پیٹ کے بچہ کی دیت

وعن محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال : قضى رسول الله صلى الله عليه و سلم في الجنين بغرة : عبد أو أمة أو فرس أو بغل . رواه أبو داود وقال : روى هذا الحديث حماد بن سلمة وخالد الواسطي عن محمد بن عمرو ولم يذكر : أو فرس أو بغل-
اور حضرت محمد ابن عمرو ، حضرت ابوسلمہ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حاملہ کے ) پیٹ کے بچہ کا خون بہا غرہ مقرر فرمایا اور غرہ سے مراد ایک لونڈی یا ایک گھوڑا یا ایک خچر ہے ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس روایت کو حماد ابن سلمہ اور خالد واسطی نے محمد ابن عمرو سے نقل کیا ہے لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی لفظ فرس اور بغل (یعنی گھوڑا اور خچر ) ذکر نہیں کیا ہے ( لہذا اس روایت میں فرس اور بغل کا اضافہ شاذ ہے اور بایں اعتبار یہ حدیث ضعیف ہے ( ابوداؤدنسائی ) تشریح : علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یوں تو غرہ نہایت نفیس چیز کو کہتے ہیں لیکن اس باب میں اس لفظ کا اطلاق انسان پر بایں طور اعتبار کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے بعض علماء کا قول ہے کہ اس حدیث میں غرہ کے مفہوم میں فرس اور بغل کو شامل کرنا راوی کا اپنا وہم ہے کیونکہ غرہ کا اطلاق صرف اس انسان پر ہوتا ہے جو کسی کا مملوک ہو یعنی غلام یا لونڈی۔
-
وعن سعيد بن المسيب : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قضى في الجنين يقتل في بطن أمه بغرة عبد أو وليدة . فقال الذي قضى عليه : كيف أغرم من لا شرب ولا أكل ولا نطق ولا استهل ومثل ذلك يطل . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنما هذا من أخوان الكهان " . رواه مالك والنسائي مرسلا-
اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کے بچہ کی دیت جو مارا جائے ایک غرہ یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی مقرر فرمائی ۔" جس شخص پر یہ دیت واجب کی گئی تھی اس نے عرض کیا کہ اس شخص کا تاوان کس طرح بھروں جس نے کوئی چیز پی اور نہ کھائی ہو اور نہ بولا نہ چلایا ، اس قسم کا قتل تو ساقط کیا جاتا ہے " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس شخص کی یہ بات سن کر حاضرین سے ) فرمایا کہ " اس کے علاوہ اور کیا کہا جائے کہ یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے " ۔ (امام مالک اور امام نسائی نے تو اس روایت کو بطریق ارسال (یعنی راوی صحابی کا ذکر کئے بغیر ) نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد نے حضرت سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے بطریق اتصال نقل کیا ہے ۔" تشریح : " کاہن " اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب دانی کا دعوی کرتا ہے اور لوگوں کی غیب کی باتیں بتاتا ہے اور وہ لوگوں کو فریفتہ کرنے کے لئے اپنی جھوٹی اور غلط سلط باتوں کو مسجع اور مقفی عبارتوں کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔ حدیث میں مذکورہ شخص نے بھی چونکہ اپنے ایک غلط خیال کو بڑے مسجع اور مقفی الفاظ کے ذریعہ پیش کیا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مناسبت سے اس کو کاہنوں کا بھائی فرمایا ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے مطلق مسجع ومقفی عبارتیں بذات خود مذموم نہیں ہیں بلکہ انسان کے کلام کی فصاحت وبلاغت اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہیں چنانچہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز بیان اور آپ کا کلام بڑی مسجع ومقفی عبارتوں سے مزین ہوتا تھا ۔ بطور خاص آپ سے جو دعائیں منقول ہیں ان کے الفاظ کی جامعیت مسجع ومقفی عبارتوں کی بہترین مثال ہیں جیسے یہ دعا ہے (اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع) الخ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو اور اس قلب سے جو ترساں نہ ہو الخ حاصل یہ کہ وہ مسجع عبارت مذموم ہے جو بہ تکلف زبان وقلم سے ادا ہو اور جس کا مقصد باطل کو رواج دینا ہو جیسا کہ مذکورہ شخص نے کہا ۔ شمنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں فقہی مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حاملہ کے پیٹ پر مارے اور اس کی وجہ سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ ہو کر باہر آ جائے تو اس کی دیت میں غرہ یعنی پانچ سو درہم مارنے والے کے عاقلہ پر واجب ہوں گے وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء نے " غرہ " سے مراد پانچ سو درہم لئے ہیں اور وہ اس لئے اکثر روایتوں میں غرہ کی توضیح یہی کی گئی ہے اور اگر حاملہ کے پیٹ مارنے کی وجہ سے زندہ بچہ باہر آ جائے اور پھر مر جائے تو اس صورت میں پوری دیت واجب ہو گئی ۔
-