کمال قرب وتعلق کا اظہار

عن عمران بن حصين أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إن عليا مني وأنا منه وهو ولي كل مؤمن " . رواه الترمذي-
" حضرت عمران ابن حصین سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں نیز وہ علی تمام اہل ایمان کے دوست ومددگار ہیں ۔" (ترمذی ) تشریح : " علی مجھ سے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " یہ ارشاد گرامی دراصل کمال قرب وتعلق اخلاص ویگانگت اور نسب ونسل میں باہم اشتراک سے کنایہ ہے وہ (علی ) تمام اہل ایمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان الفاظ میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے (اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ) 5۔ المائدہ : 55) " تمہارے دوست ومدد گار تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اہل ایمان ہیں جو اس طرح نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں کہ ان میں خشوع ہوتا ہے ۔"
-
وعن زيد بن أرقم أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " من كنت مولاه فعلي مولاه " . رواه أحمد والترمذي-
اور زید ابن ارقم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں جس کا دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں ۔ تشریح : اس حدیث کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کو علی بھی دوست رکھتے ہیں اور ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص میرا حامی ومدد گار اور دوست ہے اس کے حامی ومدد گار اور دوست علی ہوتے ہیں ، اس حدیث کی باقی وضاحت آگے تیسری فصل میں آرہی ہے ۔
-
وعن حبشي بن جنادة قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " علي مني وأنا من علي ولا يؤدي عني إلا أنا وعلي " رواه الترمذي ورواه أحمد عن أبي جنادة-
اور حضرت حبشی بن جنادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ، میری طرف سے (نبذعہد کی ذمہ داری ) کوئی ادا نہیں کرے علاوہ میرے اور علی کے (ترمذی اور احمد نے اس روایت کو " ابوجنادہ " سے نقل کیا ہے ۔" تشریح : کسی معاہدہ کو اس طرح توڑنا کہ فریق ثانی کو پہلے سے مطلع کردیا گیا ہو " نبدعہد " کہلاتا ہے دراصل اہل عرب میں یہ اصول رائج تھا کہ جب دو فریقوں کے درمیان کسی صلح اور مقفیہ باہمی کا وصل قرار ہوتا یا کسی صلح اور معاہدہ کو توڑنا ہوتا تو اس سلسلہ کی ضروری کاروائی اور بات چیت کی ذمہ داری ہر فریق میں سے صرف وہ شخص انجام دیتا ہے جو اپنی قوم وجماعت کا سردار اور سربراہ ہوتا ، یا پھر اس کی عدم موجودگی میں اسکی نیابت صرف وہ شخص کرسکتا تھا جو اس (سردار وسربراہ ) کا قریب ترین عزیزورشتہ دار ہوتا ، اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ٩ھ کے حج کے موقع پر بعض اہم دینی وملی مصروفیات کے سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف نہ لے جاسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ حضرت ابوبکر کو" امیرالحج " بنا کر مکہ روانہ کیا حضرت ابوبکر کی روانگی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت علی کو مکہ روانہ کیا اور ان کو اپنی طرف سے یہ ذمہ داری سپرد کی کہ وہ حج کے موقعہ پر اس صلح نامہ اور معاہدہ کی منسوخی کے فیصلہ کا اعلان کریں جو تین سال قبل ٦ھ میں حدیبیہ کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے درمیان عمل میں آیا تھا ، سورت براہ ( سورت توبہ ) مشرکوں کو پڑھ کر سنائیں جس میں اس بات سے متعلق آیتیں نازل ہوئی تھیں ، اور یہ اعلان کردیں کہ مشرک نجس وناپاک ہیں اس کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے پاس نہ آئے اور اس ضمن میں جو دوسرے احکام وفرامین نازل ہوئے ہیں ان سے سب کو آگاہ کردیں اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث ارشاد فرمائی جس کا مقصد حضرت علی کی عزت افزائی بھی تھا اور حقیقت میں مذکورہ ذمہ داری حضرت ابوبکر کے سپرد کئے جانے کا عذر بیان کرنا بھی تھا کہ" امیر الحج" ہونے کی حیثیت سے اس سفر حج میں دربار رسالت کانمائندہ اول تو ابوبکر ہیں لیکن عرب میں رائج اصول کی مجبوری کے تحت نقض عہد (معاہدہ کی منسوخی ) کے اعلان کی ذمہ داری علی کے سپرد کی گئی ہے ، اسی لئے حضرت ابوبکر نے حضرت علی سے اسی وقت وضاحت کرالی تھی جب وہ پیچھے سے آکر ان کے قافلہ میں شامل ہوئے کہ تم " امیر" ہو کر آئے ہویا " مامور " ہو کر حضرت علی نے واضح کیا کہ میں " امیر" ہو کر نہیں آیا ہوں " مامور " ہو کر آیا ہوں ۔ اس واقعہ سے محققین یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس میں درحقیقت اس طرف اشارہ تھا کہ علی کی خلافت ابوبکر صدیق کی خلافت کے بعد قائم ہوگی ۔
-
وعن ابن عمر قال : آخى رسول الله صلى الله عليه و سلم بين أصحابه فجاء علي تدمع عيناه فقال : آخيت بين أصحابك ولم تؤاخ بيني وبين أحد . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنت أخي في الدنيا والآخرة " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب-
" اور حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کرایا ، تو حضرت علی اس حال میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ) آئے کہ آنکھوں سے آنسوجاری تھے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور صحابہ کے درمیان تو بھائی چارہ قائم فرما دیا لیکن کسی سے میرا بھائی چارہ قائم نہیں کیا ؟ (یہ سن کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے ) تم میرے بھائی ہودنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔" تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ دی وہ باشندگان مدینہ یعنی انصار اور مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین کے درمیان برادرانہ بنیادوں پر مخلصانہ ومستحکم تعلق قائم کرانا تھا ، چنانچہ مدینہ پہنچنے کے پانچویں ہی ماہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن تمام انصار اور مہاجرین کو جمع کر کے اخوت اسلامی کا آفاقی فلسفہ پیش کیا اور انفرادی سطح پر عموما ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا ۔ حضرت علی ان چند صحابہ میں سے ایک تھے جن کا کسی کے ساتھ بھائی چارہ قائم نہیں ہوا تھا اس پر حضرت علی کو سخت ملال ہوا اور وہ سمجھے کہ شاید مجھے نظر انداز کردیا گیا ہے ، لہٰذا وہ روتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور شکوہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے صحابہ جیسے ابوبکر اور خارجہ ابن انصاری کے درمیان حضرت عمر فاروق ، اور حضرت عتبان بن مالک انصاری کے درمیان حضرت عثمان بن عفان اور حضرت ثابت بن منذر انصاری کے درمیان اور حضرت سلمان اور حضرت ابودرداء انصاری وغیرہ وغیرہ کے درمیان توبھائی چارہ قائم کرکے ان کو ایک دوسرے کا دینی بھائی بنادیا ہے لیکن کسی انصاری صحابی کے ساتھ میرا بھائی چارہ قائم نہیں فرمایا ، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارا بھائی موجود ہوں ، دنیاوی رشتہ وقرابت کے اعتبار سے بھی ، تو پھر تمہیں کیا ضروت ہے کہ کسی کے ساتھ تمہارا بھائی چارہ قائم کراؤں ۔
-