بوڑھے اور بیمار مقتدیوں کی رعایت امام کے لیے ضروری ہے

وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ اَبی الْعَاصِ ص قَالَ آخِرُ مَا عَہِدَ اِلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَمَمْتَ قَوْمًا فَاَخِفَّ بِھِمُ الصَّلٰوۃَ (رواہ مسلم وَ فِی رِوَایَۃٍ لَہُ) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَہُ اُمَّ قَوْمَکَ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ شَیْئًا قَالَ اُدْنُہُ فَاَحْبَسَنِی بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ کَفَّہُ فِیْ صَدْرِی بَیْنَ ثَدْیَیَّ ثُمَّ قَالَ تَحَوَّلْ فَوَضَعَھَا فِی ظَہْرِی بَیْنَ کَتِفَیَّ ثُمَّ قَالَ اُمَّ قَوْمَکَ فَمَنْ اَمَّ قَوْماً فَلْیُخَفِّفْ فَاِنَّ فِیْھِمُ الْکَبِیْرَ وَاِنَّ فِیْھِمُ الْمَرِیْضَ وَاِنَّ فِیْھِمُ الضَّعِیْفَ وَاِنَّ فِیْھِمْ ذَالْحَاجَۃِ فَاِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ وَحْدَہُ فَلْیُصَلِّ کَیْفَ شَائَ۔-
" حضرت عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو آخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ " جب تم لوگوں کی امامت کرو تو انہیں ہلکی نماز پڑھاؤ۔" ( مسلم) اور کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اپنی قوم کی امامت کرو۔ ' ' حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ میرے قریب آؤ۔" (جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے آگے بٹھایا اور میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا پھر فرمایا کہ پشت پھیرو (میں نے اپنی پشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کر دی ) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان اپنا دست مبارک پھیر کر فرمایا کہ " جاؤ اور اپنی قوم کی امامت کرو اور یہ (یہ یاد رکھو) کہ جب کوئی آدمی کسی قوم کا امام بنے تو اسے چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور بیمار بھی ان میں کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور حاجتمند بھی ہاں جب کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے اختیار ہے جس طرح چاہیے پڑھے۔" تشریح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد انی اجد فی نفسی شیا (یعنی مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے ) کا مطلب یہ تھا کہ میں امامت کے حقوق کی ادائیگی سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہوں یا کچھ وسوسے اور شبہات ہیں جو دل میں آتے ہیں یا یہ کہ امامت کے وقت میرے دل کے اندر ایک قسم کی برتری اور غرور کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیفیات کے دفعیہ کے لیے ان کے سینے اور پشت پر اپنا دست مبارک پھیرا جس کی برکت سے ان کی دل کی وہ کھٹک جاتی رہی جس کی موجودگی انہیں امامت پر آمادہ نہیں ہونے دیتی تھی۔ فاذا صلی احد کم الخ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے معاملے میں مختار ہے چاہے تو وہ طویل نماز پڑھے چاہے مختصر لیکن علماء لکھتے ہیں کہ تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ طویل نماز پڑھے۔ اس زمانہ کے ائمہ کا معاملہ بڑا عجیب ہے جب وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں تو بہت زیادہ طوالت سے کام لیتے ہیں مگر جب تنہا نماز پڑھتے ہیں تو صرف اتنے ہی اختصار پر اکتفا کرتے ہیں جس سے نماز ادا ہو جائے۔ ائمہ کو اس طریق کار کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَأمُرُنَا بِالتَّخْفِیْفِ وَیَؤُمَّنَا بِالصَّافَاتِ۔ (رواہ النسائی )-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہلکی نماز (پڑھا نے) کا حکم دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں نماز پڑھاتے تو سورت صافات کی قرات کرتے ۔ " (سنن نسائی) تشریح حدیث کے دونوں جزوں میں بظاہر تو تعارض نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو آپ ہلکی نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے اور دوسری طرف خود امامت کرتے وقت سورت صافات کی قرات فرماتے جو ایک طویل سورت ہے، اس تعارض کو دفع کرنے کے لیے علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ لمبی لمبی سورتیں اور بہت زیادہ آیتیں بہت کم عرصے میں پڑھ لیتے تھے جس سے لوگوں کو کوئی گرانی اور اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی اور یہ خصوصیت دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس طرح دونوں جزء میں کوئی تعارض نہیں رہا۔
-