اذان کا بیان

--
لغت میں اذان کے معنی " خبر دینا " ہیں اور اصطلاح شریعت میں " چند مخصوص الفاظ کے ساتھ اوقات مخصوصہ میں نماز کا وقت آنے کی خبر دینے" کو اذان کہتے ہیں۔ اس تعریف سے وہ اذان خارج ہے جو نماز کے علاوہ دیگر امور کے لیے ہے مسنون کی گئی ہے جیسا کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان کے کلمات اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جاتے ہیں اور اسی طرح اس آدمی کے کان میں اذان کہنا مستحب ہے جو کسی رنج میں مبتلا ہو یا اسے مرگی وغیرہ کا مرض ہو یا وہ غصے کی حالت میں ہو، یا جس کی عادتیں خراب ہوگئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور۔ چنانچہ حضرت دیلمی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ راوی ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غمگین دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن ابی طالب : میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں لہٰذا تم اپنے اہل بیت میں سے کسی کو حکم دو کہ وہ تمہارے کان میں اذان کہے جس سے تمہارا غم ختم ہو جاے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے تھے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد کے مطابق عمل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات صحیح ثابت ہوئی نیز اس روایت کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک نقل کرنے والے ہر راوی نے کہا ہے کہ ہم نے اس طریقے کو آزمایا تو مجرب ثابت ہوا۔ ایسے ہی حضرت دیلمی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جس کی عادتیں خراب ہوگئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور تو اس کے کان میں اذان کہو" ۔ بہر حال۔ فرائض نماز کے لیے اذان کہنا سنت موکدہ ہے تاکہ لوگ نماز کے وقت مسجد میں جمع ہوئیں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔ اذان کی مشروعیت کے سلسلے میں مشہور اور صحیح یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت کی ابتداء عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خواب ہے جس کی تفصیل آئندہ احادیث میں آئے گی۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اذان کا خواب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دیکھا تھا۔ حضرت امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ دس صحابہ کرام کو خواب میں اذان کے کلمات کی تعلیم دی گئی تھی بلکہ کچھ حضرات نے تو کہا ہے کہ خواب دیکھنے والے چودہ صحابہ کرام ہیں۔ بعض علماء محققین کا قول یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کے نتیجے میں ہوئی ہے جس کی طرف شب معراج میں ایک فرشتے نے رہنمائی کی تھی چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں جب عرش پر پہنچے اور سدرۃ المنتہیٰ تک جو کبریائی حق جل مجدہ کا محل خاص ہے پہچے تو وہاں سے ایک فرشتہ نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اس اللہ کی قسم ًجس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تمام مخلوق سے زیادہ قریب ترین درگاہ عزت سے میں ہوں لیکن میں نے پیدائش سے لے کر آج تک اس وقت کے علاوہ اس فرشتہ کو کبھی نہیں دیکھا ہے چنانچہ اس فرشتہ نے کہا " اللہ اکبر اللہ اکبر" یعنی اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے۔ پردے کے پیچھے سے آواز آئی کہ میرے بندہ نے سچ کہا انا اکبر انا اکبر (یعنی میں بہت بڑا ہوں میں بہت بڑا ہوں) اس کے بعد اس فرشتے نے اذان کے باقی کلمات ذکر کئے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان کے کلمات صحابہ کرام کے خواب سے بھی بہت پہلے شب معراج میں سن چکے تھے۔ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں محقق فیصلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے کلمات شب معراج میں سن تو لیے تھے لیکن ان کلمات کو نماز کے لیے اذان میں ادا کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بغیر اذان کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ تشریف لائے اور یہاں صحابہ کرام سے مشورہ کیا چنانچہ بعض صحابہ کرام نے خواب میں ان کلمات کو سنا اس کے بعد وحی بھی آگئی کہ جو کلمات آسمان پر سنے گئے تھے اب وہ زمین پر اذان کے لیے مسنون کر دیے جائیں۔ وا اللہ اعلم۔
-
عَنْ اَنَسٍ قَالَ ذَکَرُوْا النَّارَ وَالنَّاقُوْسَ فَذَکَرُوا الْےَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی فَاُمِرَ بِلَالٌ اَنْ ےَشْفَعَ الْاَذَانَ وَاَنْ ےُّوْتِرَ الْاِقَامَۃَ قَالَ اِسْمَاعِےْلُ فَذَکَرْتُہُ لِاَےُّوْبَ فَقَالَ اِلَّا الْاِقَامَۃَ ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (اذان کی مشروعیت سے پہلے نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے سلسلے میں) آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ بعض لوگوں نے یہود و نصاری کا ذکر کیا (کہ ان کی مشابہت ہوگی) پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اذان کے کلمات جفت کہیں (یعنی اذان کے شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہیں اور باقی کلمات سوائے آخری کلمہ ( لاالہ الا اللہ ) کے جو ایک مرتبہ کہا جاتا ہے وہ دو مرتبہ کہیں (اور تکبیر کے کلمات (سوائے اللہ اکبر کے) ایک ایک مرتبہ کہیں) شیخ اسماعیل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (جو اس حدیث کے راوی اور امام بخاری و امام مسلم کے استاذ ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ایوب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے (جو اس حدیث کے راوی ہیں اور جنہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے) کیا تو انہوں نے فرمایا کہ لفظ قدقامت الصلوۃ دو مرتبہ کہنا چاہئے (یعنی تکبیر کے اول و آخر میں " اللہ اکبر" کے علاوہ بقیہ کلمات ایک ایک مرتبہ ہیں اور لفظ قد قامت الصلوۃ دو مرتبہ ہے)۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہئے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقات نماز کی اطلاع ہو جایا کرے تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہو جائیں اور جماعت سے نماز ہو سکے چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دی جایا کرے تاکہ اسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں بعض نے رائے دی ناقوس بجانا چاہئے تاکہ اس کی آواز سن کر لوگ مسجد میں حاضر ہوجائیں۔ چند صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ان تجویزوں کے سلسلے میں عرض کیا کہ آگ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ناقوس نصاری اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہ کرنے چاہئیں تاکہ یہود و نصاری کی مشابہت لازم نہ آئے ، لہٰذا ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہئے۔ بات معقول تھی اس لیے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اپنے اپنے گھر آگئے۔ ایک مخلص صحابی حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلے میں بہت فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آتا تو بہت پریشان ہوئے ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی طرح جلد از جلد طے ہو جائے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فکر دور ہو جائے چنانچہ یہ اسی سوچ و بچار میں گھر آکر سو گئے خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ شکل ان کے سامنے کھڑا ہو ااذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت میں بالکل سویا ہوا نہیں تھا بلکہ غنودگی کے عالم میں تھا اور بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر بدگمانی کا خوف نہ ہوتا تو میں کہتا کہ میں اس وقت سویا ہی نہیں تھا۔ اسی بناء پر بعض علماء کرام نے اس واقعہ کو حال اور کشف پر محمول کیا ہے جو ارباب باطن کو حالت بیداری میں ہوتا ہے۔ بہر حال حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کو اٹھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ خواب سچ ہے اور فرمایا کہ بلال کو اپنے ہمراہ لو، تم انہیں وہ کلمات جو تمہیں خواب میں تعلیم فرمائے گئے ہیں بتاتے رہو وہ انہیں زور سے ادا کریں گے کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔ چنانچہ جب اس طرح دونوں نے اذان دی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ابھی جو کلمات ادا کئے گئے ہیں میں نے بھی خواب میں ایسے ہی کلمات سنے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات کو دس گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ " ناقوس" نصاری کے ہاں عبادت کے وقت کی خبر دینے کے سلسلے میں استعمال ہوتا تھا اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ وہ لوگ ایک بڑی لکڑی کو کسی چھوٹی لکڑی پر مارتے تھے اس سے جو آواز پیدا ہوتی تھی وہی عبادت کے وقت کا اعلان ہوتی تھی۔ یہودیوں کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت کے وقت سینگ بجایا کرتے تھے چنانچہ آگ جلانے کا ذکر صرف حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور کسی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں دو فرقے ہوں گے ایک فرقہ تو سینگ بجاتا ہوگا اور دوسرا فرقہ آگ جلاتا ہوگا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کے کلمات (شروع میں اللہ اکبر کے علاوہ) تو جفت ہیں اور اقامت کے کلمات طاق ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام و تابعین عظام میں سے اکثر اہل علم اور امام زہری، امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام اسحاق اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے متبعین کے نزدیک اذان و تکبیر دونوں کے کلمات جفت ہیں ان کی دلیل آگے آئے گی۔
-
وَعَنْ اَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ صقَالَ اَلْقٰی عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم التَّاذِےْنَ ھُوَ بِنَفْسِہٖ فَقَالَ قُلْ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ثُمَّ تَعُوْدُ فَتَقُوْلُ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ۔حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( آپ کا اسم گرامی سمرہ بن معبر ہے اور ابومحذورہ کی کنیت سے مشہور ہیں۔ آپ نے ہجرت نہ کی آپ مؤذن تھے اور مکہ ہی میں انتقال کیا ١٢۔ ) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خود (بغیر واسطے کے) اذان سکھلائی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو! اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں (یعنی جانتا اور بیان کرتا ہوں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر فرمایا کہ دوبارہ کہو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح " اللہ اکبر" کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس چیز سے بہت بلندوبالا ہے کہ کوئی آدمی اس کی کبریائی و عظمت کی حقیقت کو پہچانے۔ یا اللہ تعالیٰ اس حیثیت سے بہت بڑا ہے کہ اس کی ذات پاک کی طرف ان چیزوں کی نسبت کی جائے جو اس کی عظمت و بزرگی کے مناسب نہیں ہیں، یا پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ رب العزت تمام چیزوں سے بہت بڑا ہے۔ اذان و تکبیر میں اللہ اکبر کی حرف را ساکن ہوتی ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ کلمہ اذان میں پہلی بار چار مرتبہ کہا جاتا ہے اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک دو مرتبہ کہا جاتا ہے۔ اس کلمہ کو چار مرتبہ کہنے میں یہ لطیف نکتہ ہے کہ گویا یہ حکم چار دانگ عالم میں جاری و حاوی ہے اور عناصر اربعہ سے مرکب نفس انسانی کی خواہشات کے تزکیہ میں بہت موثر ہے۔ حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ تم ہر مکروہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ہر مراد کے ملنے کی طرف آؤ۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ فلاح کے معنی بقا کے ہیں یعنی اس چیز کی طرف دوڑو جو عذاب سے چھٹکارے کا باعث، ثواب ملنے کا سبب اور آخرت میں بقاء کا ذریعہ ہے اور وہ چیز نماز ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اذان میں ترجیع یعنی شہادتین کو دو مرتبہ کہنا سنت ہے۔ ترجیع کی شکل یہ ہوتی ہے کہ پہلے شہادتیں کو دو مرتبہ پست آواز سے کہا جاتا ہے پھر دو مرتبہ بلند آواز سے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے۔ علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ یہ تکرار حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم کے لیے تھا نہ کہ تشریع کے لیے۔ یعنی پہلی مرتبہ ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شہادتین کو پست آواز سے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کلمات کو پھر ادا کرو اور بلند آواز سے ادا کرو چنانچہ اس سلسلے میں حضرت ابومحذورہ کی جو ایک دوسری روایت منقول ہے اس میں ترجیع نہیں ہے۔ نیز حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں بھی جو اذان کے باب میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے ترجیع نہیں ہے ۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو موذنوں کے سردار ہیں، نہ ان کی اذان میں اور نہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد نبوی میں اذان کہتے تھے اور نہ ہی حضرت سعد قرط رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد قبا کے موذن تھے ترجیع منقول ہے ۔ پھر یہ کہ اس سلسلے میں حضرت ابی محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ تکرار شہادتین کی تعلیم کے لیے تھا۔
-
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ الْاَذٰنُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّتَیْنِ وَ الْاِ قَامَۃُ مَرَّۃً مَرَّۃً غَیْرَ اَنَّہ، کَانَ یَقُوْلُ قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃِ۔ (رواہ ابوداؤد و والنسائی ، الدارمی)-
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ علنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان کے کلمات دو دو دفعہ اور تکبیر کے کلمات ایک ایک دفعہ (کہے جاتے) تھے البتہ (تکبیر میں) قد قامت الصلوۃ بے شک نماز تیار ہے مؤذن دو مرتبہ کہتا تھا۔ " (ابوداؤد ، سنن نسائی ، دارمی) تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہتے تھے اور آخر میں لاالہ الا اللہ ایک مرتبہ کہتے تھے ان دونوں کلمات کے علاوہ باقی کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے۔ اقامت میں جس طرح قد قامت الصلوۃ کا استثناء کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر یعنی اللہ اکبر کو بھی مستثنی کرنا مناسب تھا کیونکہ تکبیر بھی بلا اختلاف اول و آخر میں مکرر ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَّمَہُ الْاَذَانَ تِسْعَ عَشَرَۃَ کَلِمَۃً وَالْاِ قَامَۃَ سَبْعَ عَشَرَۃَ کَلِمَۃً رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ وَالنِّسَائِیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ۔-
" اور حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کے انیس کلمات اور تکبیر کے سترہ کلمات سکھلائے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی ، سنن ابن ماجہ) تشریح حنفی مسلک میں اذان کے پندرہ کلمات ہیں مگر اس حدیث میں انیس ذکر کئے گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کلمات ترجیع سمیت ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے اور حدیث نمبر دو کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک ترجیع تعلیم پر محمول ہے وہ مشروع نہیں ہے۔ تکبیر کے سترہ کلمات بتائے گئے ہیں بایں طور کہ ترجیع کے چار کلمات الگ کر کے اور دو کلمات قد قامت الصلوٰۃ کے بڑھا کر تکبیر کے کلمات سترہ ہوئے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے لہٰذا یہ حدیث اذان کے بارہ میں تو شوافع کے مسلک کی تائید کرتی ہے کہ ان کے ہاں اذان کے کلمات انیس ہوتے ہیں۔ اور تکبیر کے بارے میں حنفیہ کے مسلک کے موافق ہے کہ ان کے یہاں تکبیر کے کلمات سترہ ہوتے ہیں چنانچہ تکبیر کے کلمات کی تعیین میں حنفیہ کی جانب سے یہی حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ اس سے پہلے والی حدیث میں جس میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق تکبیر کے کلمات کی تعداد گیارہ ثابت ہوتی ہے اگر صحیح ہے تو اس حدیث سے منسوخ ہے۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ عَلِّمْنِیْ سُنَّۃَ الْاَذَانِ قَالَ فَمَسَحَ مُقَدَّمَ رَأْسِہٖ قَالَ تَقُوْلُ اَﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُاَکْبَرُ ، اَﷲ ُاَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ ۔ تَرْفَعُ بِھَا صَوْتَکَ ثُمَّ تَقُوْلُ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ، اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ ا رّسُوْلُ اﷲِ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ ا رّسُوْلُ اﷲِ۔ تَخْفِضُ بِھَا صَوْتَکَ ثُمَّ تَرْفَعُ صَوْتَکَ بِالشَّھَادَۃِ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ، اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ ا رّسُوْلُ اﷲِ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ ا رّسُوْلُ اﷲِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔فَاِنَّ کَانَ صَلَاۃُ الصُّبْحِ قُلْتَ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ ، اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ ۔ اَﷲ ُاَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئے! راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور پھر فرمایا کہ کہو اللہ اکبر اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ ان کے ساتھ آواز بلند کرو، اور پھر کہو، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ، اشھد ان محمد الرسول اللہ ۔ انہیں آہستہ سے کہہ کر پھر بلند آواز سے شہادت کے کلمات کہو اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ، اشھد ان محمد الرسول اللہ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح ۔ اگر صبح نماز کے لیے اذان کہنا چاہو تو (اس کے بعد یہ کلمات کہو الصلوٰۃ خیر من النوم، الصلوٰۃ خیر من النوم۔ (یعنی نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے، اللہ اکبر ، اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ ۔" (ابوداؤد) تشریح فمسح مقدم راسہ " کے معنی یا تو وہی میں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا تاکہ اس کی برکت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دماغ کو پہنچے اور وہ دین کی باتوں کو یاد رکھ سکیں، چنانچہ ایک صحیح نسخہ میں یہ الفاظ اس طرح ہیں،" فَمَسَحَ راسی" یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا، لہٰذا یہ الفاظ اس معنی کی تائید کرتے ہیں جو ترجمہ میں کئے گئے ہیں۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتفاقی طور پر اپنا دست مبارک خود اپنے سر اقدس پر پھیرا ہوگا۔ راوی نے پورا واقعہ نقل کرنے کی غرض سے اس کا تذکرہ بھی کر دیا۔ بہر حال اس پہلے ترجمہ کی جو توجیہ کی گئی تھی کہ جن احادیث میں اذان میں شہادتین کا تکرار ذکر کیا گیا تو یہ تو تعلیم پر محمول ہے تو وہ توجیہ بظاہر اس حدیث کے منافی ہے لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس سلسلے میں ہم نے ان کثیر روایتوں کو ترجیح دی ہے جن میں ترجیع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے نیز حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جس سے ترجیع ثابت ہے وہ پہلے کی ہے اور وہ احادیث جن میں ترجیع مذکور نہیں ہے بعد کی ہیں اس لیے ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ان روایتوں سے منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔ الصلوۃ خیر من النوم کا مطلب یہ ہے ۔ ارباب ذوق شوق اور عشق خداوندی سے سر شار لوگوں کے نزدیک نماز کی لذت نیند کی لذت سے بدرجہا بہتر ہے۔
-
وَعَنْ بِلَالٍ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُثَوِّبَنَّ فِیْ شَیْءٍ مِنَ الصَّلٰوۃِ اِلَّا فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ اَبُوْاِسْرَائْیْلَ الرَّاوِیُ لَیْسَ ھُوَ بِذَالِکَ الْقَوِیُّ عِنْدَاَھْلِ الْحَدِیْثِ۔-
" اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ فجر کی نماز کے علاوہ اور کسی نماز میں تثویب نہ کرو۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ،) اور حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ (اس حدیث کے راوی) ابواسرائیل محدثین کے نزدیک قوی (یعنی قابل اعتبار) نہیں ہیں۔" تشریح " تثویب" وہ اعلام ہوتا ہے جس سے پہلے کوئی اعلام ہو چکا ہو اور اس کی غرض اور اس سے پہلے کے اعلام کی غرض ایک ہو۔ مثلاً پہلے اعلام سے لوگوں کو نماز کے لیے بلانا مقصود ہو تو اس اعلام سے بھی یہی مقصود ہو۔ تثویب کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کہنا، یہ تثویب اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ تو حی علی الصلوۃ کہہ کر لوگوں کو نماز کے لیے بلایا گیا پھر دوبارہ الصلوۃ خیر من النوم سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ یہ تثویب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رائج تھی اور مسنون یہی ہے پھر اس کے بعد کوفہ کے علماء نے اذان و تکبیر کے درمیانی وقفے میں حی علی الفلاح کہنا رائج کیا، اس کے بعد ہر فرقہ و طبقہ کے لوگوں نے اپنے اپنے عرف کے مطابق کچھ نہ کچھ طریقہ تثویب کے طور پر رائج کیا مگر یہ تمام تثویبیں فجر کی نماز ہی کے لیے رائج کی گئیں، کیونکہ فجر کا وقت نیند اور غفلت کا وقت ہو تا ہے۔ پھر آخر میں متاخرین علماء نے تمام نمازوں کے لیے تثویب رائج کی اور اسے بنظر استحسان دیکھا حالانکہ متقدمین کے نزدیک یہ مکروہ ہے کیونکہ یہ احداث ہے اور بدعت ہے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی اس کا انکار بایں طور منقول ہے کہ ایک آدمی تثویب کہتا تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بارہ میں فرمایا کہ" اخر جوا ھذا المبتدع من المسجد " یعنی اس بد عتی آدمی کو مسجد سے نکال باہر کرو!۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب کہ وہ مسجد میں موجود تھے موذن کو غیر فجر میں تثویب کرتے ہوئے سنا تو مسجد سے باہر نکل آئے اور دوسروں سے بھی کہا کہ اس آدمی کے سامنے نہ رہو، باہر نکل آؤ کیونکہ یہ بدعتی ہے۔
-
وَعَنْ جَابِرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِبِلَالٍ اِذَاَزَّنْتَ فَتَرَسَّلْ وَاِذَا اَقَمْتَ فَاَحْدُرْ وَاجْعَلْ بَیْنَ اَذَانِکَ وَاِقَامَتِکَ قَدْرَ مَایَفِْرَغُ الْاٰکِلُ مِنْ اَکْلِہٖ وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْبِہٖ وَالْمُعْتَصِرُ اِذَا دَخَلَ لِقَضَآءِ حَاجَتِہٖ وَلَا تَقُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْنِیْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ لَانَعْرِفُہ، اِلَّا مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِالْمُنْعِمِ وَھُوَ اِسْنَاد مَجْھُوْلٌ۔-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر کہا کرو اور جب تکبیر کہو تو جلدی جلدی کہا کرو اور اذان و تکبیر کے درمیان اتنا وقفہ کیا کرو کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے والا پینے سے، قضائے حاجت والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور اس وقت تک نماز کے لیے کھڑے نہ ہو جب تک مجھے (نماز پڑھانے کے لیے آتا ہوا) نہ دیکھ لو۔ اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس حدیث کو سوائے عبدالمنعم کے اور کسی سے نہیں جانتے اور اس کی سند مجہول ہے۔ " تشریح اذان کو ٹھہر ٹھہر کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کلمات کو ایک دوسرے سے جدا جدا کر کے اور خفیف سے سکتہ کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرو۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں اتنی ڈھیل کرو کہ کلمات بغیر کھینچے ہوئے تاکہ حد سے تجاوز نہ ہو واضح واضح کہہ سکو۔ اسی وجہ سے موذنوں کے لیے تاکید ہے کہ وہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں احتیاط سے کام لیں اور قواعد کے مطابق اذان کہیں تاکہ غلطیوں کا ارتکاب نہ ہو سکے کیونکہ بعض غلطیاں ایسی ہیں کہ ان کو قصدا کرنے والا کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے جیسے اشھد کے الف کو مد کے ساتھ ادا کرنا کہ یہ استفہام ہو جاتا ہے اور جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ کیا میں گواہی دوں الخ؟ یا اللہ اکبر میں حرف با کو مد کے ساتھ کھیچ کر (اکبار) پڑھنا کہ یہ لفظ کبر کی جمع ہو جاتی ہے جس کے معنی اس طبلے کے آتے ہیں جس کا ایک منہ ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں ہوتا ہے یا اسی طرح لفظ الہ پر وقف کرنا اور اللہ سے ابتداء کرنا۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب موذن تکبیر کے لیے کھڑا ہو تو مجھے مسجد میں آتا ہوا نہ دیکھ لو تو نماز کے لیے کھڑے نہ ہو، کیونکہ امام کی آمد سے پہلے ہی کھڑے ہو جانا خواہ مخواہ کی تکلیف اٹھانا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے اپنے حجرہ مبارک سے اس وقت نکلتے ہوں گے جب کہ موذن تکبیر شروع کر دیتا ہوگا اور جب موذن تکبیر کہتا ہوا حی علی الصلوۃ پر پہنچتا ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت محراب میں داخل ہوتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نے کہا ہے کہ جب مؤذن تکبیر شروع کر دے اور حی علی الصلوۃ پر پہنچتے تو امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہو جانا چاہئے اور جب موذن قد قامت الصلوہ پر پہنچے تو نماز شروع کر دینی چاہئے۔
-
وَعَنْ زِیَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِیِّ قَالَ اَمَرَنِی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ اَذِنْ فِی صَلٰوۃِ الْفَجْرِ فَاَذَّنْتُ فَاَرَا دَ بِلَالٌ اَنْ یُقِیْمَ فَقَالَ رَسُْولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِنَّ اَخَاصُدَاءِ قَدْ اَذَّنَ وَمَنْ اَذَّنَ فَھُوَ یُقِیْمُ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ)-
" حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فجر کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ میں نے اذان کہی، پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدائی کے بھائی نے اذان کہی تھی اور جو اذان کہے اسی کو تکبیر بھی کہنی چاہئے۔ " (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح اخاء صداء یعنی صدائی کے بھائی سے مراد زیاد ابن حارث صدائی ہیں، عرب میں قاعدہ تھا جو آدمی جس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسے اس قبیلہ کا بھائی کہا جاتا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس حدیث کے مطابق غیر موذن کو تکبیر کہنا مکروہ ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ اکثر و بیشتر حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کہتے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکبیر کہتے تھے ۔ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر غیر موذن تکبیر کہنا چاہئے تو موذن سے اجازت لے لے۔ اگر موذن کو کسی دوسرے کی تکبیر کہنا ناگوار ہو تو پھر غیر موذن کو تکبیر کہنا مناسب نہیں ہے۔
-
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ حِےْنَ قَدِمُوا الْمَدِےْنَۃَ ےَجْتَمِعُوْنَ فَےَتَحَےَّنُوْنَ لِلصَّلٰوۃِ وَلَےْسَ ےُنَادِیْ بِھَا اَحَدٌ فَتَکَلَّمُوْا ےَوْمًا فِیْ ذَالِکَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ اِتَّخِذُوْا مِثْلَ نَاقُوْسِ النَّصَارٰی وَقَالَ بَعْضُھُمْ قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْےَھُوْدِ فَقَالَ عُمَرُ اَوَلَا تَبْعَثُوْنَ رَجُلًا ےُّنَادِیْ بِالصَّلٰوۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلٰوۃِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمان مدینہ میں آکر جمع ہوگئے تو نماز کے لیے وقت اور اندازہ معین کرنے لگے (کیونکہ) کوئی آدمی نماز کے لیے بلانے والانہ تھا (ایک روز) جب اس مسئلے پر گفتگو ہوئی تو بعض نے کہا کہ نصاری کی طرح ناقوس بنا لیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے (یہ تمام تجاویز سن کر) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کر دیا جائے جو نماز کے لیے (لوگوں کو) بلا لیا کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )! کھڑے ہو کر نماز کے لیے منادی دیا کرو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منادی کرنے کا جو حکم دیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر الصلوۃ جامعۃ کہہ دیا کرو۔ یہ آواز سن کر لوگ نماز کے لیے حاضر ہو جایا کریں گے۔ لہٰذا " مناوی" سے مراد نماز کے لیے محض اعلان کرنا ہے نہ کہ اس سے شرعی مناوی یعنی اذان مراد ہے۔ اس توجیہ سے پہلی احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے کہ پہلے ایک مجلس میں اس طرح اعلان کرنے کی تجویز پاس ہوئی پھر بعد میں جب دوسری مجلس میں اس پر بحث و مباحثہ ہوا تو حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کا خواب دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو وحی آجانے کے بعد یا اپنے اجتہاد سے کام لے کر حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کے مطابق اذان مشروع فرمائی۔
-
عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَبْدِرَبِّہِ قَالَ لَمَّا اَمَرَرَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالنَّا قُوْسِ یُعْمَلُ لِیُضْرَبَ بَہٖ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَلَاۃِ طَافِ بِی وَاَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ یَحْمِلُ نَاقُوْسًا فِی یَدِہٖ فَقُلْتُ یَا عَبْدَاﷲ اَتَبِیْعُ النَّاقَوْسَ قَالَ وَمَا تَصْنَعُ بِہٖ قُلْتُ نَدْعُوْ بِہٖ اِلَی الصَّلَۃِ قَالَ اَفَلَا اَدُلْکَ عَلَی مَاھُوَ خَیْرٌ مِنْ ذٰلِکَ فَقُلْتُ لَہ، بَلُی قَالَ فَقَالَ تَقُوْلُ اﷲُ اَکْبَرُ اِلَی اٰخِرِہٖ وَکَذَا الْاِ قَامَۃَ فَلَمَّا اَصْبَحْتُ آتَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَخْبَرْ تُہ، بِمَا رَأَیْتُ فَقَالَ اِنَّھَا لَرُوْیَا حَقٌ اِنَّ شَآءَ اﷲُ تَعَالٰی فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَیْہِ مَا رَأَیْت فَلْیُؤَذِّنْ بِہٖ فَاِنَّہُ اَنْدٰی صَوْتًا مِنْکَ فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ اُلْقِیْہٖ عَلَیْہِ وَیُؤَذِّنُ بِہٖ قَالَ فَسَمِعَ بِذٰلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَھُوَ فِیْ بَیْتِہٖ فَخَرَجَ یَجُرُّر دَأَہ، یَقُوْلُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ فَقَدْ رَأَیْتُ مِثْلَ مَأُرِیَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ الدَّرِامِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃُ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرِ الْاِ قَامَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ لَکِنَّہُ لَمْ یُصَرِّحْ قِصَّۃَ النَّا قَوْسِ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا تاکہ نماز کی جماعت میں لوگوں کے حاضر ہونے کے لیے اسے بجایا جائے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے (جاتا) ہے میں نے اس آدمی سے کہا کہ بندہ خدا! کیا تم یہ ناقوس بیچو گے؟ اس آدمی نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز ( کی جماعت ) کے لئے بلایا کریں گے ۔ اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا کہ ہاں ضرور بتاؤ! اس آدمی نے کہا کہ کہو اللہ اکبر تک اس نے اذان بتا کر پھر اسی طرح اقامت بھی بتائی، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خواب سن کر) فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ خواب سچا ہے، اب تم بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو کر جو کچھ خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائے جاؤ اور وہ اذان کہیں کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔ چنانچہ میں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں سکھلاتا گیا اور وہ اذان دیتے رہے۔ روای فرماتے ہیں کہ ، حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے مکان میں اذان کی آواز سنی تو (جلدی کی بنا پر) اپنی چادر کھینچتے ہوئے مکان سے باہر نکلے اور یہ کہتے ہوئے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے ( یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الحمد اللہ (یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں) یہ حدیث ابوداؤد ، دارمی، اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے مگر ابن ماجہ نے تکبیر کا ذکر نہیں کیا اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن انہوں نے ناقوس کے قصے کی تصریح نہیں کی ۔" تشریح حدیث کے پہلے جزء کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس بجانے کا حکم دے دیا تھا۔ بلکہ یہاں " حکم" کا مطلب یہ ہے کہ جب اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کیا اور کوئی مناسب تجویز ذہن میں نہیں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس بجانے کا حکم دینے کا ارادہ فرمایا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ ابن زید کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب کے ذریعے اس کی نوبت نہ آنے دی۔ یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی موید ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر اور اذان کے کلمات میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح اذان کے کلمات کو سوائے شروع میں اللہ اکبر اور آخر میں لا الہ الا اللہ کے دو دو مرتبہ کہا جاتا ہے اسی طرح تکبیر کے کلمات کو بھی دو مرتبہ کہا جاتا ہے البتہ تکبیر میں صرف قد قامت الصلوۃ کا اضافہ ہے جو اذان میں نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی کہ یہ " خواب سچا ہے" اب اس تصدیق کا تعلق یا تو وحی سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس خواب کے سچا ہونے کی خبر دے دی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے حق کہا یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کی بناء پر اس خواب کو سچا مانا۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا " انشاء اللہ " کہنا برکت اور اظہار طمانیت کے طور پر تھا۔ نہ کہ شک کے لیے۔ اذان کی آواز سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جو یہ کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب انہیں معلوم ہو گیا ہو کہ یہ اذان حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کے نتیجے میں کہی گئی ہے یا پھر انہیں اس خواب کا علم مکاشفہ کے ذریعے ہوگیا ہوگا۔ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ موذن کا بلند آواز اور خوش گلو ہونا مستحب ہے۔ آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ اذان کی مشروعیت ٢ھ میں ہوئی ہے مگر کچھ علماء کی تحقیق یہ ہے کہ اذان ہجرت کے پہلے سال مشروع ہوئی ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی بَکْرَۃَ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِصَلَاۃِ الصُّبْحِ فَکَانَ لَا یَمُرُّ بِرَجُلٍ اِلَّا نَادَاہُ بِالصَّلَاۃَ اَوْحَرَّکَہُ بِرِجْلِہٖ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صبح کی نماز کے لیے نکلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس آدمی کے پاس سے گزرتے تھے نماز کے لیے یا تو اسے آواز دیتے تھے یا اس کے پاؤں کو حرکت دے دیتے تھے۔" (ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی نماز کے وقت سو رہا ہو تو اس کو نماز کے لیے جگانا جائز ہے خواہ آواز دے کر جگایا جائے خواہ اس کا پاؤں وغیرہ ہلا کر۔
-
وَعَنْ مَالِکٍ بَلَغَہُ اَنَّ الْمُؤَذِّنَ جَآءَ عُمَرَ یُؤَذِنُہ، لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ فَوَجَدَہ، نَائِمًا فَقَالَ الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ فَاَمَرَہُ عُمَرُ اَنْ یَجْعَلَھَا فِی نِدَاءِ الصُّبْحِ۔ (رواہ موطائ)-
" اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ موذن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر صبح کی نماز کے لیے انہیں خبردار کر دیتا تھا چنانچہ (ایک دن) مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا پایا تو کہا (الصلوۃ خیر من النوم۔ نماز نیند سے بہتر ہے ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موذن کو حکم دیا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے۔" (موطا) تشریح بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کے کلمہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اضافہ کیا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ فجر کی اذان میں یہ کلمہ کہنا تو شروع ہی سے مسنون تھا ۔ اب اس حدیث کی توجیہات کی گئی ہیں لیکن زیادہ مناسب اور بہترین توجیہ یہ ہے کہ جب مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا دیکھ کر یہ کلمہ کہا تو انہیں ناگوار ہوا اور فرمایا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے یعنی یہ کلمہ فجر کی اذان ہی میں کہنا سنت ہے اسی موقع پر تمہیں یہ کلمہ کہنا چاہئے اذان کے سوا سوتے ہوئے کو جگانے کے لیے یہ کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ مُؤَذِّنُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ حَدَّثَنِی اَبِی عَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہٖ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَرَ بِلَا لًا اَنْ یَّجْعَلَ اِصْبَعَیْہِ فِی اُذُنَیْہِ وَقَالَ اِنَّہ، اَرْفَعُ لِصَوْتِکَ۔ (رواہ ابن ماجہ)-
" اور حضرت عبدالرحمن بن سعد بن عمار بن سعد موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد سعد نے اور انہوں نے اپنے والد عمار سے اور انہوں نے سعد کے دادا سے جن کا نام بھی سعد تھا سنا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ (اذان کہتے وقت) اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں دے لیا کریں کیونکہ اس سے آواز زیادہ بلند ہو جاتی ہے۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسجد قبا میں موذن تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہ اس مسجد میں اذان کہتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں اذان کہنا چھوڑ کر شام چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں مسجد قبا سے بلا کر مسجد نبوی میں اذان کہنے کی خدمت پر مامور فرمایا اور یہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس باسعادت خدمت کو انجام دیتے رہے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عمار رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تابعی مقبول ہیں اور ان کے بیٹے یعنی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے کا نام بھی سعد ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن مسطور ہیں اس طرح عمار کے والد حضرت سعد ان کے لڑکے سعد کے دادا ہوئے۔ چنانچہ یہ حدیث حضرت عبدالرحمن نے اپنے دادا حضرت سعد سے نقل کی ہے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمار سے نقل کی ہے جو تابعی ہیں اور انہوں نے اپنے والد مکرم حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے جو صحابیت کی سعادت سے مشرف ہیں۔ ابیہ اور جدہ دونوں کی ضمیریں لفظ ابی کی طرف راجع ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں اس لیے دی جاتی ہیں تاکہ آواز زیادہ سے زیادہ بلند ہو سکے اور اس میں شاید یہ حکمت ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھ لینے سے بلند آواز ہی موذن کے کان میں آئے گی اس لیے وہ اس کی کوشش کرے گا کہ جہاں تک ہو سکے۔ پورے زور سے چلا کر اذان کہے۔
-