھ رکھیں گے۔' ' (مسند احمد بن حنبل)
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا خَلَقَ اﷲُ اٰدَمَ مَسَحَ ظَھْرَہ، فَسَقَطَ مِنْ ظَھْرِہٖ کُلُّ نَسَمَۃِ ھُوَ خَالِقُھَا مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَجَعَلَ بَیْنَ عَیْنِیْ کُلِّ اِنْسَانِ مِنْھُمْ وَبِیْصًا مِّنْ نُّوْرِ ثُمَّ عَرَ ضَھُمْ عَلٰۤی اٰدَمَ فَقَالَ اَیْ رَبِّ مَنْ ھٰۤؤُلَآ ءِ فَقَالَ ذُرِّیَّتُکَ فَرَأَی رَجُلًا مِّنْھُمْ فَاَعْجَبَہ، وَبِصْیُ مَابَیْنَ عَیْنَیْہِ قَالَ اَیْ رَبِّ مَنْ ھٰذَا قَالَ دَاؤدُ فَقَالَ اَیْ رَبِّ کَمْ جَعَلْتَ عُمْرَہ، قَالَ سِتِّیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ زِدْہُ مِنْ عُمُرِیْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا اِنْقَضٰی عُمْرُ اٰدَمَ اِلَّا اَرْبَعِیْنَ جَآءَ ،ہ مَلَکُ الْمَوْتِ فَقَالَ اٰدَمُ اَوَلَمْ یَبْقَ مِنْ عُمُرِیْ اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَوَلَمْ تُعْطِھَا ابْنَکَ دَاؤدَ فَجَحَدَ اٰدَمُ فَجَحَدَتْ ذُرِّیَّتُہ، وَنَسِیَ اٰدَمُ فَاَکَلَ مِنَ الشَّجَرَۃِ فَنَسِیَتْ ذُرِّیَّتُہ، وَ خَطَأَ اٰدَمُ وَخَطَأَتْ ذُرِّیَّتُہ،۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا (تو ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا (یعنی فرشتہ کو ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا) چنانچہ اس کی پشت سے وہ تمام جانیں نکل پڑیں جن کو آدم علیہ السلام کی اولاد میں اللہ تعالیٰ قیامت تک پیدا کرنے والا تھا اور ان میں سے ہر ایک آدمی کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور کی چمک رکھی، پھر ان سب کو آدم علیہ السلام کے رو برو کھڑا کیا ( ان سب کو دیکھ کر) آدم علیہ السلام نے پوچھا، پروردگار! یہ کون ہیں؟ پروردگار نے فرمایا، یہ سب تمہاری اولاد ہیں۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا جس کی آنکھوں کے درمیان غیر معمولی چمک ان کو بہت بھلی لگ رہی تھی، پوچھا پروردگار! یہ کون ہے؟ فرمایا " یہ داؤد علیہ السلام ہیں۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا ، میرے پروردگار! تو نے ان کی عمر کتنی مقرر کی ہے؟ فرمایا " ساٹھ برس" حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا، میرے پروردگار! اس کی عمر میں میری عمر سے چالیس سال زیادہ کر دے راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے فرمایا جب حضرت آدم کی عمر میں چالیس سال باقی رہ گئے تو موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا، حضرت آدم نے اس سے کہا، کیا ابھی میری عمر میں چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہا، کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی عمر میں سے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دیے تھے؟ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے اور آدم علیہ السلام (اپنے عہد کو) بھول گئے اور انہوں نے شجر ممنوعہ کو کھا لیا اور ان کی اولاد بھی بھولتی ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے خطاء کی تھی اور ان کی اولاد بھی خطاء کرتی ہے۔" (جامع ترمذی )
-
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ خَلَقَ اﷲُ اٰدَمَ حِیْنَ خَلَقَہ، فَضَرَبَ کَتِفَہُ الْیُمْنٰی فَاَخْرَجَ ذُرِّیَّۃً بَیْضَآءَ کَاَنَّھُمْ الذُّرُّ وَ ضَرَبَ کَتِفَہُ الْیُسْرٰی فَاَخْرَجَ ذُرِّیَّۃًسَوْدَآءَ کَاَنَّھُمْ الْحُمَمُ فَقَالَ لِلَّذِی فِیْ یَمِیْنِہٖ اِلَی الْجَنَّۃِ وَلَآ اُبَالِیْ وَقَالَ لِلَّذِیْ فِیْ کَتِفِہِ الْیُسْرٰی اِلَی النَّارِ وَلَآ اُبَالِیْ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابودرداء راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کے داہنے مونڈھے پر ہاتھ (دست قدرت) مارا یا (مارنے کا حکم دیا) اور اس سے سفید اولاد نکالی جیسے کہ وہ چیونٹیاں تھیں، پھر بائیں مونڈھے پر ہاتھ مارا اور اس سے سیاہ اولاد نکالی جیسے کہ وہ کوئلہ تھے، پھر اللہ نے دائیں طرف والی اولاد کے بارہ میں فرمایا کہ جنتی ہیں اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہے اور ان (آدم ) کے بائیں مونڈھے والی اولاد کے بارہ میں فرمایا کہ یہ دوزخی ہیں اور مجھ کو اس کی بھی پرواہ نہیں ہے۔" (مسند احمد بن حنبل)
-
وَعَنْ اَبِیْ نَضْرَۃَ اَنَّ رَجُلًا مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم یُقَالُ لَہ، اَبُوْ عَبْدِ اﷲ دَخَلَ عَلَیْہِ اَصْحَابُہ، یَعُوْدُوْنَہ، وَھُوَ یَبْکِیْ فَقَالُوْا لَہ، مَا یُبْکِیْکَ اَلَمْ یَقُلْ لَّکَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خُذْ مِنْ شَارِبِکَ ثُمَّ اَقِرَّہ، حَتّٰی تَلْقَانِی قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ اﷲ عَزَّوَجَلَّ قَبَضَ بِیَمِیْنِہٖ قَبْضَۃً وَاُخْرٰی بِالْیَدِ الْاُخْرٰی وَقَالَ ھٰذِہٖ لِھٰذَہٖٖ لھذہٖ وَلَآ اَدرِیْ فِیۤ اَی الْقَبْضَتَیْنِ اَنَا۔(رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابونضرہ (حضرت ابونضرہ بن منذر بن مالک العبدی کا شمار بصرہ کے جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے آپ کا انتقال حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ دنوں پہلے ہوا ہے۔) راوی کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی جن کا نام عبداللہ تھا، ان کے پاس ان کے دوست ان کی عیادت کے لیے گئے (تو انہوں نے دیکھا) کہ وہ (ابوعبدا اللہ ) رو رہے تھے۔ انہوں نے کہا، کہ آپ کو کس چیز نے رونے پر مجبور کیا (کیونکہ) آپ سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ تم اپنے لب (مونچھوں) کے بال پست کرو اور اسی پر قائم رہو یہاں تک کہ تم مجھ سے (جنت میں) ملاقات کرو۔ ابوعبداللہ نے کہا، ہاں!لیکن میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ (بھی ) فرماتے سنا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے اپنے داہنے ہاتھ کی مٹھی میں ایک جماعت لی اور فرمایا کہ یہ (داہنے ہاتھ کی جماعت) جنت کے لیے ہے اور بائیں ہاتھ کی جماعت دوزخ کے لیے ہے اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے، یہ کہہ کر ابوعبداللہ نے فرمایا، میں نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں (یعنی داہنی مٹھی ہوں یا باہنی مٹھی میں ہوں)۔ " (مسند احمد بن حنبل) فائدہ : حضرت ابوعبداللہ صحابی بیمار ہوئے ان کے کچھ دوست واحباب مزاج پرسی کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، ان لوگوں نے یہ کیفت دیکھ کر کہا کہ آپ کو تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیت کا شرف حاصل ہے اور پھر مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ تم اپنی مونچھوں کو پست ہلکی کراتے رہنا اور اسی پر قائم رہنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر یا جنت میں مجھ سے تم ملاقات کرو تو گویا آپ کو جنت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جنت میں داخل ہونا اور اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہونا بغیر اسلام کے ہو نہیں سکتا، تو معلوم ہوا کہ آپ کا خاتمہ بالخیر ہوا اور آپ ایمان و اسلام کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کریں گے، لہٰذا پھر رونا کیوں؟ اور یہ فکر و غم کیسا؟ اس کو جواب مرد حق آگاہ نے یہ دیا کہ صحیح اور بجا ہے اور اس خوشخبری کی صداقت کا اعتقاد بھی لیکن پروردگار عالم بے نیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کی مرضی میں کسی کا دخل نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں جس کو چاہوں جنت کی سعادت سے نوازدوں اور جس کو چاہوں دوزخ کے حوالہ کر دوں اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تو مجھے بھی یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ نا معلوم میرا کیا حشر ہو؟ اور دل اس خوف سے لرزاں اور آنکھیں ڈر سے اشک بار ہیں کہ نہ جانے اللہ نے میرے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے۔یہ ان کے جواب کا حاصل تھا ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے تصور اور خوف اللہ کے غلبہ سے اس خوشخبری کو بھول گئے ہوں اور انہیں اس کا احساس نہ رہا ہو کہ لسان نبوت نے مجھے اس خوشخبری جیسی عظیم سعادت سے بھی نواز رکھا ہے۔ علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مونچھیں ہلکی کرانا سنت موکدہ ہے اور اس عمل پر قائم رہنا اور ہمیشہ اس کو کرتے رہنا جنت میں دخول اور وہاں سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ ہونے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اس ایک سنت کو ترک کرنے سے یعنی مونچھیں پست و ہلکی نہ کرانے سے ایسی عظیم سعادت اور اتنی بڑی فلاح ہاتھ سے جاتی ہے چہ جائیکہ سنت کو ہمیشہ ترک کرتا رہے ، اس لیے کہ ترک سنت پر اصرار ، الحاد و زندقہ تک پہنچاتا ہے۔ (نعوذ با اللہ )۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَخَذَ اﷲُ الْمِیْثَاقَ مِنْ ظَھْرِ اٰدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِیْ عَرَفَۃَ فَاَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃِ ذَرَأَھَا فَنَثَرَھُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ کَالذَّرِّثُمَّ کُلَّمَھُمْ قُبُلًا قَالَ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ اَوْتَقُوْلُوْا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِھِمْ اَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِوُنَ۔(رواہ مسند احمد بن حنبل، الاعراف١٧٢)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے میدان عرفہ کے قریب مقام نعمان میں آدم کی اس اولاد سے جو ان کی پشت سے نکلی تھی عہد لیا چنانچہ آدم کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا جن کو (ازل سے ابد) تک پیدا کرنا تھا اور ان سب کو چیونیٹوں کی طرح آدم کے سامنے پھیلا دیا پھر اللہ نے ان سے روبرو گفتگو کی، فرمایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آدم کی اولاد نے کہا، بیشک آپ ہمارے رب ہیں پھر اللہ نے فرمایا، یہ شہادت میں نے تم سے اس لیے لی ہے کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل و نا واقف تھے یا تم یہ نہ کہہ دو کہ ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے شرک کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے ہم نے ان کی اطاعت کی تھی ، کیا تو باطل پرستوں کے اعمال کے سبب ہلاک کرتا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم قیامت میں یہ دلیل نہیں دے سکتے کہ چونکہ ہمارے باپ دادا نے شرک کیا تھا اس لیے ہم بھی انہیں کے ساتھ رہے، یا ہم تو اپنے باپ دادا کے پیروکار اور ان کے تابع ہیں انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہوا تھا ہم بھی اسی پر چل رہے تھے لہٰذا اس کفر و شرک کے اصل ذمہ دار ہمارے باپ دادا ہیں جنہوں نے ہمیں اس راستہ پر ڈالا اس اعتبار سے مورد الزام وہ ٹھہر سکتے ہیں، ہم ان کی وجہ سے عذاب و دوزخ کے مستحق نہیں ہو سکتے اس لیے کہ عذاب کے حقیقی مستحق تو وہی لوگ ہیں جو اس راہ کے پیش رو تھے۔ پس اے شرک و کفر کرنے والو! جان لو کہ قیامت کے دن یہ حجت تمہارے لیے کار آمد نہیں ہو سکے گی کیونکہ اسی لیے ہم نے تم سے اپنی تو حید کا اقرار پہلے ہی کر الیا ہے اور تم اس پر شہادت دے چکے ہو، نیز اسی عہد و اقرار کی تویثق اور اس کی یاد دہانی کے لیے ہر دور میں دنیا کے تمام حصوں اور تمام طبقوں میں انبیاء علیہم السلام تشریف لائے تاکہ وہ بنی نوع انسان کو اس کا اپنا عہدہ اقرار یاد دلائیں اور ان کو صحیح راستہ پر لگائیں۔
-
وَعَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبِ فِیْ قَوْلِ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِ ِھْم ذُرِّیَّتَھُمْ قَالَ جَمَعَھُمْ فَجَعَلَھُمْ اَزْوَا جًا ثُمَّ صَوَّرْ ھُمْ فَاسْتَنْطَقَھُمْ فَتَکَلَّمُوْا ثُمَّ اَخَذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ وَالْمِیْثَاقَ وَاَشْھَدَ ھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی قَالَ فَاِنِّیْۤ اُشْھِدُ عَلَیْکُمُ السَّمٰوَاتِ السَّبْعَ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ وَاُشْھِدُ عَلَیْکُمْ اَبَاکُمْ اٰدَمَ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ نَعْلَمْ بِھٰذَا اِعْلَمُوْآ اَنَّہ، لَآ اِلٰہَ غَیْرِیْ وَلَا رَبَّ غَیْرِیْ وَلَا تُشْرِکُوْا بِیْ شَیْئًا اِنِّیْ سَاُرْسِلُ اِلَیْکُمْ رُسُلِیْ یُذَکِّرُوْنَکُمْ عَھْدِیْ وَمِیْثَاقِیْ وَاُنْزِلُ عَلَیْکُمْ کُتُبِیْ قَالُوْا شَھِدْنَا بِاَنَّکَ رَبُّنَا وَاِلٰھُنَا لَا رَبَّ لَنَا غَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ لَنَا غَیْرُکَ فَاَقَرُّوْ بِذٰلِکَ وَرُفِعَ عَلَیْھِمْ اٰدَمُ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ فَرَأی الْغَنِیَّ وَالْفَقِیْرَ وَ حَسَنَ الصُّوْرَۃِ وَدُوْنَ ذٰلِکَ فَقَالَ رَبِّ لَوْ لَا سَوَّیْتِ بَیْنَ عِبَادِکَ قَالَ اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ اَنْ اُشْکَرَوَرَأَی الْاَنْبِیَآءَ فِیْھِمْ مِّثْلَ السُّرُجِ عَلَیْھِمْ النُّوْرُ خُصُّوْا بِمِیْثَاقِ اَخِّرَفِی الرِّسَالَۃِ وَالنُّبْوَّۃِ وَھُوَ قَوْلَہ، تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَاِذْا اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّنَ مِیْثَا قَھُمْ اِلٰی قَوْلِہٖ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ کَانَ فِی تِلْکَ الْاَرْوَاحِ فَاَرْسَلَہ، اِلٰی مَرْیَمَ عَلَیْھَا السَّلَامُ فَحُدِّثَ عَنْ اُبَیِّ اَنَّہ، دَخَلَ مِنْ فِیِّھَا۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابی بن کعب اس آیت : (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ) 7۔ الاعراف : 172) (جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد نکالی)۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے (اولاد آدم کو) جمع کیا اور ان کو طرح طرح کا قرار دیا (یعنی کسی کو مالدار کسی کو غریب کرنے کا ارادہ کیا پھر ان کو شکل و صورت عطا کی اور پھر گویائی بخشی، اور انہوں نے باتیں کیں پھر ان سے عہد و پیمان کیا اور پھر ان کو اپنے اوپر گواہ قرار دے کر پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اولاد آدم نے کہا، بے شک !(آپ ہمارے رب ہیں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں سات آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو تمہارے سامنے گواہ بناتا ہوں اور تمہارے باپ آدم کو بھی شاہد قرار دیتا ہوں اس لیے کہ قیامت کے دن کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے نا واقف تھے (اس وقت) تم اچھی طرح جان لو کہ نہ تو میرے سوا کوئی معبود ہے اور نہ میرے سوا کوئی پروردگار ہے، (اور خبردار) کسی کو میرا شریک قرار نہ دینا، میں تمہارے پاس عنقریب اپنے رسول بھیجوں گا، جو تمہیں میرا عہد و پیماں یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں نازل کروں گا (یہ سن کر) اولاد آدم نے کہا، ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے اور تو ہی ہمارا معبود ہے، تیرے سوا نہ تو ہمارا کوئی پروردگار ہے اور نہ تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود ہے، چنانچہ آدم کی ساری اولاد نے اس کا اقرار کیا اور حضرت آدم کو ان کے اوپر بلند کر دیا گیا وہ (اپنی نگاہیں بلند کئے ہوئے) اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کی اولاد امیر بھی ہیں اور فقیر بھی اور خوبصورت بھی ہیں اور بد صورت بھی (یہ دیکھ کر انہوں نے عرض کیا، پروردگار اپنے تمام بندوں کو تو نے یکساں کیوں نہیں بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،" میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میرے بندے میرا شکر ادا کرتے ہیں" پھر آدم نے انبیاء کو دیکھا جو چراغ کی مانند روشن تھے اور نور ان کے اوپر جلوہ گر تھا ان سے خصوصیت کے ساتھ رسالت و نبوت کے لیے عہدو پیماں لیے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے : ا یت (واذاخذ من النبین میثاقہم ومنک ومن نوح وابراہیم وموسی وعیسی بن مریم ) (قرآن حکیم) ترجمہ : اور جب ہم نے پیغمبروں سے ان کا عہد و پیمان لیا اور آپ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے اور نوح اور ابراہیم سے اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (بھی) عہد و پیمان لیا، ان روحوں کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے چنانچہ ان کی روح کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بھیج دیا۔ حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ یہ روح حضرت مریم علیہا السلام کے منہ کی طرف سے ان کے جسم میں داخل ہوگئی۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح حضرت آدم علیہ السلام نے جب ان ارواح میں فرق دیکھا کہ انہیں کی اولاد میں سے کوئی تو سرمایہ دار اور صاحب دولت ہے اور کوئی غریب و مفلس تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے بارگاہ الوہیت میں عرض کیا کہ الہ العلمین ! سب میری اوالاد میں سے ہیں اور یہ سبھی تیرے بندے ہیں پھر ان میں یہ فرق کیوں؟ کوئی صاحب حیثیت ہے او کوئی لاچار، کسی کو عزت و دولت دے رکھی ہے اور کسی کو غربت و مفلسی!۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان میں فرق پیدا کرنے کی ایک حکمت ہے اور اس میں ایک مصلحت ہے اور وہ یہ کہ اگر میں سب کو یکساں پیدا کر دیتا تو یہ شکر ادا نہ کرتے اور جب ایک انسان میں وہ صفات و خصائل پیدا کر دیے جائیں گے جو دوسرے انسانوں میں نہیں ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر شکر ادا کیا کریں گے مثلاً تنگدست اور مفلس میں تقوی ، اطاعت الہی کا مادہ ، سکون قلب و دماغ اور دنیا سے بے فکری ہوتی ہے، جو کسی غنی اور مالدار میں نہیں ہوتی اسی طرح غنی و مالدار کو دولت کی فراوانی اور اسباب معیشت کی آسانیاں حاصل ہوتی ہیں جو غریب و محتاج کو میسر نہیں۔ لہٰذا! جس کے اندر جو خصائل ہوں گے اور وہ ان کی لذت سے نا آشنا ہو گا، دوسرے کے اندر اس کا فقدان دیکھ کر اس نعمت پر شکر گزار ہوگا جس کی بناء پر اللہ کی رحمت کا مستحق قرار دیا جائے گا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ الدَّرْدَآءِ قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَتَذَا کَرُمَا یَکُوْنُ اِذْقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلِ زَالَ عَنْ مَکَانِہٖ فَصَدِّقُوْہُ وَاِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلِ تَغَیَّرَ عَنْ خُلُقِہٖ فَلَا تُصَدِّقُوْا بِہٖ فَاِنَّہ، یَصِیْرُ اِلٰی مَاجُبِلَ عَلَیْہِ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ا ئندہ وقوع پذیر ہونے والی باتوں پر گفتگو کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہماری باتوں کو سن کر) فرمایا۔ جب تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو اسے سچ مان لو لیکن جب تم یہ سنو کہ کسی آدمی کی خلقت بدل گئی ہے تو اس کا عتبار نہ کرو اس لیے کہ انسان اسی چیز کی طرف جاتا ہے جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح صحابہ آپس میں بیٹھے ہوئے یہ بحث کر رہے تھے کہ جو چیز آئندہ ہونے والی یا جو باتیں وقوع پذیر ہونے والی ہیں، کیا وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہوتی ہیں یا از خود بغیر قضاء قدر کے واقع ہوتی ہیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بحث سن کر فرمایا کہ ہر چیز نوشتہ تقدیر کے مطابق بر وقت وقوع پذیر ہوتی ہے اور مثال کے طور پر فرمایا کہ ایک انسان اپنی جس جبلت اور خلقت پر پیدا ہوتا ہے اسی پر ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اسی کی طرف اس کا حقیقی میلان رہتا ہے۔ مثلا جس کو اللہ نے عقلمند و دانا پیدا کیا اور اس کی سرشت و فطرت میں عقل و دانش کا مادہ و دیعت فرمایا اور اس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیئے گئے تو وہ کبھی بے وقوف احمق نہیں ہو سکتا، اسی طرح جس آدمی کی جبلت و حماقت کے سانچے میں ڈھلی ہو اور جس کو فطرتا بیو قوف وپلید پیدا کیا گیا ہو وہ عقل مند و دانشور نہیں ہو سکتا۔ ہاں ایسے افراد جو اپنی ریاضت و مشقت اور ذاتی محنت و کوشش کی بنا پر عقل کی دولت حاصل کر لیتے ہیں یا اصحاب عقل و دانش کی صحبت اختیار کر کے ان اوصاف کے حامل ہو جاتے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، اس لیے کہ یہاں بحث جبلت اور خلقت کی ہے کہ جس انسان کو جس خصلت و فطرت پر پیدا کر دیا گیا وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتا اور نہ اس جبلت و خصلت میں تغیر و تبدل ممکن ہے ۔ رہا اپنی ذاتی محنت و کوشش یا اصحاب عقل و فہم کی صحبت، تو یہ ایک دوسری چیز ہے کیونکہ یہ بھی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی ہے یعنی جس آدمی کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اپنی محنت و کوشش یا کسی عقل مند و دانشور کی صحبت و قربت کی بنا پر صاحب عقل بنے گا وہ یقینا اس وصف کو حاصل کر لے گا لیکن جس کی تقدیر میں بے وقوف رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے یا جس کی جبلت میں حماقت رکھ دی گئی ہے اس میں نہ اپنی محنت و کوشش کام کرتی ہے اور نہ کسی عقل مند کی قربت و صحبت۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ یَزَالُ یُصِیْبُکَ فِیْ کُلِّ عَامِ وَجَعٌ مِنَ الشَّاۃِ الْمَسْمُوْمَۃِ الَّتِیْ اکَلْت قَالَ مَآصَابَنِیْ شَیْءٌ مِّنْھَا اِلَّا وَھُوَ مَکْتُوْبٌ عَلَیَّ وَاٰدَمُ طِیْنَتِہٖ۔ (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ام سلمہ (ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریشیہ اور مخزومیہ ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطھرہ ھیں ۵۹ھ میں آپ کا انتقال ہوا اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔) سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو زہر آلود بکری کھائی تھی (جوخیبر میں ایک یہودیہ نے کھلائی تھی) ہر سال اس کی وجہ سے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو تکلیف ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا جو چیز (یعنی اذیت و تکلیف یا بیماری ) مجھ کو پہنچتی ہے وہ میرے لیے اسی وقت لکھی گئی تھی جب کہ آدم مٹی کے اندر تھے (یعنی میری تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا)۔" (ابن ماجہ)
-