پیتل اور لوہے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت

وعن بريدة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لرجل عليه خاتم من شبه : " ما لي أجد منك ريح الأصنام ؟ " فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال : " ما لي أرى عليك حلية أهل النار ؟ " فطرحه فقال : يا رسول الله من أي شيء أتخذه ؟ قال : " من ورق ولا تتمه مثقالا " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي-
اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے جو پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا فرمایا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم میں بتوں کی بو پاتا ہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے سامنے یہ بات بطور تعریض فرمائی ۔ کیونکہ عام طور پر پیتل ہی کے بت بنائے جاتے تھے ۔چنانچہ اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناگواری دیکھ کر اس انگوٹھی کو اتار کر پھینک دیا پھر (جب دوبارہ ) وہ شخص آیا تو لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو دیکھ کر ) فرمایا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم پر دوزخیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی بطور تعریض اس بناء پر فرمائی کہ کفار میں سے کچھ لوگ دنیا میں لوہے کی چیز پہنتے ہیں یا اس ارشاد میں اس طرف اشارہ تھا کہ کافروں کو دوزخ میں جو طوق و سلاسل پہنائے جائیں گے وہ لوہے کے ہوں گے اس لئے لوہے کی انگوٹھی پہننا دوزخیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے چنانچہ اس شخص نے اس انگوٹھی کو (بھی ) اتار کر پھینک دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاندی کی اور وہ چاندی بھی پوری مثقال نہ ہو ۔" (ترمذی، ابوداؤد، نسائی ) محی السنۃ فرماتے ہیں کہ عورت کے مہر کے بارے میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا جو نکاح کرنے کا متمنی تھا کہ بیوی کے مہر کے لئے از قسم مال کوئی چیز تلاش کرو اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ۔ تشریح " پوری ایک مثقال نہ ہو " یہ ممانعت اصل میں احتیاط و تقویٰ اور اولویت کے لئے ہے، یعنی اولیٰ یہ ہے کہ انگوٹھی ایک مثقال (٢٤/١ماشہ ) سے کم چاندی کی ہو ورنہ جہاں تک جواز کا تعلق ہے تو پورے ایک مثقال کی بھی جائز ہے ) اور یہ الویت بھی اس بنا پر ہے کہ سونا اور چاندی اصل کے اعتبار سے " غیر پسندیدہ " ہیں لہٰذا ان کا استعمال بس اسی قدر ہونا چاہئے جو ضرورت کے مطابق ہو اس لئے دو یا اس سے زائد انگوٹھیاں پہننا مکروہ ہے تاہم متعدد انگوٹھیاں بنانا مکروہ نہیں ہے، بشرطیکہ ان کو ایک ساتھ نہ پہنا جائے بلکہ نوبت بنوبت پہنا جائے ۔ فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ لوہے اور پیتل کی انگوٹھی وغیرہ پہننا مکروہ ہے اور مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے ۔ محی السنۃ نے عورت کے مہر کے بارے میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی جو روایت نقل کی ہے اس سے ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے جو یہ فرمایا کہ بیوی کو مہر میں دینے کے لئے مال مہیا کرو اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو تو اس سے معلوم ہوا کہ اوپر روایت میں لوہے کی انگوٹھی پہننے کی جو ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ تحریم کے لئے نہیں ہے کیونکہ اگر حقیقت میں لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کے متمنی شخص کو لوہے کی انگوٹھی مہیا کرنے کے لئے کیوں فرماتے ۔ مہر کے مال کے بارے میں مذکورہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ اس کا مقصد دراصل عورت کے مہر میں مال خرچ کرنے کی اہمیت و ضرورت کو زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ مہر کے طور پر کوئی نہ کوئی مال ضرور مقرر کیا جائے خواہ وہ ادنی ترین چیز ہی کیوں نہ ہو ۔ اس ارشاد سے یہ بھی واضح ہوا کہ لوہے کی انگوٹھی پہننے کو اگرچہ ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن دو انگوٹھی مال متقوم مالیت کے دائرے سے باہر نہیں ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننے کی اس ممانعت کے نفاذ و بیان کا زمانہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کے بعد کا ہو، کیوں کہ یہ ثابت ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی روایت استقراء سنن اور استحکام شرائع سے پہلے کی ہے اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس کے بعد کی ہے لہٰذا حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی روایت منسوخ قرار پائے گی، نیز حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی روایت باب المہر کی پہلی فصل میں گزر چکی ہے ۔
-