کثرت سجدہ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا ذریعہ ہے

وَعَنْ رَّبِےْعَۃَ بْنِ کَعْبٍ ص قَالَ کُنْتُ اَبِےْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَتَےْتُہ، بِوَضُوْۤئِہٖ وَحَاجَتِہٖ فَقَالَ لِیْ سَلْ فَقُلْتُ اَسْاَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ اَوْ غَےْرَذَالِکَ قُلْتُ ھُوَ ذَاکَ قَالَ فَاَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ربیعہ ابن کعب ( حضرت ربیعہ بن کعب نام اور ابوفراس کنیت ہے۔ آپ سفر و حضر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور ٢٣ ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ ) فرماتے ہیں کہ میں رات کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتا تھا اور وضو کا پانی دوسری ضروریات (مثلاً مسواک، جائے نماز وغیرہ) پیش کیا کرتا تھا (ایک روز) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ " (دین و دنیا کی بھلائیوں میں سے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو) مانگو! میں نے عرض کیا " میری درخواست تو صرف یہ ہے کہ جنت میں مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہو۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ " (جس مرتبے کو تم پہنچنا چاہتے ہو یہ تو بہت عظیم ہے اس کے سوا) کچھ اور مانگو۔" میں نے عرض کیا " میری درخواست تو بس یہی ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سو اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے ) تم کثرت سے سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔" (صحیح مسلم) تشریح ربیعہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات پیش کرنے پر معمور تھے ۔ اس لیے ان کی اس خدمت اور جذبہ اطاعت و فرمانبردای کے صلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم دین و دنیا کی جو بھی بھلائی چاہتے ہو مانگ لو۔ ظاہر ہے کہ ایک وفادار خادم اور جاں قربان کرنے والا غلام اس سے بڑی اور کیا تمنا رکھ سکتا ہے کہ اس کا وہ آقا جس کی خدمت نے اس کو دین و دنیا کی عظیم سعادتوں سے نواز رکھا ہے جنت میں بھی اسے ان کی رفاقت کی سعادت حاصل ہوجائے چنانچہ انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری سب سے بڑی تمنا اور سب سے بڑی خواہش تو بس یہی ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس دنیا میں اپنے قدموں میں جگہ دے رکھی ہے اسی طرح جنت کی پر سعادت فضا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہو جائے، پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ یہ اس کے علاوہ کچھ اور مانگ لیں مگر جب دیکھا کہ انہیں اپنی اس خواہش پر اصرار ہے تو فرمایا کہ " اس عظیم مرتبے اور اس بڑی سعادت کو حاصل کرنے کے لیے تم کثرت سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ یعنی اگر تمہارا یہی اصرار ہے اور تم اسی خواہش کی تکمیل چاہتے ہو تو پھر آؤ تم کو میں ایک ایسا راستہ بتا دیتا ہوں جو تمہاری منزل مقصود تک جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا اپنا تو کام یہ ہونا چاہئے کہ نماز پڑھتے رہو اور بارگاہ خداوندی میں کثرت سے سجدے کر کے اپنی عجز و بے چارگی کا اظہار کیا کرو اور سجدہ میں دعا کرتے رہا کرو، ادھر میں بھی تمہارے لیے دعا کرتا ہوں اور حصول مقصد اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل کے لیے کوشش کرتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ میں تمہیں جو بتاؤں یعنی جو حکم دوں اس پر پورا پورا عمل کرتے رہو کہ راہ سعادت حاصل ہونے کی تدیبر یہی ہے اور انشاء اللہ اس کے بعد تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔ فتح قفل ارچہ کلید است اے عزیز جنبش از دست تو می خواہند نیز یعنی : عزیز من! قفل اگرچہ کنجی ہی سے کھلتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ کی حرکت بھی تو ضروری ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی خدمت کرنا اور ان کی رضا اور خوشنودی کو پوری کرنا در حقیقت فضیلت و سعادت کے حصول کا ذریعہ ہے خاص طور پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کو مد نظر رکھنا تو دین و دنیا کی سب سے بڑی سعادت و بھلائی ہے۔ اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ بھی ہے کہ طالب صادق کو چاہئے کہ اس کا مطلوب صرف آخرت کی نعمتیں ہوں کہ جن کو دوام و بقاء حاصل ہے دنیا کی لذتوں کی طرف التفات نہ کرے کہ جو فانی اور ختم ہو جانے والی ہیں۔ لیکن شرط یہ بھی ہے کہ بندگی میں اپنی طرف سے کوئی قصور نہ ہو کیونکہ محض آرزو اور تمنا ہی منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی بلکہ اس میں اپنی طرف سے کوشش وسعی کو بھی دخل ہوتا ہے جیسا کہ بڑوں نے کہا ہے کہ " کسی تمنا اور آرزو کے ہوتے ہوئے کوشش وسعی نہ کرنا بلکہ بیکار بیٹھنا ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا ہے۔ کارکن کار بگزرار گفتار کاندریں راہ کار دار دکار یعنی عمل کرو زبانی جمع خرچ سے بچو، کیونکہ اس راستے میں تو صرف عمل ہی عمل ہے۔
-
وَعَنْ مَّعْدَانَ بْنِ طَلْحَۃَص قَالَ لَقِےْتُ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْتُ اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ اَعْمَلُہُ ےُدْخِلُنِیَ اللّٰہُ بِہِ الْجَنَّۃَ فَسَکَتَ ثُمَّ سَاَلْتُہُ فَسَکَتَ ثُمَّ سَأَلْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ سَأَلْتُ عَنْ ذَالِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ عَلَےْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ لِلّٰہِ فَاِنَّکَ لَا تَسْجُدُ لِلّٰہِ سَجْدَۃً اِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَۃً وَّحَطَّ عَنْکَ بِھِمَا خَطِےْئَۃً قَالَ مَعْدَانُ ثُمَّ لَقِےْتُ اَبَا الدَّرْدَآءِ فَسَاَلْتُہُ فَقَالَ لِیْ مِثْلَ مَا قَالَ لِیْ ثَوْبَانُ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت معدان بن طلحہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے عرض کیا کہ " مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ اس کے کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے۔ ثوبان (میرا سوال سن کر) خاموش رہے، میں نے دوبارہ عرض کیا وہ پھر بھی خاموش رہے جب میں نے تیسری مرتبہ عرض کیا انھوں نے فرمایا کہ" یہی سوال میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے سوال کے جواب میں ) فرمایا تھا کہ " تم کثرت سے بارگاہ خداوندی میں سجدہ کیا کرو، تم ایک سجدہ اللہ کے حضور میں کرو گے تو اس کی وجہ سے اللہ تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کی وجہ سے ایک گناہ کم کر دے گا۔ " معدان فرماتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے ملاقات کی اور ان سے بھی وہی سوال کیا (جو ثوبان سے کیا تھا) چنانچہ انھوں نے بھی مجھے وہی جواب دیا جو ثوبان نے دیا تھا۔ " (صحیح مسلم) تشریح حضرت معدان کے دو مرتبہ سوال کرنے پر بھی حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب اس لیے نہ دیا تاکہ سائل کو رغبت زیادہ ہو، اور آتش شوق بھڑک کر جواب کی اہمیت و عظمت کا احساس کر سکے اور عملی قوت پوری طرح بیدار ہو جائے۔ سجدوں سے مراد کوئی خاص سجدے نہیں بلکہ نماز کے سجدے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔
-