TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
پاکی کا بیان
پاکیزگی کا بیان
--
لغت میں " طہارۃ" کے معنی نظافت اور پاکی کے آتے ہیں جو نجاست کی ضد ہے" طہور" بضم طاء مصدر ہے اور ان چیزوں کو بھی طہور فرماتے ہیں جو پاک کرتی ہیں جیسے پانی اور مٹی طہور، لفتح طاء بھی مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاح شریعت میں " طہارت " کا مفہوم ہے نجاست حکمی یعنی حدث سے اور نجاست یعنی خبث سے پاکیزگی حاصل کرنا۔
-
عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِےْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِےْزَانَ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَےْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ وَالصَّلٰوۃُ نُوْرٌ وَّالصَّدَقَۃُ بُرْھَانٌ وَّالصَّبْرُ ضِےَآءٌ وَّالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَےْکَ کُلُّ النَّاسِ ےَغْدُوْا فَبَآئِعٌ نَفْسَہُ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ تَمْلَاٰنِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ لَمْ اَجِدْ ھٰذِہِ الرَّوَایَۃَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ وَلَا فِیْ کِتَابِ الْحُمَیْدِیِّ وَلَا فِی الْجَامِعِ وَلٰکِنْ ذَکَرَھَا الدَّارِمِیُّ بَدَلَ سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ۔-
" حضرت ابی مالک شعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( آپ کے نام میں اختلاف ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا نام کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے اور بعض کعب بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، عبیدہ ، حارث اور عمرو بھی بیان کیے جاتے ہیں، کنیت ابومالک ہے، مشہور صحابی ہیں۔ حضرت عمر فاروق اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور الحمد اللہ کہنا (اعمال کی) ترازو کو بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ و الحمد اللہ بھر دیتے ہیں یا فرمایا ایک کلمہ بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے نماز نور ہے صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے لیے یا تمہارے اوپر دلیل ہے ہر آدمی (جب) صبح کرتا ہے (یعنی سو کر اٹھتا ہے) تو اپنی جان کو اپنے کاموں میں بیچتا ہے (یعنی لگاتا) ہے لہٰذا وہ اپنی جان کو آزاد کرتا ہے یا ہلاک کرتا ہے۔ (مسلم اور ایک روایت میں ہے کہ لا الہٰ الا اللہ اکبر بھر دیتے ہیں اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔" (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ ) میں نے اس روایت کو نہ صحیح البخاری میں پایا ہے نہ مسلم میں اور نہ ہی کتاب حمیدی و کتاب جامع الاصول میں مجھے یہ روایت ملی ہے البتہ دارمی نے اس روایت کو بجائے سبحان اللہ والحمد اللہ کے ذکر کیا ہے۔" (لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو فصل اول میں نقل کرنا درست نہیں ہوا)۔" تشریح : اس حدیث میں پاکیزگی و طہارت کی انتہائی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام میں طہارت کو کیا مقام حاصل ہے چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ پاک رہنا آدھا ایمان ہے اور وجہ ظاہر ہے کہ ایمان سے چھوٹے اور بڑے سب ہی گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور وضو سے صرف چھوٹے گناہ ہی بخشے جاتے ہیں اس لیے طہارت کو آدھے ایمان کا درجہ حاصل ہے۔ درمیان روایت میں راوی کو شک ہو رہا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ تملاء مفرد فرمایا تملان تثنیہ کے ساتھ فرمایا ہے اس لیے انہوں نے دونوں کو نقل کر دیا ہے، اس جملہ کا مطلب ہے کہ سحان اللہ والحمد اللہ پڑھنا اور ان کا ورد رکھنا اتنی فضیلت کی بات ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ان دونوں کلموں کو ایک جسم فرض کر لیا جائے تو اتنے عظیم ہیں کہ آسمان اور زمین کے درمیانی حصہ کو بھر دیں۔ نماز کو نور فرمایا گیا ہے اس لیے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جو قبر کے اندھیرے اور قیامت کی ظلمت میں روشنی کی مانند ہے جو مومن کو گناہوں اور بری باتوں سے بچاتی ہے اور نیکی و بھلائی اور ثواب کے کاموں کی طرف راہنمائی کرتی ہے یا پھر نماز کو نور اس لیے کہا گیا ہے کہ مومن کے قلب کو ذات خداوندی کے عرفان کی روشنی سے منور کرتی ہے اور عبادت خداوندی کی ادائیگی و اطاعت الہٰی کی بنا پر نماز پڑھنے والے کے چہرہ پر سعادت و نیک بختی کی چمک پیدا کرتی ہے۔ صدقہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو دلیل اس لیے کہا گیا ہے کہ مومن کے دعویٰ ایمان کی صداقت اور پروردگار عالم سے محبت پر دلالت کرتا ہے یا یہ معنی کہ جب قیامت میں مالدار سے اللہ سوال کرے گا کہ ہم نے تمہیں مال و دولت میں اتنی وسعت بخشی تھی تو تم نے اس مال و دولت کو کہاں خرچ کیا؟ اور اس کا مصرف کیا تھا ؟ یعنی تم نے ہماری بخشی ہوئی اس نعمت کو اچھی راہ میں خرچ کیا یا برے راستہ میں لٹا دیا؟ تو اس کے جواب میں صدقہ بطور دلیل پیش ہوگا کہ رب قدّوس تیرا دیا ہوا مال برے راستہ میں نہیں لٹایا گیا ہے بلکہ اسے تیری ہی راہ میں اور تیری ہی خوشنودی کے لیے خرچ کیا گیا ہے صبر اس کو فرماتے ہیں کہ گناہوں سے بچا جائے، طاعات پر مستعد رہا جائے اور کسی مصیبت و تکلیف کے موقعہ پر آہ بکا اور جزع و فزع نہ کیا جائے چنانچہ اس کے بارہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ کامل روشنی کا سبب ہے اس لیے کے صابر کا قلب و دماغ ایمانی عزم و یقین کی روشنی سے ہمیشہ منور رہتا ہے اور وہ دین و دنیا کے ہر مرحلہ پر کامیاب ہوتا ہے۔ " قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ تمہارے لیے یا تمہارے او پر دلیل ہے یعنی تم قرآن پڑھو گے اور اس پر اگر عمل کرو گے تو قرآن تمہیں نفع بخشے گا اور اگر عمل نہ کرو گے تو تمہارے لیے ضرر کا باعث ہوگا۔ " جان کو بیچنے" کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس کام کی طرف آدمی متوجہ ہو اس میں اپنی ذات کو کھپا دے، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھتا ہے تو اپنے کام میں لگ جاتا ہے اور دنیا میں مشغول ہو جاتا ہے لہٰذا اب اس نے اگر اس کام کے بدلے آخرت خرید لی بایں طور کہ اس کام پر آخرت کو ترجیح دی تو اس نے اپنے نفس کو عذاب آخرت سے آزاد کر لیا، اور اگر خدانخواستہ اس نے دنیا اور دنیا کے اس کام کو آخرت کے بدلے خرید لیا بایں طور کہ اس کام کو آخرت پر ترجیح دی تو اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا اور اپنے نفس کو عذاب میں ڈال دیا بد نیا توانی کہ عقبے خری بخر جان من ورنہ حسرت بری
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اَلَا اٰدُلُّکُمْ عَلَی مَایَمْحُوْ اﷲُ بِہِ الْخَطَایَا وَیَرْفَعُ بِہٖ الدَّرَجَاتِ قَالُوْابَلَی یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ اِسْبَاعُ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِہٖ وَکَثْرَۃُ الْخُطَی اِلَی الْمَسَاجِدِ وَ انْتِظَارُ الصَّلٰوۃِ بَعْدَ الصَّلٰوِۃ فَذَالِکُمُ الرِّبَاطُ وَفِیْ حَدِیْثِ مَالِکِ بْنِ اَنَسِ فَذٰلِکُمُ الرِّبَاطُ فَذٰلِکُمُ الرِّبَاطِ رَدَّدَ مَرَّتَیْنِ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَفِی الرِوَایَۃِ التِّرْمِذِیِّ ثَلاثَا۔عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَا ےَمْحُوا اللّٰہُ بِہِ الْخَطَاےَا وَےَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ قَالُوْا بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِہ وَکَثْرَۃُ الْخُطٰی اِلَی الْمَسَاجِدِ وَاِنْتِظَارُ الصَّلٰوۃِ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ فَذَالِکُمُ الرِّبَاطُ وَفِیْ حَدِےْثِ مَالِکِ بْنِ اَنَسٍ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ فَذَالِکُمُ الرِّبَاطُ فَذَالِکُمْ الرِّبَاطُ رَدَّدَ مَرَّتَےْنِ رواہ صحیح مسلم و فی الروایۃ الجامع ترمذی ثلاثا-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا " کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو دور کر دے اور جس کے سبب (جنت میں) تمہارے درجات کو بلند کرے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا " ہاں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشقّت کے وقت (یعنی بیماری یا سخت جاڑے میں) وضو کو پورا کرنا، مسجد کی طرف (گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ) کثرت سے قدموں کا رکھنا اور (ایک) نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا پس یہ رباط ہے، اور مالک بن انس کی حدیث میں " پس یہ رباط ہے پس یہ رباط ہے" دو مرتبہ ہے اور جامع ترمذی کی روایت میں تین مرتبہ ہے۔" تشریح : اس حدیث میں ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے رب قدوس اپنے بندوں پر اس طرح فضل و کرم فرماتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور جنت میں ان کے مراتب و درجات میں ترقی عطا فرماتا ہے چنانچہ سب سے پہلی چیز " وضو" ہے۔ یوں تو وضو نماز کے لیے شرط اور ضروری ہے لہٰذا جو نماز پڑھے گا وہ وضو بھی کرے گا خواہ کیسا ہی موسم ہو مگر اس جگہ ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی سخت وقت میں مثلاً کسی بیماری کی حالت میں یا شدید سردی کے موسم میں عموماً وضو کے معاملہ میں بڑی تساہلی برتی جاتی ہے اور اول تو زبردستی اور صحت کے منافی طریقوں کو اختیار کر کے دو اور تین وقت وضو کو باقی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر اگر وضو کیا جاتا ہے تو ایسے طریقے سے کہ نہ تو اس میں وضو کے آداب اور اس کے سنن و مستحبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ وضو پورے طریقہ سے مکمل کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی مواقع کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے سخت اور شدید وقت میں اگر وضو پورے آداب و طریقے ملحوظ رکھ کے اور تمام سنن و مستحبات کا خیال کر کے کیا جائے اور تمام اعضاء وضو پر پانی اچھی طرح پہنچایا جائے اور ان کو تین تین مرتبہ دھویا جائے تو یہ فضل خداوندی کا سبب ہوگا۔ دوسری چیز مسجد کی طرف کثرت سے قدموں کا رکھنا ہے، یعنی ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا جو گھر سے دور ہو اس لیے کہ جتنے زیادہ قدم مسجد کی طرف اٹھیں گے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ " نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار" یہ ہے کہ مسجد میں ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے یا اگر مسجد سے نکلے بھی تو دل وہیں دوسری نماز میں لگا رہے اس کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان فرمائی جا رہی ہے چنانچہ اس کو " رباط" کہا گیا ہے ۔ " رباط اسے فرماتے ہیں کہ کوئی مسلمان اسلامی مملکت کی سرحد پر دشمنان اسلام کا مقابلہ پر نگہبانی کی خاطر بیٹھے تاکہ دشمن سرحد پار کر کے اسلامی ملک میں داخل نہ ہو جائیں اس کا ثواب ہے اور بڑی فضیلت ہے جو خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی فرمایا ہے : آیت (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا) 3۔ آل عمران : 200) " اے ایمان والو! (تکلیف پر) خود صبر کرو اور مقابلہ میں صبر کرو اور مقابلہ کے لیے مستعدر ہو۔" چنانچہ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا اصل رباط ہے کہ جیسے وہاں تو کفار مقابلہ میں بیٹھے ہیں یہاں شیطان کے مقابلہ میں بیٹھے ہیں جو دین کا سب سے بڑا دشمن ہے اس لیے جیسی فضیلت و سعادت رباط میں ہے ویسی ہی فضیلت و سعادت نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی ہے اس حدیث میں چونکہ " وضو" کا ذکر آگیا ہے اس لیے اس کے متعلقات کا یہاں بیان کر دینا مناسب ہے۔ وضو میں چار چیزیں فرض ہیں (١) تمام منہ کا دھونا (٢) ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا (٣) چوتھائی سرکا مسح کرنا (٤) پاؤں کا ٹخنوں تک دھونا وضو میں پورے چہرے کا دھونا فرض ہے اور اسی میں ڈاڑھی بھی شامل ہے، البتہ ڈاڑھی کی تعین میں تھوڑا بہت اختلاف ہے چنانچہ متون میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے فتاویٰ عالمگیری اور در مختار میں صحیح اور مفتی بہ قول یہ لکھا ہے کہ ڈاڑھی کے ان بالوں کا مسح کرنا جو منہ کی جلد سے ملے ہوئے ہیں فرض ہے اور لٹکی ہوئی کا دھونا فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے و اللہ تعالیٰ اعلم وضو میں سنت یہ چیزیں ہیں (١) ہاتھوں کا پہنچوں تک دھونا (٢) ابتدائے وضو میں بسم اللہ کہنا (٣) مسواک کرنا (٤) کلی کرنا (٥) ناک میں پانی دینا (٦) ڈاڑھی اور انگلیوں کا خلال کرنا (٧) ہر عضو کو تین بار دھونا (٩) اسی ترتیب سے وضو کرنا جس ترتیب سے قرآن میں مذکور ہے (١٠) تمام سرکا مسح کرنا (١١) اعضاء وضو کو پے در پے دوھونا (١٢) سر کے پانی کے ساتھ ہی کانوں کا مسح کرنا (یعنی ہاتھ پر پانی ڈال کر جب سر پر مسح کیا جائے تو اسی ہاتھ سے کانوں کا مسح کیا جائے، کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی کی ضرورت نہیں۔ وضو کے مستحبات یہ ہیں (١) اعضاء وضو کو دھونے کے لیے دائیں طرف سے شروع کرنا (مثلاً پہلے دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں) (٢) گردن کا مسح کرنا (٣) وضو کے لیے قبلہ رخ بیٹھنا (٤) اعضاء کا (دھوتے وقت) پہلی بار ملنا (٥) غیر معذور کا وقت سے پہلے وضو کر لینا (٦) ڈھیلی انگوٹھی کو گھمانا پھر انا اسی طرح غسل میں قرظ یعنی بالی کو گھمانا پھر انا، لیکن اس کے بارہ میں اتنی بات یاد رکھ لینی چاہئے کہ اگر غسل اور وضو کے وقت ان چیزوں کے متعلق یہ خیال ہو کہ ان کے نیچے بدن پر پانی پہنچ رہا ہے تو پھر یہ عمل مستحب ہوگا اور یہ جانے کے پانی ان کے نیچے نہیں پہنچتا تو پھر ان کو ہلا لینا فرض ہوگا (٧) خود وضو کرنا مستحب ہے کسی دوسرے سے وضو نہ کرایا جائے (٨) وضو کے وقت کوئی دیناوی گفتگو نہ کرنا چاہئے ہاں اگر کوئی مجبوری ہو کہ بغیر کلام و گفتگو کے مقصد اور حاجت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو کر سکتا ہے (٩) ہر عضو کو دھونے کے وقت اور مسح کرتے وقت بسم اللہ پڑھیے (۱۰) ان دعاؤں کا پڑھنا جو عضو کے دھونے کے وقت پڑھنے کے لئے مننقول ہیں (۱۱) وضو مکمل کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا، مگر کتاب " زیلعی" میں لکھا ہے کہ ہر عضو کو دھونے کے بعد درود و سلام بھیجنا مستحب ہے (١٢) وضو کے بعد شہادتین اور وہ دعائیں جو حدیث میں وارد ہیں پڑھنا (آگے حدیث میں یہ دعائیں آرہی ہیں ) (١٣) وضو کا بقیہ پانی قبلہ رخ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پینا (١٤) بھوؤں اور مونچھوں کے نیچے، گوشۂ چشم پر اور پاؤں کے کونچوں پر پانی پہنچانے کے لیے تعاہد یعنی خبر گیری کرنا کہ یہ حصے خشک نہ رہ جائیں۔ مکروہات وضو یہ ہیں : (١) منہ پر زور سے پانی مارنا (٢) اسراف کرنا ضرورت اور حاجت سے زیادہ پانی بہانا (٣) اعضاء کو تین تین مرتبہ سے زیادہ دھونا (٤) نئے پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا۔ اور منہیات وضو یہ ہیں : (١) عورت کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا چاہئے (٢) نجس جگہ وضو نہ کرنا چاہئے تاکہ وضو کے پانی کی بے حرمتی نہ ہو (٣) مسجد میں وضو نہ کرنا چاہئے البتہ کسی برتن میں یا اس جگہ جو وضو کے لیے خاص طور پر مقرر ہے وضو کرنا درست ہے (٤) تھوک اور رینٹھ وغیرہ وضو کے پانی میں نہ ڈالنا چاہئے۔
-
وَعَنْ عُثْمَانَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ خَرَجَتْ خَطَاےَاہُ مِنْ جَسَدِہٖ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ اَظْفَارِہٖ ۔( صحیح البخاری و صحیح مسلم )-
" اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جو آدمی وضو کرے " اور اچھی طرح کرے (یعنی اس کے سنن و مستحبات کی رعایت کے ساتھ ) تو اس کے (صغیرہ) گناہ اس کے بدن سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : اس حدیث میں بھی وضو کی فضیلت اور طہارت کی بڑائی بیان کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وضو کرنا درحقیقت اپنے گناہوں کو اپنے جسم سے دھونا ہے جو جتنا زیادہ جتنی اچھی طرح وضو کرے گا اس کے اتنے ہی گناہ ختم کر دئیے جائیں گے اور پھر بطور مبالغہ کے فرمایا گیا ہے کہ وضو کرنے والے کے ناخنوں کے نیچے کے گناہ بھی وضو کرنے سے نکل جاتے ہیں یعنی وضو کرنے کے بعد اس کو نہ صرف یہ کہ ظاہری پاکی اور طہارت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ گناہوں سے بھی خوب پاک ہو جاتا ہے، یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے یہاں یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ تمہاری شیخی ناک کی راہ نکال دیں گے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا تَوَضَّاَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ اَوِ الْمُؤمِنُ فَغَسَلَ وَجْھَہُ خَرَجَ مِنْ وَّجْھِہٖ کُلُّ خَطِےْۤئَۃٍ نَّظَرَ اِلَےْھَا بِعَےْنَےْہِ مَعَ الْمَآءِ اَوْ مَعَ اٰخِرِ قَطْرِ الْمَآءِ فَاِذَا غَسَلَ ےَدَےْہِ خَرَجَ مِنْ ےَدَےْہِ کُلُّ خَطِےْئۤۃٍ کَانَ بَطَشَتْھَا ےَدَاہُ مَعَ الْمَآءِ اَوْ مَعَ اٰخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ فَاِذَا غَسَلَ رِجْلَےْہِ خَرَجَ کُلُّ خَطِےْئَۃٍ مَّشَتْھَا رِجْلَاہُ مَعَ الْمَآءِ اَوْ مَعَ اٰخِرِ قَطْرِ الْمَآءِ حَتّٰی ےَخْرُجَ نَقِےًّا مِّنْ الذُّنُوْبِ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب کوئی بندہ مسلمان یا فرمایا مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور اپنے منہ کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں (یعنی جو گناہ آنکھوں سے ہوئے ہیں جھڑ جاتے ہیں ) پھر جب دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ہاتھوں کے تمام گناہ جن کو اس کے ہاتھ نے پکڑا تھا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں (یعنی جو گناہ ہاتھ سے ہوئے جھڑ جاتے ہیں ) پھر جب وہ دونوں پاؤں کو دھوتا ہے تو اس کے وہ تمام گناہ جن کی طرف وہ پاؤں سے چلا تھا پانی کے ساتھ یا فرمایا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ " (صحیح مسلم)
-
وعَنْ عُثْمَانَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنَ امْرِءٍ مُّسْلِمٍ تَحْضُرُہُ صَلٰوۃٌ مَّکْتُوْبَۃٌ فَےُحْسِنُ وُضُوْءَ ھَا وَخُشُوْعَھَا وَرَکُوْعَھَااِلَّا کَانَتْ کَفَّارَۃً لِّمَا قَبْلَھَا مِنَ الذُّنُوْبِ مَا لَمْ ےُؤْتِ کَبِےْرَۃً وَّ ذٰلِکَ الدَّھْرَ کُلَّہُ ۔ (مسلم)-
" اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جو مسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اچھی طرح وضو کرے اور نماز میں خشوع و خضوع کرے تو (اس کی یہ نماز) ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جو اس نے نماز سے پہلے کئے تھے، بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ نہ ہوں اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے (یعنی وہ نماز جو گناہوں کا کفارہ ہے کسی زمانہ میں مخصوص نہیں ہے یہ فضیلت ہر زمانہ میں قائم رہتی ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح : نماز کی اصل روح خشوع اور خضوع ہے اس لیے کہ نماز ہی وہ عبادت ہے جو بندہ کی انتہائی بے چارگی اور اس کے عجز کو ظاہر کرتی ہے لہٰذا نماز کے اندر جتنا زیادہ خشوع و خضوع ہوگا اتنی ہی اعلیٰ درجہ تک رسائی ہوگی نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھے تو نماز کے جتنے ظاہری و باطنی آداب ہیں سب کو بجا لائے اور سب کی رعایت کرے تاکہ دل ترساں رہے جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو نہایت سکون کے ساتھ رہے نظر سجدہ کی جگہ پر ہو، سوائے نماز کے کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہو اپنا دھیان نماز ہی میں رکھے کسی دوسری طرف دھیان نہ بٹے، بدن کپڑے اور ڈاڑھی وغیرہ سے کھیلے نہیں، دائیں بائیں طرف دیکھے نہیں اور آنکھ نہ بند کرے، یہ تمام چیزیں اگر نماز میں حاصل ہو جائیں تو پھر انشاء اللہ حضور قلب کی دولت بھی میسر آجائے گی جو عند اللہ نماز کی مقبولیت کا سبب ہے۔ حدیث میں صرف رکوع کا ذکر کیا گیا ہے سجدہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رکوع صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی نماز میں مشروع ہے یہود و نصاری کی نماز و عبادت میں علی العموم رکوع نہیں ہوتا اس لیے اس کو بیان کر کے اسکی امتیازی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے، آخر میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسی نماز صرف صغیرہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوتی ہے اور صغیرہ گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہیں ہوتی۔
-
وَعَنْہُ اَنَّہُ تَوَضَّاَ فَاَفْرَغَ عَلٰی ےَدَےْہِ ثَلٰثًا ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ ےَدَہُ الْےُمْنٰی اِلَی الْمِرْفَقِ ثَلٰثًا ثُمَّ غَسَلَ ےَدَہُ الْےُسْرٰی اِلَی الْمِرْفَقِ ثَلٰثًا ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہٖ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَہُ الْےُمْنٰی ثَلٰثًا ثُمَّ الْےُسْرٰی ثَلٰثًا ثُمَّ قَالَ رَأَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوْئِیْۤ ھٰذَا ثُمَّ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوْئِیْۤ ھَذٰا ثُمَّ ےُصَلِّیْ رَکْعَتَےْنِ لَا ےُحَدِّثُ نَفْسَہُ فِےْھِمَا بِشَیْءٍ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم ولفظہ للبخاری )-
" حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ " انہوں نے ایک مرتبہ وضو کیا " چنانچہ انہوں نے پہلے اپنے ہاتھوں میں تین مرتبہ پانی ڈالا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک جھاڑی (یعنی ناک میں پانی دینے کے بعد ناک سن کی پھر تین مرتبہ منہ دھویا، پھر تین مرتبہ اپنا داہنا ہاتھ کہنی تک دھویا (یعنی کہنی سمیت دھویا) پھر تین مرتبہ اپنا بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں پیر تین مرتبہ دھویا اور پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جس طرح اب میں نے وضو کیا ہے" پھر فرمایا جو آدمی میرے اس وضو کی مانند وضو کرے (یعنی فرائض و سنن اور مستحبات و آداب کی رعایت کے ساتھ ) پھر دو رکعت نماز پڑھے اور نماز کے اندر اپنے دل سے کچھ باتیں نہ کرے (یعنی پورے دھیان سے نماز پڑے تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) اس روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں۔" تشریح : اعضاء وضو کا تین مرتبہ سے زائد دوھونا تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پورے عضو تین مرتبہ دھو چکا ہے تو اب اس پر زیادتی نہ کرے یعنی تین بار سے زائد نہ دھوے اگر ایسی شکل ہے کہ ایک چلو سے آدھا عضو دھویا اور پھر دوسرے چلو سے آدھا دھویا تو یہ ایک مرتبہ ہی کہلائے گا مثلاً اسی طرح کسی عضو کو چھ چلوں سے دھو کر تین بار کو پورا کیا تو یہ زیادتی نہ ہوگی بلکہ تین مرتبہ ہی ہوگا وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا انتہائی درجہ نہیں ہے بلکہ ادنیٰ درجہ ہے اگر زیادہ بھی پڑھے تو افضل ہے بہر حال یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وضو کے بعد نماز یعنی تحیۃ الوضو پڑھنی مستحب ہے اگر فرض یا سنت مؤ کدہ ہی پڑھے تو یہ بھی کافی ہے۔ آخر حدیث میں اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ نماز میں حضور قلب اور خشوع و خضوع بہت زیادہ مطلوب ہے چنانچہ آخری جملہ کا یہ مطلب یہ ہے کہ جب نماز شروع کرے تو پھر اپنے دل کو نماز میں لگائے خیالات نماز سے باہر کہیں دوسری جگہ بھٹکنے نہ پائیں اور قلب میں دنیا کے خیالات او ایسے تفکرات کو جو نماز کے منافی ہیں جگہ نہ دے خیال اللہ ہی کی طرف لگائے رکھے اگر خطرات و وساوس دل میں آئیں تو ان کو دفع کر لے ہاں اگر دل میں ایسے خطرات پیدا ہوتے ہیں جو نماز میں حضور قلب کے منافی نہیں پھر کچھ مضر نہیں۔
-
وَعَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنْ مُّسْلِمٍ ےَّتَوَضَّأُ فَےُحْسِنُ وُضُوْءَ ہُ ثُمَّ ےَقُوْمُ فَےُصَلِّیْ رَکْعَتَےْنِ مُقْبِلًا عَلَےْھِمَا بِقَلْبِہٖ وَ وَجْھِہٖ اِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ۔ (مسلم)-
" اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عقبہ ابن عامر جنبی ہے کنیت میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ لوگ فرماتے ہیں کہ ابوحماد تھی بعض نے ابولبید، ابوعمر وغیرہ بھی کہا ہے مصر میں انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جو مسلمان وضو کرے اور اچھا وضو کرے پھر کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے دل اور منہ سے متوجہ ہو کر (یعنی ظاہر وباطن کے ساتھ متوجہ ہو کر ) تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح : فرمایا گیا ہے کہ جب اچھی طرح وضو کرے تو کھڑا ہو اور دو رکعت نماز پڑھے تو یہ کھڑا ہونا یا حقیقۃً ہو یعنی واقعی کھڑا ہو کر نماز پڑھے یا کھڑا ہونا حکمًا ہو مثلاً بیٹھ کر پڑھے خصوصاً جب اس کو کوئی عذر اور مجبوری ہو کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا یہ دونوں شکلیں مراد ہیں۔
-
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلممَامِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ یَتَوَضَّأُ فَیُبْلِغُ اَوْ فَیُسْبِغُ الْوُضْوْءَ ثُمَّ یَقُوْلُ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ وَفِیْ رَوَایَۃٍ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ اِلَّافُتِحَتْ لَہُ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃُ یَدْخُلُ مِنْ اَیِّھَا شَائَ۔ (ھٰکَذَا رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِیْ صَحِیْحِہِ)وَالْحَمَیْدِیُّ فِی اَفْرَادِ مُسْلِمِ وَکَذَا اِبْنُ الاثِیْرِ فِی جَامِعِ الْاَصُوْلِ وَذَکَر الشَّیْخُ مُحِیُّ الدِّیْنِ النُّووِیُّ فِی آخِرِ حَدِیْثِ مُسْلِمِ عَلَی مَارَوَیْنَاہُ وَزَادَ التِّرْمِذِیُّ اَللَّھُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابَیْنِ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ وَالْحَدِیْثُ الَّذِی رَوَاہُ لْمُحِّی الْسُنَّۃِ فِی الصِّحَاحِ مَنْ تَوَضَأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ اِلَی اٰخِرِہٖ رَوَاہُ الْتِرْمِذِیُّ فِی جَامِعِہٖ بِعَیْنِہٖ اِلَّا کَلِمَۃَ اَشْھَدُ قَبْلَ اَنَّ مُحَمَّدًا۔-
" اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم میں جو آدمی وضو کرے اور (اس کی خوبیوں) کو انتہاء پر پہنچا دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے کہ اور پورا وضو کرے پھر کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ا ُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، (یعنی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں اور ایک روایت میں ہے (کہ اس طرح کہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، یعنی میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور شہادت دیتا ہوں اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس دروازے میں سے اس کا جی چاہے جنت میں داخل ہو (مسلم ، حمیدی، جامع الاصول) اور امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی حدیث کے آخر میں جس کو ہم نے روایت کیا ہے کہ ذکر کیا ہے کہ جامع ترمذی نے (شہادتین پر اس دعا کے) یہ الفاظ زیادہ لکھے ہیں" اے اللہ ! مجھ کو توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر (یعنی مسلم کی روایت جس طرح ہم نے ذکر کی ہے وہی روایت امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسلم کی شرح میں نقل کی ہے اور اس کے آخر میں رواہ الجامع ترمذی الخ کی عبارت بڑھا دی ہے ) اور وہ حدیث جس کو امام محی السنتہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحاح میں روایت کی ہے یعنی مَنْ تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْءَ الخ (جس نے وضو کیا " آخر تک) اس کو امام ترمذی نے رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی جامع میں بعینہ اسی طرح نقل کیا ہے اَنَّ مُحَمَّدًا سے پہلے اَشْھَدُ کا ذکر نہیں کیا ہے۔" تشریح : مراتب اور درجات کے اعتبار سے جنت کے آٹھ حصے ہیں چنانچہ اس حدیث میں " آٹھوں دروازوں" کا جو ذکر کیا گیا ہے ان سے حقیقۃً دروازے مراد نہیں بلکہ ان آٹھ حصوں کو ایک ہی اعتبار کیا ہے اور ہر ایک کو دروازے سے تعبیر کیا ہے کبھی ایک کو بھی بہشت فرماتے ہیں، اس حساب سے " ہشت بہشت" بولتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی الخ یعنی " اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا " کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں تو اس کی توفیق عنایت فرما کہ جب ہم سے کبھی بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور ہم سے کوئی لغزش ہو جائے تو ہم اس سے فورًا توبہ کر لیں اور اپنے عیوب سے رجوع کر لیں۔ اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سے گناہ زیادہ واقع ہوں بلکہ یہاں یہ مراد ہے کہ جب گناہ سرزد ہو جائے تو ہمارے دلوں میں توبہ کرنے کا داعیہ پیدا کر دے خواہ گناہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں تاکہ اس آیت کے مطابق تیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں کی جماعت میں شامل ہو سکیں۔ (اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّ وَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ) 2۔ البقرۃ : 222) " یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔" یعنی اللہ اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو بارگاہ الوہیت سے منہ نہیں پھیرتے اور کسی موقعہ پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے دعا کے آخری جملہ " اور پاکیزگی کرنے والوں میں شامل کر" کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں باطنی پاکیزگی کی دولت سے نواز دے اور ہمارے اندر جتنے برے اخلاق اور بد خصائل ہیں سب سے ہمیں پاک و صاف کر دے چنانچہ اس طرف اشارہ ہے کہ جسم اور اعضاء ظاہری کی طہارت و صفائی ہمارے اختیار میں تھی اس کو ہم نے پورا کر لیا، اب باطنی احوال کی طہارت اور اندرونی صفائی تیرے ہاتھوں میں ہے لہٰذا اپنے فضل و کرم سے باطنی پاکیزگی بھی عنایت فرما دے۔ (رباعی) اے درخم چوگان تو دل ہم چو گوے بیروں نہ فرمان تو جاں یک سرموئے " اے! کہ تیرے خم چوگان میں ہمارا دل ایک گیند کی طرح ہے، ہم تیرے فرمان سے ایک موئے بدن بھی باہر نہیں ہیں۔" ظاہر کے بدست ماست شستیم تمام باطن کہ بدست تست آن راہ تو بشوئے " ظاہر جو ہمارے قبضہ میں تھا ہم اسے دھو چکے ہیں ۔ باطن جو تیرے قبضہ میں ہے اسے تو ہی دھو سکتا ہے۔" آخر میں مشکوٰۃ کے مولف صاحب مصابیح پر ایک اعتراض فرما رہے ہیں، اعتراض یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے جو حدیث فاحسن الوضو ثم قال اشھد ان لا الہ الا اللہ وحد لا شریک لہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین فتحت لہ ثمانیۃ ابواب الجنۃ یدخل من ایھا شاء کو صحاح میں نقل کیا ہے حالانکہ اس حدیث کو صحاح میں نقل کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے بلکہ یہ روایت جامع ترمذی کی ہے، لہٰذا یہ روایت صحاح کے بجائے حسان میں نقل کرنی چاہئے تھی، پھر دوسری بات یہ ہے کہ جامع ترمذی نے بھی اپنی روایت میں ان محمدًا سے پہلے اشھد کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔ اتنی بات اور جان لینی چاہئے کہ جزری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حصن حصین میں ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، اور ابن سنّی کے حوالہ سے شہادتین کے بعد لفظ ثلاث مرات کا ذکر کیا ہے، یعنی شہادتیں تین مرتبہ پڑھنی چاہئے اور سنن نسائی و حاکم کی روایت میں اللھم اجعلنی الخ کے بعد یہ بھی منقول ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ لِہٰذَا اولیٰ اور بہتر ہے کہ جتنی دعائیں منقول ہیں وضو کے بعد سب ملا کر پڑھی جائیں نیز نہانے والے کے لیے بھی یہ دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اُمَّتِیْ ےُدْعَوْنَ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ غُرًّا مُحَجَّلِےْنَ مِنْ اٰثَارِ الْوُضُوْءِ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ ےُّطِےْلَ غُرَّتَہُ فَلْےَفْعَلْ ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " قیامت کے روز میری امت اس حال میں پکاری جائے گی کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں روشن ہوں گی اور اعضا چمکتے ہوں گے لہٰذا تم میں سے جو آدمی چاہے کہ وہ اپنی پیشانی کی روشنی کو بڑھائے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسا ہی کرے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : غُرَّ جمع ہے اغر کی جس کے معنی ہیں سفید چہرہ اور محجل اس آدمی کو فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ پاؤں سفید ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز وضو کے اثر یہ تمام اعضاء روشن ہوں گے اور جب محشر میں نمازیوں کو جنت میں جانے کے لیے پکارا جائے گا تو وہ لوگوں کے درمیان سے اس طرح آئیں گے کہ ان کے اعضاء وضو روشن و چمک دار ہوں گے۔ آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جس آدمی کی خواہش ہو کہ قیامت کے روز اس کی پیشانی چمکدار اور اس کے اعضاء کی سفید دراز ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس عمل اور فعل کے کرنے میں پوری احتیاط سے کام لے جو اس سعادت کا سبب ہوگا یعنی وضو پوری رعایت سے کرے، چہرہ کو پیشانی کے اوپر سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک خوب اچھی طرح دھوئے۔ تحجیل کی درازگی یہ ہے کہ پاؤں کو خوب اچھی طرح اور ٹخنوں کے اوپر تک دھوئے یہاں تحجیل کی درازگی کا ذکر نہیں فرمایا گیا ہے اس لیے کہ یہ دونوں یعنی غر اور محجل آپس میں لازم اور ملزوم ہیں جب ایک کی درازگی کا ذکر فرمادیا تو دوسرا خود بخود مفہوم ہو جائے گا۔
-
وَعَنْہ، قَالَ قَالَ رَسُوْل ُاللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تَبْلُغُ الْحِلْےَۃ ُمِنَ الْمُؤْمِنِ حَےْثُ ےَبْلُغُ الْوَضُوْئُ۔ (مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (جنت میں) مومن کو زیور (وہاں تک) پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔" (صحیح مسلم) تشریح : مطلب یہ ہے کہ وضو کا پانی جن اعضاء پر پہنچتا ہے یعنی جو اعضاء وضو میں دھوئے جاتے ہیں جنت میں ان سب اعضاء کی زیورات سے زیب و زینت کی جائے گی، اسی طرح جس کا وضو جتنا زیادہ بہتر اور مکمل یعنی سنت کے مطابق ہوگا جنت میں اس کے اعضاء وضو کی آرائش اتنے ہی اعلیٰ پیمانہ پر ہوگی۔
-
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اسْتَقِیْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا وَاعْلَمُوْا اَنَّ خَیْرَ اَعْمَا لِکُمُ الصَّلٰوۃُ وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْءِ اِلَّا مُؤْمِنٌ۔ (رواہ موطا امام مالک و مسند احمد بن حنبل و ابن ماجۃ والدارمی)-
" حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی ثوبان ابن بجد ہے کنیت ابوعبداللہ ہے بعض حضرات نے ابوعبدالرحمن بھی لکھی ہے آپ نے حمص میں ٥٤ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " سیدھے رہو اور سیدھے رہنے کی ہر گز طاقت نہ رکھ سکو گے، اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین چیز نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔" (مالک، مسند احمد بن حنبل ابن ماجہ، دارمی) تشریح : سیدھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال پر مستقیم رہو اور ہمیشہ سیدھی راہ پر چلتے رہو، ادھر ادھر برے راستوں کی طرف میلان نہ کرو، اور چونکہ یہ امر مشکل تھا اس لیے آگے فرمایا کہ لن تحصوا یعنی پورے کمال اور رسوخ کے ساتھ تم استقامت اختیار نہیں کر سکتے اور جب یہ فرما دیا گیا کہ استقامت کی طاقت نہیں رکھ سکتے اور اعمال و افعال میں استقامت کے جو حقوق ہیں وہ پوری طرح ادا نہیں ہو سکتے تو آگے ایک نہایت آسان اور سہل راہ کی طرف راہنمائی کر دی گئی یعنی عبادت کی جڑ اور خلاصہ نماز پر آگاہ کر دیا کہ اگر صرف اسی ایک عمل اور ایک عبادت یعنی نماز میں استقامت اختیار کر لو گے تو تمام تقصیرات کا تدارک ہو جائے گا لہٰذا چاہئے کہ نماز پر مداومت اختیار کرو۔ اس کے جو شرائط و آداب ہوں ان کا خیال رکھو اور اس کے جو حقوق ہیں ان کو پوری طرح سے ادا کرو۔ بعد میں نماز کے مقدمہ اور شرط یعنی وضو اور طہارت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جس کو نصف ایمان کہا گیا ہے چنانچہ فرمایا گیا کہ وضو کی محافظت تو مومن کا خاصہ ہے اس لیے کہ وہ مومن کامل کا قلب و دماغ توجہ الیٰ اللہ کی شعاؤں سے ہر وقت منور رہتا ہے وہ اپنے قلب و بدن دونوں کے ساتھ یعنی ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ بارگاہ الوہیت میں حاضری بغیر ظاہر و باطن کی صفائی و پاکیزگی اور بدون طہارت کے اداب کے منافی چیز ہے اور شان عبودیت کے خلاف بھی ہے اس لیے مومن وضو کی محافظت کرتا ہے اور وضو کے جو آداب و شرائط اور سنن و مستحبات ہیں ان سب کی رعایت کرتا ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ عَلٰی طُھْرِ کُتِبَ لَہ، عَشْرُ حَسَنَاتِ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جو آدمی وضو کے اوپر وضو کرے تو اس کے واسطے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔" (جامع ترمذی) تشریح : ایک تو مطلقاً وضو کرنے کا ثواب و اجر مقرر ہے وہ تو ملنا ہی ہے لیکن جو آدمی وضو پر وضو کرے تو اس کے واسطے اس مقررہ اجر و ثواب کے علاوہ مزید دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ اجر و ثواب اس وقت ملتا ہے جب کے پہلے وضو کے بعد فرض یا نقل نماز پڑھ چکا ہو، اور اس کے بعد پھر دوسرا وضو کرے۔ شرح النستۃ میں منقول ہے کہ تجدید و ضو اس وقت مستحب ہے جب کہ پہلے وضو سے کوئی نماز پڑھ چکا ہو اور بعض علماء کے نزدیک اگر پہلے وضو کے بعد نماز نہ پڑھی ہو تو وضو کرنا مکر وہ ہے۔
-
عَنْ جَابِرِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ الصَّلٰوۃُ وَمِفْتَاحُ الصَّلٰوۃِ الطَّھُوْرُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح : جیسے کہ مقفّل دروازہ بغیر کنجی کے نہیں کھل سکتا اسی طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہوسکتی اور بغیر نماز کے جنت میں داخلہ نہیں ہو سکتا، اس حدیث میں محافظت نماز کی اہمیت کو بطور نمونہ بیان کیا گیا ہے، کہ گویا نماز کا حکم ایمان میں ہے کہ بغیر اس کے جنت میں جانا میسر نہیں ہوگا لہٰذا چاہئے کہ نماز خوب اچھی طرح ادا کی جائے اور کبھی نماز ترک و قضا نہ کی جائے کیونکہ دخول جنت کا سبب یہی ہے۔
-
وَعَنْ شَبِیْبِ بْنِ اَبِی رُوْحِ عَنْ رَجُلِ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی صَلاَۃَ الصُّبْحِ فَقَرَا الرُّوْمَ فَالْتَبَسَ عَلَیْہِ فَلَمَّا صَلَّی قَالَ مَا بَالُ اَقْوَامِ یُصَلُّونَ مَعَنَا لاَ یُحْسُنْونَ الطُّھُوْرَوَاِنَّمَا یَلَبِّسُ عَلَیْنَا قُرْآنَ اُوْلٰئِکَ۔ (رواہ السنن نسائی )-
" اور حضرت شبیب بن ابی روح رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) صبح کی نماز پڑھی اور اس کے اندر سورت روم کو پڑھا (اثناء نماز میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متشابہ ہوا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا " لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ پڑھتے ہیں اور اچھی طرح وضو نہیں کرتے اور اس وجہ سے یہ لوگ ہم پر قرآن میں متشابہ ڈالتے ہیں" ۔ (سنن نسائی ) تشریح : اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی عمل اور کسی عبادت کے جو سنن و آداب ہوتے ہیں وہ واجب کو کامل کرتے ہیں اور برکت کا سبب ہوتے ہیں، اسی برکت کا اثر نہ صرف یہ کہ عامل ہی کی ذات تک محدود رہتا ہے، بلکہ وہ برکت دوسروں میں بھی سرائیت کرتی ہے جیسے کہ کوتاہی اور قصور عامل کی ذات کے علاوہ دوسرے کے ضرر کا بھی باعث ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنن و آداب پر عمل نہ کرنے سے فتوحات غیبیہ کا دروازہ بند ہوتا ہے۔ یہ حدیث درحقیقت ان بے بصیرت لوگوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے جو صحبت کی تاثیر کے منکر اور اس سے غافل ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ سرکار دو عالم، سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر باوجود اس رتبہ کے اور قرآن پڑھنے کی حالت میں جو تقرب الی اللہ کا وقت ہے ایک ادنیٰ امتی کی صحبت نے اثر کیا جس سے وضو کے آداب و سنت میں کوئی کوتاہی یا قصور ہوگیا تھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرات میں متشابہ لگا تو ایسے لوگوں کا کیا حشر ہوگا جو شب و روز اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت کو اختیار کئے رہتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں کہ اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت و ہم نشینی کو بالکل ترک کر کے علماء حق، صوفیائے کرام اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ ان کی ہم نشینی اور صحبت کے اثرات و برکات اپنے اندر پیدا ہوں جو دین و دنیا دونوں جگہ کی بھلائی کے لیے ضامن ہیں۔ ابتداء روایت میں راوی نے اس صحابی کا نام ذکر نہیں کیا ہے جس سے یہ حدیث حاصل کی گئی ہے مگر حضرت میرک شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ صحابی حضرت ابوذر غفاری ہیں۔
-
وَعَنْ رَجُلِ مِنْ بَنِی سُلَیْمِ قَالَ عَدَّھُنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِی یَدِی اَوْ فِی یَدِہٖ قَالَ التَّسْبِیْحُ نِصْفُ الْمِیْزِانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ یَمْلَاہُ وَالتَّکْبِیْرُ یَمْلا مَابَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَالصَّوْمُ نِصْفُ الصَّبْرِ وَالطُّھُوْرُ نِصْفُ الْاِیْمَانِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔-
" اور قبیلہ بنی سلیم کے ایک آدمی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے باتوں کو (جو آگے مذکور ہیں ) میری ہاتھ پر یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا (چنانچہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا (یعنی اس کا ثواب) آدھی ترازو بھر دیتا ہے اور الحمد اللہ (سبحان اللہ کے ساتھ) کہنا (یا فقط الحمدللہ کہنا ہی پوری ترازو کو بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے اور روزہ آدھا صبر ہے اور پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔ " جامع ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے) تشریح : حدیث کو بیان کرتے وقت راوی کو شک ہو گیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو میرے ہاتھ پر شمار کیا ہے یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا ہے بہر حال ان کو شمار اس طرح کیا کہ یا تو آپ نے صحابی کی انگلی پکڑی اور ان کو ہتھیلی پر بند کرے ان پانچ باتوں کو شمار کیا۔ حدیث میں روزے کو آدھا صبر فرمایا گیا ہے، اس لیے کہ پورا صبر تو یہ ہے کہ نفس کو طاعت پر رو کے یعنی احکام کو بجا لائے اور گناہوں سے روکے یعنی ممنوع چیزوں کو نہ کرے اور روزہ نام ہے صرف نفس کو طاعت پر روکنے یعنی حکم الہٰی کو بجا لانے کا لہٰذا اس اعتبار سے روزہ آدھا صبر ہوا۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِالصُّنَابِحِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنْ فَمَضْمَضَ خَرَجَتِ الْخَطَایَا مِنْ فِیْہٖ وَاِذَا اسْتَنْثَرَ خَرَجَتِ الْخَطَایَا مِنْ اَنْفِہٖ فَاِذَا غَسَلَ وَجْھَہ، خَرَجَتِ الْخَطَایَا مِنْ وَجْھِہٖ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ اَشْفَارِ عَیْنَیْہِ فَاِذَا غَسَلَ یَدَیْہٖ خَرَجَتِ الْخَطَایَا مِنْ یَدَیْہِ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ اَظْفَارِ یَدَیْہِ فَاِذَا مَسَحَ بِرَأْسِہٖ خَرَجَتِ الْخَطَایَا مِنْ رَأْسِہٖ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ اُذُنَیْہِ فَاِذَا غَسَلَ رِجْلَیْہِ خَرَجَتِ الْخَطَایَا مِنْ رِجْلَیْہِ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ اَظْفَارِ رِجْلَیْہِ ثُمَّ کَانَ مَثْیُہ، اِلَی الْمَسْجِدِ وَصَلَاتُہ، نَافِلَۃً لَّہ،۔ (رواہ موطا امام مالک و السنن نسائی )-
" اور حضرت عبداللہ صنابحی (ان کے صحابی ہونے اور نام میں اختلاف ہے یحییٰ ابن معین کا قول تو یہی ہے کہ ان کا نام عبداللہ یا ابوعبداللہ بیان کیا جاتا ہے) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ مومن وضو کا ارادہ کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں اور جب ناک جھاڑتا ہے تو گناہ اس کی ناک سے خارج ہو جاتے ہیں اور جب اپنا منہ دھوتا ہے تو گناہ اس کے منہ سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں، اور جب اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو گناہ اس کے دونوں پاؤں سے خارج ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، پھر مسجد کی طرف اس کا چلنا ہوتا ہے اور اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں) زیادتی ہے" ۔" (مالک و سنن نسائی ) تشریح : جیسا کہ اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کرنے والا اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے خارج ہوتے ہیں پھر آگے فرمایا گیا ہے کہ" یہاں تک کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں" اس جملہ سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ کان سر میں داخل ہیں بائیں طور کہ جو حکم سر کا ہوگا وہی حکم کان کا ہوگا چنانچہ حنفی مسلک یہی ہے اس لیے یہ مسئلہ ہے کہ جب مسح کے لیے پانی لیا جائے تو اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کر لیا جائے کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ" اس کی نماز اس کے واسطے (اعمال میں) زیادتی ہے یعنی جب یہ وضو سے فارغ ہوا تو گناہوں سے وضو کی وجہ سے پاک و صاف ہو چکا تھا، اب نماز زائد ہے جو بلندی درجات کا سبب ہوگی۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِیْنَ وَاِنْشَآءَ اﷲُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ وَدِدْتُّ اَنَّا قَدْرَ اَیْنَّا اِخْوَانَنَا قَالُوْا اَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ وَإِخْوَانْنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ فَقَالُوْا کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ اُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ اَرَ ءَ یْتَ اَنَّ رَجُلًا لَہ، خَیْلٌ غُرٌّ مُّحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَھْرَیْ خَیْلِ دُھْمِ بُھْمِ اَلَا یَعْرِفُ خَیْلَہ، قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ فَاِنَّھُمْ یَاتُوْنَ غَرًّا مُّحَجَّلَیْنِ مِنَ الْوُضُوْءِ وَاَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔ (رواہ صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مقبرہ (یعنی جنت البقیع) میں (دعاء مغفرت کے لیے ) تشریف لائے، چنانچہ (وہاں پہنچ) کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" اے مومنین کی جماعت! تم پر سلامتی ہو (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قبور کو سلام کیا اور فرمایا) ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اور میں اس بات کی تمنا رکھتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو یکھیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے دوست ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا " یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم (قیامت میں کس طرح پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر کسی آدمی کے پاس سفید پیشانی اور سفید ہاتھ اور پیر والے گھوڑے ہوں اور وہ نہایت سیاہ گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو پہچان لے گا ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا ہاں (یا رسول اللہ ! ان امتیازی اوصاف کی بنا پر تو وہ یقینًا پہچان لے گا) آپ نے فرمایا " (وہ قیامت میں) وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے (لہٰذا اس علامت سے میں انہیں پہچان لوں گا) اور میں حوض کوثر پر ان کا میر سامان ہوں گا۔" (صحیح مسلم) تشریح : اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ان کے بعد ہونے والے مسلمانوں میں نہ صرف یہ کہ بڑا دلچسپ اور لطیف فرق بیان فرمایا ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو امتیازی شان بھی بخش دی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ تم میرے دوست ہو اور بعد میں پیدا ہونے والے مومنین میرے بھائی ہیں، یعنی تمہارے ساتھ تعلقات کی دو نوعیتیں ہیں ایک تو یہ کہ تم میرے بھائی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ رفیق خاص بھی اور جو بعد میں آنے والے ہیں یعنی تابعین وغیرہ ان کے ساتھ ایک ہی تعلق ہے کہ وہ صرف میرے اسلامی بھائی ہیں۔ " میر سامان" کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے پہلے ہی اللہ کے یہاں جا کر ان کی مغفرت و بخشش اور بلندی اور درجات کے اسباب درست کروں گا۔
-
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اَنَا اَوَّلُ مَنْ یُؤْذَنُ لَہ، بِالسُّجُوْدِ یَوْمَ الْقِیَامَِۃِ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ یُؤْذَنُ لَہ، اَنْ یَرْفَعَ رَأْسَہ، فَاَ نْظُرُ اِلَی مَابَیْنَ یَدَیَّ فَاعَرِفُ اُمَّتِی مِنْ بَیْنِ الْاُ مَمِ وَمَنِ خَلْفِیْ مِثْلَ ذٰلِکَ وَعَنْ یٰمِیْنِی مِثْلَ ذٰلِکَ وَعَنْ شِمَالِی مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ کَیْفَ تَعْرِفُ اُمَّتَکَ مِنْ بَیْنِ الْاُمَمِ فِیْمَا بَیْنَ نُوْحِ اِلٰی اُمَّتِکَ قَالَ ھُمْ غُرً مُحَجَّلُوْنَ مِنْ اَثَرِ الْوُضُوءِ لَیْسَ اَحَدٌ کَذٰلِکَ غَیْرٌ ھُمْ وَاَعْرِفُھُمْ اَنَّھُمْ یَؤْتُوْنَ کُتُبَھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ وَاَعْرِفُھُمْ تَسْعَی بَیْنَ اَیْدِیِھِمْ ذُرِّیَتُھُمْ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ کی اجازت دی جائے گی اور (پھر) ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ سے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی چنانچہ میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہوگی (یعنی مخلوق کا مجمع) اور میں امتوں کے درمیان اپنی امت کو پہچان لوں گا، پھر میں اپنے پیچھے کی طرف اسی طرح اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف (بھی) اس طرح دیکھوں گا (یعنی چاروں طرف اژدہام خلق دیکھوں گا اور میں اپنی امت کو پہچان لوں گا) ایک صحابی نے عرض کیا " یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اپنی امت سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام کی امت تک کی تمام امتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو کیونکر پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میری امت کے لوگ وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ہوں گے اس امت کے علاوہ کوئی دوسری امت اس طرح (امتیازی وصف کے ساتھ) نہیں ہوگی اور میں اپنی امت کو اس طرح بھی پہچان لوں گا کہ (میری امت کے لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، نیز اس وجہ سے شناخت کر لوں گا کہ ان کی (خورد سال) اولاد ان کے آگے دوڑتی ہوگی۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح : محشر میں جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ صمدیت میں حاضر ہوں گے تو شفاعت کے لیے سجدہ میں جائیں گے اور بمقدار ایک ہفتہ سجدہ میں رہیں گے پھر بعد میں بارگاہ الوہیت سے حکم ہوگا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم)! اپنا سر مبارک اٹھائیے اور اے میرے محبوب مانگئے کیا مانگتے ہیں؟ ہم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) درخواست کو شرف قبولیت بخشیں گے اس کے بعد شافع محشر، آقائے نامدار، سرور کائنات، فخر موجوادات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ روحی) اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے لیے اپنی لسان مبارک سے بارگاہ خداوندی میں درخواست پیش فرمائیں گے، حدیث کے ابتدائی حصہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اس حدیث میں میدان حشر میں امت محمدیہ کی کثرت و زیادتی اور ان کے مراتب میں تفاوت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے چنانچہ فانظر الی ما بین یدی (یعنی میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہوگی ایسے ہی عن شمالی مثل ذلک( یعنی اور بائیں طرف اس طرح دیکھوں گا) تک یہی مراد ہے کہ میرے چاروں طرف میری ہی امت پھیلی ہوگی اور پھر ان میں مختلف مراتب و درجات کے لوگ ہیں گے۔ صحابی رضی اللہ عنہ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک ایک بڑی لمبی مدت ہے اور ایک بڑا طویل زمانہ ہے اس دوران میں ایک دو نہیں بہت زیادہ امتیں گزری ہیں، پھر تعداد شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بے انتہاء اللہ کی مخلوق اس زمانہ میں پیدا ہوئی اور مری ہے تو اتنے اژدہام اور اتنی امتیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو کس طرح پہچان لیں گے، اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امتیازی صفت کا ذکر فرمایا جس سے امت محمد یہ کے افراد متصف ہوں گے اور تمام امتوں میں ممتاز ہوں گے۔ اس سلسلہ میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام بطور خاص لینے کی وجہ یہی ہے کہ اوّل تو اس زمانہ کا طول مراد ہے دوسرے چونکہ یہ تمام نبیوں میں بہت زیادہ مشہور ہیں اس لیے ان کا نام لیا۔
-