TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان
کن لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا درست نہیں ہے؟
وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي " . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي-
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ نہ تو غنی کے لیے زکوۃ کا مال لینا حلال ہے اور نہ تندرست و توانا کے لیے جو محنت مزدوری کرنے کے قابل ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد ، دارمی اور حمد، نسائی و ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ تشریح غنی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول تو وہ شخص جس پر زکوۃ فرض ہوتی ہے گویا وہ شخص نصاب نامی کا مالک ہو اور اس کے نصاب پر ایک سال گزر گیا ہو دوم وہ شخص جو مستحق زکوۃ نہیں ہوتا اور اس پر صدقہ فطر قربانی کرنا واجب ہوتا ہے گویا وہ شخص کہ جس کے پاس ضرورت اصلیہ کے علاوہ بقدر نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال ہو، سوم وہ شخص جس کے صدقہ کا مال تو حلال ہو لیکن اسے دست سوال دراز کرنا حرام ہو، گویا وہ شخص جو ایک دن کے کھانے اور بقدر ستر پوشی کپڑے کا مالک ہو۔ " تندرست و توانا " کا مطلب یہ ہے کہ کہ جس طرح غنی کے لیے زکوہ کا مال حلال نہیں ہے اسی طرح اس شخص کے لے زکوۃ حلال و جائز نہیں ہے جو تندرست و توانا ہو یعنی اس کے اعضاء صحیح و سالم اور قوی ہوں نیز وہ اتنا کمانے پر قادر ہو کہ اس کے ذریعے اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پال سکے چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک اسی حدیث کے مطابق ہے کہ ان کے نزدیک کسی ایسے شخص کے لیے زکوہ کا مال لینا حلال نہیں ہے جو کمانے کے قابل ہو لیکن حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر اس شخص کو زکوۃ لینی حلال ہے جو نصاب مزکورہ کا مالک نہ وہ اگرچہ وہ تندرست و توانا اور کمانے کے قابل ہی کیوں نہ ہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ضرورت مند صحابہ رضی اللہ عنہم کو صدقات و زکوۃ کا مال دیتے تھے جو توانا و تندرست بھی تھے اور کمانے قابل بھی تھے اور آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی معمول رہا لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا یا تو یہ منسوخ ہے یا پھر یہ کہ اس حدیث کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور محنت مزدوری کر کے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اس باب معیشت فراہم کرنے کی قدرت و طاقت رکھتا ہو اس کے لیے یہ بہتر اور مناسب نہیں ہے کہ وہ زکوۃ و صدقات کا مال لے کر اس ذلت و کمتری پر مطمئن و راضی ہو اور معاشرے کا ایک ناکارہ شخص بن جائے بلکہ اس کے لیے تو بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے بازوؤں کے سہارے خود کمائے محنت کرے اور اس طرح سماج و سوسائٹی میں باوقار زندگی بسر کرے۔
-