کسی بیماری کا متعدی ہونا بے حقیقت بات ہے

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى ولا هامة ولا صفر . فقال أعرابي يا رسول فما بال الإبل تكون في الرمل لكأنها الظباء فيخالها البعير الأجرب فيجر بها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن أعدى الأول . رواه البخاري .-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کسی بیماری کا ایک دوسرے کو اڑ کر لگنا 'ہامہ " اور صفر، اس سب کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ (ایک دیہاتی نے کہ جو اپنے ناقص مشاہدے و تجربہ کی بنا پر خارش کو متعدی بیماری سمجھتا تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! تو پھر ان اونٹوں کے بارے میں کہا جائے گا (جو اپنی تندرستی اور اپنی کھال کی صفائی ستھرائی کے اعتبار سے) ہرن کی مانند ریگستان میں دوڑے پھرتے ہیں، لیکن جب کوئی خارشی اونٹ ان میں مل جاتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی خارش زدہ بنا دیتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اچھا تو یہ بتاؤ ) پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ بنایا ؟ یعنی خارش پیدا ہونے کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی سے اڑ کر لگے لہٰذا جس طرح ان تندرست اونٹوں میں آملنے والے خارش زدہ اونٹ میں خارش کا پیدا ہونا بتقدیر الہٰی ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے اونٹوں کا خارش زدہ ہونا جانا بھی حکم الہی کے تحت اور نظام قدرت کے مطابق ہوتا ہے ( مسلم )
-
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى ولا هامة ولا نوء ولا صفر . رواه مسلم .-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دوسرے کو بیماری لگنا ہامہ نوء اور صفر کی حقیقت نہیں ہے ( مسلم ) تشریح نوء کا مطلب ہے کہ ایک ستارہ کا غروب ہونا اور دوسرے کا طلوع ہونا اہل عرب کے خیال میں بارش کا ہونا یا نہ ہونا ستاروں کے اسی طلوع و غروب کے زیر اثر ہے جیسا کہ علم نجوم پر اعتقاد رکھنے والے لوگ کہا کرتے ہیں کہ بارش کا تعلق پخھتروں سے ہے کہ فلاں فلاں پنھتر اگر فلاں فلاں تاریخ میں پڑ جائیں اور ان تاریخیوں میں بارش ہو جائے تو آگے چل کر برسات کے مہینوں میں فلاں فلاں تاریخوں میں بارش ہوگی نہل میں لکھا ہے کہ نوء کی جمع انواء ہے جس کے معنی قمر کے ہیں منازل یعنی نچھتروں کے ہیں اور وہ منازل اٹھائیس ہیں قرآن کریم کی آیت کریمہ (وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ) 36۔یس : 39) میں ان ہی منازل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ اہل عرب نزول باراں کو انہی منازل کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جب چاند ان سے فلاں فلاں منازل میں آتا ہے تو بارش یقینا ہوتی ہے گویا ان کے نزدیک چاند کا ان منازل میں آنا بارش ہونے کی علت اور مؤثر حقیقی کا درجہ رکھتا ہے ۔ چنانچہ شارع علیہ السلام نے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے اور واضح کیا کہ بارش کا ہونا محض حکم الہٰی پر منحصر ہے نہ کہ کسی سبب اور علت سے متعلق ہے لیکن واضح رہے کہ اس نفی و ابطال کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ تاثیر علت کا اعتقاد ہو ہاں منازل میں چاند کے آنے کو نزول باراں کا ایک ظاہری سبب سمجھا جائے ۔ یعنی یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بارش برساتا ہے جب کہ چاند اپنی اپنی فلاں منزل میں آتا ہے اور وہ وقت علت کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ محض ایک ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے کہ حق تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس وقت سے پہلے یا اس کے بعد بارش برسائے اور اگر چاہے تو اس وقت بھی نہ برسائے تو یہ عقیدہ نہ کفر کے دائرے میں آئے گا اور نہ اس کو باطل کہا جائے گا ۔ اگرچہ امام نووی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ بھی کفر کا سبب ہے کیونکہ نزول باراں کو چاند اور اس کے منازل سے کسی بھی طرح متعلق کرنا اول تو اہل کفر کا شعار ہے دوسرے مذکورہ صورت (اگرچہ علیت کے عقیدہ کو ظاہر نہیں کرتی مگر موہم علیت تو یقینا ہے، اس بارے میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ حدیث مذکورہ ممانعت مطلق (بلا استثناء) ہے کہ اس کا تعلق علیت کے عقیدے سے بھی ہے اور اس صورت سے بھی ہے جس میں چاند اور اس کی منازل کو محض ایک ظاہری سبب سمجھا جائے، کیونکہ اول تو اس ارشاد کا مقصود عقیدے کی گمراہی وفساد کا سد باب ہے دوسری ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس سے اس کا جواز کسی بھی صورت میں ثابت ہو ۔ حاصل یہ کہ جب بارش ہو، اس طرح نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بارش ہوئی ہے ۔
-