TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
پاکی کا بیان
پانی کے احکام کا بیان
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَبُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ فِی الْمَۤاءِ الدَّآئِمِ الَّذِیْ لَا ےَجْرِیْ ثُمَّ ےَغْتَسِلُ فِےْہِ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاےَۃِ لِّمُسْلِمٍ قَالَ لَا ےَغْتَسِلُ اَحَدُکُمْ فِیْ الْمَآءِ الدَّائِمِ وَھُوَ جُنُبٌ قَالُوْا کَےْفَ ےَفْعَلُ ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ قَالَ ےَتَنَاوَلُہ، تَنَاوُلًا۔-
" حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم میں سے کوئی آدمی اس ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہنے والا نہ ہو پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی میں غسل کرنے لگے (یعنی کسی دانشمند سے یہ بعید ہے کہ وہ پانی میں پیشاب کر لے پھر اسی پانی سے غسل کرلے)" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی ناپاکی کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے (تاکہ پانی ناپاک نہ ہو جائے) لوگوں نے کہا " ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر کس طرح نہانا چاہئے ؟ انہوں نے فرمایا " اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی (چلو سے) لے کر پانی سے باہر نہانا چاہئے۔" تشریح یہاں جس پانی میں پیشاب کرنے اور پھر اس میں نہانے سے روکا جا رہا ہے اس سے ماء قلیل یعنی تھوڑا پانی مراد ہے کیونکہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی ماء جاری یعنی بہنے والے پانی کا حکم رکھتا ہے جو پیشاب وغیرہ سے ناپاک نہیں ہوتا اور پھر اس میں نہانا بھی جائز ہے۔ بعض علماء کرام نے کہا کہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی میں بھی پیشاب کرنا ممنوع ہے اگرچہ وہ پانی پیشاب وغیرہ سے نجس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی آدمی پیشاب کرے گا تو اس کے دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس میں پیشاب کرنے لگیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عمومی طور پر سب ہی لوگ اس میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہو جائیں گے جس کی وجہ سے پانی رفتہ رفتہ متخیر (تبدیل) ہو جائے گا یعنی جب اس میں زیادتی اور کثرت سے پیشاب کیا جائے گا تو پانی کا رنگ مزہ اور بو تینوں چیزیں بدل جائیں گی اور پانی اصل حیثیت کھو کر ناپاک ہو جائے گا۔ لہٰذا اب اس حدیث میں مذکورہ حکم کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ پہلی شکل یعنی پانی کم ہونے کی صورت میں تو یہ نہی حرمت کے لیے ہے کیونکہ کم پانی میں پیشاب کرنے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔ دوسری شکل یعنی پانی زیادہ ہونے کی صورت میں کراہت کے لیے ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اصطلاح شریعت میں " کم پانی" اور زیادہ پانی کی مقدار اور اس کی تحدید کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے صفحات میں پوری وضاحت کی جائے گی۔ اسے بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث میں پانی کے ساتھ جاری یعنی بہنے والے کی قید کیوں لگائی گئی ہے ؟ اس قید کی وجہ یہ ہے کہ اگر پانی جاری یعنی بہنے والا ہو تو خواہ کم ہو یا زیادہ ہو اس میں نجاست مثلاً پیشاب وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ نیز علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ تمام تفصیلات دن کے لیے ہیں، رات میں جنابت کے خوف کی وجہ سے مطلقاً اس میں قضائے حاجت مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ جنات رات کو وہیں رہتے ہیں جہاں پانی ہوتا ہے چنانچہ اکثر و بیشتر ندی و نالے اور تالاب جوہڑ اور نہر وغیرہ رات کو جنات کا مسکن ہوتی ہیں۔ حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی جنبی پانی میں ہاتھ نکالنے کے لیے ڈالے تو پانی مستعمل یعنی ناقابل استعمال نہیں ہوگا اور اگر وہ پانی میں ہاتھ اس لیے ڈالے تاکہ اپنے ہاتھوں کو ناپاکی دور کرنے کے لیے اس میں دھوئے تو اس شکل میں اپنی مستعمل یعنی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔
-
عَنْ جَابِرٍص قَالَ نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ ےُّبَالَ فِی الْمَآءِ الرَّاکِدِ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔" (صحیح مسلم)
-
عَنِ السَّآئِبِ بْنِ ےَزِےْدَص قَالَ ذَھَبَتْ بِیْ خَالَتِیْ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ ابْنَ اُخْتِیْ وَجِعٌ فَمَسَحَ رَاْسِیْ وَدَعَالِیْ بِالْبَرَکَۃِ ثُمَّ تَوَضَّاَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَّضُوْۤئِہٖ ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَھْرِہٖ فَنَظَرْتُ اِلٰی خَاتِمِ النُّبُوَّۃِ بَےْنَ کَتِفَےْہِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَۃِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت سائب بن یزید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " میری خالہ مجھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (یہ) میرا بھانجا بیمار ہے۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی پی لیا۔ اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑا ہو کر مہر نبوت کو دیکھنے لگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان تھی اور دلہن کے پلنگ کی گھنڈی کی طرح (چمک رہی تھی۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح " وضو کے پانی" سے یا تو یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو فرمانے کے بعد جو پانی برتن میں باقی رہ گیا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے پی لیا یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے تو جو پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء وضو سے گرتا جاتا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حصول برکت و سعات کے خاطر اسے پیتے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت کے منصب سے سرفراز فرما کر جب دنیا میں مبعوث کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی حقانیت و صداقت کی دلیل کے طور پر جہاں اور بہت سی نشانیاں اور معجزے دئیے وہیں ایک بڑی نشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان " مہر نبوت" بھی ثبت فرمائی چنانچہ حضرت سائب اسی مہر نبوت کی مقدار اور اس کی ہیت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ چھپر کھٹ کی گھنڈی کی طرح تھی۔ اس نشانی کو " مہر نبوت" اس لیے کہا جاتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کتابیں نازل کی گئی تھیں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور بعثت کی خبر دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ علامت بتائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس مہر نبوت کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہچانے گئے کہ آپ ہی وہی نبی آخر الزماں ہیں جن کی بعثت کی خبر پہلے کتابوں میں دی گئی ہے چنانچہ یہ " مہر نبوت" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی علامت قرار دی گئی اس کے علاوہ علماء کرام نے اس کی وجہ تسمیہ اور بھی لکھی ہیں مگر یہاں طوالت کی وجہ سے سب کو ذکر نہیں کیا جا رہا ۔ مہر نبوت کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہا اس کے اندرونی حصہ پروَحْدَہ' لَا شَرِیْکَ کے الفاظ مرقوم تھے اور اندرونی حصے پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی تَوَجَّہُ حَیْثَ مَا کُنْتَ فَاِنَّکَ مَنّصُورٌ یعنی جدھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوں گے ہماری مدد آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ ہوگی " مہر نبوت" کے ظاہر ہونے کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ بعض حضرات نے تو یہ کہا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک شق کر کے سیا گیا تو اس کے بعد یہ نمودار ہوئی بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے فوراً بعد یہ مہر ظاہر ہوئی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہر سمیت ہی پیدا ہوئے تھے۔ وا اللہ اعلم
-
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَآءِ یَکُوْنُ فِی الْفَلاۃِ مِنَ الْاَرْضِ وَمَا یَنُوْبُہ، مِنَ الدَّوَابِ وَ السِّبَاعِ فَقَالَ اِذَا کَانَ الْمَآءُ قُلَّتَیْنِ لَمْ یَحْمِلِ الخَبَثَ۔ (رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَ التِّرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَفِی اُخْرٰے لِاَبِی دَاؤدَ فَاِنَّہُ لَا یَنْجَسُ)-
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کا حکم پوچھا گیا جو جنگل میں زمین پر جمع ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر چو پائے درندے اس پر آتے جاتے رہتے ہیں (یعنی جانور وغیرہ اس پانی پر آکر اسے پیتے ہیں اور اس میں پیشاب وغیرہ بھی کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر پانی دو قلوں کے برابر ہو تو وہ ناپاکی کو قبول نہیں کرتا (یعنی نجاست وغیرہ پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا)۔" (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، داری، سنن ابن ماجہ اور سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ " وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ " ) تشریح قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں جس میں اڑھائی مشک پانی آتا ہے " قلتین" یعنی دو مٹکوں میں پانچ مشک پانی سماتا ہے دو مشکوں کے پانی کا وزن علماء کرام نے سوا چھ من لکھا ہے اس حدیث کے پیش نظر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی دو مٹکوں کے برابر ہو اور اس میں نجاست و غلاظت گر جائے تو جب تک پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام کا بہت زیادہ اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ سفر السعادہ کے مصنف جو ایک جلیل القدر محدث ہیں لکھتے ہیں کہ " علماء کرام کی ایک جماعت کا قول تو یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے مگر ایک دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔" علی بن مدینی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو جلیل القدر علماء اور ائمہ حدیث کے امام اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاد ہیں لکھتا ہے کہ " یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہے۔" نیز علماء کرام لکھتے ہیں کہ " یہ حدیث اجماع صحابہ کے برخلاف ہے کیونکہ ایک مرتبہ چاہ زمزم میں ایک حبشی گر پڑا تو حضرت بن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ حکم دیا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے اور یہ واقعہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ہوا اور کسی نے بھی اس حکم کی مخالفت نہیں کی۔" پھر اس کے علاوہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ " اس مسئلہ میں پانی کی حد اور مقدار متعین کرنے کے سلسلے میں نہ تو حنفیہ کو اور نہ ہی شوافع کو ایسی کوئی صحیح حدیث ہاتھ لگی ہے جس سے معلوم ہو کہ نجاست پڑنے سے کتنی مقدار کا پانی ناپاک ہو جاتا ہے اور کتنی مقدار کا ناپاک نہیں ہوتا۔" امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ جو فن حدیث کے ایک جلیل القدر امام اور حنفی مسلک کے تھے فرماتے ہیں کہ " حدیث قلتین (یعنی یہ حدیث) اگرچہ صحیح ہے لیکن اس پر ہمارے عمل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں پانی کی مقدار دو قلے بتائی گئی ہے اور قلے کے کئی معنی آتے ہیں، چنانچہ قلہ مٹکے کو بھی کہتے ہیں اور مشک کو بھی، نیز پہاڑ کی چوٹی بھی قلہ کہلاتی ہے، لہٰذا جب یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں حدیث میں قلہ سے کیا مراد ہے تو اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے؟ بہر حال اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جو علماء صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہیں ان کا مسلک تو یہ ہے کہ " نجاست وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی کم ہو یا زیادہ ہو، جاری ہو یا ٹھہرا ہوا ہو، اور خواہ نجاست پڑنے سے پانی کا رنگ مزہ اور بو متغیرہ ہو یا نہ ہو" یہ حضرات دلیل میں اس کے بعد آنے والی حدیث (نمبر٥) کے یہ الفاظ پیش کرتے ہیں کہ الحدیث ( اِنَّ لْمَآءَ طُھُورٌّ لَا یُنَجِّسُہٌ شَیْی ءٌ (یعنی پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی) حالانکہ مطلقًا پانی نہیں ہے بلکہ زیادہ پانی ہے۔ ان کے علاوہ تمام علماء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی زیادہ ہوگا تو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوگا اور اگر پانی کم ہے تو نجاست پڑنے سے ناپاک ہو جائے گا۔ اب اس کے بعد چاروں اماموں کے ہاں " زیادہ" اور " کم" کی مقدار میں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نجاست پڑنے سے جس پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو وہ ماء کثیر (زیادہ پانی ) کہلائے گا اور جو پانی متغیر ہو جائے وہ ماء قلیل (کم پانی) کے حکم میں ہوگا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک اس حدیث کے پیش نظر یہ ہے جو پانی دو قلوں کے برابر ہوگا اسے ماءِ کیثر کہیں گے اور جو پانی دو قلوں کے برابر نہ ہوگا وہ " ماء قلیل" کہلائے گا۔ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ماننے والے یہ فرماتے ہیں کہ۔" اگر پانی اتنی مقدار میں ہو کہ اس کے ایک کنارے کو ہلانے سے دوسرا کنارہ نہ ہلے تو وہ " ماء کثیر ہے اور اگر دوسرا کنارہ ہلنے لگے تو وہ " ماء قلیل" ہے۔" بعد کے بعض حنفی علماء نے " دہ در دہ" کو ماء کیثر کہا ہے یعنی اتنا بڑا حوص جو دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا ہو اور اتنا گہرا ہو کہ اگر چلو سے پانی اٹھائیں تو زمین نہ کھلے ایسے حوض کو دہ در دہ کہتے ہیں۔ چنانچہ ایسے حوض کے پانی میں جو " دہ در دہ" ہو ایسی نجاست پڑجائے جو پڑ جانے کے بعد دکھلائی نہ دیتی ہو جیسے پیشاب، خون ، شراب وغیرہ تو چاروں طرف وضو کرنا درست ہے جدھر سے چاہے وضو کر سکتا ہے، البتہ اگر اتنے بڑے حوض میں اتنی جناست پڑ جائے کہ پانی کا رنگ یا مزہ بدل جائے یا بد بو آنے لگے تو پانی ناپاک ہو جائے گا اور اگر حوض کی شکل یہ ہو کہ لمبا تو وہ بیس ہاتھ اور چوڑا پانچ ہاتھ ہو یا ایسے ہی لمبا پچیس ہاتھ ہو اور چوڑا چار ہاتھ ہو تو یہ دہ دردہ کی مثل ہی کہلائے گا۔
-
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدِنِ الْنُورْرِیۤ قَالَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَنَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَا عَۃَ وَھِیَ بِئْرٌ یُلْقَی فِیْھَا الْحِیَضُ وَلُحُوْمُ الْکِلَابِ وَالنَّتْنُ فَقَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الْمَاءَ طُّھُوْرٌ لاَ یُنَجِّسُہ، شَیْی ئٌ۔(رَاوَہُ احمد بن حنبل و الترمذی و ابوداؤد والنسائی )-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا ہم بضاعہ کے کنویں (کے پانی) سے وضو کر سکتے ہیں؟ (جب کہ) اس کنویں میں حیض کے (خون میں بھرے ہوئے) کپڑے کتوں کے گوشت اور گندگی ڈالی جاتی ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" (اس کنویں کا) پانی پاک ہے (جب تک کہ اس کے رنگ، مزہ اور بو میں فرق نہ آئے ) اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ " (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح بیر بضا عہ مدینہ کے ایک کنویں کا نام ہے وہ ایک ایسی جگہ واقع تھا جہاں نالے کی رو آتی تھی اس نالے میں جو گندگی اور غلاظت ہوتی تھی وہ اس کنویں میں پڑتی تھی مگر کہنے والے نے کچھ اس انداز سے بیان کیا جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ لوگ خود اس میں نجاست ڈالتے تھے، حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اس قسم کی گندگی اور غلط چیزوں کا رتکاب تو عام مسلمان بھی نہیں کر سکتا چہ جائے کہ وہ ایسی غیر شرعی غیر اخلاقی چیز کا ارتکاب کرتے جو افضل المو منین تھے۔ بہر حال! اس کنویں میں بہت زیادہ پانی تھا ور چشمہ دار تھا اس لیے جو گندگی اس میں گرتی تھی بہہ کر نکل جاتی تھی بلکہ علماء کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس وقت کنواں جاری تھا اور نہر جاری کی طرح ایک باغ میں بہتا بھی تھا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کی اس صفت کی وجہ سے اس کے پانی کے بارے میں وہی حکم فرمایا جو ماء کثیر یا جاری پانی کا ہوتا ہے۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ نجاست پڑنے سے کوئی پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ تھوڑا پانی ہو یا زیادہ پانی بلکہ یہ حکم ماء کثیر یعنی زیادہ پانی کا ہے ماء قلیل یعنی کم پانی کا یہ حکم نہیں ہے۔ حنفیہ کے بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ چشمہ دار کنواں بھی " جاری پانی" کا حکم رکھتا ہے یعنی جو حکم بہنے والے پانی کا ہوتا ہے وہی چشمہ دار کنویں کا ہوتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا نَرْ کَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَآءِ فَاِنْ تَوضَّاْنَا بِہٖ عَطِشْنَا اَفَنَتَوَضَّأُ بِمَآءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاوُہ، وَالْحِلُّ مَیْتَتُہ،۔( رواہ مالک و الجامع ترمذی و ابوداؤد و نسائی و ابن ماجۃ و الدارمی)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہم (کھارے) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا ) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لیے اگر ہم اس پانی سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں (یا تیمم کر لیا کریں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔" (مالک ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح " میتہ' اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مر جائے چنانچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے ۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مر جائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔ دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علماء کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ زَیْدٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہ، لَیْلَۃَ الْجِنِّ مَا فِیْ اِدَاوَتِکَ قَالَ قُلْتُ نَبِیْذٌ قَالَ تَمْرَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّمَآءٌ طُھُوْرٌہ رَوَاہُ اَبُوْدٰؤدَ وَزَادَ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ فَتَوَضَّأَ مِنْہُ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ اَبُوْزَیْدٍ مَجْھُوْلٌ وَصَحَّ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِا ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ لَمْ اَکُنْ لَیْلَۃً الْجِنِّ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (رواہ مسلم)-
" اور حضرت ابوزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ الجن (یعنی جن کی رات) میں ان سے پوچھا کہ تمہارے لوٹے میں کیا ہے! عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ نبیذ (یعنی کھجوروں کا شربت) ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھجوریں پاک ہیں اور پانی پاک کرنے والا ہے (ابوداؤد ) امام احمد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ " پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا " نیز امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ " ابوزید کا پتہ نہیں کہ یہ کون ہین ہاں حضرت علقمہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ البتہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح طور پر یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ " لیلۃ الجن کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہیں تھا۔" (صحیح مسلم) تشریح لیلۃ الجن اس رات کو فرماتے ہیں جس میں جنات کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ان کے سامنے قرآن کریم پڑھا تھا جس کے بعد وہ جماعت اپنی قوم میں گئی اور اسلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات سے انھیں آگاہ کیا اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورت جن میں بھی کیا گیا ہے۔ " نبیذ تمر" کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھوارے پانی میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور انہوں چند روز تک اسی طرح پانی میں رہنے دیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں کا شربت سا بن جاتا ہے اور اس میں ایک قسم کی تیزی بھی آجاتی ہے، یہ شربت جب تک تیز و تند نہیں ہوتا حلال رہتا ہے چنانچہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ نیند تمر بنایا جاتا تھا۔ نبیذ تمر سے وضو کرنا مختلف فیہ ہے، چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر وضو کے لیے خاص پانی نہ ملے تو نبیذ تمر سے وضو کیا جا سکتا ہے اس کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس مسلک سے اختلاف کرتے ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے یہ حدیث چونکہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لیے شوافع اس حدیث کو ضعیف ثابت کرتے ہیں چنانچہ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ حدیث کے راوی ابوزید غیر معروف ہیں اس لیے ان کی روایت کردہ حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ دوسری چیز یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیلۃ الجن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہیں تھے۔ اس کی شہادت میں وہ حضرت علقمہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک روایت پیش کر رہے ہیں جو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس رات میں ہونا ہی ثابت نہیں ہے تو ابوزید کی یہ روایت یقینا صحیح نہیں ہوسکتی۔ لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک برحق ہے کیونکہ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ کہنا ابوزید مجہول راوی ہیں حدیث کی حیثیت پر کچھ اثر انداز نہیں ہوتا اس لیے کہ حدیث کے راویوں کے غیر معروف ہونے کا دعویٰ دوسرے طریقوں سے غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہیں تھے، بالکل غلط ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی دیگر روایتوں سے بھی تحقیق کے ساتھ ثابت ہے چنانچہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شب میں جنات کو سلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات بتانے میں مشغول ہوئے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک جگہ بٹھا دیا اور ان کے اردگرد لکیر کھینچ کر ایک دائرہ بنایا اور انھیں ہدایت کی کہ وہ اس دائرے سے باہر نہ نکلیں۔ حضرت علقمہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اس کا مطلب حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی کا سرے سے انکار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنات سے ہم کلام تھے اس وقت حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہ تھے، یا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت جنات کے پاس تشریف لے جا رہے تھے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں تھے بلکہ آخر شب میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ وا اللہ اعلم
-
وَعَنْ کَبَشْۃَ بِنْتِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ وَ کَانَتْ تَحْتَ ابْنِ اَبِیْ قَتَادَۃَ اَنَّ اَبَا قَتَادَۃَ دَخَلَ عَلَیْھَا فَسَکَبَتْ لَہ، وَضُوْئًا فَجَائَتْ ھِرَّۃٌ تَشْرَبُ مِنْہُ فَاَصْغٰی لَھَا الْاِ نَآءَ حَتّٰی شَرِبَتْ قَالَتْ کَبْشَۃُ فَرَاٰنِیْ اَنْظُرُ اِلَیْہِ فَقَالَ اَتَعْجَبِیْنَ یَا ابْنَۃَ اَخِیْ قَالَتْ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمقَالَ اِنَّھَا لَیْسَتْ بِنَجْسٍ اِنَّھَا مِنَّ الطَّوَّافِیْنِ عَلَیْکُمْ اَوِ الطَّوَّافَاتِ۔ (رواہ مالک و مسند احمد بن حنبل والترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجۃ و الدارمی)-
" حضرت کبشہ بنت کعب بن مالک سے جو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کی بیوی تھیں مروی ہے کہ " (ایک روز ان کے سسر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس آئے (کبشہ کہتی ہیں کہ) میں نے ان کے وضو کے لیے (ایک برتن میں) پانی رکھ دیا، ایک بلی آکر اس میں سے پانی پینے لگی، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برتن کو اس کی طرف جھکا دیا (تاکہ وہ آسانی سے پانی پی لے ) چنانچہ بلی نے پانی پی لیا " کبشہ کہتی ہیں کہ جب حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھا کہ میں تعجب سے ان کی طرف دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا " میری بھتیجی " کیا تمہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے ؟ میں نے کہا " جی ہاں۔" حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بلیاں ناپاک نہیں ہیں، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہیں" یا یہ فرمایا " آنے جانے والیوں میں سے ہیں۔" (موطا امام مالک، مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبشہ کو بھیتجی کہا ہے حالانکہ وہ ان کی بھیتجی نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں عام طور پر مرد مخاطب کو اگر وہ چھوٹا ہوتا ہے بھتیجا یا چچا کا بیٹا اور عورت مخاطب کو بھتیجی کہہ کر پکارتے ہیں چاہے حقیقت میں ان کا یہ رشتہ نہ ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، اس لیے وہ اسلامی اخوت کے رشتے کے پیش نظر اس کی اولاد کو بھیتجا یا بھیتجی کہتے ہیں۔ روایت میں " طوافین" اور طوافات" دونوں لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بلی اگر نر ہے تو اس کی مناسبت سے " طوافین" کا لفظ ہوگا اور اگر بلی مادہ ہے تو اس کی مناسبت سے " طوافات" کا لفظ ہوگا۔ یہ دونوں لفظ یہاں " خادم" کے معنی میں استعمال فرمائے ہیں اس کا مطب یہ ہے کہ " بلیاں تمہاری خادم ہیں" ان کو خادم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی انسانوں کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتی ہیں اور ان کے آرام و راحت کی بعض چیزوں میں بڑی معاون ہوتی ہیں مثلاً نقصان دہ جانوروں جیسے چوہے وغیرہ کو یہ مارتی ہیں۔ یا ان کو خادم اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ جیسے خادموں کی خبر گیری میں ثواب ملتا ہے اسی طرح بلیوں کی خبر گیری میں بھی ثواب ہوتا ہے اور جس طرح گھروں میں خادم پھرتے رہتے ہیں اس طرح بلیاں بھی گھروں میں پھرتی رہتی ہیں۔ بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلیاں تمہارے پاس ہر وقت خادموں کی طرح رہتی ہیں اور گھر کے ہر حصے میں پھرا کرتی ہیں اگر ان کے استعمال کیے کو ناپاک قرار دے دیا جائے تو تم سب بڑی دشواریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ اس لیے یہ حکم کیا جاتا ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ پاک ہے۔ گویا یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ بلی کا استعمال کردہ پاک ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ ناپاک نہیں ہے بلکہ پاک ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلی کا استعمال کردہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی نہ مل سکے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ اس کی موجودگی میں تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو اور اس کے باوجود اسی جھوٹے پانی سے وضو کیا جائے گا تو وضو ہو جائے گا لیکن مکروہ ہوگا۔ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس شکل میں اسے مکروہ بھی اس لیے فرماتے ہیں کہ ایک دوسری حدیث میں بلی کو درندہ کہا گیا ہے اور درندہ کے بارے میں بتایا گیا کہ ناپاک ہوتا ہے لیکن یہ حدیث چونکہ اس کے بالکل برعکس ہے اس لیے ان دونوں حدیثوں پر نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا حکم نافذ کیا جانا چاہئے جو دونوں حدیثوں کے مفہوم کے مطابق ہو لہٰذا اب یہی کیا جائے گا کہ جس حدیث میں بلی کو درندہ کہہ کر اس کی نجاست کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے مگر اس حدیث نے بلی کی نجاست کے حکم کو کراہت میں بدل دیا ہے لہٰذا اس کے استعمال کیے ہوئے کو ناپاک تو نہیں کہیں گے البتہ مکروہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
-
وَعَنْ دَاؤدَ بْنَ صَالِحِ بْنِ دِیْنَارٍعَنْ اُمِّہٖ اَنَّ مَوْلَا تَھَا اَرْسَلَتْھَا بِھَرِ یْسَۃٍ اِلٰی عَائِشَۃَ قَالَتْ فَوَجَدْ تُّھَا تُصَلِّیْ فَاَشَارَتْ اِلَیَّ اَنْ ضَعِیْھَا فَجَآئَتْ ھِرَّۃٌ فَاَکَلَتْ مِنْھَا فَلَمَّا انْصَرَفَتْ عَائِشَۃُ مِنْ صَلَاتِھَا اَکَلَتْ مِنْ حَیْثُ اَکَلَتِ الْھِرَّۃُ فَقَالَتْ اِنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّھَا لَیْسَتْ بِنَجَسٍ اِنَّھَا مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ وَاِنِّیْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمیَتَوَضَّأُ بِفَضْلِھَا۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت داؤد بن صالح بن دینار اپنی والدہ محترمہ سے نقل کرتے ہیں کہ " (ایک روز) انہیں ان کی آزاد کرنے والی مالکہ نے ہریسہ (یعنی حریرہ) دیکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت اقدس میں بھیجا ان کی والدہ فرماتی ہیں کہ " میں نے (وہاں پہنچ کر) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نماز پڑھتے ہوئے پایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اشارے سے اسے رکھ دینے کے لیے مجھے کہا (چنانچہ میں نے ہریسہ کا برتن رکھ دیا اتنے میں) ایک بلی آکر اس میں سے کھانے لگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز سے فارغ ہوئیں تو حریرہ کو بلی نے جس طرف سے کھایا تھا اسی طرف سے انہوں نے بھی کھالیا پھر فرمایا کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " بلی ناپاک نہیں ہے اور وہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے " اور میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلی کے استعمال کردہ (پانی) سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح داؤد کی والدہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حریرہ لے کر پہنچیں تو وہ نماز میں مشغول تھیں اس لیے انہوں نے اپنے ہاتھ یا سر وغیرہ سے انہیں اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہ برتن رکھ دو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس طرح کے معمولی اشارے جائز ہیں کیونکہ یہ عمل کیثر نہیں ہے چنانچہ نماز کو فاسد اور ختم کر دینے والی چیز یا تو گفتگو ہے یا عمل کثیر ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے۔ لہٰذا جن علماء کا مسلک یہ ہے کہ بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو کرنا مکروہ تنزیہی ہے مثلا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تو وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل آسانی و رخصت پر عمل کرنے کے مترادف ہے اور بیان جواز کے لیے ہے۔ البتہ جن علماء کے نزدیک بلی کا استعمال کردہ پاک ہے ان کو اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے تو ان ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے علماء نے لکھا ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلیوں کو پالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
-
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَتَوَ ضَّاُ بِمَا اَفْضَلَتِ الْحُمُرُ قَالَ نَعَمْ وَبِمَا اَفْضَلَتِ السِّبَاعُ کُلُّھَا۔ (رواہ فی شرح السنۃ)-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم اس پانی سے وضو کر سکتے ہیں جس کو گدھوں نے استعمال کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ہاں! (اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے) اور اس پانی سے بھی (وضو کرنا جائز ہے) جس کو درندوں نے استعمال کیا ہو۔" (شرح السنۃ) تشریح اس مسئلے میں کہ گدھوں یا خچروں کا استعمال کردہ پانی پاک ہے یا نہیں؟ کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ اس مسئلے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں تعارض ہے چنانچہ بعض احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا استعمال کردہ حرام ہے اور بعض احادیث سے ان کی اباحت کا پتہ چلتا ہے، جیسا کہ مرقات میں دونوں قسم کی احادیث جمع کی گئی ہیں لہٰذا ان کے ظاہری تعارض کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور پھر احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اس مسئلے کے بارے میں اختلاف منقول ہے چنانچہ حضرت ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گدھوں اور خچروں کے مستعمل کو ناپاک کہتے تھے مگر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے پاک ہونے کے قائل تھے۔ اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ درندوں کا مستعمل پاک ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک درندوں کا استعمال کیا ہوا ناپاک ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب کوئی درندہ پانی وغیرہ کو استعمال کرے گا تو اس میں اس کا لعاب یقینًا پڑے گا اور لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر کہ درندوں کا گوشت ناپاک ہوتا ہے اس لیے اس کے استعمال کیے ہوئے کو بھی ناپاک کہا جائے گا۔ اب جہاں تک ان حدیثوں کا تعلق ہے جن سے درندوں کے مستعمل کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے، اس کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کی صحت ہی میں کلام کیا جاتا ہے کہ آیا یہ احادیث صحیح بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ان احادیث سے درندوں کے مستعمل پانی کے پاک ہونے کا ثبوت ملتا ہے اس سے وہ پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع ہوتا ہے، چنانچہ اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی جو حضرت یحییٰ اور حضرت ابوسعید رحمہما اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہیں، ہوتی ہے جن میں وضاحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے کہ اگر درندے نے ایسے پانی کو استعمال کیا جو بہت زیادہ مثلاً کسی بڑے تالاب و غیرہ میں پانی ہے تو پاک ہوگا اگر پانی تھوڑا ہوگا تو وہ درندوں کے استعمال کر دینے سے ناپاک ہو جائے گا۔ پھر اس بات کو ذہن نشین کر لیجئے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان احادیث میں درندے اور پانی علی العموم مراد ہیں کہ پانی خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ وہ درندوں کے استعمال کرنے سے ناپاک نہیں ہوتا تو کیا اس شکل میں یہ لازم نہیں آتا کہ کتوں کے جوٹھے کو بھی پاک کہا جائے حالانکہ کوئی بھی کتے کہ جوٹھے کو پاک نہیں کہتا " لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جن احادیث سے درندوں کے جوٹھے پانی کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے اس سے وہی پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع رہتا ہے اور جو بہت زیادہ ہوتا ہے۔" اس موقع پر برسبیل تذکرہ ایک مسئلہ بھی سن لیجئے۔ یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ کتے کا لعاب وغیرہ بھی ناپاک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کتوں کا لعاب وغیرہ کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگ جائے تو اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس سلسلے میں اتنی بات یاد رکھئے کہ اگر کسی کتے نے کسی آدمی کے بدن کے کسی حصے کو منہ سے پکڑ لیا یا کسی کپڑے کو منہ میں دبا لیا تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ کتے نے اگر غصے کی حالت میں پکڑا یا دبا ہے تو وہ ناپاک نہیں ہوگا۔ اور اگر غصے کی حالت میں نہیں بلکہ بطور کھیل کود کے اس نے پکڑا اور دبایا ہے تو وہ ناپاک ہو جائے گا اس لیے بدن کے اس حصے کو اور کپڑے کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوگا۔ اس فرق کی وجہ علماء یہ لکھتے ہیں کہ جب کتا کسی چیز کو غصے کی حالت میں پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے پکڑتا ہے اور اس کے دانت میں کوئی رطوبت نہیں ہوتی اس لیے اس چیز پر ناپاکی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور جب کسی چیز کو کھیل کے طریقہ پر پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے نہیں پکڑتا بلکہ ہونٹوں سے پکڑتا ہے اور ہونٹ چونکہ لعاب وغیرہ سے تر ہوتے ہیں اس لیے اس کی ناپاکی اس چیز کو بھی ناپاک کر دیتی ہے۔
-
وَعَنْ اُمِّ ھَانِئٍ قَالَتْ اِغْتَسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ھُوَ وَ مَیْمُوْنَۃُ فِیْ قَصْعَۃٍ فِیْھَا اَثَرُ الْعَجِیْنِ۔(رواہ النسائی و ابن ماجۃ)-
" حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( آپ کا نام فاختہ ہے مگر ام ہانی کنیت سے مشہور ہیں ابوطالب کی صاحبزادی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کی حقیقی بہن ہیں۔ ) راوی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک طشت میں کہ جس میں گندھے ہوئے آٹے کا کچھ حصہ لگا ہوا تھا غسل فرمایا۔" (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح چونکہ حضرات شوافع کے نزدیک پانی میں تغیر آجانے سے خواہ تغیر کسی پاک و جائز چیز سے آئے یا ناپاک و ناجائز چیز سے وہ پانی وضو و غسل کے استعمال کے قابل نہیں رہتا اس لیے وہ حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ طشت میں اتنا آٹا نہیں لگا تھا جس سے پانی متغیر ہو جاتا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس میں غسل کیا۔ مگر حنفیہ کے ہاں چونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر پانی کسی پاک و جائز چیز سے متغیر ہو بشرطیکہ پانی گاڑھا ہو جائے تو اس سے وضو اور غسل درست ہے اس لیے انہیں اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
-
وَعَنْ یَحْیَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ قَالَ اِنَّ عُمَرَ خَرَجَ فِیْ رَکْبٍ فِیْھِمْ عَمْرُو ابْنُ الْعَاصِ حَتّٰی وَرَدُوْا حَوْضًا فَقَالَ عَمْرُوْ یَا صَاحِبَ الْحَوْضِ ھَلْ تَرِدْ حَوْضَک السِّبَاعُ فَقَالَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ یَا صَاحِبَ الْحَوْضِ لَا تُخْبِرْنَا فَاِنَّا نَرِدُ عَلَی السِّبَاعِ وَ تَرِدُ عَلَیْنَا رَوَاہُ مَالِکٌ وَّ زَادَ رَزِیْنٌ قَالَ زَادَ بَعْضُ الرُّوَاۃِ فِی قَوْلِ عُمَرَوَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ لَھَا مَا اَخَذَتْ فِیْ بُطُوْنِھَا وَمَا بَقِیَ فَھُوَلَنَا طُھُوْرٌ وَ شَرَابٌ۔-
" حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک قافلہ کے ہمراہ کہ جس میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے چلے جب (اہل قافلہ جنگل میں) ایک تالاب پر پہنچے تو حضرت عمرو بن عاص رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا کہ اے تالاب کے مالک کیا تمہارے اس تالاب پر (پانی پینے کے لیے) درندے بھی آتے ہیں؟ (یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " اے تالاب کے مالک یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہم درندوں پر آتے ہیں اور درندے ہم پر آتے ہیں یعنی کبھی تو ہم پانی پر آتے ہیں اور کبھی درندے پانی پر آتے ہیں اور چونکہ تالاب میں پانی زیادہ ہے اس لیے درندوں کے پینے سے ناپاک نہیں ہوتا (مالک) اور رزین نے کہا ہے کہ " بعض راویوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ) " میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ " درندے جو اپنے پیٹ میں لے جائیں وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے پینے کے قابل اور پاک کرنے والا ہے۔"
-
وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سُئِلَ عَنِ الْحِیَاضِ الَّتِیْ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ تَرِ دُھَا السِّبَاعُ وَالْکِلَابُ وَالْحُمُرُ عَنِ الطُّھْرِ مِنْھَا فَقَالَ لَھَا مَا حَمَلَتْ فِیْ بُطُوْنِھَا وَلَنَا مَا غَبَرَ طَھُوْرٌ۔ (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان تالابوں کے بارے میں پوچھا گیا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں اور ان پر (پانی پینے کے لیے) درندے، کتے اور گدھے آتے رہتے ہیں کہ آیا اس سے کوئی چیز پاک کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ان کے پیٹوں میں آجائے وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے لیے پاک کرنے والا ہے۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح ان دونوں حدیثوں میں درندوں کے استعمال کردہ پانی کے پاک ہونے کا جو حکم بیان کیا جا رہا ہے وہ مطلقا پانی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ حکم اس پانی کے بارے میں ہے جو برے بڑے تالابوں اور حوضوں میں جمع رہتا ہے۔
-
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ لَا تَغْتَسِلُوْا بِالْمَآءِ الْمُشَمَّسِ فَاِنَّہُ یُوْرِثُ الْبَرَصَ۔ (رواہ الدارقطنی)-
" اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ یہ برص( یعنی سفیدی کی بیماری ) کا سبب ہوتا ہے۔" (دارقطنی) تشریح " دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی " کا مطلب بعض علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ اس پانی سے غسل نہ کرنا چاہئے جو قصدا دھوپ میں رکھ کر گرم کیا گیا ہوا لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے یعنی خواہ پانی کو دھوپ میں قصدا رکھ کر گرم کیا گیا ہو یا پانی کسی جگہ پہلے سے رکھا ہوا ہو اور دھوپ کے آجانے سے گرم ہو گیا ہو۔ حضرت میرک شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث (یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول) ضعیف ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث اس سلسلے میں منقول نہیں ہے۔ مگر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کو دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے جس کے راوی ثقہ اور معتمد ہیں لہٰذا اس کی صحت پر کوئی کلام صحیح نہیں ہوگا۔ جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کی مراد کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عمر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے پانی میں غسل مستقلاً نہ کیا جائے اور نہ اس پانی سے غسل کرنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ برص جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے۔ ویسے مسئلہ کی بات یہ ہے کہ دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ حضرت امام اعظم، امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں حضرات کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک میں کچھ اختلاف ہے لیکن ان کا صحیح قول یہ ہے کہ اس پانی سے غسل کرنا مکروہ ہے البتہ ان کے علماء متاخرین نے بھی تینوں ائمہ کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہی مسلک اختیار کیا ہے کہ اس میں کراہت نہیں ہے۔
-