TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
کفار وفجار کو دنیاوی مال ودولت کا ملنا گویا انہیں بتدریج عذاب تک پہنچانا ہے
وعن عقبة بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " إذا رأيت الله عز وجل يعطي العبد من الدنيا على معاصيه ما يحب فإنما هو استدراج " ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( فلما نسوا ماذكروا به فتحنا عليهم أبواب كل شيء حتى إذا فرحوا بما أوتوا أخذناهم بغتة فإذا هم مبلسون ) رواه أحمد-
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اس کے گناہ ومعصیت میں مبتلا ہونے کے باوجود اس کی محبوب ترین چیزیں (یعنی دنیاوی مال ودولت اور جاہ وحشمت وغیرہ ) دیتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ (یعنی اس کو اس کی محبوب ترین چیزیں دینا) استدراج ہے۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استشہاد کے طور پر یہ آیت تلاوت فرمائی : (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِه فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْ ا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ) 6۔ الانعام : 44) جب کافر اس نصیحت کو بھول گئے جو انہیں کی گئی تھی (یعنی اللہ تعالیٰ کا عہد، یا یہ کہ جب انہوں نے حق تعالیٰ کی نافرمانی کی) تو ہم نے ان پر (دنیا کی نعمتوں کی) ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہوئے جو انہیں دی گئی تھیں (یعنی جاہ ومال صحت وخوشحالی اور درازیئ عمر اور دیگر نعمتیں) تو ہم نے ان کو (اپنے عذاب میں) پکڑ لیا اور وہ نہایت حیران وششدر رہ گئے " رواہ احمد) تشریح : لغت میں " استدراج" کے معنی ہیں درجہ بدرجہ سے جانا! جیسے کسی کو اوپر پہنچانے کے لئے زینہ کی ایک پیڑی پر چڑھا جائے پھر دوسری پیڑی پر چڑھا جائے اور پھر تیسری پیڑی پر، اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک پیڑی پر چڑھاتے ہوئے اس کو آخرت لے جایا جائے! اور بندہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کا استدراج یہ ہے کہ جب کوئی انسان گناہ ومعصیت میں مبتلا ہو تو اس کو دنیا کی خوش کن نعمت عطا کرے یا اس کی کوئی بات یا خواہش پوری کردے اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے تاکہ وہ انسان یہ گمان کرے کہ یہ میرے حق میں پروردگار کی طرف سے لطف وکرم ہے، چنانچہ اپنی کھال میں مست رہے کہ نہ تو اپنی بدعملیوں سے توبہ کرنے کی طرف متوجہ ہو اور نہ اپنے گناہ پر استغفار کرے اور پھر ایک دم عذاب خداوندی میں پکڑا جائے پس یہ گویا حق تعالیٰ کی طرف سے اس بندہ کو بتدریج عذاب کی طرف لے جانا ہے جیسا کہ کسی کو درجہ بدرجہ چڑھا کر اوپر لے جایا جائے اور پھر اچانک اس کو وہاں سے نیچے پھینک دیا جائے۔ حاصل یہ کہ جس گناہ گار یا کافر کو دنیا کی ترقی یا بھلائی حاصل ہوجائے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ اس کو نواز رہے ہیں بلکہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اس کی تمام تر دنیاوی ترقی و کامیابی دراصل اس کو بتدریج اس مرحلہ تک پہنچانا ہے جہاں اچانک عذاب خداوندی اس کو تباہ وبرباد کردے گا۔، خواہ وہ مرحلہ کتنے ہی طویل عرصہ کے بعد آئے۔
-