TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
صدقہ کی فضیلت کا بیان
پوشیدہ طور پر صدقہ دینے کی فضیلت
وعن عبد الله بن مسعود يرفعه قال : " ثلاثة يحبهم الله : رجل قام من الليل يتلوا كتاب الله ورجل يتصدق بصدقة بيمينه يخفيها أراه قال : من شماله ورجل كان في سرية فانهزم أصحابه فاستقبل العدو " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غير محفوظ أحد رواته أبو بكر بن عياش كثير الغلط-
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ایک تو وہ شخص جو رات کے وقت کھڑا ہوتا ہے اور کتاب اللہ کی تلاوت کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جو نفل صدقہ اپنے داہنے ہاتھ سے دے اور اسے چھپائے راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بائیں ہاتھ سے، اور تیسرا وہ شخص جو میدان جنگ میں اس وقت دشمن کے سامنے ڈٹ گیا جب کہ اس کے ساتھیون کو شکست ہو گئی ۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت غیر محفوظ (ضعیف ) ہے۔ اس کے ایک راوی ابوبکر بن عیاش ہیں جو بہت زیادہ غلطی کرتے ہیں۔ تشریح بیمینہ، سے صدقہ دینے کے ادب کی طرف اشارہ فرمایا جا رہاہے کہ صدقہ کا مال اپنے داہنے ہاتھ سے دیا جائے یا یہ کہ پہلے اس شخص کو صدقہ و خیرات کا مال دے جو اپنے دائیں طرف ہو۔ " بائیں ہاتھ سے چھپائے" کا مطلب یہ ہے کہ جب دائیں ہاتھ سے صدقہ کا مال دے تو بائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہ ہو یہ دراصل کمال پوشیدگی کے لیے مبالغہ کے طور پر فرمایا گیا ہے یعنی صدقہ کا مال انتہائی پوشیدگی کے ساتھ دیا جائے تاکہ صدقہ کا مال لینے والا عام نظروں میں اپنی کمتری محسوس نہ کرے، یا پھر ان الفاظ کے یہ معنی ہوں گے کہ صدقہ کا مال جب دائیں طرف والے کو دے تو اس کی خبر بائیں طرف والے کو بھی نہ ہونی چاہئے ۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کی خاطر اور ریاء و نمائش سے بچنے کے لیے اس طرح چھپا کر دینا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
-
وعن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " ثلاثة يحبهم الله وثلاثة يبغضهم الله فأما الذين يحبهم الله فرجل أتى قوما فسألهم بالله ولم يسألهم بقرابة بينه وبينهم فمنعوه فتخلف رجل بأعيانهم فأعطاه سرا لا يعلم بعطيته إلا الله والذي أعطاه وقوم ساروا ليلتهم حتى إذا كان النوم أحب إليهم مما يعدل به فوضعوا رءوسهم فقام يتملقني ويتلو آياتي ورجل كان في سرية فلقي العدو فهزموا وأقبل بصدره حتى يقتل أو يفتح له والثلاثة الذين يبغضهم الله الشيخ الزاني والفقير المختال والغني الظلوم " . رواه الترمذي والنسائي-
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اور تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے چنانچہ وہ اشخاص کہ جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ان میں سے ایک تو وہ شخص ہے کہ جس نے ایسے شخص کو صدقہ دیا جو ایک جماعت کے پاس آیا اور اس سے خدا کی قسم دے کر کچھ مانگا یعنی یوں کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے اتنا مال یا اتنی چیز دو اس نے جماعت سے حق قرابت کی وجہ سے دیا جو اس کے اور جماعت کے درمیان تھا۔ مگر جماعت والوں نے اسے کچھ بھی نہیں دیا، چنانچہ ایک شخص نے جماعت کو پس پشت ڈالا اور آگے بڑھ کر سائل کو پوشیدہ طور پر دے دیا، سوائے خدا کے اور اس شخص کے کہ جسے اس نے دیا اور کسی نے اس کے عطیہ کو نہیں جانا، اور دوسرا وہ شخص ہے جو جماعت کے ساتھ تمام رات چلا یہاں تک کہ جب ان کے لیے نیند ان تمام چیزوں سے زیادہ جو نیند کے برابر ہیں پیاری ہوئی تو جماعت کے تمام فرد سو گئے مگر وہ شخص کھڑا ہوا (اللہ فرماتا ہے کہ ) اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا اور میری آیتیں (یعنی قرآن کریم) پڑھنے لگا۔ اور تیسرا شخص وہ ہے جو لشکر میں شامل تھا جب دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس کے لشکر کو شکست ہو گئی مگر وہ شخص دشمن کے مقابلے پر سینہ سپر ہو گیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا یا فتح یاب اور وہ تین شخص جو اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں ان میں سے ایک شخص تو وہ ہے جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، دوسرا شخص تکبر کرنے والا فقیر ہے اور تیسرا شخص دولت مند ظلم کرنے والا ہے (یعنی وہ شخص دولت مند ہوتے ہوئے قرض دینے والے کو قرض کی ادائیگی نہ کرے یا دوسروں کے ساتھ اور کسی ظلم کا معاملہ کرے) (ترمذی) تشریح حدیث کی ابتدا جس اسلوب سے ہوئی اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے مگر بعد کے اسلوب یعنی حدیث کے الفاظ یتملقنی ۔ اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا۔ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ارشاد نبوی نہیں ہے بلکہ کلام الٰہی یعنی حدیث قدسی ہے اسلوب کے اس اختلاف کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ حدیث حقیقت میں تو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ اپنے نبی سے وہ کیفیت بیان کی جو اس کے اور اس کے بندے کے درمیان واقع ہوتی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر اس اصل کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا بعینہ قول نقل فرما دیا۔ الشیخ الزانی، جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، میں لفظ شیخ سے یا تو اس کے اصل معنی یعنی بوڑھا ہی مراد ہے یا پھر کہا جائے کہ یہاں شیخ سے بکر (کنوارے) کی ضد محصن (شادی شدہ) مراد ہے خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان ، جیسا کہ اس آیت منسوخ میں ہے۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجمواہا البتۃ نکال من اللہ و اللہ عزیز حکیم، شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت جب دونوں زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کر دو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ضروری ہے اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ ہے خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا۔ تکبر کرنے والے فقیر کو بھی اللہ کے نزدیک مبغوض قرار دیا گیا ہے لیکن فقیر کا وہ تکبر مستثنی ہے جو کسی متکبر کے ساتھ ہو بلکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ قرار دیا گیا ہے یعنی اگر کوئی فقیر کسی متکبر کے ساتھ تکبر کرے تو وہ خدا کے نزدیک مبغوض نہیں ہو گا۔ بلکہ اسے صدقہ کا ثواب ملے گا، چنانچہ حضرت بشیر بن حارث کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خواب میں دیکھا تو ان سے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین مجھے کوئی نصیحت فرمائیے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا مالداروں کو ثواب خداوندی کے حصول کی خاطر فقیروں سے مہربانی کا معاملہ کرنا بہت ہی بہتر ہے اور فقیروں کو خدا پر توکل اور اعتماد کے جذبے سے مالداروں سے تکبر کا معاملہ کرنا بہت بہتر ہے۔ جن بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا اگرچہ وہ سب ہی کے حق میں بری ہیں لیکن ان تینوں کے حق میں چونکہ بہت ہی زیادہ بری ہیں جس کا سبب ظاہر ہے اس لیے یہ خدا کے دشمن قرار دئیے گئے ہیں۔
-
وعن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لما خلق الله الأرض جعلت تميد فخلق الجبال فقال بها عليها فاستقرت فعجبت الملائكة من شدة الجبال فقالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من الجبال قال نعم الحديد قالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من الحديد قال نعم النار فقالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من النار قال نعم الماء قالوا يا رب فهل من خلقك شيء أشد من الماء قال نعم الريح فقالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من الريح قال نعم ابن آدم تصدق بصدقة بيمينه يخفيها من شماله " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب وذكر حديث معاذ : " الصدقة تطفئ الخطيئة " . في كتاب الإيمان-
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو وہ ہلنے لگی پھر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا فرما کر انہیں زمین پر کھڑا کیا۔ چنانچہ زمین ٹھہر گئی فرشتوں کو پہاڑ کی سختی سے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں لوہا ہے (کہ وہ پتھر کو بھی توڑ ڈالتا ہے) انہوں نے پوچھا کہ ہمارے پروردگار! کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں آگ ہے (کہ وہ لوہے کو پگھلا دیتی ہے) پھر انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوق میں کوئی چیز آگ سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں پانی ہے ( کہ وہ آگ کو بھی بجھا دیتا ہے) پھر انہوں نے پوچھا کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز پانی سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں ہوا ہے (کہ وہ پانی کو بھی خشک کر دیتی ہے) پھر انہوں نے عرض کیا ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز ہوا سے بھی زیادہ سخت ہے ؟ پروردگار نے فرمایا ہاں اور وہ ابن آدم کا صدقہ دینا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح مال خرچ کرتا ہے کہ اسے بائیں ہاتھ سے بھی چھپاتا ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح ابن آدم کا صدقہ دینا اس فعل کو اس لیے سب سے زیادہ سخت فرمایا ہے کہ انتہائی پوشیدگی سے کسی کو صدقہ دینے میں نفس امارہ کی مخالفت ، طبیعت و مزاج پر جبر، اور شیطان ملعون کی مدافعت لازم آتی ہے جب کہ اس کے علاوہ مذکورہ بالا چیزوں یعنی پہاڑ ، لوہا ور آگ وغیرہ میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ چھپا کر صدقہ دینے میں نفس کی مخالفت اور شیطان کی مدافعت بایں طور لازم آتی ہے کہ فطری طور پر نفس یہ چاہتا ہے کہ جب میں کسی کو مال دوں تو لوگ دیکھیں اور میری تعریف کریں تاکہ مجھے دوسرے لوگوں پر فخر و امتیاز حاصل ہو لہٰذا جب اس نے عام نظروں سے چھپا کر اپنا مال کسی کو دیا تو اس نے گویا نفس امارہ کی مخالفت کی اور شیطان کو اپنے سے دور کیا۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ زیادہ سخت اس لیے ہے کہ اس کی وجہ سے رضاء مولیٰ حاصل ہوتی ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ رضاء مولیٰ سب سے بڑی چیز ہے۔ وذکر حدیث معاذ الصدقۃ تطفیء الخطیئۃ فی کتاب الایمان ۔ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت تطفیء الخطیئۃ کتاب الایمان میں نقل کی جا چکی ہے۔
-