TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
لباس کا بیان
پرانے کپڑے کو ضائع مت کرو
وعن عائشة قالت قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يا عائشة إذا أردت اللحوق بي فليكفك من الدنيا كزاد الراكب وإياك ومجالسة الأغنياء ولا تستخلقي ثوبا حتى ترقعيه " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث صالح بن حسان قال محمد بن إسماعيل : صالح بن حسان منكر الحديث-
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ۔" عائشہ رضی اللہ عنہا ! اگر تم ( دنیا و آخرت دونوں جگہ مجھ سے (کامل ) اتصال و وابستگی چاہتی ہو تو دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر اکتفا کرو جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو اور دولت مندوں کی ہم نشینی اختیار کرنے سے اجتناب کرو، نیز کپڑے کو اس وقت تک پرانا سمجھ کر نہ پھینکو جب تک کہ تم اس کو پیوند (لگا کر پہننے ) کے قابل سمجھو ۔" اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور یہ حدیث ہم تک صالح ابن حسان کی روایت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں پہنچی ہے جب کہ محمد بن اسماعیل (یعنی امام بخاری ) نے کہا ہے صالح ابن حسان منکر الحدیث ہیں (یعنی ان کی روایت منکر ہے ) ۔" تشریح " جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو۔" اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر قناعت کرے جو اس کی زندگی اور مقصد حیات کے لئے ضروری ہوں ۔ اس جملہ میں " سوار " کی تخصیص شاید اس لئے ہے کہ وہ اپنا راستہ تیز گامی سے طے کرتا ہے اور منزل پر جلد پہنچتا ہے جس کی وجہ سے اس کو تھوڑا سا بھی زاد راہ کافی ہو جاتا ہے اس کے برخلاف پیادہ کو چونکہ سفر میں دیر لگتی ہے اس لئے اس کو زاد راہ بھی زیادہ لینا پڑتا ہے ۔ ۔ دولت مندوں کی ہمنشینی سے پچنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ دنیا دار دولت مندوں کی صحبت و مجالست دنیا اور دنیا کی لذات کے تئیں محبت وخواہشات میں زیادتی اور لہو و لعب میں مشغولیت کا باعث بنتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ا یت (لاتمدن عینیک) الا یہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ مردوں کی ہمنشینی سے اجتناب کرو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں ( جن کو مردہ فرمایا جا رہا ہے اور جن کی ہمنشینی سے بچنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( دنیا دار ) دولت مند ۔" " جب تک کہ تم اس کو پیوند کے قابل سمجھو ۔" کا مطلب یہ ہے کہ اگر کپڑا پرانا و بوسیدہ ہو جائے یا وہ پھٹ جائے تو اس سے بے اعتنائی نہ برتو اور اس کو ضائع نہ کرو بلکہ اس کو ٹھیک ٹھاک کر کے اور اس میں پیوند لگا کر کم سے کم ایک بار اور استعمال کر لو ۔ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ اگر اپنے پاس پھٹے پرانے کپڑے ہوں تو (زہد و قناعت کا تقاضا یہ ہے کہ ستر پوشی کے لئے انہی پر اکتفا کیا جائے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی خلافت کے زمانہ میں (جب کہ ان کو دنیا کے ایک عظیم ترین حکمران کی حیثیت حاصل تھی ) ایک دن اسی حالت میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ انہوں نے جو تہبند باند ھ رکھا تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔
-
ابو امامہ اياس بن ثعلبة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ألا تسمعون ؟ ألا تسمعون أن البذاذة من الإيمان أن البذاذة من الإيمان ؟ " . رواه أبو داود-
اور حضرت ابوامامہ ابن ایاس ابن ثعلبہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " کیا تم سن نہیں رہے (یعنی اے لوگو! کان لگا کر سنو ! کپڑے کی بوسیدگی و کہنگی (یعنی لباس کی سادگی ) کو اختیار کرنا اور دنیا کی زیب و زینت کو ترک کرنا حسن ایمان کی علامت ہے، کپڑے کی بوسیدگی و کہنگی کو اختیار کرنا اور دنیا کی زیب و زینت کو ترک کرنا حسن ایمان کی علامت ہے ۔" (ابوداؤد ) تشریح مطلب یہ ہے کہ لباس کے معاملہ میں زیادہ تکلف و اہتمام سے کام لینا، عورتوں کی طرح اپنے آپ کو سنوارنا اور ہر وقت زیب و زینت کا خیال رکھنا مسلمان مرد کے شایان شان نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے اچھے کپڑے پہننے کی استطاعت عطا کی ہے تو بیشک اپنے لباس میں شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے عمدگی و نفاست کا لحاظ رکھنا اور جائز طریقے سے اچھے کپڑے پہننا کوئی معیوب نہیں ہے لیکن کبھی کبھی پرانا کپڑا بھی پیوند لگا کر پہن لینا بہتر ہے ۔ حاصل یہ کہ لباس میں تواضع و انکسار اختیار کرنا اور دنیاوی زیب و زینت سے بچنا اہل ایمان کی اچھی عادتوں میں سے ہے اور حسن ایمان کی علامت ہے کیونکہ آخرت اور آخرت کی زینتوں پر ایمان لانا ہی اس زہد و قناعت کا باعث ہوتا ہے ۔
-