TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان
ہر قرات صحیح ہے
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال : سمعت رجلا قرأ وسمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقرأ خلافها فجئت به النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرته فعرفت في وجهه الكراهية فقال : " كلاكما محسن فلا تختلفوا فإن من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا " . رواه البخاري-
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا کہ آپ کی قرات اس شخص کی قرات سے مختلف تھی چنانچہ میں اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صورت حال بیان کی (کہ اس شخص کی قرات آپ کی قرات سے مختلف ہے) پھر میں نے محسوس کیا کہ (میرے جھگڑے اور اختلاف کی وجہ سے) آپ کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے آثار نمایاں ہیں بہر کیف آپ نے فرمایا تم دونوں صحیح اور اچھا پڑھتے ہو (دیکھو) آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ وہ لوگ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (یعنی پہلی امتوں کے لوگ) وہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو گئے یعنی وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (بخاری) تشریح یہاں اختلاف سے مراد قرآن کے ان وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کا انکار ہے کہ جن کے مطابق قرآن کریم نازل کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی جتنی بھی قراتیں منقول اور رائج ہیں وہ سب برحق ہیں ان میں سے کسی ایک قرات کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر کسی شخص نے ان میں سے کسی ایک قرات کا بھی انکار کیا تو گویا اس نے قرآن کریم ہی کا انکار کیا اس موقع پر یہ تفصیل بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بعض قرآتیں تو متواتر ہیں اور بعض آحاد متواتر وہ سات قرآتیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں۔
-
وعن أبي بن كعب قال : كنت في المسجد فدخل رجل يصلي فقرأ قراءة أنكرتها عليه ثم دخل آخر فقرأ قراءة سوى قراءة صاحبه فلما قضينا الصلاة دخلنا جميعا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت إن هذا قرأ قراءة أنكرتها عليه ودخل آخر فقرأ سوى قراءة صاحبه فأمرهما النبي صلى الله عليه و سلم فقرآ فحسن شأنهما فسقط في نفسي من التكذيب ولا إذ كنت في الجاهلية فلما رأى رسول الله صلى الله عليه و سلم ما قد غشيني ضرب في صدري ففضت عرقا وكأنما أنظر إلى الله عز و جل فرقا فقال لي : " يا أبي أرسل إلي أن اقرأ القرآن على حرف فرددت إليه أن هون على أمتي فرد إلي الثانية اقرأه على حرفين فرددت إليه أن هون على أمتي فرد إلي الثالثة اقرأه على سبعة أحرف ولك بكل ردة رددتكها مسألة تسألنيها فقلت اللهم اغفر لأمتي اللهم اغفر لأمتي وأخرت الثالثة ليوم يرغب إلي الخلق كلهم حتى إبراهيم صلى الله عليه و سلم " . رواه مسلم-
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص وہاں آیا اور نماز پڑھنے لگا اس نے نماز ہی میں یا نماز کے بعد ایسی قرات پڑھی (یعنی ایسے لہجے میں قرآن شریف پڑھا) کہ میں نے اسے درست نہیں سمجھا پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے پہلے شخص کے خلاف طریقہ سے قرات پڑھی جب ہم سب نماز سے فارغ ہو چکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس(مسجد ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کی جگہ یا آپ کے حجرہ مبارک میں) حاضر ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت! اس شخص نے ایسی قرات پڑھی جسے میں نے درست نہیں سمجھا اس کے بعد یہ دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کے خلاف طریقہ سے قرات پڑھی ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر دونوں کو اپنے سامنے قرآن پڑھنے کا حکم دیا ان دونوں نے پڑھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کی قرات کی تحسین و توثیق کی یہ دیکھ کر میرے دل میں اس بات کی تکذیب کا وسوسہ پیدا ہو گیا ایسا وسوسہ اور شبہ جو ایام جاہلیت میں پیدا نہیں ہوا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ کیفیت دیکھی جو مجھ پر طاری تھی یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میرے دل میں تردد و شبہ پیدا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا تاکہ اس کی برکت سے وسوسہ ختم ہو جائے چنانچہ میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور خوف کی وجہ سے میری ایسی حالت ہو گئی کہ گویا میں خدا کو دیکھ رہا ہوں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ابی! جب قرآن نازل ہوا تو میرے پاس حضرت جبرائیل کے ذریعہ سے یہ حکم بھیجا گیا کہ میں ایک طریقہ یعنی ایک قرات پر یا ایک لغت پر قرآن پڑھوں میں نے بارگاہ الوہیت میں درخواست پیش کی کہ میری امت پر آسانی عطا فرمائی جائے تاکہ آسانی ہو بایں طور کہ ایک ہی قرات میں قرآن پڑھنا مشکل ہے اس لیے کئی قراتوں کے مطابق پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ آسانی ہو چنانچہ دوسری مرتبہ مجھے حکم یہ دیا گیا کہ میں دو قراتوں پر قرآن پڑھوں! میں نے پھر درخواست پیش کی کہ میری امت کو مزید آسانی عطا فرمائی جائے چنانچہ تیسری مرتبہ مجھے یہ حکم دیا گیا کہ میں قرآن کریم کو سات طریقوں سے یعنی سات لغات یا سات قرات کے مطابق پڑھوں اور یہ بھی فرمایا کہ جتنی مرتبہ ہم نے آپ کو حکم دیا ہے اتنی ہی مرتبہ آپ ہم سے دعا مانگئے ہم اسے قبول کریں گے چنانچہ میں نے بارگاہ الوہیت میں دو مرتبہ یہ دعا کی کہ اے اللہ میری امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کو بخش دے اے اللہ میری امت میں سے صغیرہ گناہ کرنے والوں کو بخش دے اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے رکھ چھوڑی ہے جس دن مخلوق مجھ سے سفارش و شفاعت کی خواہش کرے گی یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی مجھ سے شفاعت کی خواہش کریں گے۔ (مسلم) تشریح میرے دل میں تکذیب کا وسوسہ پیدا ہو گیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں قرأتوں کی تحسین وتوثیق کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے دل میں اس بات کی تکذیب کا وسوسہ اور شبہ اس لئے پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو دونوں قراتوں کو اچھا کہا حالانکہ قرآن کریم چونکہ اللہ رب العزت کا کلام ہے اس لیے وہ کسی ایک خاص طریقہ کے مطابق ہی پڑھا جانا چاہئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی کلام کوئی شخص کئی طریقہ سے پڑھیں اور ان سب کا پڑھنا درست ہو؟ ایسا وسوسہ اور شبہ جو ایام جاہلیت میں بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں چونکہ میرا قلب ودماغ ایمان یقین کی روشنی سے منور نہیں تھا۔ اس لئے اس حالت میں بڑے سے بڑا وسوسہ اور شبہ بھی اتنا بعید اور بڑا معلوم نہیں ہوتا تھا لیکن اب جب خدا کے فضل سے قلب و دماغ ایمان واسلام کے نور سے منور ہیں اور یقین ومعرفت کی دولت حاصل ہے تو یہ وسوسہ اور شبہ بھی بہت ہی زیادہ بڑا اور سنگین معلوم ہوا۔ جتنی مرتبہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا الخ۔ اس ارشاد ربانی کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے آپ کو تین مرتبہ حکم دیا یعنی ایک مرتبہ تو ایک قرات کے مطابق دوسری مرتبہ دو قرات کے مطابق اور تیسری مرتبہ سات قرات کے مطابق قرآن پڑھنے کا حکم دیا اب آپ ان تینوں مرتبہ کے عوض ہم سے تین سوال کیجئے تاکہ ہم تینوں کو پورا کریں۔ چنانچہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تینوں سوال اپنی امت کی مغفرت کے لئے ہی کئے کیونکہ اصل چیز تو مغفرت ہی ہے اگر مغفرت نہ ہو تو کسی کی نجات ممکن نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ا یت (وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین) (اے اللہ اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو بلاشبہ ہم ٹوٹا پانے والوں میں سے ہونگے) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر مغفرت کو تین زمروں میں تقسیم کیا دو مغفرت تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لئے یعنی گناہ کبیرہ اور صغیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے چاہی اور تیسری مغفرت کو تمام ہی مخلوق کے لئے قیامت کے دن پر چھوڑا اسی کو شفاعت کبریٰ کہتے ہیں یعنی قیامت کے دن جب سب ہی نفسی نفسی کہتے ہوں گے اور کوئی بھی نبی و پیغمبر مخلوق خدا کی شفاعت کی جرات نہیں کر پائے گا تو آخر کار شافع محشر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پروردگار کے حضور مخلوق خدا کی شفاعت کیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کی شفاعت کریں گے اسی طرح وہ تیسری دعا جس کی قبولیت کا وعدہ بارگاہ رب العزت سے اس وقت کیا گیا تھا اور جسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج کے لئے رکھ چھوڑا تھا وہ اس موقع پر کام آئے گا۔ اگرچہ پوری مخلوق یہاں تک کہ تمام ہی انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت کی آرزو و خواہش کریں گے لیکن اس جگہ حضرت ابراہیم کا نام بطور خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم تمام انبیاء میں آنحضر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہیں۔
-