TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
کھانا زیادہ سے زیادہ کتنا کھایا جائے
وعن مقدام بن معدي كرب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ما ملأ آدمي وعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم أكلات يقمن صلبه فإن كان لا محالة فثلث طعام وثلث شراب وثلث لنفسه . رواه الترمذي وابن ماجه-
حضرت مقدام ابن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا " انسان (اگر اپنے پیٹ کو حد سے زیادہ بھر لے تو اس ) نے پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہی بھرا (کیونکہ پیٹ کو زیادہ بھرنے سے جو برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان کا کوئی شمار نہیں، ابن آدم کے لئے بس چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پشت کی ہڈی کو سیدھا اور کھڑا رکھیں تاکہ وہ اطاعت الٰہی کی بجاآوری اور بقدر ضرورت اپنی معاشی جدوجہد کو جاری رکھنے پر قادر رہ سکے، ہاں اگر ضروری ہو یعنی کوئی پیٹ بھرنا ہی چاہتا ہو اور کھانے کی کم سے کم مقدار کفایت پر قناعت نہ کرسکتا ہو تو اس کو چاہئے کہ پیٹ کے تین حصے کرے ایک حصہ کھانے کے لئے ہو ایک حصہ پانی کے لئے ہو اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لئے خالی چھوڑ دے تاکہ دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا نہ ہوجائے" (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح : جیسا کہ طیبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ واجب تو یہ ہے کہ کھانے کے معاملہ میں اس حد سے تجاوز نہ کیا جائے جو پیٹھ کو قائم رکھنے یعنی جسمانی توانائی کو برقرار رکھنے کے لئے کافی ہو اور یہ بھی اس لئے تاکہ خدا کے احکام بجالانے کی طاقت وقدرت حاصل رہے، ہاں اگر کوئی شخص اس حد کفایت پر قناعت نہ کرسکے اور وہ اس حد سے تجاوز کرے یعنی زیادہ مقدار میں کھانے کی خواہش رکھے تو وہ بھی بس اسی قدر زیادہ کھائے جو پیٹ کے تین حصوں میں سے ایک حصے کو بھر دے، باقی دوحصوں میں سے ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ خالی رہنا چاہئے اپنی خوراک کی مقدار میں اس آخری حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں پہلے تو پیٹ کو ان معمولی برتنوں کی طرح ایک برتن قرار دیا گیا ہے جو گھر کی ضروریات میں کام آتے ہیں اور اس طرح یہ اشارہ فرمایا گیا کہ پیٹ ایک بے حیثیت چیز ہے، پھر یہ واضح فرمایا کہ برتنوں میں بھی (یہ پیٹ) گویا سب سے برا برتن ہے کیونکہ عام طور پر تمام برتن انہی کاموں میں استعمال کیے جاتے ہیں جن کے لئے ان کو بنایا گیا ہے، اس طرح پیٹ کا اصل موضوع یہ ہے کہ اس میں خوراک کی بس اتنی مقدار ڈالی جائے جو جسمانی توانائی کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہو اور اگر اس کو ضرورت سے زیادہ بھرا جائے تو نہ صرف اس کے مقصد سے تجاوز ہوگا بلکہ اس کی وجہ سے ایسی برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوں گی جو دین ودنیا دونوں کو نقصان پہنچائیں گی اس اعتبار سے پیٹ گویا سب سے برا برتن ہوا۔ بھوک کے دس فوائد : " بھوک" بظاہر بڑا بھیانک لفظ ہے اور آج کی دنیا کا نہایت سنگین مسئلہ ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اگر بھوک کا تعلق " قوت لایموت" تک کے فقدان سے ہو اور کوئی انسان نان جویں کی اس مقدار سے بھی محروم رہے جس کا بقاء زندگی کے لئے پیٹ میں پہنچنا ضروری ہے تو واقعۃ وہ " بھوک" انسان کے لئے پیغام اجل سے کم نہیں، لیکن اگر " بھوک" سے مراد کم کھانا، یا وقتا فوقتا فاقہ ہو، تو وہ بھوک بھی ہماری اس دنیا کے نقطہ نظر سے چاہے کتنا ہی سنگین مسئلہ ہو مگر حقیقت میں اس بھوک کے جو فوائد ہیں علامہ طیی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور روحانی نقطہ نظر سے ہیں ان کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بعض حضرات نے ان فوائد کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے، چنانچہ ایک اونچے درجہ کے اسلامی محقق اور عارف باللہ حضرت شیخ ابوحامد رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بھوک میں دس فوائد پوشیدہ ہیں۔ اول یہ کہ قلب اور بصارت کی صفائی حاصل ہوتی ہے کیونکہ پیٹ کا بھرا ہوا ہو ہونا طبیعت کو سست وکند، قلب کو بوجھل اور دماغ پر انجارات کو غلبہ کردیتا ہے، دوسرے یہ کہ قلب میں رقت ونرمی اور پاکیزگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے دل یاد الٰہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تیسرے یہ کہ طبیعت ومزاج میں انکسار پیدا ہوتا ہے اور اس تکبر وحرص اور عشرت پسندی کا خاتمہ ہوتا ہے جو طغیان وسرکش کا مبداء ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کا نفس ، جس قدر انکسار پسند بھوک کی حالت میں ہوتا ہے کہ اس قدر انکسار اور کسی چیز سے پیدا نہیں ہوتا۔ چوتھے یہ کہ عذاب الٰہی آفات وبلاء قدرت اور اہل بلاء فراموش نہیں ہوتے، چنانچہ جو لوگ ہر وقت اپنا پیٹ بھرا رکھتے ہیں وہ نہ تو بھوک کی ازیت کو محسوس کرسکتے ہیں اور نہ بھوکوں کو یاد کرسکتے ہیں۔ پانچویں یہ کہ نیند کا غلبہ کم ہوتا ہے اور بیداری کی کیفیت طاری رہتی ہے ، کیونکہ جو شخص پیٹ کو کھانے سے بھر لیتا ہے وہ پانی بھی بہت پیتا ہے، زیادہ پانی پینا، نیند کی زیادتی کا سبب ہوتا ہے اور نیند کی زیادتی نہ صرف یہ کہ عبادت وطاعت، جیسے تہجد وغیرہ کو فوت کرتی ہے، طبیعت کو مکدر اور دل کو سخت بناتی ہے بلکہ زیادہ سونا، گویا عمر کو ضائع کرنا ہے، اور ظاہر ہے کہ عمر، بہت اعلی جوہر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا نہیں کیا ہے کہ اس کو بیکار گنوایا جائے بلکہ اس کو انسان کے حق میں راس المال بنایا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے دینی ودنیاوی معاملات کی صلاح وفلاح کے امور انجام دے۔ علاوہ ازیں نیند ایک طرح کی موت ہے ۔ لہٰذا اپنے اوپر نیند کو غالب رکھنا گویا عمر کو چھوٹی کرنا ۔ چھٹے یہ کہ عبادت وطاعت کی پابندی وہمیشگی حاصل ہوتی ہے کیونکہ جو شخص زیادہ کھاتا ہے اس کے اوقات کا زیادہ حصہ کھانے پینے کی مشغولیت میں صرف ہوتا ہے مثلاً اس کو کچھ وقت تو بازار سے سودا سلف لانے اور اشیاء خوراک کی فراہمی میں لگانا پڑتا ہے، کچھ وقت کھانے کی تیاری میں صرف ہوتا ہے، کھانا کھاتے وقت بھی کافی وقت دینا پڑتا ہے اور پھر کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے اور کھانے کے بعد منہ کی صفائی اور خلال کرنے اور بار بار پانی کے لئے پانی کی جگہ آنے جانے جیسے کاموں میں بھی کافی وقت صرف ہوتا ہے، غرضیکہ بہت ہی وقت کا خرچ ہے اور اگر ان اوقات کو کھانے پینے کی مشغولیات سے بچا کر عبادت وطاعت اور ذکر ومناجات میں لگائے تو کہیں زیادہ فائدہ حاصل کرے۔ مشہور عالم اور بزرگ حضرت علامہ تستری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت علی جرجانی رحمہ اللہ کو ستو پھانکتے دیکھا تو عرض کیا کہ حضرت ایسی کون سی وجہ پیش آگئی جو آپ ستو پھانک رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ بھئی کیا پوچھتے ہو، میں نے ایک دن حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ایک چپاتی کھانے کے دوران اتنا وقت صرف ہوتا ہے جتنا کہ ستر تسبیحات پڑھنے میں (میں نے سوچا کہ اس طرح تو روٹیاں کھانے میں بہت وقت لگتا ہے اور اس وقت کو بچا کر دوسرے مفید کاموں میں صرف کیا جاسکتا ہے) لہٰذا میں نے روٹیاں کھانے چھوڑ دیں اور چالیس برس سے ایک چپاتی بھی نہیں کھائی ہے بلکہ بھوک کی شدت کم کرنے کے لئے وقتا فوقتا ستو پھانک لیا کرتا ہوں۔ ساتویں یہ کہ کم کھانے کی وجہ سے بدن کی صحت وتندرستی بحال رہتی ہے اور امراض کا دفعیہ ہوتا ہے کیونکہ اکثر امراض کا سبب کھانے کی زیادتی اور کھانے پینے میں بے اعتدالی ہوتی ہے، پھر زیادہ کھانے کی وجہ سے امراض صرف پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ عبادت سے باز رکھتے ہیں اور تشویش وفکر میں مبتلا کردیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کا بڑا حصہ، حکیم ڈاکٹر کے پاس آنے جانے، علاج معالجہ کرنے ، اور دواء وغیرہ کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے اور سب چیز جو محنت مشقت اور پریشانی برداشت کرنا پڑتی ہے وہ اس کے علاوہ ہوتی ہے لہٰذا انسان اگر کم کھانے اور وقتا فوقتا فاقہ کرتا رہے تو ان پریشانیوں سے نجات مل جائے۔ آٹھویں یہ کہ حصل معاش کی جدوجہد اور روزی کمانے کی محنت مشقت زیادہ نہیں کرنا پڑتی، کیونکہ جو شخص کم کھانے کی عادت ڈال لیتا ہے اس کے لئے تھوڑی سی محنت مشقت سے حاصل کیا ہوا تھوڑا سا مال واسباب بھی کافی ہوجاتا ہے، نویں یہ کہ ایثار واحسان اور صدقہ وخیرات کے داعیہ کو پورا کرنے پر آسانی سے قدرت حاصل ہوتی ہے، یعنی کم کھانے کی صورت میں جو کھانا اپنی خوراک سے بچ جاتا ہے اس کو غریب ومسکین اور فقیر ومحتاج کو بطور صدقہ دینا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ صدقہ وخیرات کرنے والا شخص قیامت کے دن اپنے اس صدقہ وخیرات کے سایہ میں رحمت خداوندی سے بہرہ مند ہوگا، نیز یہ حقیقت بھی سامنے آنی چاہئے کہ انسان جو کچھ خود کھاتا پیتا ہے اس کو تو وہ گویا بیت الخلاء میں جا کر جمع کردیتا ہے اور جو کچھ فقیر ومحتاج پر صدقہ وخیرات کرتا ہے اس کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت کردیتا ہے کہ وہ وہاں سے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بہت جزاء پائے گا۔ اور دسواں یہ کہ جو بھوک کے مذکورہ بالا فائدوں میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان خواہشات وجذبات کی بیخ کنی ہوتی ہے جو انسان کو ہر طرح کے گناہ پر ابھارتے ہیں اور نفس امارہ پر غلبہ وقابو حاصل ہوجاتا ہے، کیونکہ کم کھانا ہر طرح کی نفسانی خواہش کو مارتا ہے اور شہوانی خواہشات کو مضمحل کردیتا ہے اور یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ دین ودنیا کی تمام سعادتیں اور بھلائیاں اس امر میں پوشیدہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کا مالک اور اس پر قابو یافتہ ہو اور ہر طرح کی شقاوت وبدبختی اس میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے نفس کا غلام بن جائے اور خود پر اس کو قابو دے دے۔
-