TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
کھانوں کے ابواب
کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا کھانے میں برکت کا ذریعہ ہے ۔
وعن سلمان قال : قرأت في التوراة أن بركة الطعام الوضوء بعده فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " بركة الطعام الوضوء قبله والوضوء بعده " . رواه الترمذي وأبو داود-
اور حضرت سلمان کہتے ہیں کہ میں نے (اسلام قبول کرنے سے پہلے ) تورات میں پڑھا تھا کہ کھانے میں برکت کا ذریعہ کھانے کے بعد وضو کرنا چنانچہ (قبولیت اسلام ) کے بعد (ایک دن ) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (تورات کے اس مضمون کا ) ذکر کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھانے میں برکت کا ذریعہ کھانے سے پہلے وضو کرنا ہے اور کھانے کے بعد وضو کرنا ہے ۔ " (ترمذی ابوداؤد ) تشریح " وضو " سے مراد کھانے سے پہلے ہاتھوں کو اور کھانے کے بعد دونوں ہاتھوں اور منہ کو دھونا ہے کھانے سے پہلے وضو یعنی ہاتھ دھونا اس کھانے میں برکت کا ذریعہ اس طور پر ہوتا ہے کہ اس (ہاتھ دھونے ) کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کھانے میں زیادتی عطا فرماتا ہے اور کھانے کے بعد وضو کا اس کھانے میں برکت کا ذریعہ ہوتا یہ ہے کہ اس کی وجہ سے طبیعت کو سکون حاصل ہوتا ہے اور یہ (یعنی کھانے کے بعد ہاتھ منہ کا دھونا یا ہاتھ منہ دھونے سے طبیعت کو سکون حاصل ہونا ) عبادات، اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ میں تقویت و دل جمعی کا سبب ہوتا ہے ۔
-
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج من الخلاء فقدم إليه طعام فقالوا : ألا نأتيك بوضوء ؟ قال : " إنما أمرت بالوضوء إذا قمت إلى الصلاة " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي-
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا لایا گیا ۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم آپ کے سامنے وضو کا پانی لائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" مجھے (حدث کے بعد ) وضو کرنے کا حکم (بطریق وجوب ) اس صورت میں دیا گیا ہے جب کہ میں نماز کے لئے کھڑا ہونے کا ارادہ کروں " (ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ۔ " تشریح یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اغلب و اکثر کے اعتبار سے فرمایا کہ بطریق وجوب وضو کرنے کا حکم صرف نماز کے لئے ہے ورنہ سجدہ تلاوت کرنے ، قرآن مجید کو چھونے اور طواف کرنے کے لئے بھی وضو کرنا واجب ہے ۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یہ سمجھا کہ صحابہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ کھانے سے پہلے وضو شرعی کرنا واجب ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس اعتقاد کی نفی کو اچھی طرح واضح کرنے کے لئے اپنے ارشاد میں حصر کا اسلوب اختیار فرمایا اور یہ اس بات کے منفی نہیں ہے کہ کھانے سے پہلے وضو کرنا جائز بلکہ مستحب ہے ۔ لہٰذا یہاں " وضو " سے مراد وہی وضو ہے جو نماز کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ کھانے کا وضو یعنی ہاتھ اور منہ دھونا حدیث کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے ۔تاہم اگر اس جملہ الا ناتیک بوضوء (کیا ہم آپ کے لئے وضو کا پانی لائیں ؟ ) میں وضو سے مراد لیا جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے اور چونکہ کھانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا سنن اور آداب میں سے ہے نہ کہ واجب ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر تعلیم جواز کے پیش نظر اس کو ترک کیا اور اس صورت میں حدیث کا حاصل یہ ہو گا کہ یہ وضو یعنی کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھونا کہ جس کے لئے تم مجھ سے درخواست کرتے ہو کوئی واجب اور مامور نہیں ہے اگر میں اس کو ترک کروں یعنی کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ نہ دھوؤں تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ہاں یہاں ایک اور وضو ہے اور وہ نماز کا وضو ہے جو واجب ہے ۔
-