TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
ذکراللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان
کلام نافع
وعن أم حبيبة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كل كلام ابن آدم عليه لا له إلا أمر بمعروف أو نهي عن منكر أو ذكر الله " . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث غريب-
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابن آدم کا ہر کلام اس کے لئے وبال ہے علاوہ اس کلام کے جو امر بالمعروف (نیکی کی تاکید و تعلیم کرنے ) نہی عن المنکر (برائی سے بچنے کی تلقین) یا اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہو۔ اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا نیز ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اس حدیث سے بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی کلام اور بات چیت میں کوئی قسم مباح نہیں ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی شرعی طور پر ناپسندیدہ اور غیر درست کلام اور گفتگو سے روکنے کے لئے تاکید اور مبالغہ پر محمول ہے اور ویسے بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ مباح کلام عقبی وآخرت کے اعتبار سے نہ تو نافع ہوتا ہے نہ اس کا کوئی اثر مرتب ہوتا ہے ۔ آخرت میں تو وہی کلام نافع اور سود مند ہو گا جو محض دینی تقاضا کے پیش نظر ہو مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ذکر اللہ یا پھر اس طرح کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی مفہوم کے اعتبار سے یوں ہے کہ ابن آدم کا ہر کلام اس کے لئے باعث حسرت ہے کہ اس کے لئے اس میں کوئی منفعت نہیں علاوہ اس کلام کے جس کا تعلق امر باالمعروف و نہی عن المنکر، ذکراللہ، اور انہیں کی دوسری باتوں سے ہو۔ اس تاویل سے نہ صرف یہ کہ تمام مذکورہ احادیث میں مطابقت پیدا ہو جائے گی بلکہ وہ اشکال اور اضطراب بھی باقی نہیں رہے گا جو مباح کلام کے سلسلہ میں پیدا ہو سکتا ہے۔
-
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تكثروا الكلام بغير ذكر الله فإن كثرة الكلام بغير ذكر الله قسوة للقلب وإن أبعد الناس من الله القلب القاسي " . رواه الترمذي-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ ذکر اللہ کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو کیونکہ ذکر اللہ کے بغیر کلام کی کثرت دل کی سختی کا باعث ہے اور یاد رکھو کہ آدمیوں میں اللہ سے دور سب سے وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ (ترمذی) تشریح کثرت کلام کو دل کی سختی کا باعث اس لئے بتایا گیا ہے کہ عام طور پر بہت زیادہ بولنے والا شخص اپنی ہی بات کہنا اور منوانا چاہتا ہے وہ صحیح اور مبنی برحق بات سنتا ہی نہیں اور نہ اپنی بات کے علاوہ کسی بات کو صحیح سمجھتا ہے چاہے وہ حقیقت سے کتنی ہی قریب کیوں نہ ہو اس کی سب بڑی خواہش لوگوں سے اختلاط و ارتباط ہوتی ہے خوف خدا اس کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا اور آخرت سے غفلت اس کا شعار ہوتا ہے۔
-